لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروںپر مشتمل پروگرام ’ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پارٹی صدارت کے لئے میاں شہباز شریف سب سے اچھے امیدوار ہو سکتے تھے۔ نوازشریف کے بعد چودھری نثار علی خان اور شہباز شریف بھی سینئر موسٹ لوگ تھے۔ جو پارٹی صدارت کے لئے موزوں تھے۔ دوسرے لوگوں کے نام تو مذاق ہی لگتے تھے کلثوم نواز بیمار تھیں۔ وہ کیسے صدارت کر سکتی ہیں کبھی مریم نواز کا نام سامنے آتا تھا۔ اگر مریم نواز بنتی تو ان کے بہت سے انکل اس پر ناراض نظر آتے اور وہ ان کو قبول نہ کرتے۔ شہباز شریف صاحب کے اپنے مشیر اور کابینہ موجود ہے۔ بہت سے لوگ ان کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن پہلی غلطی وہ کر چکے ہیں۔ احد چیمہ ہو یا ان کے والد اگر ایک افسر پکڑا جاتا ہے تو چیف منسٹر کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کے تحفظ کے لئے یہاں تک جائے کہ چیف سیکرٹری صاحب کو ہدایتت کی جائے اور رانا ثناءاللہ اس کی صفائیوں میں تقاریر کریں۔ لوگوں پر الزامات لگتے رہے ہیں۔ وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں اور درست بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کا کیس نیب میں چلے گا۔ صفائی کا موقع بھی ملے گا۔ شہباز شریف کی تیزی بہت مشہور ہے۔ منصوبوں کی تیزی سے تکمیل کا کریڈیٹ ان کو جاتتا ہے۔ باقی تینوں صوبوں کی نسبت پنجاب کا امن و امان اور نظم و نسق بہت بہتر ہے۔ شاید ان کے مشیر ان کو مروانا چاہتے تھے۔ اگر میں ان کا مشیر ہوتا تو خاموشی کا مشورہ دیتا۔ احد چیمہ پر انہیں خاموش رہنا چاہئے تھا۔ چیف منسٹر خود کو بارہا احتساب کیلئے پیش کرتے رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف کا ٹریک ریکارڈ دوسروں سے بہتر ہے۔ انہوں نے عدلیہ اور فوج کو برا کبھی نہیں کہا۔ یہ پہلا غلط فیصلہ تھا جو انہوں نے کہا اور احد چیمہ کے حق میں بیان دے ڈالا۔ چیف سیکرٹری کی مجال نہیں ہے کہ وہ وزیراعلیٰ سے مشورہ کئے بغیر اور اجازت لئے بغیر احد چیمہ کے حق میں بینر اور پوسٹر لگوا سکے۔ کلب روڈ پر تمام چیف سیکرٹریوں کو بلا کر تقریر فرمائے۔ چیف سیکرٹری کو اپنے کام پر اعتماد ہوتا اور اپنے اوپر اعتماد ہوتا اپنی ایمانداری پر اعتماد ہوتا۔ اپنی کریڈیبلٹی پر اعتماد ہوتا تو کہنا چاہئے تھا کہ دس دفعہ انکوائری کروائیں۔ اور بڑے شوق سے کروائیں۔ اور بڑے شوق سے کروائیں۔ ہو سکتا ہے احد چیمہ کے خلاف کچھ ثابت نہ ہو۔ آج ایک چینل پر یہ ٹیگ لگا دیکھا ہے۔ ”نومور“ یہ کیا کام ہے یہ کوئی دوسرے ملک سے آئے ہوئے اقا ہیں انہیں یو این او نے بھیجا ہے۔ میاں شہباز شریف کو خود کو اس معاملے سے علیحدہ رکھنا چاہئے اپوزیشن کو موقع مل گیا ہے کہنے کا یہ طوطا تھا جس میں شہباز شریف کی جان تھی۔ میاں شہباز شریف صاحب خود دیکھ لیں سوشل میڈیا پر احد چیمہ کی پراپرٹی کے بارے میں کیا تفصیلات چل رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ سب غلط ہوں آپ اس کی انکوائری تو ہونے دیں۔ اگر وہ درست ہوں گے تو کلیئر ہو جائیں گے۔ رانا ثناءاللہ ہمیشہ الٹے کام کرتے ہیں۔ آپ وزیر قانون پنجاب ہو۔ نیب ایک وفاقی ادارہ ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب اس کے سربراہ ہیں۔ جن کا نام حکومت اور اپوزیشن نے مل کر دیا تھا۔ آپ کو ان کی مخالفت کا ڈر تھا تو انہیں نہ بناتے۔ اپوزیشن کو اس قسم کی باتیں کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ اقتدار کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہوتا ہے اپنے اردگرد جمع کئے جانے والے لوگ ہی لے ڈوبتے ہیں۔ جنہیں آپ اپنے گرد اکٹھا کرنے کا وہ آپ کی ہر بات پر لبیک کہتے ہیں۔ میں نے خود ان کے منہ پر انہیں کہا کہ آپ اپنے چاپ لوسوں سے بچیں۔شہباز شریف صاحب آج پارٹی کے صدر بن جائیں کل کو وزیراعظم بن جائیں۔ اچھے متحرک آدمی ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے اسی قسم کی سکواڈ اپنے اردگرد رکھنی ہے۔ یہی فواد حسن رکھنا ہے۔ یہی پندرہ پندرہ لاکھ روپے لینے والے وہ ریٹائر ہونے کے بعد دوبارہ پندرہ لاکھ روپے پر رکھ لیتے ہیں۔ اسپیشل تنخواہ پر شہباز شریف چیک کر لیں کہ ان پندرہ لاکھ روپے لینے والوں میں سے کتنے لوگ آج دفتر آئے تھے۔ وہ دفتر ہی نہیں آئے۔ گھروں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ میں ہر گز ان کا مخالف نہیں لیکن خدارا ان لوگوں سے بچیں۔ جو آپ کو ڈبونا چاہتے ہیں۔ میں نے سی پی این ای کی جانب سے متفقہ ایک رپورٹ تیار کروائی اور لکھا کہ پنجاب کا انتظام دیگر چاروں صوبوں سے بہتر ہے۔ فول پروف ہے۔ کرپشن فری ہے۔ اس پر ہم نے مبارکباد کا ایک سرٹیفکیٹ فراہم کروایا ان کے پاس جب چائے پر گئے تو ایکسپریس والے اعجاز الحق صاحب شاہین قریشی صاحب جنگ والے اور میں نے ان کو وہ سرٹیفکیٹ پیش کیا۔ باقی تینوں صوبوں میں 6، چھ سالوں کے پینڈنگ بل پڑے ہوئے ہیں جبکہ پنجاب میں انہوں نے اچھا نظام بنایا ہوا ہے۔ شہباز شریف صاحب کی جو چیز قابل تعریف ہے۔ میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔ لیکن وہ اپنے لئے خود گڑھا کھودا ہے دو دن پہلے اس پرواہ واہ کر سکتے ہیں۔ جب یہ قدم غلط ہے۔ شہباز شریف آپ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں۔ کل کو آپ نے وزیراعظم بننا ہے۔ آپ کو طرز عمل ایسا ہی رہا کہ آپ کی ٹیم کے بارے کسی کو شکایت ہوئی اور دوسرے ادارے نے اس کو پکڑ لیا تو آپ اس طرح خود کو اس افسر کے لیول پر لے آئیں گے جو پکڑا گیا ہو۔ پرویز رشید بہت اچھا پولیٹیکل ورکر ہے ہم اسے ایک دن یہاں بلاتے ہیں بٹھاتے ہیں میں اس کا بہت مدعا ہوں۔ وہ نواز شریف کا عاشق ہے۔ یقینا وہ اب شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ یہ لندن میں ہوتے تھے یہ کچھ داور وہاں رہ جاتے تو ان کو شہریت مل جاتی۔ نوازشریف کے واپسی کا موقعہ آیا تو انہوں نے فوراً واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ پرویز رشید مڈل کلاس کا بندہ ہے۔ اس کی کوئی آف شور کمپنی نہیں۔ عطاءالحق قاسمی میرے دوست ہیں۔ ہم دونوں ”محور“ میں اکٹھے کام کرتے تھے برسوں تک یہ میرے ساتھ نوائے وقت میں بھی رہے۔ وہ اپنے الزامات کے جواب میں تین قسطیں لکھ چکے ہیں۔ کہ 15 لاکھ تنخواہ ضرور لیتا تھا۔ لیکن یہ جو 27 کروڑ میرے کھاتے میں ڈال دیا ہے وہ غلط ہے۔ یہ تو پروگرام کے اخراجات ہوتے تھے۔ وہ بھی میرے کھاتے میں ڈال دیئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ عطاءالحق قاسمی شروع ہی سے نوازشریف کے حامی ہیں۔ نوازشریف صاحب نے انہیں ایم اے او کالج کی لیکچر شپ سے اٹھا کر ناروے میں سفیر مقرر کیا۔ ایک شخص نے زندگی کیں کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو کہ وہ سفیر بن جائے گا وہ کیوں نہ ان کے گن گائے۔ میں حکمرانوں کے ہر اچھے اقدام کی واہ واہ کرتا ہوں۔ لیکن حکمرانوں کے کان خوشامد کے عادی ہو جاتے ہیں۔ رانا ثناءمیرے بہت دوست ہیں میں ان کی تعریف کرتا رہوں تو وہ کہیں گے آپ نے کمال کر دیا ہے۔ میں کہتا ہوں خوبیوں کی تعریف اور خامیوں کی نشاندہی کرنی چاہئے۔ ہمارے حکمران تنقید پسند نہیں کرتے۔ عرفان صدیقی اور کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے فن تعریف میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ مشاہد حسین 10 سال تک نوازشریف کے اینٹی تھے۔ پھر یہ باہر چلے گئے پھر سنا کر ان کو پکڑا گیا۔ یہ روزنامہ مسلم کے ایڈیٹر تھے۔ ضیاءالحق دور میں انہیں اس سے الگ کر دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو بھارتی صحافی سے کروا دیا تھا۔ اس انٹرویو پر فارن آفس کو بہت اعتراضاتت تھے۔ چنانچہ انہوں نے اخبار کے مالک آغا پویا پر دباﺅ ڈالا۔ ان کی چھٹی ہو گئی ان کی جگہ پر ملیحہ لودھی کو ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ مشاہد حسین کو ایک مرتبہ میں نے دیکھا۔ نوازشریف کے کندھے سے اترے ہوئے بال جھاڑ رہے تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ میاں صاحب بال اتر رہے ہیں باہر جا کر علاج کروائیں۔ یہ خوشامد کی انتہا کو پہنچے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی ان کو بہت پڑھا لکھا شخص تصور کرتے تھے۔ ان کو 20 لاکھ تنخواہ ملتی تھی اور سارے خرچے چودھری برادران اٹھاتے تھے۔ انہوں نے ڈچ کر کے ان کی پارٹی سے سرنگ نکالی۔ پھر یہ پرویز مشرف کے قریب ترین تھے۔ یہ فوجیوں کو ڈیفنس پر لیکچر دینے جاتے تھے۔ بے چارے فارن منسٹر بننے کے لئے تڑپتے رہے۔ ان کے رستے میں، اہل تشیع سے ہونا۔ ایران سے تعلقات ہونا حائل تھے۔ کیونکہ امریکی ان کو ناپسند کرتے تھے۔ اوپر سے کلدیپ نائیر کا انٹرویو بھی ان کے خلاف چلا گیا۔ یہ چودھری شجاعت کے ساتھ اکبر بگٹی اور لال مسجد مذاکرات کے لئے بھی گئے انہوں نے یکدم پانسہ بدلا۔ کیونکہ مسلم لیگ (ق) کی ایک سینٹ کی سیٹ ہے۔ اور وہ مونس الٰہی کہتے ہیں انہوں نے چھ مہینے پہلے ہی اس پر کام شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میاں نوازشریف وزیراعظم بنیں گے تو میں وزارت اطلاعات ختم کروا دوں گا۔ انہوں نے یہ بات تین دفعہ کہی۔ جس پر خود منسٹر اطلاعات بنے تو مجال ہے ایک دفعہ بھی یہ بات دہرائی ہو۔
