تازہ تر ین

جوڈیشل اصلاحات (1)

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
گزشتہ کالموں میں امن و امان کے ایک ستون یعنی پولیس میں ضروری اصلاحات کا ذکر تھا اور اب ہم آتے ہیں امن و امان اور انصاف کے دوسرے مگر سب سے اہم ستون کی طرف اور وہ ہے جوڈیشری یا عدلیہ جو کہ کسی بھی ملک کا پارلیمنٹ یا مقننہ کے بعد سب سے اہم ادارہ ہوتا ہے۔ عدلیہ کی اہمیت دوسری جنگ عظیم میں برطانوی وزیراعظم چرچل کے اس فقرے سے واضح ہو جاتی ہے جب اس نے ملک میں ہر چیز کی جرمنوں یا ہٹلر کے ہاتھوں تباہی پر لوگوں کی تشویش سن کر کہا تھا کہ“ کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟ اور اگر وہ انصاف کی فراہمی میں آزادی سے اکٹو active ہیں تو برطانیہ کو کوئی مائی کا لال شکست نہیں دے سکتا”۔ گویا ملک کا فعال اور جلدی انصاف فراہم کرنے والا ادارہ عدلیہ اگر آزادی اور عوام کی توقعات کے مطابق انصاف فراہم کر رہا ہو تو ملک ہر خطرے سے محفوظ ہے مگر پاکستان میں جس طرح دوسرے ادارے قریب المرگ ہیں اسی طرح عدلیہ بھی انصاف کی جلد فراہمی میں اتنی ہی نا کام ہے۔کہاوت ہے کہ“انصاف کو ملتوی کرنا انصاف نہ دینے کے مترادف ہے“ یعنی justice delayed is justice denied.۔
عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں عدلیہ میں انصاف حاصل کرنے کے لئے بہت رقم کے ساتھ ساتھ بہت سا اثر و رسوخ درکار ہوتا ہے۔ اور غریب آدمی انصاف کی تلاش میں سب کچھ لٹا کر بھی بے وقت کی موت مر جاتا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں انصاف یا جسٹس کی بجائے رول آف لاء کی بات ہوتی ہے۔ اس نظام میں وکیل کی وکالت اور دونوں اطراف کا اثرورسوخ مقدمے کو حتمی انجام تک پہنچاتا ہے نہ کہ سچ کی بنیاد پر فیصلہ ہو۔عدالتوں میں تاریخوں پر تاریخوں کا ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے اور انصاف کے طلبگار خوار ہوجاتے ہیں۔ عدلیہ کی خرابی کی ذمہ دار بھی خود عدلیہ ہے اور اس کو ٹھیک بھی خود عدلیہ ہی کرے گی مگر تب جب عدلیہ کو عوام کی تکلیف کا احساس ہو اور عدلیہ اپنے اور وکلا حضرات کے مفادات سے نکل سکے۔ اگر یہ کام مقننہ یا پارلیمنٹ کرے یا اس سلسلے میں کوئی قانون پاس کر دے تو عدلیہ اتنی حساس ہے اس سلسلے میں کہ وہ یہ قانون کئی وجوہات دے کر اس کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت قرار دے دے اور قانون کو منسوخ کر وا دے۔ اس لئے بہتر ہے کہ عدلیہ اس سلسلے میں خود اصلاحات کا پیکیج لے کر آئے۔
عدلیہ میں بنیادی اینٹری entry اور ٹریننگ training اور پروموشن promotion کا سسٹم سب کچھ ہائر جوڈیشری higher judiciary کے حوالے کیا جائے۔ اس میں کسی قسم کی سیاسی یا حکومتی دخل اندازی نہیں ہونی چاہئے۔ بنیادی انٹری کا کم از کم تعلیمی معیار ایل ایل بی ہو اور عمر کی حد تیس سال رکھی جائے۔ بنیادی انٹری کے لئے عدلیہ کی زیر نگرانی اینٹری ٹیسٹ اور انٹرویو ہو جو پبلک سروس کمشن کی طرز پر ایک بورڈ کرے جسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مقرر کریں اور اس بورڈ کو سپریم کورٹ کے ایک جج ہیڈ کریں اور اس بورڈ میں ہر ہائی کورٹ سے ایک ایک جج شامل ہو۔ تمام ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی سلیکشن پورے پاکستان میں یہ بورڈ کرے اور تمام صوبوں کے لئے سلیکشن کا معیار ایک ہی مقرر کیا جائے مگر ہر صوبے سے اس کی بنیادی ضرورت کے مطابق سلیکشن کی جائے۔ عدلیہ میں سلیکشن یا انٹری پوائنٹ ایک ہی ہو اور کسی قسم کی لیٹر ل اینٹری قطعی طور پر ختم کی جائے۔
سلیکشن کے بعد عدلیہ میں داخل ہونے والے لوئر جوڈیشری کے جج صاحبان کی بنیادی ٹریننگ کم از کم ایک سال کرائی جائے جس کے لئے ملک میں دو جوڈیشل اکیڈمیز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس بنیادی ٹریننگ کے بعد بھی جج صاحبان کی پانچ سے سات سال سروس کے دوران ایک بارہ ہفتے کا کورس ہو جو کہ انہی اکیڈمیز میں چلایا جائے اور ہر جج کے لئے یہ کورس لازم ہو اس میں جج صاحبان کو ایک دوسرے سے نہ صرف مل بیٹھنے کا موقعہ ملے گا بلکہ ایک دوسرے کے تجربات سے بھی واقفیت ملے گی اور زیادہ سے زیادہ کیس سٹڈیز case studies کا موقع فراہم ہوگا۔ اسی طرح پندرہ سے بیس سال کی سروس کے دوران پانچ سے سات ہفتے کا ایک جوڈیشل کورس بنایا جائے جو جج صاحبان کو ہائر جوڈیشری کی کارکردگی سے آگاہی فراہم کرے اور ماک mock کیسز cases کے ذریعے ان کی فیصلہ کرنے اور لکھنے کی صلاحیت بڑھائی جائے۔
ہر جج لوئر جوڈیشری میں کم از کم بیس سال کے تجربہ، کارکردگی اور کردار کی بنیاد پر ہائر جوڈیشری یا ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو سکے گا اور سپریم کورٹ کا ایک بورڈ چیف جسٹس کی سربراہی میں ان تمام جج صاحبان کی اہلیت کو ان کے ریکارڈ اور انٹرویو کی بنیاد پر ہائی کورٹس کے جج کے طور پر تقرری منظور کرے گا جس کے بعد یہ جج صاحبان اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں -اسی طرح ایک بورڈ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ہائی کورٹس میں کم از کم پانچ سے دس سال خدمات سر انجام دے چکنے والے جج صاحبان کا انتخاب ان کی ہائی کورٹ کے جج کے طور پر خدمات کو دیکھتے ہوئے ان کا انٹرویو کرے گا اور ان کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر منتخب کرکے نئے عہدہ پر فائز کرے-
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سطح پر جج صاحبان کی کارکردگی performance، کردار integrity اور قابلیت competence کو ریکارڈ کیا جائے اور ان کو اگلی سطح پر ان کی پروموشن کے لئے معیار بنایا جائے۔ اس طرح ایک نہایت تربیت یافتہ، قابل اور بہترین کردار کی عدلیہ وجود میں آئے گی جو کسی قسم کے سیاسی یا سماجی دباؤ سے آزاد ہو گی اور اس میں نہ ہی کسی قسم کا وکلا کا دخل ہوگا جو وکلا جج بننا چاہیں وہ شروع سے اس سٹریم stream میں شامل ہوں اور اس کی تربیت لیں، کارکردگی اور کردار کا مظاہرہ کریں اور مختلف کورٹس میں بہترین خدمات انجام دیں۔
عدلیہ میں مقدمات کی بھر مار ہے اور پینڈینسی pendency بہت زیادہ ہے جو ہزاروں اور لاکھوں کیسز کی صورت میں نظر آتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ کیس کی تحقیق میں تاخیر اور تحقیق کا غیر معیاری بھی ہونا ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے کیسوں کے لئے عدلیہ کے ماتحت تحقیقات کا ایک علیحدہ ادارہ بنایا جائے جو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کیسز کو دوبارہ یا نامکمل تحقیق کو مکملْ کرنے کے لئے عدالت اس ڈیپارٹمینٹ کو ریفر refer کرے اور وقت کی حد مقرر کر کے اس تحقیق کو جلد مکمل کرا کے کیس کو نپٹایا جا سکے۔ اسی طرح ہر نوعیت کے کیس کو مکمل کرنے کے لئے ایک مناسب مدت مقرر کرے۔ کوئی بھی کیس کتنا بھی پیچیدہ ہو ایک سال سے زیادہ لٹکا نہ رہے۔ چھوٹے کیسوں کے لئے تو چار سے آٹھ ہفتے سے زیادہ وقت نہ لگے۔جیلوں میں قیدی کئی کئی سال تک اپنی اپیلوں کی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ جن کو چند دنوں یا ہفتوں میں نمٹایا جائے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain