حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کے الگورتھمز خواتین کے خلاف نفرت آمیز مواد پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ نئی نسل پر انتہا پسندانہ مواد تھوپا جارہا ہے اور یہ سب کچھ ان کے لیے معمول کا حصہ ہوتا جارہا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے نئی نسل کو نشانے پر لے کر جو انتہا پسندانہ اور نفرت انگیز مواد پھیلا جارہا ہے وہ تعلیمی اداروں کے کیمپس کا ماحول بھی خراب کر رہا ہے۔
سوشل میڈیا کی معروف ویب سائٹ ٹک ٹاک کے پانچ دن کے مواد کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا ہے کہ خواتین کے خلاف نفرت انگیز مواد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایسی وڈیوز بھی اپ لوڈ کی جارہی ہیں جن میں کسی بھی خراب معاملے کا ذمہ دار خواتین کو ٹھہرایا گیا ہو۔
محققین کا کہنا ہے کہ موبائل یا سوشل میڈیا پر پابندی لگانے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے نفرت انگیز مواد کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے اور سامنے آکر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
یونیورسٹی کالج لندن اور یونیورسٹی آف کینٹ کے محققین نے اپنی تحقیق کے ذریعے نئی نسل کو خرابیوں سے بچانے پر توجہ دینے کی ضرورت واضح کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حقوقِ نسواں کی تحریک کو نقصان دہ قرار دینے کے حوالے سے اچھا خاصا مواد اپ لوڈ کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں خواتین کے حوالے سے تنگ نظری پر مبنی سوچ پنپ رہی ہے۔
حال ہی میں قتل کی جانے والی خواجہ سرا بریانا گھے کی والدی نے کہا ہے کہ اسمارٹ فون پر 16 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔
محققین نے اس بات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ سوشل میڈیا پر خواتین کی ہتک پر مبنی اور اُن سے نفرت کو پروان چڑھانے والا مواد تفریح کے ذیل میں اپ لوڈ کیا جارہا ہے۔
یو سی ایل انفارمیشن سروسز کے پرنسپل انویسٹیگیٹر ڈاکٹر کیٹلن ریگر کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ انتہائی خطرناک، ہتک آمیز اور نقصان دہ خیالات کو اب نئی نسل نے خطرناک سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے اور سب کچھ معمول کے طور پر قبول کیا جارہا ہے۔