All posts by Daily Khabrain

6ماہ میں حالات بہتر نہ کر سکے تو میرا نام نیازی رکھ دینا،شہباز شریف

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اپوزیشن لیڈر شہباز شریفٓ نے کہا ہے کہ عمران نیازی کا دماغ خالی ہے، یہ جادو ٹونے سے حکومت چلا رہا ہے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہو رہی ہیں،اداروں نے جتنی حمایت عمران خان کو دی اگر 10فیصد ہمیں مل جاتی تو حکومت بنالیتے،جعلی حکومت سے جان چھڑانے کا وقت آ گیا ہے، عمران نیازی سے جان چھڑانے تک ہم پیچھا نہیں چھوڑیں گے، پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی پارلیمنٹ کا آئینی ق ہے، غرور دفن ہو گا، ہم موجودہ اتحادیوں کےساتھ حکومت بنا کر 6 ماہ میں ملک ٹھیک کر دیں گے، 6 ماہ میں حالات بہتر نہ کر سکے تو میرا نام عمران خان نیازی رکھ دینا،نواز شریف کی قیادت میں پھر پاکستان کو بنائیں گے۔ جمعہ کو آزادی مارچ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن )کے صدر شہباز شریف نے کہاکہ آزادی مارچ میں لاکھوں لوگ موجود ہیں ،جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربرا ہ مولانا فضل الرحمن کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ شہباز شریف نے کہاکہ عمران نیازی نے کنٹینر کی سیاست شروع کی تھی، آج ان کی سیاست دفن ہو رہی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ جعلی حکومت سے جان چھڑانے کا وقت آ گیا ہے، عمران نیازی سے جان چھڑانے تک ہم ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہاں ٹھاٹھے مارتا سمندر گواہی دے رہا ہے کہ یہ سمندر سلیکٹیڈ حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ شہباز شریف نے کہاکہ تبدیلی پہلے نہیں آئی تھی بلکہ تبدیلی اب آئی ہے، پورے پاکستان کو اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہے کہ نیا پاکستان بہتر تھا یا پرانا پاکستان، نواز شریف دور میں غریبوں کو مفت ادویات مل رہی تھیں، آج ہسپتالوں میں غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں جا رہا ہے۔صدر مسلم لیگ (ن )نے کہا کہ یہ عمران خان ہمیں ڈینگی برادر کہتا تھا، اس سال 50 ہزار لوگ ڈینگی سے متاثر ہوئے اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں تاہم عمران خان آج کہیں نظر نہیں آ رہے جبکہ نواز شریف کے قیادت میں ڈینگی کا خاتمہ کیا گیا تھا۔انہوںنے کہاکہ آج مزدور بے روز ہو گئے، کاروبار ختم ہو گئے، پاکستان کی معیشت دم توڑ گئی ہے، بیوہ اور یتیم آج جھولیاں اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کا دل پتھر اور بھیجا خالی ہے، جادو ٹونے حکومت چلائی جا رہی اور پھونکوں سے تعیناتیاں ہو رہی ہیں، عمران خان جادو ٹونے سے تبدلی لانا چاہتا تھا تاہم یہ ملک کی بربادی بن گئی ہے، 72 سال سے پاکستان میں اس سے بدتر حکومت نہیں دیکھی مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کی بات کرنے والوں نے لوگوں سے روزگار اور چھت بھی چھین لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج تحریک کا پہلا حصہ ہے مجھے تو رشک آتا ہے کہ ٹانگوں پر ٹانگ چڑھانے والے کو اتنی سپورٹ اداروں سے مل رہی ہے جبکہ اس کا 10 فیصد بھی سپورٹ اداروں سے ہمیں ملتا تو آج تبدیلی واضح ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت کی پیشکش کی تو بڑی حقارت سے عمران خان نے رد کیا جبکہ پارلیمنٹ میں تبدیلی اس کا آئینی حق ہے اگر کچھ دن اور عمران خان رہ گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ عمران خان کاپتھر دل اور مغرور ہے جبکہ اس کا بھیجا بھی خالی ہے۔ عمران خان جادو ٹونے سے حکومت چلا رہا ہے اور جادو ٹونے سے تعیناتیاں ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 6 ماہ میں پاکستانی معیشت کو سب مل کر ٹھیک کر دیں گے اگر ہم سب نے مل کر ٹھیک نہ کیا تو عوام میرا نام شہباز شریف کی جگہ عمران نیازی رکھ دیں۔

ادارے حکومت کی حمایت ختم کریں،فضل الرحمن

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو مستعفی ہونے اور اداروں کو اس ناجائز حکومت کی پشت پناہی ختم کرنے کیلئے صرف 2 دن کی مہلت ہے، اداروں سے تصادم نہیں بلکہ ان کا استحکام چاہ\14

ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اداروں کو غیر جانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں، اگر ہم محسوس کریں کہ ناجائز حکومت کی پشت پر ادارے ہیں اور اس کا تحفظ کررہے ہیں، تو پھر 2 دن کی مہلت ہے پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ اداروں کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں، عوام کا سمندر طاقت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر جاکر انہیں گرفتار کرلے،یہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا عوامی اجتماع ہے، سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ 25 جولائی کے الیکشن فراڈ تھے اور دھاندلی کا شکار تھے، ہم مزیدصبروتحمل کا مظاہرہ نہیں کر سکتے، اب ایک ہی فیصلہ کرنا ہے اس حکومت کو جانا ہے، قوم ان سے آزادی چاہتی ہے،پاکستان کے گورباچوف کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے مستعفی ہوجانا چاہیے،پرانی کریشن تودورکی بات نئی کرپشن میں تین فیصد اضافہ ہوگیا ،موجودہ حکمرانوں نے کشمیر کا سودا کر لیا اور مودی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ، کشمیریوں کے حقوق کیلئے ہر حد تک جائیں گے،شرکا ءتحمل کے ساتھ دھرنے میں موجود رہیں، اپوزیشن جماعتیں آپس میں رابطے میں لمحہ بہ لمحہ صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے، جو بھی فیصلہ ہوگا شرکا کو آگاہ کیا جائےگا۔ وہ جمعہ کو اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 کے میٹرو گراﺅنڈ میں جے یو آئی کے آزادی مارچ اور احتجاجی جلسے سے خطاب کررہے تھے ۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے بھی جلسے میں شرکت اور خطاب کیا۔آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج اسلام آباد میں کسی ایک پارٹی کا احتجاج نہیں ہے، یہاں کوئی ایک جماعت یا تنظیم موجود نہیں، آج پاکستانی قوم کا اجتماع ہے، پاکستان کے عوام کا یہ اجتماع ہے اورآج یہ اجتماع پوری دنیا پر واضح کر رہا ہے کہ پاکستان ہر حکومت کا ہے،کسی ادارے کا پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کے کونے کونے اور دور درازعلاقوں سے طویل سفر کی مشقت برداشت کر کے لوگ آئے ہیں، لوگوں کے جذبے اور عزم کو سلام پیش کرتا ہوں اور اس وقت تمام سیاسی قائدین مارچ میں موجود ہیں، ان سب کو خوش آمدید کہتے ہیں، سب جماعتوں نے باہمی تعاون اور قومی یکجہتی کا اظہار ہے، جس نے ہمارے مطالبے کو ایک قومی مطالبے کی روح ڈال دی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج کے اس اجتماع کو پوری دنیا سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے، جب ہم یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ اس میں انصاف اور عدل پر مبنی ایک نظام چا رہے ہیں جو عوام کی مرضی سے ہو، اس کےلئے ضروری ہے کہ ایک اجتماع کی صورت میں وحدت کا مظاہرہ کریں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، رحمت کا مہینہ ہے اور اس کا تعلق حضور کریم کی میلاد سے ہے، جب ہم اس آزادی مارچ کا آغاز کر رہے ہیں تو تب بھی اللہ کی رحمت برس رہی ہے، یہ مبارک اجتماع ہے اور مبارک وقت میں ہو رہا ہے، ناموس رسالت کے دفاع کے لوگ نکلے ہیں تو یہ مبارک اجتماع ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم سب لوگوں کا مطالبہ ایک ہی ہے کہ 25جولائی 2018کوجو الیکشن پاکستان میں ہوئے تھے وہ فراڈ الیکشن تھے، وہ بدترین دھاندلی کا شکار ہوئے تھے، ہم ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی ان نتائج پر بننے والی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں، ایک ہی فیصلہ کرنا ہے کہ اب اس حکومت کو جانا ہے، بڑی مہلت دے دی ہے، ایک سال کی مہلت دی، مزید اس حکومت کو مہنے دینے کے روادار نہیں ہیں،یہ قوم آزادی چاہتی ہے، ان کی نا اہلی کے نتیجے میں ملکی معیشت تباہ ہو گئی ہے،جس ریاست کی معیشت بیٹھ جائے وہ ریاست اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتی ، سوویت یونین کا بھی اپنا وجود برقرار نہیں رہا تھا، پاکستانی گوارباچوف کو بھی استعفیٰ دینا ہو گا۔ فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کشمیر کی بات کرتی ہے اور کہا گیا کہ ہم ان دنوں میں آزادی مارچ نہ کریں، ایل او سی کے پاک ہندوستان کے درمیان بہت ٹینشن ہے لیکن ایک بڑی عجیب بات ہے کہ کشمیر کی سرحد پر تو بڑا تناﺅ ہے لیکن کرتارپور کوریڈور کھولنے کےلئے پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کشمیریوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے اور حکمرانوں نے کشمیریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، آج حکمرانوں کی بجائے عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں، عوام ان کی خود ارادیت کی جنگ لڑے گی، کشمیری عوام خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں مہنگائی ہے اور غریب مائیں اپنے بچوں کو بھیجنے پر مجبور ہو گئی ہیں اور نوجوان خود کشیاں کررہے ہیں، ان کو غریبوں کے ساتھ مزید کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے،حکومت نے کہا تھا کہ 50لاکھ گھر بنا کر دیں گے جبکہ 50لاکھ سے زیادہ گھر گرا چکے ہیں، ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کر کے 25لاکھ بے روزگار کر دیتے ہیں اور کہتے تھے کہ باہر سے لوگ نوکری کےلئے آئیں گے لیکن اس کے بدلے میں آئی ایم ایف کے دو بندے ضرور پاکستان آئے ہیں۔ فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل وجودمیں آیا تو انہوں نے خارجہ پالیسی کی بنیاد پاکستان کے خاتمے پر رکھی لیکن پاکستان کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبے نہ مانے گئے تو پھر کسی پابندی کے پابند نہیں ہوں گے، ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے ہیں، عوام کا یہ سمندر قدرت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کو وزیراعظم ہاﺅس جا کرگرفتار کرلے، اب عوام کافیصلہ آ چکا ہے،حکومت کو جانا ہو گا، ہم اداروں کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، حکومت کو دو دن کی مہلت دیتے ہیں اور دو دن کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے، اور اس کے بعد صبر کا مظاہرہ نہیں کریں گے، ہم پر امن لوگ ہیں اور پرامن طریقے سے وزیراعظم استعفیٰ دے دے تو واپس چلے جائیں گے، آصف زرداری اور نواز شریف بھی میری بات سن رہے ہیں اور جس کو سنانا چاہتے ہیں انہوں نے بھی ہماری بات سن لی۔ فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت کو جانا ہی جانا ہے ،اداروں کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں، استقامت کے ساتھ جمع ہیں اور استعفیٰ کے مطالبے پر قائم ہیں جبکہ مطالبہ ہے کہ سانحہ تیز گام کی عدالتی تحقیقات ہوں، فضل الرحمان نے دھرنا مظاہرین کو دو دن تک اسلام آباد میں رہنے کی بھی ہدایت کی۔

لگتا ہے فضل الرحمن بھارتی شہری ہیں،عمران خان

گلگت (اے پی پی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پیسے اوراقتدار کے لئے اسلام کا نام لینے کا دور چلا گیا ہے، دھرنا دینے والے بے شک بیٹھ جائیں‘ کھانا ختم ہو گا وہ بھی بھجوا دیں گے لیکن کسی کو این آر او نہیں ملے گا،ان کا اسلام ڈیزل کے پرمٹ ‘کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ اور پیسے پر بک جاتا ہے، سارے بے روزگار اور سیاسی یتیم اکٹھے ہو گئے ہیں ان کا مقصد صرف اپنے آپ کو بچانا ہے، ان کو پتہ ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے انہیں جیلوں میں جانا ہے ، چوروں کی وجہ سے ملک اس حالت کو پہنچا ہوا ہے، بدعنوانی سے معاشرے اورممالک تباہ ہوجاتے ہیں، بدعنوانی کے خلاف 22 سال جدوجہد کی ہے، مولانا فضل الرحمن کے ہوتے ہوئے یہودی سازش کی ضرورت نہیں ہے ،ہندوستان کا میڈیا یہ سارے مناظر دکھا رہا ہے اور خوش ہو رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ فضل الرحمن پاکستانی نہیں بھارتی شہری ہے اور ہندوستان کے لئے کام کررہے ہیں، گلگت بلتستان کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے مسائل پر توجہ دی جائے گی،گلگت بلتستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے ۔جمعہ کو گلگت میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج جب ہم گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے ساتھ آزادی کا جشن منا رہے ہیں ایک مارچ اسلام آباد میں بھی ہو رہا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ کس سے آزادی لے رہے ہیں۔ اس مارچ میں پیپلزپارٹی والوں سے جب بات کریں گے تو وہ کہیں گے مہنگائی زیادہ ہے مارچ میں مسلم لیگ (ن) کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن ان کو معلوم نہیں ہے کہ وہ مارچ میں کیا کررہے ہیں۔ جے یو آئی والوں سے پوچھے تو وہ کہیں گے کہ یہودیوں نے قبضہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے ہوتے ہوئے یہودی سازش کی ضرورت نہیں ہے ہندوستان کا میڈیا یہ سارے مناظر دکھا رہا ہے اور خوش ہو رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ فضل الرحمن پاکستانی نہیں بھارتی شہری ہے اور ہندوستان کے لئے کام کررہے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ووٹ اور پیسے کے لئے اسلام کا نام استعمال کیا جاتا ہے اس طرز عمل سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔وہ لوگ جنہیں ابھی اسلام کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہے جب وہ مولانا فضل الرحمن کو دیکھتے ہیں تو اسلام سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ان کا اسلام ڈیزل کے پرمٹ ‘کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ اور پیسے پر بک جاتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ عوام باشعور ہو چکے ہیں یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ہمارے اور ان کے دھرنے کے مقاصد میں فرق ہے آج جو گلدستہ اکٹھا ہو گیا ہے اس میں بلوچستان سے اچکزئی صاحب بھی آئے ہیں جنہوں نے ساری عمر جے یو آئی کی مخالفت کی ہے۔اس میں بلاول بھٹو بھی موجود ہیں جو اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے۔ وہ لبرلی کرپٹ ہے لبرل ازم ان کے پاس سے نہیں گزری۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسلام وہ ہے جب آپ کا عمل مسلمانوں کی طرح ہو ‘ قرآن میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اسلام کی بات کرتے ہیں اور قیمت ضمیر کی لگاتے ہیں ‘ اقتدار کے لئے اسلام کا نام لینے کا دور چلا گیا ہے آپ بے شک بیٹھ جائیں‘ جب کھانا ختم ہو گا وہ بھی بھجوا دیں گے لیکن کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اصل بات یہ ہے بدعنوانی کے سارے کیسز ہمارے سامنے آچکے ہیں سب کو ڈر لگا ہوا ہے کہ ان کی باری آنی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے 10سالوں میں چار گنا زیادہ قرضہ اس پر چڑھایا۔60 برسوں میں پاکستان 6ہزار ارب ڈالر کا قرضہ تھا پچھلے 10 سالوں میں اسے 30 ہزار ارب تک پہنچایا گیا ‘ قوم یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے یہ قرضہ کہاں خرچ ہوا‘ جیسے جیسے وقت گزر رہا حکومت کو پتہ چل رہا ہے کہ پیسہ کدھر گیا ہے زیادہ تر پیسہ ان کی جیبوں میں چلا گیا ہے۔ان لوگوں نے ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ باہر بھیجا ان کے بچے ارب پتی ہوگئے ہیں۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے کے بیٹے ارب پتی ہیں جب ان سے حساب پوچھوں تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ سابق وزیر خزانہ کے والد کی سائیکل کی دکان تھی آج وہ اور ان کے بچے ارب پتی ہیں ‘ شہباز شریف کا بیٹا اور داماد ملک سے باہر ہیں۔اگر انہوں نے چوری نہیں کی تو یہ باہر کیوں بیٹھے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے 10ماہ سپریم کورٹ میں اپنے فلیٹ کا سارا حساب کتاب اور منی ٹریل بھی دی اس کے برعکس ان لوگوں نے آج تک کوئی ایسی مصدقہ دستاویز نہیں دی جس میں جعل سازی نہ ہو۔جب ان سے حساب مانگا جاتا ہے تو جمہوریت کو خطرہ ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ حکومتوں کے پہلے سال سب سے پہلے مہنگائی پیپلزپارٹی کے دور میں تھی اس کے بعد (ن) لیگ کے دور میں زیادہ مہنگائی ہوئی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے 22سال بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ میں دباﺅ میں آﺅں گا اور انہیں این آر او دے دو گا یہ ان کی بھول ہے۔ان چوروں نے ملک کو جو نقصان پہنچایا میری جدوجہد ان کے خلاف تھی میں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا اورملک کو بیروزگاری اور دیگر مسائل سے دوچار کیا انہیں جیلوں میں بھجوا دوں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بدعنوانی سے ملک اور معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں جو پیسہ صحت ‘ تعلیم ‘ سڑکوں کی بہتری اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر لگانا چاہئے وہ بدعنوانوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ قومیں تب اٹھتی ہیں جب انسانوں اور انسانی وسائل کی ترقی پر خرچ کیا جائے۔پیسہ اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ سارے مل کر چوری کریں اور پیسہ باہر بھیجیں ‘ جب پیسہ ملک سے غیر قانونی طریقے سے باہر جاتا ہے تو روپے کی قدر گر جاتی ہے اور مہنگائی آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے لئے سب سے پہلے اداروں کو تباہ کیا جاتا ہے کیونکہ اداروں کو تباہ کئے بغیر بدعنوانی ممکن نہیں ہوتی۔نائجیریا اور کانگو میں وسائل موجود ہیں لیکن کرپشن کی وجہ سے وہ بری طرح سے مسائل کا شکار ہیں ‘ اس کے برعکس سوئٹزر لینڈ میں وسائل نہیں لیکن ملک ترقی یافتہ ہے کیونکہ وہاں پر کرپشن نہیں ہے ‘ وزیراعظم نے کہا کہ سارے بے روزگار اور سیاسی یتیم اکٹھے ہو گئے ہیں ان کا مقصد صرف اپنے آپ کو بچانا ہے ان کو پتہ ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے انہیں جیلوں میں پہنچانا ہے۔ان چوروں کی وجہ سے ملک اس حالت کو پہنچا ہوا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ سال حکومت نے جتنا ٹیکس اکٹھا کیا ان کا آدھا حکومت نے ماضی میں لئے گئے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی پر خرچ کیا ۔اس صورت میں ہم تعلیم اور صحت پر کس طرح خرچ کرسکتے ہیں جب تک بدعنوانوں کو سزائیں نہیں ہوں گی ‘ مثال نہیں بنیں گے ‘ جیلوں میں نہیں جائیں گے تو ہم ترقی نہیں کرسکیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ ڈوگرہ راج سے آزادی کی خوشی کی تقریبات میں وہ ان کے ساتھ شریک ہیں یہاں کے بہادر‘ دلیر اور باشعور عوام نے ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور اس میں کامیاب ہو کر کامیابی حاصل کی۔ میں آزادی کی اس جنگ میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداءکو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ پہلی دفعہ 52 سال قبل گلگت بلتستان آئے اور وہ یہاں کے چپے چپے سے واقف ہیں۔پاکستان کا کوئی بھی سیاستدان گلگت بلتستان کو نہیں جانتا جتنا میں جانتا ہوں‘ میں یہاں کے مسائل سے بھی آگاہ ہوں ‘ مجھے پتہ ہے کہ سردیوں میں یہاں کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ماضی میں یہ علاقہ پیچھے رہ گیا تھا لیکن میں گلگت بلتستان کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے مسائل پر توجہ دی جائے گی۔ موجودہ حکومت گلگت بلتستان کے مسائل کے حل پر وہ توجہ دے گی جو ماضی کی حکومتوں نے نہیں دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اہم سیاحتی مقامات ہونے کے باوجود یہاں پر اس شعبہ میں جو ترقی ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہو سکی۔گلگت بلتستان رقبے کے لحاظ سے سوئٹزر لینڈ سے دو گناہ زیادہ ہے۔ سوئٹزر لینڈ سیاحت کے شعبہ میں جتنا ریونیو حاصل کرنا ہے وہ پاکستان کے بجٹ سے زیادہ ہے۔کیونکہ وہاں پر بنیادی ڈھانچہ اور سہولیات میسر ہیں ‘ وہاں پر سکینگ ریزاٹ ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے دنیا میں بیشتر ممالک دیکھے ہیں گلگت بلتستان میں جس طرح کی سکینگ ہو سکتی ہے دنیا کے کسی ملک میں اس سے بہتر جگہ نہیں ہے ہمارے پاس سہولتیں نہیں ہیں ‘ موجودہ حکومت اس حوالے سے پوری منصوبہ بندی کررہی ہیں۔باہر کے ممالک سے بھی بات چیت ہو رہی ہے۔تا کہ یہاں پر بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری ہو سکے اس کے ساتھ ساتھ خدمات کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے بھی کام کررہے ہیں تاکہ یہاں کے نوجوانوں کو مطلوبہ تعلیم اور مہارت کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکے۔بڑے بڑے ہوٹلوں کو یہاں پر سرمایہ کاری کے لئے لایا جارہا ہے اس سے علاقے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور یہاں کے نوجوانوں کو نوکری کے لئے باہر نہیں جانا پڑے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ آج ان کی گلگت بلتستان کی کابینہ سے ملاقات ہوئی ہے جن منصوبوں پر بات کی گئی ان میں سے بیشتر کے لئے فنڈز دے چکے ہیں یا دے رہے ہیں ۔ باقی منصوبوں کے لئے فنڈز کی فراہمی کے لئے ڈونررز تیار کریں گے انہوں نے کہا کہ سردیوں میں یہاں کے باسیوں کو بجلی کی فراہمی کو ممکن بنائیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ نجی شعبہ کی ایک کمپنی پھلوں کی پراسیسنگ پلانٹ لگا رہی ہے اس سے مقامی پھلوں کو زیادہ عرصے تک محفوظ بنایا جا سکے گا۔ پاکستان کی ترقی کے لئے حکومت اس علاقے کی ترقی کو ترجیح دے گی انہوں نے یوم آزادی پر گلگت بلتستان کے عوام کو مبارکباد دی اور ان کے لئے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے ڈوگر راج کے خلاف جنگ لڑی، مسلمان اللہ کے سوا کسی اورکے سامنے نہیں جھکتا، دس سال کے اندر دو سپر طاقتوں نے مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیکے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، ہمیں پاکستان کو مدینہ کی ریاست کے اصولوں کے مطابق بنانا ہے، جتنا ہم عدل و انصاف پر زوردیں گے اتنی ہی برکت ملک میں آئے گی۔عمران خان کا کہنا تھا کہ غیرت مند انسان اللہ کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کرتا، انشا اللہ یہی قوم دنیاکےسامنے ایک مثال بنےگی۔وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے کشمیریوں کے انسانی حقوق چھین لیے اور تین ماہ سے کرفیو لگایا ہوا ہے، کشمیریوں کیلئے پیغام ہے کہ دنیا بھر میں آپ کا سفیر بن کر جاں گا، اگر آپ لوگوں نے جنگ نہ لڑی ہوتی تو آپ بھی مودی کے ظلم کا شکار ہوتے، مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کو جانوروں کی طرح بند کرکے رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا مودی نے 5 اگست کو اپنی آخری پتا کھیل لیا،کرفیو اٹھے گا تو لوگوں کا سمندر آئے گا، میں کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑوں گا، ان کا وکیل بنوں گا اور اب کشمیر کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا

مولانا نے کس کی بات کی وضاحت کریں ،انتشار ملکی مفاد میں نہیں،میجر جنرل آصف غفور

راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جان لے کہ فوج غیر جانب دار ادارہ ہے سڑکوں پر آکر الزام تراشی کرنا اچھا فعل نہیں۔ ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ اپوزیشن جان لے کہ فوج غیر جانب دار ادارہ ہے، فوج نے الیکشن میں آئینی اور قانون ذمہ داری پوری کی، ولانا فضل الرحمان بتادیں کہ ان کا اشارہ کس ادارے کی طرف ہے، سڑکوں پر آکر الزام تراشی کرنا اچھا فعل نہیں۔ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان سینئر سیاست دان ہیں، حکومتی اور اپوزیشن کمیٹیاں بہتر طریقے سے کام کر رہی ہیں، پاکستان نے پچھلے 20 سال میں بہت مشکل وقت گزارا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے۔ الیکشن کے دوران بطور ادارہ آئینی ذمہ داری پوری کی۔ حکومتی اور اپوزیشن کمیٹیاں بہتر کوآرڈینیشن کے طور پر چل رہی ہے۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر انتشار ہوتا ہے تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں۔ اس وقت ملک کسی فساد کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور کا کہا تھا کہ فضل الرحمن سینئر سیاستدان ہیں، مولانا بتا دیں کہ وہ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں، مولانا کا مخاطب الیکشن کمیشن ہے، عدالت یا فوج؟ مولانا کو وضاحت کرنا ہو گی کہ وہ کس ادارے کی بات کر رہے ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے۔ پاک فوج کی حمایت جمہوری طور پر منتخب حکومت کیساتھ ہوتی ہے۔ جمہوری مسائل جمہوری طریقے سے ہی حل ہونا چاہئیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملکی استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، امید کرتے ہیں معاملات بہتر انداز میں آگے چلیں گے۔ پاکستان نے گزشتہ 20 سال میں بہت مشکل وقت گزارا ہے، جان و مال کی قربانی دے کر ملک میں امن قائم کیا گیا ہے۔ کے پی کے کی عوام کو فلاح و بہبود کی ضرورت ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ مشرقی اور مغربی سرحد پر فوج مصروف ہے۔ بھارت نے جارحیت کی تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ایل او سی پر دشمن معصوم کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کشیدگی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور ظلم جاری ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان قوم اور افواج نے دہشتگردی کا مقابلہ کیا، جانیں دے کر امن حاصل کیا گیا۔الیکشن کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے الیکشن کے دوران پاک فوج نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی۔ ایک سال گزر گیا اپوزیشن اب بھی متعلقہ اداروں میں جا سکتی ہے۔

سیاستدان اعتدال کا راستہ اپنائیں ،اتنا آگے نہ بڑھیں واپسی مشکل ہو،مجیب الرحمن شامی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف صحافی وتجزیہ نگار،روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹرانچیف مجیب الرحمن شامی کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی قارئین کی دلچسپی کے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد: تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر دیں گے۔ ملک میں کرپشن کا خاتمہ کریں گے تا کہ بیرونی سرمایہ کاری بڑھے۔ لیکن اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ مہنگائی بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں عمران خان کو اچھی ٹیم نہیں مل سکی یا ترجیحات درست نہیں۔ اب عمران خان نے یقین دلایا ہے کہ حالات 4,3 ماہ میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس بات پر یقین کر لیا جائے۔
مجیب الرحمن شامی: ہر حکومت جو آتی ہے دعوﺅں کے ساتھ ااتی ہے جب حقائق سامنے آتے ہیں تو اس کے دعوے دھرے رہ جاتے ہیں۔ عمران خان نے بھی تب دعوے کئے تھے ابھی تک ان کے دعوﺅں کے مطابق حالات نہیں سدھرے۔ کوشش کر رہے ہیں بعض دورس حالات بھی نافذ ہو رہی ہیں اور اکانومی کو سنبھالنے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں مگر ابھی تک حالات ایسے ہیں جیسے ”نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“ ایک سال گزرا ہے ہمیں تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ اور دیکھنا پڑے گا کہ حکومت آگے جا کر کیا کرتی ہے اور جو کچھ اقدامات وہ ریونیو کے اضافے، برآمدات بڑھانے، درآمدات کم کرنے کے لئے، کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کم کرنے کا، اور وہ کیسے ہوتے۔ ان میں سے کچھ معاملات میں تو پیش رفت ہو رہی ہے۔یکسر یہ کہہ سکتے کہ معاملہ خراب ہے۔ ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ 90 فیصد اہداف حاصل کر لئے ہیں۔
سوال:گزشتہ حکومت میں بہت قرضے لئے گئے۔ عمران خان نے اپنے کنٹینر سے ان پر بڑی تنقید بھی کی۔ آج لوگ پوچھتے ہیں جس حکومت نے قرضے لئے ہوئے تھے۔ بقول عمران خان نے بڑی فضول خرچی کی ہوئی تھی اس کے دور میں تو مہنگائی اتنی نہیں بڑھی ور ڈالر ریٹ بھی قابو میں رہا۔ اسحق ڈار کے پاس کیا راز تھا کہ وہ ڈالر سیٹ کو نیچے رکھنے میں کامیاب رہے۔
جواب: وہ ڈالر ریٹ میں کامیاب ہوئے اس پر تنقید بھی ہوتی ہے وہ سٹیٹ بنک کو مداخلت کرنی پڑتی تھی اور جب ڈالر کی قیمت بڑھتی تھی تو سٹیٹ بنک ڈالر مارکیٹ میں پھینکتا تھا اس سے وہ قیمت کم ہو جاتی تھی۔ اسحق ڈار صاحب جو فلسفہ تھا وہ یہ تھا کہ ڈالر کی جب قدر بڑھے گا اور روپیہ کی کم ہو گی تو پاکستان کے بوجھ میں اضافہ ہو جائے گا۔ کیونکہ پاکستان میں بہت سی چیزیں درآمد ہوتی ہیں جو ایکسپورٹ اورینٹڈ انڈسٹری ہے اس میں بھی بہت کچھ درآمد کرنا پڑتا ہے درآمد کا بوجھ بھی بڑھے گا اور جو قرضے لئے ہیں ڈالرز میں ان کے واپسی بھی ڈالرز میں ہونی ہے ان کا بوجھ بھی بڑھے گا اس لئے ان کا فلسفہ یہ تھا کہ اگر مارکیٹ میں روپے کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ خسارے کا سودا ہے اور ڈالر پھینکتا جو ہے وہ خسارے کا سودا نہیں ہے نسبتاً تو انہوں نے اس طریقے سے ڈالر کو قابو میں رکھا۔ لیکن معاشی ماہرین کا ایک اور گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ڈالر کو مضبوط طریقے سے روپے کے مقابلے میں اس کی قدر کو متعین رکھنا جو ہے وہ بالآخر نقصان ہوتا ہے اس سے برآمدات بڑھتی ہیں اور برآمدات کا خسارہ ہوتا ہے۔ یہ دو فلسفے ہیں لیکن اسحق ڈار کر رہے تھے ہمارا گروتھ ریٹ وہ 5.75 کے لگ بھگ تھا اس سے بازاروں میں چہل پہل تھی اور ہر چیز چلتی نظر آتی تھی افراط زر کم تھا لوگوں کو کام مل رہے تھے جاب مارکیٹ میں بڑی مانگ تھی اس لئے اس لحاظ سے اکانومی کا آگے چل رہا تھا اب جو موجودہ حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں اس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھی ہے ان فلیشن زیادہ ہوتی ہے۔ انٹرسٹ ریٹ بڑھا ہے اور پھر انہوں نے آپ کی جو ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی کوشش کی ہے جو تاجروں، بزنس مینوں پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں اس کے نتیجے میں کساد بازاری آئی ہے اور جو انٹرسٹ ریٹ برھنے کی وجہ سے مارکیٹ میں جو ہے مندا ہوا ہے۔ مہنگائی بیروزگاری بڑھ گئی ہے اورلوگ چیخ رہے ہیں۔ قرضہ لینا کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ آپ کے پاس اپنے وسائل نہ ہوں تو ترقی کے لئے آپ کو بیرونی وسائل پر انحصار کرنا پڑتا ہے جیسے ہمارے ہاں کئی انڈسٹریز لگتی ہیں وہ بینکوں سے قرضے لیتی ہیں۔ چھوٹی کیپسٹی ان کی اپنی ہوتی ہے اور وہ کمپنیز اپنی انڈسٹری لگا کر قرضے واپس کرتی ہیں۔ اس طرح ملکوں کا معاملہ ہے۔ اگر قرض آپ پیداواری مقاصد کے لئے لے رہے ہیں پھر تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ آپ کی قرض واپسی کی کیپسٹی بڑپتی ہے۔ نوازشریف دور میں قرضے لئے گئے ان میں انفراسٹرکچر ڈویلپ ہوا ان میں بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگے اور کئی ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی گئی پاکستان کی تاریخ میں کبھی 4,3 سال کے اندر اتنی مقدار میں بجلی پیدا نہیں کی جا سکی گو جو توانائی کا بحران تھا اس پر قابو پایا گیا اور جو انفراسٹرکچر ہے سڑکوں کی تعمیر، مٹر وے کی تعمیر، گوادر کی تعمیر کی طرف پھر سی پیک کی تعمیر اس پر اس کی وجہ سے جو قرضے بڑھے ہیں ملکی معیشت پر بوجھ نہیں پڑا بلکہ نئے امکانات پیدا کئے ہیں اور وہ مومینٹم برقرار رہتا ہم اپنے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے اس کی طرف زیادہ توجہ دے سکتے تھے اور اس پر قابو پا سکتے تھے۔ کیونکہ وہ مومینٹم ٹوٹ گیا اس کی وجہ سے ہمیں بہت سی مشکلات درپیش ہوئیں اور مشکلات کا نتیجہ ہے جو آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔
سوال: وزیراعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ ایک سال جو مشکل کا تھا وہ گزر گیا اب بہتری آنے والی ہے۔ چار سے 6 مہینے میں معاشی خوشحالی نظر آنے لگے گی۔ آپ یقین کرتے ہیں۔
جواب: سیاسی رہنما خواب بیچتے ہیں، خوابوں کی تجارت کا نام ہی سیاست ہے، اگر سیاست دان امید نہ بندھائیں اور توقع اور ڈھارس نہ بندھائیں تو پھر معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں عمران خان اچھے سیاستدان ہیں کہ وہ لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق برقرار رہتا ہے اور ان کو خواب بھی دکھاتے رہتے ہیں چند ماہ بیشتر بہت بڑے پیمانے پر گیس اور تیل کے ذخائر برآمد ہونے کا خواب دکھایا تھا اور کئی مہینے تک ہم اس میں سرشار رہے کہ بہت بڑی مقدار میں گیس کے ذخائر پاکستان میں دریافت ہونے والے ہیں پھر آپ نے دیکھا کہ وہ توقع پوری نہیں ہوئی اب ظاہر ہے کہ یہ ان کا کام ہے اگر وہ لوگوں کو پراُمید نہیں رکھیں گے تو پھر معاملہ نہیں چل سکتا۔ اب اگر وہ کہہ رہے کہ جو نیا ٹارگٹ دیا ہے۔ انہوں نے اس میں شبہ نہیں کہ بعض معاملات میں بہتری آئی ہے ہماری درآمدات کم، برآمدات بڑھنے کی امید بندھی ہے۔ ہم مشکل سے ڈیفیٹ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا ریونیو ٹارگٹ جو ہے وہ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں دُعا کرنی چاہئے کہ یہ اُمید پوری ہو اور آئندہ آنے والے دن گزرے دنوں سے بہتر ہوں لیکن رپورٹیں آ رہی ہیں جو ورلڈ بینک کہہ رہا ہے جو عالمی ادارے کہہ رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں پاکستان میں مشکلات جو ہیں وہ دو سال تک جاری رہیں گی اور لوگ سکھ کا سانس نہیں لے سکیں گے لیکن اگر ہم دو سال کے بعد بھی اپنی معیشت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اور ٹیکس وصولی کا نظام بہتر بنا لیتے ہیں اور ہر آمدن والے شحص سے اس سے اس کا حصہ وصول کر لیتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہم ایک اچھی بنیاد رکھ سکیں گے۔
سوال: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں وزراءاعلیٰ جو ہیں وہ عمران خان نے اپنی مرضی سے لگائے ہیں لیکن نہ تو مہنگائی کنٹرول میں آ رہی ہے نہ ڈینگی کنٹرول میں ہے نہ تاجر مطمئن ہیں، نہ ڈاکٹر مطمئن ہیں، مختلف طبقات پریشان ہیں۔ کیا یہ صوبائی حکومتوں کا دائرہ کار نہیں ہوتا کہ وہ گڈ گورننس لائیں اورکیا آپ کے خیال میں پنجاب اور کے پی کے میں جس طرح سے عمران خان کہا کرتے تھے کہ کے پی کے کی حکومت بڑی آئیڈیل ہے وہاں پولیس اصلاحات کی ہوئی ہیں لیکن اب اتنا وقت گزرنے کے باوجود پنجاب میں پولیس اصلاحات نظر آئی ہیں، بلدیاتی ادارے بھی نہیں بن رہے۔ جس کی وجہ سے گراس روٹ تک عوام تک ڈیموکریسی نہیں پہنچ رہی۔ کیا ایک سوا سال گزر چکا ہے کیا یہ صورت حال ایسے رہی گی یا بہتر ہو جائے گی۔
جواب: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی گورننس کے مسائل ہیں اگرچہ سندھ میں ی ٹی آئی کی حکومت پنجاب ہے لیکن گورننس کے اعتبار سے وہ سب سے پیچھے ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جو ہیں جام کمال نئے تجربے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب میں ایک مخلوط حکومت ہے پی ٹی آئی کی اکثریت نہیں ہے وہ آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ ق کو ملا کر حکومت بنی ہے۔ ان کی پارٹی کے اندر جو لوگ وزارت اعلیٰ کے بڑے اہل سمجھے جاتے تھے وہ سارے کسی نہ کسی مقدمے میں الجھ گئے ہیں کچھ ایسی چیز ہوئی کہ ان کی سلیٹ کلین نہیں رہی اس لئے جو پی ٹی آئی کے اندر دھڑے ہیں بعض اوقات ان کا توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کسی ایسے شحص کو آگے لایا جاتا ہے جو دھڑے بندی میں ملوث نہ ہو اور وہ سارے لوگوں کو یکساں ڈیل کر سکے۔ عثمان بزدار کو عمران خان کو اس لئے چنا ہے کہ ان کا اپنا کوئی دھڑا نہیں ہے ان کی اپنی کوئی فالونگ نہیں ہے اس پر پارٹی کی لیڈر شپ پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کی طاقت سے ان کی طاقت بنتی ہے یہ مثبت بھی اور منفی نقطہ بھی ہے کہ جب وسائل کم ہوں گے میگا پراجیکٹس شروع ہو چکے ہوں ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو تو پھراس کی مشکلات بھی ہوتی ہیں جب گورننس کا تجربہ نہ ہو پھر چیزوں سے ڈیل کرنا پڑے تو اس کی مشکلات بھی ہوتی ہیں۔ ابھی جو مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ ہے جس طریقے سے وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت نے ڈیل کیا ہے یعنی اس سے بات چیت کر کے اس کو ایک سپیس دی گئی اور اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ مارچ کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہوا۔ درمیان میں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہے تو اس کا کریڈٹ پنجاب حکومت کو اس کا کریڈٹ دیا جائے اور وفاقی حکومت کو بھی دیا جانا چاہئے۔ خود آزادی مارچ کے شرکاءکو بھی دیا جانا چاہئے۔ آج سے پہلے ہم دیکھتے تھے کہ جب اپوزیشن کوئی جلوس نکالتی تھی یا احتجاج کرتی تھی تو انتظامیہ حرکت میں آ جاتی تھی تصادم کی نوبت آتی تھی کسی نہ کسی کی جان جاتی تھی۔ آمد و رفت میں خلل پڑتا اور دفتر بند ہوجاتے، سکول بند ہو جاتے تھے ایسا کوئی منظر ہم نے نہیں دیکھا۔ پنجاب حکومت ایسے حالات میں ڈیل کرنے کا تجربہ حاصل کر رہی ہے آنے والے دنوں میں دیکھنا پڑے گا اور ثبوت دینا پڑے گا ہو سکتا ہے کہ انہیں چیزوں کو بہتر کرنے میں کامیابی ہو جائے۔
سوال: سینئر صحافی ارشاد عارف کہتے ہیں کہ آزادی مارچ ملکی ایجنڈا نہیں بلکہ اازادی کشمیر کی مہم کو دبانے کی کوشش ہے، مولانا فضل الرحمان کیا مطالبات پیش کریں گے؟
جواب: کاش حکومت و اپوزیشن میں خلیج نہ ہوتی تو ان کی ساری توجہ کشمیر ایشو پر ہوتی، میں نے تجویز دی تھی کہ پاکستان کی سیاست کو 6 ماہ یا سال کیلئے پس پشت ڈالا جائے اور صرف کشمیر ایشو پر توجہ دی جائے لیکن کسی نے بات نہ سنی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کیلئے اپوزیشن کے گرفتار رہنماﺅں کو پروڈکشن آرڈرجاری کر دیتے تو بھی فضا بہتر ہوتی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی صرف اپوزیشن کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا حکومت کا لہجہ بھی نہیں بدلا۔ اب پانچ کروڑ کے الزام پر جیل میں سی کلاس میں رکھنے کی خبر آئی ہے، مطلب صرف یہ ہے کہ اپوزیشن رہنماﺅں کو سی کلاس میں رکھنا مقصود ہے۔ مولانا اور دیگر تمام اپوزیشن رہنما محب وطن ہیں، الزامات کی سیاست ہو رہی ہے، الزام کی صحافت کا قائل نہیں ہوں نہ الزام لگاتا ہوں نہ یقین رکھتا ہوں اُمید ہے کہ مولانا قانون کے دائرے میں رہ کر ہی مطالبات اور احتجاج کریں گے، جو قانون ہاتھ میں لے گا اس کے ہاتھ جلیں گے آنے والا وقت بتائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے اور بالآخر کیا ہو گا۔
سوال: عمران خان نے نواز حکومت کیخلاف دھرنا دیا، وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اس وقت ماہرین کہتے تھے کہ ایسے حکومت نہیں گرائی جا سکتی۔ کیا لوگوں کا مجمع اکٹھا کر کے یا الزام دے کر حکومت وقت سے استعفیٰ لیا جا سکتا ہے؟
جواب: عمران خان کے دھرنے اور وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کی میں نے بھرپور مخالفت کی تھی کہ ایسے حکومت گرنی چاہئے نہ بننی چاہئے۔ آج بھی تائید نہیں کی جا سکتی کہ جلسہ یا دھرنا دے کر حکومت ختم کر دی جائے۔ حکومت کے رخصت کرنے کا آئین میں طریقہ موجود ہے، تحریک عدم اعتماد لائی جائے یا عمران خان اپنی مرضی سے مستعفی ہوں، کوئی بھی وزیراعظم کو زبردستی استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا تاہم استعفیٰ یا الیکشن کا مطالبہ ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون ضابطے کے تحت کوئی بھی احتجاج یا دھرنا دے سکتا ہے تاہم کوئی کتنے بھی خوشنما الفاظ استعمال کر لے اگر دستور کی مخالفت ہو رہی ہے تو ہمیں مزاحمت کرنا ہو گی۔ حکومت سے مطالبات کرنا غیر قانونی نہیں بازار راستے بند کرنا، لوگوں کو گھروں میں محصور کر دینا اور نظام زندگی میں خلل ڈالنا غیر قانونی ہے۔ عمران خان بھی دھن کے پکے ہیں ان کا مستعفی ہونے کا ارادہ نہیں لگتا، کوئی بھی اس طرح سے ان کے استعفے کی تائید بھی نہیں کر سکتا۔
سوال: نوازشریف کے پلیٹ لیٹس میں کمی پیشی کا مسئلہ ہے، ڈاکٹرز نے بیرون ملک علاج تجویز کیا ہے میرے نزدیک انہیں علاج کیلئے بھیجنے میں کوئی ہرج نہیں آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: ڈاکٹرز سمجھتے ہیں تو نوامشریف کا علاج یہاں ممکن نہیں تو باہر بھیج دینا چاہئے نوازشریف سمجھتے ہیں کہ انہیں بیرون ملک بہتر علاج کی سہولت مل سکتی ہے تو وہ خود بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں اس بارے ہماری رائے کا وزن نہیں ہے۔
سوال: پچھلے ادوار میں مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ سب کی رائے ایک رہی، وزیراعظم عمران خان نے یو این میں جو تقریر کی اسے سراہا گیا تاہم پی پی اور ن لیگ نے پسند نہ کی۔ کشمیر کے ایشو پر تو ہم سب کو ایک ہونا چاہئے، مولانا تو خود 10 سال کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں انہیں تو اس معاملہ پر مختلف اور جداگانہ رائے نہیں رکھنی چاہئے مولانا یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان تو مہرہ ہیں ان کا ٹارگٹ تو اصل قوت کو پکڑنا ہے کیا ان کا اشارہ فوج یا اس کی قیادت کی طرف ہے؟
جواب: مولانا فضل الرحمان عمران خان کو مہرہ قرار دیتے ہیں بلاول بھٹو و دیگر اپوزیشن رہنما بھی ایسی ہی بات کرتے ہیں۔ ہم ایسی گفتگو کر سکتے ہیں نہ اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ سیاست میں اعتدال ہونا چاہئے اتنا آگے نہیں بڑھنا چاہئے کہ واپسی کا راستہ بھی نہ رہے۔ نواز دور میں واجپائی آئے تھے تو اپوزیشن نے گورنر ہاﺅس سے شاہی قلعہ تک جانا دشوار بنا دیا، نریندر مودی نوازشریف سے ملنے آئے تو نعرہ لگایا گیا کہ ”مودی کا جو یار ہے غدار ہے“ حتیٰ کہ بلاول بھٹو نے بھی یہ نعرہ لگایا۔ سیاسی رہنماﺅں کو یہ اختیار کردہ چلن تبدیل کرنا ہو گا اس پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ بھارت کے ساتھ معاملات اور کشمیر کے معاملہ پر سب کو قومی پالیسی سے منسلک رہنا چاہئے۔ عمران خان کی یو این میں تقریر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں پسند کیا گیا۔ مسئلہ کشمیر کا حل حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ ادھر کشمیر کی آزادی تحریک چل رہی ہے اور ادھر ہم آزادی مارچ چلا رہے ہیں اتہم اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی حکومت کو نیب کو ہدایت کرنی چاہئے کہ بیس پچیس سال پرانے مقدمات کو کھول کر ان پر گرفتاریاں نہ کرے، کسی حالیہ موجودہ حالات میں واردات ہو تو ایسے اقدام کا جواز بنتا ہے تاہم اس کا کوئی جواز نہیں کہ کسی لیڈر کو اتنے پرانے مقدمے میں گرفتار کیا جائے۔ نیب نے نوازشریف کیخلاف بھی پرانا مقدمہ کھول کر گرفتاری کی اور تفتیش کا ڈھونگ رچایا، اسی حراست کے دوران نوازشریف کے پلیٹ لٹس نیچے آئے اور حالت خراب ہو گئی ایسے رویے اچھے نہیں ہیں۔ اگر بزنس مین اور صنعتکاروں کو ریلیف دینے کیلئے اگر کمیٹی بنائی جا سکتی ہے۔ چیئرمین نیب انہیں یقین دلا سکتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی تو ایسا ہی سلوک سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ کیوں نہیں کیا جاتا کیا وہ سوتیلے ہیں۔ جس طرح کے مقدمات بنائے گئے ہر شحص سمجھتا ہے کہ مضحکہ خیز ہیں ان میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور پی ایس او کے سابق ایم ڈی پر مقدمہ ہے یہ سب تکنیکی اہمیت کے مقدمات ہیں بیوروکریٹساس لئے کام نہیں کر رہے۔ نیب کو کرپشن کا پیچھا کرنا چاہئے اداروں میں بے ضابطگی کو کرپشن نہیں سمجھنا چاہئے۔

ٹیلر سوئفٹ مائیکل جیکسن کا ریکارڈ توڑنے کو تیار

ٹیلر سوئفٹ کا شمار صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بہترین گلوکارہ کے طور پر کیا جاتا ہے۔اور گلوکارہ کے اسیی ٹیلنٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں اگلے ماہ منعقد ہونے والے امریکی میوزک ایوارڈز میں آرٹسٹ آف دی ڈیکیڈ (دہائی کی بہترین فنکارہ) کا ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔اے پی کی رپورٹس کے مطابق ایوارڈز انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ ٹیلر سوئفٹ کو نومبر میں اے بی سی چینل کی لائیو ٹیلی کاسٹ کے دوران یہ اعزاز دیا جائے گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اعزاز کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلر سوئفٹ مشہور زمانہ پاپ گلوکار مائیکل جیکسن کا ریکارڈ بھی توڑ دیں گی۔

ذہنی مسائل کے سبب میکسویل کا کچھ عرصے تک کرکٹ سے دور رہنے کا اعلان

جارح مزاج آسٹریلین آل راؤنڈر گلین میکس ویل نے پاکستان کے خلاف ٹی20 سیریز سے چند دن قبل اپنے ذہنی مسائل کے سبب غیرمعینہ مدت تک کے لیے کرکٹ سے دور رہنے کا اعلان کردیا۔

میکسویل نے حال ہی میں سری لنکا کے خلاف دو ٹی20 میچوں میں شرکت کی تھی اور ایڈیلیڈ میں کھیلے گئے میچ میں جارحانہ نصف سنچری بھی اسکور کی تھی لیکن اب انہوں نے کرکٹ سے کچھ عرصہ تک دور رہنے کا اعلان کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: آسٹریلین وزیر اعظم میچ کے دوران ‘واٹر بوائے’ بن گئے

سری لنکا کے خلاف ٹی20 سیریز کے تیسرے میچ کے لیے ڈی آر سی شارٹ کو آسٹریلین اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا ہے اور ممکنہ طور پر پاکستان کے خلاف ٹی20 سیریز میں بھی وہ ہی میکسویل کی جگہ لیں گے۔

آسٹریلین ٹیم کے ہیڈ کوچ جسٹن لینگر نے میکسویل کی کچھ عرصے تک کرکٹ کی سرگرمیوں سے علیحدگی اختیار کرنے کے معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 31سالہ جارح مزاج بلے باز کچھ عرصے سے صحیح معلوم نہیں ہو رہے تھے اور یہ واضح تھا کہ سب کچھ درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ایڈیلیڈ میں سری لنکا کے خلاف پہلے ٹی20 میچ سے قبل میکسویل سے خود بات کی اور ان سے مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے مجھے دیانت داری کے ساتھ مسئلے سے آگاہ کردیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وارنر کی ٹی ٹوئنٹی میں شان دار واپسی، سری لنکا کو آسٹریلیا سے شکست

جسٹن لینگر نے کہا کہ میکسویل نے ایڈیلیڈ میں شاندار بیٹنگ کی جس کے لیے وہ شہرت رکھتے ہیں اور فیلڈنگ میں بھی وہ بہت متحرک نظر آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے کھ

پاکستان میں ‘مقامی آلودگی’ اسموگ کی وجہ ہے، ماہرین

لاہور : ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کا ذریعہ بننے والی وجوہات مقامی ہیں جس کے نتیجے میں اسموگ پھیلتی ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہورمیں فضائی آلودگی کے انڈیکس میں بدترین معیار کی فضا کی حد(اے کیو آئی) 550 سے تجاوز کرنے کے باعث ماحولیاتی ماہرین اور کارکنوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔لاہور میں نصب کچھ آلات کے مطابق گلبرگ میں 600 اے کیو آئی ریکارڈ کی گئی جبکہ فضائی آلودگی کے انڈیکس میں بدترین معیار کی فضا کی حد 300-250ہے جس میں دل اور پھیپڑوں کے امراض کا شکار افراد، بچوں، بوڑھوں کو گھر سے باہر نکل کر کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی سے پرہیز کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

ماحولیاتی پالیسی کے ماہر عمران خالد نے کہا کہ سرد موسم (خزاں اور سرد) میں گرم ہوا، ٹھنڈی ہوا کو آگے نہیں بڑھنے نہیں دیتی جس کے نتیجے میں اسموگ واضح ہوجاتی ہے جو کہ لاہور اور یہاں تک کے اسلام آباد میں بھی نظر آتی ہے۔

حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کردیا

 اسلام آباد: وزارت خزانہ نے ماہ نومبر کے لئے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں ایک روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 27 پیسے  کا اضافہ کردیا۔ایکسپریس نیوز کے مطابق  اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات میں ردو بدل کی سمری وزارت پٹرولیم کو بھجوائی تھی، جس میں پیٹرول ایک روپیہ فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 27 پیسے مہنگا کرنے جب کہ لائٹ ڈیزل 6.56 روپے اور مٹی کا تیل 2.39 روپے سستا کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔وزارت خزانہ نے ماہ نومبر کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا نو ٹیفکیشن جاری کردیا ہے جس کے تحت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں ایک روپے اور  ہائی اسپیڈ ڈیزل 27 پیسے مہنگا جب کہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 6 روپے 56  پیسے اور مٹی کے تیل کے قیمت میں 2 روپے 39 پیسے فی لیٹر کمی کردی گئی ہے۔ نئی قیمتوں کا اطلاق یکم نومبر سے ہوگا۔

توہین عدالت کیس میں فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول

 اسلام آباد: عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر فردوس عاشق اعوان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی جس کو عدالت نے قبول کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان روسٹرم پر آئیں تو چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ آپ بڑی پوزیشن پر ہیں وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، آپ نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے زیر سماعت مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، میرے بارے میں جو کچھ کہیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں، میری ذات کے حوالے سے جو کچھ کہاجاتا ہے میں پروا نہیں کرتا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ حکومت کی ترجمان بھی ہیں اور اہم ذمہ داری آپ کے پاس ہے، ہم نے حلف لیا ہوا ہے، حکومت کی عزت کرتے ہیں لیکن پریس کانفرنس نہیں کرسکتے، کبھی کوئی کہتا ہے ڈیل ہوگئی ہے آپ حکومت ہیں ذمہ داری دکھائیں جب کہ میں توقع کرتا ہوں کہ جو کچھ آپ نے کہا وہ وزیراعظم نے آپ کو نہیں کہا ہوگا۔فردوس عاشق اعوان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ شکرگزار ہوں کہ آپ نے کچھ باتوں کی نشاندہی کی، میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ میرے الفاظ سے عدلیہ کی توقیر میں کمی ہو، میں آپ کی ذات کو اچھی طرح جانتی ہوں جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ میری ذات پر نہ جائیں جو مسئلہ ہے اس پربات کریں، فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میرے کہنے سے عدلیہ کی توہین ہوئی تو معذرت چاہتی ہوں تاہم کبھی بھی جان بوجھ کرعدلیہ مخالف بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔