تازہ تر ین

معروف صنعتکار چودھری اشرف مرحوم

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
ملک کے ممتاز صنعت کار، سابق سینیٹر اور اشرف شوگر ملز بہاول پور کے بانی چودھری محمد اشرف (مرحوم) اپنے عہد میں ہنر کی پختگی، خیال کی استواری اور تہذیب کی پاسداری کی زندہ مثال سمجھے جاتے تھے۔ ان کی پیدائش 1926ء میں منڈی بہاالدین کے نواحی علاقے چیلیانوالہ میں ہوئی۔ آپ کے والد چودھری خان محمدصاحب زراعت کے شعبے سے وابستہ تھے۔
چودھری محمد اشرف (مرحوم)کا بچپن اور لڑکپن ان کے آبائی علاقے میں ہی گزرا اور انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی وہاں سے ہی حاصل کی۔ ان کی شخصیت میں قدرت نے کچھ خاص کرنے کی امنگ اور تڑپ رکھی تھی لہذا اپنی عملی زندگی میں انہوں نے آبائی پیشہ زراعت کی بجائے ذاتی کاروبار میں دلچسپی لی۔ اس وقت چیلیانوالہ میں کاروبار کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ لہذا اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے انہوں نے عنفوان شباب میں ریاست جموں و کشمیر کا رخ کیا۔ اپنی شبانہ روز محنت اور ایمانداری کے باعث نہایت ہی قلیل وقت میں ان کا کاروبار وہاں چمک اٹھا۔
اسی دوران چودھری محمد اشرف (مرحوم)نے ضلع رحیم یار خان میں کچھ اراضی لیز پر لے کر اپنے والدمحترم کے سپرد کر دی اور خود تعمیرات کے شعبے میں قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک کنسٹر یکشن کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ مذکورہ کمپنی کے پلیٹ فارم پر انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں سرکاری و نجی عمارات تعمیر کیں۔ جنہیں اپنی طرز تعمیر اور معیار کے لحاظ سے اس وقت کی حکومتوں اور عوام الناس نے پسندیدگی کی سند بخشی۔
اگست 1947ء میں وقوع پذیر ہونے والی تقسیم برصغیر اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی نئی اسلامی مملکت پاکستان میں تعمیر و ترقی کے نئے منصوبوں کی گنجائش اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری اور نئی سرکاری عمارات کی تعمیر کے تناظر میں کنسٹریکشن کے شعبے میں کام کے کثیر مواقع موجود تھے۔
اپنے کام اور شعبے سے جنون کی حد تک وابستگی ہی تھی کہ چودھری محمد اشرف ہمیشہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں سرگرداں رہتے اور انہوں نے ایک نیا تعمیراتی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے نے سندھ کے مختلف شہروں اور علاقوں میں اعلی معیار کی سڑکیں، ہسپتال، پل، نہریں اور تعلیمی ادارے بنا کر صوبے کی تعمیر و ترقی میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔
سندھ کے عالمی شہرت یافتہ منصوبہ “گڈو بیراج” کی تعمیر میں بھی چودھری محمد اشرف کی تعمیراتی کمپنی نے قابل قدر کام کیا۔ 1950ء کی دہائی میں ملتان کے نشتر میڈیکل کالج اور ہسپتال کی تعمیر کے منصوبے کا کنٹریکٹ بھی انہی کی کمپنی کو تفویض ہواجسے مقررہ مدت میں اعلی تعمیراتی معیار کے ساتھ مکمل کیا گیا۔
انہوں نے ایک کمپنی قائم کر کے حیدر آباد میں کوئلے کی کانیں لیز پر لے لیں۔ سندھ کے بڑے کول مائنر اداروں میں سے ایک یہ ادارہ آج بھی نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔
1970ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چودھری محمد اشرف کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں پاکستان پیپلز پارٹی ہی کے پلیٹ فارم پر ملکی سیاست میں عملی کردار ادا کرنے کو کہا۔ چنانچہ انہوں نے شہید بھٹو کے زیر قیادت اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اپنی سیاسی زندگی میں دکھی انسانیت کی خدمت اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات کر کے عوامی سیاست کی نئی مثال قائم کی۔ ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں سندھ سے پارلیمان کے ایوان بالا/سنیٹ کا رکن بنایا۔ چودھری محمد اشرف کی مصالحت پسندی، ان کی غیر متنازعہ شخصیت اور ان کی ذات میں رچی پاکستانیت کی بنا پر پیر صاحب پگاڑا نے انہیں سندھ اور پنجاب کے درمیان محبت و یکجہتی کا پل قرار دیا تھا۔
1980ء کی دہائی میں چودھری محمد اشرف کی قسمت میں بخت آوری کا نیا سرخاب اس وقت لگا جب پنجاب انڈسٹریل بورڈ کی جانب سے بہاول پور اور لیہ میں شوگر ملز کے قیام کے لئے ٹینڈرز جاری کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نیشنلائزیشن کی پالیسی کے تحت مذکورہ شوگر ملیں صرف ٹینڈرز کی حد تک محدود تھیں جس سے ملکی معیشت پر برا اثر پڑ رہا تھا۔ جنرل محمد ضیا الحق کی فوجی حکومت نے چند صنعتیں پرائیوٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ جن میں شوگر ملوں کی بحالی بھی شامل تھی۔
اس بار خوش نصیبی کا ہما چودھری محمد اشرف کے سر پر یوں بیٹھا کہ پنجاب انڈسٹریل بورڈ کے زیر اہتمام ٹینڈرز کے عمل میں ان کے نام کا قرعہ نکل آیا۔ جب بہاول پور شوگر ملز چودھری محمد اشرف کے سپرد کی گئی تو وہاں شوگر ملز کے نام پر صرف چار دیواری قائم تھی اور بہاول پور شوگر ملز کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ انہوں نے اللہ کی ذات پر توکل اور اپنی قابلیت کے بھروسے پر محض 10 ماہ کی قلیل مدت میں شوگر ملز کو مکمل اور فنگشنل کر کے اس میں چینی کی پیداوار کا عمل شروع کیا۔
چودھری محمد اشرف نے اپنی سیاسی، سماجی و کاروباری زندگی میں جتنے بھی کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ انہوں نے خلق خدا کی بھلائی، ایمان داری، دیانت اور رزق حلال کی طلب کو ملحوظ خاطر رکھا۔ انہوں نے اپنی ذات کے لئے کم اور عام آدمی کی بہتری کے لئے زیادہ سوچا۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت پسماندہ علاقے میں “اشرف شوگر ملز” کا قیام ہے۔ بہاول پور میں شوگر ملز کی بحالی کا جب منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا تھا تو اس وقت اس علاقے میں دور دور تک گنے کی کاشت نہ ہونے کے برابر تھی اور کسی طور پر بھی یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ یہ ادارہ کوئی نفع بخش ثابت ہو سکے گا۔ لیکن دور اندیش چودھری محمد اشرف کی سوچ صرف یہ تھی کہ اس سے علاقے کے مقامی لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور علاقے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
چودھری محمد اشرف 6 نومبر 1983ء کو جناح ہسپتال کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ان کی 57 سالہ زندگی محبت، توجہ، خلوص، انصاف، احساس، برابری، رواداری، قربانی اور ہر فرد کے لئے یکساں عزت نفس برقرار رکھنے کی کاوشوں سے عبارت ہے۔ ان کے ہونہار فرزند ارجمند چودھری محمد ذکا اشرف اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملکی صنعت کے شعبے میں عملی طور پر متحرک ہیں اور عوام میں آسانیاں بانٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain