ڈاکٹرناہید بانو
ماہی گیری اور ماہی پروری ابتداء کائنات سے ہی کسی نہ کسی صورت میں انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتی آئی ہے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان نئی سے نئی تکنیک اور ایجادات کرتا گیا۔ سمندر زمین کو زندگی فراہم کرتے ہیں اگر بات کی جائے پانی کی تو یہی پانی نہ صرف پانی کے اندر جانداروں کو زندگی فراہم کرتا ہے بلکہ زمین پر رہنے والے جانداروں کی زندگی بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ زمین پر بڑا حصہ (تین چوتھائی) پانی کا ہے اور کرہ ارض کا 97 فیصد پانی سمندر کی شکل میں موجود ہے جو جانداروں کو 99 فیصد رہائش کی جگہ فراہم کرتا ہے۔ ہمارے کرہ ارض کے قدرتی وسائل کا تحفظ ہی مستقبل کا تحفظ ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں ساحلی پانی آلودگی اور سمندر کی تیزابیت میں اضافے سے مسلسل خراب ہو رہا ہے۔ جو ایکوسسٹم اور بائیو ڈائیورسٹی کی تباہی کا باعث ہیں۔ یہ چھوٹے پیمانے پر ماہی گیری اور ماہی پروری پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
سمندر کا تحفظ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ آبی حیات انسانی صحت اور ہمارے سیارے کے لیے بہت اہم ہے۔ آبی تحفظ کے علاقوں کے درست انتظامات، قواعد و ضوابط، مچھلی کے بے دریغ شکار، آبی آلودگی اور پانی کی تیزابیت کو کم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب سمندر تمام مچھیروں کو خوش واپس لوٹاتے تھے پھر کیا ہوا کہ سمندر نے جال خالی واپس لوٹانا شروع کر دئیے۔ یہ شکایت کیا واقعی سمندر سے کی جائے یا انسان کو خود دیکھنا ہوگا کہ اس نے سمندر کے ساتھ کیا کیا۔ جی ہاں یہ انسان ہی ہے جس نے ترقی کی منازل طے کیں، نئی سے نئی ٹیکنالوجی کو ہر شعبے میں استعمال کیا مگر قدرتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کبھی یہ نہ سوچا کہ دنیا میں صرف انسان ہی نہیں اور بھی بہت سی مخلوق ہے جس سے خود انسان بھی فوائد حاصل کرتا ہے۔ خواہ وہ خوراک کی صورت ہو، لباس یا رہائش کی شکل میں۔ انہی میں سمندری حیات بھی شامل ہیں۔ سمندر یا دوسرے قدرتی پانی سے انسان اپنی خوراک کے لیے مچھلی کا شکار کرتا آیا ہے۔ مچھلی کے شکار کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے آجانے سے شکار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ یہی نہیں شکار کے لیے استعمال ہونے والے جال کے سائز کے بارے میں نہ صرف آگاہی دی گئی بلکہ قوانین بھی بنائے گئے جن کے تحت شکار پر ایک مخصوص سیزن میں پابندی بھی لگائی گئی مگر دریاؤں اور سمندر سے مچھلی کے چوری چھپے شکار میں کافی حد تک کامیابی نظر نہیں آتی اور اس کا ثبوت موجودہ کچھ سالوں سے پکڑی جانے والی مچھلی کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
دنیا میں آبی حیات کی تعداد کی قدرتی آبی ذخائر میں بہت زیادہ کمی سے یہ خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے کہ اگر اس کمی اور بے دریغ شکار پر فوری توجہ نہ دی گئی توہم سمندر سے خوراک حاصل کرنے والے انسان کی آخری پیڑھی ہوگی۔ کچھ سالوں سے مچھلی کی مانگ میں پوری دنیا میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مچھلی کا استعمال فی آدمی تقریباً 40 سے 45 فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ مچھلی کی تعداد (سٹاک) میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1950ء میں جس تعداد سے مچھلی انسانی خوراک میں استعمال ہوتی تھی اب اس میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ تقریباً 85 سے 90 فیصد تک دنیا میں مچھلی کا زیادہ استحصال کیا گیا۔
ایک سروے کے مطابق سمندر سے پکڑے جانے والی کوڈ میں بہت کم اس عمر کی تھیں کہ جو اپنی نسل کو آگے بڑھا سکیں یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ بڑی مچھلی کا بندی کے سیزن میں بھی شکار جاری رہا۔ اس کے علاوہ سمندر کی تہہ سے ٹرالنگ کے ذریعے مچھلی پکڑے جانے سے سمندر صحرا کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اگر افریقہ کو دیکھا جائے تو پچھلے 40 سالوں میں مچھلی کے شکار میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2050ء تک مچھلی کے زخائر میں 40 فیصد تک کمی واقع ہوگی۔ مگر سب سے زیادہ متاثر ایشیاء اور افریقہ کے 400 ملین افراد ہوں گے جن کا روزگار اور خوراک مچھلی کے شکار پر منحصر ہے ان میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف چھوٹے سائز کی مچھلی کو تحفظ فراہم کیا جائے بلکہ ساتھ ہی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی پر بھی توجہ دی جائے تاکہ آئندہ انسانی نسلیں عمدہ پروٹین والی خوراک سے محروم نہ ہو جائیں۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭