تازہ تر ین

ہندوستان کے انتخابات اوراسحاق ڈار

ہندوستان سے ہمیں سو طرح کے اختلافات ہیں اور یہ اختلافات جائز ہیںکہ ہندوستان پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری رہا ہے اور اس کی ہر حکومت نے یہی پالیسی رکھی اور آگے بڑھائی ۔ جب بھی جس کو موقع ملا پاکستان کو نقصان ہی پہنچایااور اب تو گزشتہ دس سال سے وہاں انتہاپسندوں کی حکومت ہے ۔ہندستان میں دوہزار چودہ میں مودی کی لہر چلی تو ہندوستان کے ہندووں نے اس کو اس طرح لیا جیسے ان کو ان کا بھگوان مل گیاہو۔بھارتی ریاست اُترپردیش یہاں پانچ کروڑ مسلمان رہتے ہیں اس ریاست میں مسلمانوں کا حکومت کے معاملات میں کافی اثرورسوخ چلا آرہاتھالیکن مودی کی حکومت بننے کے بعد جب مودی کا ایک اور چیلا یوگی ادتیاناتھ نے وہاں سے الیکشن لڑاتو اترپردیش کے مسلمانوں نے باقی ہندوستان کی طرح مودی کی لہر کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔اترپردیش میں طویل عرصے سے چلی آرہی سماج وادی پارٹی اور بھوجن سماج پارٹی کی حکومتیں ختم ہوگئیں اور وہاں بھی بی جے پی آگئی ۔بی جے پی نے اترپردیش میں مسلمانوں کے ساتھ جو کیا اور آج بھی کررہی ہے وہ کسی بھی ملک میں اقلیت کے ساتھ بدترین سلوک ہے۔یوگی سرکار نے ریاست میں مسلمان مشاہیر کی ایک ایک یاد گار مٹادی ۔سڑکوں اور چوراہوں کے نام جو مغل بادشاہوں یا مسلم قائدین کے نام پر تھیں ان کو بدل کرہندووں کے نام پر رکھ دیا۔
شہید کی گئی بابری مسجد اسی ریاست میں ہے ۔مسلمانوں نے بابری مسجد کی بحالی کے لیے طویل عدالتی جنگ لڑی معاملہ ریاستی عدالت سے نکل کر سپریم کورٹ تک گیا ۔ہندوستان کی سپریم کورٹ نے آخرکار فیصلہ رام مندرکے حق میں دے دیا ۔اس فیصلے سے مودی سرکار کی چاندی ہوگئی ۔مودی نے اترپردیش کی حکومت کو ٹاسک دیا کہ الیکشن کے قریب ہر صورت بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جائے ۔اس کام کے لیے مودی سرکارنے ریاست اترپردیش کے لیے تجوریوں کے منہ کھول دیے اور یونہی الیکشن کا سال آیا تو اس مندرکا افتتاح کردیا گیا ہے۔اس مندر کے افتتاح سے ہندوبالادستی کا ڈنکا بجایا گیا اور مودی کو اکثریت ہندوآبادی کا سب سے بڑا محافظ اورقائد کے روپ میں پیش کیا گیا۔بھارت کے عام انتخابات اگلے ماہ انیس اپریل کو شروع ہونے والے ہیں جو سات مراحل میں یکم جون تک جاری رہیں گے۔ہندوستان کی ساری اسٹیبلشمنٹ اور ہندوبالادست ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت اور نریندرمودی کو تیسری بار ہندوستان کا وزیراعظم بنانے کے لیے پوری اسکیم طے کرچکے ہیں۔
مودی کو اقتدار میں رکھنے کے لیے ہندوستان کی حکومت ضرورت کے مطابق مختلف حکمت عملیوں پر کام کررہی ہے ۔ اپر کاسٹ ہندوکمیونٹی کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسے کام کیے جارہے ہیں جس سے ملک میں ایک مذہبی جنونیت کو سکون ملتارہے۔ اُترپردیشن میں لوک سبھا کی اسی نشستیں ہیں جو کسی بھی ریاست میں سب سے زیادہ ہیں۔اس لیے اس ریاست پر کنٹرول بھی اہم ہے اور اسی ریاست میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی بھی سب سے زیادہ ہے اس لیے ان کو دباکرہندوتوا کو خوش کرنے اور نفرت کی سیاست سے خود کو ہندوستان کے نجات دہندہ کے روپ میں اقتدار میں رکھنا نریندر مودی کا مشن ہے۔ہندوستان کی 28ریاستوں میں اس وقت 19میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ مسلم کمیونٹی کو دبانے اور ہندوستان کو ایک سیکولر ریاست سے ہندومذہبی ریاست بنانے کا کام تیزی سے جاری ہے ۔اور یہ سلسلہ گزشتہ دس سالوں سے ہی چلا آرہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو بدلنا بھی اسی ایجنڈے کا حصہ تھا۔اس کے علاوہ شہریت کا نیا قانون ابھی نافذ کیا گیا ہے۔ یہ قانون دوہزار بیس میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس پر پورے ملک میں شدیدردعمل آیا ۔اس قانون کے خلاف ملک میں احتجاج شروع ہوئے اور سب سے زیادہ مزاحمت بنگال کی طرف سے دیکھنے کو آئی اور ساتھ ہی دلی میں بھی طویل دھرنا دیا گیا۔اس مزاحمت کو دیکھ کر مودی سرکار نے اس قانون کا نفاذ روک دیا اور اب الیکشن کے قریب اس کو نافذ کردیا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں مودی نے اپوزیشن کو بالکل دیوار سے لگارکھاہے۔ بی جے پی کی مخالف سیاسی پارٹی کانگریس تھی لیکن گزشتہ دوانتخابات میں کانگریس کا ملک سے ووٹ بینک بالکل سکڑ گیا ہے۔ اس کو مودی کی شخصیت کا سحر کہہ لیں یا ان کی ہندوتوا سو چ کی حکومت کہ راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس پہلی کامیابی کو ترس رہی ہے۔
مودی کے دور حکومت میں راہول گاندھی پرمقدمہ ہوا۔ ان کو سیاست سے نااہل کیا گیا اور اپوزیشن لیڈر کی نشست بھی چھین لی گئی ۔جیسے ہی الیکشن قریب آیا تو بی جے پی سرکار نے کانگریس کے اکاؤنٹس منجمد کردیے جس سے کانگریس کواب الیکشن تک لڑنے میں دشواریوں کا سامناہے۔کانگریس کے ساتھ انتقامی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی اگر کسی اور کو اپنے سامنے کھڑادیکھ رہی ہے تو وہ عام آمی پارٹی ہے ۔ عام آدمی پارٹی گزشتہ دس سال سے دلی سے باہر نکل کرہندوستان کی دوسری ریاستوں تک پھیل رہی ہے۔اس پارٹی نے ہندوستان کے دارالحکومت میں کانگریس راج کوختم کرکے اس کی جگہ لی ۔کانگریس کے ووٹرزہی عام آدمی پارٹی کے ووٹرزمیں تبدیل ہوئے ۔لوگوں نے اروند کیجریوال کو ایک بڑے ’’نیتا‘‘ کے روپ میں قبول کرنا شروع کردیا۔ دلی کے بعد پنجاب کی ریاست تھی یہاں کانگریس کو شکست ہوئی اور پنجاب میں بھی پہلی بار عام آدمی پارٹی کی حکومت بن گئی ۔ عام آدمی پارٹی نے ہریانہ ۔ہماچل پردیش گجرات اور راجستھان میں بھی پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا لیکن وہاں ا س کو ابھی کامیابی نہیں مل سکی لیکن عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کانگریس کے متبادل کے طورپراپنا طاقت ور حریف سمجھ رہی ہے اس لیے عام آدمی پارٹی کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال شروع کیا گیا۔مودی سرکار اس حد تک اپوزیشن کو کچلنے میں مصروف ہے کہ دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو منی لانڈرنگ کے ایک مقدمے میں گرفتار کیا جاچکاہے۔ کیجریوال جیل سے ہی اس وقت اپنی حکومت چلارہے ہیں۔
میری دلی میں اپنے کچھ دوستوں سے اس پر گفتگوہوئی تو پتہ چلا کہ وزیراعلیٰ کیجریوال کی گرفتاری کا الٹا اثر بے جی پی کے الیکشن پر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ کیجریوال سے دلی کے لوگ خوش ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کیجریوال کا تعلق کسی اقلیتی مذہب سے بھی نہیں ہے اس لیے کافی بڑی تعداد میں لوگ اس فیصلے پر مودی سرکارکی مخالفت کررہے ہیں۔ لیکن نریندر مودی کا مشن اس وقت ہندوستان میں اپوزیشن کو بالکل ختم کرکے ملک کو’’ ون پارٹی رول‘‘کی طرف لے کرجانا ہے۔اس کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن اس کا نتیجہ آنے والے الیکشن میں ظاہر ہوگا۔کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہی مودی کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہیں تو ایک اور رکاوٹ مغربی بنگال کی ریاست اور وہاں کی وزیراعلیٰ ممتابینرجی بھی ہیں ۔مودی بنگال کو معاشی نقصان پہنچانے کی کوشش کے علاوہ ممتاحکومت کے خلاف کوئی بڑا اقدام کرنے اور اس کو نقصان پہنچانے میں اب تک ناکام ہے کیونکہ ممتابینرجی ریاست کی ایک مقبول حکومت کی سربراہ ہیں۔
الیکشن سے پہلے تازہ واردات میں ریاست اتر پردیش میں ایک اور مسلم کش اقدام اٹھاتے ہوئے ریاست میں اسلامی تعلیم کے مدارس پر پابندی لگادی ہے۔ مدارس میں زیر تعلیم بچوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ ہندوستانی اسکولوں میں جائیں اور مدارس کے اساتذہ کو بھی دوسرے روزگار تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔یہ سب اقدامات مودی کو الیکشن جتوانے کے لیے اٹھائے جارہے ہیں۔پنجاب کے کسان ایک بار پھر احتجاج کررہے ہیں اور دلی جانا چاہتے ہیں لیکن مودی حکومت نے ان کو دلی کے بارڈرپر روک رکھا ہے اس کام کو بھی مودی سرکار اپنی فتح کے طوپرپیش کررہا ہے۔ایسی صورتحا ل میں جب مودی الیکشن جیتنے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہا ہے ہمارے وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا یہ بیان کہ پاکستان کے تاجر ہندوستان کے ساتھ تجارت چاہتے ہیں انتہائی غیرضروری اور بے محل ہے۔یہ بیان اس وقت مودی کو الیکشن میں فائدہ دے گا۔وہاں سے اس پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہیں آئے گا۔ اسحاق ڈار کو یہ بیان ہندوستان میں الیکشن اور نئی حکومت بننے تک روک لینا چاہئے تھا لیکن ایسے وزرا کو کون سمجھائے کہ دنیا میں کس وقت کیا چل رہا ہے ۔ اوپر سے وہ وزیرخارجہ بن گئے ہیں ۔ ان کو وزارت خزانہ سے نکال دیا گیا ہے لیکن وزارت خزانہ ان میں سے نہیں نکل پارہی اللہ خیرکرے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain