تازہ تر ین

تقدیرکاکھیل

شفقت اللہ مشتاق
ملازمت اپنے آپ کو نوکر سمجھ کر کی جائے تو اس کا اپنا ہی مزہ ہے کیونکہ نوکری محنت ٗ وفاداری اور اطاعت کی عملی تفسیر ہوتی ہے۔ محنت سے خلق خدا کی خدمت کی جاتی ہے، وفاداری کو غالبؔ نے یہ کہہ کر زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے۔ مولانا روم کی اس حکایت سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ شیر ٗ چیتا اور لومڑی شکار پر گئے اور انہوں نے مل کر ہرن، نیل گائے اور خرگوش کا شکار کیا۔ اس کے بعد شیر نے چیتے سے کہا کہ آپ ان کی تقسیم کریں۔ چیتے نے فیصلہ دیا کہ نیل گائے تنومند ہے اور آپ شیرہیں اور بادشاہ ہیں،لہٰذا گائے آپ خود اپنے کھانے کے لئے استعمال کریں۔ جبکہ ہرن مجھے دے دیا جائے اور خرگوش لومڑی کے حوالے کر دیا جائے۔ اب یہ فیصلہ چیتے کے منہ سے نکلنا تھا کہ شیر سیخ پا ہو گیا اور اس نے غصے کے عالم میں چیتے کو ایسا زوردار طمانچہ رسید کیا کہ چیتا بیچارہ دور جا گرا۔ کچھ دیر بعد شیر جوش و جذبات کی دنیا سے واپس آیا تو اس نے اپنی گرجدار آواز میں لومڑی سے کہا کہ آپ اس کا فیصلہ کریں۔ لومڑی بولی! حضور یہ تقسیم بڑی آسان اور سادہ ہے۔ آپ بادشاہ ہیں آپ سے زیادہ ان کا کون مستحق ہو سکتا ہے۔ ہماری تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ آپ ان شکار کئے گئے جانوروں میں سے ایک کو ناشتہ میں استعمال کریں، دوسرے سے دن کا کھانا تناول فرمائیں اور تیسرے کو شام کے کھانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ شیر اس کی اس تقسیم پر بڑا خوش ہوا اور اس کی پُرحکمت تقسیم کو زبردست خراج تحسین پیش کیا البتہ اس نے لومڑی سے دریافت کیا کہ تو نے یہ دانائی اور فراست کہاں سے پائی۔ اس نے کہا کہ کہیں دور سے نہیں چیتے کے انجام سے۔
بادشاہ لومڑی کی اس بات پر بہت خوش ہو چکا تھا کہ لومڑی میرے علاوہ کائنات کی کسی چیز کا استحقاق نہ سمجھتی ہے۔ یہی سوچ ہے جس کو میرے نزدیک تابعداری اور وفاشعاری کہتے ہیں۔ جس سے خوش ہو کر بادشاہ نے سارے جانور لومڑی کوتحفہ میں دے دیئے۔ مولانا روم نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ کائنات ارضی میں جس نے اپنا استحقاق بتایا ہے، چیتے کی طرح ذلیل و رسوا ہوا ٗ جس نے اپنے سے طاقتور چیز کا ہی حق سمجھا وہ نوازا گیا اور سب سے طاقتور ہستی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جس کی اطاعت اور تابعداری بندہ مومن کا طرہ امتیاز ہے۔
کاش ہم سب کی سوچ اور فکر اس سانچے میں ڈھل جائے کہ اے اللہ تو ہی تو ہے ٗ تیرے سوا کسی کی کوئی حیثیت نہیں یقینایہی سوچ ادنیٰ کو اعلیٰ اور کمزور کو طاقتور بنا دیتی ہے اور دشمن کو دوست اور دہشت گرد کو امن پسندی، محبت اور بھائی چارے میں بدل دیتی ہے۔
مجھے جانا پیر محل تحصیل کمالیہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ تھا اور چلا مجاز مقدس کی خوبصورت اور روح پرور بستیوں میں گیا۔ خیر میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ کانٹوں سے بچ کر پھولوں پر پہنچ گیا۔ کچھ اس قسم کی میری نوکری کے 5 سال کی کہانی ہے۔ جب میں فیصل آباد میں سپیشل جوڈیشنل مجسٹریٹ کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ میری پھانسی گھاٹ پر ڈیوٹی لگا دی گئی، پھانسی گھاٹ کے لفظ کے ساتھ خوف و ہراس اور سراسیمگی کا احساس جڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ موت جہاں بھی ہو جس حالت میں بھی ہو اس کا بڑا خوف ہوتا ہے۔ پاکستان میں پھانسی گھاٹ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور یہ پھانسی پورے پاکستانی معاشرہ کیلئے سوالیہ آج تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ پھانسی کی کوکھ سے ایک کردار منظرعام پر آتا ہے، جس کو تارا مسیح کہتے ہیں۔ اتنا بدنام شاید پھانسی کا حکم جاری کرنے والا نہ ہوا ہو ٗ جتنا تارا مسیح۔ میں نے بتایا کہ جب مجھے یہ آرڈر ملا کہ میں بطور مجسٹریٹ پھانسی کی نگرانی کروں گا تو میرے تو ہاتھ پاؤں سُن ہو گئے۔ میں پریشان ہو گیا کہ کہیں یہ لوگ ازراہ تفنن مجھے بھی تارا مسیح نہ کہنا شروع کر دیں۔ بات ہو رہی تھی پھولوں تک پہنچنے کی تو خیر میں نے اس فرض منصبی کو انتہائی تحمل، برداشت اور قوت ارادی سے نبھایا اور سو کے لگ بھگ پھانسیوں کو بچشم خود دیکھا۔میری آنکھوں کے سامنے ایک ہی دن میں چھ افراد کو پھانسی بھی میری نگرانی میں دی گئی۔ اس سے جہاں مجھ میں حوصلہ اور ہمت پیدا ہوتی وہاں مجھے بے شمار معاشرتی مسائل، جیل کلچر، نظام میں خامیوں، تقدیر کی کارفرمائیوں اور پولیس کی چیرہ دستیوں سے بھی آگاہی ہوئی۔ میں باقاعدہ چونکہ ادیب نہ ہوں اس لیے قلم اٹھانے سے کتراتا بھی رہا اور Avoid کرتا رہا کیونکہ ہر تحریر عوام کی نظروں سے گزرتی ہے اور عوام سے بہتر میرے نزدیک کوئی جج نہ ہے۔ مجھے خوف تھا کہ اچھا خاصا لوگ مجھے باذوق سمجھتے ہیں کہیں اندر کا نالائق اور بے ذوق انسان نکل کر آشکارا نہ ہو جائے اور ہم اس جہان رنگ و بو میں بے آبرو و رسوا نہ ہو جائیں۔ لیکن دماغ انسانی بدن میں بڑی اہم شے ہے۔ اس نے مشورہ دیا کہ اس معاشرے کو آپ یہ ثابت نہ کریں کہ آپ ادبی ذوق نہیں رکھتے بلکہ آپ ان ذہنوں میں پنپنے والے ان سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کریں کہ پھانسی صبح کے وقت ہی دی جاتی ہے۔ مجرم پھانسی کے پھندے تک کیسے جاتا ہے۔ اس وقت اس کے جذبات و احساسات کیا ہوتے ہیں، وہ اس منزل تک کیسے پہنچتا ہے، ان کو مجرم بنانے میں ان کا اپنا ٗ اس کے والدین، دوست احباب یا سارے معاشرے کا عمل دخل کس قدرہوتا ہے۔ اگر ان تمام پہلوؤں پر غور کرلیاجائے تو دنیا میں نہ کوئی قتل ہو اور نہ پھانسی چڑھے۔ معاشرے میں ہر طرف امن ہی امن ہو۔ سب لوگ آپس میں محبتیں بانٹیں اور خوشیاں بکھیریں۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain