تازہ تر ین

کشمیر بنے گا پاکستان

لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
بھارت نے ٹھیک دو سال پہلے یعنی 2019ء میں ایک سوچا سمجھا سیاسی جوأ کھیلا۔ بھارت کے آئین کی دو شقوں یعنی 370 اور 35 اے کی تنسیخ کر دی اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی ہیئت ہی بدل ڈالی اس کے علاوہ جموں اور لداخ کو یونین علاقے بنا کر کشمیر سے علیحدہ کر دیا۔ ان انقلابی اقدامات سے پہلے بہت زیادہ فوج راشٹریہ رائفل اور پولیس وغیرہ کی 9 لاکھ سے زیادہ نفری وادی اور ارد گرد کے علاقوں میں لائی گئی۔ یہ کیا اقدامات تھے اور کس کس طرح کا جوأ تھا جس کے ایک طرف تو نتائج بھارت‘ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے کیا نکلے بلکہ اس جوئے نے چہاروانگ عالم میں بھارت کو بھی بری طرح بے نقاب کر دیا۔
آج ہم جائزہ لیں گے کہ بھارت کے سیاسی‘ سفارتی اور فوجی نوعیت کے اقدامات کی جزئیات کیا تھیں اور ان کے کیا نتائج مرتب ہوئے۔ ان میں میرے نزدیک ذیل کے نتائج کچھ یوں ہیں۔
-1 سیاسی اقدامات: اس کا پہلا جزو تو یہی ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کی سیاسی حیثیت میں بڑی تبدیلی کر دی۔ ریاست کے خصوصی سٹیٹس کو نہ صرف تبدیل کیا بلکہ اس کی سالمیت کو بھی پارہ پارہ کر کے رکھ دیا۔
-2 وہاں کی آبادی کی تبدیلی کے لیے راستہ ہموار کیا۔
-3 اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی کشمیر سے متعلقہ قراردادوں کو چیلنج کر دیا۔
-4 شملہ معاہدہ توڑ دیا۔
اب میں کچھ سفارتی حوالے سے مرتب ہونے والے نتائج کا تذکرہ ذیل میں کروں گا۔
-1 دنیا کا جو ردعمل آنا چاہئے تھا اس کا بڑی ہوشیاری سے سدباب کیا۔
-2 خاص طور پر او آئی سی اور اسلامی دنیا کو ورغلائے رکھا اور سخت گیر موقف قائم نہ کرنے دیا۔
-3 سکیورٹی کونسل میں چین اور پاکستان کی کاوشوں کو مکمل طور پر کامیاب ہونے سے روکے رکھا۔
اس کے بعد کشمیر میں عسکری محاذ پر مرتب ہونے والے نتائج۔
-1 ظلم و ستم کی انتہا کیے رکھی اور کشمیری نوجوانوں کے ردعمل کو کچل دیا۔
-2 بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اندر کی بات باہر نہ نکلنے دی۔
-3 ایل او سی پر لگاتار آرٹلری بمباری کر کے پاکستانی فوج کو بھی الجھائے رکھا۔
-4 افغان سرزمین اور سرحد کو استعمال کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کی مدد سے لگاتار پاکستان میں کشت و خون کا بازار گرم کیے رکھا۔
-5اور وقتاً فوقتاً مختلف تنصیبات پر ہائی پروفائل حملے ہوتے رہے جس میں بطور خاص طور پر چینیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ لاہور کے ایک علاقے جوہر ٹاؤن میں ہونے والا حملہ بھی اسی پلاننگ کا حصہ تھا۔
جہاں ہندوستان کو مندرجہ بالا اقدامات کے کچھ نتائج حاصل ہوئے وہاں دنیا بھر میں اس دوران اس کی بہت زیادہ سبکی بھی ہوئی۔ خاص طور پر جب ای یو ڈس انفرمیشن لیب اور اس قسم کے اور بھارتی اقدامات بے نقاب ہو گئے۔ اس کے علاوہ رہے سہے کشمیری سیاستدان جو کبھی کبھار بھارت کا ساتھ دے دیتے تھے وہ بھی مکمل طور پر متنفر ہو گئے۔
اب آیئے دیکھئے کہ اس حوالے سے خود پاکستان کے جوابی اقدامات کیا تھے اور کس قدر موثر رہے۔ اس میں سب سے پہلا کریڈٹ جو موجودہ حکومت کو جاتا ہے وہ تھا وزیراعظم کا ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ زور دار طریقے سے پیش کرنا۔ اس کے علاوہ سفارتی بنیادوں پر بھی ایسے بہت سے اقدامات ہوئے جس سے دنیا کو کشمیر کے مسئلے کے متعلق آگاہی حاصل ہوئی۔ قانونی میدان (Law fare) میں بھی کچھ کامیابیاں حاصل ہوئیں جب ہم نے مختلف مظالم (جو کلبھوشن نیٹ ورک نے ہم پر ڈھائے) اور ای یو ڈس انفرمیشن کے فولڈرز بنائے لیکن وہ بہت آگے نہ جا سکے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ سفارتکاری کے علاوہ اوربھی بہت سے اقدامات جو ممکن تھے ان سے پہلو تہی کی۔ ان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
ممکنہ سیاسی اقدامات:-1 ہمیں فی الفور شملہ معاہدے کو منسوخ کر دینا چاہئے تھا کیونکہ بھارت تو پہلے ہی اس معاہدے کی دھجیاں اڑا چکا تھا۔ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا تو جواب میں‘ میں یہی کہوں گا کہ لائن آف کنٹرول اور سیز فائز لائن میں بہت فرق ہے اس پر کبھی بعد میں گفتگو کروں گا۔
-2 جب ہمیں معلوم تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں آبادی کے تناسب سے تبدیلیاں لا رہا ہے تو ہمیں بھی فوراً اقوام متحدہ سے نئی اور فوری مردم شماری کا تقاضا کرنا چاہئے تھا اور لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں نئی مردم شماری کا تقاضا کرنا چاہئے تھا۔
-3 میں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی استصواب رائے کروا دینا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں بعد میں ہوتا رہے گا۔ اگر اقوام متحدہ اس بات پر آمادہ نہ ہو تو بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں اپنے تئیں یہ کام کر دینا چاہئے۔
عسکری اقدامات:-1 ہمیں کشمیری اور پاکستانی نوجوانوں کے لیے عسکری تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ بھارت آئے روز آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر حملے کا عندیہ دیتا رہتا ہے۔
-2 اقوام متحدہ کی کچھ قرار دادیں ایسی بھی ہیں جن کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد کے لیے اسلحہ بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔
-3 جو کچھ کلبھوشن ملعون ہمارے ہاں کر رہا تھا اور جس طریقے سے حملے افغانستان کی طرف سے ہم پر کیے جاتے ہیں ان کا ترکی بہ ترکی جواب دینا بھی ہمارے فرائض کا حصہ ہونا چاہئے۔
یہ بات تاریخ کے تناظر میں اچھی طرح معلوم ہے کہ آزادی پلیٹ میں رکھ کر تو کوئی بھی نہیں دیتا۔ دوسرا یہ کہ یہ دنیا فاختاؤں اور کبوتروں کی جگہ نہیں بلکہ عقابوں کا مسکن ہے اور ایک آخری بات کہ پاکستانی کہیں یہ نہ سمجھیں کہ وہ کشمیریوں کی مدد کر کے ان پر کوئی احسان کر رہے ہیں کیونکہ کشمیری پاکستان کی بقا اوراس کو مکمل کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انشاء اللہ آخر میں کامیابی ہماری ہی ہو گی اور کشمیر بنے گا پاکستان۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain