تازہ تر ین

جنرل محمدضیاء الحق، افغانستان کی آزادی کے محافظ (2)

اعجاز الحق
صدرضیاء الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس ”کابل“ کو فتح کر لیتا تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کے لئے قیام پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ انہی محب وطن سرفروشوں میں 17 اگست 1988ء کو سازش کا شکار ہونے والے C-130 طیارہ کے وہ سب سوار اور سالار بھی ہیں جنہوں نے اپنے دل رنگ لہو سے ارض پاکستان کی آبیاری کی۔
خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را
آج سے تقریباً 33 سال قبل جنرل ضیاء الحق اور ان کے قریبی رفقاء کار اور ہم خیال ساتھیوں کو جن میں جنرل اختر عبدالرحمن بھی شامل تھے، ایک گہری سازش کے ذریعے پہلے سے طے شدہ فضائی حادثے میں شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی عسکری قیادت کو منظر سے ہٹا دینا بہت بڑا قومی سانحہ تھا اس سازش کے تیار کرنے والے دماغوں نے اس بات کا خاص طور پر انتظام کیا تھا کہ وہ عسکری قیادت جو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر افغان جنگ لڑ رہی تھی اور جو افغان پالیسی چلا رہی تھی انہیں قومی منظر نامے سے ہٹا دیا جائے۔ جنرل اختر عبدالرحمان کو بھی اس طیارے میں ایک سازش کے تحت ہی سوار کرایا گیا تھا یہ سب کچھ ملٹری کے قواعد و ضوابط کے خلاف عمل تھا کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں جرنیلوں کا ایک ساتھ ایک ہی جہاز میں سوار ہونا خلاف ضابطہ تھا۔
امریکی ترجمان ولسن صدر محمد ضیاء الحق کو اپنے قومی ہیرو اور عظیم شخصیات میں شمار کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اب تک دنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں میں بہادر ترین انسان تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے روس کے شدید اور بے انتہا دباؤ کی مزاحمت کی جو روس نے افغان مجاہدین کا ساتھ چھوڑنے کے لئے اُن پر ڈالا۔ اُنہوں نے روسی ریچھ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس حد تک مقابلہ کیا کہ اُس روسی ریچھ کو آنکھ جھپکنا پڑی۔
سی آئی اے کا مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کوئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیں تھی۔ نہ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ مغرب خصوصاً امریکہ کو اُس دن سے ڈرنا چاہئے جب پاکستانی فوج میں اتفاقاًجنرل ضیاء الحق سے ملتا جلتا کوئی اور جنرل نہ آ جائے۔ تب اُن کی ترش روئی اور رعونت کا کیا بنے گا جبکہ پاکستان کو مکمل طور پر تباہ کرنا کسی کے بس میں نہیں البتہ آپ اس کو اندر سے کھوکھلا کر سکتے ہیں۔ وہ مزید لکھتا ہے آپ لوگوں کو اپنی قسمت کے ستاروں کی خوش بختی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نامی کوئی اور جرنیل آج موجود نہیں ہے۔
بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سوویت یونین نے ایک اور تباہ کن فیصلہ کیا اُس نے جنگ جیتنے کے لئے ایک لاکھ فوجیوں کو اس کے برعکس رکھا جب وہ 1968ء میں چیکو سلواکیہ میں گیا تھا۔ اُس نے ڈیڑھ لاکھ مردوں کا استعمال کیا۔ اس میں بہت سی چیزوں کے ساتھ ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحد کو بند نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان مجاہدین کا گڑھ بن چکا تھا جبکہ مجاہدین کا مرکز پاکستان میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر تھا۔ ضیاء الحق نے ان مجاہدین کو قیادت فراہم کی۔ اور کامیاب حکمت عملی سے جنگ کو آگے بڑھایا۔ اگر یہ کسی کی بھی جنگ تھی تو یہ جنگ تھی ضیاء الحق کی۔ ضیاء الحق وہ شخص ہے جس نے 1980ء کی دہائی میں اس جنگ کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا وہ فیصلہ کن فیصلہ تھا اُس نے مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے مجاہدین کی سیاسی قیادت کو منظم کیا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ مجاہدین کے کسی گروپ یا (War Lord) کو کیا سامان فراہم کرنا ہے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں مجاہدین کی قیادت آئی ایس آئی (ISI) کرے گی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ آئی ایس آئی (ISI) کی کون سی ٹیم افغانستان جائے گی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ مجاہدین کیسے جنگ کو دریائے آمو کو پار کر کے سوویت وسطی ایشیا میں لے جائیں گے۔جنرل ضیاء الحق نے ہی فیصلہ کیا کہ کس وقت جنگ میں سٹنگر میزائل کا استعمال کریں گے۔ آپ کے خیال میں کیا یہ جنگ چارلی ولسن کی جنگ تھی؟ ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف اور صرف ضیاء الحق کی جنگ تھی۔ سعودی عرب نے بے تحاشا فنڈ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق 20 ملین ڈالر افغان مجاہدین کے لئے پیش کیا۔ اس فنڈ کو اکٹھا کرنے میں اُس وقت کے گورنر ریاض اور موجودہ بادشاہ سلمان کے علاوہ ایک اور سعودی باشندہ بھی تھا جس کا نام تھا اسامہ بن لادن۔
مجاہدین اور افغان عوام جنرل ضیاء الحق کے اس قدر عقیدت مند اور احسان مند تھے کہ اُن میں اس سطح کی خوش اعتمادی تھی کہ وہ برملا کہتے تھے کہ ضیاء الحق اکثر و بیشتر ہمارے ساتھ میدان جنگ کے اگلے مورچوں میں بنفسِ نفیس موجود ہوتا تھا۔ جب جنیوا سمجھوتے کے بعد کسی اخبار نویس نے جنرل ضیاء الحق سے استفسار کیا کہ اب جبکہ روسی فوجیوں کی واپسی اور افغانستان کی آزادی چند ہی دنوں کی بات ہے تو آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔ جس کا جواب جنرل صاحب نے یہ دیا کہ میری اس وقت سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں پل چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نفل شکرانہ ادا کروں لیکن شہادت نے اُن کو اس کی مہلت نہ دی۔ 1990ء میں جب مجاہدین کی اسلامی حکومت قائم ہو چکی تو میں نے اُن کی جانب سے پل چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نفل ادا کئے۔ اُس وقت مرد و زن اور بچوں کا ایک کثیر مجمع اکٹھا ہو گیا۔ وہ سب رو رہے تھے اور شہید صدر کے لئے دُعائے مغفرت کر رہے تھے۔
ضیاء الحق کے شخصی کردار کے محاصل میں یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ نے اُنہیں وسیع القلبی کی نعمت سے نوازا تھا۔ اس کے ساتھ برداشت، استقامت، اور صبر بھی اُن کی طبیعت میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے 11 سالہ طویل اقتدار کے دوران اُنہوں نے جناب بھٹو کے متعلق صرف ایک مرتبہ اتنا کہا تھا کہ ”مسٹر بھٹو نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے“ میں ضیاء الحق کے ناقدین اور مخالفین سے درخواست کرتا ہوں کہ اس ایک مختصر سے فقرے کے علاوہ کوئی اور واقعہ یا موقع اُن کے علم میں ہو تو مجھے ضرور مطلع کریں۔ جنرل ضیاء الحق اپنے تمام دکھ درد اپنے سینے میں سمیٹنے اور سنبھالنے کا ہنر جانتے تھے۔ اُنہوں نے کبھی کسی سے کسی کے متعلق کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کی۔
صلہئ شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain