تازہ تر ین

چیف جسٹس کے پاس وقت کم ، ایسے فیصلے کر جائیں کہ لوگ یاد کریں : ضیا شاہد ، نواز شریف کی نیوزی لینڈ میں مل بارے طاہرالقادری کا الزام خواب : احسن اقبال ، سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر سیاست کی جائیگی تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا : رانا ثناءاللہ کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اسمبلیوں میں گرما گرمی ہوتی ہے۔ ساری دنیا کی اسمبلیوں میں ایک دوسرے پر زبردست زبانی حملے ہوتے ہیں۔ بس جوتے نہ چلیں باقی سب چلتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب کو نااہل قرار دینے کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔ جتنا بڑا ان کو تھریٹ آیا ہے ماضی میں کبھی کسی وزیراعلیٰ کو نہیں ملا۔ یہ بات بھی منفرد ہے کہ اس ملک میں ایسے آفیسرز موجود ہیں جو بغیر کسی ڈر خوف کے وزیراعلیٰ کے خلاف بھی انکوائری کر سکتے ہیں، تفتیشی افس رنے جس طریقے سے رپورٹ دی ہے ایسی انکوائری میں ماضی کیں کبھی نہیں سنی جو منتخب وزیراعلیٰ کو غلط ثابت کر دے۔ ملک میں تبدیلی آ گئی ہے، پہلے تو کبھی کسی اے ایس آئی کے خلاف انکوائری انجام کو پہنچتی نہیں دیکھی۔ اب وزیراعلیٰ کو معافی ملے گی یا نہیں یہ تو معلوم نہیں البتہ اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اس سے بہت خوش ہوں کہ ہمارے ملک میں ایسی اچھی مثالیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ چیف جسٹس کو کوئی تگڑا سا فیصلہ کر دینا چاہئے، ابھی ان کے پاس وقت ہے جاتے جاتے کچھ ایسے فیصلے کر جائیں کہ عوام یاد رکھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چودھری سرور کی چھوری سینٹ کی نشست پر جو پی ٹی آئی کے شہزاد وسیم جیتے ہیں۔ ان کے ووٹ اس لئے کم ہیں کیونکہ چودھری سرور کے ذاتی تعلقات زیادہ ہیں اس لئے ان کو زیادہ ووٹ ملے تھے۔ رانا مشہود کا بیان ان کے گلے پڑ گیا۔ رانا مشہود کہہ رہے کہ مجھے نہیں نکالا۔ لیکن چینلز کہہ رہے ہیں کہ ان کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ دونوں شکلوں میں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی بات کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا اور یہ سمجھا گیا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ سے ن لیگ کو لڑانے کی کوشش تھی لیکن دراصل اس کی وجہ اور ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کے بارے میں جو رویہ انہوں نے اختیار کیا ان لیگ کے جو اصل لیڈر ہیں محمد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی ان کے بارے میں تو صرف ایک جملہ تھا لیکن زیادہ تو انہوں نے شہباز شریف کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ شہباز شریف کے بارے میں یہ کہا کہ اب فیصلہ ہو گیا ہے کہ شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صلح صفائی ہو گئی لہٰذا شہباز شریف ہی واپس آ رہے ہیں لہٰذا معلوم یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شہباز کو زیادہ اہمیت دی اور نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو کم اہمیت دی اس کے اصلی اور وڈی مسلم لیگ ان سے سخت ناراض ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ اینکر پرسن نے سوال ہی یہ کیا کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کا جو رویہ تھا، لہجہ تبدیل ہو گا یا اس پر قائم رہیں گے۔ انہوں نے جواب دیا کہ تب تک تبدیل نہیں ہو گا جب تک پاکستان تبدیل نہیں ہو جائے گا۔ پاکستان کے ادارے ٹھیک نہیں ہو جائیں گے۔ وہ پاکستان کے لئے بولتے تھے پاکستان کی بہتری کے لئے بولتے تھے۔ اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا جو کچھ انہوں نے کہا اس سے زیادہ میاں نوازشریف کی پوزیشن خراب کر دی کہ دوبارہ انہوں نے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا کہ یہی گڑ بڑ کر لیں۔ ان کا کچھ کر لیں۔ رانا مشہود کو معطل کیا گیا ہے جو کافی سزا ہوتی ہے عام طور پر جن لوگوں کو معطل کیا جاتا ہے وہ 90 فیصد واپس آ جاتے ہیں۔ وقتی طور پر پریشر کے تحت ان کو معطل کیا جاتا ہے لیکن بعد میں پھر سب اچھا ہو جاتا ہے۔ حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ڈیل کی ساری باتیں غلط ہیں پنجاب میں حکومت بنانے کا نہیں سوچ رہے۔ ہمیں اپوزیشن کا مزہ لینے دیں۔ اس کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ شاید ان کو مزہ آ رہا ہو۔ دس سال سے وہ حکومت کے مزے لے رہے ہیں اب تھوڑا سا ذائقہ بدلنا چاہئے۔ بندہ روزانہ چنے کھاتا رہے تو کسی ایک دن سبزی کھانے کو جی چاہتا ہے۔ فی الحال تو ان کی حکومت کے چانس نظر نہیں آتے۔میزبان کے سوال پر کہ رانا مشہود نے جو بیان سے یو ٹرن لیا۔ ایک بچگانہ قسم کی بات کی۔ میں نے فوج کے بارے میں نہیں کہا میں نے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کہا ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس کا مطلب تو سمجھا دیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ وہ نون ہوتی ہے جس کا ذکر نہ کرنا۔ اگر لفظ فوج نہ استعمال نہ کرنا ہو تو اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ردعمل کے بارے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ رانا مشہود کا بیان غیر ضروری نہیں۔ یہ آ بیل مجھے مار والی بات ہے۔ اب لوگ اس کی تاویلیں کر رہے ہیں کہ ان کو شہباز شریف نے کہا تھا۔
احسن اقبال صاحب فرمایئے کہ کل رانا مشہود نے جو کہا۔ پہلے بھی وہ خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن کل جو کچھ انہو ںنے کہا اس کو کسی بھی اس کا کچھ اچھا تاثر نہیں لیا۔ حتیٰ کہ ن لیگ کی حقیقی لیڈر شپ نے پسند نہیں کیا۔ وقتی طور پر اگر ان کو معطل کیا بھی گیا ہے اگر 15 منٹ پہلے تک وہ خود بضد تھے کہ میرے بارے میں غلط خبریں چلائی جا رہی ہے۔ مجھے بالکل معطل نہیں کہا گیا۔
سابق وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ان کا بیان قطعی غیر ضروری تھا اگر وہ کہہ چکے ہیں یہ ان کی ذاتی رائے رہی ہے کیونکہ وہ ایک ذمہ دار حیثیت رکھتے ہیں اس حوالے سے جو بھی بیان دیں گے اسے پارٹی سے منسوب کیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن نے ان کے بیان پر فوری طور پر وضاحت کی ڈس اون کیا کہ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اور یہ ہماری پالیسی بھی نہیں ہے۔ ہماری ڈیل پاکستان کے عوام کے ساتھ ہے اس لئے ان سے وضاحت بھی طلب کی۔ ان کی رکنیت معطل کر کے کی گئی ہے اس بات پر ان سے ضرور جواب طلب کرے گی کہ انہوں نے ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان کیوں دیا۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ شہباز شریف اور اسد عمر کے مابین جو گفت و شنید ہوئی ہے گزشتہ دو تین دن سے اپوزیشن اور حکومتی پارٹی کے افراد کے درمیان تلخ کلامی ہو رہی ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنی سرحدوں سے آگے بڑھتی جاتی ہے کبھی کوئی کوڑھ کرلی کہا جاتا ہے کسی کو کچھ کہا جاتا ہے کیا اسمبلیوں میں ایسی گفتگو ہونی چاہئے یا آپ سمجھتے ہیں کہ کچھ اپنے کینوس سے معاملات بڑھ رہے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ وزیراطلاعات فواد چودھری نے قومی اسمبلی میں انتہائی غیرذمہ دارانہ گفتگو کی اور آج سینٹ کے اندر بھی ان کا لہجہ غیر پارلیمانی تھا جس پر چیئرمین سینٹ نے انہیں ایوان چھورنے کا کہا جو انتہائی دم ہوتا ہے۔ ہم ایوان جاتے ہیں کہ ایوان کے اندر کارروائی پارلیمان کے اندر رکھیں آج کا دن بڑا اہم ہے اپوزیشن کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے ہم نے حکومت کے بجٹ کا بل جس میں پاکستان کے اندر مختلف مافیا کے دباﺅ میں آ کر نان فائلر کو بہت بڑا کنسیشن دینے جا رہے تھے انہیں مجبور کیا جو رائے عامہ ہم نے ہموار کی تھی اس کی وجہ حکومت نے وہ قدم واپس لیا جو انہوں نے منی بجٹ کے اندر فائلر کو سزا دینے کے لئے اور نان فائلرز کو شاباش دینے کے لئے جو قدم اٹھانے جا رہے تھے اچھا ہوا انہیں واپس لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ اپوزیشن کی بہت بڑی جیت ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ آج ہمارے اخبار میں طاہرالقادری صاحب کے حوالے سے ایک بیان چھپا ہے جس میں انہو ںنے کہا ہے کہ 1990-91ءمیں مجھے نیوزی لینڈ کے دو مرتبہ وزیراعظم بننے والے شخص نے خود بتایا کہ نوازشریف ہمارے ملک میں جو سرکاری سٹیل میل ہے اس کے ففٹی پرسنٹ کے مالک ہیں۔ بڑی حیرت کی بات ہے ایک تو یہ بڑا پرانا حوالہ ہے۔ دوسرا کہ عام طور پر یہ ہوتا نہیں کہ ایسا نیوزی لینڈ کافی بڑا ملک ہے کیا یہ ممکن ہے کہ وہاں کی جو سرکاری طور پر سٹیل مل ہو اس کے نصف حصص نوازشریف کے پاس ہوں؟
احسن اقبال نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ بھی طاہر القادری صاحب کا کوئی خواب ہو۔ ان کی حقیقت اور خواب میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو وہاں کے ممالک میں خفیہ کاروبار کرنا عملاً ناممکن ہے یہ چیزیں پبلک ڈومین کے اندر ہوتی ہیں اور اگر کچھ ہوتا تو جب جنرل مشرف نے اربوں روپے شریف خاندان کے احتساب پر لگا دیئے اور حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ نیب ہر محاذ پر ان کے احتساب میں کمر بستہ نظر آیا۔ یہ چیزیں منظر عام پر آ چکی ہوتیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے سینے کا راز نہ ہوتیں۔
یہ خبر آئی ہے کہ رانا ثناءاللہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ماسٹر مائنڈ تھے اور انہوں نے چیف سیکرٹری کی مخالفت کے باوجود آپریشن کا حکم دیا۔ اس سول پر ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بات رانا ثناءاللہ سے کرنی چاہئے۔ انہوں نے خود تسلیم کیا تھا کہ انہو ںنے ایک دن پہلے چیف سیکرٹری صاحب کے کمرے میں توقیر شاہ کو بھی بلایا جو وزیراعلیٰ کے سیکرٹری تھے۔ رکاوٹیں ختم کرنے کے سلسلے میں فیصلہ انہوں نے کیا تھا۔ ڈی سی او لاہور کے پاس یہ اختیار تھا کہ کہاں رکاوٹیںکرنی ہیں کہاں سے ہٹانی ہیں۔نہیں معلوم تھا کہ اتنا بڑا واقعہ بن جائے گا اور سمیٹنے سے بھی نہیں سمٹے گا۔ بات بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ طاہرالقادری پچھلے دو تین دن میں یہ شور مچا رہے ہیں کہ جتنے بھی لوگ ملوث تھے ان کو ترقیاں دی گئیں اور جس صاحب نے ایک عورت کے منہ میں گن کی نالی دے کر اس کے نرخرے پھاڑ دیئے اس کو ایک سال کا سکالر شپ دے کر لندن بھجوا دیا گیا۔ سڑکوں پر رکاوٹیں اٹھانے کا اگر یہ معمولی اقدام تھا تو پھر تو جو لوگ اس میں شریک تھے ان کو بعد میں اسی توقیر شاہ کو اچھی پوسٹنگ مل گئی۔ ان لوگوں کی کیوں سرپرستی کی گئی جناب؟
رانا ثناءاللہ نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہوا جس میں پولیس اور پیٹ کے ورکروں کے درمیان یہ تصادم ہوا اور اس میں انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ اگر اسے کسی قانون، ضابطے، کریمینل لاءکے تحت دیکھا جائے تو پھر تو ساری چیزیں سامنے آ سکتی ہیں اور کسی نے قصداً کیا یا یہ حادثہ ہوا یہ ساری صورت حال تفتیش میں سامنے آ سکتی ہے۔ اس کی تفتیش بھی ہوئی اس کا ٹرائل بھی ہوا ہے۔ انہوں نے استغاثہ دائر کیا ہے اس پر بھی کارروائی ہو رہی ہے۔ لیکن اگر اس پر سیاسی تقاریر کرنی ہوں اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے جو حکومت گرانے کی سازش تیار کی تھی اس میں جذباتی رنگ لاتے رہیں۔ مبالغہ آرائی کرتے رہیں۔ اس ایشو کو حکومت گرانے کے لئے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ 12 افراد پر الزام لگایا گیا کہ یہ سازش کے تحت واقعہ ہوا۔ قانون نے کسی اصول اور ضابطے سے آگے برھنا ہے۔ یہ واقعہ اگر اس پر سیاست کی جائے گی تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ نہ اس کیس میں کوئی سزا یا جزا ہو سکے گی۔
کبھی ہم میں تم میں پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہم تو آپ سے اداس ہوتے جا رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے جس طرح سی پیک میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ یہ خطے میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ایک زمانے میں امریکہ بذریعہ ایران اس خطے پر کنٹرول کرنا تھا اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں امریکہ کی مرصی کے خلاف کچھ ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ بھی اور آنے والے امریکی صدر بھی دیکھ لیں کہ دنیا بدل رہی ہے۔ یہ بات یقینی نظر آ رہی ہے کہ 7 سمندر پار بیٹھ کر آگاﺅں کی فرمانبرداری اب ممکن نہیں رہی۔ اب لوگ دور دراز علاقوں کے بجائے اپنے دائیں بائیں کے ممالک سے باہمی تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت نے بھی سب سے پہلے بھارت کو پیش کش کی تھی کیونکہ آپس میں تجارت کریں گے تو دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ سعودی عرب کی حفاظت کیلئے امریکی دستے وہاں رہتے ہیں۔ ان کی وہاں باقاعدہ کالونیاں ہیں جن کے گرد پہرہ رہتا ہے۔ وہاں سعودی عرب کا قانون بھی لاگو نہیں ہوتا، امریکی جس طرح سے رہنا چاہتے ہیں رہ سکتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار عبداللہ گل نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سعودی عرب کے حالیہ دورے کے دوران 480 بلین ڈالر کے معاہدات طے کر کے آئے ہیں۔ جس میں زیادہ دفاعی نوعیت کے معاہدات تھے جس پر ٹرمپ نے جاتے جاتے 3 دفعہ شکریہ کے الفاظ بولے۔ امریکہ اس وقت مقروض ترین ملک ہے، وہ ایسے معاہدات کو سامنے لا کر اپنی دفاعی انڈسٹری کو چلانا چاہتے تھے۔ سعودی عرب نے سی پیک کے ذریعے جب اس خطے میں اپنا کردار واضح کرنا شروع کیا تو امریکہ نے اس پر بڑی نقطہ چینی کی۔ امریکہ کی ہمارے قبلہ کے اوپر نگاہ ہے۔ ایک امریکی کرنل کا 2006ءکا نقشہ ہے جس کے اندر سعودی عرب میں انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف کو آزاد ریاست دکھایا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کو بھی کچھ ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی ہے جس کو ”بلڈ بارڈر“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ رائل فیملی کو فوج سے تحفظ حاصل نہیں ہے یہ خطرناک بات ہے، ابھی کچھ عرصہ پہلے چہ میگوئیاں ہوئی ہیں خاص طور پر جب شاہ سلمان کے اوپر ایک حملے کی بات آئی، جس کو عرب ممالک نے اپنے مزاج کے مطابق زیادہ ابھرنے نہیں دیا لیکن اس میں کچھ حقائق بھی تھے۔ اب فوج پر براہ راست ایسا الزام لگا دینا جب آل سعود سے آل سلمان میں حکومت منتقل ہو رہی ہے اور رائل فیملی پر بہت بڑا کریک ڈاﺅن ہوا جس کے اندر پرنس نائیک وغیرہ شکار بنے۔ جیل بھی گئے بعد میں محمد بن سلمان نے ان کے ساتھ معاملات کو بہتر کر لیا۔ عرب کے اندر لوگ دل میں قدورتیں پال لیتے ہیں۔ جو صدیوں چھپی رہتی ہیں اور موقع ملنے پر اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت رائل فیملی کے کوئی 18 ہزار شہزادے شہزادیاں موجود ہیں۔ اندرونی خطرات سمیت اب ٹرمپ کے بیان کے بعد بیرونی خطرات بھی پیش ہیں۔ امریکہ نے دھمکی بھی لگائی، پیسہ بھی لے لیا اور دنیا میں سعودی عرب کی جگ ہنسائی بھی کی۔ میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں، سعودی عرب ہمارا برادر ملک ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اب وہ ہمارے ساتھ سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتے ہیں۔ سی پیک میں ایک فریق کے طور پر ابھر کر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے بیان سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکہ کی ”ڈومور“ کی پالیسی ہے وہ سعودی عرب سے مزید پیسے لینا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب پہلی دفعہ قرض میں چلا گیا ہے۔ جس سے پورا عالم اسلام متاثر ہو رہا ہے۔ امریکہ سعودی عرب کا تیل اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، پہلے بھی وہاں آئل انڈسٹری امریکن و فرنچ کے پاس ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں مغربی دنیا کا کردار حکومتی سطح پر نظر آتا ہے جبکہ عوام کی سطح پر امریکہ و استعماری قوتوں کے حوالے سے نفرت ہی نفرت ہے۔ داعش کے پنپنے کی بھی یہی وجہ تھی۔ بھارت کی دھمکیوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے، پاکستان کو دہشتگردی کا خطرہ ہے۔ بھارت خاص طور پر کشمیر میں کچھ ایسا کر سکتا ہے جس سے پاکستان کو دنیا و کشمیریوں کے سامنے تنقید کا سامنا ہو۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain