جنرل محمدضیاء الحق، افغانستان کی آزادی کے محافظ (2)

اعجاز الحق
صدرضیاء الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس ”کابل“ کو فتح کر لیتا تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کے لئے قیام پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ انہی محب وطن سرفروشوں میں 17 اگست 1988ء کو سازش کا شکار ہونے والے C-130 طیارہ کے وہ سب سوار اور سالار بھی ہیں جنہوں نے اپنے دل رنگ لہو سے ارض پاکستان کی آبیاری کی۔
خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را
آج سے تقریباً 33 سال قبل جنرل ضیاء الحق اور ان کے قریبی رفقاء کار اور ہم خیال ساتھیوں کو جن میں جنرل اختر عبدالرحمن بھی شامل تھے، ایک گہری سازش کے ذریعے پہلے سے طے شدہ فضائی حادثے میں شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی عسکری قیادت کو منظر سے ہٹا دینا بہت بڑا قومی سانحہ تھا اس سازش کے تیار کرنے والے دماغوں نے اس بات کا خاص طور پر انتظام کیا تھا کہ وہ عسکری قیادت جو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر افغان جنگ لڑ رہی تھی اور جو افغان پالیسی چلا رہی تھی انہیں قومی منظر نامے سے ہٹا دیا جائے۔ جنرل اختر عبدالرحمان کو بھی اس طیارے میں ایک سازش کے تحت ہی سوار کرایا گیا تھا یہ سب کچھ ملٹری کے قواعد و ضوابط کے خلاف عمل تھا کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں جرنیلوں کا ایک ساتھ ایک ہی جہاز میں سوار ہونا خلاف ضابطہ تھا۔
امریکی ترجمان ولسن صدر محمد ضیاء الحق کو اپنے قومی ہیرو اور عظیم شخصیات میں شمار کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اب تک دنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں میں بہادر ترین انسان تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے روس کے شدید اور بے انتہا دباؤ کی مزاحمت کی جو روس نے افغان مجاہدین کا ساتھ چھوڑنے کے لئے اُن پر ڈالا۔ اُنہوں نے روسی ریچھ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس حد تک مقابلہ کیا کہ اُس روسی ریچھ کو آنکھ جھپکنا پڑی۔
سی آئی اے کا مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کوئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیں تھی۔ نہ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ مغرب خصوصاً امریکہ کو اُس دن سے ڈرنا چاہئے جب پاکستانی فوج میں اتفاقاًجنرل ضیاء الحق سے ملتا جلتا کوئی اور جنرل نہ آ جائے۔ تب اُن کی ترش روئی اور رعونت کا کیا بنے گا جبکہ پاکستان کو مکمل طور پر تباہ کرنا کسی کے بس میں نہیں البتہ آپ اس کو اندر سے کھوکھلا کر سکتے ہیں۔ وہ مزید لکھتا ہے آپ لوگوں کو اپنی قسمت کے ستاروں کی خوش بختی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نامی کوئی اور جرنیل آج موجود نہیں ہے۔
بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سوویت یونین نے ایک اور تباہ کن فیصلہ کیا اُس نے جنگ جیتنے کے لئے ایک لاکھ فوجیوں کو اس کے برعکس رکھا جب وہ 1968ء میں چیکو سلواکیہ میں گیا تھا۔ اُس نے ڈیڑھ لاکھ مردوں کا استعمال کیا۔ اس میں بہت سی چیزوں کے ساتھ ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحد کو بند نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان مجاہدین کا گڑھ بن چکا تھا جبکہ مجاہدین کا مرکز پاکستان میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر تھا۔ ضیاء الحق نے ان مجاہدین کو قیادت فراہم کی۔ اور کامیاب حکمت عملی سے جنگ کو آگے بڑھایا۔ اگر یہ کسی کی بھی جنگ تھی تو یہ جنگ تھی ضیاء الحق کی۔ ضیاء الحق وہ شخص ہے جس نے 1980ء کی دہائی میں اس جنگ کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا وہ فیصلہ کن فیصلہ تھا اُس نے مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے مجاہدین کی سیاسی قیادت کو منظم کیا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ مجاہدین کے کسی گروپ یا (War Lord) کو کیا سامان فراہم کرنا ہے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں مجاہدین کی قیادت آئی ایس آئی (ISI) کرے گی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ آئی ایس آئی (ISI) کی کون سی ٹیم افغانستان جائے گی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ مجاہدین کیسے جنگ کو دریائے آمو کو پار کر کے سوویت وسطی ایشیا میں لے جائیں گے۔جنرل ضیاء الحق نے ہی فیصلہ کیا کہ کس وقت جنگ میں سٹنگر میزائل کا استعمال کریں گے۔ آپ کے خیال میں کیا یہ جنگ چارلی ولسن کی جنگ تھی؟ ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف اور صرف ضیاء الحق کی جنگ تھی۔ سعودی عرب نے بے تحاشا فنڈ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق 20 ملین ڈالر افغان مجاہدین کے لئے پیش کیا۔ اس فنڈ کو اکٹھا کرنے میں اُس وقت کے گورنر ریاض اور موجودہ بادشاہ سلمان کے علاوہ ایک اور سعودی باشندہ بھی تھا جس کا نام تھا اسامہ بن لادن۔
مجاہدین اور افغان عوام جنرل ضیاء الحق کے اس قدر عقیدت مند اور احسان مند تھے کہ اُن میں اس سطح کی خوش اعتمادی تھی کہ وہ برملا کہتے تھے کہ ضیاء الحق اکثر و بیشتر ہمارے ساتھ میدان جنگ کے اگلے مورچوں میں بنفسِ نفیس موجود ہوتا تھا۔ جب جنیوا سمجھوتے کے بعد کسی اخبار نویس نے جنرل ضیاء الحق سے استفسار کیا کہ اب جبکہ روسی فوجیوں کی واپسی اور افغانستان کی آزادی چند ہی دنوں کی بات ہے تو آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔ جس کا جواب جنرل صاحب نے یہ دیا کہ میری اس وقت سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں پل چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نفل شکرانہ ادا کروں لیکن شہادت نے اُن کو اس کی مہلت نہ دی۔ 1990ء میں جب مجاہدین کی اسلامی حکومت قائم ہو چکی تو میں نے اُن کی جانب سے پل چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نفل ادا کئے۔ اُس وقت مرد و زن اور بچوں کا ایک کثیر مجمع اکٹھا ہو گیا۔ وہ سب رو رہے تھے اور شہید صدر کے لئے دُعائے مغفرت کر رہے تھے۔
ضیاء الحق کے شخصی کردار کے محاصل میں یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ نے اُنہیں وسیع القلبی کی نعمت سے نوازا تھا۔ اس کے ساتھ برداشت، استقامت، اور صبر بھی اُن کی طبیعت میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے 11 سالہ طویل اقتدار کے دوران اُنہوں نے جناب بھٹو کے متعلق صرف ایک مرتبہ اتنا کہا تھا کہ ”مسٹر بھٹو نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے“ میں ضیاء الحق کے ناقدین اور مخالفین سے درخواست کرتا ہوں کہ اس ایک مختصر سے فقرے کے علاوہ کوئی اور واقعہ یا موقع اُن کے علم میں ہو تو مجھے ضرور مطلع کریں۔ جنرل ضیاء الحق اپنے تمام دکھ درد اپنے سینے میں سمیٹنے اور سنبھالنے کا ہنر جانتے تھے۔ اُنہوں نے کبھی کسی سے کسی کے متعلق کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کی۔
صلہئ شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان کا علاقائی ترقی کا وژن‘ افغان صورتحال

ملک منظور احمد
مقام اطمینان ہے کہ طالبان نے بغیر کسی کشت وخون جنگ وجدل اورسرپھٹول کے کابل سمیت پورے افغانستان پر قبضہ کرلیاہے۔ افغان سابق صدر اشرف غنی اطلاعات کے مطابق تاجکستان میں گویا پناہ حاصل کرچکے ہیں۔ مستقبل میں افغانستان کامنظر نامہ کیا بنتاہے اور امریکہ جو20 سال تک وہاں موجود رہا ہے اب اس نئی تبدیلی کو کس نظر سے دیکھے گا یہ سب بعد کی باتیں ہیں تاہم امریکی صدر جو بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ افغان قیادت کو اکٹھا ہو کر افغان جنگ خود لڑنی ہے۔لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ جوں جوں طالبان افغانستان میں آگے بڑھ رہے ہیں افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ تیز تر ہو تا چلا رہا جا رہا ہے۔
افغان حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کی جانب سے پاکستان پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور پاکستان پر افغان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے سمیت پاکستان سے بڑی تعداد میں جنگجو ؤں کے افغانستان میں داخلے کے مضحکہ خیز الزامات بھی عائد کیے ہیں جن کو پاکستان نے سختی کے ساتھ مسترد کیا ہے۔یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ مغربی ذرائع کی رپورٹس کے مطابق افغان طالبان اس وقت افغانستان کے 65سے 70فیصد علاقے پر قابض ہو چکے ہیں۔اور ان کو اس وقت پاکستان سے کسی قسم کی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔امریکہ کا رویہ اس سلسلے میں ابھی تک کافی بہتر محسوس ہو رہا ہے اور امریکہ نے پاکستان پر اس حوالے سے کوئی براہ راست الزامات عائد نہیں کیے ہیں حالیہ دنوں میں امریکی وزیر دفاع جنرل لا ئڈ آسٹن نے آرمی چیف جنرل قمر جا وید باجوہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں افغا ن صورتحال کے علاوہ،پاک امریکی باہمی تعلقات پر بھی تفصیلی اظہار خیال کیا گیا اور امریکہ کے وزیر دفاع کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے جو کہ یقینا پاکستان کے لیے بھی ایک خوش آئند بات ہے۔لیکن پاکستان کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے امریکہ خطے میں بھارت کو اپنا سٹریٹیجک پا رٹنر بنانے کا فیصلہ کر چکا ہے اور اب امریکہ کے ساتھ پہلے جیسے تعلقات کی امید نہیں رکھی جاسکتی ہے۔پاکستان کا روز اول سے افغانستان کے حوالے سے موقف یہی رہا ہے کہ افغانستان کا امن پاکستان کا امن ہے۔
پاکستان نے حالیہ برسوں میں اپنی توجہ علاقائی سیاست سے تبدیل کرکے علا قائی معیشت اور روابط پرمرکوز کر لی ہے پاکستان علا قائی ممالک کے ساتھ تجارت بڑھا کر اپنے لیے ایک مستحکم معاشی مستقبل چاہتا ہے اور پالیسی کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے افغانستان میں امن کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔افغانستان میں امن ہونے سے پاکستان وسطی ایشیا ئی ریاستوں تک براہ راست رسائی حاصل کر سکے گا اور تعطل کا شکار کئی منصوبے بھی مکمل ہو سکیں گے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور چین بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک منصوبوں کو افغانستان تک توسیع دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اگر افغانستان میں امن ہو گا تو یہ منصوبے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکے گے اور افغانستان کی ترقی اور جنگ سے تباہ حال معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو ں گے۔پاکستان کو بھی افغان امن سے فائدہ ہی ہے نقصان کوئی نہیں ہے۔
افغان امن پاکستان کو بھی متعدد نئی ما رکیٹوں تک رسائی دے گا۔یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ غربت اور عدم استحکام ہی انتہا پسندی کی بنیاد ہے اور اگر افغانستان میں یہ عوامل موجود رہتے ہیں تو افغانستان میں مزید نئی دہشت گرد تنظیمیں جنم لیں گی جو کہ پاکستان کی سیکورٹی کے لیے بھی خطرہ ہو ں گی اور تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیموں کے دوبارہ احیا کا خطرہ موجود ہے جس کا کہ پاکستان کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔پاکستان نے افغان امن عمل کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور پھر ان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والا دوحا معاہدہ،پاکستان کی ان کا وششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔نہ صرف یہ بلکہ اس کے بعد انٹرا افغان مذاکرات شروع کروانے اور افغان حکومت اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا پاکستان کی اہم ترین کامیابیاں ہیں۔پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مل کر امن کے لیے پاکستان افغانستان ایکشن پلان بھی مرتب کیا جو کہ پاکستان کی افغانستان میں امن کے لیے سنجیدہ کو ششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
افغان حکومت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان خطے کو روابط اور تجارت کے ذریعے اوپر اٹھانا چاہتا ہے لیکن یہ خواب ایسی صورت میں ممکن ہے جب افغانستان میں امن ہو کیونکہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے۔حالیہ کچھ دنوں میں افغان حکومت اور بھارت کی جانب سے سوشل میڈیا پر منظم مہم باعث تشویش ہے جس کو بے نقاب کیا جانا چاہیے اور اس مہم کا منظم انداز میں جواب دینا بھی بہت ضروری ہے۔افغان جنگ میں ناکامی کا ملبہ نہ امریکہ اور نہ ہی افغان حکومت پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرے۔ ان کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی نا کامیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔افغانستان میں سیاسی حل کے ذریعے جنگ کا خاتمہ مشکل دکھائی دے رہا ہے،لیکن بہر حال پاکستان کو اس سلسلے میں آخری دم تک اپنی کوششیں جاری رکھنا ہو ں گی۔ سب سے آخر میں ایک ہی بات ہے جو کہ اس تمام صورتحال میں پاکستان کا بنیادی مفاد ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کا امن ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

برآمدات 50 ارب ڈالر کرنے کی منصوبہ بندی مکمل

میدان پاکستان اشیاء دنیا میں پہنچانے کی ذمےداری قونصلرز کو سونپی گئی
معمول کی برآمدات کے ساتھ غیر روایتی اشیاء کی ایکسپورٹ بڑھائی جایگئ

ٹیکسٹائل،لیدر،سپورٹس،پھلوں کی برآمد پر خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ
23ممالک سے فری ٹریڈ معاہدوں کا از سرِ نو جائزہ لیا گیا

گزشتہ مالی سال کے دوران 25ارب ڈالرز کی برآمدات ہوئی تھیں
سروس سیکٹر میں مزید 2 ارب ڈالر اصافہ ھو گا ملتان ( جنرل رپورٹر)

افغانستان میں فوری طور پر نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے، سلامتی کونسل

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عالمی برادری کو یکجا ہو کر افغانستان کو دہشت گردی کے لیے بنیاد بننے سے بچانے کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں فوری طور پر نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے، جس میں خواتین کو بھی برابر حصہ ملے۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جہاں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ متحد ہو کر افغانستان کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے بچائیں۔

سلامتی کونسل کے 15 ارکان کے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری بیان کے مطابق سلامتی کونسل نے کہا کہ عالمی برادری یقینی بنائے کہ افغانستان دہشت گردی کے لیے مرکز نہ بن جائے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اجلاس کو بتایا کہ ‘افغانستان میں عالمی دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے دنیا کو متحدہ ہونا چاہیے’۔

بیان میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل نے ‘افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات یقینی ہو کہ سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف حملے یا دھمکی کے لیے استعمال ہو’۔

سلامتی کونسل نے کہا کہ ‘طالبان اور نہ ہی دوسرا کوئی افغان گروپ یا کسی کو بھی انفرادی طور پر ملک کے اندر دہشت گردی کی سرگرمی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے’۔

افغان صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے اور طالبان کی جانب سے کابل میں قبضے کے بعد ہونے والے ہنگامی اجلاس کو انتونیو گوتریس نے بتایا کہ ‘افغانستان کو دوبارہ کبھی دہشت گردوں تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور استعمال ہونے بچانے کو یقینی بنانے کے لیےعالمی برادری کو متحد ہونے پڑے گا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ یکجا ہوں، مل کر کام کریں اور اتحاد کا ثبوت دیں’۔

دنیا کے تمام ممالک پر زور دیتےہوئے انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان میں عالمی دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کریں اور ضمانت دیں کہ بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے’۔

اجلاس کے دوران امریکا نے انتونیو گوتریس کے بیان کو سراہا اور امریکی سفیر لینڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ‘ہم تمام فریقین سے دہشت گردی روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم سب اس کو یقینی بنائیں کہ افغانستان اب کبھی بھی دہشت گردی کی بنیاد نہ بنے’۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے، دنیا دیکھ رہی ہے، ہم افغانستان کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔

سلامتی کونسل کے مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا کہ کشیدگی کو فوری ختم کردیا جائے اور ‘قومی مصالحتی عمل کے ذریعے افغانوں کی سربراہی میں حل نکالا جائے’۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ وہاں ایک نئے حکومت بنائی جائے ‘جس میں اتحاد، اشتراک اور سب کی نمائندگی ہو اور اس میں خواتین کو مکمل طور پر برابر حصہ دیا جائے’۔

سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران اقوام متحدہ میں افغانستان کے سفیر غلام ایم اسحٰق زئی نے ارکان پر زور دیا کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔

چین نے کہا کہ وہ افغانستان میں اگلی حکومت کے ساتھ دوستانہ اور تعاون کے تعاون کے لیے تیار ہے۔

روس نے تصدیق کرتےہوئے کہا کہ نئی انتظامیہ کے ساتھ رابطہ ہوچکے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ بھارت کی صدارت میں دوسری مرتبہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔

لینڈ سلائیڈنگ سے بند بابو سر ناران روڈ 5 میں سے 2 مقامات پر بحال کردی گئی

ضلع دیامر میں گزشتہ روز سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے بند بابو سر ناران روڈ 5 میں سے 2 مقامات پر بحال کردی گئی ہے، تتہ پانی کے مقام پر بند شاہراہِ قراقرم چھوٹی گاڑیوں کے لیے بحال کی گئی ہے۔ 

 گزشتہ روز دیامر کے متعدد دیہاتوں تھک دیونگ، جل تھک نیاٹ ویلی میں سیلاب سے متعدد مکانات، فصلیں اور رابطہ سڑکیں متاثر ہوئی تھیں۔

لینڈسلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں سے شاہراہ بابوسر ناران 5 مقامات سے بند ہوگئی تھی جس سے مقامی افراد اور سیاح پھنس گئے۔

بابوسر ناران نیشنل ہائی وے کے 5 میں سے 2 مقامات کو بحال کردیا گیا ہے  اور روڈ کی بحالی کے لیے کام جاری ہے۔ ادھر تتہ پانی کے مقام پر بند شاہراہِ قراقرم چھوٹی گاڑیوں کے لیے بحال کردی گئی ہے۔

ملائیشیا کے وزیراعظم کابینہ سمیت مستعفی

ملائیشیا کے وزیر اعظم محی الدین یاسین نے 17 ماہ کے بعد کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیا ہے۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم محی الدین یاسین عہدہ سنبھالنے کے 18 ماہ سے بھی کم عرصے میں مستعفی ہو گئے ، ان کی کابینہ نے بھی استعفے دے دیئے ہیں۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم محی الدین یاسین آخری کابینہ اجلاس کے بعد نیشنل پیلس گئے جہاں انہوں نے بادشاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کیا جس کے بعد ملک کے بادشاہ عبداللہ رعایت الدین المصطفیٰ باللہ شاہ نے استعفیٰ منظور کرلیا۔

محی الدین یاسین گزشتہ سال یکم مارچ کو برسراقتدار آئے تھے۔ حالیہ مہینوں میں اکثریت سے محروم ہونے والے محی الدین یاسین کو سیاسی مشکلات کا سامنا تھا جس کے باعث انہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ نئی حکومت کس کی ہو گی یہ فوری طور پر واضح نہیں کیا گیا ہے۔

وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب اور چاروں صوبائی دارالحکومت کے پریس کلبز کی قیادت کا مشترکہ بیان

کمیٹی ممبران پی آئی او سہیل علی خان، منظورعلی میمن اورلاہورپریس کلب صدر ارشد انصاری ، فاضل جمالی صدر کراچی پریس کلب، عبدالخالق رند صدر کوئٹہ پریس کلب اور شکیل انور صدر ، انور رضا سیکریٹری نیشنل پریس کلب کی قیادت کی مشاورتی عمل میں شرکت

مشاورت کے بعد پریس کلبز کی قیادت نے پی ایم ڈی اے کے ذریعے ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے، صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تنخواہوں اور نوکری کے تحفظ کے اقدامات پر اتفاق

پی ایم ڈی اے کمیٹی اور پریس کلبز قیادت کا پی ایم ڈی اے پر مزید بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق

پی ایم ڈی اے میڈیا ڈویلپمنٹ کے لئے لارہے ہیں،آزادی صحافت اور اظہار رائے کامل یقین رکھتے ہیں۔

پی ایم ڈی اے کے تحت صحافی اور میڈیا ورکرز آئی ٹی این ای کی بجائے میڈیا کمپلنٹ کمیشن میں اپنے ایشوز لے جاسکیں گے،
21 روز میں میڈیا کمپلینٹ کمیشن شکایات پر فیصلہ کرے گا

تمام سٹیک ہولڈرز کو یقین دلاتے ہیں کہ میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگارہے،

تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق
صحافیوں کے لیے
کامیاب جوان پروگرام اور ہاؤسنگ سکیم میں میڈیا کو شامل کرنے کا عمل تیز کردیا گیا ہے،

غرور اور جھوٹ افغانستان میں شکست کی وجہ بنا ، برطانوی امریکی ماہرین ہمارے 86 بلین ڈالرز اور 20 سال ضائع ہوگئے ، انسپکٹر جون خان سوپکو کا اعتراف شکست

غرور اور جھوٹ افغانستان میں شکست کی وجہ بنا ، برطانوی امریکی ماہرین ہمارے 86 بلین ڈالرز اور 20 سال ضائع ہوگئے ، انسپکٹر جون خان سوپکو کا اعتراف شکست

نجاب میں 6ماہ کے دوران 6ہزار 954 خواتین اغوا،لاہور شہر سے ایک 1ہزار 609 خواتین اغواہوئیں ، ایک ہزار890خواتین زیادتی کاشکارہوئیں

۔پنجاب انفارمیشن کمیشن میں پنجاب پولیس کی طرف سے پبلک کئے جانیوالے تازہ ترین کرائم ڈیٹا میں انکشاف ہوا ہے کہ یکم جنوری 2021 سے 30 جون 2021 تک 6 ماہ کے

دوران صوبے میں 6 ہزار 954 خواتین اغواءہوئیں،سب سے زیادہ کیسز لاہور میں ریکارڈ ہوئےجن کی تعداد 1ہزار 609 ہے۔پولیس رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6ماہ کے دوران پنجاب میں ایک ہزار 890 خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔ لاہور میں سب سے زیادہ 249 خواتین کو

زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے 752واقعات ہوئے،لاہور میں سب سے زیادہ 116 کیسز سامنے ا?ئے۔ خواتین کے ساتھ تشدد کے 3 ہزار 721 جبکہ غیرت کے نام پر 107 خواتین کو قتل کیا گیا۔ گھریلو تشدد کے 325، کم عمری میں بچوں کی شادیوں

کے17اورچائلڈ لیبرکے23 واقعات ہوئے جبکہ پچھلے 6 ماہ کے دوران خواتین کو کام کرنے کی جگہ ہراساں کرنے کا ایک کیس بھی سامنے نہیں ا?یا۔ خواتین کےاغوا کے راولپنڈی میں 417، فیصل ا?باد میں 416، شیخوپورہ میں 323، ملتان میں 302، رحیم یار خان میں 267

، بہاولپور میں 256، اوکاڑہ میں 238، گوجرانوالہ 227، سرگودھا 216، مظفرگڑھ 119 اور قصور میں 217 کیسز رپورٹ ہوئے۔ غیرت کے نام پر گزشتہ 6 ماہ میں سب سے زیادہ خواتین رحیم یار خان میں قتل ہوئیں جن کی تعداد 10ہے ، فیصل ا?باد میں 8، سرگودھا 8 اور

گوجرانوالہ میں 7 خواتین قتل ہوئیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے لاہور کے بعد سب سے زیادہ واقعات گوجرانوالہ میں ہوئے جن کی تعداد 65 ہے جبکہ فیصل آباد میں 41، شیخوپورہ 54، قصور 33، ملتان 47، مظفرگڑھ30، راولپنڈی 32، بہاولنگر 24 اور ننکانہ میں 24 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

لیاقت پور ۔ ساہیوال کے مسیحی نوید کاشف پادری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ لیاقت پور کی مسیحی برادری کی عبادت گاہ چرچ پر شہر کے باآثر افراد نے میرج ہال بنا لیا ہے عدالتی فیصلے کے باوجود چرچ کی جگہ خالی نہیں کی جا رہی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے نوٹس لینے کا مطالبہ

لیاقت پور ۔ ساہیوال ۔ملتان ۔بہاولپور اور لیاقت پور کے پادریوں نوید کاشف ۔ طالب ۔ذکی منہاس ۔قمر الزمان ۔صفدر مسیح اور امتیاز مسیح نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ن لیگی چیرمین بلدیہ راشد رفیق چوہدری اور ان کے بھائی خالد رفیق چوہدری نے مبینہ جعل سازی سے ہماری عبادت گاہ چرچ کی ایک سو دو مرلہ جگہ اونے پونے داموں خرید کر وہاں رائل میرج ہال بنا لیا ہماری درخواست پر عدالت نے انکی خریداری ڈگری منسوخ کر دی مگر اس کے باوجود ہماری عبادت گاہ خالی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسیحی برادری وہاں عبادت نہیں کر سکتے انہوں نے بتایا کہ وہ بہت جلد میرج ہال کے لان میں اپنی عبادات کریں گے کسی ناخوشگوار واقعہ کی تمام ذمہ داری راشد رفیق چوہدری اور ان کے حواریوں پر عائد ہوگئی انہوں نے بتایا کہ ملک بھر کی مسیحی برادری پارلیمنٹ ہاؤس ۔پنجاب اسمبلی ۔ اور سینٹ کے باہر احتجاج کرے گئی انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا
خورشید بھٹی لیاقت پور