اسلام آباد: (ویب ڈیسک) لاپتہ شہری اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کس نے شہری کو اٹھایا اور اس کی تفتیش کون کرے گا ؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ شہری کیس کی سماعت ہوئی۔ تو لاپتہ شہری عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ کہاں تھے؟ شہری نے جواب دیا کہ میری آنکھوں پر پٹی تھی مجھے علم نہیں کہاں تھا۔
عدالت نے پولیس سے استفسار کیا کہ اب تک کیا انکوائری کی ہے ؟ پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ کچھ وقت دیں انکوائری مکمل ہوتے ہی رپورٹ پیش کر دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی کچھ ذمہ داریاں ہیں ،عدالت انہیں کیسے ہدایت دے، پہلے کیسز کا کیا ہوا ؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے استفسار پر پولیس کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ کچھ کیسز میں انکوائری مکمل ہوچکی ہے اور کچھ میں چل رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شہریوں کو تحفط فراہم کرنا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن سسٹم میں کوئی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا۔ ایک نظام ہے جس کے تحت ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور اس عدالت کو ڈائریکشن دینے کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ وزیر اعظم اس عدالت میں پیش ہوئے تھے کام ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کام ہو رہا ہے؟ اور کس نے شہری کو اٹھایا ہے، اس کی تفتیش کون کرے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ شہری بتائے کہ جب اسے اٹھایا گیا تو کیا اس نے کسی کو پہنچانا۔ نظام میں خرابیاں تو ہیں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ ریاست کا کام ہے کہ شہریوں کا تحفظ کرے لیکن کوئی اپنا کام نیک نیتی سے کرنے کو تیار نہیں ہے۔ 23 اگست کو ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست دی گئی جو درج نہیں ہوئی۔ یہ آپ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے، پہلے جو کیسز تھے وہ تو پتہ نہیں کدھر چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے آپ کو کسی شخص کے خلاف کارروائی سے روکا ہے؟ جو بھی کارروائی کرنی ہے وہ قانون کے مطابق تو کریں۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو کیس کی انکوائری اپنی نگرانی میں کروانے کی ہدایت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ انویسٹی گیشن مکمل ہونے کے بعد ہی ذمہ داران کا تعین ہو سکے گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے جو انویسٹی گیشنز ہو رہی تھیں ان کا کیا ہوا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار کے تحفظات دور ہو چکے ہیں اس لیے درخواست نمٹا دی جائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر کیا اس بات کو جانے دیں یا اس کی تفتیش کیسے ہو گی؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اسے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آئی جی اسلام آباد ذاتی طور پر سپروائز کر کے 10 دن میں رپورٹ جمع کرائیں۔