تازہ تر ین

وزیراعظم نے جھوٹ نہیں بولا, حکومتی وکیل نے استثنیٰ مانگ لیا

اسلام آباد (صباح نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت استثنی مانگ لیا ہے وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 66 میں وزیر اعظم سمیت تمام اراکین پارلیمان کو استثنی حاصل ہے وزیراعظم نے اگر پارلیمنٹ میں تقریر کی بھی ہے تو آرٹیکل 66 کو نظر انداز نہیںکیا جاسکتا یہ استثنی پارلیمنٹ کو حاصل ہے وہی اس کو ختم کرسکتی ہے، جبکہ عدالت عظمی نے قرار دیا ہے کہ ایک طرف وزیراعظم نے کہا کہ وہ استثنی نہیں لیں گے دوسری جانب آرٹیکل 66 کے تحت استثنی مانگا جارہا ہے اگرچہ پارلیمنٹ میں تقریر کو استثنی حاصل ہے لیکن اگر جھوٹا بیان ہو تو اس کا کیا سٹیٹس ہوگا۔ دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس سننا عدالت کے اختیار میں ہے۔ کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ دوہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے عدالت دائرہ اختیار رکھتی ہے۔ عدالت نے صرف دیکھنا ہوتا ہے کہ ریکارڈ کیس کو ثابت کرتا ہے یا نہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ پہلے یہ کہا گیا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی لیکن بعد میں کہہ رہے ہیں کہ اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو اس کو استثنی حاصل ہے۔ اسمبلی میں تقریر کو استثنی حاصل ہے تو کیا اس تقریر کو عدالت میں کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟ سوموار کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے پاناما کیس کی سماعت شروع کی تو 5 رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا مخدوم صاحب آپکو دلائل مکمل کرنے میں مزید کتنا وقت لگے گا جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری کوشش ہوگی آج آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالے سے دلائل مکمل کر لوں۔ تقاریر میں تضاد، زیر کفالت اور پھر دائر اختیار کے حوالے سے بات کرونگا۔184/7کے ساتھ 4 ایشوز پر بات کرونگا لیکن وعدہ کرتا ہوں بطور وکیل اپنے دلائل دہراﺅں گا نہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وکلا نے آج عدالت میں داخلے سے روکا، وکلا کا کہنا تھا کہ شام تک مطالبات منظور نہ ہوئے تو کل نہیں آنے دیں گے۔ وزیر اعظم کے وکیل نے ڈاکٹر مبشر حسن کیس کا 2009 کو ہونے والا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور موقف اپنایا کہ مبشر حسن کیس میں وفاقی حکومت کو جاری کی گئی ہدایت پر عمل نہ ہوا۔ یکم اپریل کو عدالت نے وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا کہا اور 26 اپریل 2012 کو وزیر اعظم کو سزا سنائی گئی۔ یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 4 مئی کو سپیکر نے رولنگ دی تو معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ آیا جبکہ 19 جون کو عدالت کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے کا حکم دیا گیا۔ نااہلی کے تمام مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرانے کے بعد ہوا جس پر بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ دوہری شہریت کے مقدمات میں فیصلہ براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا۔ آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں 7 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا۔ لارجر بینچ کے فیصلے کی روشنی میں یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ آیا۔ وزیر اعظم کے وکیل کے دلائل کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف ڈائس پر آگئے اور کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے انکی نقول فراہم کی جائیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ آپ اپنا کیس پیش نہیں کر رہے تو نقول کا کیا کریں گے؟ وکیل توفیق آصف نے کہا کہ ایک دو روز میں درخواست جمع کرا دیں گے۔ وزیراعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یوسف رضا گیلانی نے سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کی، آرٹیکل 63/1 دوہری شہریت کے حوالے سے غیر واضح ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے دوہری شہریت کے اعتراف پر نااہلی کا فیصلہ آیا ، جن اراکین نے دوہری شہریت ختم کی انہیں بھی معافی مانگنی پڑی جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ جن مقدمات کا حوالہ دیا ہے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس سننا عدالت کے اختیار میں ہے۔ کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ دوہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے عدالت دائرہ اختیار رکھتی ہے۔ عدالت نے صرف دیکھنا ہوتا ہے کہ ریکارڈ کیس کو ثابت کرتا ہے یا نہیں۔ وزیر اعظم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عدالت نے ہر کیس کا حقائق کے مطابق جائزہ لیکر فیصلہ دیا تھا، دوہری شہریت کے حامل افراد کو صفائی کا موقع بھی دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ دوہری شہریت کے فیصلے کی بنیاد پر تقاریر پر نااہلی نہیں ہوسکتی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت اپنے اطمینان کے بعد کیسوں کی سماعت کی، جن اراکین نے دوہری شہریت سے انکار کیا انکے مقدمات بھی سننے گئے، جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ میرے دلائل کا ہر گز یہ مطلب نہیں، کہ سپریم کورٹ کیس نہیں سن سکتی لیکن آرٹیکل 62/1-f، 63/1 اطلاق کے طریقے کار مختلف ہےں، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62/1 کے حوالے سے کوئی طے شدہ پیٹرن نہیں لیکن ممکن ہے کہ اس حوالے آئندہ بھی متعدد فیصلے آئیں، ان کا کہنا تھا کہ 62/63 کا اطلاق کیس کے حقائق کے مطابق ہوتا ہے،، مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ رینٹل پاور کیس میں عدالت نے راجہ پرویز اشرف کے خلاف آبزرویشن دی اور آبزرویشن کے باوجود راجہ پرویز اشرف کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ نہیں دیا گیا۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا آپ یہ کہنا چارہے ہیں کہ آرٹیکل 184/3کے تحت عدالت صرف تصدیق شدہ حقائق ہی سن سکتی ہے،، مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر، ٹیکس کی ادائیگی اور مریم کا زیر کفالت ہونا تین مختلف معاملات ہیں اسلئے ہر پہلو پر الگ الگ دلائل دوں گا،، انہوں نے کہا کہ جہاں ریکارڈ متنازعہ ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی ایک عدالت ہے اور کئی کیسز میں فیصلے دے چکی ہے، ایشو یہ نہیں ہے کہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ 184/3کے مقدمہ میں جس قسم کے کاغذات آئے، کیا وزیراعظم کو ان کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جاسکتا ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ میرا عدالت کے اختیار سماعت پر اعتراض نہیں، تاہم دہری شہریت کی بنیاد پر نااہل قرار دینے اور صادق اور امین کی بنیاد پر نااہلی میں فرق ہے جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن کو اپنے دلائل کا حصہ بناتا ہوں، مخدوم علی خان وزیراعظم کی تقریروں میں تضاد، ٹیکس گوشواروں اور مریم کے زیر کفالت ہونے کے معاملات پر دلائل دوں گا، ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62/1-f، 63/1 کے اطلاق کے طریقہ کار مختلف ہیں، عدالتی وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ عدلیہ مخالف تقاریر کے الزام پر سابق وزیر اعظم رفیق تارڑ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تھے۔ اس کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ اخباری تراشوں پر کسی کو ڈی سیٹ نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس عظمت سعید نے سوال اٹھایا کہ کیاصدر رفیق تارڑ نے اپنی تقریر کی تردید کی تھی ۔ کیا آپ وزیر اعظم کی تقریر کی تردید کر رہے ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیاکہ جناب مخدوم علی خان کیا آپ دوسرے انٹرویوز سے بھی انکار کر رہے ہیں، جو تقریر کے مطابق نہیں۔جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کاروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ لیکن وزیر اعظم نے خود ہی استثنی لینے سے انکار کیا تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیا اس استثنی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ استثنی پارلیمنٹ کو حاصل ہے وہی اس کو ختم کر سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعد نے کہا کہ استثنی اور استحقاق میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کو تعین کرنا ہوگا دو افراد میں کون سچا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ زیر سماعت مقدمہ مختلف نوعیت کاہے ۔ تقریر کسی موقف کو ثابت کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولا لیکن دوسری طرف استثنی بھی مانگ رہے ہیں۔ جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 66کو شامل کرنے کا مقصد اراکین کو آزادءاظہار رائے کا حق دینا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 66 آزادی اظہار رائے کو تسلیم کرتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آزادی اظہار رائے الگ ہے اس تقریر کو عدالتی کاروائی میں شامل کرنا الگ ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ان تقاریر سے صرف معاملے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں صرف ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جاسکتی۔ مجلس شوری میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں۔ عدالت میں اس پر انحصار کیا جارہا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی۔ لیکن بعد میں کہہ رہے ہیں کہ اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو اس کو استثنی حاصل ہے ۔جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں تقریر کو استثنی حاصل ہے تو کیا اس تقریر کو عدالت میں کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ عدالت میں معاملہ صرف تقریر پر کاروائی کا نہیں ۔مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ بھی آئین کا ہی حصہ ہے،مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین کے مطابق جائزہ لینے کے معاملے پر عدالتی فیصلے موجود ہیں، جسٹس شیخ عظمت نے سوال اٹھایا کہ کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا؟ ، مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ بھارتی عدالتوں کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اطلاق نہیں ہوتا کیا جسٹس عظمت سعید نے نکتہ اٹھایا کہ کیابھارتی آئین میں بھی آرٹیکل باسٹھ ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ بھارتی آئین میں صادق اور امین کے الفاظ موجود ہیں، جبکہ وزیراعظم کے بیان میں نہ کوئی تضاد ہے نہ غلط بیانی، وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کوئی جھوٹ نہیں بولا،کیس کی سماعت جاری تھی کہ عدالتی وقت ختم ہوجانے پر مقدمہ کی مزید سماعت آج(منگل) تک ملتوی کردی گئی۔کمرہ عدالت میں درخواست گزار عمران خان ، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید ، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق ، جہانگیر ترین ، مخدوم شاہ محمود قریشی ، فواد چودھری ، نعیم الحق ،لیگی رہنما طلال چودھری ، طارق فضل چودرھری اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب موجود تھے۔دوسری جانب پانامالیکس کیس میںجماعت اسلامی کی طرف سے وزیراعظم کو فریق بنانے کی درخواست دائر کردی گئی،سوموار کوامیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق نے قومی دولت بیرون ملک بھجوانے ، آف شور کمپنیوں میں سرمایاکاری، لندن فلیٹس کی خریداری اور مبینہ ٹیکس چوری کاالزام عائد کرتے ہوئے وزیراعظم کی آئین کے آرٹیکل 62(1-F)کے تحت نااہلی کےلئے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی ہے۔توفیق آصف ایڈووکیٹ کے توسط سے دائردرخواست میں وفاق پاکستان، کابینہ ڈویژن، سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم نواز شریف کو فریق بنا یا گیا ہے۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے غیر قانونی طریقے سے رقوم بیرون ملک بھجوائی اس وجہ سے ان کا نام پانامالیکس میں آیااور وزیر اعظم نے رقوم بیرون ملک بھجوا کر وہاں جائیدادیں خریدیںاورسرمایا کاری کرکے آف شور کمپنیاں قائئم کیں،درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ بیرون ملک بھجوائی گئی رقوم سے لندن میں چار فلیٹس خریدے گئے تاہم وزیراعظم نے یہ فلیٹس اپنے گوشوراوں میں ظاہر نہیں کئے اور لندن فلیٹس خریدتے وقت پاکستان میں ٹیکس نہیں دیا گیاکیونکہ غیر قانونی طور پر رقوم منتقل کی گئیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے جان بوجھ کر جائیدادیں خاص طور پرلندن فلیٹس چھپائے اس لئے وہ وزیراعظم پاکستان کے منصب پر فائز ہونے کے اہل نہیں رہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ حقائق چھپانے کے باعث نواز شریف صاد ق اور امین نہیں رہے اس لئے آئین کے آرٹیکل62(1-F)کے تحت وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جائے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain