وزیرِ اعظم کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ووٹ کاسٹ کرنے کا تجربہ

اسلام آباد : وزیرِ اعظم عمران خان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ووٹ کاسٹ کرنے کا تجربہ کیا ، شبلی فراز نے بتایا کہ ایک بٹن دبا کر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے مقامی طور پر بنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا تفصیلی مظاہرہ کیا، اس موقع پر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے اپنی وزارت کے عہدیداروں کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے حوالے سے بریفنگ تفصیلی برنفنگ دی۔

بلی فراز نے بتایا کہ سافٹ ویئر کو اعلیٰ معیار کے مطابق بنایا گیا ہے ، مشین کو انٹرنیٹ کی بھی ضرورت نہیں ، صرف ایک بٹن دبا کر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ای وی ایم مشین سے اپنا ووٹ بھی کاسٹ کیا اور شبلی فراز سمیت ان کی ٹیم کو ایسی ای وی ایم تیار کرنے پر مبارکباد دی۔

یاد رہے رواں ماہ کے آغاز میں وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے الیکٹرونک ‏ووٹنگ مشین تیار کی تھی، وزیر نے بتایا تھا کہ مشین الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایات کے مطابق بنائی ہے امیدوارنتائج ‏تسلیم کرےاس کیلئے ٹیکنالوجی کااستعمال مددگار ہو گا، ای وی ایم میں نہ انٹرنیٹ اورنہ آپریٹنگ ‏سسٹم ہے، انٹرنیٹ،سافٹ ویئرنہ ہونے سے مشین میں مداخلت نہیں ہوسکتی۔

شبلی فراز نے کہا کہ ای وی ایم انٹرنیٹ سےجڑی نہیں اس لیےہیک نہیں ہوسکتی مشین جلد ‏اپوزیشن جماعتوں، پارلیمنٹ اورای سی کو دکھائیں گے ای وی ایم کےاستعمال سےانتخابات غیرمتنازع ‏اور قابل قبول ہوں گے۔

ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی آخری امید ارشد ندیم آج ایکشن میں ہوں گے

ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کیلئے میڈل کی آخری اُمید،  ایتھلیٹ ارشد ندیم  آج جیولین تھرو (نیزہ بازی) کے مقابلوں کے فائنل میں ایکشن میں ہوں گے۔

 پاکستانی وقت کے مطابق یہ ایونٹ شام چار بجے شروع ہوگا۔

میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے24 سالہ ارشد ندیم نے ساؤتھ ایشین گیمز میں شاندار پرفارمنس دکھا کر اولمپکس کیلئے براہ راست کوالیفائی کیا تھا۔

اولمپکس کیلئے فیلڈ پر آئے تو گروپ اسٹیج میں بھی ارشد ندیم نے دھوم مچادی، 85.16  میٹر کی تھرو کرکےارشد ندیم نے اپنے گروپ میں پہلی اور مجموعی طور پر کوالیفائرز میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور فائنل کیلئے کوالیفائی کیا۔

اب ان کی نظریں ہفتے کو ہونیوالے فائنل میں ہیں جس میں ٹاپ 12 جویلین تھروورز شریک ہوں گے۔

پہلے مرحلے میں تمام 12 ایتھلیٹس 3 ،3 بار نیزہ پھینکیں گے جس کے بعد آخری کے چار ایتھلیٹس میڈل کی دوڑ سے آؤٹ ہوجائیں گے جبکہ ٹاپ 8 کے درمیان مزید 3 ، 3 باری کا مقابلہ ہوگا۔

ایشین گیمز 2018کے برانز میڈلسٹ اور ساؤتھ ایشین گیمز 2019 کے گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم پلیئرز آرڈر میں نویں نمبر پر موجود ہیں۔ تین باریوں پر ایلی منیشن کے بعد پوزیشن کی بنیاد پر ایتھلیٹس کا آرڈر ترتیب دیا جائےگا۔

پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم جن کی پرسنل بیسٹ 86.39 ہے انہیں ٹوکیو اولمپکس میں میڈلز کی دوڑ میں شامل مضبوط اُمیدوار قرار دیا جارہا ہے تاہم ان کو بھارت کے نیرج چوپڑا ور جرمنی کے عالمی نمبر ایک جوہانیس ویٹر سے سخت مقابلے کا سامنا ہوگا۔

اگر فائنل میں شریک ایتھلیٹس کی اس سیزن کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو ارشد ندیم نے اس سیزن میں سب سے اچھی تھرو 86.38 کی کی تھی اور ٹوکیو اولمپکس کے ٹاپ 12 میں صرف 3کھلاڑیوں کی اس سیزن میں اب تک ارشد سے اچھی تھرو رہی ہیں جن میں جوہانس ویٹر 96.29، نیرج چوپڑا88.07 انڈریان مارڈیر 86.66کی تھرو کے ساتھ شامل ہیں۔

وفاقی پولیس نیم برہنہ فوٹوشوٹ کرنیوالے جوڑے کی گرفتاری میں ناکام

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے ملزموں کی گرفتاری کیلئے مدد لینے کا فیصلہ ، نادرا کو بھی خط لکھ دیا گیا۔

ایکسپریس ہائی وے پر جوڑے نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پورٹریٹ کے سامنے بیہودہ حرکت کی، سوشل میڈیا ہر ریکارڈ سامنے آنے کے باوجود کچھ نہ ہو سکا۔

اسلام آباد : (خصوصی رپورٹر) وفاقی پولیس بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مجسمے اور افکار کے نیچے نیم برہنہ فوٹوشوٹ کرنیوالے جوڑے کی گرفتاری میں ناکام ہوگئی ہے۔

پولیس کا ایف آئی اے سائبر کرائم اسلام آباد سے ملزموں کی گرفتاری کیلئے مدد لینے کا فیصلہ۔

صبا قمر کی شوٹنگ، یونیورسٹی انتظامیہ نے تعلیمی نقصان کو نظر انداز کردیا

پنجاب یونیورسٹی کے اندر شوٹنگ معمول کا حصہ، بچوں کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ جاری ۔۔رہتی  ہے، ترجمان یونیورسٹی۔

شوٹنگ کے دوران طلبہ کو کلاس رومز سے باہر نکالا گیا طلبہ نے احتجاج بھی کیا خبریں چینل فائیو نے نشاندہی کی۔

لاہور (جنرل رپورٹر ) معروف اداکارہ صبا قمر کی پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں ڈرامے کی شوٹنگ کا معاملہ ، پنجاب  یونیورسٹی انتظامیہ نے تعلیمی حرج کو نظر انداز کردیا۔

یادریے کہ گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں ڈرامے کی شوٹنگ کاروائی ،شوٹنگ کی فوٹیج چینل فائیو ،خبریں نے حاصل کر لی ،طلباء نے الزام عائد کہ صبا قمر کی شوٹنگ کے دوران کلاسز بند کروائی گئیں۔

بھارتی سازشیں بری طرح ناکام، کشمیر پریمئر لیگ شروع ۔ رنگارنگ تقریب کھلاڑی اور شہری جھوم اٹھے

کشمیر پریمیئر لیگ کا رنگا رنگ تقریب کے بعد مظفرآباد کرکٹ اسٹیڈیم میں آغاز ہوگا۔

تقریب کے بعد پاکستان اور آزاد کشمیر کے قومی ترانے بجائے گئے جبکہ پیراگلائیڈنگ کا شاندار مظاہرہ بھی کیا گیا ، نریندرمودی کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کشمیریوں کو آزادی سے کھیلنے دو اور کھیل پر زنجیروں کو توڑ دو:سردار مسعود

پہلی کشمیر پریمیئر لیگ مظفرآباد کے دیدہ زیب کرکٹ اسٹیڈیم میں شروع ہوگئی، جہاں گلوکاروں نے شاندار پرفارمنس سے سماں باندھ دیا۔ افتتاحی تقریب میں کپتانوں نے ایونٹ کی ٹرافی کی رونمائی بھی کی۔

مظفر آباد کرکٹ اسٹیڈیم میں کے پی ایل میں شریک ٹیموں کے کپتانوں شاہد آفریدی، سہیل تنویر، کامران اکمل، عبدالرزاق اور شان مسعود نے ٹرافی کی رونمائی کی۔ شاہد آفریدی نے چمچماتی ٹرافی پر سے پردہ اٹھایا۔

اس کےبعد گلوکاروں معصومہ انور اور اسرار شاہ نے اپنی آواز کا جادو جگایا، اس موقع پر آتش بازی کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔

کے پی ایل کی تمام تیاریاں مکمل ہوگئی ہیں، ایونٹ کے میچز کے لیے پانچ پچز تیار کی گئی ہیں، شریک ٹیموں کے کھلاڑی اب بے چینی سے لیگ شروع ہونے کے منتظر ہیں۔

میر پور رائلز اور راولا کوٹ کے درمیان کھیلے جانے والے پہلے میچ سے قبل کشمیر پریمیئر لیگ کی افتتاحی تقریب شام چھ بجے شروع ہوئی۔

کشمیر پریمیئر لیگ کے افتتاحی میچ میں راولا کوٹ ہاکس نے میرپور رائلز کو 43 رنز سے ہرادیا جو 195 کے مطلوبہ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے شعیب ملک کی نصف سنچری کے باوجود آٹھ وکٹوں پر 151رنز بنا سکی

ایونٹ میں پی سی بی کے غیر کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑی شریک ہوں گے ان میں عماد وسیم ، محمد حفیظ اور اعظم خان بھی شامل ہیں۔

 مظفر آباد میں جمعرات کو بارش کے سبب شریک ٹیمیں پریکٹس نہ کرسکیں، دوسری جانب کشمیر پریمیئر لیگ میں شریک ٹیمیں مقامی ہوٹل میں بائیو سیکیور ببل میں ہیں۔

نواز شریف سفری دستاویزات مکمل ہوتے ہی عرب ملک جائینگے: ذرائع

برطانیہ کے ویزہ ختم ہونے کے بعد کسی دوسرے ملک سے دوبارہ واپس آنا لازمی ہے، وکلا کا مشورہ

عرب ممالک کے سربراہ کی جانب سے کچھ روز قبل انہیں دورے کی دعوت ملی تھی جسے کورونا کے باعث ملتوی کر دیا گیا تھا۔

لاہور (حسنین اخلاق) باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے مسلم لیگ ن کے سربراہ  وقائد میاں محمد نواز شریف کی ویزہ درخواست مسترد ہونے کے بعد ان کے وکلا کے ترف سے نئی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔

جس کے تحت اب ان کے قکلا برطانوی سفری دستاویزات کے لیے اپلائی کریں گے جبکہ ان کے کاغزات کے موصول ہوتے ہیوہ ایک عرب ملک جائینگے۔

جس کے سربراہ کی جانب سے کچھ روز قبل انہیں دورے کی دوبارہ دعوت موصول ہوئی تھی۔

افغان طالبان نے باب دوستی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا

سلامتی کونسل کا اجلاس : پاکستان طالبان کے حملے بند کرانے کیلئے سپلائی لائن اور انفراسٹرکچر ختم کرنے کیلئے مدد کرے: افغان نمائندہ۔
سیاسی حل کیلئے ہر ممکن کوشش کی تھی : پاکستان کا جواب۔

فغان طالبان نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن بارڈر کراسنگ بند کردی۔

سکیورٹی حکام  کے مطابق افغان طالبان نے پاک افغان بارڈرباب دوستی ہر قسم کی آمدورفت کیلئے بندکردی جبکہ پاکستان نے بھی افغانستان کیلئے باب دوستی سے ہرقسم کی آمدورفت معطل کردی۔

کسٹم حکام نے بتایا کہ باب دوستی کی بندش سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور امپورٹ ایکسپورٹ معطل ہوگئی ہے۔

حکام کا کہنا تھاکہ تجارتی سرگرمیوں سے متعلق پاکستانی دفاتر کے ہرقسم کے آپریشن بھی معطل کردیے گئے ہیں جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ، درآمدات، برآمدات اور ٹرکوں کی گزشتہ روز کلیئرنگ بھی منسوخ کی گئی ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق باب دوستی کے دونوں اطراف پھنسے پاکستانی اورافغان شہریوں کیلئے پیدل آمدورفت بھی معطل ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان کا کہنا ہے کہ سرحد بندش کا فیصلہ صوبے قندھار میں طالبان متوازی گورنر مولوی حاجی وفا نےکیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں طالبان نے 20 سال بعد افغانستان کی جانب سے باب دوستی کاکنٹرول دوبارہ حاصل کیا تھا اور کچھ روز بعد ہی کراسنگ کو آمدورفت اور تجارت کیلئے کھول دیا گیا تھا۔

ہمارا جغرافیہ ہی وبالِ جان

رانا زاہد اقبال
پاکستان جغرافیائی حیثیت سے بے مثال اہمیت کا حامل ملک ہے کیونکہ وسطی ایشیا کے تمام تجارتی راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے روایتی مفروضوں میں اس کے محل ِ وقوع کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے لیکن ابتدائی 6 دہائیوں تک اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا جس سے پاکستان ایشیا کی تجارتی گزرگاہ نہیں بن سکا۔پاکستان ایسے ملکوں میں گھرا ہوا ہے جن کا رویہ اس کے ساتھ معاندانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اس کے لئے وبالِ جان بنی رہی۔ 2013ء تک پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے محض امریکہ اور اس کے اتحادی مستفیض ہوتے رہے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی سر زمین کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے استعمال کیا۔ پھر پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کا اس وقت غلط استعمال ہوا جب روس مخالف جہاد کو پاکستان میں پروان چڑھایا گیا۔ افغانستان کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر پاکستان نے جو کردار ادا کیا اس کے سنگین نتائج آج تک بھگتے جا رہے ہیں۔ غرض کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اس کے جغرافیائی محلِ وقوع کو کرائے پر چڑھا کر اپنامفاد حاصل کیا۔
تاریخی پہلو سے بھی پاکستان کی حالت قابلِ رشک نہیں تھی۔ یہ علاقہ وسطی ایشیا اور شمال سے آنے والے حملہ آوروں کی گزرگاہ بنا رہا۔ پھر یہ برطانیہ کی روس کے خلاف جنگ میں سرحدی صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اس میں کوئی خوش نما تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان ابھی تک اپنے آپ کو عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے نہیں نکال سکا۔ پاکستان کو اگر جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کا معاشی مرکز بننا تھا تو اسے خالص تجارتی انداز میں دیکھنا چاہئے تھا۔ پاکستان ہندوستان کے لئے شمالی اور وسطی ایشیا کے لئے ایک تجارتی گزرگاہ بن سکتا تھا لیکن وہ تو بوجوہ نہیں بن سکا اور اس کے مستقبل قریب میں امکانات بھی معدوم ہیں۔ افغانستان کی حکومت کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کوئی بہت شاندار نہیں ہیں اور اس کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ خود افغانستان ہے۔ اشرف غنی پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کاقیام چاہتے ہی نہیں۔
پاکستان کے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ پہلی بار 2013ء میں اس وقت ہوا جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے چین کے ساتھ سب سے بڑے منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری پر دستخط کئے۔ یہ 3218 کلو میٹر طویل روٹ ہے اور کئی ہائی ویز، ریلویز، پائپ لائنز اور توانائی کے منصوبوں پر مشتمل ہے۔ سی پیک واحد منصوبہ ہے جس کے مکمل ہونے پر دنیا بھر کے ممالک کی نظریں پاکستان اور چین کی معیشت پر لگی ہوں گی اور دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے کم ہونے سے تجارتی قافلے اپنی منزل تک پہنچنے میں دشواری محسوس کرتے تھے انہیں آسانی محسوس ہو گی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گا جو ابھی سے ہی امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں کو کھٹک رہا ہے۔
امریکہ اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے وہ اس کے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے ہی ہے۔ امریکہ بھی ہماری طرح برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہوا تھا۔ 1776ء میں اعلامیہ آزادی پر دستخط ہوئے جس سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ وجود میں آئی۔ امریکہ کا جغرافیہ یہاں اس کی مدد کو آیا کہ اس کے اور یورپی برِ اعظم کے درمیان سمندر حائل ہے جس سے برطانوی تسلط کا زور ٹوٹ گیا۔ جس وقت یورپی ممالک آپس میں دست و گریباں تھے امریکہ اپنے برِ اعظم میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ اس ساری صورتحال سے بخوبی واقف امریکہ بھلا پاکستان اور چین کو کس طرح آرام سے بیٹھنے دے گا کہ پاکستان اور چین مزے سے راہداری بنا کر ترقی کی منازل طے کر لیں۔ امریکہ بھارت کی مدد سے چین اور پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے کیونکہ بھارت چین اور پاکستان کا اس سے بھی بڑا دشمن ہے۔اس کے لئے ہمیں اپنے ارد گرد کے معاملات پرنظر رکھتے ہوئے صرف اپنی صنعتی ترقی کی طرف دھیان دینا ہو گا۔ ممکن ہے اس میں بہت زیادہ وقت لگ جائے مگر ہمیں اپنے بہتر مستقبل کے لئے ایسا کرنا ہو گا۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ہڈی تکلیف میں ہے

انجینئر افتخار چودھری
ویسے ہم لوگ بھی کیا مکھن لگاؤ ہیں۔صبح و شام جب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی مملکت خداداد پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ویسے یہ تو ہم سب جانتے ہیں ریڑھ کی ہڈی پورے جسم کا اہم حصہ ہوتی ہے یہ بنیادی ہے فریم ہے اسی کے اوپر پورا جسم باندھا گیا ہے۔دوستو یہ ہڈی آج کل بڑی مشکل میں ہے اس کے بارے میں سب چپ ہیں الیکشن ہو رہے ہیں حکومتیں بن رہی ہیں مگر ہڈی کے ساتھ جو منظر نامہ جڑ گیا ہے اس کی بات نہیں ہو رہی۔جی جناب یہ ریڑھ کی ہڈی بڑی مشکل میں ہے یہ سعودی عرب واپس نہیں جا سکتی یہ دبئی کویت واپس اپنی نوکریوں پر حاضر نہیں ہو سکتی۔اگر جانا بھی پڑے تو ان ممالک سے ہو کر جائے گی جن کو سعودی عرب اور دیگر ممالک میں جانے کی اجازت ہے یہ لوگ پہلے پہل بحرین جاتے تھے وہاں چودہ دن قرنطینہ میں رہ کر سڑک کے ذریعے سعودی عرب پہنچ جاتے تھے بعد میں وہ راستہ بند ہو گیا پھر افغانستان سے راستہ کھلا بعد میں وہ بھی بند ہو گیا پتہ نہیں اب سنا ہے البانیہ کے راستے یہ لوگ دبئی پہنچ رہے ہیں میرا بھانجہ نفیس میرا دوست انصر اقبال نور الحسن گجر میری عزیزہ سندس یہ سب تین چار مختلف ممالک سے ہو کر سعودی عرب اور دبئی پہنچے ہیں۔ نفیس تو ابھی راستے میں ہے۔
قارئین اس ریڑھ کی ہڈی پر تواتر سے ضربیں لگائی جا رہی ہیں ان گنت لوگ اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں یہاں کوئی کاروبار نوکری نہیں کرتے کہ واپس اپنی نوکریوں پر جانا ہے۔آج ایک دوست کہہ کہنے لگے پہلے پہل مہینہ دو مہینہ چھٹی آیا کرتے تھے اپنا ایک بجٹ ہوتا تھا عزت سے گھوم پھر کر واپس چلے جاتے تھے اب کوئی پتہ نہیں جو پونجی لائے تھے وہ کھا چکے ہیں جانے کا راستہ نہیں نظر آتا دو تین لاکھ لگا کر واپس بھی چلے جائیں لیکن راستے میں کسی غیر ملک میں دو ہفتے رہنا کوئی آسان کام تھوڑا ہی ہے۔ان پاکستانیوں کی کوئی بات نہیں کر رہا پچھلے دنون سعودی عرب کے وزیر خارجہ پاکستان آئے خبر یہ نکلی کے باہمی دل چسپی کے امور پر بات ہوئی ہے جب پوچھا گیا کہ کون سی دلچسپی تھی جس پر بات چیت ہوئی کوئی ہمیں بھی بتائے کہ ان پاکستانیوں کے بارے میں جناب نے کیا رویہ اپنایا ہے کیا کسی نے ان پاکستانیوں کی بات کی ہے جن کی اچھی اچھی نوکریاں ہیں اور وہ نوکریاں اب ان کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور ملک کے باشندوں کو مل جائیں گی کچھ کے کاروبار ہیں جن پر کوئی اور بندہ قبضہ کر لے گا۔لگتا یوں ہے کہ ہم سب کچھ کرتے ہیں صرف باتوں کی حد تک کوئی کسی کو جواب دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا خود اپنے وہ ساتھی جو ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اقتدار میں آ کر ان اہم مسائل پر جواب بھی نہیں دیتے۔ان لاکھ سوا لاکھ پاکستانیوں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ ایک چربی سی چڑھ گئی ہے اقتدار اتنی بُری چیز ہے کہ وہ دوست جو دکھ درد کے وقت ساتھی تھے دھرنے میں ساتھ ساتھ تھے جیسے ہی اقتدار ملا جواب تک نہیں دیتے اللہ انہیں سمجھے لگتا ہے یہاں ہر مسئلے کا حل دھرنہ ہے جلوس ہے شور شرابہ ہے۔
یہاں ٹیکنالوجسٹ کی بات کر لیتے ہیں ان بے چاروں نے سترہ سال پڑھا ہے اور ان کی صورت حال یہ ہے کہ انجنیئرنگ ٹیکنالوجسٹ اپنے سیلری سٹرکچر اور اپنی ٹیکنالوجی کونسل کے لئے منتیں کر رہے ہیں۔Listen shafqatکے نام پر ہیش ٹیگ چلایا کوئی سات ہزار ٹویٹس ہوئیں کہ جناب شفقت ہمارے اوپر شفقت فرمائیں لیکن مجال کہ انہیں کوئی جواب دیا گیا ہو احمد فراز کے صاحبزادے تو چپ رہے الٹا یہ ہوا کہ جناب شفقت محمود ہم سے ناراض ہو گئے ہیں۔دوستو سچ پوچھو یہ کرسی بڑی بیماری ہے اس پر جو بھی بیٹھا وہ دوستوں کو بھول گیا کم لوگ ہوتے ہیں جو کسی کو کال کر کے بتاتے ہیں حال احوال لیتے ہیں۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ طاقت اور اقتدار مین آ کر کسی انسان کا اصل ظاہر ہوتا ہے ہمیں کیا ہم اپنا کام کروا لیتے ہیں کسی کو ڈرا کے کسی کی منت کر کے ہمارا اپنا کام ہوتا ہی کیا ہے جو لوگ ہم سے امیدیں رکھتے ہیں جو کارکن ہم سے توقعات رکھتے ہیں۔ہم بھی کسی سے اپیل کر دیتے ہیں کہ مہربانی کریں کام کر دیں اللہ ان کا بھلا کرے جو سن لیتے ہیں۔یقین کریں سعودی عرب دبئی اور خلیج کے ملکوں سے آئے لوگ دامن پھیلا کر بد دعائیں دے رہے ہیں یہ بد دعائیں کب لگیں گے اللہ ہی جانے لیکن سچ پوچھیں دعا اور بد دعا پیچھا کرتی ہے۔یہ وہ لوگ تھے جو عمران خان کی حکومت آنے پر خوش تھے بہت سے تو فلائٹیں بک کرا کے آئے جو نہیں آ سکے انہوں نے پردیس سے چندے بھیجے پیڈ ممبر شپ کے ذریعے ہزاروں ریال پارٹی کو دئیے۔کوئی دو ماہ پہلے سعودی عرب میں الیکشن ہوئے کارکنان نے پیڈ ممبر شپ کی اور الیکشن کو کامیاب کیا آج انہی لوگوں کو واپسی کا راستہ نہیں مل رہا ایک اور دوست کا کہنا تھا کہ ان کے عزیز کو سائینو فارم لگی ہے کیا اس کو فائزر لگ سکتی ہے اگر لگ سکتی ہے تو کب کیسے کہاں سے؟قارئین کرام!پہلے ہم بنگلہ دیش کے محصور پاکستانیوں کی بات کرتے تھے اب پاکستان کے اندر پھنس جانے والوں کا رونا شروع ہو گیا ہے آج سعودی عرب سے ملک بابا کہہ رہے تھے کہ یہاں اسی فی صد پاکستانی بغیر اقاموں کے ہیں یہی رونا سردار بابا کہہ رہے تھے۔
۲۰۱۹ میں جب عمرے کے لئے گیا تو ان کا کہنا تھا اب یہاں اکثریت کا اقامہ ختم ہو گیا ہے ایک بڑی فیملی پر لاکھ لاکھ ریال کا بوجھ ہے۔ایسے میں یہ لوگ کہاں جائیں گے ان کے بچے اسکول نہیں جا سکتے انہیں علاج معالجہ میسر نہیں ہے ان کے پاس کوئی میڈیکل کارڈ نہیں ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے لئے عذاب کھڑا ہو جاتا ہے ۔ان کے اپنے کاروبار ہیں جو کرونا نے ختم کر کے رکھ دئیے ہیں۔ایسے میں وہ کیا کریں گے۔ہمیں جنرل بلال اکبر کی انگریزی سے کوئی گلہ نہیں ہمیں ان کی توجہ درکار ہے ہم ان کو کراچی میں آزما چکے ہین جنہیں فوج سے چڑ ہے وہ چڑتے رہیں وہ فوراً پاکستان آ کر وہاں کے پاکستانیوں اور یہاں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے لئے کوئی راستہ نکالیں۔
شاہ محمود قریشی یہاں کا چھوڑیں وہاں جائیں۔پاکستان کے بے شمار مسائل ہیں لیکن یہ صرف پاکستان نہیں دنیا کے ہر ملک کو کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش ہے۔ہمیں سعودی عرب کے نظام وہاں ہونے والی تبدیلیوں وہاں کے سیاسی اور سماجی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ہم اب اس دلفریب نعرے سے بھی باہر آنا چاہتے ہیں جس نے پاکستانیوں کے دماغ میں خلل ڈال رکھا ہے کہ ہمارا اور ان کا رشتہ کیا ہے وہ اپنی جگہ ہم اپنے سکلڈ نان سکلڈ ورکرز کا خیال کریں وہاں رہنے والوں کی بہبود کا سوچیں۔ایک لحاظ سے سوچا جائے تو یہ ذمہ داری سعودی عرب کی حکومت کی ہے یہ سب لوگ ایک معاہدے کے تحت وہاں ملازمت کر رہے ہیں ان کے پاس ویلڈ اقامے ہیں اور یہ رہائشی پرمٹ مملکت خداداد سعودی عرب کی جانب سے جاری کئے گئے ہیں۔شیخ طاہر اشرفی جو ڈنگی سیدھی عربی بولتے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے نعروں کی پاسداری کریں جو رتبہ اور جو ذمہ داری انہیں ملی ہے اس کو پورا کریں ورنہ یہ ذمہ داری مجھے دیں میں جس طرح ماضی میں پاکستانیوں کی خدمت کرتا رہا ہوں اب بھی کر لوں گا۔سعودی عرب سے آنے والوں کے لئے اگر شو پیس ہی کا کام کرنا ہے تو پاکستان کے پاس اچھی عربی بولنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ہماری وزارت خارجہ بھی شاید ستو پی کر سو رہی ہے ان کے لئے افغانستان سے بڑھ کر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔میں اپنے سینئر ساتھی شاہ محمود قریشی سے دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ ان پاکستانیوں کو سینے سے لگائیے ان کی بات سنیں ان کا مسئلہ حل کریں۔ریڑھ کی ہڈی بڑی تکلیف میں ہے۔اسے بچا لیجئے ولی عہد محمد بن سلمان سفیر پاکستان کا کردار ادا کریں اور اپنی ذمہ داری کو پاکستان سے لے جانے کی اجازت دیں۔ پاک سعودی دوستی ۲۰۳۰ کے ویژن کی نظر سے دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی معززین جو پاکستان میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں انہیں با عزت وہاں لے جایا جائے کووڈ کیا ان پاکستانیوں کے لئے ہی ہے۔ یہ ریڑھ کی ہڈی تکلیف میں ہے اس کا کچھ کر لیں
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان اور اس کے ہمسائے

پی جے میر
آج پاکستان اس چوراہے پر کھڑا ہے، جہاں ہمیں بہت سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی چیلنج بھی ہمیں درپیش ہے۔ پہلے ہم خود کو درپیش بیرونی چیلنج کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ ہمیں سب کو معلوم ہے کہ اس وقت پاکستان کے شمال میں افغانستان اور بھارت موجود ہے۔ جتنا چاہے پاکستان نے ان دونوں ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن بدقسمتی سے ہمیں ان دونوں ملکوں کی جانب سے انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت پاکستان کوئی مانے یا نہ مانے امریکہ کے شکنجوں سے بچ رہا ہے اور صرف ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس عمران خان کی صورت میں ایک وزیراعظم موجود ہے۔ امریکہ اس وقت ہر قسم کا دباؤ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان انہیں اپنے ایئر بیسز فراہم کرے۔ جس پر وزیراعظم نے دوٹوک جواب پہلے ہی دے رکھا ہے کہ کسی بھی صورت میں ہم امریکہ کی اس خواہش اور مطالبے کو پذیرائی نہیں دیں گے۔ ہم نے پہلے ایک بے معنی جنگ لڑی جو امریکہ ہی کی خاطر تھی اور اس کا انجام ہم سب نے دیکھ لیا کہ پاکستان اور خطے کے ارد گرد قائم ممالک میں کس قدر خوفناک دہشت گردی سامنے آئی اور دنیا کو پتا ہے کہ پاکستان کو کتنا معاشی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کے ساتھ کوئی ملک کھڑا نہ ہوا۔ امریکہ جس طرح پہلے ہی افغانستان کو نہتا چھوڑ کر نکل گیا۔ آج بھی وہی صورت ہے کہ بگرام ایئرپورٹ پر بغیر بتائے افغانی فورسز فرار ہو گئیں۔
اگر اخبارات کے قارئین کو یاد ہو کہ مسز ہیلری کلنٹن نے کنونشل کمیٹی کے روبرو جو بیان دیا کہ ہم نے افغانیوں کو استعمال کیا اور اس طرح ہم انہیں چھوڑ گئے اور آج بھی منظر نامہ وہی ہے کہ آج وہی لوگ پاکستان کو دوبارہ ملوث کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ہمیں اپنے ہوائی اڈے ماضی کی طرح دیں تاکہ ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لہر پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھی جا سکے۔ یہ ایک ڈویلپمنٹ سٹوری ہے کیونکہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 27 نکات میں سے 26 کو پورا کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے پاکستان آج بھی امریکی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور گرے لسٹ میں پایا جاتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ آئندہ آنے والے دنوں میں بھی پاکستان پر اپنا پورا دباؤ ڈالیں گے کیونکہ افغانستان کی صورتحال اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے۔ صوبہ ہلمند اس وقت طالبان کے ہاتھ میں ہے اور جلد ہی کابل بھی ان کے ہاتھ آ جائے گا۔ میں نے پہلے بھی دو ٹوک لفظوں میں کہا تھا کہ افغانستان کا اپنا مسئلہ ہے اور جیسے بھی افغانستان کے اندرونی معاملات ہوں گے یا آئندہ انتخابات کے بعد جو لوگ منتخب ہوں گے، اسے پاکستان تسلیم کرے گا اور پاکستان کی اس حوالے سے کوئی پسند ناپسند نہیں ہوگی۔ ہمیں بتایئے کہ اگر پیچھے مڑ کر تاریخ کو دیکھیں تو افغانستان جو ہمارا ایک نزدیکی اور ہمسایہ ہے لیکن 1947ء میں اس نے قیام پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی پاکستان نے ایک لینڈ لارڈ ملک کو راستہ تجارت کے لیے دیا لیکن بدقسمتی سے افغانستان کا رویہ ہمیشہ پاکستان مخالف ہی رہا اور وہ بھی بھارت کے ساتھ مل کر۔ اگر اس کی وجہ ہم سے کوئی پوچھے تو یہ افغانستان کی لیڈرشپ کی کرپشن کی وجہ سے ہے۔
عام افغانی پاکستان سے بہت پیار کرتا ہے لیکن جو مفادپرست لیڈرشپ جو ڈالروں میں کھیلتی ہے اور لوگوں کو دانستہ طور پر پسماندہ رکھا گیا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں بہت احتیاط کرنا ہوگی اور ایک ایسا کردار ادا کرنا ہے جس میں بھارت کو باہر نکالا جائے جو ہم کر بھی رہے ہیں۔ اس کا ثبوت گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے بڑا کھل کر کہہ دیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بھارت کی شمولیت ہمیں قابل قبول نہیں۔ ایک مضبوط افغانستان پاکستان کا بڑا زبردست حامی بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں افغانستان میں منصفانہ آزادانہ اور شفافیت پر مبنی انتخابات نظر آنے چاہئیں تبھی اس خطے میں امن آ سکے گا۔
اب بات آتی ہے ہمارے سی پیک روٹ کی۔ دو تین چار ہفتے قبل داسو کے مقام پر چینی انجینئرز کے ساتھ جو سانحہ پیش آیا تھا وہ انتہائی قابل مذمت ہے اور اس واقعے کی تحقیقات کا حکومت سے مطالبہ بڑے شدید ترین الفاظ میں کیا جانا چاہیے۔ اس حادثے کے رونما ہونے کے بعد ایک اور دوسرا بہیمانہ واقعہ جو قوم کی بیٹی نور مقدم کے ساتھ پیش آیا، اس کے پیچھے بھی اور داسو کے واقعے کے پیچھے بھی میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کا ہی ہاتھ ہے۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں امن ہو لیکن بدقسمتی سے بھارت کا کردار نہایت ہی گھٹیا رہا ہے جو بھی امن چاہتے ہیں تو کیا کے پی ایل لیگ کے اوپر بھی یہ اعتراض وارد کیا جا رہا ہے کہ وہ آزادکشمیر میں نہ کھیلی جائے۔ آپ دیکھیں کہ یہ بے غیرت لوگ کشمیر میں کیا کر رہے ہیں۔ جہاں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا اور ہندوؤں کو سکنی جائیدادیں خریدنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ پاکستان اقوام متحدہ کی ہدایات پر آج بھی عمل پیرا ہے اور کوئی پاکستانی شہری آزادکشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔
میں دوبارہ کہوں گا کہ اس وقت ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس عمران خان کی شکل میں ایک وزیراعظم آیا جو دنیا کے سامنے کھڑا ہو گیا اور وہ دلیرانہ فیصلے کر رہا ہے۔
(کالم نگار معروف اینکر اور ممتازسیاسی تجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭