تازہ تر ین

چار لاکھ پختونوں کے شناختی کارڈز بلاک

اسلام آباد (آن لائن) ملک بھر میں چار لاکھ سے زائد پختونوں کے شناختی کارڈ بلاک ہونے پر سینٹ میںشدید احتجاج کیا گیا ، اراکین سینٹ نے پختونوں کے ساتھ شناختی کارڈ بلاک کرنے کے معاملے پر حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ شناختی کارڈز کے حوالے سے کئی مرتبہ کہا لیکن کوئی جواب نہیں ملا کہا جارہا ہے کہ ابھی چار لاکھ سے زائد شناختی کارڈبلاک ہیں جن میں سے نوے فیصد پختون لوگوں کے ہیں ملک میں پگڑی اور داڑھی والے لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کردیئے جاتے ہیں موجودہ حکومت پختونوں سے امتیازی سلوک کررہی ہے جن لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک ہیں وہ نہ بچوں کو سکول بھیج سکتے ہیں اور نہ ہی بینک سے پیسے لے دے سکتے ہیں ۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سینیٹر فرحت اللہ بابر سے کہا ہے کہ افراد کو لاپتہ کرنے کے حوالے سے بل لانے کیلئے پارلیمانی رہنماﺅںسے خود بات کریں اس کیلئے بات کرنا چیئر کا کام نہیں۔ جمعہ کو سینیٹر فرحت اللہ بابر نے عوامی اہمیت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس حوالے سے بل لانے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم وہ بل نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بہت اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے، اب اسلام آباد سے بھی لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں، کل ایک اور فرد کو اٹھانے کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اس معاملے پر بل لانے کےلئے آپ تمام پارلیمانی لیڈرز سے خود بات کر سکتے ہیں یہ چیئر کا کام نہیں ہے۔ ایوان بالا کو حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ منرل واٹر کے نام پر غیر معیاری پانی بوتلوں میں بھر کر فروخت کیا جارہا ہے ، غیر معیاری منرل واٹر کی تیاری روکنے کے لئے سزاتین ماہ سے بڑھا کر پانچ سال کی قید کر دی ہے ۔ غیر معیاری منرل واٹر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کئی کمپنیوں اور فیکٹریوں کو سیل کیا گیا ہے اور گیارہ برانڈز میں کیمیکلز کی آلودگی کا پتہ چلا ہے‘ عوام میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کا معاملہ نجکاری کمیشن میں ہے ‘ اس وقت اس کی پیداوار رکی ہوئی ہے۔ وسیلہ حق اور وسیلہ روزگار سکیموں کو بند کیا جاچکا ہے۔ کئی آٹو موبائل کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے دلچسپی لے رہی ہیں، ہنڈا اٹلس کار کے 2016ءماڈل کے معیار سے متعلقہ شکایت پر کارروائی کا وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جائزہ لے سکتی ہے۔ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے مختلف کمپنیوں کے ذمہ بقایا جات کا معاملہ حل کیا جارہا ہے۔جمعہ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے بتایا کہ پینے کے پانی کے معیار کو یقینی بنانا پی ایس کیو سی اے اور پی سی آر ڈبلیو آر کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ بوتلوں میں جو پانی ہوتا ہے اس کا معیار چیک کرنا ہمارا مینڈیٹ ہے۔ اسلام آباد میں پینے کے لئے صاف اور محفوظ پانی کی سپلائی کے لئے سی ڈی اے نے مختلف مقامات پر ٹیوب ویلز اور فلٹریشن پلانٹس نصب کئے ہیں۔ 35 بوتلوں والے پانی کی شکایات پر اس وقت کاروائی زیر عمل ہے۔ غیر معیاری کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے‘ دن کو سیل بھی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ بوتلوں والے پانی کی فراہمی کا مافیا بھی موجود ہے۔ ایک کمپنی کے خلاف ایک جگہ کارروائی کرتے ہیں تو وہ دوسری جگہ جاکر کام شروع کر دیتے ہیں۔ لوگ غیر محفوظ پانی خرید کر پی رہے ہیں۔ ہم نے اپنے دور میں غیر محفوظ پانی فراہم کرنے والی 87 کمپنیاں اور فیکٹریاں سیل کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال سے میں نے یہ روایت اختیار کی ہے کہ بڑی کمپنیوں سے کہیں کہ پانی کی چھوٹی بوتل فراہم کریں۔ بڑی بوتلوں سے پانی ضائع ہوتا ہے۔ اجلاسوں میں چھوٹی بوتلیں فراہم کرنی چاہئیں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ ایک 500 ایم ایل والی بوتل ہم دو افراد کے لئے فراہم کرتے ہیں۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ بوتلوں والے پانی کا معیار چیک کرنے کے لئے پہلے دو زون تھے میں نے تین کرائے ہیں اب ان کی تعداد بڑھا کر پانچ کرنا چاہتے ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی کے سوال کے جواب میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے بتایا کہ غیر معیاری منرل واٹر کی تیاری روکنے کے لئے سزاﺅں اور جرمانے کی رقم میں اضافہ کیا ہے۔ تین ماہ سے بڑھا کر پانچ سال کی قید کی سزا کی ہے۔ یہ درست ہے کہ غیر معیاری پانی بوتلوں میں بھر کر سپلائی کیا جارہا ہے۔ ہم پیسے دے کر زہر خریدتے ہیں۔ جولائی تا ستمبر 2016ءکے عرصے میں پی سی آر ڈبلیو آر نے معیار کا تجزیہ کرنے کی غرض سے 109 بوتل والے پانی کے برانڈز جمع کئے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain