اسلام آباد: (ویب ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھ کر سابق وزیراعظم عمران خان پر حملے کے حقائق جاننے کیلئے کمیشن بنانے کی استدعا کردی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججز پر مشتمل کمیشن بنایا جائے اور کمیشن 5 سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے۔
خط کے متن کے مطابق کارواں کی حفاظت کی ذمہ داری کون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی؟ کارواں کی حفاظت کیلئے مروجہ حفاظتی اقدامات اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز لاگو کیےگئے؟ کیا اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز پر عمل کیا گیا؟ حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں؟ ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ سےمتعلق حقائق کیا ہیں ؟ مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد، زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟
خط میں سوال اٹھائے گئے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اورانتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا؟ شہادتیں جمع کرنے اور صورتحال سے نمٹنے کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں؟ ضابطے کی ان کوتاہیوں کا ذمہ دار کن انتظامی حکام کو ٹھہرایا گیا؟ کوتاہیوں کا ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ٹھہرایا گیا؟ کیا وقوعہ کی تحقیقات کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں؟ اگر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو یہ عناصر کون ہیں؟ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیا یہ قاتلانہ سازش تھی جس کا مقصد واقعی پی ٹی آئی چئیرمن کو قتل کرنا تھا؟ یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا؟ ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کے بھی ذمہ دار عناصر کون ہیں ؟
وزیراعظم نے خط میں کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے مفاد میں اس درخواست پر عمل پر وفاقی حکومت مشکور ہوگی، اس مقصد کےحصول میں وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی، عمران خان کےجلوس میں فائرنگ کےافسوسناک واقعے سے ملک ہیجانی کیفیت کا شکار ہے، واقعے سے ملک امن وامان کے بحران کا شکار ہے، پی ٹی آئی لیڈرز زہر آلود تقاریر کر رہے ہیں۔
خط کے متن کے مطابق پرتشدد ہنگامہ آرائی سے ریاست افراتفری اور شہریوں کا جا ومال کو خطرات ہیں، پاکستان اور عالمی میڈیا میں اس کی کوریج ہو رہی ہے، 72 گھنٹے گزرنے پر ایف آئی آر نہ ہوئی، پی ٹی آئی کے ماتحت پنجاب حکومت نے تحقیقات میں قانونی تقاضوں کو سامنےنہیں رکھا، افسوسناک امر ہے کہ کرائم سین کو محفوظ نہیں کیاگیا، جس کنٹینر پر واقعہ ہوا، لوگ زخمی ہوئے، اسے بھی فارنزک کیلئے تحویل میں نہیں لیاگیا۔
وزیراعظم نے خط میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی میڈیکو لیگل رپورٹ بھی نہیں ہوئی، عمران خان کو پرائیویٹ اسپتال لےجایا گیاجو قانون کے مطابق میڈیکو لیگل کا پروسیجر نہیں، جو طریقہ کار اپنایا گیا شک ہے پنجاب حکومت اور اس کے ذمہ دار شہادتوں سے گڑبڑ کر سکتے ہیں، تحقیقات اور شہادتیں جمع کرنے کامروجہ طریقہ کار نہ اپنانا بدنیتی ہے، وفاقی حکومت صوبائی انتظامیہ کو اپنے سنگین تحفظات سےآگاہ کر چکی ۔
وزیراعظم نے خط میں مزید کہا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی سرپرستی میں شرپسند نجی و سرکاری عمارتوں پر حملے کررہے ہیں، شرپسند گورنر ہاؤس پنجاب اور دیگر مقامات پر پرتشدد حملے کررہے ہیں، ریاستی اداروں بالخصوص مسلح افواج کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی جارہی ہے، مسلح افواج کے خلاف بے بنیاد الزامات کی غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان 3 نومبر کو وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران ہونے والے قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تھے۔