تازہ تر ین

تلخ لہجے میں جب کوئی بولے

سید سجاد حسین بخاری
وزیراعظم نے 23جنوری کو عوام کے 13سوالوں کے 90منٹ تک جواب دیئے اور مفصل گفتگو کی۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے دل کی بھڑاس بڑے تلخ لہجے میں خوب نکالی۔ ان کے 90منٹ کے ٹی وی پروگرام میں اپوزیشن، عدلیہ، پی ڈی ایم، ٹی ایل پی، این آر او، میڈیا، مہنگائی، ملکی معیشت، ایف بی آر، غربت، کارپوریٹ سیکٹر، خوراک کا بحران، نوازشریف کی واپسی، حکومت کی مدت اور اگلی حکومت کا دعویٰ موضوع گفتگو رہے۔
وزیراعظم کی ٹی وی گفتگو ختم ہوتے ہی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بحث شروع ہوگئی۔ حمایت اور مخالفت کرنے والوں نے ایک دوسرے کو خوب لتاڑا مگر کچھ معتدل لوگوں نے بھی ٹی وی پروگراموں پر گفتگو کی اور انہوں نے چند معقول سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مثلاً وزیراعظم کو اچانک ٹی وی پروگرام کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا اس گفتگو کا یہ وقت مناسب تھا؟ کیا سوال جان بوجھ کر تلخ رویے کیلئے کرائے گئے تھے؟ کیا وزیراعظم کو کوئی بڑا مسئلہ یا تھریٹ تو درپیش نہیں ہے؟ سب سے زیادہ بحث وزیراعظم کے تلخ لہجہ اور سڑکوں پر نکلنے کی ہورہی ہے۔ مزید سوالات بھی ہیں کہ کیا وزیراعظم کو اپنی حکومت ختم ہوتے نظر آرہی ہے؟ یا اس وقت ان کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے؟ جس کا انہیں علم ہوگیا ہے تو انہوں نے طیب اردگان کی طرح فوراً عوام کو اعتماد میں لیا ہے۔
اس تقریر کی میری نظر میں دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ چند دن قبل مسلم لیگ (ن) کے جن چار بڑے رہنماؤں نے مقتدر قوتوں کو اپنی خدمات پیش کی تھیں یا تو ان کی پیشکش پر غور ہونا شروع ہوگیا ہے یا پھر عدلیہ کی طرف سے شریف برادران کے مقدمات کی بابت کسی نئی چیز کی وزیراعظم کو اطلاع دی گئی ہے جس میں نوازشریف کی تاحیات نااہلی کی سزا کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے ورنہ اس وقت وزیراعظم کو بڑا پُرسکون ہونا چاہیے تھا کیونکہ اپوزیشن تقسیم ہوچکی ہے، تحریک عدم اعتماد کا ابھی حتمی فیصلہ اپوزیشن نے نہیں کیا، لانگ مارچ فی الحال نہیں ہورہا، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے دھڑے پرویز خٹک، ترکئی فیملی، عاطف خان اور محمود خان گروپ سب خاموش ہیں۔ پنجاب میں بھی جہانگیر ترین گروپ بھی حکومت کے ساتھ ہے۔ حکومتی اتحادی بھی مطمئن اور پُرسکون، فوج اور حکومت بھی ایک صفحے پر ہیں بلکہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے یہ دعویٰ مسلسل کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت، فوج اور عدلیہ متحد ہیں جو عمران خان کی خوش قسمتی ہے مگر پھر اچانک سب کچھ کیسے ہوگیا؟ اور عمران خان کو سڑکوں پر آنے کی نوبت کیوں پیش آرہی ہے؟ کیا کوئی بڑی سازش تو نہیں ہورہی؟ اگر ہے تو کون کررہا ہے؟ میری نظر میں اس وقت ملک میں حکومت مخالف کسی قسم کی تحریک کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ ہی آئندہ آنے والے بقیہ 18مہینوں میں کیونکہ حکومت کا یہ آخری سال چل رہا ہے اور اپوزیشن بھی حکومت نہیں گرائے گی۔ مجھے اصل مسئلہ عدلیہ کی طرف سے نظر آرہا ہے کہ شاید وزیراعظم کو کرپٹ ٹولے کے مقدمات میں التواء اچھا نہیں لگ رہا کیونکہ عمران خان کی زندگی کا واحد مقصد شریف برادران اور زرداری خاندان سے لوٹی ہوئی دولت واپس کرانا اور انہیں سزائیں دلوانا مقصود تھا جو ساڑھے تین سالہ اُن کے دورِ حکومت میں تمام تر کاوشوں کے باوجود نہیں ہوسکا اور اسی رفتار کو محسوس کرتے ہوئے انہیں یہ محسوس ہوا ہے کہ شاید ان کے بقیہ دور میں بھی ان کے مخالفین کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس لئے انہوں نے شہزاد اکبر کو بھی فارغ کردیا ہے۔
اب اسی مقصد کیلئے انہوں نے وزارتِ قانون کی معرفت کریمنل پروسیجر کوڈ میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں جن کا عنقریب اعلان وزیراعظم خود کریں گے اور ان قوانین میں ترمیم کا بڑا مقصد ہر مقدمے کی سماعت کا وقت متعین کرنا ہے تاکہ سالوں تک لٹکنے والے مقدمات کے فیصلے چند مہینوں میں ہوں اور ملزموں کو بروقت سزا وجزاء کے عمل سے گزارا جاسکے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں مزید نئے قوانین کی ضرورت ہے۔ عدلیہ سے جڑی وکلاء برادری اور سائلین بھی برابر کے قصووار ہیں۔ وزیراعظم کی تقریر کا آخری نقطہ اگلی حکومت کا تھا کہ اگلی حکومت ان کی ہوگی۔ بے شک ان کی ہوگی مگر کس بنیاد پر؟ کیا 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں مل گئیں؟ کیا آئی ایم ایف سے چھٹکارا مل گیا؟ کیا پٹرول، ڈالر، آٹا، دالیں، چینی، کھادیں سستی ہوگئیں؟ کیا مزدور سے لیکر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگیا؟ کیا ترقیاتی منصوبے کسی شہر میں نظر آرہے ہیں؟
میں نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں محسوس کیا ہے کہ وزیراعظم کو غیروں سے نہیں اپنی جماعت کے لوگوں سے خطرہ ہے جن قابل منتخب لوگوں کو انہوں نے (مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، اور پی پی چھوڑ کر آنے والے لوگوں) ٹکٹیں دیکر منتخب کرایا تھا اور پھر کابینہ میں بھی انہی لوگوں کو شامل کیا اور غیرمنتخب مشیروں کی لائن بھی لگائی ہوئی ہے۔ یہ سب اُن لوگوں کے کرشمے ہیں کہ کمزور ترین اپوزیشن کی موجودگی، بہتر معیشت، بہترین برآمدات میں اضافے، 37ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی، صحت اور راشن کارڈ کے باوجود انہیں سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ اور وزیراعظم عمران خان ایک بات یاد رکھیں جب آپ سڑکوں پر نکلیں گے تو موجودہ کابینہ میں سے سوائے پی ٹی آئی کے دو تین وزیروں کے کوئی وزیر، مشیر یا مانگے تانگے کے ارکان اسمبلی آپ کے ساتھ نہیں ہوں گے، وہی پرانے کارکن آپ کیلئے آگے آئیں گے جن کو آپ بھول چکے ہیں۔
وزیراعظم صاحب! آپ سے گزارش ہے کہ قابل منتخب (Electable) اور مانگے تانگے کے ارکان اسمبلی کے بجائے اپنی نوجوان بریڈ کو میدان میں اُتاریں۔ بے شک آپ ایک الیکشن ہار جائیں گے مگر اگلے الیکشن میں آپ دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔اس موقع پر مجھے میرے ایک رفیقِ کار اورممتازشاعر یونس عدیم کا خوبصورت شعر یاد آرہا ہے:
تلخ لہجے میں جب کوئی بولے
لے کے قاصد بھی کیا جواب آئے
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain