خونِ تمنا اورخونِ خاک نشیناں

کرنل (ر) عادل اختر
افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے جس سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ جس طرح افغانستان کے موسم میں بڑی شدت ہے۔ اسی طرح ان کے مزاج اور موڈ میں بھی بڑی شدت ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت وہ غصے میں ہوں گے اور کس وقت مہربان۔
طالبان مذہبی طور پر شدت پسند ہیں۔ ان کی مذہب کی تشریح بھی بہت پرانی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن آج پاکستانی علماء ٹی وی چینل پر بیٹھے نوجوان خواتین کے ساتھ مختلف مسائل پر بحث مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکتان کے مذہبی طبقات کی انتہا پسندی افغان علماء سے کافی کم ہے۔
دنیا کے کسی ملک میں سب لوگ متفق الخیال نہیں ہوتے۔ افغانستان میں بھی نہیں ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ سب طبقات ایک دوسرے کو برداشت کریں، افغانستان میں ایسا نہیں ہے۔ آج افغانستان میں سینکڑوں چھوٹے بڑے گروپ موجود ہیں جو ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا گروپ طالبان کا ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے لاکھوں افغانی اپنے وطن کی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن ہزاروں افغان ایسے بھی ہیں جو روس یا امریکہ کے لئے جاسوسی کرتے رہے ہیں اور اس کا بھاری معاوضہ وصول کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے عیش اور آرام کی زندگی گزاری ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے عیش و عشرت کا زمانہ ختم ہو۔
امریکہ نے ہزاروں ارب ڈالر خرچ کرکے افغان آرمی کھڑی کی۔ بہترین ٹریننگ اور اسلحہ دیا۔ لیکن یہ تین لاکھ افغان فوج اپنے ہم وطنوں یعنی پچاس ساٹھ ہزار طالبان سے شکست کھا گئی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کا سر کچلنے کا فریضہ پاکستان انجام دے۔ لیکن یہ پاکستان کے لئے بہت گھاٹے کا سودا ہوگا۔ اس کا مطلب ہوگا، طالبان کے ساتھ کبھی ختم نہ ہونے والی دشمنی پالی جائے۔ امریکہ کی طالبان سے بہت توقعات ہیں۔ انسانی حقوق بحال کئے جائیں، عورتوں کو معاشرے میں آزادی سے رہنے کی اجازت دی جائے، جمہوریت بحال کی جائے۔ آج امریکہ کو افغانستان میں عورتوں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کی بڑی فکر ہے۔ بھارت اور کشمیر کے مسلمان بھی انسانی حقوق سے محروم ہیں، ان کی امریکہ کو کوئی فکر نہیں ہے۔
اگر طالبان مصلحت سے کام لیں۔ امریکی مطالبات مان لیں تو دیہات میں رہنے والے لاکھوں سپورٹر ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ طالبان یہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا بھی یہی مخمصہ ہے۔ طالبان کو تسلیم کرے یا نہ کرے…… گوئم مشکل۔ نہ گوئم مشکل والی صورتحال درپیش ہے۔
پاکستان میں بھی ہر طبقہ خیال کے لوگ موجود ہیں۔ ایک طرف کروڑوں غربا ہیں، جو ان پڑھ ہیں۔ زیادہ سیاسی فہم نہیں رکھتے۔ مذہبی خیالات کے مالک ہیں۔ سادہ لوح ہیں اور مخلص ہیں۔ یہ لوگ طالبان کے حامی ہیں۔
دوسری طرف امرا کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہے۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ زیادہ سمجھ دار ہیں۔ لیکن مفادات کے غلام ہیں۔ انہیں نظریات سے دلچسپی نہیں ہے۔ یہ نہ کمیونزم کے سخت گیر نظام کے حامی ہیں نہ مغربی ممالک کی جمہوریت کے حامی ہیں۔ جہاں انہیں اپنی ناجائز دولت کا حساب دینا پڑے۔ ان کی زندگی میں ہر دن عید ہوتی ہے۔ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی عیش و عشرت کی زندگی میں خلل پڑے۔ یہ جتنا اسلام سے ڈرتے ہیں اتنا ہی کمیونزم سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے طالبان کے مخالف ہیں۔
گزشتہ بیس برس سے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ استعمال کرنے والے‘ امریکہ اور بھارت ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں افغان سرزمین سے ہوئیں۔ کہنے کو افغانستان ہمارا برادر ملک ہے مگر برادرانِ یوسف سے زیادہ ظالم۔ حالات کو خراب بناتے ہیں، امریکی ڈالروں نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، ہزاروں افغانوں نے ڈالر لے کر اپنے ضمیر بیچ دیئے…… پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں ایک پروفیشنل آرمی موجود ہے جس نے دہشت گردوں کا سر کچلنے کا فریضہ بڑی کامیابی سے انجام دیا۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والوں کو پاک آرمی بہت بری لگتی ہے۔
طالبان کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب رہتی ہے۔ افغانستان کی تین لاکھ فوج طالبان کو کچلنے میں ناکام رہی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ فریضہ پاکستان آرمی ادا کرے۔ امریکی اپنی بات ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔
(1)۔ پاکستان افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں سنجیدہ نہیں ہے۔
(2)۔ پاکستان کو امن کی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا چاہئیں، طالبان سے لڑنے میں پاکستان آرمی کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ طالبان بھی تباہ ہونگے۔خدانخواستہ پاک آرمی بھی۔بھارت اور امریکہ کے لئے اس سے زیادہ خوشی کا کوئی اور مقام نہیں ہو سکتا۔
امن کی جتنی ضرورت افغانستان کو ہے۔ اس سے زیادہ پاکستان کو ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم نہ ہو تاکہ پاکستان بھی مشکل صورتحال سے دوچار رہے۔ امریکہ بہت غصے میں ہے اور اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ امریکہ کی ناکامی کی بڑی بڑی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
-1 افغانستان میں زبردست کرپشن اور بدانتظامی۔ اس کی بڑی وجہ امریکی ڈالروں کی بارش ہے۔
-2 افغانستان کے حکمرانوں‘ خاص طور پر اشرف غنی کی بزدلی‘ خودغرضی اور نالائقی ہے۔
-3 افغان آرمی کی نالائقی۔ جس کی وجہ خراب ٹریننگ۔ جذبے کی کمی اور ڈسپلن کا نہ ہونا ہے۔
امریکہ جاتے جاتے اسّی ارب ڈالر سے زیادہ کا قیمتی اور جدید اسلحہ افغانستان میں چھوڑ کر جا رہا ہے۔ جب کبھی یہ اسلحہ استعمال ہوا تو اس میں افغان ہی مارے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے۔ سازشی عناصر افغانستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا کر دیں۔ اس صورت میں نقصان کس کا ہوگا۔
طالبان بظاہر اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں …… یعنی اقتدارکا حصول اصل لیکن ان کی مشکلات اب شروع ہونگی۔
بہت سی توقعات پوری نہیں ہونگی۔ جس سے مایوسی پیدا ہوگی، طالبان لیڈروں میں پھوٹ پڑ جائیگی۔
طالبان‘ امریکہ اور بھارت کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
گزشتہ دنوں کابل ایئرپورٹ پر دھماکے ہوئے۔ دو سو افراد مارے گئے جن میں تیرہ امریکی بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے صدر اپنے آدمیوں کے مارے جانے پر رو پڑے۔ کوریا‘ ویت نام‘ عراق اور افغانستان میں پچیس تیس لاکھ عوام۔ بمباری سے مارے گئے۔ بچے یتیم ہوئے۔ عورتیں بیوہ ہوئیں۔ ان مظلوموں کی موت پر کوئی نہ رویا‘ اشرف غنی‘ پرویز مشرف اورنہ ہی جو بائیڈن اسے کولیٹرل نقصان کہا جاتا ہے۔ فیضؔ کی زبان میں یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔
خون تمنا ہو یا خون خاک نشیناں اس کا کوئی معاوضہ یا خون بہا نہیں ہوتا۔
چھوٹے ملکوں کی غلطیوں کا بہت تذکرہ ہوتا ہے۔ بڑے ملک کی ہر خطا معاف ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی بڑے ملکوں کی دولت کا راز ان کی اسلحہ فروشی ہے، یہ اسلحہ انسانوں کو مارنے کے کام آتا ہے۔ سعودی عرب اور بھارت کا شمار اسلحہ کے بڑے خریداروں میں ہوتا ہے۔ ہر سال اربوں ارب ڈالر کا اسلحہ خریدتے ہیں۔ پانچ دس سال کے بعد یہ اسلحہ پرانا اور متروک ہو جاتا ہے پھر نیا اسلحہ خریدنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ غریب ممالک کو جو ڈالر اپنے ملکوں کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے پر خرچ کرنا چاہئیں۔ وہ بڑے ملکوں کے خزانے میں پہنچ جاتے ہیں۔ غریب ملکوں کے عوام۔ نہ جمہوریت نہ انسانی حقوق۔ نہ بہتر معیار زندگی سے لطف اندوز ہو پاتے ہیں۔
لٹیرے حکمران اپنے ملک کو لوٹ کر اپنی دولت بھی بڑے ملکوں کے بنکوں میں جمع کراتے ہیں۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭

پی ڈی ایم کی تحریک کا دوسرا راؤنڈ

ملک منظور احمد
پاکستان کی سیاست میں تیز رفتار تبدیلیاں کوئی نئی چیز نہیں ہیں بعض اوقات تو پاکستان کی سیاست اتنی تیزی سے تبدیل ہو تی ہے کہ پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بھی حیران و پریشان رہ جاتے ہیں۔کبھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے جانے کی تاریخیں دی جاتی رہی ہیں اور ایک وقت پر تو مسلم لیگ ن کی قائد مریم نواز شریف نے ”آر یا پار“ کا اعلان بھی کر دیا تھا لیکن اپوزیشن کی خواہشوں اور توقعات کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہ صرف مسند اقتدار پر قائم و دائم ہے بلکہ بظاہر ایسا محسوس ہو تا ہے کہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔حکومت کے گھر جانے کی پیش گوئیاں اور افواہیں آہستہ آہستہ دم توڑ چکی ہیں اور اب بات آئندہ عام انتخابات کے شفاف انعقاد کی جا رہی ہے۔ ایسے میں پی ڈی ایم کی جانب سے ایک مرتبہ پھر حکومت مخالف مہم شروع کی گئی ہے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا عندیہ بھی دیا گیا ہے،لیکن اس لانگ مارچ کے مقاصد کیا ہوں گے یہ ابھی واضح نہیں ہے۔
پیپلز پا رٹی اور اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد اس بات پر بھی بڑا سوالیہ نشان مرکوز ہے کہ آیا ان دو بڑی جماعتوں کی عدم موجودگی کی صورت میں پی ڈی ایم کیا حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں بھی ہے یا نہیں؟ بہر حال ایک لانگ مارچ تو مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف پہلے بھی کر چکے ہیں لیکن یہ مارچ بھی بے نتیجہ ثابت رہا تھا اور اس کے بعد پی ڈی ایم نے بھی حکومت مخالف جلسے جلوسوں کی ایک بڑی مہم چلائی تھی لیکن اس میں مکمل طور پر ناکام رہی۔پی ڈی ایم کی ناکامیاں تو ایک جانب‘اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر کے اختلا فات بھی اپوزیشن کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی پالیسی،مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی پالیسی سے یکسر مختلف ہے۔ اور پارٹی کے اندر ہی شدید اختلافات موجود ہیں،بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ مسلم لیگ ن ان دو بیانیوں کے درمیان پس کر رہ گئی ہے۔حالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ محمد آصف نے ایک انٹرویو میں بر ملا اعتراف کیا کہ مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات پارٹی کے لیے ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔شہباز شریف نے ویسے تو حالیہ عرصے میں پارٹی کی بھاگ ڈور سنبھالنے میں کے لیے واضح طور پر کافی تگ و دو کی ہے اور پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھی پیش پیش رہے ہیں لیکن ان کو مسلسل پارٹی کے اندر سے ہی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔بہر حال مسلم لیگ ن کے مسائل ایک طرف‘ اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں زور لگاتی رہی ہیں،اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے مقاصد اور مفادات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بے شمار مسائل کا سامنا رہا ہے روز بروز بڑھتی ہو ئی مہنگائی نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے اور لیکن اپوزیشن حکومت کی کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔پاکستان پیپلز پا رٹی سے توقع کرنا کہ وہ استعفے دے کر سندھ میں اپنی حکومت ختم کروا لے گی کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں ہے۔ زیادہ مسئلہ انہی جماعتوں کو ہے جو کہ سسٹم سے باہر ہو گئی ہیں اور اب ہر طرح سے واپسی کی کوششیں کررہی ہیں۔پہلے بھی اسمبلیوں سے استعفوں اور لانگ مارچ کے موقع پر ہی پی ڈی ایم جماعتوں کے درمیان سنگین اختلافات پیداہو گئے تھے اور پی ڈی ایم کا شیر ازہ بکھر گیا تھا،اور اب پی ڈی ایم کی باقی ماندہ جماعتیں پیپلز پا رٹی کے بغیر لانگ مارچ کرنے تو جاری ہیں لیکن ابھی تک اس لانگ مارچ کے مقاصد واضح نہیں ہو سکے۔اگر اس مرتبہ بھی لانگ مارچ سے پہلے یا پھر لانگ مارچ کے دوران پی ڈی ایم کے درمیان کوئی اختلاف رائے سامنے آتا ہے تو یہ بات کسی صورت بھی حیران کن نہیں ہو گی۔
مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے پہلے روز سے سخت مخالف رہے ہیں اوراس پر مستزادیہ کہ گزشتہ انتخابات میں ان کی پارلیمانی حیثیت بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ ان کی اس حکومت کے قیام کے روز اول سے ہی یہ کوشش بلکہ یہ خواہش رہی ہے کہ حکومت کو جلد از جلد گھر بھیج دیا جائے،لیکن دوسری طرف سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ ن اور میاں شہباز شریف بھی یہی چاہتے ہیں۔حکومت کی فوری رخصتی مریم نواز کی خواہش تو یقینا ہے لیکن شہباز شریف آئندہ انتخابات کے شفاف انعقاد پر ہی زور دیتے آرہے ہیں۔
مریم نواز نے حالیہ دنوں میں ایک بیان دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ کسی بھی صورت کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی ہے البتہ حکومت کے علاوہ اور کسی سے بھی مفاہمت کی جاسکتی ہے،ان کے اس بیان کا میڈیا میں کافی چرچا رہا ہے اور بظاہر اس بیان کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ شاید مریم نواز شریف اب مقتدر قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا اشارہ دے رہی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ مسلم لیگ ن بلکہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا ٹرننگ پوا ئنٹ ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت 2023ء کے انتخاب تک تو قائم رہے گی اور اپنی مدت پوری کر لے گی لیکن آئندہ عام انتخابات میں کامیابی مکمل طور پر ایک بالکل الگ گیم ہے اور اگر مریم نواز واقعی طاقت ور حلقوں سے کسی قسم کی مفاہمت پر راضی ہو جاتی ہیں اور اس سلسلے میں آنے والے دنوں میں کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو مستقبل کی سیاست کا نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔جہاں تک پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف تازہ ترین مہم جوئی کا تعلق ہے تو یہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کے علاوہ کچھ معلوم نہیں ہو رہی ہے آئندہ چند ماہ سیاسی گہما گہمی کے بعد تمام اپوزیشن جماعتیں 2023ء کے انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے ہی دکھائی دیں گی۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

مصباح الحق اور وقار یونس کوچنگ کے عہدوں سے دستبردار

لاہور: قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس اپنے عہدوں سے دستبردار ہوگئے۔ 

ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجہ کے چیئرمین پی سی بی کا عہدہ باقاعدہ سنبھالنے سے پہلے ہی بڑی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں اور قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ سابق فاسٹ بولر وقار یونس کوچنگ کے عہدوں سے دستبردار ہوگئے ہیں، مصباح الحق اور وقار یونس کو ستمبر 2019میں عہدے دیے گئے تھے، مصباح الحق کو پاکستان میں پہلی بار ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بنایا گیا تھا، تاہم انہوں نے اکتوبر 2020 میں چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

اپنے عہدے سے دستبرداری پر سابق ہیڈ کوچ مصباح الحق کا کہنا تھا کہ جمیکا میں قرنطینہ کے دوران 24 ماہ کا جائزہ لیا، یہ مناسب وقت نہیں لیکن چیلجز کے لئے ایسے فریم آف مائِںنڈ میں نہیں۔ قومی بولنگ کوچ وقار یونس کا کہنا تھا کہ مصباح الحق نے فیصلہ بتایا تو میں نے بھی الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا، نوجوان بولرز کے ساتھ کام کرنے پر بہت مطمئن ہوں۔

دوسری جانب مصباح الحق اور وقار یونس کے اچانک عہدے چھوڑنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان عہدوں پر سابق ٹیسٹ کرکٹر دوسرا کے مؤجد اور مایہ ناز اسپن بولر ثقلین مشتاق اور سابق مایہ ناز آل راؤنڈر عبدالرزاق کو عارضی طور پر تعینات کردیا گیا ہے۔  چیف ایگزیکٹو پی سی بی وسیم خان کا کہنا تھا کہ پی سی بی مصباح الحق کے فیصلے کی قدر کرتا ہے، وقار یونس نے بھی جرات مندانہ فیصلہ کیا۔

کل کا قیدی آج کا حکمران

طالبان رہنما انس حقانی بگرام جیل کا وہ سیل دکھا رہے ہیں جہاں وہ خود چار سال قید رہے اور دو دفعہ انہیں سزاے موت سنائی گئی

مریکہ نے انس حقانی کو بحراين سے گرفتار کر کے بگرام جیل میں قید کیا تھا ۔رہائی کے بعد وہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے ۔۔۔۔۔اللہ نے ان کمینوں کو رسوا و ہلاک اور مغلوب کیا اور ان مخلصین مجاھدین کو کامیاب و غالب فرمایا ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے بھائیو صرف اخلاص و توکل کے سے اعلیٰ درجہ کا نتیجہ ۔

گوگل نے افغان حکومت کے ای میل اکاؤنٹس بلاک کر دیے

انٹرنیٹ کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے افغانستان کی حکومت کے متعدد ای میل اکاؤنٹس کو عارضی طور پر بلاک کر دیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق معاملے سے آگاہی رکھنے والے ایک شخص نے بتایا ہے کہ اکاؤنٹس لاک ڈاؤن کرنے کا یہ فیصلہ افغان حکومت کے سابق اہلکاروں اور ان کے عالمی شراکت داروں کے ڈیجیٹل روابط کی ٹریل کے بارے میں بڑھتے خوف کو کم کرنے کے لیے کیا گیا۔

امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کو گرانے اور طالبان کی جانب سے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے مختلف رپورٹس میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ نئے حکمرانوں کی جانب سے اپنے دشمنوں کو تلاش کرنے کے لیے بائیو میٹرک اور افغان پے رول ڈیٹا بیسز کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان سے منسوب اکاؤنٹس کو آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں، یوٹیوب

گوگل کی کمپنی الفابیٹ نے ایک بیان میں افغان حکومت کے اکاؤنٹس لاک ڈاؤن کرنے کی تصدیق نہیں کی تاہم یہ کہا کہ کمپنی افغانستان میں صورتحال کی نگرانی کر رہی ہے اور ‘متعلقہ اکاؤنٹس کو محفوظ بنانے کے لیے عارضی اقدامات کیے گئے ہیں’۔

افغانستان کی سابق حکومت کے ایک ملازم نے بتایا کہ ‘طالبان سابق حکومتی عہدیداروں کے ای میل اکاؤنٹس حاصل کرنا چاہ رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ ماہ کے اواخر میں طالبان نے ان سے کہا تھا کہ جس وزارت کے لیے وہ کام کر رہے تھے اس کا ڈیٹا سرور میں محفوظ کیا جائے’۔

سابق افغان حکومت کے ملازم کا کہنا تھا کہ ‘اگر میں ایسا کرتا ہوں تو وہ سابق وزارت کے سرکاری رابطوں اور ڈیٹا تک رسائی حاصل کرلیں گے’۔

انہوں نے بتایا کہ ‘انہوں نے طالبان کے حکم پر عمل نہیں کیا اور اب وہ روپوش ہیں’۔

رائٹرز کی جانب سے مذکورہ ملازم کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا نام اور وزارت ظاہر نہیں کی گئی۔

عوامی سطح پر دستیاب میل ایکسچینجر ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ تقریباً 2 درجن افغان حکومتی اداروں نے سرکاری ای میلز کو سنبھالنے کے لیے گوگل کے سرورز کا استعمال کیا تھا جن میں وزارت خزانہ، صنعت، ہائر ایجوکیشن اور مائنز کی وزارتیں شامل ہیں۔

علاوہ ازیں ریکارڈ کے مطابق افغانستان کے صدارتی پروٹوکول کے دفتر نے مقامی حکومتی اداروں کی طرح گوگل کا استعمال کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک کی طالبان پر پابندی، ٹوئٹر فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار

سرکاری ڈیٹا بیس اور ای میلز سابق انتظامیہ کے ملازمین، سابق وزرا، سرکاری کنٹریکٹرز، قبائلی اتحادیوں اور غیر ملکی شراکت داروں کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتی ہیں۔

انٹرنیٹ انٹیلی جنس فرم ڈومین ٹولز کے سیکیورٹی ریسرچر چاڈ اینڈرسن نے بتایا کہ ‘صرف سرکاری ملازمین کی گوگل شیٹ ہی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، یہ معلومات کا ایک خزانہ فراہم کر دے گی’۔

ای میلز کے تبادلوں کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی افغان حکومتی ایجنسیاں بشمول وزارت خارجہ اور صدارتی دفتر نے مائیکروسافٹ کارپوریشن کی ای میل سروسز بھی استعمال کرتی تھیں۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ مائیکروسافٹ نے ان اکاؤنٹس کو طالبان کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔

رائٹرز کی جانب سے مذکورہ معاملے پر جب مائیکروسافٹ سے رابطہ کیا گیا تو ادارے نے تبصرے سے انکار کردیا۔

چاڈ اینڈرسن نے کہا کہ طالبان کی امریکی ساختہ ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کو کنٹرول کرنے کی کوشش قابل دید ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس انفرا اسٹرکچر سے حاصل ہونے والی معلومات ایک گرتی ہوئی حکومت کے پرانے ہیلی کاپٹروں سے کہیں زیادہ قیمتی ہوسکتی ہے۔

9/11امریکہ کیلئے صف ماتم، طالبان کیلئے جشن کادن

9/11امریکہ کیلئے صف ماتم، طالبان کیلئے جشن کادن
طالبان نئی حکومت کے قیام کا اعلان 11ستمبر کو کر سکتے ہیں، ذرائع
افغان حکومت کی تشکیل کیلئے ناموں پر اتفاق رائے ہو چکا ہے، ذرائع
15اگست کو بھی طالبان نے فتح کا اعلان کر کے بھارتی یوم آزادی یوم بربادی میںبدل دیا تھا
بیس برس تک امریکہ نے افغانستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی
اربوں ڈالر خرچ اور ہزاروں معصوم افغانوں کو شہید کر کے بھی امریکہ نامراد لوٹا
طالبان کے عزم اور حوصلے نے امریکہ کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبورکر د

فلوریڈا: مسلح شخص نے 3 ماہ کے بچے سمیت 4 افراد کو قتل کردیا

حکام کا کہنا تھا کہ سینٹرل فلوریڈا کی پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے قبل بلٹ پروف جیکٹ پہنے اور خود کو متاثرہ ظاہر کرنے والے شخص نے فائرنگ کر کے خاتون اور اس کی گود موجود تین مہینے کے بچے سمیت چار افراد کو قتل کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے’رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق پولک کاؤنٹی کے پولیس افسر گریڈی جڈ نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ فائرنگ کرنے والے شخص کی شناخت 33 سالہ برائن ریلے کے نام سے ہوئی جو امریکی بحریہ کا سابق ملازم بھی ہے، واقعے میں زخمی ہونے والی 11 سالہ بچی کی سرجری کی جارہی ہے جسے 7 گولیاں لگیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ برائن ریلے کا متاثرین سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اس نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے پولیس کے ساتھ بھی فائرنگ کا تبادلہ کیا اور اس کے بعد گولی لگنے پر علاج کے دوران ہسپتال میں ایک پولیس افسر سے اس کی پستول چھیننے کی بھی کوشش کی۔

گریڈی جڈ نے کہا کہ عراق اور افغانستان میں امریکی جنگوں کا تجربہ کار برائن ریلے ایک سیکیورٹی گارڈ کمپنی میں باڈی گارڈ کی حیثیت سے کام کرتا تھا، اس کی گرل فرینڈ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ صدمے کے بعد کے ذہنی دباؤ کبھی کبھار ہونے والے ڈپریشن سے دوچار ہے۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کجہ ایک ہفتہ قبل اس کی ذہنی حالت بگڑ گئی تھی اور اس نے اپنی گرل فرینڈ کو بتایا تھا کہ اس نے خدا سے بات کرنا شروع کردی ہے۔

ایک اور نیوز کانفرنس کے دوران گریڈی جڈ نے بتایا کہ ‘ایک بار اس نے ہمارے تفتیشی حکام سے کہا کہ وہ اپنی جانوں کی بھیک مانگ رہے تھے لیکن میں نے پھر بھی انہیں مار دیا‘۔

ان کے مطاق برائن ریلے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے کہا کہ وہ طاقتور نشے کا عادی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے شوٹر بلا مقصد اس گھر پر نظر آیا جہاں ہفتے کی رات فائرنگ ہوئی تھی اور عجیب و غریب باتیں کررہا تھا لیکن جب تک پولیس پہنچی وہاں سے چلا گیا۔

گریڈی جج کا کہنا تھا کہ اگلے روز اتوار کی صبح وہ واپس آیا اور 40 سالہ شخص، 33 سالہ ماں اور اس کی گود موجود بچے کو قتل کردیا اور برابر میں موجود گھر میں ایک 62 سالہ خاتون کو بھی قتل کیا جو بچے کی ماں کی والدہ تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ جب اس کے شیطانی پن کو قرار نہ ملا تو اس نے فائرنگ کر کے گھر کے پالتو کتے کو بھی ماردیا۔

گریڈی جڈ نے کہا کہ خودکار بندق کے دو کارتوس چلنے کی اطلاعات کے ردِ عمل میں پہنچنے والے اہلکاروں نے ایک غیر مسلح شخص باہر دیکھا جس نے بلٹ پروف جیکٹ اور کیموفلاج پہنا ہوا تھا

چشمہ بیراج اور قیمتی پیالہ

روہیل اکبر
ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک قربانیاں دینے والے ہمیشہ مسائل،مشکلات اور تکالیف سے دوچار رہے جبکہ مفاد پرست اورخوش آمدی قسم کے لوگ ہمیشہ آگے آگے رہے۔ پاکستان بنا تو اپنا مال لٹا کر بچوں کو قربان کرکے پاکستان پہنچنے والے کیمپوں میں ذلیل و رسوا ہوتے رہے جبکہ لوٹ مار کرنے والے فراڈیوں نے بڑی بڑی حویلیاں اور مکان سنبھال لیے۔ اسی طرح انگریزوں کے پٹھو ٹیڑھے منہ کرکے انگریزی بولنے والے ہم پر حکمرانی کرنے لگے جو چپڑاسی بھرتی ہونے کے لائق نہیں تھے انہیں سابق حکمرانوں نے پکڑ پکڑ کراعلیٰ عہدے بانٹ دئیے جن کی وجہ سے آج ہر محکمہ کارکردگی کے لحاظ سے صفر ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں سیلاب آگیا، ایک حکومتی افسر گاؤں پہنچا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پانی کا بہاؤ بہت بڑھ گیا ہے، پانی خطرے کے نشان سے 2 فٹ اونچا ہوگیا ہے۔ لوگوں نے خوفزدہ ہوکر کہا کہ اب کیا ہوگا؟ افسر نے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے انتظام کرلیا ہے خطرے کے نشان کو دو فٹ سے بڑھا کر چار فٹ کردیا ہے۔ سیلاب اور پانی کا ذکر ہوا ہے توچشمہ بیراج کے ارد گرد رہنے والوں کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی ان لوگوں نے بھی پاکستان کے لیے بہت بڑی قربانی دی مگر سابق حکمرانوں نے جہاں اداروں کو تباہ کیا وہیں پر انہوں نے اس علاقے کے لوگوں کو بھی برباد کیا۔چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت ان کی قربانیوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی انہیں ان کی زمینوں کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اتنی ہی زمین کسی اور علاقے میں الاٹ کردی جاتی اور چشمہ بیراج پر ان افراد کا نام سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے مگر ان حکمرانوں کو لوٹ مار کے سوا اور کوئی کام آتا ہی نہیں تھااسی علاقہ کے رہائشی میجر(ر) رئیس کی داستان بھی عجب داستان ہے جو اپنے علاقہ کے لوگوں کے دکھ اور درد لیے ہر جگہ پہنچے مگر مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک بھی رینگی ہو اب انہیں عمران خان اور بزدار سرکار سے امید ہے کہ وہ ان کے دیرنیہ مسائل ضرور حل کریں گے۔
آئیے کچھ باتیں میجر صاحب کی زبانی سن لیں جن کا کہنا ہے کہ بڑے دل گردہ والے تلوکر بار بار حکومت پاکستان کو اپنی خاندانی جدی پشتی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ دینے کے باوجود تمام تر بنیادی سہولیات سے آج تک محروم ہیں چہ جائیکہ ان کی زمینوں پر بننے والے میگا پراجیکٹس اربوں کی سالانہ آمدن حکومت کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو چشمہ بیراج کے ہیڈ سے کم از کم چار کلو میٹر نکاسی والی سائیڈ کو محفوظ بنانا واپڈا۔صوبائی و قومی حکومت کی قانونی و اخلاقی ذمہ داری ہے مگر کیا کریں ہم سیاسی یتیم جو ٹھہرے۔
چشمہ بیراج سے جنوب میں دریا کے دونوں اطراف پچھلے بیس تیس سالوں سے مسلسل دریا کا کٹاؤ جاری ہے جس کی وجہ سے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد تلوکر برادری کے متعدد دیہات و ڈیرہ جات بمعہ زمینوں کے دریا بردہو ئے تھے جو بکھڑا کچہ کالو کے جنوب میں واقع تھے۔ان متاثرہ علاقوں کے لوگ خانقاہ سراجیہ،نیو ڈنگ شریف،زمان خیلانوالا،لال خیلانوالا،شہباز خیلانوالہ تھل میں نقل مکانی کرگئے تھے اورکچھ لوگ چشمہ بیراج کے مغربی کنارے موضع بکھڑا کی کچہ پار کی زمینوں پر آباد ہوگئے جوخطہ اطلس،شہباز خیلانوالہ کچہ،جلال خیلانوالہ کچہ،فوجے خیلانوالہ کچہ،دھنڑائی خیلانوالہ کچہ اوربلوچی خیلانوالہ کچہ کے ناموں سے دیہات و ڈیرہ جات کے آباد کار بنے۔اب کی بار دریائے سندھ کا شکار یہ لوگ بنے ان میں خاص کر تلوکر برادری کے شہباز خیل و دھنڑائی خیل زیادہ متاثرہوئے تھے ویسے تو دریائے سندھ کے کٹاؤ کا شکار موضع شاہنواز والا و دریا کی دونوں طرف کلور کوٹ ڈی آئی خان زیر تعمیر پل تک کے علاقے دریا کے کٹاؤ کا شکار ہیں مگر چشمہ بیراج سے چار پانچ کلو میٹر تک جنوب میں موضع بکھڑا کی تلوکر برادری زیادہ متاثر ہے یہ سب لوگ گھروں اور زمینوں سمیت متاثرہو رہے ہیں موضع بکھڑا متاثرین چشمہ بیراج میں سب سے زیادہ زمینوں و گاؤں کی قربانی دینے والا موضع ہے اور پاکستان اٹامک انرجی میں بھی اس موضع کا بہت حصہ ہے ویسے بھی دونوں موضع جات موضع بکھڑا و موضع ڈنگ کھولا بار بار متاثرہونے والے موضع جات ہیں مگر افسوس صد افسوس یہ علاقے تمام حکومتوں میں نظر اندازہوتے آئے ہیں اور آج بھی وہی حال ہے میری وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان،چیئرمین واپڈا،وزیراعلیٰ پنجاب و متعلقہ وزارتوں و متعلقہ محکموں و متعلقہ منتخب نمائندوں ایم این اے،ایم پی اے اور کرتا دھرتاؤں سے پر زور اپیل ہے کہ چشمہ بیراج کے جنوب میں دونوں اطراف آبادیوں و زمینوں کو محفوظ بنایا جائے اس سے قبل کہ ان لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ھوجائے بلکہ ٹوٹ جائے اگر اس علاقہ میں لگائے گئے میگا پراجیکٹس کی آمدن ور رائیلٹی میں سے 20 فیصد حصہ اس علاقہ کی فلاح و بہبود کے لیے مختص کر دیا جائے تو تمام مسائل بخوبی حل ہو سکتے ہیں امید ہے کہ میری اس گزارش کو مثبت لیا جائے گا۔ یہ صرف ایک فرد کا نوحہ نہیں ہے بلکہ چشمہ بیراج کے علاقہ کے باسیوں کی متفقہ آواز ہے۔
امید ہے وزیر اعظم عمران خان اور سردار عثمان بزدار اس حوالہ سے عوام کے دیرنیہ مسائل کے حل پر پوری توجہ دینگے آخر میں ایک لطیفہ ان مظلوم اور مجبور عوام کے نام جنہیں ہر بار حکمران چونا لگانا نہیں بھولے قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاؤنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے اس خاتون نے اپنے طور پر چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب! کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔ خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ براہ کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔ دکان دار نے کہابی بی! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

6 ستمبر کے جذبے زندہ ہیں

حیات عبداللہ
پاکستان جب بھی سیاسی خرخشوں اور علاقائی مخمصوں میں گِھر جاتا ہے، بھارتی سیاست دانوں کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔یہاں جب بھی سیاسی حالات مخدوش ہوتے ہیں، بھارتی ہندو کی نربھاگ زبان پاکستان کے متعلّق منفی پروپینگنڈا کرنے کے لیے دو ہاتھ لمبی ہو جاتی ہے، وہ تَوا گرم دیکھ کر اپنی روٹی سینکنے لگ جاتا ہے، وجہ یہ ہے کہ بھارتی سیاست دانوں کی سوچ بڑی ہی بدبودار ہے اس لیے کہ وہ گائے کو گاؤ ماتا کہتا ہے، اس کی پوجا پاٹ کرتا ہے، اس کے گوبر کو متبرّک سمجھ کر اپنے گھر بالخصوص باورچی خانے میں لیپتا ہے۔وہ گائے کے پیشاب کو مقدّس جان کر اِس کے ساتھ اپنے آپ کو پاک و پوتر کرتا ہے، یہی سبب ہے کہ اس کی سوچ اور فکر میں بھی ہمہ قسم کی آلودگی داخل ہو چکی ہے، اس کے خیالات سے بھی گائے کے پیشاب جیسی بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں۔ہندو مذہب مرکب ہے برہمن، کھشتری، ویش اور شودر جیسی چار ذاتوں کا، شودر کو دلت اور ہریجن بھی کہا جاتا ہے مگر ہندو کی منفی سوچ دیکھیے کہ وہ اپنے ہم مذہب شودروں کو ملیچھ اور غلیظ سمجھتا ہے، وہ شودروں کو اچھی زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے نہ انہیں انسانی حقوق دینے پر رضا مند ہے۔جب اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ ہندوؤں کا سلوک اتنا بہیمانہ ہے تو مسلمانوں کے لیے کس طرح اس کے دل میں محبت پنپ سکتی ہے؟
رات کے تین بجے تھے۔اہلِ پاکستان آرام و سکون کی نیند سو رہے تھے مگر مسٹر چاون اور بھارتی کمانڈر اِن چیف جنرل جے این چودھری رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔وہ آٹھ گھنٹوں میں لاہور اور 92 گھنٹوں میں پورے پاکستان پر قبضہ کرنے کے سپنے دیکھ رہے تھے۔وہ یہ یقین کر چکے تھے کہ تھوڑی ہی دیر بعد بی آر بی نہر کو عبور کر جائیں گے مگر دنیا نے بھارت کا تماشا بنتے دیکھا۔اپنے وطن کے ساتھ دیوانگی اور جنوں خیز جذبات کے سانچے میں ڈھلے اہلِ پاکستان پیدل اور سائیکلوں پر دیوانہ وار محاذِ جنگ کی طرف دوڑ پڑے۔بچے، بوڑھے اور جوانوں کے جو بھی ہاتھ لگا وہ لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔بی آر بی نہر پر متعیّن پاک فوج نے بھارتی گیدڑوں کا منہ توڑ کر رکھ دیا۔جوڑیاں اور چھمب پر میجر سرور شہیدؒ نے جان قربان کر کے بھارتی عزائم کو قبر میں دفن کر دیا۔فلائیٹ لیفٹیننٹ یوسف علی اور ایم ایم عالم نے دشمن کے ساتھ جنگ کی وہ انوکھی داستانیں رقم کیں کہ دنیا آج تک ورطہ ء حیرت میں ہے۔پاکستانی بحریہ نے اپنے سے دس گنا بڑی بھارتی بحریہ کو بحرِ ہند میں غرق کر ڈالا۔میجر راجا عزیز بھٹی شہیدؒ نے اپنی یونٹ کو لے کر دشمن کی صفیں الٹ پلٹ کر رکھ دیں۔
مودی کے بڈھے کھوسٹ دماغ کی یاد داشت اگر ڈھیلی پڑ چکی ہے تو ہم بتا دیتے ہیں کہ پاکستان نیوی کے حملہ آور طیارے اپنے ٹارگٹ سے ایک سو مِیل کے فاصلے پر اس طرح جمع ہوئے کہ بھارتی”سورماؤں“ کو خبر تک نہ ہوئی۔جب ٹارگٹ پوائنٹ، توپ خانے کی زد میں آ گیا تو پاکستانی سپاہ نے اندھا دھند گولا باری شروع کر دی۔رات 12 بج کر 24 منٹ پر پاکستانی جنگی طیاروں نے 350 گولے برسا کر اپنا اہم ٹاسک محض چار منٹوں میں حاصل کر لیا۔مودی کو خبر ہونی چاہیے کہ ہم ایک ایسی قوم اور مُلک سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنا کوئی بھی اہم مشن چند منٹوں میں مکمل کر لیتے ہیں۔اگر مودی نے کسی طوطے کی طرح حقائق سے آنکھیں موند لی ہیں تو ہم اس کے وجود کو جھنجوڑ کر، اس کی آنکھیں کھول دیتے ہیں کہ چھمب، دیوا، رَن کچھ اور جوڑیاں کے محاذ پر بھارت سے اس قدر مالِ غنیمت چھینا گیا تھا کہ اس سے ایک ڈویژن فوج کو مسلح کیا جا سکتا ہے اور ایک بکتر بند رجمنٹ تیار کی جا سکتی ہے۔
بھارتی ہندو عیّار اور مکّار ہے، وہ سازشیں کرنے کا ماہر ہے۔بشیر احمد چودھری نے اپنی کتاب”تحریکِ پاکستان اور طلبہ“ میں مکّار پنڈت چانکیہ کے یہ تین اقوال درج کیے ہیں جن سے بھارتی ہندو کی سوچ اور فکر کی آلودگی کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔1، دشمن پر چیتے کی طرح جھپٹو، اگر دشمن طاقت ور ہے تو خرگوش کی طرح بھاگ جاؤ۔2، اپنے دل کی بات دشمن پر عیاں نہ ہونے دو، منہ سے میٹھی میٹھی بات کرو لیکن اپنے مقصد کو پیشِ نظر رکھو، جوں ہی دشمن غافل ہو پوری طاقت کے ساتھ حملہ کر دو۔3، اپنے ہمسائے کو اس قابل نہ رہنے دو کہ وہ تمہارے سامنے سَر اٹھا سکے، ہمیشہ اسے ختم کرنے کا منصوبہ سوچتے رہو۔
دیکھ لیجیے! آج بھی بھارتی ہندو کے خیالات اور کردار ان ہی تین اقوال کے عکاس ہیں۔ہندوؤں نے بھارت میں بھی دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔موہن بھاگوَت کہتا ہے کہ ہندوستان کا ہر باشندہ ہندو کہلایا جانا چاہیے۔مودی حکومت کے کئی وزیر بھی ہندو اور ہندوتوا وغیرہ کی یہی تشریح کرتے ہیں۔مَیں حیران اس بات پر ہوں کہ بھارت کو ہندوستان کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا سرکاری نام ہندوستان نہیں بلکہ بھارت ہے، جس طرح پاکستان کے ہندوؤں کو پاکستانی کہا جاتا ہے، مسلمان نہیں، بِعَینہٖ بھارت کے تمام لوگوں کو بھی بھارتی کہا جانا چاہیے، ہندو نہیں۔
اگر مودی کی نظریں انتہائی کمزور ہو گئی ہیں تو اسے نزدیک کی عینک لگا کر جنگِ ستمبر پر سنڈے ٹائمز کا یہ تجزیہ پڑھ لینا چاہیے۔”پاکستان فضا میں پوری طرح چھایا ہوا ہے، بھارتی ہوا باز پاکستان کے مقابلے میں انتہائی گھٹیا درجے کے ہیں اور بھارت ایک ایسے مُلک کے ہاتھوں پٹ رہا ہے کہ جو آبادی میں اس سے چار گنا کم ہے“ مودی کو برطانوی اخبار”ڈیلی مرر“ کے نامہ نگار برائن سچن کی یہ رپورٹ بھی ملاحظہ کر لینی چاہیے کہ جس مُلک کے پاس پاکستان جیسی فوج ہو، اسے شکست دینا آسان کام نہیں۔
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سرپھرا ہجوم اور سربکف مجاہد!

نعیم ثاقب
ہمارے اکثر اہل قلم اپنی دانشوری کے چکر میں پاکستانی قوم کو ہجوم لکھتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جب کوئی میلی آنکھ اس کے وطن کی جانب اٹھتی تو یہ ہجوم ایک ایسی قوم بن جاتا ہے جو ہر لمحے ہر ساعت اور قدم پر نئی تاریخ رقم کرتا ہے اس قوم کے ہر شعبے،کونے گوشے سے اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کی جھلک نظر آتی ہے سیاسی اختلافات بھلادئیے جاتے ہیں۔دائیں بائیں بازو ایک دوسرے کا بازو بن جاتے ہیں۔ دینی اعتقاد اورمسلکی اختلافات مٹا کر رہنما ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گلی کوچوں میں ضروری اشیاء کے ڈھیر لگ جاتے ہیں اور وار فنڈ میں خواتین زیورات تک نچھاور کر دیتی ہیں۔
یہ عجیب ہجوم ہے اپنے وطن کی خاطر جس کا ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن جاتاہے۔فنکار ہو یا تاجر‘ صنعت کار ہو یا ساہوکار، پنساری ہو یا پٹواری‘ نواب ہو یا قصاب،معذورہو یا مزدور، بچہ ہو یا بوڑھا ایک ایک فرد جب الوطنی کے جذبے سے سرشار نظرآتا ہے۔ ناجائز منافع خوری ناپید۔ اشیاء کی قلت کا تصور معدوم اور گلیوں‘ محلوں میں جرائم ختم ہو جاتے ہیں۔ اور تو اور یہ عجیب ہجوم اپنے وطن کی حفاظت کے لیے پستول ‘ لاٹھی‘ ڈنڈا جو کچھ بھی ہاتھ لگے، لے کر اپنی جان کی پروا کیے بغیر بارڈر کی طرف دوڑ لگا دیتا ہے۔ ہے نا عجیب اور سر پھر ا ہجوم؟ اور اگر یقین نہیں آتا تو ستمبر1965 کے سترہ دنوں کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں۔ جب سرحد وں پر نامور سپوتوں بے نام شیردل جوانوں نے اس مقدس سرزمین کی پاسبانی کا عہد نامہ نبھاتے اور چودہ سو سالہ تاریخی تسلسل برقرار رکھتے ہوئے بہادری، شجاعت اور جوانمردی کی داستانیں جو ہمارے شہیدوں اور غازیوں نے رقم کیں، تو یہ ہجوم انہیں کیسے بھول سکتا اور جب بات اسکے وطن کی حفاظت کی ہو تو یہ اپنے شیر جوانوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے اور وطن کی محبت میں یہ ہجوم سر پھرا ہجوم بن کر دیوانہ وار دشمن سے ٹکرا جاتاہے اور اس کے سخنوروں کا دھرتی کے سپوتوں کے لیے خراج تحسین کا انداز ہی نرالا ہے۔
سلامتی ہی سلامتی کی دعائیں خلقِ خدا کی خاطر
ہماری مٹی پہ حرف آیا، تو عہدِ فتحِ مْبیں لکھیں گے
خلیلِ آتش نشیں کی میراث کا تسلسل نگاہ میں ہے
سو امتحاں سے گزرنے والوں پہ حرفِ صد آفریں لکھیں گے
………………
یہ ہواؤں کے مسافر، یہ سمندروں کے راہی
میرے سربکف مجاہد، میرے صف شکن سپاہی
یہ تیرا یقینِ محکم، تیری ہمتوں کی جاں ہے
تیرے بازوؤں کی قوت تیرے عزم کا نشاں ہے
تو ہی راہ تو ہی منزل تو ہی میرِ کارواں ہے
تیرے پاؤں میں ہے قوت، تیرے ہاتھ میں ہے شاہی
(صوفی تبسم)
………………
تکبیر سے فضاء کو جگاتے ہوئے بڑھو
نعرہ علی علی کا لگاتے ہوئے بڑھو
تم میں سے ایک ایک ہے بھاری ہزار پر
دشمن کو فنِ جنگ دکھاتے ہوئے بڑھو
انگلی ہو لب لبی پہ تو کلمہ زبان پر
یوں عسکری کمال دکھاتے ہوئے بڑھو
(احسان دانش)
………………
وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو
مجھے خود اپنے نغموں سے بھی پیارے تم ہو
کتنے پامرد ہو تم،کتنے جری،کتنے کریم
مجھ سے پوچھو تو کہ دراصل تم ہو کتنے عظیم
ظرفِ ایثار کے تابندہ ستارے تم ہو
وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو
(احمد ندیم قاسمی)
………………
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
تو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کے
ابھرا ہرگام پہ فتح کا نعرہ بن کے
عمر بھر تجھ پہ خدا اپنی عنایت رکھے
تیری جرأت تیری عظمت کو سلامت رکھے
اس شجاعت کا کیا میں تجھے صلہ پیش کروں
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
(مسرور انور)
………………
قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے
ہمارے ہاتھ دنیا نئے سانچے میں ڈھلتی ہے
وطن کے نونہالو! باندھ کر سر سے کفن آؤ
ادھر اے وارثانِ حیدرِ خیبر شکن آؤ
شہادت جب رخِ گل رنگ سے گھونگھٹ اٹھاتی ہے
سرِ میداں حیاتِ زندگانی گنگناتی ہے
(جوش ملیح آبادی)
………………
جب ساز سلاسل بجتے تھے، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
جب پرچمِ جاں لیکر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت جاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
کس زعم میں تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہیں
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے
(احمد فراز)
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭