تازہ تر ین

سینٹ میں شکست،یوسف رضا کی زبانی

سید سجاد حسین بخاری
سینٹ کا نام آتے ہی میرے ذہن میں وسیم سجاد سابق چیئرمین سینٹ کا نام آجاتا ہے۔ اُن کا دورانیہ 1988ء سے شروع ہوتا ہے اور 1999ء تک لگاتار چار بار وہ چیئرمین سینٹ رہے۔ ان کی بابت تفصیلات آئندہ، فی الحال جمعہ کے دن اکثریت کے باوجود اپوزیشن کی شکست کی اصل کہانی لیڈر اپوزیشن سینٹ کی زبانی سن لیں۔ جمعۃ المبارک 6:18 بجے شام سید یوسف رضا گیلانی نے فون کیا اور کہا کہ حکومت وقت نے میرے خلاف ایک گھناؤنی چال چلی ہے اور ”منی بل“ کی سینٹ سے منظوری کا سارا ملبہ شکریے کی شکل میں مجھ پر ڈال رہی ہے جبکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے جب اسلام آباد میں سینٹ سیشن چل رہا تھا تو مجھے بتایا گیا کہ اگلا سیشن 31 جنوری بروز سوموار کو شاید بلایا جائے۔ میں گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد سے لاہور آگیا اور پھر ملتان میں نے پورا ہفتہ گزارا۔ اس دوران ہمارے دو ممبران قومی اسمبلی کے والد اور سابق ممبر قومی اسمبلی ملک غلام محمد نور ربانی کھر کا انتقال ہوگیا، مجھے اپنے چیئرمین اور صدر زرداری کی نمائندگی کا بھی کہا گیا۔
27 جنوری جمعرات کی شب رات ساڑھے 12بجے سینٹ کا ایجنڈا میرے اسلام آباد والے گھر پر پہنچایا گیا جبکہ میں اس وقت ملتان میں محو خواب تھا۔ صبح مجھے میرے سٹاف نے بتایا کہ آج سینٹ کا اجلاس ہے مگر اس وقت میرا پہنچنا محال تھا اور اسی دن ملک نور ربانی کھر کی قل خوانی تھی مگر میں ایوان بالا کی کارروائی بذریعہ فون لمحہ بہ لمحہ سنتا رہا۔ ساڑھے گیارہ بجے دن تک سینٹ میں اپوزیشن کے 42 ممبران اور حکومت کے 37 سینیٹرز ایوان میں موجود تھے اور کارروائی جاری تھی۔ حکومت نے اس وقت تک ”سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل“ سینٹ میں پیش نہیں کیا اور ویسے بھی جمعہ کے دن 12 سے ساڑھے 12 بجے اجلاس ختم ہو جاتا ہے حکومت نے ساڑھے گیارہ بجے اجلاس میں وقفہ کیا اور دوران وقفہ سینیٹر دلاور خان کو بلا کر اجلاس سے چلے جانے کا کہا وہ مان گئے اور چلے گئے۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے 4، میرے سمیت پیپلزپارٹی کے 21، جمعیت العلمائے اسلام کے ایک سینیٹر طلحہ محمود بھی اجلاس سے اُٹھ کر چلے گئے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں مسلسل رابطے میں تھا 12 بجے دوبارہ بل سینٹ میں پیش کیا گیا اور اسی دوران حکومت نے اپوزیشن کے چند سینیٹرز کو درخواست کرکے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر راضی کرلیا اور وہ اجلاس سے چلے گئے اور ساتھ ہی حکومتی سینیٹرز جو اسلام آباد میں موجود تھے کو فوری طور پر بلا لیا اور بل دوبارہ سینٹ میں پیش کردیا گیا ووٹ برابر نکلے تو چیئرمین سینٹ نے اپنا ووٹ دیکر بل پاس کرادیا۔
حکومت نے غیرقانونی راہ اپنائی ہے۔ بل کا طریقہ کار موجود ہے مگر حکومت نے چوربازاری کی ہے۔ ایک تو اپوزیشن کو اندھیرے میں رکھا دوسرا قانونی طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ میں نے گیلانی صاحب سے کہا کہ یہ تو ہر حکومت کرتی ہے میری نظر میں سٹیٹ بینک کا بل ایک دن قبل قومی اسمبلی سے حکومت نے پاس کرایا دوسرے دن سینٹ کا اجلاس بلایا جوکہ آپ کے نوٹس میں آگیا۔ آپ کے پاس تین جہاز والے دوست موجود ہیں جن میں جہانگیر ترین، مخدوم احمد محمود اور ملتان کے معروف صنعتکار و سابق میئر میاں فیصل مختار اے شیخ شامل ہیں اور ان کے جہاز آپ اکثر و بیشتر استعمال بھی کرتے رہتے ہیں، اگر آپ جانا چاہتے تو آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ آپ اصل کہانی بتائیں تو گیلانی صاحب نے فون بند کردیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ سینٹ کا سارا ملبہ اکیلے یوسف رضا گیلانی پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ دیگر جماعتوں میں جمعیت العلمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، دلاور گروپ، مسلم لیگ(ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کیوں غیرحاضر تھے؟ جو اپوزیشن تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ کے نعرے گزشتہ دس ماہ سے لگا رہی تھی، وہ اپنے سینیٹرز کو جمع کیوں نہ کرسکی؟ سٹیٹ بینک کا بل منی بجٹ سے شروع ہو کر اب تک لٹکا ہوا تھا اور حکومت کیلئے یہ بل زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا تھا اور اپوزیشن بھی اس بات سے بخوبی واقف تھی اس کے باوجود غفلت؟
قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا جہاں پر جمعرات کی شب یہ بل پاس ہوگیا تھا قدرتی امر ہے کہ حکومت نے فوری طور پر سینٹ میں یہ بل پیش کرنا تھا انہوں نے بے شک رات کے 12 بجے صدر سے اجلاس بلانے کے نوٹس پر دستخط بھی کرائے مگر سینٹ چیئرمین نے تمام سینیٹرز کو بذریعہ ایس ایم ایس اور واٹس اپ اطلاع کردی تھی پھر غیر حاضری کا جواز نہیں بنتا اور مسلم لیگ کی لیڈر محترمہ مریم نواز بے خبر اور خاموش کیوں ہیں انہوں نے اپنے چار سینیٹرز کی خبر کیوں نہیں لی؟
میری نظر میں کسی ایک بھی سینیٹرز کا قصور نہیں خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، ہم یہ تماشا 1985ء سے دیکھ رہے ہیں یہ غیرحاضریاں، بیماریاں، اجلاس سے اٹھ کر چلے جانا یہ سب کام ہمیشہ سے اس وقت ہوتے ہیں جب کسی کی ملازمت میں توسیع کا بل پیش ہو۔ جب اعتماد کا ووٹ لینا ہو، جب دھرنا ختم کرانا یا سینٹ کے الیکشن ہوں، کسی وزیراعلیٰ کی تبدیلی ہو، یٰسین وٹو سے لیکر غلام حیدر وائیں مرحوم ہو یا بلوچستان کے گزشتہ ماہ تبدیل ہونے والے جام کمال ہوں، بجٹ یا منی بجٹ ہو، ممبران قومی اسمبلی و سینیٹرز کی مراعات کا بل ہو، فوج سے آپریشن کرانا ہو یا رینجرز کو بلانا ہو، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا معاملہ یا مشین کے ذریعے ووٹنگ کا بل ہو جو کچھ بھی مقتدر قوتوں نے کرانا ہوتا ہے اس وقت یہ تمام حیلے بہانے اپنائے جاتے ہیں اور اس طرح کے تمام بلز سینٹ والے اسی فارمولے کے تحت پاس ہو جاتے ہیں اس میں سید یوسف رضا گیلانی پر ملبہ نہ ڈالا جائے اگر انہوں نے سینٹ چیئرمین اور ان کے تین بیٹوں نے بھی الیکشن جیتنے ہیں تو پھر سینٹ سے غیرحاضر رہنا پڑے گا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain