تازہ تر ین

چینی سائنسدانوں نے مختصر اور کم خرچ ایم آر آئی مشین ایجاد کرلی

چینی سائنسدانوں نے دماغ کے اندرونی حصوں کا جائزہ لینے کےلیے ایک ایسی کم خرچ، مختصر اور ’’پہیوں والی‘‘ ایم آر آئی مشین ایجاد کرلی ہے جسے بہ آسانی ایک سے دوسری جگہ لے جایا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ’’میگنیٹک ریزونینس امیجنگ‘‘ (ایم آر آئی) مشینوں سے جسم کے اُن اندرونی حصوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے جنہیں دیکھنا اور ان کا عکس حاصل کرنا الٹرا ساؤنڈ، ایکسرے اور سی ٹی اسکین وغیرہ جیسے طریقوں سے بھی ممکن نہیں ہوتا۔
ایم آر آئی مشین میں طاقتور مقناطیسی میدان اور ریڈیو لہروں کی مدد سے اندرونی جسمانی حصوں کی تفصیلی تصاویر لی جاتی ہیں جنہیں دیکھ کر بیماری کی نوعیت اور شدت کا پتا لگایا جاتا ہے۔ ایم آر آئی سے جسم کے کسی بھی اندرونی حصے کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اندرونی چوٹوں اور بیماریوں سے متاثر ہونے والے دماغی حصوں کا معائنہ کرنے میں اس کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود، ایم آر آئی مشینیں نہ صرف بہت مہنگی ہیں بلکہ بہت زیادہ بجلی استعمال کرتی ہیں اور انہیں خاص طرح کے سرد اور محفوظ کمروں میں رکھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان سے پیدا ہونے والے طاقتور مقناطیسی میدان اور ریڈیو لہروں سے غیر متعلقہ جسمانی حصوں کو بچانے کےلیے بھی خصوصی انتظامات (ڈھال یا شیلڈنگ کے طور پر) کرنے پڑتے ہیں۔
ان سب باتوں کی وجہ سے ایک نئی ایم آر آئی مشین کی قیمت 30 لاکھ ڈالر (تقریباً 54 کروڑ پاکستانی روپے) ہوتی ہے جبکہ اسے استعمال کرنے کا ماہانہ خرچہ بھی پندرہ ہزار ڈالر (27 لاکھ پاکستانی روپے) تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی بناء پر ایم آر آئی کی سہولت غریب ممالک کے بڑے شہروں میں بھی بہت کم ہے جبکہ ایک اچھی لیبارٹری سے صرف ایک بار ایم آر آئی اسکیننگ کا خرچ بھی 40 ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈ ایکس وُو اور ان کے ساتھیوں نے یہ تمام مسائل ایک ساتھ حل کرنے کےلیے ایک کم خرچ اور مختصر ایم آر آئی مشین کا پروٹوٹائپ تیار کرلیا ہے جس کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’نیچر کمیونی کیشنز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ اس ایم آر آئی مشین کو خصوصی اور مہنگے انتظامات کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ عام ایئر کنڈیشنر جتنی بجلی اس کےلیے کافی رہتی ہے کیونکہ یہ بہت کم شدت (0.055 ٹیسلا) والے مقناطیسی میدان کی مدد اپنا کام انجام دیتی ہے۔
ڈاکٹر وُو کا کہنا ہے کہ تجارتی پیمانے پر یہ مشین بنانے کی لاگت 20 ہزار ڈالر (35 لاکھ پاکستانی روپے) سے بھی کم ہوگی جبکہ اس سے ایم آر آئی اسکیننگ کا خرچہ صرف چند ڈالر جتنا ہوگا۔
ابتدائی تجربات میں اس پروٹوٹائپ ایم آر آئی مشین کو 25 مریضوں میں فالج اور دماغی رسولی سمیت، مختلف دماغی بیماریوں کا سراغ لگانے کےلیے استعمال کیا گیا جبکہ اس کی کارکردگی کا موازنہ 3 ٹیسلا مقناطیسی میدان والی تجارتی ایم آر آئی مشین کے نتائج سے کیا گیا۔ موازنے سے معلوم ہوا کہ بیشتر دماغی امراض کی درست نشاندہی میں پروٹوٹائپ مشین نے بھی تجارتی ایم آر آئی مشین جتنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
پروٹوٹائپ کی خاص بات اس کا سافٹ ویئر ہے جس میں مصنوعی ذہانت والا خصوصی الگورتھم استعمال کیا گیا ہے۔ آزمائشوں سے پہلے اس سافٹ ویئر کو ’’تربیت‘‘ دی گئی تاکہ یہ کم شدت کی مقناطیسی لہروں سے بننے والے دھندلے عکس نمایاں کرکے انہیں واضح، صاف ستھرے اور درست عکس میں تبدیل کرسکے۔
ڈاکٹر وُو اور ان کے ساتھیوں نے اس پروٹوٹائپ ایم آر آئی مشین کے ہارڈویئر کا مکمل ڈیزائن اور سافٹ ویئر کا تمام سورس کوڈ آن لائن رکھ دیا ہے جسے کوئی بھی مفت میں استعمال کرسکتا ہے۔

اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain