فیصل رشید لہڑی
قومیں اپنے عروج کی کہانی کس طرح تحریر کرتی ہیں۔اور عروج کی کہانی کے بعد کون سے کردار ہیں جو زوال کا سبب بنتے ہیں۔افق کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والی قیادت کسی بھی قوم کو بام عروج تک لے جاتی ہے،اور آنکھوں کے سامنے دیوار پر لکھی ہوئی تحریر سے نا بلد قیادت کسی بھی قوم کو بے بسی،شرمندگی اور تنزلی کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ چاہے کسی قوم کے عروج کی داستان رقم ہو رہی ہو یا پھر کسی قوم کے زوال کی کہانی ہو۔روز اول سے عروج و زوال کے کردار اور ان کے کارنامے ایک جیسے ہیں،اور تاابد ایسا ہی ہوتا رہے گا۔تاریخ کا بے رحم پہیہ اپنے دامن میں ایسے ہی داستانیں سمیٹتا رہے گا۔ہم پاکستانیوں کو فی الحال چونکہ عروج کی طرف سفر نصیب ہی نہیں ہو رہا،تو پھر عروج کے لوازمات پر بحث کرنے سے کیا حاصل؟ہاں مگر یہ بات ہو سکتی ہے،کہ زوال کے اسباب کیا ہیں؟بے شمار اسباب ہیں جناب بے شمار اسباب۔مگر جس ایک سبب پر آج بات کرنا چاہوں گا،وہ ہے ہمارا خوشامدانہ رویہ۔ہر طاقتور اور دولتمند کی خوشامد کرنا ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے۔خوشامد ہمارا قومی نعرہ بن چکی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ جو اجزائے تر کیبی کسی ہجوم کو قوم بناتے ہیں،ہم میں موجود ہیں کہ نہیں،بہر حال ہم خود کو ایک قوم بلکہ زندہ قوم سمجھتے ہیں۔لہذا ہم نے ہر قوم کی طرح کچھ اشیاء کو قومی علامت یا نشان کے طور پر بھی اپنا رکھا ہے۔جیسا کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے۔قومی پرندہ چکور ہے۔قومی پھل کا درجہ آم کو حاصل ہے۔کھانے میں نہاری ہمارا قومی کھانا اور پینے میں گنے کا رس ہمارا قومی مشروب ہے۔میٹھے میں گلاب جامن کو ہم نے قومی مٹھائی قرار دیا ہے۔ قومی لباس شلوار قمیض ہے۔یہ فہرست لمبی ہو سکتی ہے،مگر ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ چیزوں کا ہماری عملی زندگیوں میں کوئی خاص کردار نہیں۔تاہم مقام حیرت ہے کہ اس فہرست میں اس چیز کا ذکر تک نہیں جس میں ہمارا کوئی مقابل نہیں دور تک۔جی ہاں میرا اشارہ خوشامد کی طرف ہے۔اگر آپ پاکستانی نظام پر باریک بینی سے نظر ڈالیں،تو جو چیز آپ کو سب سے زیادہ نظر آئے گی وہ خوشامد ہے۔آپ رات کو ٹی۔وی چینلز پر ہونے والے ٹاک شوز ملاحظہ فرمائیں،آپ کو سمجھ آئے گی کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی نہیں،خوشامد ہے۔ہاکی میں ہماری مہارت قصہ پارینہ بن چکی،مگر خوشامد میں ہمارے جوہر دوام کی طرف رواں دواں ہیں۔خوشامدی انسان کو خوشامد کر کے جو پھل ملتا ہے،آم کا ذائقہ اس کے قریب بھی نہیں جا سکتا۔چنبیلی کی خوشبو بھی اچھی،مگر خوشامد کی خوشبو کرنے اور کروانے والے دونوں کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ خوشامد بری بلا ہے،یہ جھوٹ اور دھوکہ ہوتا ہے،مگر پھر بھی یہ کم بخت مزا دیتی ہے۔گلاب جامن میں وہ مزا کہاں جو جھوٹی تعریف میں ہے۔خوشامد کا راج حکومتی ایوانوں،سرکاری و غیر سرکاری دفاتر،ہماری تقریوں اور تحریروں میں،چھوٹی سطح سے لے کر اعلی سطح تک ہر جگہ قائم ہے۔ہمارے نظام میں جس نے بھی خوشامد کا سہارا لیا،گوہر مراد پا لیا۔اردو ہماری قومی زبان ہے،مگر جس قدر خوشامد ہماری زبانوں سے نکلتی ہے،خوشامد کو ہماری قومی زبان ہونا چاہیے۔
ہمارا قومی نصب العین،ایمان،اتحاد،تنظیم ہے۔ اگر ہم اس نصب العین کو مرکز مان کر محنت کرتے تو زوال کی اس انتہا کا شکار نہ ہوتے۔قائد اعظم کی وفات کے بعد آج تک ہمارا قومی نصب العین خوشامد ہے۔ اعلیٰ ترین اور حساس ترین عہدوں پر وہ لوگ براجمان ہوتے ہیں جن کی واحد صلاحیت خوشامد ہے۔وہ ریاست سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔وہ شاہ کی خوشنودی کے لیے کوے کو سفید،جہالت کو ہنر،کرپشن کو خوبی ثابت کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں اب خوشامد ایک برائی کی بجائے ایک بہترین صلاحیت اور ہنر ہے۔اگر کسی میں صلاحیتوں کی کمی ہے مگر خوشامد کا ماہر ہے،تو تر قی کے دروازے اس کے لیے کھلے ہیں۔تاہم اگر آپ با صلاحیت ہیں اور خوشامد کرنا نہیں جانتے،اور آپ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں،تو آپ پاکستان سے باہر تشریف لے جائیں۔آپ جیسے لوگوں کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔بے شمار ڈاکٹرز،انجنیئرز اور بزنس مین پاکستان سے باہر جا چکے ہیں،کیونکہ وہ خوشامد نہیں کرتے تھے،شاہ کی بجائے پاکستان اور پاکستانیوں کے وفادار بننے کی کوشش کرتے تھے،لہٰذا ہم نے ان کو اتنا تنگ کیا کہ اب وہ پاکستان سے باہر اپنی بہترین صلاحیتوں سے ان ممالک کو فیض یاب کر رہے ہیں۔خوشامد ہمارے تمام قومی ادارے کھا گئی ہے۔ہمارے حکمران اور طاقتور ترین عہدوں پر فائز لوگ کسی بھی ایسی آواز کو برداشت نہیں کر سکتے،جو انھیں بتائے کہ جناب آپ کی وجہ سے ملک معاشی اور اخلاقی طور پر گڑھے میں گر چکا ہے۔ امید کے تمام دئیے بجھ چکے ہیں۔ملک تقریباً آسیب زدہ ہو چکا ہے۔مگر میں یہ کیا لکھ رہا ہوں۔نہیں جناب،آپ کا اقبال بلند ہو،”عقل کے اندھوں“کے علاوہ سب کو نظر آ رہا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ہر طرف خوشحالی ہے۔کرپشن ختم ہو چکی ہے۔امن کا دوردورہ ہے۔ عوام ہر وقت آپ کو دعائیں دیتی ہے۔آپ بے مثال حکمران ہیں،آپ باکمال لوگ ہیں۔
(کالم نگارمعاشرتی،سماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
آبادی ہی سب سے بڑا مسئلہ
شفقت اللہ مشتاق
کسی بھی ملک کے لئے اس کی افرادی قوت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ہر چیز کا ایک تناسب ہوتا ہے اور اگر وہ تناسب بگڑ جائے تو فائدہ نقصان میں اور نقصان تباہی و بربادی کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ بظاہرشادی کا بنیادی مقصد ارتقائے بنی نوع انسان ہی ہے۔ ویسے جوڑا بننا انسانی جبلت میں بھی ہے۔ بہرحال شادی کی صورت میں اگر شادی سے متصل معاملات ذوق شوق سے طے کئے جائیں تو بچوں سے ہر گھر کا آنگن بھر جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جب کچھ زیادہ ہی طول پکڑتا ہے تو آبادی بڑھنے کا شور شرابا مچ جاتا ہے۔ سکھ کی آگ کا جب مچ مچتا ہے تو اس کے مقابلے میں مسائل کی آگ کا مچ ویسے ہی دم توڑ جاتا ہے۔ ہاں البتہ جب مسائل کو ہوشمندی اور حکمت سے حل نہیں کیا جاتا اس ساری صورتحال کی شدت کی بدولت تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں وسائل مسائل میں بدل جاتے ہیں۔ زمین تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ آکسیجن نفوس کے تناسب کے حساب سے کم ہو جاتی ہے۔ پانی بکثرت استعمال کی وجہ سے خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بھائی بھائی کے گریبان پکڑ لیتا ہے۔ دوستوں کے درمیان حساب شروع ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں،چوکوں اور چوراہوں پر گاڑیاں آپس میں ٹکراتی ہیں۔
یہ وہ ساری صورتحال تھی جس کا واقفان حال کو ادراک بہت ہی پہلے ہوگیا تھا اور انہوں نے بروقت آبادی کنٹرول کرنے کی بات کی تھی لیکن بدقسمتی کہ ہمارے ارباب اختیار نیآبادی کو منصوبہ بندی سے روکنے کی پالیسی بنا دی اور میرے جیسے لوگوں نے منصوبہ بندی کو نس بندی سمجھ کر کمر کس لی اور پھر اس کے بعد ہم نے اپنی جہد مسلسل کی بدولت کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں منصوبہ بندی سے کچھ نہیں ہونے دیا۔ بڑے بڑے منصوبے منصوبہ بندی کے بغیر ہی بنانے شروع کر دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ منصوبے تو آئی ایم ایف کی مدد سے مکمل ہو گئے اور کچھ آج تک نامکمل چلے آرہے ہیں۔ جہاں تک آبادی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے کا تعلق تھا۔ اس کی اہمیت اولا مشترکہ خاندانی نظام نے ہم پر واضح ہی نہ ہونے دی۔ ایک کمائے اور بے شمار کھائیں آخر مسئلہ کیا ہے۔ اولاد اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ دوئم علمائے کرام نے اس منصوبے کے پیچھے جو فکر تھی اس کو کھل کھلا کر عوام کے سامنے رکھ دیا اور وہ فکر ان کے نزدیک یہ تھی کہ کافر چاہتے ہیں کہ ہم عددی طور پر کم ہو جائیں اور تیسرا یہ کہ ہم جذباتی لوگ ہیں اور آبادی بڑھانے میں تو جذباتیت کو بہت ہی عمل دخل ہے۔ اب جبکہ مشترکہ خاندانی نظام دم توڑ چکا ہے۔ کثرت آبادی کی وجہ سے زمین سکڑ چکی ہے۔ اول تو بجلی اور گیس ناکافی ہو گئی ہیں اور جو ہے وہ بھی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہے۔ باہر کا پیسہ آنے سے پہلے ہی خرچ ہو جاتا ہے سود واپس کرنے کے مزید باہر سے پیسہ منگوایا جاتا ہے۔ ہسپتال، سکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ امیر آبادی کی کوالٹی آف لائف تو شاید اچھی ہوگئی ہو گی لیکن کوالٹی آف ہیلتھ ناگفتہ بہ۔ باپ اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے اسے کروڑوں روپے کی ضرورت ہے اور ابھی اور بیٹیاں اور بیٹے پیچھے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ آبادی بڑھانے کا ذوق شوق بلکہ جنون تھا جس کی وجہ سے آج ہم ترقی کے سفر میں پیچھے بلکہ بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر اعدادوشمار کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کی کل آبادی 22کروڑ 94لاکھ 88ہزار 9سو چرانوے ہو چکی ہے اور آبادی بڑھنے سلسلہ آخری خبریں آنے تک جاری و ساری ہے اور اس پر کوویڈ کا بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ جہاں تک نظر دوڑائی جائے لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں شہروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اور دیہات شہروں کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں آلودگی نے انسانوں کا جینا دو بھر کردیا ہے۔
مختصراً چہار سو مایوسی اور پریشانی کے سائے منڈلا رہے ہیں اور آبادی کے اس خوفناک بند کمروں کو “چابی” سے بھی ہم اس لئے نہیں کھول سکے۔ مذکورہ صورتحال پر سوائے لفظی شور شرابے کے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ہم نے پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ تو بنا دیئے ہیں لیکن ہمارا ویلفیئر سٹیٹ کا خواب شاید ان حالات میں کبھی بھی پورا نہیں ہوگا۔
ہم جذباتی قوم ہیں جو کہ منفی پہلوؤں کے فروغ کے لئے زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں اور اثبات کے فروغ کے لئے مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ صیاد کا کام آسان کرنے کا ہم نے ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے۔ ویسے صیاد بھی ہم خود ہی ہیں اور شکار بھی ہم خود ہی ہیں۔ تخلیق کار بھی خود ہی ہیں اور شہکار بھی خود ہی ہیں۔ کارآمد بھی ہیں اور بے کار بھی خود ہی ہیں کاش ہم اپنے نیچے دیکھ کر چلتے تو زمینی حقائق ہم پر آشکار ہوجاتے اور ہم یوں بے بس اور لاچار نہ ہوتے۔ ہمیں معلوم ہو جاتا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ آج تو ہم کہیں بھی نہیں جارہے ہم جہاں آج سے بیس سال پہلے تھے وہیں کھڑے ہیں اور اپنی افرادی قوت بڑھا کر وسائل کو مسائل میں تبدیل کررہے ہیں۔ غوروفکر اور سوچ بچار ہم نے کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ویسے ہم چین کے بڑے ہی گہرے دوست ہیں لیکن ان کی کامیابی کے پیچھے جو راز مضمر ہے اس کا سراغ لگانا ہمارے لئے اس لئے ممکن نہیں کیونکہ ہم اغیار سے مستفید ہونا باعث شرم سمجھتے ہیں ویسے بھی آبادی کو کم کرنے کے طریقے بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں اور اس قسم کی آگاہی مہم بھی باعث عار ہے۔ کاش ہم چند سال ان ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ دیتے۔ اس سلسلے میں بنائے گئے سارے ادارے اپنا اپنا فعال کردار ادا کرتے۔ سیاسی راہنما آبادی کے اس ہڑ کا بر وقت ادراک کرتے اور اس کے تدارک کے لئے جامع پالیسیاں بنائی جاتیں۔ باقاعدہ آگاہی مہم کا آغاز کیا جاتا اور جملہ مرد وزن کو آبادی کے کنٹرول کرنے کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا جاتا مزید یہ کہ ریاست اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے قانون سازی کرتی۔
(کالم نگار سیکرٹری ٹیکسز ریونیو بورڈ پنجاب ہیں)
٭……٭……٭
چین‘ روس معاہدہ
ملک منظور احمد
جنگ ِعظیم دوئم اس صدی یا پھر کہنا چاہیے کہ گزشتہ 100سال کا سب سے اہم ترین تاریخی موڑ تھا۔ اس جنگ میں ایک طرف امریکہ، انگلستان اور ان کے اتحادی تھے تو دوسری جانب جرمنی، جاپان اور ان کے اتحادی تھے، دونوں فریقین آمنے سامنے تھے اور جنگ دنیا پر بالادستی کی تھی۔ یہ بات واضح اس جنگ کے دوران ہی ہو چکی تھی کہ اس جنگ کا فاتح آنے والا طویل عرصے تک اس دنیا میں اپنی بالادستی قائم رکھے گا اور اسی کے حکم کے تحت دنیا کے معاملات سرانجام پائیں گے۔ اسی کو نیو ورلڈ آرڈر بھی کہا گیا۔ اس جنگ میں فتح امریکہ، انگلستان اور ان کے اتحادیوں کی ہوئی لیکن اس جنگ کے نتیجے میں انگلستان سمیت یورپ میں بڑی تباہی آئی جس کے باعث ان کی معیشتیں بھی تباہ ہوئیں لیکن امریکہ کی معیشت اس جنگ میں شامل ہونے کے باوجود اس تباہی سے بچی رہی، اسی لیے اس جنگ کے خاتمے پر امریکہ کو دنیا بھر پر معاشی، اقتصادی اور دفاعی برتری حاصل ہوگئی۔
امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس کے پاس خزانہ تھا اور وہ اس پوزیشن میں تھا کہ تباہ حال دنیا کی مدد کرتا۔ امریکہ نے اس جنگ کے بعد مارشل پلان کے ذریعے تباہ حال یورپ کو پھر سے بنانے میں مدد دی اور اس طرح یورپ سمیت پوری دنیا ہی امریکی معاشی اور اقتصادی تسلط میں چلی گئی اور امریکہ نے اس تقریباً 75سال تک دنیا پر شرکت غیر حکمرانی کی۔ اس تمام کے عرصے کے دوران ایک دور کے اندر سپر پاور کے طور پر سویت یونین موجود تھا جس نے امریکہ کو مختلف مواقع پر چیلنج کیا تھا لیکن پھر سویت یونین کے سرد جنگ میں شکست کھانے کے بعد سے امریکہ کو دنیا میں سول سپرپاور کا درجہ حاصل ہوا اور امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر دنیا پر اپنا حکم چلایا اور اپنی مرضی نافذ کی۔ کبھی انسانی حقوق کے نام پر کسی ملک پر قبضہ کیا اور کبھی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے نام پر کسی ملک کو تباہ کیا گیا لیکن اب ایک طویل عرصے کے بعد دنیا ایک مرتبہ پھر ایک ملٹی پولر ورلڈ بلکہ ایک نئی سرد جنگ کی جانب بھی بڑھ رہی ہے۔ چین، روس، ترکی اور ایران سمیت کئی ایسی طاقتیں ابھر رہی ہیں جوکہ امریکہ اور اس کے نظام اور ان کے مفادات کو برملا چیلنج کررہی ہیں۔ یہ ایک بدلتی ہوئی دنیا ہے جوکہ ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہوچکی ہے، جہاں پر دونوں فریقین میں سے کسی بھی ایک کی جانب سے ذرا سی بھی غلطی جنگ کی چنگاری بھڑکا سکتی ہے لیکن اس سلسلے میں حال ہی میں ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے۔
چین اور روس نے ایک نیا معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے کے تحت چین اور روس دونوں ملکر دنیا میں ایک منصفانہ ورلڈ آرڈر کے نفاذ کیلئے کام کریں گے۔ تجارت کیلئے مقامی کرنسیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور ہر شعبے میں تعاون کو بڑھایا جائے گا۔ کیا اس معاہدے کو باقاعدہ طور پر سرد جنگ کا اعلان قرار دیا جاسکتا ہے، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس کا جواب شاید ہمیں اتنی جلدی نہیں ملے گا۔ اگر اس حوالے سے پاکستان کی ہی بات کرلی جائے تو پاکستان کیلئے بھی یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور پاکستان کو بھی اس صورتحال میں سوچھ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ بظاہر پاکستان چین کے بہت قریب ہے لیکن امریکہ سے بھی پاکستان نے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار نہیں کی ہے۔ گزشتہ روز امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سے پاک، چین تعلقات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ کسی بھی ملک کیلئے امریکہ یا چین میں سے ایک ملک کو چننے کی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی امریکہ اس حوالے سے کسی ملک کو کچھ کہتا ہے لیکن حقیقت میں امریکی اقدامات اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان بھی بدلتی ہوئی اس دنیا سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پاکستان کیلئے اپنی سلامتی کیلئے دفاعی شعبہ نہایت ہی اہم ہے اور پہلے پاکستان کا اس شعبہ میں سارا کا سارا انحصار امریکہ اور یورپ پر تھا لیکن اب کچھ عرصے سے پاکستان نے دفاعی شعبے میں اپنا انحصار امریکہ اور یورپ سے ہٹا کر چین اور ترکی کی جانب کرلیا ہے اور پاکستان کو اس کا بہت فائدہ بھی ہورہا ہے۔ پاکستان کو چین اور ترکی کی جانب سے تیارکردہ جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے اور اب اس شعبے میں پاکستان کو چین اور ترکی کی بدولت امریکہ کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ اس حوالے سے صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح دنیا کے یونی پولر سے ملٹی پولر دنیا کی جانب جانے کی وجہ سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے لیکن جہاں پر اس صورتحال کے فوائد ہیں وہیں پر اس کے چیلنجز بھی موجود ہیں۔
پاکستان کا چین کی جانب جھکاؤ کسی صورت امریکہ اور یورپ کو بہت زیادہ پسند نہیں ہے اور پاکستان ابھی بھی برآمدات، کاروبار اور ترسیلات زر سمیت عالمی اداروں پر انحصار کرتا ہے جوکہ امریکہ کے آشیرباد سے چلتے ہیں۔ پاکستان کو سب سے پہلے معاشی طور پر خودمختار ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ نہ ڈالا جاسکے لیکن بہرحال عالمی صورتحال کے تناظر میں روس اور چین کے اس معاہدے کو بہت اہمیت دی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہم یقینی طور پر ایک نئی اور خطرناک سرد جنگ کے دور میں داخل ہورہے ہیں جس میں کامیاب ہونے والے ہی شاید اگلے 100سال تک اس دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یہ بدلتی ہوئی دنیا ہے اور اس دنیا میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ذرا سی لاپروائی تباہ کُن نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭
صرف نیّت ہی نہیں
انجینئر افتخار چودھری
آج کل ایک ڈائیلاگ بڑا مشہور ہے کہ ”عمران خان کی نیت ٹھیک ہے“ چلیئے اسے سچ مان لیتے ہیں لیکن اس کا عرف عام میں جو سمجھ میں آتا ہے کہ باقی سب کچھ خراب ہے بس عمران خان کی نیت ٹھیک ہے۔حضور، بابا جی، صرف نیت ہی ٹھیک نہیں عمران خان کے ان سوا تین سالوں کے کام بھی ٹھیک ہیں اس کی ٹیم بھی ٹھیک ہے۔اس کے کاموں کے آگے چل کر تفصیل سے ذکر کروں گا ابھی کل ہی نوجوان اور دبنگ وزیر فرخ حبیب سے ملا ہوں انفارمیشن منسٹری کو جس خوبصورت انداز سے چلانے میں وہ فواد چودھری کاہاتھ بٹا رہے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بہتر کام کسی اور انفارمیشن منسٹر نے کیا ہو۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے برادر سینیٹر اعجاز چودھری کا سینیٹ میں بیان سن رہا تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے گرچہ اڑتیس ارب قرضہ لیا ہے اور پوری دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ حکومت نے سب سے زیادہ قرض لیا ہے لیکن اس جملے کو اس بات سے جوڑ کر دیکھیں کہ ان میں سے سابقہ حکومتوں کا لیا ہوا قرض 29 ارب بمعہ سود واپس بھی کیا ہے۔
عمران خان کو جب اگست 2018ء میں اقتدار ملا تو پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا آج لوگ کہتے ہیں کہ اس نے تو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی تھی بالکل ایسا ہی تھا لیکن اقتدار کی اپنی مجبوریاں تھیں عمران خان یقینا آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے اگر وہ انتہائی مجبور نہ ہوتے جانے والوں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ آئیں اب اس معیشت کو ٹھیک کر کے دکھائیں یعنی وہ خود جان گئے تھے کہ جو کچھ کھلواڑ ہم نے ان سالوں میں کر دیا ہے اسے کوئی نہیں ٹھیک کر سکتا ان کی اس پوری ٹیم میں مفتاح اسماعیل ایک ایسا بندہ ہے جو مناسب آدمی ہے انکا کہنا دیکھ لیجیے وہ شوکت ترین کی پالیسیوں کو بہترین قرار دے رہے ہیں۔
بھوک سے مارے زرد چہروں کو خوراک چاہئے تھی مالٹا ٹرین نہیں۔قوم کو جعلی زندگی کا عادی بنا کر بڑھکیں لگاتے ہوئے نقلی حبیب جالب کو یہ علم تھا کہ ہم ملک کا دیوالیہ کر چکے ہیں۔جناب یہاں ٹھیک نیت والے نے وہ کام کئے کہ آج اللہ کے کرم سے کووڈ 19 کے بد ترین دور میں بھی پاکستان کی گروتھ 5.37 فی صد ہو گئی ہے بلکہ بعض لوگ اسے 6 فی صد بھی گردانتے ہیں۔سچ ہے کہ نیتیں صاف ہوں تو بیڑہ بھی پار ہوتا ہے اور مسئلے بھی حل۔ہو جاتے ہیں۔ انشاء اللہ پاکستان آنے والے دنوں میں خطے کی تگڑی معیشت میں داخل ہونے والا ہے۔روپے کو جعلی بندشوں سے آزاد کرنے کا فایدہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان کو ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میں آرڈر ملنے شروع ہوگئے ہیں۔
ہمارا تاجر لالچی نہ ہو تو اس کے ساتھ جڑا ہوا مزدور اس مہنگائی کا ڈٹ کے مقابلہ کر سکتا ہے۔ روپیہ سو سے ایک سو ستر گیا یعنی جن لوگوں کے ڈالر کے فکسڈ آرڈر تھے اور برآمد کرنے والوں کے اکثر کے فکس آرڈر ہوتے ہیں کیا انہوں نے اس ستر فیصد منافع کو آگے اپنے مزدور تک پہنچایا۔ ایک عمران خان کی نیت ٹھیک ہونے سے ملک کو فایدہ نہیں پہنچے گا جناب نیتیں نیچے بھی ٹھیک ہونا چاہئیں۔ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں ہوں لیکن اتنا تو دیکھ رہا ہوں کہ ہر خاندان کے پاس دس لاکھ روپے کا صحت کارڈ ہے۔ اس سے پہلے کسی کو دل کا آپریشن، گردے کا آپریشن آنکھ اور دیگر بڑی بیماریوں کے لیے گھر بار بیچنا پڑتے تھے آج ان کے علاج ہو رہے ہیں۔یہ اچھی نیت والے لیڈر کے عملی کاموں کے ثمرات ہیں
میں نہیں سمجھتا کہ صرف،،نیت ٹھیک،، سے ملک چل رہا ہے نیت کے ساتھ درست سمت میں عملیت بھی موجود ہے۔احساس پروگرام دیکھ لیں۔بلینز ٹری پروگرام کامیاب جوان پروگرام ہاؤسنگ اتھارٹی کے گھر بنانے کے پروگرام کئی ڈیم بن رہے ہیں دیا میر بھاشا ڈیم داسو ڈیم مہمند ڈیم ان ڈیموں پر کام بند تھا ماشاء اللہ یہاں دشمن ملک کی خواہشات پر کئی ڈیموں کی تعمیر کو مؤخر کردیا گیا تھا۔
خراب نیتیں خراب کام کراتی ہیں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نعرے لگانے والو۔آپ کے ذمہ داران اپنے گھروں کے نوکروں کی تنخواہیں بھی اسی پروگرام سے دیا کرتے تھے ہزاروں لوگوں کو سروے کرکے اس لسٹ سے نکالا گیا ان میں گریڈ اکیس اور بائیس کے افسران بھی تھے۔ عمران خان نے پاپڑ والے ٹھیلے والوں کے اکاؤنٹ سامنے لائے ستم ظریفی یہ نہیں کہ حمزہ شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے آئے ظلم یہ کہ انہیں علم ہی نہیں ایک منصور سچ بولتے بولتے سولی چڑھ گیا حمزہ کا منصور جس کی تنخواہ پچیس ہزار تھی اس کا اکاؤنٹ میں اربوں کیسے چلے گئے۔
عمران خان کو بس یہ کہہ کے کہ جی باقی اس کے ساتھی چور اور ڈاکو ہیں وہ اکیلا ٹھیک ہے بات مناسب نہیں۔ انسان بنیادی طور پر چکری ہے اگر وہ مکر فریب کا عادی نہ ہوتا تو یہ جیلیں نہ بنائی جاتیں نہ قوانین بنائے جاتے میں یہ نہیں کہتا کہ عمران خان کوئی آسمان سے اترا ہوا شخص ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ وہ بے ایمان چور اور لٹیرا نہیں ہے لوگ لوٹ کے لندن میں جائیدادیں بناتے رہے اس نے لندن کے فلیٹ بیچ کر بنی گالہ اس وقت خریدا جب وہ جنگل تھا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ”قبر اپنی اپنی‘ عمران خان نے اپنے ساتھیوں پر بھی کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ فواد چودھری نے کیا خوب بات کی تھی یہ تین سالہ کارکردگی دکھانے کے دن تھے انہوں نے کہا تھا ہم تین سال بعد کارکردگی دکھا رہے ہیں تیس سال والے منہ چھپا رہے ہیں۔
عمران خان کی کارکردگی اپنی جگہ مگر اس کا ابلاغ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ہمارے سینیٹرز اراکین اسمبلی اپنے تئیں کام کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نیت صاف بیڑہ ہار ہوتا ہے۔عمران خان کی ٹیم نے پاکستان کو بہترین پراجیکٹ دئے ہیں ابھی حال ہی میں کچھی کینال بنانے کا جو کام شروع ہوا ہے یقین کیجئے دل خوش ہو گیا ہے اس کے نعرے ہم سنتے رہے ہم بوڑھے ہو گئے بچپن میں سنا کرتے تھے کہ بلوچستان کے مقدر بدل جائیں گے اگر یہ منصوبہ مکمل ہوا تو پیچھے رہ جانے والا صوبہ ترقی کرے گا۔آج دیکھ لیں نہ صرف یہ نہر بلکہ جہلم میں وہ نہر بھی بن رہی ہے جو انگریز دور میں سوچی گئی تھی۔ اس ملک کے لٹیروں کے ہاتھوں کے مارے بے چارے کیا کرتے اپنے حالات بدلنے پر لگ جانے والوں کو سرے محل آیون فیلڈز کے فلیٹ بیرون ملک سٹیل ملیں اور شوگر ملیں بنانے سے فرصت ملتی تو وہ قوم کے لیے کچھ کرتے۔یہ جو دعوے کرتے ہیں کہ ہم بڑے ٹاٹا برلا تھے حضور ایوب دور کے بائیس خاندانوں میں اگر آپ کا نام ہے تو دکھا دیجئے جنرل ضیاء کے بعد آپ کا لوہا سونا بن گیا۔غریب سے امیر بننا جرم نہیں لیکن ایک کا باپ امیر دوسرے کا غریب یہ ظلم ہم نے آپ لوگوں میں دیکھا ہے۔افسوس دولت تو کما لی مگر عزت نہ کما پائے۔
ہاں ایک اہم کام انہوں نے کئے موٹر ویز بنائے اور خوب بنائے بعد میں پتہ چلا جو کام پی ٹی آئی کے دور میں سترہ ارب روپے فی کلو میٹر میں مکمل ہوا یہ ان کے دور میں سینتیس ارب میں بنا۔دہائی خدا دی یہ کیا لوگ تھے پھر کہتے ہیں کہ ہم پر بے جا تنقید کی جاتی ہے یعنی چار رویہ سڑک سینتیس ارب میں اور پی ٹی آئی آج مہنگائی کے دور میں بنائے تو سترہ ارب میں۔اس دور کی مہنگائی اور اس دور کا اندازہ لگا لیں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭
کرپشن اورطاقت ورمافیاز
محمدنعیم قریشی
یہ ضروری نہیں ہے کہ ملک میں سار ی کرپشن شریفوں کے زمانے کی ہو اور ہر رپورٹ شریف خاندان کی وجہ سے ہی جنم لے اور ہر غلطی ونقصان کو اگلے پچھلوں کے کھاتے میں ڈالنا بھی عقمندی نہیں ہوتی،سوچنے سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت تو حکومت امانت دار اور دیانت دار وزرااور مشیروں کے پاس ہے تو پھر پاکستان کرپشن کے میدان میں اس قدر اونچائی پر کس طرح پہنچ سکتاہے،موجودہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشل کی رپورٹ تو ہمیں یہ ہی بتاتی ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں کی نسبت اس بارملکی کرپشن میں زیادہ اضافہ ہو اہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور ان کے قائد عمران خان کی جانب سے انتخابات سے قبل احتساب کے نعرے نے خوب شہرت کمائی الیکشن سے قبل تحریک انصاف نے قوم کے سامنے یہ مؤقف پیش کیا تھا کہ پاکستان کے اقتدار پر مختلف ادوار میں فائز عہدیدارروں کی بد عنوانی نے ملکی خزانے کو شدید نقصان پہنچایاہے،اور اسی بد عنوانی، کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا نعرہ لگا کر پاکستان تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے اور ان دنوں وہ اپنے پہلے دور اقتدار کے تین بر س سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں وقت پر لگاکر اڑتارہاہے اور اب ان کے اقتدار کے تیسرے برس عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ہے کہ ان تین برسوں میں پاکستان میں بدعنوانی اور رشوت خوری کی سطح میں اضافہ ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2018ء میں جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تھی تو پاکستان کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں 117واں نمبر تھا جو اب گر کر 140ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے عالمی ادارے کی رپورٹ تیار کرنے کا طریقہ کار اور مقاصد بارے میں ماہرین کے درمیان بہت سارے تحفظات ہوسکتے ہیں، اس رپورٹ کے مندرجات میں بیان کردہ دعووں پر اعتراضات کے باوجود اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کی حکومت اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں ضرور ناکام رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا ریاستی و سیاسی نظام اتنا بدعنوان ہوچکا ہے کہ جو شاید اب لاعلاج مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف کے بہت سے بڑوں کا یہ ماننا ہے کہ اگلی حکومت بھی تحریک انصاف کی ہی ہوگی،لیکن اس کا جواب یہ بنتاہے کہ آپکی حکومت بد عنوانی کے خاتمے اور طاقتور طبقے کے شفاف احتساب کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئی تھی وہ احتساب کے بارے میں فی الحال عوام کو مطمئن نہ کرسکی ہے۔ اس کے باوجودآپکو یقین ہے کہ اس با ر بھی قوم آپ ہی کو موقع فراہم کریگی جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری کا جو عالم اس کا تو پوچھے ہی نہ تو اچھا ہوگا۔
ہم نے دیکھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے اجراء سے ایک روز قبل ہی وزیراعظم عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر مستعفی ہونے پر مجبور ہو ئے انہوں نے خود استعفیٰ دیا ہے یا وزیراعظم نے ان سے استعفیٰ لیا ہے اس کے بارے میں سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں جاری ہیں لیکن یہ درست ہے کہ وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بدعنوانی اور احتساب کے نعرے کا شور 90کی دہائی سے بہت پہلے کاہے اس نعرے نے ہردور میں ہی شہرت پکڑی ہے اس کے باوجود پاکستان کے سماج اور طاقت و اختیار کے ایوانوں میں اتنی ہی بدعنوانی بڑھتی رہی اور آج بھی ناجائز طریقہ سے یہ مال جمع کرنے کا جنون کسی نہ کسی طریقہ سے جاری ہے جس نے آجکل ایک خطرناک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے اس کرپشن زدہ مافیا نے قومی خودمختاری، آزادی و سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھاہے،کرپشن اور بدعنوانی نے ہر سطح پر مجرموں اور مافیاوں کو طاقتور بنا دیا ہے۔
ان تین برسوں میں توانائی مافیا، شوگر مافیا، آئل مافیا، گیس مافیا، جیسے طبقات کی لوٹ مار سامنے آئی ہے لیکن اب تک کسی کو لگام ڈالنے یا عبرت کا مقام بنانے کی خبرسامنے نہ آسکی ہے،یہ بھی ہے کہ جب قانون سازی تیز اور عوام دوست ہوگی تو اس میں خامیاں بھی ہوسکتی ہیں لیکن کچھ دکھائی تو دے کچھ اچھا ہورہاہے حکومتی ترجمان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو سے نکلیں اور قوم کو بتائیں کہ ہم نے یہ اچھاکیاہے اور اس کے نتائج یہ نکلیں گے۔
دوسری جانب یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم کبھی کشکول توڑ پائیں ہیں جو ہر روز آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں اور آئے روز اس کی شرائط ماننے کے لیے عوام کی جیبوں کی قربانیاں دیتے رہتے ہیں۔ستر سالوں کا سفر تو ابھی تک جاری ہے شاید ہی کوئی ریاستی ادارہ یا سرکاری محکمہ ایسا ہو جہاں کرپشن کا بھوت نہ ناچ رہاہو، چاہے وہ محکمہ پولیس ہو انکم ٹیکس،کسٹم ایکسائز ہو صحت جیسے ادارے تو پہلے ہی بدنام تھے اب دیگر ریاستی اداروں سمیت محکمہ تعلیم بھی شدید بد عنوان اداروں میں شامل ہو چکے ہیں ان تمام اداروں کے اپنے اپنے طریقہ واردات اور کرپشن کے طریقے ہیں۔ جن سے اس ملک کی عواماب بخوبی واقف ہوچکی ہے کیونکہ ان تمام اداروں میں ہر شہری کو روزانہ ان تمام مشکلات اور پریشانیوں سے گزرنا پڑرہا ہے سب کچھ ویسا ہی چل رہاہے جو چوروں اور ڈاکوؤں کے ادوار میں دکھائی دیتاتھا،یہ تو وہ حقائق ہیں جن سے ملک گزشتہ ستر سالوں سے گزر رہا ہے اور گزرتا رہے گا،کیا ایسا تو نہیں ممکن کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی سیاست کے پیچھے قوم کو اصل ایشوز، غربت، مہنگائی سے توجہ ہٹانا پلاننگ کا حصہ ہو۔ میں سمجھتا ہو کہ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں ایسے شفاف سسٹم کا اہتمام کیا جائے جس میں کرپشن کو حقیقی معنوں میں ختم کیاجائے نان ایشوز کو چھوڑ کر ایشوز میں ترجیحات کا ایسا تعین ہو جس سے سسٹم میں مضبوطی آئے اور جس میں ہر وزیر اور مشیر جواب دہ ہو۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
کشمیریوں کا احتجاج رنگ لائے گا
اعجاز الحق
آج ملک میں عام تعطیل ہے اور سرکاری و نجی سطح پر کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کی خاطر مختلف تقاریب اور ریلیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے، دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کسی اہم فائل میں تو موجود تھا مگر بھارت سے آزادی کا خواب پورا نہیں ہورہا تھا یہ موقع کابل نے فراہم کیا جب کابل کی فضا نے جنرل محمد ضیا الحق شہید کی حکمت عملی کی بدولت روس کو افغانستان سے نکال باہر کیا، روس کی یہ ہزیمت شاید اس کے پیروکاروں کو برداشت نہیں ہوئی اور ایک ایسی چال چلی گئی جس کے نتیجے میں صدر جنرل محمد ضیا الحق شہید کو راستے سے ہٹانے کا مکروہ منصوبہ بنایا گیا، اگر اللہ تعالیٰ انہیں موقع فراہم کرتا تو آج مقبوضہ کشمیر بھی بھارت کے تسلط سے آزاد ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے جو پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا وہ اپنی زندگی میں کر گئے اب جب بھی کبھی کشمیر آزاد ہوگا تو صدر جنرل محمد ضیا الحق کا نام بھی تاریخ میں لیا جائے گا، ان کی شہادت کے بعد اگرچہ کشمیری عوام مایوس ہوئے تاہم پوری پاکستانی قومی ان کے ساتھ تھی اور آج بھی ان کے ساتھ ہے قوم کی آواز پر ہی یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ ہوا تھا اور اس سلسلے میں حکومت سے باہر قاضی حسین احمد کی آواز اٹھی اور یوں 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر بن گیا۔ 1990ء سے یہ دن منایا جاتا ہے جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام نے بالآخر خود ہی اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔
کشمیری عوام غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سکیورٹی فورسز کے جبر وتشدد کو برداشت کرتے‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر وفریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے‘ اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس خطہ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے‘ نہ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے گئے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے منزل بھی متعین ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانی پاکستان قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے پاکستان کا قبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر پر چڑھائی کا حکم بھی دیاگریسی نے اس حکم پر عمل کیا ہوتا تو یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ پھر جب چڑھائی کی گئی تو بھارت کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے گیا مگر جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ کشمیریوں نے بھارتی تسلط کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ اپنی آزادی کیلئے ہمیشہ سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔
جولائی 2016ء میں مظفروانی کو جس طرح تشدد کرکے شہید کیا گیا‘ اسکے بعد کشمیری آزادی کی خاطر نئے جوش اور ولولے سے گھروں سے نکل آئے۔ انکے احتجاج اور مظاہروں نے ریاستی مشینری کو بے بس کر دیا۔ بھارتی افواج کے مظالم میں مزید اضافہ ہوگیا مگر کشمیریوں کا جذبہ ماند نہ پڑا تو بھارت نے وہاں نام نہاد جمہوریت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ یہ بھی بے سود رہا تو صدر راج لگا دیا گیا۔ 5 اگست 2019ء کو مودی سرکار نے شب خون مار کر کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دیا۔ اسکے بعد مزید فوج وہاں تعینات کر دی گئی آج بھارتی سفاک سپاہ کی تعداد نو لاکھ ہے۔
کشمیری لگ بھگ ڈیڑھ سال سے بدترین پابندیوں کے حامل کرفیو کا سامنا کررہے ہیں۔ کرونا کے دوران بھی انہیں علاج تک کیلئے ہسپتالوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بیمار ادویات سے محروم‘ بچوں کو دودھ اور خوراک میسر نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کررہا ہے۔ کشمیری اسکے باوجود حق آزادی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد لاکھوں شدت پسندوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں۔ ان کو کشمیر میں ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ کسی بھی غیر کشمیری کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ سب کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کا توازن بگاڑنے کی سازش ہے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی بھارتی بربریت دنیا کے سامنے رکھنے کی کوشش کی جس عالمی برادری کی طرف سے شدید ردعمل آیا۔ تشویش کا اظہار کیا‘ مذمت کی گئی‘ بھارت کو سختی سے انسانی حقوق سے باز رہنے کو کہا گیا مگر بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب عالمی برادری کو عملی اقدامات کی طرف آنا ہوگا۔
پاکستان کی طرف سے کشمیر کے پرامن حل کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے مگر کسی کمزوری کا تاثر بھی نہیں دیا جارہا۔ آج کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے قوم کو دنیا پر مزید واضح کرنا ہے کہ بھارت کا کشمیریوں پر ظلم کا ہاتھ روکا جائے اور کشمیریوں کو ان کا حق استصواب دیا جائے جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے بھی زور دیا ہے۔
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭
دومخدوموں کی لڑائی
سید سجاد حسین بخاری
مدینۃ الاولیاء ہر حملہ آور‘ مؤرخ‘ تاجر‘ سیاح اور دینِ اسلام کی تبلیغ کیلئے آنے والے صوفیائے کرام کو ہمیشہ اپنی آغوش میں لیتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملتان میں حملہ آور پٹھانوں اور صوفیائے کرام کی نسلیں آباد ہیں۔ یہاں آباد ہونے والوں میں دوطبقے بڑے فائدے میں رہے۔ حملہ آور پٹھانوں کی نسلیں اور صوفیائے کرام کی سادات وقریشی نسلیں‘ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل دو قسم کے خاندان حکمران یا حکمرانوں کے قریب رہے ہیں‘ ان میں ایک پٹھان‘ دوسرے سادات وقریشی۔ سیاست میں بھی ملتان کی پہچان گیلانی اور قریشی خاندان ہیں جو قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک سیاست کا محور سمجھے جاتے ہیں۔ ملتان ایک وسیع وعریض حدود اربعہ پر مشتمل تھا‘ اس لئے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بسنے والے زمیندار گھرانے بھی ان دو خاندانوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔
گیلانی اور قریشی خاندان‘ یہ دونوں خاندان ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے تھے مگر ملکی سطح کی حکومت میں کبھی گیلانی ہوتے تو کبھی قریشی مگر پورے جنوبی پنجاب کی لیڈرشپ ان دوخاندانوں کے پاس ہوتی تھی۔ ضیاء الحق کے دور میں جب بلدیاتی سیاست شروع ہوئی تو ایک تیسرا فریق سید فخر امام گروپ ضلع کونسل کی چیئرمینی کا اُمیدوار بن گیا اور اس گروپ نے گیلانی خاندان کے بزرگ سیاستدان حامد رضا گیلانی کو شکست دیکر ضلع ملتان کی چیئرمین شپ چھین لی‘ پھر گیلانی اور قریشی خاندان اکٹھا ہوگیا اور سید یوسف رضا گیلانی نے فخر امام کو ہرادیا۔ بات ضلع کونسل تک ختم نہ ہوئی‘ گیلانی خاندان ضیاء اور جونیجو حکومت کے ساتھ ہوگیا جبکہ سید فخر امام نے ضیاء الحق کے اُمیدوار برائے سپیکر قومی اسمبلی خواجہ صفدر کو ہرادیا۔
ضیاء الحق نے فخر امام کو سزا دینے کیلئے خانیوال کو ضلع کا درجہ دے دیا اور اس طرح فخر امام گروپ گیلانی اور قریشی خاندان کی جان چھوڑ گیا اور ملتان کی روایتی سیاست گیلانی اور قریشی خاندانوں کے پاس واپس آگئی۔ ضلع ملتان کی جو سات تحصیلیں تھیں‘ ان میں پانچ تو ضلع بن گئیں مگر شجاع آباد اور جلالپور پیروالا آج بھی ملتان کی تحصیلیں ہیں۔ ملتان ڈویژن اور ضلع کے سُکڑنے سے یہ دونوں خاندان بھی سُکڑ کر صرف ضلع ملتان تک محدود رہ گئے اور دونوں خاندانوں کی نمائندگی حکومتوں میں ایک‘ ایک فرد کرتا رہا۔ جن میں یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی مگر شاہ محمود قریشی سیاست میں سیلف میڈ تھے اور زندگی کا پہلا ضلع کونسل کا الیکشن بھی ہار گئے تھے۔ وقت کا دھارا بدلا تو یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی ایک ہی جماعت میں وزیراعظم اور وزیرخارجہ بن گئے اور دونوں شیروشکر ہوگئے حالانکہ وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں مخدوم امین فہیم‘ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم یوسف رضا گیلانی شامل تو تھے مگر قرعہ یوسف رضا گیلانی کے نام نکلا۔ وزارتِ عظمیٰ سے قبل مالی طور پر مستحکم مخدوم شاہ محمود قریشی مگر سیاسی استقامت یوسف رضا گیلانی کے پاس تھی۔ آج اس کا اُلٹ ہوگیا ہے۔ ماضی میں جو کچھ بھی سیاست میں ہوتا رہا مگر اس قدر بُرا نہیں ہوا جو گزشتہ ہفتے ہوا۔ یہ صرف میری آواز نہیں بلکہ پورا خطہ ہم آواز ہے۔
فی الحال تو مخدوم شاہ محمود قریشی کو بظاہر قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ جمعرات تک تو گیلانی صاحب کی جماعت کے عہدیداروں اور ان کی اولاد نے وزیر خارجہ کو خوب سنائی ہیں۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ اتنے بڑے خاندانوں کے اتنے بڑے رہنماؤں کے یہ گفتگو ہرگز شایان شا ن نہیں۔ بقول مخدوم شاہ محمود قریشی کہ پہل گیلانی خاندان نے کی ہے مگر میڈیا پر پہل شاہ محمود قریشی کی نظر آتی ہے حالانکہ دونوں مخدوموں نے گزشتہ 40سال سے عملی سیاست میں کبھی بھی ذاتیات پر حملے نہیں کئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سینٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر وزیرخارجہ نے سابق وزیراعظم کو رگڑ دیا۔ کمال چیئرمین سینٹ کا ہے کہ وعدے کے باوجود فلور سید یوسف رضا گیلانی کو نہیں دیا ورنہ جواب آں غزل ہوجاتی اور حساب چکتا ہوجاتا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب دوستوں یا رشتہ داروں میں سے ایک آدمی ترقی کے زینے طے کرتے کرتے منزلِ مقصود پر پہنچ جائے تو پیچھے رہ جانے والے اس کی خامیاں بیان کرتے ہیں اور اس کے ماضی کو کریدتے ہیں اور بے جا برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیان کرتے ہیں۔ یہ عادت ویسے چھوٹے لوگوں کی ہوتی ہے‘ ان جیسے بڑے مخدوموں کی نہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورے جنوبی پنجاب کے باشعور حلقے روزانہ کی بنیاد پر اس لڑائی میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں اور رات گئے تک فون پر پوچھتے ہیں کہ آج دونوں مخدوموں یا ان کے ورکروں اور بیٹوں کے بیانات آئے ہیں؟
گیلانی کے چاروں بیٹے بڑے جذباتی ہیں جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا بیٹا خاموش اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ گیلانی کے ایک بیٹے علی حیدر گیلانی نے مخدوم شاہ محمود قریشی کو چیلنج کردیا ہے کہ وہ جس حلقے سے الیکشن لڑیں گے‘ میں ان کے مقابلے میں لڑوں گا۔ مجھے شدید خطرہ محسوس ہورہا ہے اور آئندہ جنرل یا بلدیاتی الیکشن میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا کیونکہ شاہ کے وفادار دونوں طرف سے پانی کے بجائے پٹرول استعمال کررہے ہیں۔ جو کچھ ہوا اس پر دل آزردہ ہے اور آئندہ خوشگوار موسم کی دُعا ہی کی جاسکتی ہے۔
جمعتہ المبارک کے دن سینٹ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا موضوعِ خطاب کشمیر ہی تھا اور انہوں نے وزیرخارجہ کی باتوں کا جواب نہ دیا اور جب راقم نے اسی بارے رابطہ کیا تو گیلانی صاحب بولے! ایسی باتوں پر سوال وجواب میرا وصف نہیں ……
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
چراغ جلتے نہیں ہیں، چنار جلتے ہیں
حیات عبداللہ
اہلِ کشمیر کی دل گیر آہیں اور لِیرولِیر نوحے، سنگلاخ خمیر سے بنے عالمی ضمیر سے ٹکرا کر لَوٹ آتے ہیں۔کشمیری حسب و نسب کے حامل پاکستانی سیاست دانوں کے بھارت کے ساتھ وابستہ ہٹّے کٹّے مفادات اور وہاں پر سانڈھ بنے ذاتی کاروبار نے ان کی فہم کو غلام، بصارتوں کو ناتواں اور منطقوں کو بالکل ہی اندھا بنا کر رکھ دیا ہے۔بھارتی مَحبّت کے کاجل سے آراستہ اِن کے کٹیلے نَین اور ذاتی مفادات کے بدنما غازے سے لتھڑے احساسات، اتنے شرمیلے بن چکے ہیں کہ ان کی قوتِ گویائی تک مسلوب ہو کر رہ گئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں مسئلہ ء کشمیر پر اتنے سرد مزاج اور ٹھنڈے پیٹ رکھنے والے سیاست دان تو اِس سے قبل کبھی نہیں دیکھنے، سُننے میں آئے۔جب بھی پاکستانی سیاسی پہلوان کشمیر پر کوئی بیان دیتے ہیں تو وہ اتنا نپا تُلا ہوتا ہے کہ جس سے بھارت کے دل اور احساسات پر کسی قسم کی ناگواری کا بوجھ نہیں پڑتا۔اِتنے مصلحت آمیز بیانات کہ جس سے بھارت کے ماتھے پر کوئی ایک لکیر بھی نمودار تک نہیں ہوتی۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی سیاست دانوں کے سُرخ لبوں کی نازکی، دلوں کی نرماہٹ اور فراستوں کی نزاکتوں سے بھارت خوب واقف ہے۔کشمیر کو اپنی شہہ رگ بھی کہا جاتا ہے اور اس شہہ رگ کو بھارت کے قبضے میں دیکھ کے بے چینی پر مشتمل کوئی ایک لمحہ، گھبراہٹ سے وابستہ کوئی ایک پَل اور بے کلی پر مبنی کوئی ایک ثانیہ بھی اِن سیاست دانوں کی زندگیوں میں آج تک دِکھائی نہ دیا۔عمران خان نے بھی محض ایک بار عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کیا۔
بھارت کی ہمہ قسم کی بہیمیت پر کسی پشیمانی اور پچھتاوے کی بجائے بھارتی سیاست دان بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ”کشمیر کی صورتِ حال بھارت کا اندرونی معاملہ ہے“ اگر واقعی یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے تو بھارت کے اِس”اندرون“ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟ اگر یہ بھارت کا داخلی مسئلہ ہے تو اس کے”اندر“ بھارت کی بجائے پاکستان کی مَحبّت کس طرح داخل ہو گئی ہے؟ اگر واقعی یہ بھارت کا اپنا مسئلہ ہے تو گولیوں کی بوچھاڑ میں درندہ صفت فوجیوں کے سامنے کشمیری لوگ سینہ تان کر”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ عقیدتوں سے سَرسبز، سُندر جذبوں اور کومل وفاؤں سے شاداب ان رشتوں کا کوئی ایک سلسلہ بھارت کے لیے نمودار کیوں نہیں ہوتا؟ اگر بھارت کے اس”اندرون“ میں پاکستان کے ساتھ مَحبّتوں کے تلاطم خیز طوفان، آشفتہ سَری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تو اس کا مطلب ہے کہ بھارت کو اپنے”بیرون“کی بھی فکر کرنی چاہیے، اس لیے کہ”اندرون“ جس کا ہوتا ہے، ہزاروں قربانیوں کے بعد ہی سہی”بیرون“ بھی اُسی کا ہو کر رہتا ہے۔
اگر بدخواہ بھارت کی سفّاکیت کے باعث کشمیریوں کے خون کی ارزانی اور بے توقیری دنیا دیکھ رہی ہے تو کشمیریوں کے جذبوں کی جولانی میں حرّیّت کی تڑپ کی فراوانی نے بھی دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا ہے۔بات صرف حرّیّت کے بے پایاں جذبوں تک موقوف اور محدود نہیں، ان کے دل کے صحنوں میں پاکستان کے لیے جو مَحبّت انگیز یاسمین مہکتے ہیں، ان کو دیکھ کر بھی دنیا سٹپٹا کر رہ گئی ہے۔برہان مظفّر وانیؒ کی شہادت کے بعد سے اب تک سیکڑوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں، آج بھی بھارتی جبر و استبداد کے باعث ہزاروں کشمیری زخمون سے لہولہان ہیں، بعض کی حالت اتنی نازک ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان کش مکش میں مبتلا ہیں۔شاہدہ لطیف نے کچھ ایسا ہی منظر اِس طرح بیان کیا ہے۔
یہ کیسی آگ ہے ابرِ بہار جلتے ہیں
چراغ جلتے نہیں ہیں، چنار جلتے ہیں
اگرچہ سیکڑوں افراد بصارت سے محروم ہو چکے ہیں لیکن ان کے جذبے بڑے ہی بصیرت افروز ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ وفاؤں کے ایسے جنون اور بندھن میں بندھے ہیں کہ بصارت چِھن جانے کے باوجود، پاکستان کی طرف آس اور امید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
خوش رنگ مقبوضہ جمّوں وکشمیر کو صرف بھارتی فوج ہی نہیں بلکہ آر ایس ایس کے غنڈے اور تربیت یافتہ بدمعاش عورتیں بھی بڑے دھڑلّے کے ساتھ تلواریں اور لاٹھیاں اٹھا کر مظاہرہ کرتی ہیں۔ہمدم کاشمیری کے دو شعر ہیں۔
وحشت ہے بہت کم، تو ہے زنجیر زیادہ
چھوٹا سا مرا خواب ہے تعبیر زیادہ
کیا جان میری صرف سُلگنے کے لیے ہے
کیجے نہ مرے جسم کی تفسیر زیادہ
بھارت اور اس کے بہی خواہوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی کی جو راہیں شہید متعیّن کرتے ہیں، ان پر چلنے سے یہ گولیاں کب روک سکتی ہیں؟ حرّیّت کی جن راہوں پر برہان مظفّر وانیؒ اور ابوالقاسمؒ جیسے شہدا اپنے خون سے جو شمع روشن کر گئے، ان پر آٹھ لاکھ تو کیا اَسّی لاکھ بھارتی فوج بھی بٹھا دی جائے تو ان راہوں کو مسدود نہیں کیا جا سکتا۔شہادتوں کے یہ سلسلے، جذبوں میں خلوص کی انتہائیں اور ولولوں میں تازگی، پختگی اور استقلال کو دوام بخشتے ہیں۔شہادتوں کو پہاڑوں، وادیوں، صحراؤں اور ریگستانوں میں کھوجتے ان نوجوانوں کے سینے ستایش کی افزایش سے پاک و پوتر ہوتے ہیں۔ان کے دلوں میں اُگنے والی تمنّائیں، جاہ ومنصب کی آلایشوں سے تہی ہوتی ہیں۔کیا دنیا اندھی ہے کہ اسے دِکھائی نہیں دے رہا کہ کشمیر کے لوگ، شہدا کے مطہّر و مقدّس جسموں کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں؟ شہدا نے شہادتوں کے پھول کِھلائے تو اہلِ کشمیر نے پاکستان کے ساتھ چاہتوں کے سلسلوں کو اتنا دراز کیا کہ ہر طرح کی صعوبتوں اور مصیبتوں کے باوجود انھوں نے اس اَن مول رشتہ ء اخوّت کو فروزاں کیے رکھا۔آج کشمیر پر دو ٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔آخر ہم اپنی شہہ رگ کو کب تک بھارت جیسے سفاک اور عیّار دشمن کے شکنجوں میں دیکھتے رہیں گے؟
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
حلقہ ارباب ذوق اور کرونا وبا
میم سین بٹ
لاہورکی قدیم ادبی تنظیموں میں انجمن ترقی پسند مصنفین اورحلقہ ارباب ذوق سرفہرست ہیں جن کے ہفتہ وار اجلاس اب بھی ہوتے ہیں دونوں ادبی تنظیمیں 1930ء کے عشرے میں قائم کی گئی تھیں۔ کرونا وباء شروع ہونے کے بعد پاک ٹی ہاؤس میں پابندی کے باعث حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس واٹس ایپ گروپ میں آن لائن ہوتے رہے۔ دسمبر کے آغاز پردوبارہ پاک ٹی ہاؤس میں اجلاس شروع کئے گئے تاہم دفتر سے اتوارکی جگہ ہفتے کے روز چھٹی کرنے کے باعث ہم اجلاسوں میں شریک نہ ہوپائے۔
ہم دفتر میں ہفتہ وارچھٹی تبدیل کروانے کا پروگرام بناہی رہے تھے کہ کرونا وباء ایک بارپھرشروع ہوجانے کے باعث حکومت نے دوبارہ ہوٹلوں میں تقریبات کروانے پر پابندی عائدکردی۔ سیکرٹری حماد نیازی اورجائنٹ سیکرٹری فرح رضوی نے گروپ میں پوسٹ کے ذریعے جب اطلاع دی کہ وبائی صورتحال کے پیش نظر حلقہ ارباب ذوق لاہورکے ہفتہ وار اجلاس دوبارہ واٹس ایپ پر آن لائن ہوں گے تو ہم سوچنے لگے کہ دانشوروں سے تو سبزی منڈی کے آڑھتی اورخریدارہی اچھے ہیں جنہیں وباء کے آغاز سے اب تک حکومت نے رش کے دوران سرگرمیاں جاری رکھنے سے نہیں روکا، نجانے کرونا وائرس طلبہ وطالبات اورادیب دانشور طبقے کا ہی سب سے بڑا دشمن کیوں ثابت ہوا ہے ویسے آن لائن اجلاس کے چند فائدے بھی ہیں، اجلاس میں شرکاء کا ٹرانسپورٹ خرچ بچ جاتا ہے،حلقہ ارباب ذوق کی انتظامیہ کو چائے پانی پر اٹھنے والے اخراجات بھی نہیں کرنا پڑتے اورسب سے بڑھ کر لاہورکے علاوہ دوسرے شہروں بلکہ دوسرے ممالک میں مقیم دانشوربھی گھر بیٹھے آن لائن ادبی نشست میں شریک ہوجاتے ہیں۔
جنوری میں حلقہ ارباب ذوق لاہورکے سالانہ انتخابات بھی تھے، الیکشن شیڈول جاری ہونے سے پہلے مجلس عاملہ نے سیشن کے دوران نئے بنائے جانے والے 26 ممبرزکے ناموں کا اعلان کیا تھا جن میں اجالا کاظمی، فارحہ ارشد، نیلوفر افضل، خواجہ آفتاب حسن، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹرمنور عثمانی، ڈاکٹر اشفاق ناصر، ڈاکٹر محمدنعیم، رانا عامر لیاقت، قیصر نذیر خاور، احمد محی الدین، محمد عامر سہیل، عباد نبیل، ریاض رومانی، سیماب ظفر، ادریس بابر، عمار اقبال، انعام اکبر، فرہاد ترابی، احمد رضا، احمد اخلاق، محمد اویس، محمد عامر، خرم آفاق، اسد فاطمی اورچاند شکیل شامل ہیں۔ الیکشن شیڈول کے مطابق 16جنوری تک کاغذات نامزدگی جمع ہونا تھے اور 30 جنوری کوپولنگ ہونا تھی مگر سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری کی نشستوں پر صرف فرح رضوی اور میاں شہزاد نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، ان کے مقابلے پر مقررہ تاریخ تک کوئی امیدوار میدان میں نہ آیا تھا ماضی میں حلقے کاالیکشن لڑنے والے راناسرفرازانور بھی ادب وصحافت کی دنیا سے غائب ہیں لہٰذا الیکشن کمشنر آفتاب جاوید نے فرح رضوی اور میاں شہزادکی کامیابی کا اعلان کردیا اوریوں رواں سال حلقہ ارباب ذوق کے انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کی نوبت ہی نہ آسکی تھی۔
سیکرٹری فرح رضوی سیکرٹری بننے سے پہلے حلقے کی جائنٹ سیکرٹری تھیں اورپہلے بھی بلامقابلہ منتخب ہوئی تھیں۔ حلقہ ارباب ذوق لاہورکی پہلی خاتون سیکرٹری بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا، حلقہ ارباب ذوق کی رکن رہنے والی خواتین میں سے بانو قدسیہ، افضل توصیف، جمیلہ ہاشمی، سعیدہ ہاشمی، پروین عاطف، شائستہ حبیب، نسرین انجم بھٹی اورعفرا بخاری اب دنیا میں موجود نہیں رہیں البتہ کشورناہید، سلمیٰ اعوان، یاسمین حمید، مسرت کلانچوی، حمیدہ شاہین، روبیہ جیلانی، صبا ممتاز بانو وغیرہ گاہے گاہے حلقے کے اجلاس میں شریک ہوتی رہتی ہیں۔
نومنتخب عہدیداروں فرح رضوی اور میاں شہزاد نے اتوارکو اپنے سیشن کا پہلا ہفتہ وارتنقیدی اجلاس آن لائن کروایا جس کی صدارت سابق سیکرٹری حسین مجروح نے کی جبکہ آغا سلمان باقراورعقیل اختر نے تخلیقات تنقیدکیلئے پیش کیں۔ آغا سلمان باقر کے مقدمہ اردوسفرنامہ نگاری پر میاں شہزاد، علامہ نواز کھرل، ڈاکٹر عمران جاوید، قیصرنذیر خاور اورعبدالوحید نے پسندیدگی کا اظہارکیا جبکہ پروفیسر شاہد اشرف نے سفرنامہ نگاری کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد آغا سلمان باقر کی جانب سے سفرنامے کو اصناف ادب کے سنگھاسن پر بٹھانے کی مخالفت کرتے ہوئے قراردیاکہ نثری اصناف ادب میں سب سے زیادہ افسانہ، مضمون اورناول لکھا جارہاہے، حسین مجروح نے صدارتی رائے دیتے ہوئے زبان و بیان اورطلسمی پیراہن کو لائق تحسین قراردیا۔
صدر محفل حسین مجروح نے سابق سیکرٹری عقیل اخترکی غزل پر اظہارخیال کی دعوت دی توسابق سیکرٹری غلام حسین ساجد نے غزل کوقدرے ابہام اورعجزبیان کے درمیان، شاہد بلال نے کمزور،قیصر نذیر خاور نے صرف قافیہ پیمائی، سلمان رسول نے نظم یا مسلسل غزل جبکہ میاں شہزاد نے اسے بہت اچھی،ریاض رومانی نے مخصوص اندازکی اور جنید خان نے عمدہ غزل قراردیا۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
آئینِ وطن
جاوید کاہلوں
بالآخر بینک دولت پاکستان سے متعلق ترمیمی بل کی سادہ اکثریت سے سینٹ آف پاکستان نے بھی منظوری دے دی۔ اس طرح سے وہ اب صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد ایک مستقل قانون بن چکا ہے۔ اس بل کی اس سے قبل ملک کی (قومی اسمبلی) بھی منظوری دے چکی تھی۔ سینٹ میں چونکہ اپوزیشن پارٹیاں اکثریت رکھتی تھیں لہٰذا خیال کیا جاتا تھا کہ یہ مجوزہ بل وہاں پھنس جائے گا اور منظوری حاصل نہیں کر پائے گا اب کی بار ہماری سینٹ میں اپوزیشن کو دوسرا بڑا دھچکا لگا کہ وہ اُدھر اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ پہلی بار جب اپنی عددی اکثریت کے زعم میں پی ڈی ایم نے بڑھکیں لگاتے ہوئے سینٹ کے موجودہ چیئرمین کو ہٹانے کے لیے قرارداد پیش کی تو خلاف توقع خفیہ ووٹنگ کا نتیجہ اپوزیشن کی امیدوں کے برعکس نکلا تھا اس قرارداد کے ناکام ہونے پر حزب اختلاف کی صفوں میں کافی ہلچل دیکھی گئی۔ ایک دوسرے پر پھبتیاں کسی گئیں۔
پارٹی سربراہوں نے بھی خطاکار سینیٹر وں کو ڈھونڈ کر اپنی صفوں سے نکال باہر پھینکنے کے بیانات داغے۔ اِدھر اُدھر کچھ اظہار وجوہ کے نوٹس بھی بھجوائے گئے مگر آخر میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ظاہر ہے کہ جن سینیٹروں نے کروڑوں لگاکر اپنی نشستیں محفوظ کی تھیں، پارٹی سربراہوں تک کی جیبیں گرم کی تھیں ان کو ایسی گیدڑ بھبکیوں کی کیا پروا ہوسکتی تھی۔ یہ دوسرا مرحلہ سینٹ میں ترمیمی بل کے حوالے سے جواب درپیش تھا حکومت اپنی اقلیت کے باوجود ایک بار پھر کامیاب رہی اور مولانا فضل الرحمن، شریف برادران اور زرداری ٹولے کو پھر سے پرانی طرز کی خفت اٹھانا پڑی۔ اس دھچکے کے بعد اپوزیشن کی صفوں میں پھر سے ایک دوسرے پر بلیم گیم جاری ہے جوکہ ظاہر ہے کہ چند روز کے بعد اپنی موت آپ ہی مرجائے گی۔ یہ سب کچھ تو ہوگیا۔ اب یقینا اپوزیشن سربراہوں کی صف میں شامل چند درشنی لیڈروں کو بھی اس بات کی سمجھ آچکی ہوگی کہ کیا وجہ ہے کہ ہاؤس میں سپیکر، وزیراعظم یا پھر کسی صوبے کے وزیراعلیٰ وغیرہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بات سے یہ لوگ سلپ ہوتے کیوں دکھائی دیتے ہیں اگر وطن عزیز کی پارلیمانی روایات میں کچھ اخلاقی شائستگی کی رمق باقی ہوتی تو پھر شائد اپوزیشن پہلے مرحلے ہی میں اسلام آباد مارچ اور دھرنے وغیرہ کے بجائے حکومت سے چھٹکارے کے لیے کوئی نیا راستہ اختیار کرسکتی تھی مگر جب ایوان بالا بالخصوص اور ایوان زیریں بالعموم کے ممبران کی کثیر تعدار کو ٹکٹ کے حصول کے لیے پارٹی رہنماؤں کے کھیسے بھرنے کی ضرورت پڑے تو انتخابات جیت کر اسے کسی اعلیٰ پارلیمانی روایت کی پاسداری کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔کوئی بھی دنیا کا سرمایہ کار سرمایہ کاری کے بعد اصل زرکو نفع کے ساتھ وصولی کا حق کیوں نہیں رکھ سکتا لہٰذا سینٹ آف پاکستان میں لگے دھچکے سے کو بلبلانے کی کوئی ضرورت نہیں جَو کاشت کرکے گندم کی فصل کاٹنے کی توقع کرنا ہمیشہ عبث ہی رہا ہے۔
مگر یہ حالات کا فقط ایک ظاہری سا رخ ہے اس کا خطرناک رخ وہ ہے جس میں کہ عوام پون صدی سے لگے اس پارلیمانی جمہوری تماشے سے اب اکتاہٹ میں مبتلا دکھائی دینے لگے ہیں وہ اپنے سینکڑوں اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی بدکرداریوں اور پارلیمانی روایات سے انحراف کو اس نظام کے فیل ہوجانے پر محمول کر رہے ہیں۔ ہمارے نظام اور ہماری چھوٹی سی تاریخ میں لگے بار بارکے مارشل لاؤں کی ذمہ داری بھی وہ اسی ناکام پارلیمانی نظام پر ڈال رہے ہیں حالانکہ وہ یہ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ حال ہی میں سینٹ میں جو پارلیمانی نظام کی درگت بنی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ ثابت ہوا کہ غلطی نظام میں نہیں بلکہ اس کے چلانے والوں میں ہے۔ نظام کوئی بھی مکمل اچھا یا مکمل برا نہیں ہوتا بلکہ اسے چلانے والے اچھے یا برے ہوسکتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کا یہ المیہ بہرحال اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ قائداعظمؒ قضائے الٰہی سے جلد رخصت ہوگئے اور ہمارا پارلیمانی نظام کچھ طالع آزماؤں کے ایسے ہتھے چڑھا کہ مارشل لا لگنے شروع ہوگئے جبکہ دوسری طرف بھارت کو گاندھی اور نہرو وغیرہ کی شکل میں ایسے رہنما میسر آئے کہ وہاں پارلیمانی نظام کی مضبوط بنیادیں استوار ہوگئیں جوکہ تاحال قائم ہیں۔
کچھ ایسے ہی حالات کا پاکستان میں جبر ہے کہ ایک بار پھر سے کونے کھدروں سے صدراتی نظام کی آوازیں ابھرنا شروع ہوگئی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اس قوم پر یہ ایک احسان عظیم تھا کہ ملک کے دولخت ہونے کے المیہ کے بعد اس نے پارلیمانی دستور وضع کیا۔ اس کو متفقہ منظوری دلوائی اور اس کو بقیہ ماندہ پاکستان میں نافذ بھی کر دیا۔ مگر پھر اسی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہی تھانوں سے اس نظام کو اپنی جاگیردارانہ اور آمرانہ ذہنیت سے یوں مفلوج کردیا کہ نہ صرف دوصوبوں میں اپوزیشن کی حکومتوں کو چلتا کیا بلکہ آنے والے عام انتخابات میں ایسا جھرلو پھیرا کہ نتیجے میں اٹھنے والی تحریک میں خود بھی بہہ گئے۔
بہر حال بھٹوصاحب کا دیا ہوا متفقہ قومی دستور پچھلی نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے پاکستان میں نافذ ہے، متفقہ دستور کا ہونا کوئی مذاق نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ کسی بھی معاشرے میں روز روز دستور سے متعلقہ بحثوں کو چھیڑا بھی نہیں جاسکتا کہ اس سے معاشرتی وحدت اور یگانگت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ پارلیمانی نظام کی بنیاد مثبت روایات پرہوتی ہے اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ یہ اندر سے ہی اپنی اصلاح کرتا رہے۔ ہمارے دستور کی اٹھارویں ترمیم اس کا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے ایک پارلیمانی دستور ہی پاکستان میں چلتا رہے اور اس کی اصلاح اور ترامیم حالات کے مطابق ہوتی رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریں اصلاح احوال کی جانب رکھی جائیں ایک ایسی چھلنی لگے کہ بد دیانت اور بدکردار شہرت کے لوگ ہمارے ایوانوں تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے سخت عملی قوانین وضع کیے جائیں۔ اس نقطہ سے ہٹ کر اگر پھر سے ملک میں دستوری بحث یا صدارتی نظام وغیرہ کی بات چلائی گئی تو اس سے وحدت ملک کو نقصان بھی ہوسکتا ہے کہ دستور سازی کوئی کھیل تماشہ نہیں ہوتا کہ اسے وقتاً فوقتاً لگا کر رکھا جائے۔
(کرنل ریٹائرڈ اور ضلع نارووال کے سابق ناظم ہیں)
٭……٭……٭