All posts by Daily Khabrain

ہماری بدقسمت تاریخ

اسرار ایوب
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر ایئر مارشل اصغر خان صاحب(مرحوم) کا ایک انٹرویو یاد آگیا، اُن سے پوچھا گیا کہ آپ اتنے بااصول اور سچے ہیں تو سیاست میں مقبول کیوں نہیں ہوئے؟جواب میں اصغرخان صاحب نے یہ دلچسپ سوال کیا کہ میں مقبول نہیں ہوا تو کون ہوا، ”بابائے قوم“ جنہیں شدید علالت کی حالت میں کراچی لایا گیا تو ایئر پورٹ پر ایک ایسی ایمبولنس بھیجی گئی جو راستے میں ہی خراب ہو گئی، یا لیاقت علی خان جنہیں عین جلسے میں قتل کر دیا گیا اور قاتل تاحال نہیں مل سکا، یا”قائدِ ملت“ کے بعد6برس میں تبدیل کئے گئے6وزرائے اعظم جن میں حسین شہید سہروردی جیسی ہستی بھی شامل تھی،یا”مادرِ ملت“جن کے بارے کیا کچھ نہیں کہا گیا،یا ایوب خان جنہیں اتنا بے عزت کیا گیا کہ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، یا ذولفقار علی بھٹو جن کی لاش تک نہیں ملی، یا ضیاالحق جن کوبم دھماکے میں اڑا دیا گیا؟
ایئر مارشل صاحب کے انٹرویو تک یہی سب لوگ مقبول ہوئے تھے سو انہوں نے انہی مثالوں پر اکتفا کیا لیکن کون نہیں جانتا کہ مقبولیت کا یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری و ساری رہا، پروزیر مشرف پر غداری کا کیس چلا اور وہ بیرونِ ملک چلے گئے، بے نظیر بھٹو کو سرِعام قتل کر دیا گیا اور ان کا قاتل پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت میں بھی نہیں پکڑا جا سکا۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے حالات بھی سب کے سامنے ہے، اور عمران خان کاجو حال ہو رہا ہے وہ بھی سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں؟ قصہ مختصرکوئی اچھا تھا یا بُرا ہم نے کسی کو بھی نہیں چھوڑاکہ یہی ہمارا قومی وطیرہ ہے۔
بچپن کے دنوں میں ہماری اردو کی کتاب میں ”محسنِ پاکستان“کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہوا کرتا تھا جس کے ذریعے ہمیں پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے قومی ہیرو ہیں تو ہم اسی تصور کے ساتھ بڑے ہوئے لیکن پھر جنرل مشرف کی حکومت آ گئی اور ہمیں یہ باور کرایا جانے لگا کہ ہمارے بچپن کا یہ سبق حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کو بطورِ مجرم امریکہ کے حوالے کئے جانے کی باتیں تک منظرِ عام پر آنے لگیں جن پرڈاکٹر صاحب تادمِ مرگ رنجیدہ رہے۔توکیا وہ بچے قومی ہیرو بننے کا تصوربھی ذہن میں لا سکتے ہیں جنہوں نے ”محسنِ پاکستان“کو اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا؟یہی نہیں بلکہ وہ اس بات کے بھی چشم دید گواہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ میں کون آیا اور کون نہیں آیا؟بالفرضِ محال ڈاکٹر صاحب ”محسنِ پاکستان“نہیں بھی تھے تو بھی حکمرانوں کو کم از کم اس سبق کی لاج تو رکھ لینی چاہیے تھی جوہمیں سکولوں میں پڑھایا جاتا رہا۔
مشہور شاعر،فلسفی اور مصورجبران خلیل جبران(1883-1931)نے اپنی ایک نظم(Pity the Nation)میں ایک”شرمناک قوم“کے متعلق کہا تھا کہ وہ عقائد سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہوتی ہے،وہ کپڑا پہنتی ہے جو خود نہیں بُنتی،وہ روٹی کھاتی ہے جو اس کے اپنے کھیتوں میں نہیں اُگتی، غنڈوں کو ہیرو قرار دیتی ہے اور ہر غالب آنے والے کو جھولی بھر بھر کے درازیء عمر کی دعا ئیں دیتی ہے،اس کی آوازجنازوں اورماتمی جلوسوں کے سوا کہیں بلند نہیں ہوتی، اپنے کھنڈرات پر ناز کرتی ہے، اس وقت تک بغاوت پر آمادہ نہیں ہوتی جب تک موت کے منہ میں نہ پہنچ جائے۔اس کے سیاست دان اور سفارت کار لومڑ اور فلسفی مداری ہوتے ہیں،تخلیق سے عارعی ہوتی ہے اور اس کا ہُنر نقالی ہوتا ہے،ہر حکمران کا استقبال خوشی کے نقارے بجاکر کرتی ہے اور آوازے کَس کَس کے اسے رخصت کرتی ہے تاکہ اس کے بعد والے کو بھی شادیانوں کے ساتھ خوش آمدید کہہ کر گالیوں کے ساتھ گڈبائے کہہ سکے۔ قومی یکجہتی سے دور ہو کر اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہوتی ہے کہ ہر ٹکڑا خود کو ایک الگ قوم تصور کرنے لگ جاتاہے۔
جبران نے جو کہا اسے پاکستانی قوم کے حالات کو سامنے رکھ کر ایک مرتبہ پھرپڑھیے اور سوچیے کہ کیا اُس نے ہمارا ہی نوحہ نہیں لکھا؟پاکستان کا ماحول اول تو ایسا ہے ہی نہیں کہ یہاں فی الواقعہ کوئی ہیرو پیدا ہوکہ یہ معاشرہ نااہلی اور کرپشن کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بالفرضِ محال کوئی ہیرو پیدا ہو بھی جائے تو ہم اُس پر یوں کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں جیسے کوئی قومی فریضہ انجام دے رہے ہوں۔
یاد رکھیے کہ کسی قوم کی تاریخ دراصل اُن لوگوں کی سوانح عمری ہوتی ہے جنہیں وہ اپنا ہیرو سمجھتی ہے، یہ میں نہیں کہتا بلکہ مشہور سویڈش مورخ ”تھامس کارلائل“کہتے ہیں جوریاضی اور فلسفے کے ماہر بھی تھے، تاریخ پر اُن کی مشہور کتاب کا نام ہے ”آن ہیروز، ہیرو ورشِپ اینڈ دِی ہیرواِک اِن ہسٹری“۔ اس کتاب میں اُنہوں نے دنیا کی اُس وقت تک کی تاریخ کو چھ ابواب میں تقسیم کئے گئے ہیروز کی سوانح عمری قرار دیا ہے(ہیرو بطور دیوتا، ہیرو بطور پیغمبر، ہیرو بطورشاعر، ہیرو بطور پادری، ہیرو بطور صاحب علم، اور ہیرو بطور بادشاہ)۔’ہیروبطور پیغمبر‘والے باب میں فقط ایک ہی نام درج ہے اور وہ ہے خدا کے آخری اور ہمارے پیارے نبیؐ کا (جبکہ کارلائل مسلمان نہیں تھے)، اس کتاب پر کسی اور وقت تفصیل سے بات کریں گے فی الوقت یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلام کی اولین تاریخ نبی مکرم محمدؐ کی”آٹو بائیو گرافی“کے سوا کچھ نہیں۔
کارلائل کے فارمولے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جو قوم جیسے لوگوں کو اپنا ہیرو تصور کرتی ہے ویسی ہی خود بھی بن جاتی ہے یا جو قوم جیسی خود ہوتی ہے ویسے ہی لوگوں کو اپنا ہیرو بھی مانتی ہے۔اس اُصول کو مدِ نظر رکھا جائے تو وطنِ عزیز کی بدقسمت تاریخ پر حیران ہونے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭

وژن کافقدان اورہمارے قومی ہیروز

وزیر احمد جوگیزئی
پاکستان کا ایک عجیب المیہ ہے اور یہ المیہ شروع سے ہی چلا آرہا ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کو زندگی میں زیرو کر دیتے ہیں،ہمارے قومی ہیروز دوران زندگی زیرو ہو تے تو نہیں ہیں لیکن اس کو ہم خود ان کو زبر دستی زیرو کر دیتے ہیں بلکہ زیرو کرنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب مرحوم ہر طرح سے ایک بہت ہی بڑے انسان تھے۔جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدہ
بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ نہ ہم ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب کو زندگی میں جائز مقام دلا سکے اور نہ ہی ان کی رحلت پر ان کو وہ عزت دے سکے جس کے ڈاکٹر صاحب یقینی طور پر حقدار تھے۔ڈاکٹر صاحب کی زندگی پر میں کہاں سے بات شروع کروں ایک نہایت ہی نفیس انسان تھے اپنے شعبے کے ماہر تھے اور ذہانت اور فتانت ان میں کو ٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی۔ڈاکٹر صاحب ایک لا جواب سائنٹیفک لیڈر تھے جنہوں نے پاکستان انجینئرنگ کے شعبے کی رہنمائی کی خاص طو رپر اپنے شعبے میں چن چن کر ہزاروں قابل لوگوں کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔اور اسی ٹیم نے ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں پاکستان کو ایک جوہری قوت بھی بنا یا۔پاکستان نے ایٹمی بم تو بنا لیا تھا لیکن اس کے بعد کی مشکلا ت کے بارے میں کم ہی لو گ جانتے ہیں کہ ایٹم بم کی ڈیلوری کے لیے سسٹم چاہیے تھا ڈاکٹر صاحب ہی ایک بار پھر سامنے آئے اور انھوں نے اس حوالے سے الگ محکمہ بنایا۔اس سے متعلقہ اور بہت سارے اداروں کی بنیاد بھی رکھی۔ڈاکٹر صاحب کے کریڈیٹ پر جی آئی کے جیسے اداروں کی بنیاد رکھنا شامل ہے۔جی آئی کے جیسا ادارہ قائم کرکے ایک مثال قائم کر دی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باقی ملک میں بھی اسی ما ڈل کو اپناتے ہوئے ادارے قائم کیے جا ئیں لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ہم نے بطور قوم ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں ملک کے لیے ان کی بیش بہا اور نا قابل فراموش خدمات کے باوجود ان کو پابند سلاسل کیا، لیکن ان کی آزادی کے لیے نہ ہی عوام ان کی کو ئی مدد کر سکے اور نہ ہی عدالت۔ہمارے قومی ہیرو اپنے آخری وقت بھی اپنی آزادی کے لیے جد و جہد کرتے رہے۔ اس کے بر عکس اگر ہم ہندوستان پر نظر ڈالیں تو انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کے باوجود اپنے ایٹمی سائنس دان کو ہر قسم کی عزت دی،اور یہ ہمارے لیے ایک مثال ہو نی چاہیے۔ ہماری ناکامی یہ بھی رہی کہ ہم دیگر شعبوں میں ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ڈاکٹر صاحب کو خدا نے جو صلاحیتیں دیں تھیں ان سے فائدہ اٹھایا جاتا تو پاکستان کے کئی شعبوں میں انقلاب آسکتا تھا،لیکن ہم اس میں ناکام رہے۔
بہر حال اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین درجات سے نوازے۔اب میں کچھ بات ملک کے معاشی حالات پر بھی کرنا چاہوں گا۔محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کسی صورت بھی ملک کے معاشی حالات کو سنبھال نہیں پا رہی ہے۔ہمارے حکمرانوں کو عوام کے حالات کا ادراک ہی نہیں ہے اور ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے نا خن لینے کی ضرورت ہے۔آج کل کے دور میں ملک کا دفاع بھی براہ راست معیشت کے ساتھ جڑا ہو ا ہے اگر کسی ملک کی معیشت مضبوط نہیں ہے تو اس کا دفاع بھی مضبوط تصور نہیں کیا جاتا ہے چاہے اس ملک کے پاس کتنی ہی بڑی فوج ہو اور ہتھیار کتنی ہی بڑی تعداد میں موجود کیوں نہ ہو ں۔
ہندوستان نے حال ہی میں اپنی ایک کرونا ویکسین بنا لی ہے اور انگلستان سے بھی اس ویکسین کو منوا لیا ہے۔آخر ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ یہ صرف اسی لیے ممکن ہو ا کہ ہندوستان نے اپنی ویکسین تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں انگلینڈ کے ساتھ ان کے تجارتی با ئیکاٹ کی دھمکی دی اور کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بہت زیادہ ہے اور بائیکاٹ کی صورت میں انگریز کا نقصان زیادہ تھا اسی لیے انھوں نے ہندوستان کی اس مقامی ویکسین کو نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ اور نہ صرف یہ بلکہ ہندوستان میں کرونا کی شرح پاکستان سمیت کئی ممالک سے زیادہ ہونے کے باوجود ان پر سے آمد و رفت کی بھی پابندیاں ختم کر دی گئیں ہیں۔ اس سے ہمیں موجودہ دور میں معیشت کی طاقت اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ہمیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم معاشی طو ر پر کمزور ہیں بلکہ بہت کمزور ہیں اور اس کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈر دور رس وژن نہیں رکھتے ہیں۔اور صرف ڈنگ ٹا پا ؤ پالیساں لے کر چلتے ہیں جس کا ملک کو نقصان ہو تا ہے۔اس طرح ملک کو لے کر چلنے سے ترقی نہیں ہو سکتی ہے۔
ایک زرعی ملک کے ہوتے ہوئے ہمیں گندم سمیت دیگر بنیادی اجناس میں خود کفیل ہونا چاہیے تھا لیکن ہم گندم بھی باہر سے منگوا رہے ہیں،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت آ ج تک زراعت کو درست انداز میں سمجھ ہی نہیں سکی ہے۔اگر صرف پنجاب کی گندم درست انداز میں پروکیور کر لی جائے تو پورے ملک کے غلے کا بندوبست ہو جائے گا۔لیکن ہماری حکومت اس حوالے سے بھی غفلت کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ہمارے ملک کی برآمدات بڑھانے کے لیے کئی ایسے شعبے ہیں جن پر توجہ دے کر کارآمد کیا جاسکتا ہے اور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں نہیں کیا گیا ہے،ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ہماری امپورٹ ہماری ایکسپورٹ سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی کی وجہ سے معیشت اور روپیہ کمزور ہے اور جب تک ہم تجارت اور انڈسٹری کو پاکستان سپیسفک نہیں بناتے تب تک ہماری معیشت کسی صورت میں بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکے گی۔اگر تعلیم کے شعبے کی بات کی جائے تو تعلیم کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔نجی شعبہ ہر طرح سے حاوی ہو چکا ہے۔
ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن سرکاری شعبے میں تعلیم میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت کو ئی بھی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اکیلے ملک کو ان حالات سے نکال سکے۔لہذا ہمیں ایک قومی حکومت کی ضرورت ہے۔الیکشن کروانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا میرے خیال میں ملک میں 15سال کے لیے ایک ٹیکنو کریٹس کی حکومت آنی چاہیے اور ان ٹیکنو کریٹس میں اکثریت ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی بنائی ہو ئی ٹیم میں سے ہونی چاہیے۔یہی ایک طریقہ ہے کہ ملک میں تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ صنعت اور زراعت میں بھی ترقی کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر جس قسم کے انتخابات کروانے کا پلان بن رہا ہے اس میں تو سوائے دھاندلی کے اور کچھ نہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ملک میں جہاں پر ہر قسم کے قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن ان قدرتی وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے ایک وژن کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر بلوچستان کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا 43فیصد ہے اور اس 43فیصد میں 60فیصد پہاڑ ہیں 10فیصد ریگستان ہے اور 15فیصد زمین ایسی ہے جو کہ قابل کاشت ہے۔لیکن کبھی ہمارے پالیسی سازوں نے نہیں سوچا کہ جو 60فیصد پہاڑی زمین ہے جہاں پر کچھ نہ کچھ بارش بھی ہوتی ہے اس کو قابل استعمال بنایا جائے تو ملک کا بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔اگر ملک میں موجود معدنی وسائل کو درست طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک ایک اقتصادی طاقت نہ بن سکے،لیکن پاکستان کے ایک اقتصادی طاقت بننے کے راستے میں رکاوٹ ایک دور س جامع وژن کی بجائے کل کی فکر ہے اور جب تک کل کی فکر زیادہ حاوی رہے گی ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

معجزات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

علامہ محمد الیاس عطار قادری
صحرائے عرب میں ایک قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا‘ اثنائے راہ (یعنی راستے میں) پانی ختم ہو گیا، قافلے والے شدت پیاس سے بے تاب ہو گئے اور موت ان کے سروں پر منڈلانے لگی کہ کرم ہو گیا یعنی اچانک دونوں جہاں کے فریاد رس میٹھے میٹھے مصطفیؐ ان کی امداد کیلئے تشریف لے آئے۔ اہل قافلہ کی جان میں جان آ گئی! سرکارؐ نے فرمایا ”وہ سامنے جو ٹیلہ ہے اسکے پیچھے ایک سانڈنی سوار سیاہ فام حبشی غلام گزر رہا ہے۔ اسکے پاس ایک مشکیزہ ہے‘ اسے سانڈنی سمیت میرے پاس لے آؤ“۔ چنانچہ کچھ لوگ ٹیلے کے اس پار پہنچے تو دیکھا کہ واقعی ایک سانڈنی سوار حبشی غلام جا رہاہے۔ لوگ اس کو تاجدار رسالتؐ کی خدمت سراپا عظمت میں لے آئے۔ شہنشاہِ خیر الانامؐ نے اس سیاہ فام غلام سے مشکیزہ لیکر اپنا دست بابرکت مشکیزے پر پھیر اور مشکیزے کا منہ کھول دیا اور فرمایا:
”آؤ پیاسو! اپنی پیاس بجھاؤ“۔ چنانچہ اہل قافلہ نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اپنے برتن بھی بھر لئے۔ وہ حبشی غلام یہ معجزہ دیکھ کر نبیوں کے سرورؐ کے دست انور چومنے لگا۔ سرکار نامدارؐ نے اپنا دست پرانوار اس کے چہرے پر پھیر دیا یعنی اس حبشی کا سیاہ چہرہ ایسا سفید ہو گیا جیسا کہ چودہویں کا چاند اندھیری رات کو روز روشن کی طرح منور کر دیتا ہے۔ اس حبشی کی زبان سے کلمہئ شہادت جاری ہو گیا اور وہ مسلمان ہو گیااور یوں اس کا دل بھی روشن ہو گیا۔ جب مسلمان ہو کر وہ اپنے مالک کے پاس پہنچا تو مالک نے اسے پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ وہ بولا: میں وہی آپ کا غلام ہوں۔ مالک نے کہا: وہ تو سیاہ فام غلام تھا۔ کہا: ٹھیک ہے مگر میں مدنی حضور سراپا نورؐ پر ایمان لا چکا ہوں۔ میں نے ایسے نور مجسم کی غلامی اختیار کر لی ہے کہ اس نے مجھے (یعنی چودھویں کے روشن چاندکی طرح) بنا دیا جس کی صحبت میں پہنچ کر سب رنگ اڑ جاتے ہیں‘ وہ تو کفر و معصیت کی سیاہ رنگت کو بھی دُور فرما دیتے ہیں‘ اگر میرے چہرے کا سیاہ رنگ اڑ گیا تو اس میں کون سی تعجب کی بات ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دو جہان کے سلطانؐ کی شان عظمت نشان پر میری جان قربان! اللہ اللہ! پہاڑ کے پیچھے گزرنے والے آدمی کی بھی کس شان سے خبر دیں کہ اسکا رنگ کالا ہے اور وہ سانڈنی پر سوار ہے اور اسکے پاس مشکیزہ بھی ہے‘ پھر عطائے الٰہی عزوجل سے ایسا کرم فرمایا کہ مشکیزہ کے پانی نے سارے قافلے کو کفایت کیا اور مشکیزہ اسی طرح بھرا رہا‘ مزید سیاہ فام غلام کے منہ پر نورانی ہاتھ پھیر کر کالے چہرے کو نور نور کر دیا حتیٰ کہ اس کا دل بھی روشن ہو گیا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
جب سرکارنامدارؐ کسی کے چہرے اور سینے پر دست پرانوار پھیر دیں تو وہ روشنی دینے لگ جائے تو خودحضور سراپا نورؐکی اپنی نورانیت کاکیاعالم ہوگا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: ”جب سرکار نامدارؐ گفتگو فرماتے تو دیکھا جاتا گویا حضور پر نورؐ کے اگلے مبارک دانتوں کی مقدس کھڑکیوں سے نورنکل رہا ہے“۔ جب رحمت عالمؐ مسکراتے تھے تو درودیوار روشن ہو جاتے۔
اُم المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت فرماتی ہیں: میں سحری کے وقت گھر میں کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اورساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا، اتنے میں مدینے کے تاجدارؐ گھر میں داخل ہوئے اور سارا گھر مدینے کے تاجورؐ کے چہرہئ انور کے نور سے روشن و منور ہو گیا اور گمشدہ سوئی مل گئی۔
سبحان اللہ! حضور پرنورؐ کی شان نور علی نور کی بھی کیا بات ہے! مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رحمت عالمﷺ بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نوری بشر ہیں‘ ظاہری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔
حضرت سیدتنا انیسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: مجھے میرے والد محترم نے بتایا: میں بیمار ہوا تو سرکار عالی وقارؐ میری عیادت کیلئے تشریف لائے دیکھ کر فرمایا: تمہیں اس بیماری سے کوئی حرج نہیں ہو گا لیکن تمہاری اس وقت کیا حالت ہوگی جب تم میرے وصال کے بعد طویل عمر گزار کر نابینا ہو جاؤ گے؟ یہ سن کر میں نے عرض کی: یارسول اللہؐ! میں اس وقت حصول ثواب کی خاطر صبر کروں گا۔ فرمایا: اگر تم ایسا کرو گے تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔چنانچہ صاحب شیریں مقالؐ کے ظاہری وصال کے بعدان کی بینائی جاتی رہی‘ پھر ایک عرصہ کے بعد اللہ عزوجل نے ان کی بینائی لوٹا دی اور ان کا انتقال ہو گیا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے اللہ کے محبوبؐ اپنے پروردگار عزوجل کی عطا سے اپنے غلاموں کی عمروں سے بھی باخبر ہیں اوران کیساتھ جو کچھ پیش ہونیوالا ہے اسے بھی جانتے ہیں۔ قرآن پاک کی بیشمار آیات مبارکہ سے سرکار مدینہؐ کے علم غیب کا ثبوت ملتا ہے۔ یہاں صرف ایک آیت کریمہ پیش کی جاتی ہے۔ چنانچہ پارہ 30 سورۃ التکویر کی آیت نمبر24 میں ارشاد خداوندی ہے: ترجمہ کنزالایمان: اور یہ نبی ؐ غیب بتانے میں بخیل نہیں۔ (پ 30 التکویر24)
بیان کردہ روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی مصیبت آئے یا مسلمان معذور ہو جائے تو اسے صبر کر کے اجر کا حقدار بننا چاہئے‘ چنانچہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرامؐ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ”جب میں اپنے بندہ کی آنکھیں لے لوں پھر وہ صبر کرے‘ تو آنکھوں کے بدلے اسے جنت دوں گا“۔
ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں ایک تاجر آیا۔ اس سے ابوجہل نے مال خرید لیا مگر رقم دینے میں پس و پیش کی، وہ شخص پریشان ہو کراہل قریش کے پاس آ کر بولا: آپ میں سے کوئی ایسا ہے جو مجھ غریب اور مسافرپر رحم کھائے اور ابوجہل سے میرا حق دلوائے؟ لوگوں نے مسجد کے کونے میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا: ان سے بات کرو‘ یہ ضرور تمہاری مدد کریں گے۔ اہل قریش کے”ان صاحب“ کے پاس بھیجنے کا منشا یہ تھا کہ اگر یہ صاحب ابو جہل کے پاس گئے تو وہ ا ن کی(نعوذباللہ) توہین کریگا اوریہ لوگ(یعنی بھیجنے والے) اس سے حظ (یعنی لطف) اٹھائیں گے۔ مسافر نے ان صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا احوال سنایا، وہ اٹھے اور ابو جہل کے دروازے پر تشریف لائے اور دستک دی۔ ابو جہل نے اندر سے پوچھا: کون ہے؟ جواب ملا محمدؐ۔ ابو جہل دروازے سے باہر نکلا‘ اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ بے کسوں کے فریاد درس، آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس کا حق کیوں نہیں دیتا؟ عرض کی: ابھی دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اندر گیا اور رقم لا کر مسافر کے حوالے کر دی اوراندر چلا گیا۔ دیکھنے والوں نے بعد میں پوچھا: ابو جہل! تم نے بہت عجیب کام کیا۔ بولا: بس کیا کہوں‘ جب محمدعربی(ﷺ) نے اپنا نام لیا تو ایک دَم مجھ پر خوف طاری ہو گیا، جونہی میں باہر آیا تو ایک لرزہ خیز منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا‘ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دیو پیکر اونٹ کھڑا ہے‘ اتنا خوف ناک اونٹ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا‘ چپ چاپ بات مان لینے ہی میں مجھے عافیت نظر آئی ورنہ وہ اونٹ مجھے ہڑپ کر جاتا۔
(امیراہلسنت ہیں)
٭……٭……٭

قانون کی آسمانی نصابی کتاب اور ہم غبی طالبعلم

نگہت لغاری
کائنات بھر میں پھیلی بے سکونی اور انتشار نے مجھے اتنا بے سکون کر دیا ہے کہ مَیں اپنی سوچ بچار کے میز پر چاروں آسمانی کتابوں کو سامنے رکھے کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہوں۔ مجھے اپنی کم علمی، کم مائیگی اور کمزوری کا پورا پورا احساس ہے اور مجھے یہ بھی علم ہے کہ مَیں اس نصاب کو پوری لگن، ایمانداری اور محنت سے پڑھنے کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی حل نکال لینے کا دعویٰ کر سکتی ہوں لیکن مَیں ضرور کوشش کروں گی کہ اِن آسمانی کتابوں سے وہ اقتباسات اپنے قارئین تک پہنچاؤں جنہیں ہم نے اپنی دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے درجہ دوم پر رکھا ہوا ہے۔
ہم خوش قسمت تھے کہ ہمارے پاس وہ کتاب آئی جو تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ ہے اور اس میں موجود وہ سارے علوم ہیں جو اس کرہ ارض میں موجود ہیں۔ یہ کتاب مقدس علم اور ٹیکنالوجی کا وہ سمندر ہے جس میں انسان کو علم و فہم اور راہ راست پر رہنے کے وہ تمام گُر، ہیرے موتیوں کی طرح اس کی تہہ میں اُبل رہے ہیں لیکن ہم ان کو پکڑنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے صوفیا اور اولیا چونکہ حوصلہ اور طاقت رکھتے تھے، وہ بلاخطر اس سمندر میں کود پڑے اور انسان کے لئے ان ہیرے موتیوں سے ایسے کشتے تیار کئے کہ انسانوں کو روحانی طور پر شفایاب کر دیا تھا۔ وہ اور صحت مند ہو کر اچھے اچھے کام سرانجام دیتے گئے مگر افسوس ہم نے ان معالجوں کی دوائیوں کو OUT-DATED سمجھ کر الماریوں میں بند کر دیا۔ ان کی اس بے قدری پر قادر مطلق کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے یہ معالج بھیجنا ہی بند کر دیئے اور جسم کو سہولت اور شفا دینے کے اتنے معالج بھیج دیئے کہ انسان اب صرف اپنی جسمانی بیماریوں کا علاج ڈھونڈنے میں لگ گیا ہے، روحانی بیماری کو انہوں نے بیماری کے درجے سے ہی ہٹا دیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم انسانوں نے صرف جسم کی بیماری کو ہی بیماری سمجھا ہے اور اس کی شفا کیلئے اتنا آگے بڑھ کر محنت کی ہے کہ معجزوں کے قریب جا پہنچے ہیں۔ یہ بھی یقینا لازمی تھا اور انسان کو جسمانی شفا کی بھی ضرورت تھی مگر یہ کیوں نہ سوچا کہ انسان کی ساخت دو حصوں پر مشتمل ہے، جسم اور روح۔ ہم نے انسان کے صرف ایک حصہ (جسم) پر ساری محنت، ساری لگن اور ساری جستجو صرف کر دی اور دوسرے حصے کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ اس حصہ (روح) کو بھی تو علاج معالجے کی ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان بے توازن ہو گیا اور لنگڑا کر چلنے لگا اور یہ منطقی نتیجہ تھا۔
ہم تو خوش بخت تھے کہ ہمیں ایک ایسی کتاب عطا کی گئی تھی جس کا مصنّف خود خدا ہے، جس کا ہر نقطہ اگر کسی اور انسان کی آنکھ میں اتر آئے تو اسے زندگی بھر کسی عینک یا مصنوعی لینز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ ایسی مکمل اور مفصل تدریسی کتاب ہے جو زمان و مکان کا تمام علم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس میں ہے کہ خدا نے انسان کو عقل اور تمیز دی اور اپنی قدرت کے ایسے آثار دکھلائے کہ انسان کی نافرمانی کی کوئی حجت باقی نہیں رہتی۔ اس میں طرز حیات اور طرز حکومت کی اتنی خوبصورت اور سہل تجاویز ہیں کہ اس کو سمجھ کر پڑھنے کے بعد انسان مسرور و شاداں ہو جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت جہان میں لے جاتی ہے جہاں پہنچ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اس میں اپنی امنگوں کو بیدار رکھنے کی باتیں ہیں۔ اس میں خوشبوؤں اور خوبصورتی کی باتیں ہیں۔ اس میں اپنے ارتقا اور ترقی کیلئے خوشی خوشی کام کرنے کی تلقین ہے۔یہ کتاب کہتی ہے انسان کو ہم نے اشرف المخلوقات بنا کر ایسی طاقت اور توانائی بخش دی ہے اور اس میں ایسے معجزات سے نواز دیا ہے جو اس کی طاقت اور اختیار کا واضح ثبوت ہے۔ وہ کتاب حکیم کہتی ہے انسان کو ہم نے کیسی طاقت عطا کر دی۔ جب میرے پیغمبرؐ نے اپنی ایک نازک انگلی سے ایک طاقتور سیارے چاند کو دو نیم کر دیا یا میرے ایک بندے (موسیٰؑ) نے اپنے دشمن سے بچنے کیلئے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے بے قابو اور خودسر سمندر کو اپنی لکڑی کی ایک معمولی سوٹی سے اپنا راستہ بنانے کیلئے دو پاٹ کرکے اپنے نکلنے کا راستہ بنا لیا، یا جب میرے ایک اور بندے (حضرت عیسیٰ) نے ایک ماں کو اپنے بچے کی موت پر غم سے نڈھال چیختے دیکھا تو ایک ہاتھ پھیر کر اسے زندہ کر دیا۔ کیا آپ سب انسانوں کے لئے اپنی طاقت و توانائی کے یہ اظہار کافی نہیں؟ یا اب تمہاری جسمانی سہولت اور شفا کیلئے عام انسانوں (سائنس دانوں) کو یہ طاقت عطا نہیں کر دی کہ وہ معجزے کے قریب جا پہنچے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے۔
پاؤں رکھ کر حسین چاند تم
خود اندھیرے میں ڈوب جاتے ہو
ایک فرانسیسی مصنف کہتا ہے ”ایک انسان (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اتنا علم کیسے اکٹھا رکھ دیا گیا کہ وہ بیک وقت سائنس دان، ماہر نفسیات، باخبر استاد اور اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر ہو۔ فوج سے متعلق اس کی حکمت عملی اور معاملات اب بھی مروج اور تازہ ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس تدریسی کتاب (قرآن حکیم) کو اتنا مشکل اور ناقابل فہم بنا دیا ہے کہ ہماری نئی نسل اسے مشکل سمجھ کر اس سے جان چھڑاتی ہے اور بیزار ہے۔ اس کو چند احکامات تک محدود کر دیا گیا ہے جس سے انسان اسے پابندیاں سمجھ کر الگ ہو گیا ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا میری شریعت کو میرے بعد اتنا مشکل نہ بنا دینا کہ لوگ اسے شوق اور خوشگواری سے نہ اپنائیں بلکہ مجبوری سمجھ کر بیزار ہو جائیں۔ حضور اکرمؐ بار بار کہتے ہیں، کسی معاملے میں انتہاپسندی نہ اپناؤں، اپنے اندر پاک اور پاکیزہ خواہشات بیدار رکھو یہ تمہیں آگے بڑھاتی ہیں اور سکون مہیا کرتی ہے۔ احساس لذت تمہارا بشری حق ہے، اخلاق کے دائرے میں رہ کر تم ضرور لطف اٹھاؤ۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھنا کیونکہ اس سے حُسن و قبیح کا منطقی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہم قرآن حکیم کی ہر تاویل کو الٹا کرکے پڑھتے ہیں جیسے اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا۔ فتنہ پروری جو کشت و خون سے بڑھ کر ہے، عام ہو جائے گی، لوگ دنیا کی خاطر دین کو بیچ دیں گے اور مالداروں کی تعظیم کی جائے گی۔ خواتین کی پردہ داری ختم ہو جائے گی اور زنا محصنہ جس میں مرد عورت دونوں کی رضا شامل ہوتی ہے، رواج بن جائے گا اور یہ وقت وارد ہو چکا ہے۔
حاکم کے لئے بہت ہی معنی خیز دُوررس اور موقر ترین ہدایات ہیں۔ حکومت میں ایسے لوگ لائے جائیں جو اختیار اور انصاف کو امانت سمجھیں۔ حاکم طاقتور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کمزور سمجھے۔ اسے چاہئے کہ وہ حکومت سے وابستہ ہونے کے بعد خدا سے وابستہ ہو جائے اور یہ یقین رکھے کہ اچھی منصفانہ حکومت میں غیب کی امداد شامل ہوتی ہے اور اس کی حکومت سے وابستہ تمام مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔ حاکم کا منصف ہونا، اس کی حکومت کا سب سے پہلا جزو ہے۔ وہ جب کوئی مقدمہ سنے تو ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ اپنا رویہ متوازن رکھے۔ ظالم کے ساتھ لہجہ درشت رکھے، نہ مظلوم کے ساتھ نرم رویہ ظاہر کرے۔ کسی بھی مقدمے میں مطلوب حاکم اپنے آپ کو انصاف کے کٹہرے میں عام آدمی کی طرح کھڑا کرے۔ نور الّدین زنگی اپنے دور حکومت میں ہر وقت ایک قاضی اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اگر اس سے کوئی زیادتی ہوتی تو وہ کسی ساتھ کی مسجد میں قاضی کو منبر پر کھڑا کرتا اور اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو جاتا اور اسے کہتا کہ اسے اسی وقت سزا سنائی جائے۔ اس طرح جنگ کے بارے میں کتاب مقدس کہتی ہے اگر جنگ کرو تو جھوٹ اور بے انصافی کی خاطر لڑو، اپنے مفادات کیلئے کسی ملک یا قبیلے کے ساتھ جنگ نہ کرو۔ مدمقابل کیلئے اپنے دل میں نفرت یا کینہ نہ رکھو کیونکہ یہ احساسات قادر مطلق کو پسند نہیں۔ اس لئے تم شکست سے دوچار ہو سکتے ہو۔ اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار اور چوکنا رہو۔ اگر طاقت اور اسباب میں زیادہ بھی ہو تو اپنے آپ اور اپنے ساتھیوں کو کمزور سمجھو۔ یہی احساس تمہیں طاقت دے گا۔
مَیں کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتی لیکن کچھ ماہ قبل مَیں نے اپنے ایک اردو کالم میں کچھ ایسے ہی نسخے حاضر کئے تھے۔ (خبریں (22-5-2021) اور آخر میں عرض کیا تھا کہ قرآن کا تدریسی علم لوگوں کو Deliver کرنے کے لئے اساتذہ لے آئیں۔ کندھے پر روایتی رومال رکھے ہوئے تندرست مگر حکومت اور اختیار کے بھوکے علما کے پاس صرف شریعت کی کتاب ہے جو صرف پہلی کلاس میں پڑھائی جا سکتی ہے۔ علم کے لئے تو بہت سی اگلی کلاسوں کیلئے بھاری نصاب موجود ہے۔
(کالم نگارانگریزی اوراردواخبارات میں لکھتی ہیں)
٭……٭……٭

پاک چین دوستی اور بھارت کی چیخیں

خدا یار خان چنڑ
پاک چین اقتصادی راہداری (China-Pakistan Economic Corridor) یعنی سی پیک ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔سی پیک کا راستہ چین کے سنکیانگ سے ہوتا ہوا گلگت بلتستان میں پھر خیبرپختونخواہ کے مانسہرہ ایبٹ آباد سے گزرتا ہوا سیدھا بلوچستان میں داخل ہوتا ہے جہاں سے براستہ سڑک گوادر کی گہرے سمندر کی حامل بندرگاہ میں داخل ہوتا ہے۔
20 اپریل 2015کو چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران، مختلف شعبوں میں مفاہمت کی 51 یادداشتوں پر چین اور پاکستان کے درمیان منصوبوں پر دستخط ہوئے تھے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ علاقائی رابطوں کا ایک فریم ورک ہے۔ سی پیک سے نہ صرف چین اور پاکستان کو فائدہ ہوگا بلکہ ایران، افغانستان، ہندوستان، وسطی ایشیائی جمہوریہ اور خطے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سی پیک کوچین اورپاکستان کی سدا بہار سٹریٹیجک شراکت داری کو مستحکم کرنے اور مشترکہ تعمیر وترقی کی منازل طے کرنے کے سفر میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ منصوبہ ایک نئی جہت اور نئے وژن کے ساتھ پاک چین تعلقات کو جلا بخشنے کا موجب بن رہا ہے۔ سی پیک سے مجموعی طور پر پورا پاکستان استفادہ حاصل کرے گااور اس سے پاکستانی عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔سی پیک کے تحت دونوں دوست ممالک جامع حکمت عملی کے ساتھ تعمیر و ترقی اور متعدد بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہیں جس کے مثبت نتائج حاصل ہورہے ہیں اور چین اور پاکستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔
جب پاکستان اور چین نے سی پیک کے عظیم الّشان معاہدے کا اعلان کیا اور اس کے تحت 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کی خبر عام ہوئی تو پاکستان کے دشمنوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ دنیائے اسلام کا ایک ترقی یافتہ ملک جو سب سے زیادہ طاقتور فوج بھی رکھتا ہے، اتنی بڑی رقم کے ساتھ کیا قیامت برپا کرے گا، یہ سوچتے ہی بھارت کی نیند حرام ہو گئی۔ بھارت جو کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے سی پیک بننے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے کیونکہ وہ جانتاہے کہ اگر پاک چین اقتصادی راہداری بن گئی تو یہ خطہ دنیا کا خوشحال خطہ بن جائے گا جبکہ اس منصوبہ کی تکمیل سے مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی۔اس لئے وہ چاہتاہے کہ سی پیک کامنصوبہ کسی بھی صورت مکمل نہ ہونے پائے۔ سی پیک کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھانے والوں کے نام سے کون واقف نہیں، یہ وہ قوتیں ہیں جنھیں پاک چین تعلقات کبھی ہضم نہیں ہوتے اور خطے میں ان دو بڑی ریاستوں میں قومی، عالمی اور علاقائی امور میں دوطرفہ تعاون، خیر سگالی، مفاہمت اور رجائیت کا جو انداز نظر ہے وہ عالمی امن کے مشترکہ مقاصد سے جڑا ہوا ہے اور سی پیک پاک چین اقتصادی تعاون کا وہ منصوبہ ہے جسے خطے میں ایک گیم چینجر کی حیثیت حاصل ہے جب کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پاکستان نے جتنی قربانیاں دی ہیں اس کا چین ایک عینی شاہد بھی ہے۔
ایک بڑے اور منظم منصوبے کے طور پر سی پیک کی تعمیر کا سفر2017-2030پر محیط ہے۔ سی پیک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے چین اور پاکستان کی حکومتوں، کمپنیوں اور تمام سماجی شعبوں کی مشترکہ اور مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کی تعمیر کے عمل میں دونوں فریقوں نے سائنسی منصوبہ بندی کے اصولوں، تسلسل سے عمل درآمد، مشاورت کے ذریعے اتفاق رائے، باہمی فائدے اور وِن-وِن ریزلٹس کے ساتھ ساتھ معیار اور حفاظت کو یقینی بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ سی پیک اقتصادی راہداری خطے کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بھرپور موقع فراہم کریگی۔ اس کے دو طرفہ فوائد سے کہیں زیادہ یہ پاکستان اور چین کے عوام کے ساتھ ساتھ پورے خطے کی عوام کیلئے بھی امن اور خوشحالی کی راہداری ہے۔ یہ قوموں کو ایک دوسرے کے نزدیک لائے گی اور بہتر رابطے کے ذریعے معاشی تبدیلی لائے گی۔
بھارت کا المیہ یہ ہے کہ اسے پاک چین دوستی میں بہتری اور خطے کے عوام کی اقتصادی اور سماجی ترقی سے شدید مخاصمت ہے۔ بھارت کی غیرجمہوری سوچ ایک ہولناک فسطائی اور انسانی اقدار سے متصادم ہے، وہ سیکولرزم اور جمہوری سوچ کے بنیادی آدرش سے بھی جنگ آزما ہے اور خطے کو ایک خطرناک جنگجوئی کی آگ میں جھونکے پر تلا ہوا ہے، اسے یہ بھی ادراک نہیں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جو فرنٹ لائن پر دہشت گردی کے خلاف اپنی توانائیاں صرف کرتا رہا۔وہ جنگ نہیں امن کے قیام میں دلچسپی رکھتا ہے اور چین پاکستان کے اس موقف کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ عالمی امن، علاقائی ترقی اور عوام کی خوشحالی اور بہتر مستقبل کے خوابوں کی تعبیر دلانے میں بھی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا۔ نریندر مودی کو یہی چیز پسند نہیں، اسے جنگی جنون، استعمار پسندی اور مسلمانوں سے دشمنی نے مسلمہ جمہوری سوچ سے منحرف کر دیا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ چین اور پاکستان عالمی اقتصادی کوششوں میں ایک متفقہ موقف کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ سی پیک خطے کے عوام کی معاشی ترقی کے خوابوں کی تکمیل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس وقت ہمارا دشمن ہماری قوم کو سیاسی،فرقہ وارانہ اور لسانیت و برادری ازم کی بنیاد پر گروہوں میں تقسیم کرنا چاہ رہاہیے۔ ایسے میں پوری قوم کو بالعموم اور ملک کی عسکری و سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو بالخصوص ایسی ناپاک سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے متحد و متفق ہو کر کوشاں رہنا چاہیے اور ایسے پراپیگنڈوں سے خصوصا ہوشیار رہنا چاہیے جو کہ سی پیک منصوبوں کے خلاف کیے جائیں۔ پاکستان اور چائنا کو بھی سی پیک کے خلاف لاحق خطرات کے ازالے کیلئے پہلے سے بھی زیادہ عقل مندی، ہوشیاری اور فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی سیکورٹی کے لیے سخت اقدام کرنے چاہئیں تمام منصوبہ جات سائنٹفک بنیادوں پر مکمل ہوں اور ان کی تکمیل جتنی جلد ممکن ہو سکے کی جائے تاکہ دشمن کوئی اوچھا وار نہ کر سکے۔ پوری قوم اس منصوبہ کی جلد تکمیل کیلئے دعا گو ہے اوراس کی تکمیل تک ازلی دشمن بھارت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی رہے۔ گی بھارت کو پاکستان اور چین دوستی پر بڑی تکلیف ہے سی پیک منصوبہ کے حوالہ سے پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے بہت جلد پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا جس کی وجہ سے بھارت کی نیندیں اڑی ہوئی ہے کیوں کہ پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا اسی لئے آے دن پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے ہر میدان میں بھارت کو منہ کی کھانا پڑ رہی ہے پاکستان کو تنہا کرتے کرتے آج بھارت خود تنہا ہو گیا ہے بھارت کے تمام گھٹیا حرکتیں بے نقاب ہوگئی ہیں۔ دوسروں کے لیے جو گڑھے کھودے تھے بھارت خود ان گڑھوں میں گر رہا ہے اور پاکستان کا معیار عالمی دنیا میں بلند ہو رہا ہے اس بات کو عالمی دنیا بھی تسلیم کر رہی ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خبریں بہاولپورعوامی توقعات پوری کریگا

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں خبر کا مقام تو نہ صرف برقرار ہے بلکہ تیزتر کی اس دوڑ میں پرنٹ میڈیا کی اہمیت کچھ لوگوں خاص طور پر ہمارے اربن یا شہری علاقوں میں قدرے کم ہوئی ہے۔ مگر خبر، آڈیا اور فکروعمل کے لئے پرنٹ میڈیا آج بھی زیادہ با اعتبار اور پسندیدہ ہے۔ خاص طور پر ہمارے دیہاتی اور قدرے کم ترقی یافتہ علاقوں میں آج اخبار ایک ممتاز اہمیت رکھتی ہے۔ آج بھی وہاں بڑے چھوٹے نہ صرف اخبار کا روزانہ صبح انتظار کرتے ہیں بلکہ یہی اخبار ان کے خیالات اور پرسیپشن بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے بچپن اور سکول کے دور میں جنگ اخبار کا کراچی ایڈیشن ہماری معلومات اور خیالات کی تعمیر کا واحد ذریعہ تھی اور جنگ اخبار بہت مقبول اخبار ہوا کرتا تھا بلکہ آج بھی ہے۔ مگر کچھ سالوں سے ہم نے دیکھا کہ جنگ کے مقابلے میں ایک نیا اخبار خبریں بہت ہی قلیل عرصے میں بہت نمایاں ہوا اور وہ تھا خبریں کا ملتان ایڈیشن جس نے کافی حد تک جنوبی پنجاب کے معاملات کو اچھے کوریج کے ساتھ موثر طریقے سے نمایاں کیا۔
خبریں اخبار نے بہت کم عرصے میں پاکستان کی اردو جرنلزم کی تاریخ میں ایک بہت ہی نمایاں مقام حاصل کیاہے۔ 26 ستمبر 1992 میں اپنے اجرا سے لے کر آج تک خبریں اخبار ایک جاندار صحافت کی نمایاں مثال قرار پائی ہے۔ نو مختلف مقامات سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اب خبریں اپنے بہاول پور ایڈیشن کا آغاز پہلی اکتوبر 2021 سے کر رہا ہے۔ اس طرح خبریں نہ صرف ایک قومی آخبار بلکہ بہت سارے مقامات سے ایک علاقائی اخبار کا رول یا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ کسی قومی اخبار کا بہاول پور سے اجرا ہم بہاول پور ڈویڑن کے رہنے والوں کے لئے بہت خوشی کا باعث ہے اب ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائیل اور مطالبات بھی فوکس میں آئیں گے۔ بہاول پور تاریخی طور پر ایک علیحدہ انتظامی اکائی رہی ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے پر بہاول پور ایک صوبے کی حیثیت رکھتا تھا اس کو قومی مالیاتی ایوارڈ میں علیحدہ مقام تھا۔ ون یونٹ بننے پر صوبہ بہاول پور مغربی پاکستان میں ضم ہو گیا باقی صوبوں کی طرح – مگر ون یونٹ کے ٹوٹنے پر بہاول پور کے عوام کی خواہشا ت کے بر خلاف اس کی صوبائی حیثیت آج تک بحال نہیں ہو سکی۔ قوی امید کی جاتی ہے کہ خبریں اخبار بہاول پور کے عوام کو ان کا دیرینہ اور جائز حق دلانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
ضیا شاہد صحافتی اُفق کا ایک بہت ہی درخشاں ستارہ ہیں۔ ایک بہت غیر معروف علاقے یعنی سندھ سے گڑھی یٰسین اور پھر بہاولنگر سے اپنی تعلیم کا آغاز اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور، ملتان میں خیرلمدارس سے تعلیم اور پھر اردو ڈائجسٹ اور زندگی ہفت روزہ میں اپنا نام صحافت میں پیدا کیا- یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں جو آدمی صرف اور صرف اپنی محنت اور اللہ پاک کے خاص کرم سے حاصل کرتا ہے۔انہوں نے خبریں اخبار کو صحافت کی ایک نمایاں معراج تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ خبریں اخبار سے بڑھ کر خبریں گروپ بنا اور اتنے بہت سارے اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی کے باوجود اپنی ایک علیحدہ پہچان کو منوایا۔چینل ۵ اور علاقائی ایڈیشن سندھی اور پنجابی زبان میں میں بیک وقت نکالنا بہت ہی غیر معمولی کامیابی ہے۔
خبریں اخبار کے بہاول پور سے اجرا پر جناب ضیا شاہد کو خراج تحسین پیش کرنا ان کی اس بارے میں بہترین خدمات کا اعتراف اور ان کی دن رات کی محنت کی معراج ہے۔ ضیا شاہد نے اپنی زندگی میں خبریں کو پاکستانی صحافت کا ایک بہت ہی درخشندہ ستارہ بنایا جو آج سندھی اور پنجابی زبانوں میں بھی اپنے ایڈیشن شائع کر رہا ہے۔ ضیا شاہد صاحب کا ایک اور پراجیکٹ چینل ۵ بھی اپنا رول بہترین انداز میں ادا کر رہا ہے جو تھوڑی اور محنت سے اپنا مقام اور اوپر لے جانے کی گنجائش رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں امتنان شاہد صاحب کی محنت اور کوشش نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس موقعہ پر خبریں کے ایڈیٹر ان چیف اور تمام سٹاف مبارک باد کے مستحق ہے۔ اللہ پاک خبریں گروپ کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور خاص طور پر خبریں کے بہاول پور ایڈیشن سے بہاول پور ڈویژن کے عوام جو توقعات رکھتے ہیں ان کو یہ ایڈیشن بدرجہ اْتم پورا کرے گا اللہ آپ کو ہمت حوصلہ اور اتنی حیثیت دے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں اور توقعات پر پورا اتر سکیں۔
26ستمبر1992ء کو خبریں کا اجرا اوراب یکم اکتوبر2021ء میں یعنی پورے29سال بعد بہاولپور جیسے نسبتاً بڑے ڈویژن اور ضلع سے ایک اور ایڈیشن کا اجرا بلاشبہ بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن محنت پریقین کامل کے حامل افراد کے لئے ایسی فتوحات چنداں مشکل نہیں ہوا کرتیں۔ ماضی میں ضیاشاہد صاحب اُفق صحافت پر جگمگاتے رہے اورآج ان کے صاحبزادے امتنان شاہد صاحب اپنی لگن‘ جذبے اور محنت سے بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ بہاولپور کے عوام اوراہل صحافت نے نئے جاری ہونے والے ایڈیشن سے جو توقعات وابستہ کررکھی ہیں وہ پوری ہوں گی۔ مالکان اور ورکرز کاساتھ جولی اوردامن کا ہوتاہے۔ خبریں کے اگر مالکان اخباری صنعت کی وسعت پریقین رکھتے ہیں تو ان کے ساتھ وابستہ کارکن بھی دل وجان سے خبریں اوراپنے مالکان کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔ انشااللہ
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

ملکی تاریخ کا ایک درخشاں باب بند ہو گیا

ملک منظور احمد
ویسے تو دنیا میں ایسی بڑی بڑی شخصیات آتی ہیں جو کہ اپنے فن اور صلاحیتوں کے بل پوتے پر دنیا میں بہت نام کماتی ہیں اور لوگوں سے محبت سمیٹتی ہیں لیکن کچھ شخصیات ایسی ہو تی ہیں جو کہ ملکوں اور قوموں بلکہ اگر کہا جائے کہ دنیا کی تاریخ کا دھارا موڑ دیتی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔یہ ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کی خدمات ملکوں اور قوموں کے عروج اور زوال کا فیصلہ کرتی ہیں اور ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تھی۔ انھوں نے بلا شبہ بر صغیر کی تاریخ میں ایسا کام کیا ہے مجھے یقین ہے کہ ان کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ڈاکٹر صاحب نہایت ہی ملنسار شخصیت کے مالک تھے،عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔زندگی میں بے مثال کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد بھی اتنی عاجزی نا قابل فہم ہے لیکن آپ کی شخصیت ہی ایسی تھی غرور کا شائبہ تک نہیں تھا۔وطن کی محبت آپ میں کو ٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی،اور آپ کی وطن کے ساتھ کمٹمنٹ کو مثالی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
آپ 1936ء میں بھارت کے علاقے بھوپال میں پیدا ہو ئے تھے اور آپ کا خاندان 47ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگیا تھا،آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی سے ہی حاصل کی اور کراچی یو نیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں یورپ چلے گئے تھے۔71ء کی جنگ نے آپ پر گہرا اثر چھوڑا اور اس جنگ میں پاکستان کی شکست نے آپ کے اندر پاکستان کو دفاعی میدان میں مضبوط تر بنانے کی ایک آگ بھڑکا دی،آپ نے تہیہ کر لیا کہ پاکستان کے لیے کچھ ایسا کرنا ہے کہ پاکستان کا دفاع اتنا مضبوط ہو جائے کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت جو کہ وسائل اور رقبہ اور آبادی میں پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے پاکستان کے خلاف اپنی روایتی برتری کھو بیٹھے اور جب 1974ء میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکا کر دیاتو اس کے بعد یوں محسوس ہونے لگا کہ پاکستان کی سلامتی بلکہ پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑ چکا ہے تو ڈاکٹر قدیر خان صاحب نے پاکستان کو بھی ایٹمی صلاحیت سے لیس کرنے کا پروگرام بنایا۔سابق وزیر اعظم ذو الققار علی بھٹو کے کہنے پر پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کی نومولود ایٹمی ٹیکنالوجی کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔آپ سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کے ما ہر تھے اور آپ یہ ٹیکنالوجی پاکستان لے کر آئے۔جس نے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے میں اہم کردار ادا کیا۔اس کے بعد آپ نے پاکستان میں ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جس نے پاکستان کو ایٹم بم کی صلاحیت دینے کے لیے دن رات کام کیا اور آج بھی اس ٹیم کے اراکین بہترین کام کررہے ہیں۔آپ کی اور آپ کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں پاکستان 8سال کے قلیل عرصے میں ایک ایٹمی طاقت بن گیا اور دنیا کو حیران کر دیا۔خود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی کہ جس ملک میں سلائی کی سوئی بھی نہیں بنتی اس ملک میں 8سال کے قلیل ترین عرصے،نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجود ایٹمی قوت حاصل کر لینا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔یہ 1984ء کی بات ہے جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالات کشیدہ تھے اس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے صدر ضیا الحق سے رابطہ کرکے کہا کہ ایک ہفتے کا وقت دیں تو ہم ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے تیار ہیں۔جس پر صدر ضیا الحق نے اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا تھا۔اسی طرح 1986ء میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران ڈاکٹر صاحب کی ایٹمی حملے کی دھمکی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو ٹالنے میں اہم کردار ادا کیا۔گویا کہ ڈاکٹر صاحب کے بنائے ہو ئے ہتھیار نے ہزاروں لاکھوں جانوں کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آج بھی کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ایٹم بم تو بن گیا تھا لیکن اس کی ڈلیوری کے لیے بھی نظام چاہیے تھا۔ڈاکٹر صاحب کو اس حوالے سے ذمہ داریاں سونپی گئیں اور ڈاکٹر صاحب نے نہایت ہی قلیل عرصے میں پاکستان میں ایک بہترین میزائل پروگرام بھی کھڑا کرکے دیا جس کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی ہتھیا روں کو استعمال کیا جاسکتا تھا۔ 53انجینئرز کو پاکستان لائے،کے آریل کے نام سے لیبز قائم کی گئی،ان لیبز میں 36فیکٹریوں کا قیام عمل میں لایا گیا یہ ڈاکٹر صاحب کی ناقابل فراموش خدمات ہیں۔
1998ء کا مئی کا مہینہ مجھے آج بھی یاد ہے جب ہندوستان نے اچانک 5ایٹمی دھماکے کرکے خود کو با قاعدہ ایک ایٹمی قوت ظاہر کیا اس کے بعد کے کچھ دن پاکستان کے عوام کے لیے نہایت ہی مشکل تھے،ایک عدم تحفظ کا احساس پید ہو چکا تھا سمجھا جا رہا تھا کہ بھارت کے پاس اب ایک ایسا ہتھیار ہے جو کہ پاکستان کے پاس نہیں ہے اور پاکستان کی سیکورٹی بھارت کے مقابلے میں کمزور پڑ چکی ہے۔لیکن جب 28مئی 1998 کو پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 6ایٹمی دھماکے کرکے جوہری ریاست ہونے کا اعلان کیا تو تمام منظر نامہ یکسر بدل کر رہ گیا۔اگرچہ کہ اس کے بعد کارگل کا معرکہ ضرور ہوا تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بڑی روایتی جنگ نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے دوران سابق صدر پرویزمشرف صاحب کے دور میں ان کے ساتھ کچھ ناپسندیدہ واقعات بھی پیش آئے،ان پر الزامات لگے،کرپشن کے بیہودہ الزامات بھی لگائے گئے جن سے وہ سرخرو ہو کر نکلے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ کسی عالمی سازش کا حصہ تھا جبکہ کچھ لوگو ں کے خیال میں یہ کو ئی اندرونی سازش ہی تھی بہر حال میں اس حوالے سے زیادہ بات نہیں کروں گا۔ڈاکٹر صاحب کی اپنی زندگی کے چند آخری سالوں میں ایک شکایت ریاست سے ضرور رہی کہ ریاست نے انھیں وہ عزت اور وہ پروٹوکول نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے،یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن یہ ہماری حکومتوں اور ہمارے ملک کا مسئلہ رہا ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کو وہ عزت اور احترام نہیں دیتے جس کے وہ حق دار ہوتے ہیں۔ اگرچہ کہ ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی گئی ہے لیکن اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم اور صدر سمیت اہم شخصیات کو جنازے میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔ ڈاکٹر قدیر خان نے پاکستان کے جو ہری پروگرام سے ریٹارمنٹ کے بعد سماجی شعبے قدم رکھا اور اس شعبے میں بھی ملک اور قوم کے لیے بیش بہا خدمات سر انجام دیں۔ان کی ذاتی دلچسپی اور کا وششوں سے ڈاکٹر اے کیو خان ٹرسٹ کے تحت ملک میں کئی تعلیمی ادارے،مساجد اور ویلفیئر اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔اور اسی ٹرسٹ کے تحت ڈاکٹر اے کیو خان کے نام سے ایک بڑا ہسپتال لاہور میں قائم کیا گیا جو کہ مریضوں کو بہترین سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب زندگی بھر دشمن کی نگاہوں میں کھٹکتے رہے اور اس حد تک کھٹکتے رہے کہ ان کے فوت ہونے کے بعد بھی اس حوالے سے کچھ آرٹیکلز لکھے جا رہے ہیں۔
ایک اسرائیلی اخبار نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلم دنیا کے واحد کامیاب ایٹمی سائنس دان تھے جو کہ موساد کے ہاتھوں قتل ہونے سے محفوظ رہے اور انھوں نے طبی رحلت فرمائی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کہ دشمن ہر وقت ان کی جان کی طاق میں تھا اور ان کی اتنے برسوں تک کامیابی سے حفاظت کا سہرا بھی پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو جاتا ہے اور ان کو اس کا کریڈیٹ دیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب بلا شبہ جو کام پاکستان کے لیے کر گئے ہیں اس نے بلا شبہ کروڑوں پاکستانیوں بلکہ کروڑوں بھارتیوں کی جانوں کو بھی محفوظ بنایا ہے۔اور ان کی پاکستان کے لیے خدمات اس وقت تک بھلائی نہیں جاسکتی۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

پاک چین دوستی اور بھارت کی چیخیں

خدا یار خان چنڑ
پاک چین اقتصادی راہداری (China-Pakistan Economic Corridor) یعنی سی پیک ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔سی پیک کا راستہ چین کے سنکیانگ سے ہوتا ہوا گلگت بلتستان میں پھر خیبرپختونخواہ کے مانسہرہ ایبٹ آباد سے گزرتا ہوا سیدھا بلوچستان میں داخل ہوتا ہے جہاں سے براستہ سڑک گوادر کی گہرے سمندر کی حامل بندرگاہ میں داخل ہوتا ہے۔
20 اپریل 2015کو چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران، مختلف شعبوں میں مفاہمت کی 51 یادداشتوں پر چین اور پاکستان کے درمیان منصوبوں پر دستخط ہوئے تھے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ علاقائی رابطوں کا ایک فریم ورک ہے۔ سی پیک سے نہ صرف چین اور پاکستان کو فائدہ ہوگا بلکہ ایران، افغانستان، ہندوستان، وسطی ایشیائی جمہوریہ اور خطے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سی پیک کوچین اورپاکستان کی سدا بہار سٹریٹیجک شراکت داری کو مستحکم کرنے اور مشترکہ تعمیر وترقی کی منازل طے کرنے کے سفر میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ منصوبہ ایک نئی جہت اور نئے وژن کے ساتھ پاک چین تعلقات کو جلا بخشنے کا موجب بن رہا ہے۔ سی پیک سے مجموعی طور پر پورا پاکستان استفادہ حاصل کرے گااور اس سے پاکستانی عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔سی پیک کے تحت دونوں دوست ممالک جامع حکمت عملی کے ساتھ تعمیر و ترقی اور متعدد بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہیں جس کے مثبت نتائج حاصل ہورہے ہیں اور چین اور پاکستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔
جب پاکستان اور چین نے سی پیک کے عظیم الّشان معاہدے کا اعلان کیا اور اس کے تحت 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کی خبر عام ہوئی تو پاکستان کے دشمنوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ دنیائے اسلام کا ایک ترقی یافتہ ملک جو سب سے زیادہ طاقتور فوج بھی رکھتا ہے، اتنی بڑی رقم کے ساتھ کیا قیامت برپا کرے گا، یہ سوچتے ہی بھارت کی نیند حرام ہو گئی۔ بھارت جو کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے سی پیک بننے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے کیونکہ وہ جانتاہے کہ اگر پاک چین اقتصادی راہداری بن گئی تو یہ خطہ دنیا کا خوشحال خطہ بن جائے گا جبکہ اس منصوبہ کی تکمیل سے مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی۔اس لئے وہ چاہتاہے کہ سی پیک کامنصوبہ کسی بھی صورت مکمل نہ ہونے پائے۔ سی پیک کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھانے والوں کے نام سے کون واقف نہیں، یہ وہ قوتیں ہیں جنھیں پاک چین تعلقات کبھی ہضم نہیں ہوتے اور خطے میں ان دو بڑی ریاستوں میں قومی، عالمی اور علاقائی امور میں دوطرفہ تعاون، خیر سگالی، مفاہمت اور رجائیت کا جو انداز نظر ہے وہ عالمی امن کے مشترکہ مقاصد سے جڑا ہوا ہے اور سی پیک پاک چین اقتصادی تعاون کا وہ منصوبہ ہے جسے خطے میں ایک گیم چینجر کی حیثیت حاصل ہے جب کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پاکستان نے جتنی قربانیاں دی ہیں اس کا چین ایک عینی شاہد بھی ہے۔
ایک بڑے اور منظم منصوبے کے طور پر سی پیک کی تعمیر کا سفر2017-2030پر محیط ہے۔ سی پیک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے چین اور پاکستان کی حکومتوں، کمپنیوں اور تمام سماجی شعبوں کی مشترکہ اور مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کی تعمیر کے عمل میں دونوں فریقوں نے سائنسی منصوبہ بندی کے اصولوں، تسلسل سے عمل درآمد، مشاورت کے ذریعے اتفاق رائے، باہمی فائدے اور وِن-وِن ریزلٹس کے ساتھ ساتھ معیار اور حفاظت کو یقینی بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ سی پیک اقتصادی راہداری خطے کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بھرپور موقع فراہم کریگی۔ اس کے دو طرفہ فوائد سے کہیں زیادہ یہ پاکستان اور چین کے عوام کے ساتھ ساتھ پورے خطے کی عوام کیلئے بھی امن اور خوشحالی کی راہداری ہے۔ یہ قوموں کو ایک دوسرے کے نزدیک لائے گی اور بہتر رابطے کے ذریعے معاشی تبدیلی لائے گی۔
بھارت کا المیہ یہ ہے کہ اسے پاک چین دوستی میں بہتری اور خطے کے عوام کی اقتصادی اور سماجی ترقی سے شدید مخاصمت ہے۔ بھارت کی غیرجمہوری سوچ ایک ہولناک فسطائی اور انسانی اقدار سے متصادم ہے، وہ سیکولرزم اور جمہوری سوچ کے بنیادی آدرش سے بھی جنگ آزما ہے اور خطے کو ایک خطرناک جنگجوئی کی آگ میں جھونکے پر تلا ہوا ہے، اسے یہ بھی ادراک نہیں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جو فرنٹ لائن پر دہشت گردی کے خلاف اپنی توانائیاں صرف کرتا رہا۔وہ جنگ نہیں امن کے قیام میں دلچسپی رکھتا ہے اور چین پاکستان کے اس موقف کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ عالمی امن، علاقائی ترقی اور عوام کی خوشحالی اور بہتر مستقبل کے خوابوں کی تعبیر دلانے میں بھی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا۔ نریندر مودی کو یہی چیز پسند نہیں، اسے جنگی جنون، استعمار پسندی اور مسلمانوں سے دشمنی نے مسلمہ جمہوری سوچ سے منحرف کر دیا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ چین اور پاکستان عالمی اقتصادی کوششوں میں ایک متفقہ موقف کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ سی پیک خطے کے عوام کی معاشی ترقی کے خوابوں کی تکمیل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس وقت ہمارا دشمن ہماری قوم کو سیاسی،فرقہ وارانہ اور لسانیت و برادری ازم کی بنیاد پر گروہوں میں تقسیم کرنا چاہ رہاہیے۔ ایسے میں پوری قوم کو بالعموم اور ملک کی عسکری و سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو بالخصوص ایسی ناپاک سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے متحد و متفق ہو کر کوشاں رہنا چاہیے اور ایسے پراپیگنڈوں سے خصوصا ہوشیار رہنا چاہیے جو کہ سی پیک منصوبوں کے خلاف کیے جائیں۔ پاکستان اور چائنا کو بھی سی پیک کے خلاف لاحق خطرات کے ازالے کیلئے پہلے سے بھی زیادہ عقل مندی، ہوشیاری اور فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی سیکورٹی کے لیے سخت اقدام کرنے چاہئیں تمام منصوبہ جات سائنٹفک بنیادوں پر مکمل ہوں اور ان کی تکمیل جتنی جلد ممکن ہو سکے کی جائے تاکہ دشمن کوئی اوچھا وار نہ کر سکے۔ پوری قوم اس منصوبہ کی جلد تکمیل کیلئے دعا گو ہے اوراس کی تکمیل تک ازلی دشمن بھارت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی رہے۔ گی بھارت کو پاکستان اور چین دوستی پر بڑی تکلیف ہے سی پیک منصوبہ کے حوالہ سے پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے بہت جلد پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا جس کی وجہ سے بھارت کی نیندیں اڑی ہوئی ہے کیوں کہ پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا اسی لئے آے دن پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے ہر میدان میں بھارت کو منہ کی کھانا پڑ رہی ہے پاکستان کو تنہا کرتے کرتے آج بھارت خود تنہا ہو گیا ہے بھارت کے تمام گھٹیا حرکتیں بے نقاب ہوگئی ہیں۔ دوسروں کے لیے جو گڑھے کھودے تھے بھارت خود ان گڑھوں میں گر رہا ہے اور پاکستان کا معیار عالمی دنیا میں بلند ہو رہا ہے اس بات کو عالمی دنیا بھی تسلیم کر رہی ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

راوی چَین نہیں لکھ رہا

ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان کی درآمدات ایک بار پھر قابو سے باہر ہو رہی ہیں اور اندازوں کے بر عکس توقع کی جا رہی ہے کہ رواں برس پاکستان کی درآمدات 75ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر سکتی ہیں۔یہ پاکستان کے لیے یقینا ایک تشویش ناک صورتحال ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی معیشت ایک بار اوور ہیٹ کررہی ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔پاکستان ایک بار پھر بیلنس آف پیمنٹ بحران کی جانب بڑھ رہا ہے جو کہ نہایت ہی بد قسمتی کی بات ہے۔میں اس حوالے سے پاکستان کی درآمدی اشیا ء کی فہرست دیکھ رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان میں اس وقت بہت بڑی تعداد میں گاڑیاں درآمد کی جا رہی ہیں جس کے باعث درآمدی بل میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے علاوہ دیگر لگثری آئٹمز کے ساتھ ساتھ عالمی منڈیوں میں بڑھتی ہو ئی تیل کی قیمتیں بھی پاکستان کے درآمدی بل میں اضافے کی وجہ ہیں۔
آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ رواں سال پاکستان کا کرنٹ اکا ونٹ خسارہ 6سے 9ارب ڈالر تک رہے گا۔لیکن اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کرنٹ اکا ونٹ خسارہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔اس صورتحال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانا بھی مناسب معلوم نہیں ہو تا،پاکستان کی معیشت کے بنیادی ڈھانچے میں ایسی خرابیاں موجود ہیں جن کو دور کیے بغیر پاکستان کی معیشت درست سمت پر گامزن نہیں ہو سکتی ہے۔حکومت نے گاڑیوں کی فنانسنگ کے لیے تو مراعات دے رکھی ہیں اور 360ارب روپے بینکوں سے گا ڑیوں کی فنانسگ کے لیے استعمال کیے گئے ہیں، لیکن میرے خیال میں پاکستان کی صنعت کو ان مراعات کی زیادہ ضرورت ہے،پاکستان کی صنعتیں عالمی سطح پر زیادہ مساقبت نہیں رکھتی ہیں جو کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی بڑی وجہ ہے پاکستان میں توانائی اور را میٹریل کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ پاکستان کی صنعتیں کسی صورت میں بھی چین،ہندوستان اور اب تو بنگلہ دیش کی صنعت سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ر ہیں۔حکومت پاکستان کو، اور میں تو سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ بار بار پالیسیاں تبدیل نہ ہو ں،پاکستان کو اپنے تمام تر وسائل پیدا واری صلاحیت بڑھانے پر صرف کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت فوری طور پر اپنے غیر پیدا واری اخراجات کم سے کم سطح پر لائے اور تمام وسائل کا رخ برآمدات بڑھانے کی جانب موڑے۔
پاکستان جس حجم کا ملک ہے اور جتنی پاکستان کی آبادی ہے پاکستان کی برآمدات اس وقت کم از کم 60سے 70ارب ڈالر تک ہونی چاہیے تھیں۔جو کہ ابھی 25ارب ڈالر کی سطح پر ہیں۔میں یہاں سنگاپور جیسے ملک کی مثال دیتا ہوں،سنگاپور کی کل آبادی اور کل رقبہ اسلام آباد شہر سے زیادہ نہیں ہو گا لیکن ان کی برآمدات 150ارب امریکی ڈالر ہیں اور سنگاپور کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو بھی سنگاپور کی طرز پر اپنی برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کچھ شعبے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں،سی پیک منصوبے کے تحت بننے والے ایس ای زیز اس حوالے سے میری نظر میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں،لیکن بد قسمتی سے ابھی تک یہ خصوصی اقتصادی زونز ابھی تک فعال نہیں ہو سکے۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جلد از جلد ان اقتصادی زونز کو فعال کیا جائے اور برآمدی صنعتوں کو فعال کیا جائے تاکہ پاکستان کی برآمدات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آئے۔اس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی نے گزشتہ چند سال کے دوران برآمدات کے حوالے سے کافی اچھی کا ر کردگی کا مظاہر ہ کیا ہے حکومت کو فوری طور پر آئی ٹی کے شعبے کو مراعات دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ شعبہ تیز ی کے ساتھ پاکستان کی برآمدات بڑھانے کا باعث بنے۔مالی سال 2019ء کے دوران پاکستان کی آٹی کی درآمدات 1.44ارب ڈالر رہیں تھیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران 47فیصد اضافے کے ساتھ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ٹی کی برآمدات نے 2 ارب ڈالر کا سنگ میل عبور کیا۔رواں سال ہماری پوری کوشش ہو نی چاہیے کہ پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 4ارب امریکی ڈالر کا ہدف عبور کر جائیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹیکسٹائل کے روایتی شعبے پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 15ارب ڈالر رہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 20ارب ڈالر تک رہیں گی جو کہ یقینا گزشتہ سال کی نسبت ایک بڑا اضافہ ہو گا لیکن اس وقت پاکستان کی درآمدات کی جو صورتحال ہے پاکستان کو چاہیے کہ رواں سال ٹیکسٹائل برآمدات کے ہدف میں مزید اضافے کی کو شش کرے۔ٹیکسٹائل کے شعبے کو کپاس کی کمی کاسامنا ہے اور اگرچہ کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان میں کپاس کی پیدا وار میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔لیکن موجودہ صورتحال میں پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے اور اس حوالے سے ٹیکسٹائل صنعت کا مطالبہ سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے حکومت نے انہیں ڈیوٹی فری کپاس درآمد کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے،میری اس سلسلے میں حکومت سے یہی اپیل ہو گی کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو فوری طور پر ڈیوٹی فری کپاس کی درآمدت کی اجازت دی جائے ہر وہ اقدام کیا جائے جس سے کہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے میں مدد مل سکے۔حکومت کو ہر صورت اپنے اخراجات کم کرنا ہو ں گے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنا ہو گا۔اپنی پیدا وار اور بر آمدات میں جلد از جلد نمایاں اضافہ ہی پاکستان کے مسائل کو حل کر سکتا ہے،اللہ نہ کرے پاکستان ایک بار پھر بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کا شکار ہو جائے لیکن ابھی جو آثار ہیں وہ یہی بتا رہے ہیں کہ را وی چین نہیں لکھ رہا ہے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭

ناقابل تسخیردفاعی نظام

اعجاز الحق
اللہ رب العالمین! نوحہ پڑھوں یا مرثیہ لکھوں، قبلہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے انتقال کی خبر نے اندر سے توڑ کر رکھ دیاہے۔ اپنے والد گرامی صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے بعد مجھے اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال نے توڑ دیا تھا اور اب ڈاکٹر صاحب کی موت کا صدمہ سہنا پڑا ہے۔ یا اللہ مجھے اور پاکستانی قوم کو ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب جیسا نعم البدل عطا فرما، آمین۔ یہ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان فانی دنیا سے رخصت ہوگئے، ہمارا ایمان ہے کہ موت بر حق ہے اور اللہ کے فیصلوں میں کوئی انسان رکاوٹ نہیں بن سکتا، مگر جانے والوں کا دکھ بھی بہت ہے، اور اطمینان بھی کہ وہ اب بارگاہِ رب العزت میں حاضر ہو گئے ہیں۔ اپنی زندگی میں وہ اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں رہائش پذیر تھے۔
فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔60کی دہائی میں وہ اعلیٰ تعلیم کیلئے یورپ چلے گئے جہاں انہوں نے 15برس میں برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، نیدرلینڈکی ڈیلیفٹ یونیورسٹی اور بلجیم کی آف لیوون یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ ہالینڈ سے ماسٹرآف سائنس جبکہ بلجیم سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی سند پائی۔ مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شرکت کی اور اپنی ان تھک محنت اور بے لوث جذبے سے قلیل مدت میں یورینیم افزودگی کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جو ناممکن نظر آتا تھا،ڈاکٹر صاحب کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے اعتراف میں انہیں دو مرتبہ نشان امتیاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز بھی دیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلاشبہ پاکستانی قوم کا سرمایہ افتخار تھے، بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کورونا کا شکار ہوئے تھے، ویکسین کی دو خوراکیں لگوا چکے تھے،پھر بھی موذی وائرس حملہ آور ہوا کئی دن ہسپتال میں رہے،انہوں نے بستر علالت سے قوم کے نام ایک اپیل بھی جاری کر دی تھی، جس میں کہا گیا تھا:”ہم سب کو اللہ رب العزت نے پیدا کیا ہے،اور ہم سب کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ خالق حقیقی کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔مَیں چند دِنوں سے سخت بیمار ہوں،علاج جاری ہے۔گناہ گار ہوں۔ دُعائے مغفرت کرتا رہتا ہوں، آپ سب سے میری درخواست ہے کہ میری صحت یابی کی دُعا کریں۔میری وفات کے بعد پورے پاکستان کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی کوچے میں آپ نے میرے لیے نمازِ جنازہ پڑھنا ہے، اور دُعائے مغفرت کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے اسی پیغام میں کہا تھا:”مَیں نے دِل و جان اور خون پسینے سے ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ جو کہا گیا اس پر عمل کیا۔کوئی غلط کام نہیں کیا، اور نہ ہی میرے محب وطن ساتھیوں نے کوئی غلط کام کیا۔میرا اللہ میرا گواہ ہے۔مَیں جہاں چاہتا چلا جاتا، کھرب پتی ہو جاتا۔ مجھے پاکستان عزیز تھا۔آپ عزیز تھے۔آپ کی حفاظت و سلامتی میرا فرض تھا۔مَیں دسمبر1971ء کو کبھی نہ بھلا سکا“
ہم سب ان کے لیے دُعا گو رہیں گے آج کا سچ یہی ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت اور دفاع ناقابل تسخیر بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر کے انتقال پر پوری قوم سوگوار ہے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھٹو صاحب کے دل میں یہ بات آئی کہ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہونا چاہیے، جس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ مل کر پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا، بھارت نے 1974 میں ایٹمی تجربہ کیا تو ہالینڈ میں موجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہونا چاہتا ہوں، بھٹو نے انہیں فوری طور پر پاکستان آکر ملنے کی دعوت دی۔یوں دسمبر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ آغا شاہی کے ہمراہ ڈاکٹر قدیر خان سے ملاقات کی، اس کے بعد وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک ہوگئے۔ان دنوں اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر منیر احمد خان تھے، جنہیں ہٹا کر ڈاکٹر اے کیو خان کو اس کا سربراہ مقرر کردیا گیاکچھ عرصہ بعد جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا تاہم وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز پاکستان کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں مصروف رہے۔
ڈاکٹر قدیر خان نے بہت نشیب و فراز دیکھے، ڈاکٹر خان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کر دیا تھاڈاکٹر قدیر خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹری زیر تعمیر تھی تو وہ سہالہ میں پائلٹ پروجیکٹ چلارہے تھے اور اس وقت فرانسیسی فرسٹ سیکرٹری فوکو کہوٹہ کے ممنوعہ علاقے میں بغیر اجازت گھس آئے تھے جس پر ان کی مارکٹائی ہوئی اور پتہ چلا کہ وہ سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے۔ انہوں نے تہران میں اپنے سی آئی اے باس کو لکھا کہ ’کہوٹہ میں کچھ عجیب و غریب ہو رہا ہے، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ وہ بھٹو دور میں ایک بار مایوس ہوئے اور وزیر اعظم کو خط لکھا کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا لہذا انہیں واپس جانے کی اجازت دی جائے، بھٹو نے یہ خط اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو بھجوادیا تھا یہ غالباً1976 کی بات ہے کہ جب ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھا اور اپنے تحفظات بتائے کہ کام سست رفتاری سے ہو رہا ہے، حتیٰ کہ خط میں اس قدر مایوسی کا ظاہر کیا اور کہا کہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں اس خط کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آغاشاہی، امتیاز احمد، اے اجی این قاضی، غلام اسحق خان، کے علاوہ سیکرٹری دفاع اور دیگر اہم افراد کو ہدائت کی کہ وہ ڈاکٹر قدیر خان کے تحفظات سنیں اور انہیں دور کرنے کی ہر ممکن عملی کوشش کی جائے۔
بہر حال متعدد ملاقاتوں میں یہ بات طے ہوگئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک خود مختار ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کریں گے اور کوئی مداخلت نہیں ہوگی، ایک ملاقات میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق سے ان کی ایک خصوصی ملاقات ہوئی اوراس ملاقات کے بعد جنرل صاحب نے سینئر آرمی آفیسر زاہد علی اکبر کو ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجا، یوں ان کے کام میں نکھار بھی آگیا اور تحفظات بھی دور ہوئے اور دفاع پاکستان کی کہانی آگے بڑھنے لگی۔ جنرل ضیا الحق نے اسے پایہئ تکمیل تک پہنچایا، ان کے دور میں ایٹم بم تیار ہوچکا تھا، نواز شریف کے دور میں اس کا دھماکہ ہوا 11 مئی 1998 میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد 28 مئی کو بلوچستان میں چاغی کے مقام پر بھارت کو چھ ایٹمی دھماکے کرکے جواب دیا گیا۔
31 مئی 1976ء میں انہوں نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی اس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل محمدضیاء الحق شہید نے تبدیل کرکے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ڈاکٹر قدیر خان کو زندگی میں 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔ 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی ان کو عطا کیا گیا تھا۔ڈاکٹر قدیر خان نے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے. اللہ ان کی قبر نور سے بھر دے، آمین
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭