تازہ تر ین

قطری شہزادہ پیش نہ ہوا تو کیا ہوگا؟, سپریم کورٹ نے خبردار کردیا

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، ایجنسیاں) پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحققیاتی ٹیم کے دو ارکان پر تحفظات کے اظہار پر حکمراں جماعت شاید یہ سوچ رہی تھی کہ عدالت عظمیٰ ا±ن کے اعتراضات کو منظور کر لے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔البتہ یہ ضرور ہوا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کے وکیل کی طرف سے ا±ٹھائے گئے اعتراضات کو نہ صرف سنجیدگی سے سنا بلکہ ا±ن کے پوائنٹس بھی نوٹ کیے۔حسین نواز کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست کی سماعت کے دوران جب ا±ن کے وکیل خواجہ حارث اپنی درخواست کے حق میں مختلف فیصلوں کے حوالے دے رہے تھے تو ایک موقع پر بینچ میں شامل عظمت سعید نے حسین نواز کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اتنی تیزی سے نہ پڑھیں بلکہ آہستہ بولیں کیونکہ عدالت کے معزز جج صاحبان اس کو نوٹ کر رہے ہیں اور اس معاملے میں ‘ہم آپ سے زیادہ سنجیدہ ہیں۔’جس پر کمرہ عدالت میں ایک زوردار قہقہ بلند ہوا۔وزیراعظم کے صاحبزادے کے وکیل کا رویہ جارحانہ تھا اور عدالت کے روکنے کے باوجود بھی وہ اپنے دلائل جاری رکھتے جبکہ اس کے برعکس پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل پرسکون انداز میں دلائل دیتے تھے۔سماعت کے دوران ایک موقع پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ تحققیاتی ٹیم مرحلہ وار بتائے کہ ا±سے وزیر اعظم کے صاحبزادوں سے کیا کیا دستاویزات چاہیں جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ تحققیاتی ٹیم کو ‘ڈکٹیٹ’ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ملزم کی خواہش پر تفتیش کی جائے۔ایک موقع پر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر حسین نواز کو یہ نہیں معلوم کہ کونسی دستاویزات لیکر جانی ہیں تو پھر’گڈ لک ٹو حسین نواز۔’سماعت کے دوران عدالت نے ا±ن سیاست دانوں کا نام لیے بغیر ا±نھیں تنقید کا نشانہ بنایا جو سپریم کورٹ کی غیر جانبداری کو متنازع بناتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی پر حسین نواز کے اعتراضات مسترد کردیے ہیں۔ پیر کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بنچ نے حسین نواز کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان پر اعتراض کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کیوں نہیں آئے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ یہ سعید احمد کیا نیشنل بینک والے ہی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سعید احمد کے جواب کی زبان ملاحظہ کریں، وہ کہتے ہیں اگر ضرورت پڑی تو پیش ہوں گا، وقت محدود ہے جو وقت ضائع کرے اس پر احکامات جاری کئے جائیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ صدر نیشنل بینک کل ہر صورت جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں، کسی کو سمن کریں تو وہ سوال جواب شروع کر دیتا ہے، جو پیش نہ ہو پہلی صورت میں اس کے قابل ضمانت اور پھر ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کریں۔جسٹس عظمت سعید نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے استفسار کیا کہ آپ نے کسی کو بلایا تھا جو نہیں آیا جس پر واجد ضیا نے بتایا کہ باوجود جے آئی ٹی نوٹس کے حماد بن جاسم اور کاشف محمود قاضی نہیں آئے، واجد ضیا نے کہا کہ کاشف مسعود کو سیکیورٹی خدشات ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ تحفظات ہیں تو آپ انتظامات کریں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر حماد بن جاسم پیش نہ ہوئے تو ان کے خط کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے ایک تحقیقاتی ٹیم قائم کی ہے، ہم تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں،حسین نواز سعودی عرب سے آئے اور انھیں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تو وہ فورا پیش بھی ہوگئے۔ تحقیقات اور گواہوں کے ساتھ رویے میں توازن ہونا چاہیے لیکن طارق شفیع کو 13 گھنٹے بٹھایا گیا، انہیں اپنا بیان حلفی واپس لینے کو کہا گیا۔ تفتیش کے دوران ایک لمبا چوڑا شخص طارق شفیع پر چلاتا رہا۔ جے آئی ٹی کے ممبران غیر جانبدار ہو کر کام کریں، سپریم کورٹ نے بہت سے فیصلوں میں بدنیتی ثابت ہونے پر افسران تبدیل کئے، جس پر جسٹس اعجاز افضل کا استفسار کیا کہ بتائیں بدنیتی کہاں شامل ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ بلا ل رسول میاں اظہر کے بھانجے ہیں، ان کی اہلیہ 2013میں مسلم لیگ(ق)کی مخصوص نشست پر امیدوار رہیں، بلال رسول کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حق میں پوسٹ شیئر کیں،جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ بلال رسول سرکاری ملازم ہیں، ہمیں ان باتوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس بات کے مخالف ہیں کہ کوئی کسی کوہراساں کرے، ہم چاہتے ہیں کہ جو پیش ہو اس کی عزت کی جائے، ہم نے جے آئی ٹی کو 60 دن میں کام مکمل کرنے کا کہا ہے، ٹیم دن رات کام کر رہی ہے اور کوئی چھٹی بھی نہیں کر رہی اور آپ کمیٹی ارکان پر اعتراض کر رہے ہیں۔ مذکورہ شخص کو تحقیقات کے لیے بلایا گیا تھا چائے پارٹی کے لیے نہیں۔خواجہ حارث نے طارق شفیع کا بیان حلفی عدالت میں پڑھ کرسنایا تو عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بیان حلفی درست ہے یا نہیں، آپ ٹیم کے ایک ممبر کو نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنا کام کرنا جانتے ہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس میں وڈیو آڈیو رکارڈنگ کی جارہی ہے، میرے موکل کے معاملے میں عدالت اسے دیکھ لے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں کسی کے خلاف بات کی جائے تو اسے جانبدار کہا جاتا ہے، کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جے آئی ٹی کا کوئی رکن تبدیل نہیں ہوگا، شکوک کی بنیاد پر کسی کو ٹیم سے نہیں نکالا جاسکتا، اگر ایسا کیا تو پھر تحقیقات کے لیے آسمان سے فرشتے بلانے پڑیں گے، جے آئی ٹی کے کسی ممبر کو تبدیل نہیں کررہے ، ہم جے آئی ٹی کو ہدایت دیتے ہیں کہ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے، جے آئی ٹی پیش ہونے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھے۔عدالت کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain