تازہ تر ین

پی ڈی ایم کی تحریک کا دوسرا راؤنڈ

ملک منظور احمد
پاکستان کی سیاست میں تیز رفتار تبدیلیاں کوئی نئی چیز نہیں ہیں بعض اوقات تو پاکستان کی سیاست اتنی تیزی سے تبدیل ہو تی ہے کہ پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بھی حیران و پریشان رہ جاتے ہیں۔کبھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے جانے کی تاریخیں دی جاتی رہی ہیں اور ایک وقت پر تو مسلم لیگ ن کی قائد مریم نواز شریف نے ”آر یا پار“ کا اعلان بھی کر دیا تھا لیکن اپوزیشن کی خواہشوں اور توقعات کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہ صرف مسند اقتدار پر قائم و دائم ہے بلکہ بظاہر ایسا محسوس ہو تا ہے کہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔حکومت کے گھر جانے کی پیش گوئیاں اور افواہیں آہستہ آہستہ دم توڑ چکی ہیں اور اب بات آئندہ عام انتخابات کے شفاف انعقاد کی جا رہی ہے۔ ایسے میں پی ڈی ایم کی جانب سے ایک مرتبہ پھر حکومت مخالف مہم شروع کی گئی ہے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا عندیہ بھی دیا گیا ہے،لیکن اس لانگ مارچ کے مقاصد کیا ہوں گے یہ ابھی واضح نہیں ہے۔
پیپلز پا رٹی اور اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد اس بات پر بھی بڑا سوالیہ نشان مرکوز ہے کہ آیا ان دو بڑی جماعتوں کی عدم موجودگی کی صورت میں پی ڈی ایم کیا حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں بھی ہے یا نہیں؟ بہر حال ایک لانگ مارچ تو مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف پہلے بھی کر چکے ہیں لیکن یہ مارچ بھی بے نتیجہ ثابت رہا تھا اور اس کے بعد پی ڈی ایم نے بھی حکومت مخالف جلسے جلوسوں کی ایک بڑی مہم چلائی تھی لیکن اس میں مکمل طور پر ناکام رہی۔پی ڈی ایم کی ناکامیاں تو ایک جانب‘اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر کے اختلا فات بھی اپوزیشن کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی پالیسی،مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی پالیسی سے یکسر مختلف ہے۔ اور پارٹی کے اندر ہی شدید اختلافات موجود ہیں،بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ مسلم لیگ ن ان دو بیانیوں کے درمیان پس کر رہ گئی ہے۔حالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ محمد آصف نے ایک انٹرویو میں بر ملا اعتراف کیا کہ مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات پارٹی کے لیے ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔شہباز شریف نے ویسے تو حالیہ عرصے میں پارٹی کی بھاگ ڈور سنبھالنے میں کے لیے واضح طور پر کافی تگ و دو کی ہے اور پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھی پیش پیش رہے ہیں لیکن ان کو مسلسل پارٹی کے اندر سے ہی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔بہر حال مسلم لیگ ن کے مسائل ایک طرف‘ اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں زور لگاتی رہی ہیں،اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے مقاصد اور مفادات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بے شمار مسائل کا سامنا رہا ہے روز بروز بڑھتی ہو ئی مہنگائی نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے اور لیکن اپوزیشن حکومت کی کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔پاکستان پیپلز پا رٹی سے توقع کرنا کہ وہ استعفے دے کر سندھ میں اپنی حکومت ختم کروا لے گی کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں ہے۔ زیادہ مسئلہ انہی جماعتوں کو ہے جو کہ سسٹم سے باہر ہو گئی ہیں اور اب ہر طرح سے واپسی کی کوششیں کررہی ہیں۔پہلے بھی اسمبلیوں سے استعفوں اور لانگ مارچ کے موقع پر ہی پی ڈی ایم جماعتوں کے درمیان سنگین اختلافات پیداہو گئے تھے اور پی ڈی ایم کا شیر ازہ بکھر گیا تھا،اور اب پی ڈی ایم کی باقی ماندہ جماعتیں پیپلز پا رٹی کے بغیر لانگ مارچ کرنے تو جاری ہیں لیکن ابھی تک اس لانگ مارچ کے مقاصد واضح نہیں ہو سکے۔اگر اس مرتبہ بھی لانگ مارچ سے پہلے یا پھر لانگ مارچ کے دوران پی ڈی ایم کے درمیان کوئی اختلاف رائے سامنے آتا ہے تو یہ بات کسی صورت بھی حیران کن نہیں ہو گی۔
مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے پہلے روز سے سخت مخالف رہے ہیں اوراس پر مستزادیہ کہ گزشتہ انتخابات میں ان کی پارلیمانی حیثیت بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ ان کی اس حکومت کے قیام کے روز اول سے ہی یہ کوشش بلکہ یہ خواہش رہی ہے کہ حکومت کو جلد از جلد گھر بھیج دیا جائے،لیکن دوسری طرف سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ ن اور میاں شہباز شریف بھی یہی چاہتے ہیں۔حکومت کی فوری رخصتی مریم نواز کی خواہش تو یقینا ہے لیکن شہباز شریف آئندہ انتخابات کے شفاف انعقاد پر ہی زور دیتے آرہے ہیں۔
مریم نواز نے حالیہ دنوں میں ایک بیان دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ کسی بھی صورت کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی ہے البتہ حکومت کے علاوہ اور کسی سے بھی مفاہمت کی جاسکتی ہے،ان کے اس بیان کا میڈیا میں کافی چرچا رہا ہے اور بظاہر اس بیان کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ شاید مریم نواز شریف اب مقتدر قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا اشارہ دے رہی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ مسلم لیگ ن بلکہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا ٹرننگ پوا ئنٹ ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت 2023ء کے انتخاب تک تو قائم رہے گی اور اپنی مدت پوری کر لے گی لیکن آئندہ عام انتخابات میں کامیابی مکمل طور پر ایک بالکل الگ گیم ہے اور اگر مریم نواز واقعی طاقت ور حلقوں سے کسی قسم کی مفاہمت پر راضی ہو جاتی ہیں اور اس سلسلے میں آنے والے دنوں میں کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو مستقبل کی سیاست کا نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔جہاں تک پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف تازہ ترین مہم جوئی کا تعلق ہے تو یہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کے علاوہ کچھ معلوم نہیں ہو رہی ہے آئندہ چند ماہ سیاسی گہما گہمی کے بعد تمام اپوزیشن جماعتیں 2023ء کے انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے ہی دکھائی دیں گی۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain