نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ اگر آنے والے مذاکرات میں ’آبی تنازع‘ حل نہ ہوا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو انٹرویو میں اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’اگر پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو یہ جنگی اقدام کے مترادف ہوگا۔‘
انہوں نے کشمیر کو علاقائی عدم استحکام کی جڑ قرار دیتے ہوئے خطے کے لیے مستقبل میں حق خودارادیت کا مطالبہ کیا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ ہفتے جاری لڑائی کے دوران کشیدگی میں اضافے کے باوجود پاکستان نے بھارت پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر غور نہیں کیا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ہفتہ کو جنگ بندی معاہدے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’7 مئی کے بھارتی حملے کے بعد پاکستان کے پاس اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔‘
نائب وزیراعظم نے بھارت کے حملوں کو جنگ اور کشمیر میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی ایک خیالی کوشش قرار دیا، لیکن یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کا استعمال زیر غور نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسے لمحات آتے ہیں جب آپ کو بہت سنجیدہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں ہم پُر اعتماد تھے کہ ہماری روایتی جنگی صلاحیت اور طاقت اتنی ہے کہ ہم اُنہیں فضا اور زمین، دونوں محاذوں پر شکست دے سکتے ہیں۔‘
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی مذاکرات ابھی مکمل نہیں ہوئے، ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ عقل غالب آئے گی۔‘
غیر متوقع معاہدے کی محرکات سے متعلق پوچھا گیا تو وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’یہ ہر فریق کے مفاد میں ہے کہ ایسے معاملات کو ایک معقول وقت سے زیادہ تاخیر کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بھارتیوں نے دیکھ لیا کہ فضا میں کیا ہوا، وہ بخوبی سمجھ گئے کہ نقصان کس قدر شدید تھا۔‘
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ بھارت اور پاکستان کے حکام کے درمیان کوئی براہِ راست رابطہ نہیں ہوا، جو بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز کے اُس سابقہ دعوے کی تردید ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے دوران انہیں پاکستان میں اپنے ہم منصب کا پیغام موصول ہوا تھا۔
اس کے برعکس اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یہ پیغام پہنچایا کہ بھارت لڑائی روکنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسے راستے کے قیام کی امید رکھتا ہے جو طویل مدتی امن و سلامتی کو یقینی بنائے اور دونوں فریقین کے لیے باوقار ہو۔
یاد رہے کہ 22 اپریل 2025 کو پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان پر الزام تراشی کا آغاز کیا تھا جس کے بعد دونوں میں ملکوں میں سرد مہری کا شکار تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانی سفارتی عملے کو محدود کردیا تھا جبکہ بھارت میں موجود پاکستانی کے ویزے منسوخ کرتے ہوئے علاج کی غرض سے جانے والے بچوں سمیت تمام پاکستانیوں کو وطن واپس بھیج دیا تھا۔
جواب میں پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کی غیرقانونی معطلی کو اعلان جنگ قرار دیتے ہوئے بھارتی سفارتی عملے کو محدود کرنے کے ساتھ سکھ یاتریوں کے علاوہ تمام بھارتیوں کے ویزے منسوخ کردیے تھے، جبکہ بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت منسوخ کرتے ہوئے بھارتی پروازوں کے لیے فضائی حدود بند کردی تھی۔
بعد ازاں بھارت نے 6 اور 7 فروری کی درمیانی شب کوٹلی، بہاولپور، مریدکے، باغ اور مظفر آباد سمیت 6 مقامات پر میزائل حملے کیے جس کے نتیجے میں 26 شہری شہید اور 46 زخمی ہوئے تھے، جس کے جواب میں پاکستان فوری دفاعی کارروائی کرتے ہوئے 3 رافیل طیاروں سمیت 5 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے تھے۔
بھارت نے 10 فروری کی رات پاکستان کی 3 ایئربیسز کو میزائل اور ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا جس کے بعد علی الصبح پاکستان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں’آپریشن بنیان مرصوص’ (آہنی دیوار) کا آغاز کیا تھا اور بھارت میں ادھم پور، پٹھان کوٹ، آدم پور ایئربیسز اور کئی ایئرفیلڈز سمیت براہموس اسٹوریج سائٹ اور میزائل دفاعی نظام ایس 400 کے علاوہ متعدد اہداف کو تباہ کردیا تھا۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ پاکستان کے عوام اور مساجد کو جن ایئربیسز سے ٹارگٹ کیا گیا تھا، ان اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق فجر کے وقت دشمن کے خلاف آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کا آغاز کیا گیا اور بھارت پر فتح ون میزائل فائر کیے گئے تھے۔
اسی طرح پاکستانی میزائلوں سے بیاس کے علاقے میں براہموس اسٹوریج سائٹ تباہ کردی گئی تھی، جبکہ پاک فوج نے پٹھان کوٹ میں ایئرفیلڈ کو بھی تباہ کردیا، راجوڑی اور نوشہرہ میں پاکستان میں دہشت گردی کروانے والے بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کے تربیتی مراکز بھی تباہ کر دیے گئے تھے۔