افغانستان میں امن کیلئے عالمی طاقتوں نے دوحہ میں سر جوڑ لیے

امن میں معاون ہیں جنگ میں نہیں ، پاکستان پر دباوڈالا جارہا ہے ہم نہیں گھبراتے ہماری نیت صاف ہے ، افغان حکومت نے بات کرنے سے بھی انکار کردیا، افغان بھائی سازشوں کو سمجھیں : شاہ محمود قریشی پاک افغان سرحد 5 روز بعد کھل گئی۔

مزاکرات میں امریکہ ، پاکستان، برطانیہ، یورپی یونین ، اقوام متحدہ ، چین ، ازنکستان ، طالبان کے نمائندے شریک۔

دفاع افغان فورسز کی ذمہ داری مزید 20 سال جنگ نہیں لڑینگے : جوبائیڈن نے ھاتھ کھڑے کر دیئے۔

 دوحہ (نیوز ایجنسیاں ) قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ، امریکا، چین، روس اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق دوحہ میں شروع ہونے والے مذاکرات میں امریکا، برطانیہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ، چین، پاکستان اور ازبکستان کے نمائندے اور سفارت کار شریک ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مذاکرات میں روس کے نمائندے تاحال نہیں پہنچے ہیں تاہم ان کی آمد متوقع ہے جبکہ افغانستان کی قومی کونسل برائے مذاکرات کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ اور حکومت وفد کے ہمراہ اجلاس میں موجود ہیں۔

اجلاس میں شریک ممالک اور نمائندوں کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ تاحال یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ طالبان کا کیا کردار ہوگااور ان کا نمائندہ دوحہ میں موجود ہے۔

قبل ازیں طالبان کو شرکت کی دعوت کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ہم آخری وقت میں ان سے رابطہ نہیں کر پائے اور منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ تاحال واضح نہیں ہیں کہ ان کو دعوت دی جارہی ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سفارت کاروں نے ہمیں بتایا کہ وہ مشترکہ بین الاقوامی منصوبہ تشکیل دینے کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں تاکہ جب بین الافغان امن عمل اور مذاکرات ہوں تو چیزوں کو واپس راستے پر لایا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ افغانستان میں تیزی سے خراب ہوتے ہوئے حالات کے بارے میں بھی مشترکہ لائحہ عمل طرز کا فیصلہ کرنا چاہتےہیں۔

نمائندہ خصوصی برائے افغانستان کا دورہ دوحہ

ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے جاری بیان کے مطابق افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق دعوت 10 اور 11 اگست 2021 کو دوحہ کے دورے پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ قطر کے خصوصی سفارت کار برائے انسداد دہشت گردی ڈاکٹر مطلق القہطانی کی دعوت پر نمائندہ خصوصی محمد صادق دوحہ میں افغانستان پر ہونے والے ریجنل کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ محمد صادق 10 اور 11 اگست کو ٹروئیکا پلس اجلاس میں بھی شریک ہوں گے جہاں ان کے ساتھ افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان بھی ہمراہ ہیں۔

دفترخارجہ نے بتایا کہ پاکستان ٹروئیکا پلس سے منسلک ہے، جس میں پاکستان کے علاوہ امریکا، روس اور چین شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ دوحہ میں یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب افغانستان میں حالات مسلسل دگرگوں ہورہے ہیں اور خاص کر امریکا اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد حالات میں تیزی سے تبدیلی آگئی ہے۔

ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان امید کرتا ہے کہ دوحہ اجلاس بین الافغان مذاکرات کی بحالی میں معاون ہوگا تاکہ پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کے لیے ایک سیاسی حل نکالاجائے اور افغانستان کے اندر اور پڑوسیوں کے ساتھ امن ہو۔

تقدیرکاکھیل

شفقت اللہ مشتاق
ملازمت اپنے آپ کو نوکر سمجھ کر کی جائے تو اس کا اپنا ہی مزہ ہے کیونکہ نوکری محنت ٗ وفاداری اور اطاعت کی عملی تفسیر ہوتی ہے۔ محنت سے خلق خدا کی خدمت کی جاتی ہے، وفاداری کو غالبؔ نے یہ کہہ کر زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے۔ مولانا روم کی اس حکایت سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ شیر ٗ چیتا اور لومڑی شکار پر گئے اور انہوں نے مل کر ہرن، نیل گائے اور خرگوش کا شکار کیا۔ اس کے بعد شیر نے چیتے سے کہا کہ آپ ان کی تقسیم کریں۔ چیتے نے فیصلہ دیا کہ نیل گائے تنومند ہے اور آپ شیرہیں اور بادشاہ ہیں،لہٰذا گائے آپ خود اپنے کھانے کے لئے استعمال کریں۔ جبکہ ہرن مجھے دے دیا جائے اور خرگوش لومڑی کے حوالے کر دیا جائے۔ اب یہ فیصلہ چیتے کے منہ سے نکلنا تھا کہ شیر سیخ پا ہو گیا اور اس نے غصے کے عالم میں چیتے کو ایسا زوردار طمانچہ رسید کیا کہ چیتا بیچارہ دور جا گرا۔ کچھ دیر بعد شیر جوش و جذبات کی دنیا سے واپس آیا تو اس نے اپنی گرجدار آواز میں لومڑی سے کہا کہ آپ اس کا فیصلہ کریں۔ لومڑی بولی! حضور یہ تقسیم بڑی آسان اور سادہ ہے۔ آپ بادشاہ ہیں آپ سے زیادہ ان کا کون مستحق ہو سکتا ہے۔ ہماری تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ آپ ان شکار کئے گئے جانوروں میں سے ایک کو ناشتہ میں استعمال کریں، دوسرے سے دن کا کھانا تناول فرمائیں اور تیسرے کو شام کے کھانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ شیر اس کی اس تقسیم پر بڑا خوش ہوا اور اس کی پُرحکمت تقسیم کو زبردست خراج تحسین پیش کیا البتہ اس نے لومڑی سے دریافت کیا کہ تو نے یہ دانائی اور فراست کہاں سے پائی۔ اس نے کہا کہ کہیں دور سے نہیں چیتے کے انجام سے۔
بادشاہ لومڑی کی اس بات پر بہت خوش ہو چکا تھا کہ لومڑی میرے علاوہ کائنات کی کسی چیز کا استحقاق نہ سمجھتی ہے۔ یہی سوچ ہے جس کو میرے نزدیک تابعداری اور وفاشعاری کہتے ہیں۔ جس سے خوش ہو کر بادشاہ نے سارے جانور لومڑی کوتحفہ میں دے دیئے۔ مولانا روم نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ کائنات ارضی میں جس نے اپنا استحقاق بتایا ہے، چیتے کی طرح ذلیل و رسوا ہوا ٗ جس نے اپنے سے طاقتور چیز کا ہی حق سمجھا وہ نوازا گیا اور سب سے طاقتور ہستی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جس کی اطاعت اور تابعداری بندہ مومن کا طرہ امتیاز ہے۔
کاش ہم سب کی سوچ اور فکر اس سانچے میں ڈھل جائے کہ اے اللہ تو ہی تو ہے ٗ تیرے سوا کسی کی کوئی حیثیت نہیں یقینایہی سوچ ادنیٰ کو اعلیٰ اور کمزور کو طاقتور بنا دیتی ہے اور دشمن کو دوست اور دہشت گرد کو امن پسندی، محبت اور بھائی چارے میں بدل دیتی ہے۔
مجھے جانا پیر محل تحصیل کمالیہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ تھا اور چلا مجاز مقدس کی خوبصورت اور روح پرور بستیوں میں گیا۔ خیر میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ کانٹوں سے بچ کر پھولوں پر پہنچ گیا۔ کچھ اس قسم کی میری نوکری کے 5 سال کی کہانی ہے۔ جب میں فیصل آباد میں سپیشل جوڈیشنل مجسٹریٹ کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ میری پھانسی گھاٹ پر ڈیوٹی لگا دی گئی، پھانسی گھاٹ کے لفظ کے ساتھ خوف و ہراس اور سراسیمگی کا احساس جڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ موت جہاں بھی ہو جس حالت میں بھی ہو اس کا بڑا خوف ہوتا ہے۔ پاکستان میں پھانسی گھاٹ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور یہ پھانسی پورے پاکستانی معاشرہ کیلئے سوالیہ آج تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ پھانسی کی کوکھ سے ایک کردار منظرعام پر آتا ہے، جس کو تارا مسیح کہتے ہیں۔ اتنا بدنام شاید پھانسی کا حکم جاری کرنے والا نہ ہوا ہو ٗ جتنا تارا مسیح۔ میں نے بتایا کہ جب مجھے یہ آرڈر ملا کہ میں بطور مجسٹریٹ پھانسی کی نگرانی کروں گا تو میرے تو ہاتھ پاؤں سُن ہو گئے۔ میں پریشان ہو گیا کہ کہیں یہ لوگ ازراہ تفنن مجھے بھی تارا مسیح نہ کہنا شروع کر دیں۔ بات ہو رہی تھی پھولوں تک پہنچنے کی تو خیر میں نے اس فرض منصبی کو انتہائی تحمل، برداشت اور قوت ارادی سے نبھایا اور سو کے لگ بھگ پھانسیوں کو بچشم خود دیکھا۔میری آنکھوں کے سامنے ایک ہی دن میں چھ افراد کو پھانسی بھی میری نگرانی میں دی گئی۔ اس سے جہاں مجھ میں حوصلہ اور ہمت پیدا ہوتی وہاں مجھے بے شمار معاشرتی مسائل، جیل کلچر، نظام میں خامیوں، تقدیر کی کارفرمائیوں اور پولیس کی چیرہ دستیوں سے بھی آگاہی ہوئی۔ میں باقاعدہ چونکہ ادیب نہ ہوں اس لیے قلم اٹھانے سے کتراتا بھی رہا اور Avoid کرتا رہا کیونکہ ہر تحریر عوام کی نظروں سے گزرتی ہے اور عوام سے بہتر میرے نزدیک کوئی جج نہ ہے۔ مجھے خوف تھا کہ اچھا خاصا لوگ مجھے باذوق سمجھتے ہیں کہیں اندر کا نالائق اور بے ذوق انسان نکل کر آشکارا نہ ہو جائے اور ہم اس جہان رنگ و بو میں بے آبرو و رسوا نہ ہو جائیں۔ لیکن دماغ انسانی بدن میں بڑی اہم شے ہے۔ اس نے مشورہ دیا کہ اس معاشرے کو آپ یہ ثابت نہ کریں کہ آپ ادبی ذوق نہیں رکھتے بلکہ آپ ان ذہنوں میں پنپنے والے ان سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کریں کہ پھانسی صبح کے وقت ہی دی جاتی ہے۔ مجرم پھانسی کے پھندے تک کیسے جاتا ہے۔ اس وقت اس کے جذبات و احساسات کیا ہوتے ہیں، وہ اس منزل تک کیسے پہنچتا ہے، ان کو مجرم بنانے میں ان کا اپنا ٗ اس کے والدین، دوست احباب یا سارے معاشرے کا عمل دخل کس قدرہوتا ہے۔ اگر ان تمام پہلوؤں پر غور کرلیاجائے تو دنیا میں نہ کوئی قتل ہو اور نہ پھانسی چڑھے۔ معاشرے میں ہر طرف امن ہی امن ہو۔ سب لوگ آپس میں محبتیں بانٹیں اور خوشیاں بکھیریں۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭

معیشت کے استحکام کا طریقہ

ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان کی معیشت کے حوالے سے جہاں خدشات موجود ہیں وہیں پر معیشت کے حوالے سے اچھی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں،رواں مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں پاکستان کی برآمدات 2.36ارب ڈالر رہی ہیں جو کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ہونے والی برآمدات سے 17.3فیصد زائد ہیں۔یہ اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد یہ امید ہوئی ہے کہ پاکستان مالی سال 2021ء اور 2022ء کے دوران اپنی برآمدات میں خا طر خواہ اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گااور اسی تناظر میں اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان نے پاکستان کے رواں مالی سال کے لیے برآمدات کے ہدف پر نظر ثانی کی ہے اور اب گڈز اور سروسز ملا کر پاکستان کے لیے برآمدات کا ہدف 39سے 40ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ پاکستان کی رواں سال گڈز ایکسپورٹ 31ارب ڈالر جبکہ سروسز کی برآمدات 7.5ارب ڈالر رہیں گی۔واضح رہے حکومت نے رواں مالی سال کے لیے اس سے قبل برآمدات کا ہدف 35ارب ڈالر مقرر کیا تھا جس میں حکومت کو توقع تھی کہ 7ارب ڈالر کی سروسز جبکہ 27سے 28ارب ڈالر کی اشیا ء پاکستان سے برآمد کی جا ئیں گی۔گزشتہ برس پاکستان نے 25.3ارب ڈالر کی گڈز جبکہ 6ارب ڈالر کی سروسز برآمد کیں تھیں۔ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں تین ارب ڈالر کی مشینری درآمد کی گئی ہے،اور ماہرین کے مطابق اگر برآمدی شعبے میں ایک ارب ڈالر کی مشینری استعمال کی جائے تو اس سے برآمدات میں 2ارب ڈالر کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے توتین ارب ڈالر کی مشینری کے حساب سے پاکستان کی برآمدات میں 6ارب ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔اگر واقعی پاکستان رواں برس 40ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کرتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے ایک بہت ہی بڑی کامیابی اور پاکستان کی معیشت کے لیے ایک ٹرننگ پوا ئنٹ ثابت ہو سکتا ہے۔40ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف یقینا ایک مشکل ہدف ہے اور اس ہدف کی تکمیل پاکستان کو اور پاکستان کے برآمد کنندگان کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔پاکستان کی معیشت کا مستقبل صرف اور صرف برآمدات سے ہی وابستہ ہے اور برآمدات بڑھا کر ہی پاکستان اپنی معیشت کو مضبوط کر سکتا ہے۔کاروباری ذرائع کے مطابق پاکستان کی کمپنیوں کو 10ہزار مو ٹر سائیکلوں کی برآمد کا آرڈر ملا ہے جو کہ ایک بڑا آرڈر ہے اور اس سے قبل کسی بھی پاکستانی کمپنی کو اتنا بڑا آرڈر نہیں ملا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق رواں سال پاکستان میں 10لاکھ موٹر سائیکلوں کی پیدا وار متوقع ہے جو کہ برآمد بھی کی جا ئیں گی کئی موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیاں پاکستان میں سپیئر پارٹس بنانے کے حوالے سے بھی دلچسپی کا اظہا کر رہی ہیں۔ حکومت کو ان کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے کہ پاکستان اس شعبے میں برآمدات بڑھا سکے۔ یہ اس بات کی نشان دہی ہے کہ ٹیکسٹائل کے شعبے کے علاوہ بھی پاکستان دیگر شعبوں میں برآمدات کی جانب بڑھ رہا ہے جو کہ معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔اگلے برس سے پاکستان میں سمارٹ فونز کی تیاری اور ان کی برآمد شروع ہونے کی امید ہے اور اس کے ذریعے بھی پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے دی جانے والی ٹیرف سکیم نے بھی پاکستان میں کاروباری شعبے میں بہتری لانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اس حوالے سے حکومت اور اسٹیٹ بینک دونوں کی تعریف کی جانی چاہیے۔اس سکیم کے تحت کارخانوں کو نہایت ہی آسان شرائط اور نہایت ہی کم پالیسی ریٹ پر قرضے دئے گئے ہیں جن کو ایکسپورٹ سے متعلقہ مشینری کی درآمد میں استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ کاروباری شعبے کو دی جانے والی مراعات کو جا ری رکھا جائے اور یہ سلسلہ ختم نہ ہو تاکہ پاکستان کی معیشت اور برآمدات کو جو مومینٹم حاصل ہو ا ہے نہ صرف اسے برقرار رکھا جائے بلکہ مزید تیز بھی کیا جائے۔ٹیکسٹائل روایتی طور پر پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑی برآمدات کا شعبہ رہا ہے لیکن اس شعبے میں بہتری کی بہت ضرورت ہے ضرورت اس بات کی ہے رواں برس کپاس کی فصل پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ پاکستان کوباہر سے کپاس درآمد کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کی سالانہ ضرورت ڈیڑھ لاکھ ٹن کپاس کی ہے جو کہ برآمدات بڑھنے کی صورت میں مزید بڑھے گی لیکن گزشتہ سال پاکستان میں صرف 90ہزار ٹن بیلز کپاس پیدا ہو ئی جو کہ تاریخی طور پر کم ترین سطح پر ہے۔
کسانوں کو کپاس کی فصل کی پیدا وار بڑھانے کے لیے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اورحکومت کے تعاون کی بھی۔ اسی سے پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت بھی مستقبل میں برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اب ہمیں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنی صنعت کو ڈھالنے کی ضرورت ہے۔موجودہ دور برانڈز کا دور ہے اور ہمیں بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان کا صنعت کاراپنی ٹیکسٹائل مصنوعات کی بہتر برانڈنگ کرے اس سے بھی پاکستان اس شعبے میں برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔اس کے ساتھ فارماسیوٹیکل بھی ایک ایسا شعبہ ہے جو کہ پاکستان کو برآمدات کے حوالے سے بہت سپورٹ دے سکتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کی فارما ایکسپورٹس 28فیصد اضافے کے ساتھ 370ملین ڈالر رہی ہیں لیکن اس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔اس شعبے کے حوالے سے ضرورت اس بات کی ہے کہ خام مال زیادہ سے زیادہ پاکستان سے ہی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔درآمدی خام مال پر انحصار میں کمی لا ئی جائے۔انشا ء اللہ اگر حکومت اسی طرح صنعت کی مدد کرتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ایک بڑا برآمدی ملک اور دنیا کی ایک بڑی مضبوط معیشت بن نہ سکے۔انشا اللہ العزیز
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭

وزیر اعظم پاکستان۔سستا ترین ملک

میاں انوارالحق رامے
حکومت کے جید وزیروں اور مشیروں نے غیر مستند اعدادوشمار دیکھا کر پاکستان کو سستا ترین ملک قرار دینے کی جسارت کی ہے۔ اگر صاحب فکر و نظر نمائندے اس ویب سائٹ کو مستند مانتے ہیں باقی تلخ حقیقتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر بیان بازی کا بھی شوق پورا کرلیں۔ پاکستان افراط زر یا مہنگائی کے لحاظ سے دنیا میں 18 نمبر پر جگمگا رہا ہے اس ویب سائٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا 6 واں خطرناک ملک ہے اس ویب سائٹ کے مطابق پاکستان غیر محفوظ ملک ہے اور رہنے کے قابل نہیں ہے۔ شہریوں کو بلا روک ٹوک جاں و مال کے شدید خطرات لا حق ہیں۔ غریب عوام کی بد دعاؤں سے بچنے کیلئے ضروری ہے وزیر اعظم کو درست اعدادوشمار پیش کیے جائیں تاکہ وہ غریبوں کی مسلسل آہ و بقا کو سن کر اس کا مداوا بھی کرسکیں۔ حکومت پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ورلڈ بنک کے اعدادوشمار پر بھی غور و فکر کرنے کی عادت ڈالے۔ ورلڈ بینک کے ایک تخمینہ کے مطابق غربت کی شرح 4.4سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہو گئی ہے۔ ڈالر کی بنیاد پر قوت خرید کو پیمانہ بنایاگیا ہے۔ پاکستان میں 12.5 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں غربت کا تناسب 39.3 فیصد ہے نچلے متوسط طبقے کی یومیہ آمدنی 3.2 ڈالر ہے۔ متوسط طبقے کی آمدنی 5.5 ڈالر ہے۔حکومت کے اپنے سرکاری ادارے کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق انتہائی کسمپرسی کا شکار خاندانوں کی تعداد 7.24 فیصد سے بڑھ کر 11.94 فیصد ہو گئی ہے۔ غذائی عدم تحفظ کا شکار(آبادی کی شرح)16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ معاشی صورت حال میں بہتری والے گھرانوں کی شرح 16.48فیصد سے کم ہو کر 12.7 فیصد رہ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے معیار زندگی ماپنے کی پیمانے کے حوالے سے پاکستان کا نمبر154 واں ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ 153 ممالک کا معیار زندگی پاکستان سے بہتر ہے۔ یو این ڈی پی(UNDP) 2021کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے استحصالی طبقات قانون اور پالیسیوں میں خامیوں کی بدولت زیادہ فوائد جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔غریب اور لاچار کی سرکاری سطح پر کسی بھی ادارے میں شنوائی نہیں ہے۔ عوام الناس کیلئے صحت کارڈ کی سہولت قابل تعریف ہے۔ پولیس ریفارمز اور ادارہ جاتی اصلاحات ابھی تشنہ تکمیل ہیں۔ پاکستان میں صرف معاشی بنیادوں پر ہی خلیج وسیع نہیں ہو رہی بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں امیر و غریب کے درمیان فرق و امتیاز بڑھ رہا ہے پاکستان میں غریب آبادیوں کے جنگل اُگے ہیں جن میں پانی گیس بجلی اور نکاسی آب کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ غریب بستیوں کے صحرا میں پوش اور جدید بستیوں کے نخلستان وجود میں آ گئے ہیں ملک کے مقتدر ادارے بھی ہاؤ سنگ سیکٹر بنانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔
پاکستان کے عوام کی بد قسمتی ہے ہر صاحب اختیار اپنے لیے مال و دولت جمع کرنے میں مصروف ہے اور لالچ اور ہوس کی سب حدوں کو عبور کر لیتے ہیں‘ اپنے لیے پلاٹوں کی بندر بانٹ کو قانونی جواز فراہم کرلیتے ہیں۔ معاشرے کے سبھی بااثر طبقات اور اداروں کے سربراہ قانون کی نزاکتوں سے استفادہ کرتے ہوئے سرکاری زمینوں پر قابض ہونا اپنا خصوصی استحقاق سمجھتے ہیں۔انقلابی اور تبدیلی کے مدعی وزیراعظم سے غریب عوام کی استدعا ہے ملک کی اشرافیہ جس میں نوکر شاہی بھی شامل ہے کے کل پرزوں پر سرکاری پلاٹ حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جائے۔جس طرح عوامی نمائندوں پر پلاٹ حاصل کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ ملک بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر جو بڑی بڑی افسران کی عالی شان رہائش گاہیں ہیں ان کو فی الفور ختم کرکے چھوٹے ملازمین کیلئے سرکاری رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں۔ بڑی رہائش گاہیں عمومی طور افسران کے دماغوں کو رعونت سے بھر دیتی ہیں وہ خدمت گار بننے کی بجائے اپنے آپ کو حکمران سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ دستور پاکستان نے وزیر اعظم کو پانچ ایڈوائزر مقرر کرنے کی اجازت دی ہے یہ اجازت بھی مشروط ہے اگر وزیر اعظم کو کسی ماہر کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی اور تقرری کے بغیر قومی کام میں رکاوٹ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس نقصان سے بچنے کیلئے وزیراعظم کو نا گزیر حالات میں مشیر مقرر کرنیکی اجازت ہے اسلامی تاریخ کے ماہر سیاسی فلسفی علامہ ابن خلدون نے مشیروں کی تقرری کے اصول بیان کیے ہیں۔
مشیروں کے سیاسی اور معاشی مفادات مشورہ لینے والے سے وابستہ نہیں ہونے چاہئیں۔ اب مشیران عالی صفات کا کام صرف یہ ہے کہ وزیر اعظم کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی نوکری پکی کرنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ مشیروں کو کام ہے کسی ویب سائٹ کا سکرین شارٹ لیکر اس کو قوم کے سامنے خوشخبری بنا پیش کر دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کو ایسی بے بنیاد خوشخبریاں سامنے آنے کے بعد کسی قابل اعتماد ادارے سے تصدیق کروا لینی چاہیے۔ اگر حکومت پاکستان نے مہنگائی اور قیمتوں کا موازنہ دوسرے ممالک سے کرنا ہے تو لوگوں کی آمدن اور معیار زندگی کا موازنہ بھی عالمی معیار کے مطابق کیا جانا چاہئے ادھورا سچ ہمیشہ مغالطے اور غلط بیانی کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے ترنگ میں آکر اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ مہنگائی تو ترقی کی علامت ہوتی ہے مہنگائی سے سرسبز و شاداب جنت نظیر ہوائیں چلتی ہیں۔جنرل پرویز مشرف کی عادت تھی وہ ہمیشہ ملکی معاشی حالات کی ترقی کے پیمانے کو گاڑیوں اور موبائلوں کی خرید سے وابستہ کرتے تھے۔ لگتا ہے اس سے متاثر ہونے والے کئی فنکار میدان میں آ گئے ہیں۔ وہ معاشی ترقی کے پیمانے کو گاڑیوں کی خریدو فروخت سے وابستہ کر دیتے ہیں۔عوام کی قوت خرید بہت حد تک متاثر ہوئی ہے عام ضروریات زندگی اس کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ آٹا چینی گھی ادویات گیس بجلی کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں‘ جب تک بنیادی ضروریات زندگی انسانی پہنچ میں نہیں آ جاتی غریب آدمیوں کی زندگی اجیرن رہے گی۔ مہنگائی کی بدولت معیار زندگی کم سے کم ہوتا رہے گا‘مہنگائی کے علاوہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کو خون نچوڑا جاتا ہے۔سرکاری ٹیکس آمدنی کا بڑاذریعہ ان ڈائریکٹ ٹیکس ہوتے ہیں‘ جن کے منفی اثرات امیروں کی بجائے غریبوں پر زیادہ پڑتے ہیں۔یہاں حکومتوں وعدوں اور دعوؤں اورعوام کے ووٹوں کے حوالے سے ایک لطیفہ بے طرح یاد آرہاہے جو کچھ یوں ہے۔ایک لطیفے سنانے والاایک بادشاہ کے دربار میں لطیفے سنا رہا تھا بادشاہ سلامت خوش ہو کر انعامات کا اعلان کر رہے تھے۔ لطیفے سنانے والے نے اختتام محفل پرجب بادشاہ سے انعام طلب کیا توبادشاہ سلامت نے بھی کہا کہ آپ نے لطیفے سنا کر مجھ کو خوش کردیا اور میں نے انعامات کا اعلان کرکے آپ کو خوش کردیا لہٰذا حساب برابر ہو گیا ہے۔بالکل اسی طرح حکومت مہنگائی کم کرنے کا اعلان کرکے لوگوں کو خوش کر دیتی ہے اور لوگ بھی آئندہ ووٹوں کا عمران خان کے حق میں اعلان کر کے عمران خان کو خوش کر دیں گے۔اس سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہوگا۔ اللہ نہ کرے۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭

کشمیر بنے گا پاکستان

لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
بھارت نے ٹھیک دو سال پہلے یعنی 2019ء میں ایک سوچا سمجھا سیاسی جوأ کھیلا۔ بھارت کے آئین کی دو شقوں یعنی 370 اور 35 اے کی تنسیخ کر دی اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی ہیئت ہی بدل ڈالی اس کے علاوہ جموں اور لداخ کو یونین علاقے بنا کر کشمیر سے علیحدہ کر دیا۔ ان انقلابی اقدامات سے پہلے بہت زیادہ فوج راشٹریہ رائفل اور پولیس وغیرہ کی 9 لاکھ سے زیادہ نفری وادی اور ارد گرد کے علاقوں میں لائی گئی۔ یہ کیا اقدامات تھے اور کس کس طرح کا جوأ تھا جس کے ایک طرف تو نتائج بھارت‘ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے کیا نکلے بلکہ اس جوئے نے چہاروانگ عالم میں بھارت کو بھی بری طرح بے نقاب کر دیا۔
آج ہم جائزہ لیں گے کہ بھارت کے سیاسی‘ سفارتی اور فوجی نوعیت کے اقدامات کی جزئیات کیا تھیں اور ان کے کیا نتائج مرتب ہوئے۔ ان میں میرے نزدیک ذیل کے نتائج کچھ یوں ہیں۔
-1 سیاسی اقدامات: اس کا پہلا جزو تو یہی ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کی سیاسی حیثیت میں بڑی تبدیلی کر دی۔ ریاست کے خصوصی سٹیٹس کو نہ صرف تبدیل کیا بلکہ اس کی سالمیت کو بھی پارہ پارہ کر کے رکھ دیا۔
-2 وہاں کی آبادی کی تبدیلی کے لیے راستہ ہموار کیا۔
-3 اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی کشمیر سے متعلقہ قراردادوں کو چیلنج کر دیا۔
-4 شملہ معاہدہ توڑ دیا۔
اب میں کچھ سفارتی حوالے سے مرتب ہونے والے نتائج کا تذکرہ ذیل میں کروں گا۔
-1 دنیا کا جو ردعمل آنا چاہئے تھا اس کا بڑی ہوشیاری سے سدباب کیا۔
-2 خاص طور پر او آئی سی اور اسلامی دنیا کو ورغلائے رکھا اور سخت گیر موقف قائم نہ کرنے دیا۔
-3 سکیورٹی کونسل میں چین اور پاکستان کی کاوشوں کو مکمل طور پر کامیاب ہونے سے روکے رکھا۔
اس کے بعد کشمیر میں عسکری محاذ پر مرتب ہونے والے نتائج۔
-1 ظلم و ستم کی انتہا کیے رکھی اور کشمیری نوجوانوں کے ردعمل کو کچل دیا۔
-2 بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اندر کی بات باہر نہ نکلنے دی۔
-3 ایل او سی پر لگاتار آرٹلری بمباری کر کے پاکستانی فوج کو بھی الجھائے رکھا۔
-4 افغان سرزمین اور سرحد کو استعمال کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کی مدد سے لگاتار پاکستان میں کشت و خون کا بازار گرم کیے رکھا۔
-5اور وقتاً فوقتاً مختلف تنصیبات پر ہائی پروفائل حملے ہوتے رہے جس میں بطور خاص طور پر چینیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ لاہور کے ایک علاقے جوہر ٹاؤن میں ہونے والا حملہ بھی اسی پلاننگ کا حصہ تھا۔
جہاں ہندوستان کو مندرجہ بالا اقدامات کے کچھ نتائج حاصل ہوئے وہاں دنیا بھر میں اس دوران اس کی بہت زیادہ سبکی بھی ہوئی۔ خاص طور پر جب ای یو ڈس انفرمیشن لیب اور اس قسم کے اور بھارتی اقدامات بے نقاب ہو گئے۔ اس کے علاوہ رہے سہے کشمیری سیاستدان جو کبھی کبھار بھارت کا ساتھ دے دیتے تھے وہ بھی مکمل طور پر متنفر ہو گئے۔
اب آیئے دیکھئے کہ اس حوالے سے خود پاکستان کے جوابی اقدامات کیا تھے اور کس قدر موثر رہے۔ اس میں سب سے پہلا کریڈٹ جو موجودہ حکومت کو جاتا ہے وہ تھا وزیراعظم کا ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ زور دار طریقے سے پیش کرنا۔ اس کے علاوہ سفارتی بنیادوں پر بھی ایسے بہت سے اقدامات ہوئے جس سے دنیا کو کشمیر کے مسئلے کے متعلق آگاہی حاصل ہوئی۔ قانونی میدان (Law fare) میں بھی کچھ کامیابیاں حاصل ہوئیں جب ہم نے مختلف مظالم (جو کلبھوشن نیٹ ورک نے ہم پر ڈھائے) اور ای یو ڈس انفرمیشن کے فولڈرز بنائے لیکن وہ بہت آگے نہ جا سکے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ سفارتکاری کے علاوہ اوربھی بہت سے اقدامات جو ممکن تھے ان سے پہلو تہی کی۔ ان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
ممکنہ سیاسی اقدامات:-1 ہمیں فی الفور شملہ معاہدے کو منسوخ کر دینا چاہئے تھا کیونکہ بھارت تو پہلے ہی اس معاہدے کی دھجیاں اڑا چکا تھا۔ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا تو جواب میں‘ میں یہی کہوں گا کہ لائن آف کنٹرول اور سیز فائز لائن میں بہت فرق ہے اس پر کبھی بعد میں گفتگو کروں گا۔
-2 جب ہمیں معلوم تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں آبادی کے تناسب سے تبدیلیاں لا رہا ہے تو ہمیں بھی فوراً اقوام متحدہ سے نئی اور فوری مردم شماری کا تقاضا کرنا چاہئے تھا اور لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں نئی مردم شماری کا تقاضا کرنا چاہئے تھا۔
-3 میں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی استصواب رائے کروا دینا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں بعد میں ہوتا رہے گا۔ اگر اقوام متحدہ اس بات پر آمادہ نہ ہو تو بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں اپنے تئیں یہ کام کر دینا چاہئے۔
عسکری اقدامات:-1 ہمیں کشمیری اور پاکستانی نوجوانوں کے لیے عسکری تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ بھارت آئے روز آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر حملے کا عندیہ دیتا رہتا ہے۔
-2 اقوام متحدہ کی کچھ قرار دادیں ایسی بھی ہیں جن کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد کے لیے اسلحہ بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔
-3 جو کچھ کلبھوشن ملعون ہمارے ہاں کر رہا تھا اور جس طریقے سے حملے افغانستان کی طرف سے ہم پر کیے جاتے ہیں ان کا ترکی بہ ترکی جواب دینا بھی ہمارے فرائض کا حصہ ہونا چاہئے۔
یہ بات تاریخ کے تناظر میں اچھی طرح معلوم ہے کہ آزادی پلیٹ میں رکھ کر تو کوئی بھی نہیں دیتا۔ دوسرا یہ کہ یہ دنیا فاختاؤں اور کبوتروں کی جگہ نہیں بلکہ عقابوں کا مسکن ہے اور ایک آخری بات کہ پاکستانی کہیں یہ نہ سمجھیں کہ وہ کشمیریوں کی مدد کر کے ان پر کوئی احسان کر رہے ہیں کیونکہ کشمیری پاکستان کی بقا اوراس کو مکمل کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انشاء اللہ آخر میں کامیابی ہماری ہی ہو گی اور کشمیر بنے گا پاکستان۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭

ن لیگ کے لئے آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے

ملک منظور احمد
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا بیانیہ احتساب ہے اور اسی احتساب کے بیانیہ نے بڑے بڑے سیاسی اکابرین کے دن کا چین اور رات کی نیند غارت کر رکھی ہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی اسی احتسابی عمل کا شکار ہو ئے اور پھر بیماری کے بہانے طبی بنیادوں پر علاج کی غرض سے سیدھے جیل سے لندن پہنچ گئے۔حکومت نے ان کو واپس لانے کے لیے بہت سارے دعوے کیے،کہا گیا کہ حکومت برطانیہ سے نواز شریف کی واپسی کے لیے بات چیت جاری ہے لیکن حکومت کی اس سلسلے میں کسی کاوش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔کچھ عرصے سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت سابق وزیر اعظم کو پاکستان واپس لانے کے حوالے سے ہمت ہار بیٹھی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آیا کہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور متحدہ قومی موومنٹ کے سابق قائد الطاف حسین کو لندن سے واپس پاکستان لانے سے یکسر قاصر ہوں۔لیکن پھر برطانیہ سے اچانک ایسی خبر سامنے آئی کہ پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچ گئی حکومتی وزراء خوشیاں منانے لگے اور کرونا وائرس کا شکار مریم نواز جو کہ قرنطینہ میں ہیں وہ بھی ٹوئٹر پر بولنے پر مجبور ہوگئیں۔حکومتی وزراء نے ایسے جشن منایا کہ جیسے کہ نواز شریف کی برطانوی ویزے میں توسیع کی درخواست انھوں نے ہی مسترد کروائی ہو۔لیکن ابھی یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اور اس معاملے میں کافی عرصہ درکار ہے،نواز شریف فیصلے کے خلاف اپیل میں چلے گئے ہیں اور اپیل کا فیصلہ ہونے میں 1سال سے زائد کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کے پاس برطانیہ کا 10سالہ ملٹپل انٹری ویزا موجود ہے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ برطانیہ میں وزٹ ویزا پر موجود ہیں اور وزٹ ویزا کی شرائط کے مطابق ان کو ایک گھنٹے کے لیے سہی برطانیہ سے باہر جانے کی ضرورت ہے اسی صورت میں یہ ویزا ویلڈ رہ سکتا ہے۔نواز شریف کے لیے اس سلسلے میں رکاوٹ یہ ہے کہ حکومت پاکستان ان کا پاسپورٹ رواں سال فروری کے مہینے میں منسوخ کر چکی ہے اور اب ان کے پاس برطانیہ چھوڑنے کیلئے کو ئی سفری دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ان کو پاسپورٹ کی بحالی کے لیے حکومت پاکستان سے رابطہ کرنا پڑے گا اور یقینا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ان کے ساتھ کو ئی تعاون کرنے کو تیار نہیں ہو گی،اور حکومت اگر چاہے بھی تو تعاون نہیں کر سکتی کیونکہ بہر حال پاکستان کی عدالتیں بھی نواز شریف کو مفرور قرار دے چکی ہیں۔اس سلسلے میں یہ پوا ئنٹ موجود ہے اور اس کو نواز شریف برطانیہ میں اپنی اپیل کے دوران بھی استعمال کر سکتے ہیں کہ کیا کسی حکومت کو کسی جرم کی بنیاد پر کسی بھی شہری کا پاسپورٹ یا شہریت منسوخ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ اور اس سلسلے میں نواز شریف برطانوی عدالت میں یہ موقف بھی اپنا سکتے ہیں کہ میں تین مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم رہا ہوں او ر پاکستان واپسی پر میری جان کو بھی خطرہ ہے اور حکومت پاکستان نے انتقام کی غرض سے میرا پاسپورٹ منسوخ کیا ہے لہذا برطانیہ میں مجھے مزید رہنے کی اجازت دی جائے،اور برطانیہ کی جانب سے اس موقف پر غور بھی کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس سلسلے میں کیا فیصلہ ہو گا اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان واپس نہ آنے اور مسلسل برطانیہ میں رہنے کی ضد نے ان کو پاکستان میں سیاسی طور پر کمزور پوزیشن میں ضرور لا کھڑا کیا ہے،پاکستان میں اگرچہ مریم نواز شریف اور شہباز شریف کی صورت میں ن لیگ کی مرکزی قیادت موجود ہے لیکن نواز شریف لندن میں بیٹھ کر بھی تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے اندر مسلم لیگ ن کے سیاسی حالات دن بدن خراب ہو تے جا رہے ہیں اور ن لیگ کے اندر بیانیہ کی جنگ زور پکٹرتی جا رہی ہے،مریم نواز اور شہباز شریف کا نہ صرف بیانیہ یکسر مختلف ہے بلکہ ان کے گروپس بھی جماعت کے اندر واضح طور پر الگ نظر آرہے ہیں۔حالیہ آزاد کشمیر انتخابات میں انتخابی مہم مریم نواز شریف کے ہاتھ میں تھی اور شہباز شریف کہیں دور دور تک انتخابی مہم میں نظر نہ آئے یہاں پر سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا شہباز شریف نے مریم نواز کو کھل کر ناکام ہو نے کا موقع دیا تاکہ پارٹی کے اندر ان کی پوزیشن مضبوط ہو۔سابق وزیر اعظم شاہد خا قان عباسی کھل کر شہباز شریف کے خلا ف بیان بازی کر رہے ہیں جو کہ ن لیگ کے اندرونی معاملات خراب ہو نے کی سنگینی ظاہر کرتا ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان واپس آنے پر غور کرنا چاہیے کچھ عرصہ کے لیے شاید ان کو جیل جانا پڑے لیکن بہر حال اسی صورت میں وہ عدالت سے ریلیف لے کر ضمانت پر رہا بھی ہو سکتے ہیں۔غیر معینہ مدت کے لیے ملک سے باہر رہنے سے نہ صرف ان کی سیاست کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے بلکہ پارٹی کے اندر کی گروپ بنددیوں سے پارٹی کو بھی بڑا دھچکا لگ سکتا ہے اور اگر 2023ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ہار جاتی ہے اور سونے پر سہاگہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کی پاکستان واپسی کا راستہ مستقل طور پر بھی بند ہو سکتا ہے،نواز شریف کو اپنی پارٹی کے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی زات سے بالا تر ہو کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔میں یہاں گزشتہ دونوں میں رحیم یا ر خان میں مندر کی بے حرمتی اور اس کو جلائے جانے کے واقعے پر بھی کچھ بات کرنا چاہوں گا۔یہ نہایت ہی قابل افسوس واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے،حکومت پاکستان کا اس واقعے کے بعد ردعمل حوصلہ افزا ء ہے اور چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے بھی اس واقعے کا از خود نوٹس لیا ہے،جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن یہ واقعہ پیش کیسے آیا اس کی تحقیقات ہونا لازم ہیں،اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کو ئی ایسا واقعہ کرنے کی جرأت نہ کرے۔پاکستان اور ہندوستان کی ہندتوا پالیسی میں فرق ہے اور یہ فرق واضح طور پر نظر بھی آنا چاہیے۔پاکستان ایک اسلامی فلاحی ملک ہے جہاں ہر تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور اقلیتیں اپنی عبادت گاہوں میں عبادات کرنے میں آزاد ہیں یہی قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان تھا اور یہی اصول پاکستان کے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔قائد اعظم کے اس فرمان پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

آرمی چیف سے ترک وزیردفاع کی ملاقات، امن کوششیں مزید موثر بنانے پر اتفاق

راولپنڈی:آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ترک وزیر دفاع نے اہم ملاقات کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے خطے میں امن کی کوششیں مزید موثر بنانے پر اتفاق کیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ترک وزیر دفاع نے علاقائی اور عالمی امور پر پاکستان کے موقف کی حمایت کے عزم کو دہرایا۔ دونوں رہنمائوں نے باہمی تعلق اور خطہ میں امن کی کوششوں کو مزید موثر بنانے پر اتفاق کیا۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ افغان امن عمل پر بھی بات کی گئی۔

کراچی کے مسائل اور عوام کی مشکلات پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے، وزیراعظم

کراچی: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کراچی کے مسائل اور عوام کی مشکلات پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ 

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے حوالے سے جاری مختلف ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت پر جائزہ اجلاس کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں گورنر سندھ عمران اسمعیل، وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر ریلوے اعظم سواتی، وزیر برائے بحری امور سید علی زیدی، وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال اور سینئر افسران شریک ہوئے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کراچی میں وفاقی حکومت کی جانب سے جاری منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل اور اعلان شدہ منصوبوں کا اجرا حکومت کی اولین ترجیح ہے، ملک کی ترقی کراچی کی ترقی سے وابستہ ہے، کراچی کے عوام کی مشکلات پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، کراچی کے مسائل کے حل اور ترقی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو صاف اور وافر پانی کی فراہمی کو جلد از جلد یقینی بنایا جائے اور اس مقصد کے لئے تکنیکی اور مالی طور پر ممکنہ طریقے برؤے کار لائے جائیں۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے اجلاس میں کہا کہ اس وقت وزیراعظم کی تمام تر توجہ کراچی شہر پر ہے کیونکہ ملک کا معاشی حب ہونے کے ناطے اس شہر کی خاص اہمیت ہے۔

اجلاس میں وزیر اعظم کو کراچی کے تین بڑے نالوں محمودآباد، گجر اور اورنگی،  ملیر اور لیاری کے دریاؤں اور نالوں کے اطراف سڑک کی تعمیر، سیوریج سسٹم اور  یوٹیلیٹیز پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

چئیرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ نالوں کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے اور تجاوزات ہٹانے کا کام بھرپور طریقے سے جاری ہے، محمودآباد اور اورنگی نالے پر پیش رفت  بالترتیب سو فیصد اور 98 فیصد ہے جبکہ گجر نالے پر سے تجاوزات ہٹانے میں نواسی فیصد پیش رفت ہو چکی ہے، اورنگی اور محمود آباد نالوں کی صفائی میں پیش رفت کا تناسب 97 اور 90 فیصد ہے جبکہ گجر نالے پر پیش رفت اناسی فیصد ہے، محمود آباد نالے پر آر سی سی دیوار کی تعمیر کا کام تکمیل کے نزدیک ہے۔ دوسرے نالوں میں بھی یہ کام تیزی پکڑے گا۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ بقیہ سول ورکس جون 2022تک مکمل کر لیا جائے گا۔

وزیراعظم کو  گرین لائن اور اورنج لائن بی آر منصوبے کی پیش رفت پر بھی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ گرین لائن اس سال اکتوبر سے فعال ہو جائے گی، وسط ستمبر 2021 تک چین سے اسی بسیں پہنچ جائیں گی، اسی طرح حکومت سندھ کی درخواست پر ایس آئی ڈی سی ایل اورنج  لائن کے لیے 20 بسیں منگوا رہی ہے جو اس سال دسمبر تک پہنچ جائیں گی۔

اجلاس میں کراچی کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور پر چئیرمین واپڈا کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ اس وقت کراچی 12 سو کیوسک پانی لے رہا ہے جس میں حب ڈیم سے سو ایم جی ڈی (ملین گیلن یومیہ)  شامل ہے، کراچی کی عوام کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے شدید مشکلات درپیش ہیں، پانی کی اس شدید قلت کو پورا کرنے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے کے فور کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے اور اس پر حکومت سندھ کام کر رہی تھی جبکہ اس منصوبے کے لئے مالی وسائل سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کیے جا رہے تھے لیکن یہ منصوبہ ایک دہائی سے تعطل کا شکار رہا، اب وفاقی حکومت اس منصوبے کو مکمل کر رہی ہے۔

وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ 85 کلومیٹر کا سروے آئی ایل ایف کے اسٹاف اور کنسلٹنٹس کی جانب سے مکمل کیا گیا ہے، منصوبے کا حتمی ڈیزائن اکتوبر2021 تک مکمل کر لیا جائے گا، منصوبہ اکتوبر2023 تک مکمل کر لیا جائے گا۔

وزیراعظم کو  فریٹ کاریڈور کیمارٹی تا پپری مارشلنگ یارڈ اور ماڈرن کراچی سرکولر ریلوے منصوبے پر وزیر ریلوے دیگرحکام کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ 50 کلومیٹر طویل کراچی پورٹ تا پپری فریٹ کاریڈورمیں کواریڈور کی تعمیر، سڑک کو دورویہ کیا جانا اور اپ گریڈیشن شامل ہے، ملک کے مختلف علاقوں میں جانے والے 40 فیصد کارگو ٹرانسپورٹ اس کواریڈور کے ذریعے ہوگی اس منصوبے کی فزیبیلیٹی مکمل کر لی گئی ہے اور اس منصوبے کو اکتوبر 2021میں مارکیٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔

کے سی آر منصوبے میں 43کلومیٹر ورلڈ کلاس ماس ٹرانزٹ سسٹم  اور ماحول دوست الیکٹرک ٹرین شامل ہیں، منصوبے کی فزیبیلیٹی مکمل کر لی گئی ہے، جیسے ہی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کی جانب سے ٹرانزیکشن کا خاکہ اور بڈنگ کی دستاویزات منظور کر دی جائیں گی اس منصوبے کو نومبر 2021تک مارکیٹ میں لایا جائے گا۔

وزیراعظم نے تمام متعلقین کو جاری منصوبوں کو ٹائم لائنز کے تحت مکمل کرنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تمام منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ کراچی کی عوام کو ان کے ثمرات میسر آسکیں۔

آرمی چیف سے چینی سفیر کی ملاقات، سی پیک اور علاقائی سیکورٹی پر گفتگو

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے چینی سفیر نے ملاقات کی جس میں سی پیک پرپیشرفت ‏اورعلاقائی سیکیورٹی کے معاملات زیر غور آئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق چینی سفیر نونگ رونگ نے جی ایچ کیو ‏راولپنڈی کا دورہ جہاں انہوں نے آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ سے ملاقات کی۔

ملاقات میں باہمی دلچسپی اور دفاعی تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ سی پیک پر ‏پیشرفت اور علاقائی سیکیورٹی کے معاملات بھی زیر غور آئے۔

چینی سفیر نےخطے میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور اس عزم کا اعادہ ‏کیا کہ چین بطور اسٹریٹیجک پارٹنر پاکستان کی سپورٹ کرتا رہےگا۔۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمیدبھی ‏موجود تھے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورس کے بنکر پر گرنیڈ حملہ

سری نگر: مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت میں انڈین سیکیورٹی فورس کے بنکر پر گرنیڈ حملہ کیا گیا ہے جس میں 5 افراد شدید زخمی ہونے کے باعث ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سری نگر میں اسپیشل سروس بیورو کے بنکر پر گرنیڈ حملہ کیا گیا ہے۔ حملے سے علاقہ لرز اُٹھا، آس پاس کی عمارتوں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

گرنیڈ حملے پر انڈین سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی دوڑیں لگ گئیں اور مزید نفری طلب کرکے علاقے کا محاصرہ کرلیا گیا تاہم حملہ آور بآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

ڈی آئی جی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کشور پرساد نے میڈیا کو بتایا کہ بنکر پر گرنیڈ حملہ دوپہر کے وقت کیا گیا جس میں اہلکار محفوظ رہے تاہم 4 شہری زخمی ہیں جنھیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گرنیڈ حملے میں زخمی ہونے والے 5 افراد کو لایا گیا ہے جن میں سے 3 کی حالت نازک ہونے کے باعث ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

تاحال کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم مودی سرکار کے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے سیاہ اقدام کے بعد سے چپے چپے پر بھارتی فوج کے اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود گرنیڈ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔