تازہ تر ین

اسلامی فلاحی ریاست مقصد ، قائداعظم آئیڈیل

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک‘ رپورٹنگ ٹیم) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا مقصد پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے جبکہ قائداعظم ہمارے آئیڈیل ہیں جو پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر قائم کرنا چاہتے تھے مگر آج پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں ہے جس میں اسمبلیاں کرپٹ، قبضہ گروپ اور چوروں سے بھری پڑی ہیں۔ عمران خان خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر صیا شاہد کی کتاب ”سچا اور کھرا لیڈر“ کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے ہیں جو قائداعظم کے حوالے سے ایک منفرد کتاب ہے۔ انہوں نے کہا ملک کے لیڈر کو چننا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور جب وہ کسی کو چن لیتا ہے تو پھر لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت بھی ڈال دیتا ہے۔ عمران خان نے ضیا شاہد کو اتنی خوبصورت کتاب لکھنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضیا شاہد نے بتایا ہے کہ اس ملک کو اصل میں کس لیڈر نے بنایا تھا کسی نے اتنی تفصیل میں قائداعظم کی ذات و کردار کو ظاہر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی اور ہندو سمیت کسی میں وہ قابلیت نہیں تھی جو قائداعظم میں تھی۔ قائداعظم ہندوستان کے سب سے بہترین سیاستدان تھے۔ قائداعظم جس مرتبہ کے وکیل تھے ان جیسا برٹش انڈیا میں کوئی نہیں تھا۔ قائداعظم جب انگلینڈ میں پریکٹس کے لئے گئے تو ان کے پاس اتنی آمدنی تھی کہ ہمسٹرڈسٹ میں بڑا محل خریدا اور رولس رائس گاڑی لی۔ ان کا وہ مقام تھا کہ انہیں سیاست کی ضرورت نہیں تھی۔ قائداعظم سیاست ایک مقصد کے لئے کر رہے تھے۔ موجودہ سیاستدان عوام کا نام لے کر اپنی ذات کے لئے پیسہ بناتے ہیں۔ اقتدار میں آنے اور بعد میں ان کے اثاثے اس کا ثبوت ہیں۔ قائداعظم آزادی کے لئے نکلے اور ان کی لمبی جدوجہد تھی جب وہ اپنے مقصد پر پہنچے وہ 47 سال جدوجہد کر چکے تھے۔ جب بھی کوئی بڑے مشن پر نکلتا ہے اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا۔ نیلسن منڈیلا 27 سال جیل میں رہے مگر اپنے مشن سے نہیں ہٹے۔ دنیا کی تاریخ کے عظیم لیڈر ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد میں 10 سال میں صرف 40 لوگ مسلمان ہو سکے۔ اور ان پر سب سے مشکل وقت میں جب کافر ان کی جان لینے آئے تو اللہ کے فیصلے کے مطابق ان کا عروج شروع ہو گیا۔ وقت اللہ کے ہاتھ ہے اور کوشش انسان کے ہاتھ میں۔ نبی کریم کی سنت پر چلنے والے پر لیڈر کا کوئی وقت طے نہیں تا کہ میں کامیاب نہ ہوا تو میری فیکٹریاں نہیں بنیں گی اور میرا اثاثہ ضائع ہو جائے گا۔ بلکہ ایسا لیڈر مقصد کے لئے آتا ہے جو ذات سے بالاتر ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں مدینہ کی ریاست پہلی بار انسانیت کے نام پر بنی جس کی بات قائداعظم پاکستان کے لئے کرتے تھے۔ جس کی مثال حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ اگر کتا بھی میری ریاست میں بھوکا مرے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں گا۔ ذمہ داری لی گئی تھی کہ ریاست میں غربت نہ ہو اور لوگوں کو حقوق ملیں۔ آج امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں اس کی مثال ہے کہ سڑکوں پر کوئی بھوکا کتا نہیں ملے گا۔ مدینہ کی ریاست کے اصول اپنانے پر آج وہ معاشرہ عروج پر ہے۔ عمران خان نے کہا کہ قرآن مجید کی آیت کہ میں کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کرے۔ یہی مدینہ کی ریاست کا اصول تھا۔ 100 سال قبل عظیم مسلم سکالر محمد عبدوہ جب یورپ گئے تو کہا کہ یہاں مجھے مسلمان تو نظر نہیں آئے مگر بڑا اسلام نظر آیا اور مصر واپسی پر کہا کہ یہاں مسلمان تو بہت ہیں مگر سلام نہیں ہے۔ یہی حال پاکستان کا آج ہے۔ اسمبلیاں کرپٹ اور قبضہ گروپ چوروں سے بھری پڑی ہیں۔ تمام اداروں میں سفارشی بھرتیاں اداروں کو تباہ کر چکی ہیں۔ پاکستان میں بیحد چیلنجز ہیں۔ 10 سال میں پاکستان کا قرصہ 6 ہزار ارب سے 27 ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے۔ آصف زرداری کے دور میں ملک کا قرضہ 6 ہزار ارب سے 13 ہزار ارب اور موجودہ تجربہ کار ٹیم کے دور میں 13 ہزار ارب سے 27 ہزار ارب تک جا پہنچا جبکہ ڈالر 60 روپے سے 120 روپے کا ہو گیا ہے۔ اس وقت پاکستان تاریخ کے سب سے بڑے بحران میں ہے مگر میرا ایمان ہے کہ انسان کوشش کرتا ہے اور مدد اللہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کرکٹ ورلڈ کپ صرف کینسر ہسپتال بنانے کے لئے کھیلا اور ورلڈ کپ اللہ کی مدد سے جیتا، اللہ نے بہت عزت دی۔ اور ہسپتال کے لئے کبھی پیسے کی کمی نہیں ہوئی۔ آج شوکت خانم 75 فیصد غریبوں کا مفت علاج کرتا ہے یہ عمران خان کا کمال نہیں ہے کہ ہر سال ایک ہسپتال 500 کروڑ روپے کا خسارہ کیسے پورا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحریک انصاف اور ضیا شاہد کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ ضیا شاہد نے میری جو پہلی تقریر لکھی وہ میں نے ہالیڈے اِن میں بیٹھ کر بڑی مشکل سے پڑھی تھی۔ حسن نثار نے پارٹی کے لئے وہ سلوگنز بنائے جو اب تک چل رہے ہیں۔ حسن نثار کے قلم کو اللہ نے بہت طاقت دی ہے۔ ضیا شاہد اور حسن نثار شروع سے ساتھ ہیں جب لوگ کہتے تھے کہ دو پارٹیوں کے درمیان تیسری پارٹی نہیں چل سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کسی حکومت نے اتنے مسائل کا سامنا نہیں کیا جتنے مسائل اب ہیں ملک کا دیوالیہ نکالا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے لیڈروں نے اپنی قوموں کو بدلا۔ بی کو نیو نے سنگاپور، مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو بدلا۔ قائد اعظم وہ سیاستدان تھے جو ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد کے تخت آزادی کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ بہت جلد سمجھ گئے کہ کانگریس کے لیڈر صرف ہندو راج کی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی حالانکہ وہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی۔ جیساکہ شیخ رشید تحریک انصاف کو تانگہ پارٹی کہتے تھے اس طرح اس وقت مسلم لیگ 1937ءتک تانگہ پارٹی تھی۔ 1937ءسے لے کر 10 سالوں میں قائد اعظم نے اسی مسلم لیگ کو تمام مسلمانوں کی پارٹی بنا دیا۔ قائد اعظم مسلمانوں کو کہتے تھے کہ آپ نہیں جانتے آپ کو کتنا خطرہ ہے۔ کانگریس کی سوچ میں مسلمانوں کی کوئی جگہ نہیں ہے آ ج جو مسلمان مودی کے ہندوستان میں ہیں وہ کہتے ہیں قائد اعظم ٹھیک کہتے تھے اس وقت کے بارے میں کہ تم دوسرے درجے کی شہریت کے حامل ہوگے تمہیں حقوق نہیں ملیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ میں جیت گیا کامیابی اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے انسان صرف کوشش کرتا ہے۔ نبی کریم کی زندگی میں انکا ایمان مضبوط ترین تھا اور کامیابیاں اللہ کی طرف سے تھیں۔ نبی کریم نے مدینہ کی ریاست کا جو ماڈل بنایا اس کی وجہ سے 700 سال تک دنیا کی عظیم طاقت اور تہذیب مسلمانوں کی رہی۔ قائد اعظم کی تقریریں پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظم نے مدینہ کی ریاست کی شکل میں پاکستان بنایا تھا جیسے اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایوب خان جب امریکہ جاتے ہیں تو امریکی صدر انہیں ایئرپورٹ پر لینے آتے ہیں اور سڑکوں سے جاتے ہوئے امریکی عوام ان پر پھول پھینک رہے ہوتے ہیں اور آج پاکستانی وزیر اعظم کے امریکی ایئرپورٹ پر کپڑے اتار لیے جاتے ہیں۔ دنیا کا اہم ملک آج پستی کے مقام پر پہنچا ہے تو اس لیے کہ پاکستان اپنے وجود کے نظریے سے ہٹ گیا ہے ۔ یہ وہ پاکستان نہیں جو قائد اعظم بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم بار بار کہتے تھے نہ ہم سوشل اسلامک، سوشو اکنامک جسٹس پاکستان میں ہو گا۔ قائد اعظم نے غریبوں کی بات کی پیسے والے لوگوں کی بات نہیں کی۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے 10 سالوں میں ملک پر 21 ہزار ارب روپے کے قرضے چڑھائے ہیں مگر ایسے حالات کے باوجود سمجھتا ہوں کہ ہم کامیاب صرف اسی صورت میں ہونگے تو ہم اس نظریہ پر واپس جائیں جس پر پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنایا گیا تھا۔ ریاست جب اپنے کمزور اور متوسط طبقے کی ذمہ داری لے گی اور ایمنسٹی سکیم جیسی سکیم نہیں بنائے گی تو اللہ کی برکت ہو گی ہرے پاسپورٹ کی دنیا میں ذلت تب ہی ختم ہو گی جب غریب کو اوپر اٹھایا جائے گا۔ یہ ملک فاٹا اور کی جگہ شریف اور زرداری کو لانے کیلئے نہیں بنا تھا پاکستان کو انسانیت کے نظام کی مثال بننا تھا۔ قوم کے کردار کو دیکھتے ہوئے دیگر قومیں عزت دیتی ہیں جوکہ ہمارے قائد کا کردار تھا کہ ان کے دشمن بھی کہتے تھے کہ وہ صادق اور امین ہیں۔ کانگریس رکن سرو جری نمائیڈو مخالفت کے باوجود قائد اعظم کی تعریف کرتی تھیں کہ ان جیسا رول ماڈل کوئی نہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اگر آج انگلینڈ میں ان کے وزیر اعظم کی وزیر خزانہ چیف منسٹر منی لانڈرز اور قاتل کو بنا دیں۔ ریلوے منسٹر ہاﺅسنگ سکیموں میں گھپلا کرنے والا اور وزیر خارجہ 16 لاکھ کسی اور ملک کی کمپنی سے تنخواہ لینے والا بنا دیں تو لوگ انگلینڈ سے پاکستان نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے۔ ایسی حکومت کے 5 سال بعد کرپشن کے ساتھ کوئی ملک نہیں چل سکتا۔ مولانا حالی سے پوچھا گیا کہ قوم کیسے مرتی ہے تو انہوں نے کہا کہ اچھے اور برے کی تمیز ختم ہو جائے تو قوم مر جاتی ہے۔ ہمارا میڈیا کیسے ایسے لوگوں میں تمیز کرتا ہے۔ کرپٹ اور مجھے کیوں نکالا جیسے لوگوں کا مو¿قف میڈیا پر لینے کی بجائے انہیں جیلوں میں ڈالا جانا چاہیے۔ میڈیا کیسے ان سے ان کا مو¿قف پوچھ سکتا ہے۔ نواز شریف اپنے 300 ارب بچانے کیلئے نیلسن منڈیلا بنا پھر رہا ہے۔ عمران خان نے خطاب کے آخر میں پاکستان کے عظیم لیڈر قائد اعظم کی عظمت کو اپنی کتاب کے ذریعے دہرانے پر ضیا شاہد کا شکریہ ادا کیا اور خراج تحسین پیش کیا۔ عمران خان نے کہا کہ قائد اعظم کے نظریے سے سیکھ کر یہ ملک قائد اعظم کا ملک بنے گا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے چیف ایڈیٹر خبریں گروپ ضیا شاہد کی کتاب رونمائی کی تقریب پر انہیں مبارکباد دی، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں کئی انقلابیوں کو جانتا ہوں ، ابرارالحق سمیت سب لوگ انقلاب کی بات کرتے ہیں ، جب شورش کاشمیری کی وفات قریب ہوئی صرف میں انکے پاس تھا، غربت کے در میں جب انہیں لیکر میں گنگارام ہسپتال سے باہر نکلا تو 640روپے کی دوائی آنا تھی اور میری جیب میں 320روپے کل تھے، پاک و ھند کے نامور صحافی شورش کاشمیری دم توڑرہے تھے اور اس انقلابی کو بچانے کیلئے دوائی کے 320روپے نہیں تھے، انہوں نے کہا کہ عوام ایک بار عمران خان کو آزمائیں یہ اس ملک کیلئے آخری موقع ہے ، میں ضیاءالحق کے دور میں انکے خلاف بڑے بڑے الیکشن جیت چکا ہوں ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ، نوازشریف نے اس ملک میں رام شیام فلم لگائی ہوئی ہے ، اندر سے دونوں بھائی بے ایمان اور چور ہیں، ایک فوج کو جھانسا دیتا ہے ، انہوں نے کہا کہ بریگیڈیئر ذاکر نے مرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ سانپ اور نوازشریف دونوں اکھٹے آرہے ہوں تو پہلے نوازشریف کو مارنا پھر سانپ کو مارنا، شیخ رشید نے کہا کہ نوازشریف جہاں جاتا تھا وہاں پہلے ہی بینرز لگے ہوتے تھے ، ضیا شاہد قدم بڑھاو¿ ہم تمہارے ساتھ ہیں، نوازشریف پوچھتا تھا ”ایہہ کی اے “ پھر ضیا شاہد کا نام مقررین نے کاٹنا شروع کردیا۔ انہوںنے کہا کہ گیٹ نمبر 4 سے لیڈر بنا ہے فوج پر اس کی تنقید نمک حرامی ہے۔ اسے بٹ جیسے جرنیل پسند ہیں جنہیں راولپنڈی کے بازار سے خرید کر بیج لگائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹ اور منافقت ہورہی ہے۔ ملک میں جھوٹوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سچ بات کرتا ہوں۔ میں نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیاہے۔ ممتاز کالم نگار حسن نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ضیا شاہد کی زندگی کو ایک شعر میں ضم کرتے ہوئے کہا کہ ”زندگی مشکل تھی میں اس کو مشکل تر کیا، ایک جھروکا ہی جہاں کافی تھا میں نے دھر کیا“، انہوں نے کہا کہ ضیا شاہد جہاں روشن دان کی ضرورت ہووہاں پورا دروازہ کھڑا کردیتے ہیں، اپنی زندگی میں ، سیاست میں عمران خان اور صحافت میں ضیا شاہد مشکل ترین آدمی دیکھے ہیں، آسان زندگی انہیں ہضم نہیں ہوتی ، پانی کے مسئلے سے لیکر اداکاروں ، سیاستدانوں اور والدہ مرحومہ کے بارے میں ضیاشاہد نے مختلف کتابیں لکھی ہیں، ضیا شاہد کے ساتھ کام کرتے ہوئے انسان سوچتا ہے کہ یہ سوتا کب ہوگااور کھاتا پیتا کب ہوگا، جتنا کام ضیا شاہد نے کیا ہے 8سے 10آدمی بھی عملاً اتنا کام نہیں کرسکتے ، ضیا شاہد نے زندگی میں ہمیشہ مشکل ترین کاموں پر ہاتھ ڈالا، بابائے قوم محمد علی جناح پر کتاب لکھنا سوائے پاگل پن کے کچھ نہیں کہ جس شخص پر سینکڑوں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں انکی بہن سے زیادہ بہتر انکو کون لکھ سکتا ہے ، رضا ربانی کے والد عطا ربانی ، سٹینلے آربرڈ ، راجرڈ لانگ، جون نائیٹ ، پرکاش المیڈا ، ڈانلڈ جے ، سی ایم نائے ، جسونت سنگھ ، ایس ایم برکی ، اجیت جامیڈ، ڈاکٹر اسرار، شریف الدین پیرزادہ جیسی بلاو¿ں نے قائد اعظم پر لکھا ، مگر یہاں ضیا شاہد کی ہمت کا اندازہ لگایاجائے کہ وہ قائداعظم پر لکھتے ہیں اور لکھنے کا حق اداکردیتے ہیں ، ضیا شاہد نے کمال کردیا ہم سرتسلیم خم کرتے ہیں، عوام ضیا شاہد کی کتاب کو پڑھنے سے گریز کریں، آپکو پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں سے نفرت ہوجائیگی ، ضیا شاہد کی کتاب پڑھنے کے بعد موجودہ سیاستدانوں سے گھن آئیگی انکے چہروں پر تھوکنے کو دل چاہیگا، یہ بھی شک پڑ سکتا ہے کہ قائد اعظم حقیقی نہیں افسانوی کردا رہے ، تحریک انصاف کے رہنما ابرارالحق نے چیف ایڈیٹر خبریں گروپ ضیا شاہد کو مبارکباد دی، ابرار الحق نے کہا کہ پاکستان کو جن چیزوں نے نقصان پہنچایا کہ یہ ملک کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا ، کرپشن کو قبول کرلو اور اچھے لوگوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہئے کہ یہ گندے لوگوں کا کام ہے ، اگر ہم گندے لوگوں کو اپنے اوپر مسلط رہنے دینگے تو نہ کرپشن ختم ہوگی اور نہ پاکستان ٹھیک ہوگا، ضیا شاہد نے جو موضوع چنا اور عمران خان کو دعوت دی اسکی علامتی اہمیت ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح سے بڑا کوئی لیڈر نہیں اور آج ہم عمران خان میں قائداعظم کی جھلک دیکھتے ہیں، فخر ہوتا ہے کہ عمران خان قائداعطم کی تربیت کے قریب تر ہیں، ضیا شاہد نے بہت موزوں وقت پر اپنی کتاب کی تقریب رونمائی رکھی ہے اور جو مطالبے عمران خان سے کئے انکی تلقین پارٹی میٹنگ میں ملتی رہتی ہے ، ابرارالحق نے ضیا شاہد کی درخواست پر نظم پڑھی اور مہمانوں کا خون گرمایا۔ سی پی این ای کے صدر عارف نظامی نے ضیا شاہد کو کتاب کی رونمائی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس تقریب کی ٹائمنگ بڑی کمال کی ہے اور انتخابات کے اعلان سے دس روز پہلے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ قائداعظم ایک جمہوری شخص تھے اور جمہوریت کو ہی فروغ دیتے تھے کرپشن کے بہت خلاف تھے اور کسی بھی قسم کی کرپشن کو برداشت نہیں کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہ میں حسن نثار کی بات سے اختلاف کرتا ہوں کہ یہ کتاب کسی کو نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ عوام اور سیاستدانوں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنے قائد کی حالات زندگی اور جمہوریت کے لیے کی گئی جدوجہد کو سمجھیںاور پاکستان کو ویسا بنائیں جیسا قائد چاہتے تھے ۔آج کے دور میں قائد کی جھلک مجھے عمران خان میں دکھائی دیتی ہے انہیں میرا مشورہ ہے کہ خوشامدیوں سے بچیں۔ سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میرے اردگرد یہاں پر سچے اور کھرے انسان موجود ہیں۔ہم سب سیاستدانوں پر تنقید تو کرتے ہیں کہ وہ کرپٹ اور بے ایمان ہیں مگر سب ایسے نہیں ہیں معراج خالدجیسے سیاست دان بھی موجود ہیں۔کتاب کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ضیا شاہد نے اس کتاب میں ایسی معلومات تحریر کی ہیں جن کو میں بھی نہیں جانتا تھا۔جمہوریت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ برداشت کا نام ہے اور اس میں ہر ادارے پر چیک اینڈ بیلنس ہونا ضروری ہے اور قائد اعظم نے بھی اپنے اوپر چیک اینڈ بیلنس رکھا ہوا تھا۔اس کتاب سے ہمارے نوجوانوں کو رہنمائی مل سکتی ہے ہماری نوجوان نسل صرف یہ موازنہ کرے کہ ہمارے آج کے لیڈرز میں قائد کی کوئی جھلک موجود ہے۔قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے اس کتاب کو پڑھ کر سب واضع ہوجاتا ہے۔”دی پوسٹ“ کے ایڈیٹر مرحوم عدنان شاہد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ وہ میرے دوست تھے اور شرکا سے اپیل کی کہ آج افطار کے وقت انکے ایصال ثواب کے لیے بھی دعا کریں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain