All posts by Daily Khabrain

ایرک پرنس کاظلم اوربلیک واٹر

محمدنعیم قریشی
یہ ایک ایسے انسانیت کے قاتل کی داستان ہے جس کے کپڑوں پر دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے قتل کے چھینٹے ہیں جس کا دامن معصوم مسلمانوں کے خون سے سرخ ہے یہ بے رحم قاتل آخر ہے کون،اگر آپ کو یاد ہوتو کچھ دن قبل کابل ائیر پورٹ پر ایک خود کش حملہ ہوا اس خودکش حملے کے نتیجے میں 175افراد موت کا شکار ہوگئے اور دو سوکے قریب لوگ زخمی ہوگئے۔اس ایئر پورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے لوگوں پر خوف طاری تھا کہ اگر اکتیس اگست تک انہیں سیٹ نہیں ملتی اور طالبان نے انخلا پر پابندی لگا دی تو ان کا کیا ہوگا؟ اس قاتل کا ذ کر کرنے سے قبل میں ذرا تاریخ پر نظر دوڑانا چاہوں گا، اگر آپ کو یاد ہو تو چنگیز خان کے بارے میں ہم نے تاریخ میں پڑھا اور سنا ہے اس نے جنگوں کے دوران دو کروڑ افرادکو بے رحمی سے قتل کرد یا تھا،چنگیز خان کے بعد اس کا پوتا ہلاکو خان جس نے بغداد پر حملہ کیا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجاد ی،ہلاکو خان کے بعد ہم تیمور لنگ کے بارے میں پڑھتے ہیں جس نے 54علاقوں کو فتح کیا، اور جس شہر کو وہ فتح کرتا تھا وہاں کی پوری آبادی کو قتل کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا اور اس بے رحمانہ رویئے کے ساتھ شہر کو بھی آگ لگا دیتا تھا، تیمور لنگ نے کئی بار کھوپڑیوں کے مینار بنائے اس کے بعد ظالمو ں کی فہرست میں ہم نے پڑھا کہ سلطنت مغلیہ کے بادشاہ کس طرح ایک دوسرے کے بیٹوں کو قتل کرتے رہے پھر اس کے بعد ہم نے سلطنت عثمانیہ میں دیکھا کہ ایک بادشاہ نے اپنے 19بھائیوں کو قتل کردیا، شایدآپ کو یقین نہ آئے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس کے منہ پر خون لگا ہووہ کسی کا بھی سرقلم کرنے سے پہلے کچھ نہیں سوچتا،یہ واقعات صدیوں پر محیط ہیں،لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں جب انسان علم کی رفعتوں کو چھور ہا ہوگا، ہم اسی طرح کے ایک ایسے ظالم انسان کو اپنے سامنے دیکھیں گے جو ظلمات کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈز توڑنے کے باوجودحکومتی پروٹوکول میں پھرتا ہے جسے انسانی قتل کا پرمٹ خود سرکار جاری کرتی رہی، یہ شخص امریکہ میں رہتا ہے اورحالیہ دنوں میں اپنے چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے افغانستان سے لوگوں کا انخلا کر رہا تھا اس وقت جب ساری انسانیت اس بات کے لیے پریشان تھی کہ لوگ اطمینان سے اپنے گھروں کو چلے جائیں محفوظ ہو جائیں یہ شخص اس وقت بھی پیسے بنا رہا تھا، جب لوگ اس خوف کے عالم میں کابل ایئر پورٹ پر موجو د تھے اور دھماکے کے بعد پریشان تھے تو یہ شخص فی آدمی چھ ہزار پانچ سو ڈالر طلب کر رہا تھا لوگوں سے گویااگر ایک خاندا ن کے چار افراد ہیں تو یہ 26ہزار ڈالر طلب کر رہا تھا، جو کہ پاکستانی 43لاکھ روپے بنتے ہیں اس شخص کو انسانی زندگی سے زیادہ ڈالرز سے پیار ہے اور دولت کے اس پجار ی کا نام ہے ایرک پرنس، یہ امریکہ کی بد نام زمانہ تنظیم ”بلیک واٹر“ کا سربراہ اور خالق ہے اس نے 1997میں اس تنظیم کی بنیاد امریکہ کے شہر نارتھ کیرونا میں رکھی۔
1998میں امریکہ کا سب سے بڑا ٹریننگ سینٹر بنایا، اور اس ٹریننگ سینٹر میں اس نے مختلف ایجنسیز کے سابق عہدیدار، سی آئی کے سابق عہدیدار اور سابقہ فوجیوں کے ایک بڑی تعداد کو بھرتی کیا اور انہیں کمانڈوز کی ٹریننگ دی، گویا ایک پرائیویٹ فوج تشکیل دے دی اور اپنے آپ کو ایک سیکورٹی کمپنی کے نام سے متعارف کروایا اور اپنی خدمات امریکہ کو دیدیں۔ امریکی حکومت نے اس تنظیم ”بلیک واٹر“ کی خدمات سب سے پہلے 2003میں عراق جنگ کے دوران حاصل کیں، ان کو اکیس ملین کا ایک معاہد ہ دیا گیا جس کے تحت یاتحادی افواج کے سربراہ اور کچھ اہم تنصیبات کی حفاظت ان کے ذمے لگائی گئی، اور اس کے بعد پھر انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا 2008تک یہ وہاں موجود رہے اور ان پانچ سالوں کے دوران یہ نہ صرف امریکی سفارتخانوں اور امریکی سفیروں کی حفاظت کرتے رہے بلکہ یہ امریکی فوج کے شانہ بشانہ اس جنگ کا حصہ بن گئے اورپھر عراق میں انہوں نے ظلم کی نئی نئی داستانوں کورقم کیا۔
عراق کے خلاف جنگ میں چار لاکھ ساٹھ ہزار عراقیوں کو ہلاک کیا گیا جس میں لاتعدا د بچے، بوڑھے نوجوان اور عورتیں شامل ہیں، اور اس پورے ظلم کا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ جب 2001میں یہ جنگ ختم ہوگئی تو امریکہ اور برطانیہ نے تسلیم کر لیا کہ وہاں ڈسٹرکشن کا اسلحہ موجود نہیں تھا یہ محض ایک غلط فہمی تھی لیکن اس غلط فہمی کے چکر میں ان ظالموں نے چار لاکھ ساٹھ ہزاربے گناہ عراقیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور ان پانچ سالوں میں بلیک واٹر ظلم کی ایک مشین بنی رہی انہوں نے بے تحاشالوگوں کو قتل کیا حتیٰ کہ 2004میں بغداد کے چوک میں انہوں نے سترہ بے گناہ لوگوں کو قتل کردیا اس دوران ان پر بہت لعن طعن بھی ہوئی ان پر بہت مقدمات بھی ہوئے لیکن ایرک پرنس کا کوئی کچھ بھی نہ بگاڑ سکا وہ آج بھی ایک آزاد شہری کی طرح امریکی میں موجود ہے،اس ظالم شخص نے امریکی حکومت سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کمائے یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا کے سو امیر ترین شہریوں میں اس کا نمبر88ہے۔امریکا نے اس شخص کو دنیا بھر میں استعمال کیا۔ اریک پرنس کی خدمات امریکی سی آئی اے لیبیا میں حاصل کی گئیں۔لیبیا میں کرنل قذافی کے خلاف سیاسی مشکلا ت کھڑی کروانا اور اس کو اقتدار سے نکلوانا اور پھر بعدازاں قتل کرنے میں سی آئی نے ”بلیک واٹر“ کو استعمال کیا اور وہاں بھی یہ لوگ ایک مشن مکمل کر کہ آئے لیبیا کے بعد تیسرے مسلمان ملک کے لیے امریکہ نے اس کی خدمات حاصل کیں، جیسے ہی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا فورا ہی ایرک پرنس نے افغانستان کا دورہ کیا اور عراق اور لیبیا کے طرح افغانستان جنگ میں بھی یہ لوگ امریکی فوج کا حصہ بن گئے۔
افغان جنگ میں 2500امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور چار ہزار کنٹریکٹر ہلاک ہوئے یہ بلیک واٹر کے فوجی تھے اس جنگ میں پچاس ہزار افغان شہری اور 66ہزار افغانی فوجی ہلاک ہوئے، ظلم کی وہ داستان جو عراق سے شروع ہوئی اس کی انتہا انہوں نے افغانستان میں کی اور جب بیس برس کے بعد امریکہ کو ایک ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اسی ہی طرح بلیک واٹر کو ذلیل و خوار ہونا پڑا لیکن جیسے ہی انخلا کا سلسلہ شروع ہوا اور انہوں نے چارٹرڈ فلائٹس چلائیں تو جاتے جاتے بھی افغان شہریوں اور غیر ملکیوں کا خون انہوں نے ایسے ہی چوسنا شروع کیا جس طرح میں نے بتایا کہ انخلا کے وقت ایئر پورٹ سے جاتے ہوئے لوگوں سے 6500ڈالرز طلب کیے۔بلیک واٹر ایک سیکورٹی ایجنسی کے نام پر متعارف کروائی گئی لیکن درحقیقت یہ قاتلوں کی ایک تنظیم ہے جس نے مسلمان ممالک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔
چائنہ کی واحد حکومت ہے جس نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ جنگ میں جس نے جنگی جرائم کیے ہیں ان کے خلاف ایک کمیشن بنایا جائے اور ان پر مقدمہ بنایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت ہی مناسب اور برحق مطالبہ ہے چین کا بلکہ پوری عالمی برادری کو اس کا مطالبہ کرنا چا ہیے اور ایک کمیشن بننا چاہیے جو ان تمام جنگی جرائم کی تحقیقات کرے اور جو ذمہ دار ہیں ان کو عالمی عدالت میں لے جایا جائے اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے‘جس میں بلیک واٹر کاسربراہ ایرک پرنس بھی شامل ہو۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

 

 

الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانی

مرزا روحیل بیگ
وزیراعظم عمران خان 2023 کے قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال چاہتے ہیں، اس حوالے سے حکومت متحرک نظر آتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوں گے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن نے اس حوالے سے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانگ ووٹنگ کو مسترد کرتے ہوئے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اعتراضات پر تفصیلی رپورٹ سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کرائی ہے جس میں الیکٹرانک ووٹنگ پر 37 اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی رک سکتی ہے اور نہ ہی ووٹر کی شناخت خفیہ رہے گی۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ 4 لاکھ مشینوں پر کم از کم 150 ارب روپے خرچ ہوں گے، اتنا پیسہ خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی۔
الیکشن کمیشن سے قبل اپوزیشن جماعتیں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر عدم اعتماد کر چکی ہیں، جنہوں نے الیکشن کمیشن سے ملتے جلتے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان اعتراضات میں بیلٹ پیپر کی رازداری نہ رہنا، ویئر ہاؤسز اور ٹرانسپوٹیشن مشینوں کے سافٹ ویئر کی تبدیلی، ہیکنگ وغیرہ کے خدشات شامل ہیں، جبکہ ووٹر کی تربیت اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس طرح نتائج میں تاخیر کے باعث میڈیا، این جی اوز اور سول سوسائٹی کو بداعتمادی ہو سکتی ہے۔ 2023 کے انتخابات میں اگر آر ٹی ایس کی طرز پر یہ سسٹم فلاپ ہو گیا تو ذمہ دار متعلقہ وزارتیں اور الیکشن کمیشن ہو گا۔ اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ جرمنی، ہالینڈ، آئرلینڈ، اٹلی اور فن لینڈ نے سکیورٹی مسائل کی وجہ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں شرح خواندگی کم ہونے اور ووٹروں میں اس مشین کے استعمال کے بارے میں آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس مشین کو انتخابات میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہو گا اور الیکشن کمیشن کے سٹاف کو اس مشین کے استعمال کی تربیت دینے میں وقت بہت کم ہے۔ الیکشن کمیشن کی رائے میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے شفاف الیکشن ممکن نہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کا یکطرفہ فیصلہ کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے کیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کئی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔ جرمنی میں قومی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، یہاں ووٹ بیلٹ پیپر اور ڈاک کے ذریعے ڈالے جاتے ہیں۔
جرمنی میں 2005 میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے بعد شفافیت پر اعتراضات اٹھائے گئے۔ عدالت نے سائبر ایشوز، آئن لائن مداخلت کا خدشہ قرار دے کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال غیر آئینی قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ نے بیلٹ پیپر طریقہ کار میں ہاتھ سے کاؤنٹنگ کے ذریعے کسی قسم کی بے ضابطگی خارج از امکان قرار دی، جس کے بعد سے جرمنی میں انتخابات کا روایتی طریقہ رائج ہے۔ اس بات میں وزن ہے کہ اگلے انتخابات میں صرف دو سال رہ گئے ہیں اور اس مختصر عرصہ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو پہلی بار پورے ملک میں متعارف کروانا بہت مشکل کام ہو گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے منصوبے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ الیکشن میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں جلد بازی فائدہ مند نہیں۔ ورچوئل دنیا اب ایک حقیقی دنیا بن چکی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے ڈیٹا سکیورٹی انتہائی اہم ہے۔ شفافیت اور بے ضابطگیوں کے خاتمے کے لیئے درکار آئینی تبدیلیوں کے لیے فریقین کی مشاورت ناگزیر ہے اور کسی ایسے اقدام سے بہر صورت گریز کیا جائے جس سے قومی وحدت اور اتفاق رائے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے بھی کثرت رائے سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق ترمیم مسترد کر دی اور ساتھ ہی اوورسیز پاکستانیوں کے لیئے الیکٹرانک ووٹنگ سے متعلق ترمیم بھی مسترد کر دی۔ یہ معاملات اصلاح کی بجائے نئے تنازعات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ عوام کے حق رائے دہی کو شفاف اور بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کے لیے حکومت، اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کوئی راستہ نکالیں۔ اب تک الیکشن کمیشن نے دوسرے کچھ ملکوں میں مشین کی ناکامی اور ووٹر کی شناخت کے حوالے سے جن مسائل کا ذکر کیا ہے حکومت کو ایسے خدشات دور کرنا چاہئیں اور ادارہ جاتی ٹکراؤ کی فضا پیدا نہیں ہونے دینی چاہیئے۔ جمہوریت کے استحکام کی آج کی مثالی فضا گدلی ہو گی تو اس سے جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
(کالم نگارجرمنی میں مقیم،بین الاقوامی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سپرطاقت اوربڑی غلطی

مسلمان ہونے کے ناطے علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود قرآ ن شریف میں کہا ہے کہ ہم نے انسان بنایا۔اور اس کو زبان بولنا سیکھائی اور پھر اسی زبان کے ذریعے علم دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔اور علم انسان کو انسان بناتا ہے۔اگر انسان علم حاصل کرنے کے بعد اچھا انسان بن جاتا ہے تو یقینی طور پر اچھا مسلمان بھی ہو گا اور کرشماتی طور پر اس کو کامیا بیاں بھی ملیں گی۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم انسان کو پہلے مسلمان بناتے ہیں اور پھر اس کے بعد کچھ اور بنانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ در حقیقت ہونا اس کے الٹ چاہیے۔قران شریف میں واضح طور پر انسان کی بات کی گئی ہے نہ کہ مسلمان کی قرآ ن شریف انسان کو مخاطب کرکے اسے تعلیمات دیتا ہے اور پھر ان تعلیمات کے زیر اثر جب مسلمان بنتا ہے تو طارق بن زیاد بھی بنتا ہے،خالد بن ولید بھی بنتا ہے اور ارطغرل غازی بھی بنتا ہے۔اصل میں مسلمان بننا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
ایک مسلمان کو بے خوف ہونا چاہیے اور ڈٹ کر برائی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ایسی برائیوں کا مقابلہ مسلمان کرتا ہے جو کہ انسان کی نشو نما اور بہبود کے خلاف ہوں جو مسلمان ڈر جاتا ہے وہ ایک کمزور مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر رحم اور مہر بانی کرے ہم سب کا شمار اسی کیٹگری کے مسلمانوں میں ہو تا ہے۔میں اپنی اس بات کو موجودہ دور اور سیاست کے زمرے میں دیکھوں تو آج کی دنیا میں ہم بطور قوم امریکہ سے مرعوب ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔اور بات یہاں ختم نہیں ہو تی ہم تو اتنا ڈرتے ہیں کہ ان کے بارے میں سچ بولنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔افغانستان کے تناظر میں بات کروں تو حال ہی ہم نے دیکھا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کیا حشر ہوا ہے،اللہ کے نڈر بندوں نے 40سال کی مسلسل کوشش کے بعد افغانستان میں امن قائم کیا ہے اور حکومت حاصل کر لی ہے۔اس طویل جد و جہد کے دوران وہ ہر طرح کی آزمائش سے گزرے ہیں۔طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلا ت کا سامنا کیا بد ترین تذلیل اور تشدد کا سامنا بھی کیا اس سب کے بعد انسان یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ان میں ایسی کیا بات تھی کہ وہ دنیا کی طا قت ور ترین قوتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے؟ ان میں آخر کچھ تو ایسی بات ہو گی کہ ایسا ممکن ہوا جو کہ بظاہر ناممکن تھا اس کا جواب انسان کے ذہن میں یہی آتا ہے کہ یہ لوگ سچے مسلمان ہیں اور ایمان کی طاقت سے لبریز ہیں اور کسی طرح سے بھی کمزور مسلمان نہیں ہیں۔یہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔افغان قوم اس لحاظ سے شاید دنیا کی نرالی قوم ہے کہ انھوں نے کسی بھی طرز حکومت پر اکتفا نہیں کیا ہے پہلے بادشاہت کی حکومت کا خاتمہ کیا،اس کے بعد جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کیا سوشلسٹ حکمرانوں کو بھی نہیں ٹکنے دیا گیا اور ان کو بھی افغانستان سے نکال باہر کیا۔طویل جدو جہد کے بعد جب سویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کیا گیا تو افغان عوام بلا شبہ ایک عظیم فتح سے ہمکنار ہو ئے لیکن دنیا کی سامراجی قوتوں کو افغان عوام کی فتح پسند نہیں آئی اور افغانستان کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔افغانستان کی تاریخ کے اس تاریک دور میں تحریک طالبان ابھری اور انھوں نے افغانستان کو امن دیا،استحکام دیا اور افغان عوام کو ایک بہتری کی امید دلائی لیکن اس کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا دنیا میں سوائے تین ممالک کے کسی نے ان کی حکومت کو تسلیم تک نہ کیا۔افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ایک طرح سے دنیا سے کاٹ دیا گیا جس کا نتیجہ کیا نکلا کہ افغان سرزمین اور افغان عوام محرومیوں میں گھرتے چلے گئے اور افغان سرزمین پر ایسی قوتوں نے جنم لیا جن کو شاید جنم نہیں لینا چاہیے تھا اور انھی قوتوں کے باعث افغانستا ن میں ایک اور جنگ مسلط ہوئی۔
امریکہ نے قبضہ کیا اور اس کے بعد اس تحریک کے ارکان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ میں شاید اپنے قلم سے یہاں پر تحریر بھی نہ کر سکوں۔اس کے بعد کی کہانی بھی سب ہی جانتے ہیں امریکی نے افغانستان میں ڈالروں کا انبار لگادیا۔ایک فوج بنائی،ایک انتظامیہ تشکیل دی گئی کچھ حکمران بھی منگوائے گئے یعنی کہ حکمرانی کے جو بھی لوازمات ہوتے ہیں وہ سب پورے کیے گئے لیکن اگر کچھ نہیں کیا تو وہ یہ تھا کہ اس تمام کٹھ پتلی نظام کو افغان عوام کی حمایت اور قبو لیت بلکہ اگر ”اونر شپ“ کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا،نہیں دلواسکے۔دنیا کی سپر پاور اپنی طاقت کے نشے میں عوام کو کچھ سمجھتی ہی نہیں ہے اور شاید یہی سپر پاور کی سب سے بڑی غلطی ہو تی ہے جس کے باعث ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔عوام کی طاقت اور حمایت کے بغیر کو ئی بھی نظام نہیں چلایا جاسکتا ہے عوام ہی وہ بنیادی قوت ہوتی ہے جس کے اوپر ایک نظام کھڑا کیا جاتا ہے۔اس لیے کوئی بھی حکمران کتنا ہی عظیم اور طاقت ور کیوں نہ ہو عوام کی طاقت کے بغیر زیادہ دیر چل نہیں سکتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو بہر حال خلق کی آواز کو خدا کی آواز سمجھنا چاہیے۔اور افغانستان میں اس آواز کا نہ کو ئی لحاظ کیا گیا اور نہ ہی کوئی بھروسہ کیا گیا اور سامراجی قوتوں کی جانب سے اس قسم کا رویہ صرف اور صرف افغانستان کے حوالے سے روا نہیں رکھا گیا ہے بلکہ امریکہ نے ہر ترقی پذیر اور غریب ملک کے عوام کو انسان سمجھنے سے انکار کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اتنی بڑی طاقت ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں تتر بتر ہے۔اور اسی رویے کی وجہ سے امریکہ کے دنیا میں مقاصد پورے نہیں ہو پاتے ہیں۔بہرحال طالبان خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں افغانستان پر حکومت کا دوسرا موقع دیا ہے اور وہ گولی چلائے بغیر کابل میں داخل ہو گئے اور قبضہ کر لیا۔لیکن دنیا کی مقتدر قوتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ دنیا میں ایک صحیح مسلم ریاست وجود میں آئے ایک ایسی مسلم ریاست جس کا نقشہ علامہ محمد اقبال نے خطبہ الٰہ باد میں پیش کیا تھا،پاکستان کے نصیب میں تو ایسی ریاست بننا نہ تھا لیکن افغانستان اپنے نڈر عوام کی وجہ سے ایسی ریاست ضرور بن سکتا ہے۔ایک ایسی ریاست جس کے خوف سے آج امریکہ بھی نئے اتحاد بنا تا پھرتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان‘ہمسایہ ممالک اورافغانستان

عبدالستار خان
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قائم ہوتے ہی ایک نئی بحث نے جڑ پکڑنا شروع کردیا ہے کہ افغانستان کے تعلقات اپنے پانچ ایسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کون سا رخ اختیار کرتے ہیں جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ایک تو دنیا کا وہ بڑا حصہ ہے جو طالبان کو افغانستان سے نکالنے اور پھر 20سال تک افغانستان کی سابقہ حکومتوں کو سنبھالنے کا فرض ادا کرتے رہے۔لیکن ان کی سرحدیں افغانستان سے جڑی ہوئی نہیں ہیں۔لیکن وہ پانچ ممالک جن کی سرحدیں افغانستان کی سرحد کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ان کے بدلتے حالات میں اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے۔
اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ افغانستان کے ساتھ کس قسم کے معاملات رہے ہیں۔لیکن سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان نے 6اگست سے 15اگست کے دس دنوں کے دوران افغانستان کے 34صوبوں میں سے جن 26صوبوں میں اقتدار حاصل کیا ان میں کتنے صوبوں کی سرحد یں افغانستان کے پانچ ہمسایہ ممالک سے جڑی ہوئی ہیں۔افغانستان میں طالبان نے 6اگست سے 15اگست دس دنوں کے دوران افغانستان34 صوبوں میں سے جن 26صوبوں کو فتح کرلیا تھا۔ان میں سے 10صوبوں کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ان 10صوبوں میں سے ایک صوبہ کی پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی سرحد ملتی ہے جبکہ ایک صوبے کی سرحد چین اور ازبکستان سے ملتی ہے۔ویسے تو افغانستان کے 11صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔چار صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ان میں سے ایک صوبے کی سرحد ایران سے بھی ملتی ہیں۔دو صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں تاجکستان سے اور ازبکستان دونوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ویسے تاجکستان سے افغانستان کے تین صوبوں کی سرحدیں اور ازبکستان کے ساتھ دو صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں۔
افغانستان کا ایک صوبہ بدخشاں کی سرحد چین سے ملتی ہیں۔اسی صوبہ کی سرحد پاکستان اور تاجکستان سے ملتی ہیں۔اس کے علاوہ 9صوبے ایسے ہیں۔جن کی سرحدیں کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ نہیں ملتی۔
افغانستان کی آبادی تقریباًتین کروڑ 86لاکھ ہے جس میں سے 2کروڑ 62لاکھ کی آبادی افغانستان کے ان صوبوں میں بستی ہے جن کی سرحدیں افغانستان کے پانچ ممالک سے ملتی ہیں۔سب سے زیادہ تعداد اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔جن کی تعداد ایک کروڑ سات لاکھ ہے۔ایران کی سرحدوں کے ساتھ جڑے ہوئے افغانستان کے صوبوں کی آبادی 70لاکھ ہے۔ترکمانستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 46لاکھ ہے۔تاجکستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 24لاکھ ہے۔ازبکستان کے ساتھ جڑے ہوئے صوبوں کی آبادی 12لاکھ ہے۔جبکہ چین کے ساتھ جڑے ہوئے صوبے کی آبادی5لاکھ ہے۔
اس صور ت حال سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ طالبان نے دس دنوں میں ان تمام صوبوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔جن کی سرحدیں ان پانچ ممالک سے ملتی ہیں۔کچھ صوبے تو ایسے ہیں جن کا کنٹرول یا تو طالبان نے چند گھنٹوں میں حاصل کرلیا یا پھر بغیر مزاحمت کے ہی قبضہ کرلیا۔کچھ صوبے تو ایسے ہیں جہاں کے یا تو انٹیلی جنس سربراہ گرفتا ر کرلئے گئے۔یا پھر انہوں نے خود ہی سرنڈر کردیا۔چین کی بات کریں تو چین طالبان کی حکومت سے کسی قسم کی محاز آرائی یا تلخی پیدا نہیں کرنا چاہتا۔لیکن چین صرف ایک ہی بات سے پریشان ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کی حکومت میں آنے سے چین کے صوبے xingjuangمیں uygurمسلمانوں کی تحریک میں نئی پھونک نہ پڑ جائے۔چین کا افغانستان کی ایک چھوٹی سی نکر میں سرحدی ملاپ ہے جو چین اور افغانستان کو پہاڑی سلسہ واخاں Corridor کے ذریعہ ملاتا ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ افغان صدارتی دستاویزات میں بدخشاں صوبے کو چین اور پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا نہیں بتاتے۔ایران کے لئے افغانستان سے امریکہ کا نکلنا ایک اچھا شگون ہے۔لیکن دوسری طرف طالبان کے آنے کے بعد فرقہ وارانہ جارحیت میں شدت ایران کو پریشان کرسکتی ہے۔ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے بیان دیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی فوجی شکست افغانستان میں امن کے ایک نئے سفر کا عندیہ ہے۔لیکن دوسری طرف افغانستان میں تبدیلی اس وقت آئی جب خود ایران میں نئے صدر کی آمد ہوئی ہے۔دوسری وجہ کرونا ہے جو ابھی تک ایران کو وہ لمحات نہیں دے سکا جس میں کچھ اور پیچیدہ معاملات کی طرف توجہ ہو۔1978میں جب افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت تھی۔تو ایران اور افغانستان حالت جنگ میں چلے گئے تھے کیونکہ طالبان نے ایرانی سفارتکار ہلاک کردیئے تھے۔ایران کی اسلامک انقلاب کے زور وشور میں 2013میں افغانستان میں سینکڑوں کی تعداد میں جنگجو تیار کئے تھے تاکہ شام اور عراق میں جنگجوون کو استعمال کیا جاسکے۔لیکن کیا اب افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے سے ایران جنگجووں کی تلاش جاری رکھ سکے گا۔کیا افغانستان میں طالبان کے علاوہ ایسی اسلامی تنظیمیں بسیرا کرلیں گی جن کے ایران کے ساتھ واضح اختلافات ہیں۔
ایران نے 2001کے بعد لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کوپناہ دی تھی۔لیکن اب لگتا ہے کہ ایران ایسا نہیں کرے گا۔تاجکستان نے افغانستان کی پنج شیر وادی میں طالبان کے خلاف معروف ترک جنگجووں کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔اور نہ ہی پنج شیر کے ترک تاجکستان کی امید لگائے بیٹھے تھے۔تاجکستان کے طاقتور حکمران راحمون نے اشارہ دیا تھا کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیں گے۔لیکن یہ بھی واضح کیا کہ تاجکستان افغانستان کی حکومت میں طالبان کی اجارہ داری نہیں چاہتا۔بلکہ ایک ایسی حکومت چاہتا ہے جس میں افغانستان میں رہنے والے تمام ethnicگروپوں کی نمائندگی ہو۔تاجک 20 فیصد کے قریب افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں اور تیرہ سو کلو میٹر سرحد ہے۔
راحمون نے یہ بھی واضع کیا کہ ان کا ملک ایسی افغان حکومت کو مسترد کردے گا۔جو باقی حکومت کو مسترد کردے گا۔جو باقی قوموں کی ذلت رسوائی پہ مبنی ہو۔ازبکستان نے ان تمام ویسٹرن ممالک کے لوگوں کو اور 500 سے زائد افغان پائلٹ جو طالبان کے آتے ہی افغانستان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے کو ازبکستان میں پناہ دی اور ان کو منزل تک پہنچانے میں مدد کی۔
وہ جہاز جو ان بھاگنے والوں کو لے کر جارہے تھے۔ان کی ری فیولنگ بھی ازبکستان میں ہوئی۔طالبان کے رویہ کی وجہ سے ازبکستان نے وقتی طور پر اپنی پالیسی تبدیل کی اور 200کے قریب افغانستان سے بھاگے ہوئے لوگوں کو واپس افغانستان بھیج دیا۔جس سے انٹرنیشنل کمیونٹی نے کافی اعتراض کیا۔ترکمانستان نے طالبان اور افغانستان کے حوالے سے ایسی پالیسی رکھی۔جسے غیر جانبدارانہ کہا جا سکتا ہے۔لیکن ترکمانستان کی حکمران جماعت افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے بہت قریب تھی۔یہاں تک کہ حامد کرزئی کے دور میں ترکمانستان نے افغانستان کی rehabilitation اور reconstruction میں اپنی بساط کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔اور کابل کے الیکٹریکل پاور کا قرضہ بھی بہت کم کردیا تھا۔اس کے علاوہ انرجی کم داموں میں فراہم کرتے رہے۔ترکمانستان نے ریلوے کا ایک حصہ بھی تعمیر کرلیا جو افغانستان اور ترکمانستان کو ملاتا تھا۔اس تمام صورت حال پاکستان ہی ایک واحد ملک ہے۔جس کے بارے میں پہلے دن سے طے ہے۔کہ افغانستان اگر اپنے کسی ہمسایہ ملک سے سب سے بڑھ چڑھ کر تعلقات بڑھائے گا۔تو وہ پاکستان ہی ہوگا۔لیکن جہاں کچھ اور معاملات سر اٹھا سکتے ہیں۔وہاں یہ ایک ایسا ایشو ہے۔اگر اس ایشو نے کوئی خاص رنگ پکڑ لیا۔تووہ دونوں ممالک کے لئے مناسب نہ ہوگا۔وہ ایشو ہے ڈیورنڈ لائن۔ ڈیورنڈ لائن ایک ایسا ایشو ہے جو افغانستان کی ماضی کی تمام حکومتوں چاہے وہ لبرل تھے۔کمیونسٹ تھے۔ مجاہدین تھے۔یا پھر طالبان۔سب اس بات پر اڑے رہے کہ ڈیورنڈ لائن کا 100سالہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔اسے نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور باقی دنیا جانتی ہے۔اگر بات ڈیورنڈ لائن تک چلی گئی۔تو یہ مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان گھمبیر ہوسکتا ہے۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭

طالبان اور پاکستان کے تعلقات بگڑسکتے ہیں:امریکہ

واشنگٹن (نیوز ایجنسیاں) امریکا کے سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے کانگریس کو بتایا کہ افغان فوج کی اچانک پسپائی سے پنٹاگون مشکل میں پڑ گیا اور افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ میں کرپشن سمیت غلطی کا اعتراف کرلیا۔خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ افغان فوج کئی جگہ ایک فائر کیے بغیر پسپا ہوگئی، جس سے ہم سب کو حیرت میں ڈال دیا’۔انہوں نے کہا کہ ‘اس کے علاوہ دعوے کرنا بددیانتی ہوگی’۔ لائیڈ آسٹن افغانستان میں جنگ کے خاتمے پر پیدا ہونے والی افراتفری سے متعلق دو روزہ اجلاس کے ابتدا میں آگاہ کر رہے تھے اور اس جنگ میں امریکی فوجیوں اور شہریوں کو بھاری جانی نقصان ہوا جبکہ طالبان واپس حکومت میں براجمان ہوگئے۔۔آسٹن نے بتایا کہ ‘کیا یہ بہترین ہے؟ تو بالکل نہیں ‘ اور اشارہ کیا کہ افغان شہری جو ملک چھوڑنا چاہتے تھے وہ امریکی فوجی طیارے سے گر کر ہلاک ہوئے اور امریکی ڈرون کی زد میں آکر جاں بحق ہونے والے افغان شہریوں کا بھی تذکرہ کیا۔
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں شامل ری پبلکن کے سینئر رہنما سینیٹر جیمز انہوف نے بائیڈن انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ ناقدین جس طرح 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا ہے اس کو شرم ناک کہتے ہیں۔ امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی کا کہنا ہیکہ افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم ہوسکتی ہے، افغان فوج اور حکومت ختم ہونیکی توقع اتنی جلدی نہیں تھی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کا افغانستان پر اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن، سینٹ کام کمانڈر جنرل مکنزی اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی بھی شریک ہوئے۔جنرل ملی کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے نے افغان فوج کا مورال کم کیا، طالبان اب بھی دہشت گرد تنظیم ہے،طالبان کے اب بھی القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں، افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم ہوسکتی ہے اور افغان سرزمین امریکا کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔جنرل ملی کا کہنا تھا کہ افغان فوج کا اس طرح تحلیل ہونا متوقع نہیں تھا، اشارے تھے کہ امریکی انخلا سے افغان فوج اور حکومت ختم ہوسکتی ہے، لیکن افغان فوج اور حکومت ختم ہونیکی توقع اتنی جلدی نہیں تھی، افغان فوج میں نیت اور قیادت کا فقدان تھا، افغانستان سے انخلا سے امریکی ساکھ متاثر ہوئی، ٹرمپ اوربائیڈن کوخبردار کیا تھا کہ اچانک انخلا سے افغان حکومت گر سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے کے تحت طے شدہ شرائط میں سے طالبان نے صرف ایک شرط پوری کی جو اتحادی افواج پر حملہ نہ کرنے کی تھی۔سینٹ کام کمانڈر جنرل مکنزی کا کہنا تھا کہ میراخیال تھا کہ امریکی فوج افغانستان میں رہنی چاہیے کیونکہ امریکی فوج کے انخلا سے افغان فوج متاثر ہوگی،طالبان کے زیر اثر افغانستان کی طرف سے پاکستان پر دبا بڑھ سکتا ہے، آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ جس سے پاکستان اور طالبان کے تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔ جزل مکنزی کا کہنا تھا کہ افغانستان تک فضائی اور زمینی رسائی پاکستان کی ذریعے ہوتی رہی، افغانستان تک رسائی سے متعلق پاکستان کے ساتھ بات چیت رہی ہے۔امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مزید کسی فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں،جنرل آسٹن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہم نے ایک ریاست تو بنالی پر ایک قوم نہ بناسکے،حقیقت یہ ہیکہ ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے جو افغان فوج کو تربیت دی وہ بہت جلد بہہ گئی، متعدد بار ایک گولی چلائے وہ ہتھیار ڈال گئے، ہزاروں افغان فوج اور پولیس کے اہلکار مرگئے لیکن ہم ان میں جیتنے کی خواہش نہیں پیدا کرسکے۔

 

سیاسی دباؤ اور چمک MGموٹرز کے گرفتار ملزمان کو تھانے میں دی آئی پی پروٹوکول

لاہور(خصوصی ر پورٹر)ایم جی مو ٹر ز کے مبینہ تشددسے 55سالہ شہر ی کی ہلا کت کا معاملہ، آپریشنز ونگ کی جانب سے حرا ست میں لیے گئے ملزمان کوسیاسی دباؤ اور چمک کے باعث انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر نے کے بعد وی وی آئی پی پرو ٹوکو ل ملنے لگا جبکہ انویسٹی گیشن پولیس کی جا نب سے ایف آئی ار میں نا مزد تینوں ملزمان کی گرفتا ر ی بھی التواء میں ڈال دی گئی۔ تفصیلا ت کے مطا بق ایم جی مو ٹرز پیکجز ما ل پر 24ستمبر کو 55سالہ شہر ی ثوبل گو ند ل کا جھگڑا ہوا جس کے با عث مذکو ر ہ شخص جاں بحق ہو گیا تھا، خبریں، چینل 5 نے ایم جی موٹرز کی انتظامیہ کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے شہری کی نشاند ہی کی جس پر فیکٹر ی ایریا پولیس نے ملازم کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا تھا اور واقعہ میں ملوث تین ملزمان جس میں ایم جی مو ٹر ز پیکجز کا جنرل منیجر زبیر احمد،سیکورٹی گا رڈ یا سر اور ٖغفار کو آپریشن پولیس کی جا نب سے حرا ست میں بھی لیا گیا تھا اور مقد مہ کی مزید تحقیقات کیلئے انویسٹی گیشن پولیس کے حوالے مزکور ہ ملزمان کو دیا گیا،لیکن اب ان ملزمان کی منظر عا م پر آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتاہے کہ ملزمان کو انچار ج انویسٹی گیشن کمرے میں وی وی آئی پی طر یقے سے آرام کر ر ہے ہیں جبکہ انہیں کھا نے اور دیگر اشیا ء بھی فراہم کی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ تھا نہ فیکٹر ی ایریا میں ملزمان کے خلاف مقدمہ نمبر 3508 در ج ہے۔ جس کے مطا بق مقد مہ مدعی غلام حسین عرصہ 30/35 سال سے ثوبل احمد گوندل کے پاس ملازمت کر رہا ہے، مقد مہ مدعی کیمطا بق میرے مالک نے پیکجز مال سے MG گاڑی بک کروا رکھی تھی جو 24تا ریخ کو ایم جی مو ٹرز کی والوں کی طرف سے فون کال موصول ہوئی کہ اپنی گاڑی آکر لے جائیں میں اورجس پر مالک ثوبل گوندل تقریبا 4 بچے شام پیکجز مال پہنچے ثوبل تو مزکو ر ہ موٹرز کے GM سے بات کی جو باتوں باتوں میں ان کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی مزکور ہ کی کے GM اور اس کے سٹاف نے ثوبل گوندل کے ساتھ بد تمیزی اور گالی گلوچ شروع کر دی جو نے ان کو سمجھایا لیکن وہ لوگ باز نہ آئے تو ثوبل گوندل نے بھی ان کو سخت الفاظ کہے شو روم MG سے اور پیجز مال سے باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جانے لگے تو اتنے میں مزکو ر ہ شورم کے GM زبیر احمد، سیکیورٹی گارڈ محمد یاسر، سکیورٹی گارڈ ن غفار سمیت 13/20 کسی نامعلوم افراد جن کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتے ہیں کے ہمراہ آگئے اور زبردستی گاڑی کو روک لیاجس پر ہم نے گاڑی سے نکل کر بات کرنے کی کوشش کی توملزم GM اور اس کے ساتھیوں نے زبردستی گاڑی کے دروازے نہ کھولنے دیئے اس دھکم پیل کے دوران ثوبل گوندل کی طبیعت خراب ہو گئی اور بے ہوش ہو گئے میں نے فورا ان کے پینے غوث گوند ل کو اطلاع دی اور GM اور دیگر افراد کو منت سماجت کی کہاان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ہمیں طبی امداد کیلئے ہسپتال جانے دیں لیکن ان تمام لوگوں نے میری ایک نہ سنی اور ہماری گاڑی کو زبردستی روکے رکھا اسی دوران کابیٹا غوث بھی موقع پر بھی کیا اور جب ہم نے ثوبل گوندل کو چیک کیا تو وہ ہلا ک ہو چکے تھے جس کے بعد کیلئے ان کو اتفاق ہسپتال لے کر آئے جہاں پر ہسپتال والوں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔پولیس نے واقعہ کا مقد مہ در ج کر کے تفتیش کاآغاز کردیا ہے۔ تا حا ل نہ دیگر ملزمان کو حرا ست میں لیا جبکہ آپریشنز ونگ کی جا نب سے حرا ست میں لئے گئے ملزمان کو انویسٹی گیشن ونگ کی جانب سے وی وی آئی جی پروٹوکول دیاجانے لگا ہے۔

ترقی کیلئے مل کر چلیں،وزیراعظم کی سندھ حکومت کو پیشکش

کراچی (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کیلئے وفاق اور سندھ کو مل کر چلنا ہوگا۔ٹرانسپورٹ اور پانی کراچی کے بڑے مسائل ہیں،ترقی یافتہ ملک دیکھیں تو وہاں کوئی ایک شہر ملک کو لے کر چلتا ہے، کراچی کی اہمیت کا اندازہ پوری طرح سے نہیں لگایا گیا، ہم جانتے ہیں 70کی دہائی میں کراچی کیا تھا،80 میں ترقی کرنے لگا تو شورش شروع ہوگئی،کراچی شہر سارے پاکستان کے لیے سرمایہ کاری لاسکتا ہے، وزیراعلی سندھ سے کہوں گا بنڈل آئی لینڈ پر غور کریں۔وہ پیر کو کراچی کینٹ اسٹیشن پر کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔کراچی سرکلرکا ٹریک 29 کلو میٹر طویل ہوگا، 16اسٹیشن ہوں گے۔ منصوبے پر ڈھائی سو ارب روپے لاگت آئے گی۔جدید سرکلر ریلوے کے اسٹیشنز رہائشی، صنعتی اور دفتری علاقوں کو ملائیں گے جس سے کراچی میں نہ صرف ٹریفک کا بہا ؤکم ہوگا بلکہ روزگار کے لیے سفر کرنے والے مسافروں کو سہولت ہوگی۔207 ارب کی مجموعی لاگت سے مکمل ہونے والے جدید کراچی سرکلر ریلوے منصوبے میں بجلی سے چلنے والی ٹرینیں شامل کی جائیں گی جس سے آلودگی کو کم کرنے میں معاونت ملے گی۔ اس موقع پروزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، گورنر سندھ عمران اسماعیل، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری، وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی اور وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی موجود تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھنا بڑا موقع ہے، یہ منصوبہ صرف کراچی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس سے سارے ملک کو فائدہ ہوگا۔ کے سی آر منصوبے پر وزیراعلی سندھ اور گورنرعمران اسماعیل کی معاونت کے مشکور ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی شرح نمو میں ایک شہر ان کی قیادت کرتا ہے، انگلینڈ میں لندن، امریکا میں نیو یارک اور پاکستان کے لیے کراچی وہ اہم شہر ہے۔ کراچی ایسا شہر ہے جس کی ترقی میں سارے پاکستان کی ترقی ہے تاہم یہاں 80 کی دہائی میں پیدا ہونے والے مسائل نے پورے ملک کو متاثر کیا۔انہوں نے کہا کہ شہر کے لیے سب سے اہم اس کا ٹرانسپورٹ کا نظام ہے جس پر اس طرح سے سرمایہ کاری نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہیے تھی۔وزیر اعظم نے کہاکہ کے سی آر، گرین لائن کراچی کے لیے بہت بڑا قدم ہے اور جس تیزی سے کراچی پھیل رہا ہے، ہمیں مزید کام بھی کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ٹرانسپورٹ کا نظام کسی بھی شہر کی بنیادی چیز ہوتی ہے، سرکلر ریلوے منصوبہ سارے شہر سے گزرے گا، ٹریفک کادباؤ کم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ پانی ہے، کراچی میں پانی کے مسئلے پر واپڈا کے چیئرمین سے بات کی،واپڈا چیئرمین نے بتایا ہے کہ 2 سالوں میں کراچی کو کے 4 کے ذریعے پانی پہنچادیا جائے گا۔ کے فور منصوبہ کراچی کے لیے بڑی نعمت ہے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال کراچی ٹرانسفارمیشن پلان بنایا، یہ معیشت کے حوالے سے اہم شہر ہے۔ اس کی اہمیت کا پوری طرح اندازہ نہیں لگایا گیا۔کراچی میں انتشار کے بعد اس کی ترقی تیزی سے گرنا شروع ہو گئی۔ہمیں سندھ کی ترقی کے لیے آگے بڑھنا اور ساتھ چلنا ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کراچی پھیلتاجارہا ہے جس کے باعث مسائل بڑھ جاتے ہیں،لاہور بھی پھیل رہا ہے جس کی وجہ سے شہروں پر دباؤ بڑھ جاتاہے اور وسائل کم ہوجاتے ہیں۔کراچی کے مسائل بروقت حل نہ کیے گئے تو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا،کراچی کی ترقی کے لیے بنیادی انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ ٹرانسپورٹ کی سہولت بنیادی انفرا اسٹرکچر کا اہم جزو ہے،کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے شہروں کے لیے منصوبہ بندی کرناہوگی۔کراچی کے مسائل کے حل کیلیے وفاقی حکومت پرعزم ہے،امید ہے سندھ حکومت بھی کراچی کے لیے بھرپور کام کر ے گی۔انہوں نے کہاکہ کئی چیزیں ایسی ہیں جو وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے بغیر نہیں کرسکتی۔عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بنڈل آئی لینڈ کے منصوبے سے سب کو فائدہ ہو گا، شہر پر دبا کم ہوگا، ابھی سے منصوبہ بنائیں کہ کن علاقوں پر کام کرنا ہوگا، بنڈل آئی لینڈ سے پاکستان کا فائدہ بیرون ملک سے سرمائے کا آنا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اس منصوبے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بنڈل آئی لینڈ سے فائدہ سندھ کو ہے، اس پر وزیراعلی سے مزید بات کریں گے، بنڈل آئی لینڈ کے منصوبے پر سندھ اور وفاق دونوں کو فائدہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بڑے منصوبے مشکل ہوتے ہیں، سیاسی عزم کا اظہار نہیں ہوتا، بڑھتی آبادی کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی، وفاق اس منصوبے پر پرعزم ہے، امید ہے حکومت سندھ اس پر تعاون کرے گی۔وزیر اعظم نے کہاکہ کراچی میں گزشتہ سال سیلاب سے جو مسئلے آئے تھے، خوشی ہے کہ ان پر کام کا آغاز ہوگیا ہے، 3 اہم نالوں کا کام بھی ہوگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ کے سی آر جیسے بڑے منصوبوں پر سندھ اور عوام کو پوری زور لگانی ہوگی کیونکہ اس میں مسائل پیدا آتے ہیں تاہم اگر یہ وقت پر مکمل ہوا تو اس پر کم سے کم لاگت آئے گی۔قبل ازیں وزیر ریلوے اعظم سواتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جدید کے سی آر منصوبہ پاکستان میں تاریخ رقم کریگا، اس منصوبے سے کراچی کے شہریوں کی سفری مشکلات کم ہوں گی،بدقسمتی سیکراچی ترقی کے بجائے کچرا کنڈی بن گیا، ہم ریلوے کومنافع بخش ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ کراچی کوجدید ٹرانسپورٹ کی فراہمی کاسہرا وزیراعظم کے سر ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے پانچ بڑے منصوبوں پر پیش رفت جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں کام کرنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں نے فیصلے کیے۔اسد عمر نے کہا کہ اکتوبر میں وزیراعظم گرین لائن منصوبے کا افتتاح کریں گے۔وفاقی وزیر نے کراچی میں بارش میں کئی علاقے ڈوب جاتے ہیں، کراچی کے تین بڑے نالوں سے گیارہ لاکھ ٹن کچرا صاف کیا۔انہوں نے کہا کہ کے فور منصوبہ ایک دہائی سے التوا کا شکار تھا، کئی سال سے التوا کا شکار منصوبے حقیقت بنتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پیر کو کراچی سرکلرریلوے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔کے سی آر ٹریک کی لمبائی تینتالیس کلومیٹر ہو گی اور33 اسٹیشنز تعمیر کیے جائیں گے۔ منصوبہ اٹھارہ سے چوبیس ماہ میں مکمل ہو گا۔سرکلر ریلوے دو ٹریکس پر چلے گی، ایک ٹریک سٹی اسٹیشن سے شہرکاچکرلگا کر کینٹ اسٹیشن، دوسرا سٹی اسٹیشن سے دھابیجی جائے گا۔سرکلر ٹرین سٹی اسٹیشن سے چلے گی اور سائٹ، گلشن اقبال، گلستان جوہر سے ہوتی ہوئی واپس سٹی اسٹیشن پہنچے گی۔ راستے میں ٹرین کے تیس اسٹاپ ہوں گے۔ٹریک کی لمبائی تینتالیس کلو میٹر ہوگی۔ بائیس کلو میٹر ٹریک ایلی ویٹیڈ پر بنے گا۔ ٹرین کے راستے میں کئی انڈر پاسز بھی بنائے جائیں گے۔کراچی سرکلر ریلوے کے نئے ٹریک پر کوئی پھاٹک نہیں ہوگا، بائیس کراسنگ پوائنٹس کی تعمیر پر بیس ارب روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ہر چھ منٹ بعد ٹرین اسٹیشن پر آئے گی، ہر ٹرین میں چار کوچز ہوں گی۔ جن میں 800 سے زائد مسافر سفر کرسکیں گے۔یومیہ تین سے پانچ لاکھ مسافروں کے مستفید ہونے کا امکان۔ الیکٹرک ٹرین زیادہ سے زیادہ ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑے گی۔

اسلام آباد (صباح نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں جنگ کے نتائج پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اب الزام تراشی کا رویہ ترک کردینا چاہیے اور افغانستان کے مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت ہے،افغانستان میں امن و استحکام کے لئے طالبان حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع اپنے مضمون میں وزیراعظم نے لکھا کہ 2001سے دنیا کو بار بار آگاہ کیا کہ افغان جنگ نہیں جیتی جا سکتی، افغان جنگ کے نتائج پر پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ امریکی کانگریس میں پاکستان پر الزامات لگائے جانے پر حیرانی ہوئی۔وزیراعظم نے لکھا کہ نائن الیون کے بعد ماضی کے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا گیا، پاکستانی حکومتیں ماضی میں قانونی حیثیت کے حصول کے لئے امریکا کو افغانستان کے معاملے پر خوش کرتی رہیں۔ دہشت گردی کیخلاف امریکا کی جنگ کی حمایت کرنے کے بعد عسکری گروپس نے پاکستان کی ریاست کے خلاف جنگ شروع کر دی۔عمران خان نے لکھا کہ ہم اپنی بقا کے لئے لڑے، بہترین فوج اور انٹیلی جنس آلات کے ذریعہ دہشتگردی کو شکست دی۔ نائن الیون کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والی افغان حکومتیں افغانوں کی نظروں میں مقام پیدا نہ کرسکیں یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی بدعنوان اور ناکام حکومت کے لئے لڑنے کو تیار نہ تھا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 3 لاکھ افغان سکیورٹی فورسز کا ہتھیار ڈالنے کا ذمے دار پاکستان ہے؟ حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے افغان اور مغربی حکومتوں نے پاکستان پر الزام لگانے کے لئے بھارت کے ساتھ مل کر جعلی خبریں پھیلائیں، بے بنیاد الزامات کے باوجود پاکستان نے سرحد کے بائیو میٹرک کنٹرول اور سرحد کی مشترکہ نگرانی کی پیشکش کی۔وزیراعظم نے کہا کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگائی، ہمیں اب الزام تراشی کارویہ ترک کردینا چاہیے اور افغانستان کے مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے۔۔ افغانستان میں امن و استحکام کے لئے نئی حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ طالبان کی حکومت اور بین الاقوامی برادری کی شمولیت ہر ایک کے لئے مثبت مفادات لائے گی۔انہوں نے مزید لکھا اگر درست اقدامات کئے گئے تو دہشتگردی سے پاک اور معاشی طور پر خوشحال افغانستان کے مقاصد حاصل کر لیں گے اور اگر ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو بڑے پیمانے پر مہاجرین اور دہشتگردی جیسے مسائل بڑھیں گے۔

بارش اور گلِ نرگسِ آبی

مریم ارشد
بارش مجھے ہمیشہ بے چین کر دیتی ہے۔ بارش کی ایک قطار میں برستی بوندیں ایک طویل سہرے کی لڑیوں جیسی لگتی ہیں۔ سرمئی اور سلیٹی بادلوں کی گھٹائیں جب آسمان پر تیرتی ہیں تو دل جھوم اُٹھتا ہے۔ کئی دنوں سے بارشیں خوب کھل کر برس رہی ہیں۔ پچھلے دو دن سے بارش پھر سے اپنا رنگ برسا رہی ہے۔ اپنے لاؤنج کی بڑی سی فرنچ ونڈو سے مَیں پائیں باغ میں ایستادہ انجیر، السٹونیا، زیتون اور پام کے درختوں اور پودوں کو دُھلتے نکھرتے دیکھ کر مسکرانے لگی ہوں۔ آسمان سے جب سرمئی پردہ ہٹتا ہے اور چاندی کا رنگ جھلکنے سے باغ کے سبزے پر بھی چاندی سی چمکنے لگتی ہے۔ برستی بارش کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ برطانیہ کے وہ قصبے اور گاؤں یاد آتے ہیں جن کی میں نے خاک چھانی ہے۔ مجال ہے کہیں سڑکوں اور گلیوں میں پانی کھڑا ہو جائے۔ صدیوں پہلے سے انہوں نے اپنے رہائشی علاقوں کی بہترین منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ آج کی برستی بھیگتی بارش مجھے ولیم ورڈز ورتھ اور اس کی مشہور زمانہ نظم Daffodils بے طرح یاد آ رہی ہے۔ جی کرتا ہے اپنے بائیں باغ میں ڈھیروں ڈھیر گلِ نرگسِ آبی اُگا ڈالوں۔ لیکن ایک مضائقہ ہے کہ گلِ نرگسِ آبی معتدل آب و ہوا میں بہار کے ابتدائی دنوں میں اُگتے ہیں۔ مزید یہ کہ انہیں تاباں دھوپ کی روشنی خشک مگر نم مٹی اور ہلکی سی تیزابی زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ بات ہو رہی تھی بارش اور بادلوں کی سُرمئی گھٹاؤں کی۔۔۔۔۔ اور ولیم ورڈز ورتھ کی۔ وہ 1770میں نارتھ ویسٹ انگلینڈ کی کاؤنٹی کمبر لینڈ کے نزدیک کو کرماؤتھ کے قصبے میں پیدا ہوا۔ یہ قصبہ Lake District کے کنارے واقع ہے اور مناظرِ قدرت سے مالا مال ہے۔ ورڈز ورتھ نیچر کا سچا پجاری اور شدید عاشق ہے۔ نیچر اس کے لیے ایک دھرم کی حیثیت رکھتی تھی۔ گلِ نرگسِ آبی نظم جسے انگریز میں Daffodils کے نام سے بے انتہا شہرت حاصل ہے میری بہت پسندیدہ نظم ہے۔ میں نے بہت سی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے اور وہ نظمیں بارشوں کی طرح میرے دل کے قریب ہو گئیں۔ گلِ نرگسِ آبی میں ورڈز ورتھ بیان کرتا ہے کہ غالبًا ہمارے پاس اپنی زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اہم اپنی یادداشت میں دہراتے رہتے ہیں۔ لیکن اِن بیتے ہوئے لمحوں کو بیان کرنے میں تصویریں یا ویڈیوز انصاف نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ ہمارے دلی جذبات کی عکاسی نہیں ہوتی۔ یہ نظم نیچر اور اس کے تمام مظاہر کی عظمتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ورڈز ورتھ اپنی اس نظم میں کہتا ہے کہ ایک روز وہ دیہی علاقے میں یونہی سیر سپاٹا کر رہا تھا کہ اچانک ہی اس نے گلِ نرگسِ آبی کا جمِ غفیر دیکھا۔ بادِ صبا میں ناچتے ہوئے گلِ نرگس کا یہ دل نشین نظارہ اس کے دل کو لُبھا گیا۔ اس کو لگتا ہے کہ گلِ نرگس ایک نہ ختم ہونے والی لمبی لکیر میں متواتر بغیر کسی وقفے کے پھیلے ہوئے تھے۔اِن کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کہکشاں میں جھلملاتے ہوئے ڈھیروں ستارے۔ وہ جھیل کے کنارے اُگے ہوئے تھے اور اُن کے سَر لگاتار ہوا میں خوشی سے ہچکولے کھا رہے تھے۔ جھیل کی شفاف چاندی جیسی لہریں بھی خوشی سے ناچ رہی تھیں۔ مستی میں جھیل کی لہروں کے گُچھے اچھل اچھل کر خوبصورت جھاگ بنا رہے تھے۔ ورڈز ورتھ کہتا ہے کہ ایسے دل کش پھولوں کی مسرور رفاقت نے اسے وہ دائمی دولت عطا کی ہے جس سے اُسے تسکین محسوس ہوتی ہے۔ وہ جب کبھی تنہا یا غمگین بیٹھا ہو توگلِ نرگس کی حسین یادیں جھٹ سے امید کی کرن بن جاتی ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ وہ بھی وادی میں نٹ کھٹ بادل کی طرح آوارہ گھوم رہا ہے اور اس کا دل نرگس کے پھولوں کے ساتھ رقص کیے جاتا ہے۔ اپنا لکھا ہوا منظوم ترجمہ اپنے قارئین کی نذر کرتی ہوں:
گھٹاؤں کی طرح سے میں تنہا آوارہ بھٹک رہا تھا
جو تیرتی ہیں اُونچا پہاڑیوں اور وادیوں کے اُوپر
جب اچانک ہی میں نے اک جمگھٹا سا دیکھا
تھا وہ نرگس کے سنہری پھولوں کا جھرمٹ جو دیکھا
ندی کے کنارے گھنے درختوں کے تلے
بادِ صبا میں پھڑ پھڑاتے، ناچتے وہ اوپر چلے
یوں جیسے ستارے مسلسل رات میں ہیں چمکتے
اور وہ آسماں پہ سراپا کہکشاں میں ہیں دمکتے
وہ اک نہ ختم ہونے والی لکیر میں پھیلے ہوئے تھے
جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے تھے
میں نے دس ہزار اک ہی نگاہ میں دیکھے تھے جگمگاتے
پھولوں کے ننھے سرخوشی سے محوِ رقصاں تھے ڈگمگاتے
لہریں بھی تھرکتی تھیں پہلُو میں اُن کے
مگر نرگس خوشی سے بڑھ گئے تھے جلو میں اُن کے
ایسے میں اک شاعر ہو سکتا تھا صرف مسرور
اس کو تھا ایسی خوش گوار رفاقت پہ غرور
میں ٹِکٹکی باندھے دیکھتا رہا…… دیکھتا رہا مگر خیال میں نہ آیا
وہ اتنا دل فریب نظارہ میرے لیے کیا دولت لایا
اب کبھی جو میں اپنے پلنگ پہ محوِ استراحت ہوتا ہوں
کبھی رنجیدہ یا تنہائی کے احساس میں مبتلا ہوتا ہوں
تب ہی نرگس آبی میری چشمِ بینا میں اتر آتے ہیں
پھر یہی نرگس آبی زرد میری تنہائی کو بھا جاتے ہیں
اور پھر میرا دل فرطِ مسرت سے لبریز ہوا جاتا ہے
اور پھر ہمراہ گلِ نرگسِ آبی کے رقص کیے جاتا ہے
اس نظم میں ورڈز ورتھ نے رقص کا لفظ کئی بار استعمال کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شاعر ہمیں بتانا چاہتا ہے کہ رقص کائنات کا توازن ہے۔ زمین کا گھومنا رات کا دن میں تبدیل ہونا ایک متوازن رقص ہے۔ اس خوب صورت نظم میں خدا اور شاعر دونوں اپنے ہاتھ ملاتے ہیں۔ ایک خوب صورتی کو تخلیق کرتا ہے دوسرا اس خوب صورتی کی حمدو ثنا کرتا ہے۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان اور تصور ریاست مدینہ

شفقت اللہ مشتاق
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے حالات بہت ہی دگرگوں تھے۔ یہودیوں کا کاروبار پر مکمل قبضہ تھا۔ جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان کے لئے مہاجرین مسلمانوں کی آبادکاری بہت بڑا چیلنج تھا۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نئے آنے والوں کو وہاں کے مقامی لوگ قبول نہیں کرتے اور خصوصاً ان حالات میں کہ مہاجرین ہر چیز مکہ میں چھوڑ کر یہاں آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عام آدمی کی حیثیت میں مدینہ داخل نہ ہورہے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبیؐ تھے اور اس لحاظ سے انہوں نے مدینہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو دعوت حق دینا تھی اور پوری دنیا کی اصلاح کا ایک قابل عمل پروگرام بھی دینا تھا۔ ایسی صورتحال میں یہ ان کی شخصیت کا بہت بڑا امتحان تھا۔ مذکورہ جملہ معاملات کو حل کرکے آپ نے ایک تو نئی ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا اور پھر سب لوگوں کو اپنی قیادت میں کام کرنے لئے آمادہ کرنا تھا۔
یقینا مہاجرین کا بے سرو سامان یہاں آنا اور یہاں آکر آباد ہونا خانہ جنگی کو بھی جنم دے سکتا تھا۔ریاست مدینہ کے بانی نے اس عنصر کو ختم کرنے کے لئے بھائی چارہ مبنی بر اخلاص کی عمارت کی بنیاد رکھی۔ ہر مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنادیا اور یہ محض بھائی چارہ ہی نہ تھا بلکہ انصاری بھائی کی پوری جائیداد میں مہاجر بھائی کو آدھی جائیداد کا حصہ دار بنا دیا گیا اور ایسی فضا قائم کی گئی کہ اس تقسیم کو دونوں نے خوشی خوشی قبول کیا۔ یوں وسائل کی منصفانہ تقسیم کی گئی جس کی مثال کرہ ارض پر نہیں ملتی۔ قربانی، اخلاص،محبت اور یگانگت کی بھی یہ بے نظیر مثال تھی۔ ہیو اور ہیوو ناٹ کی خلیج کو جھٹ میں ختم کردیاگیا۔ مدینہ کے سب لوگوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے کے لئے میثاق مدینہ کو ترتیب دیا۔ اس معاہدہ کی رو سے ریاست مدینہ قائم ہوئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ریاست کے سربراہ بن گئے۔ معیشت میں استحصالی قوتوں کے خاتمے کے لئے لین دین کے معاملات مبنی بر انصاف کے اصول پر وضع کیے گئے اور جھگڑے کی شکل میں فیصلے کا اختیار آپؐ کے پاس تھا اور آپؐ کے انصاف کے ترازو میں کبھی بھی جھول نہ آتی تھی اور یوں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہوگیا۔ یہودی اگر حق پر ہوتا تو مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا جاتا۔اور غاصب کے ہاتھ کر روک کر عوام الناس کو پُر امن اور پُر سکون ماحول فراہم کیا گیا۔ آپؐ نے عدل و انصاف کا ایسا ماڈل پیش کیا جس کو دیکھ کر کافر بھی لا الہ الا اللہ کہنے پر مجبور ہوجاتے تھے یوں ریاست مدینہ کا قیام کسی معجزاتی تبدیلی سے کم نہ تھا۔ بغیر کسی خون خرابے کے ایک ایسی ریاست معرض وجود میں آگئی جس سے معاشرہ فوری طور پر بدل جاتا ہے۔ قوانین کا اجرا ہو جاتا ہے۔ تصورات اخلاق و کردار اور معاشرت و سیاست، تہذیب و تمدن سب بدل جاتے ہیں۔ یہ ایک عمرانی معاہدہ تھا جس کے تحت ایک جگہ کے باشندوں نے اپنی آزاد مرضی سے کسی ایک شخص کو اپنا سربراہ مان لیا تھا۔ اس ریاست کی بنیاد نسل علاقہ، زبان،قبیلہ یا معاشی و سیاسی مفادات کے کسی اشتراک پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ چند اصولوں کی حفاظت اور ان کے اجرا کے لئے یہ ریاست وجود میں آئی۔ یہ ایک جمہوری اور شورائی ریاست تھی جس سے سارے کام عوام کی فلاح کی بنیاد پر کئے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نظام کے چرچے پوری دنیا میں پھیل گئے۔
پاکستان وہ مملکت خداداد ہے جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ جس کے معرض وجود میں آتے ہی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ شروع میں اس ریاست کے کوئی اپنے وسائل نہ تھے۔ یہاں کا معاشرہ آج بھی امیر اور غریب کے طبقات پر مشتمل ہے۔یہاں استحصالی قوتوں نے پوری طرح پنجے گاڑھ رکھے ہیں روز بروز امیر امیر تر اور غریب‘غریب تر ہو رہا ہے۔ دولت اور وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کار فرما ہے۔ جمہوریت امیروں کے ہاتھوں کی لونڈی بن چکی ہے۔ حکمران اور سرکاری ادارے مکمل طور پر عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ نے عوام کی مت مار دی ہے۔ اوپر سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے استحصال کی بدولت اس ملک کو کنگال کردیا ہے۔ مذکورہ مسائل کو ختم کرنے کے لئے کئی بیانیے منظر عام پر آئے اور بے سود ثابت ہوئے۔ مایوسی ہی مایوسی۔ پریشانی پر پریشانی۔عدم اعتماد عدم اعتماد اور عدم اعتماد۔ لیفٹ اور رائٹ کیفیت۔ ایسی کیفیت میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کا منظر عام پر آنا اور تصور ریاست مدینہ کی بات کرنا۔ بات کی اصلیت کو پرکھنے کے لئے عقل و منطق کی ضرورت ہے اور بات رد کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخالف قوتوں نے تو خیر کو بھی شر کہنا ہوتا ہے اور پھر ہمارے ہاں مروجہ سیاسی نظام میں منزل اقتدار ہوتی ہے اور اس کے لئے پانچ سال انتظار کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ کاش ایک لمحے کے لئے پاکستان کے مسائل کا تعصب کی عینک اتار کر جائزہ لے لیا جاتا اور پھر ریاست مدینہ کے خدوخال کو دیکھ لیا جاتا۔ تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا ہے اور ریاست مدینہ کی قیادت کا ماڈل ہی سب سے اہم حل ہے۔
اس وقت ہم سب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ہمیں اخوت کی مالا میں پرویا جایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے معاشرتی عدم استحکام پیدا کردیا ہے اور آج ہیوو اور ہیوو ناٹ کی خلیج ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ریاست مدینہ کے مہاجر اور انصار کے مواخات کی بنیاد پر وسائل کو برابر تقسیم کر دیا جائے۔ہمارے ملکی اور بین الاقوامی لین دین کے معاملات میں بے انصافی اور لوٹ کھسوٹ اس حد تک ہو چکی ہے کہ پورا معاشرہ اضطراب، ہیجان اور پریشانی کا شکار ہے۔ اس ساری صورتحال کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر لین دین کے معاملات مبنی بر انصاف قائم کئے جائیں۔ یہ ہے نچوڑ ریاست مدینہ کے خدوخال کا اور اجمالی خاکہ ہے ہمارے مسائل کا۔ کیا اس صورتحال میں ریاست مدینہ کے علاوہ کوئی اور بیانیہ بنتا ہے۔ ذرا سوچئے لیکن سوچنے سے پہلے تعصب کی عینک اتار لینا شرط ہے۔ اور ہر شخص کو کسی نہ کسی شرط پر کھیلنا پڑتا ہے اور میرا مشورہ ہے کہ ہمیں دنیا کے میدان پر خوشحال پاکستان کی شرط پر کھیلنا چاہیئے اور اس شرط کو جیتنے کے لئے ریاست مدینہ کی قیادت کے رول ماڈل کی ضرورت ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے اور استحصال، جبر اور دھونس دھاندلی جیسی لعنتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے شاید اسی لیے آج کے دور میں وزیراعظم پاکستان نے ریاست مدینہ کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭

گنج بخش فیض عالم مظہر نورِخدا

علامہ محمد الیاس عطار قادری
حضرت سیدنا داتا علی ہجویری علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ولادت باسعادت کم و بیش 400ھ میں افغانستان کے شہر غزنی میں ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان نے غزنی کے دو محلوں جلاب و ہجویر میں رہائش اختیار فرمائی اسی لئے آپ ہجویری جلابی کہلاتے ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے۔ ماہر اَنساب پیر غلام دستگیر نامی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے آپ کا شجرہئ نسب اس طرح بیان فرمایا ہے: ”حضرت مخدوم علی بن سید عثمان بن سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (شجاع شاہ) بن سید ابوالحسن علی بن سید حسن بن سید زید بن حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے والد حضرت سیدنا عثمان رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے جید عالم اور عابد و زاہد تھے۔ شاہان غزنیہ کے زمانے میں دنیا کے کونے کونے سے علماء و فضلاء، شعراء اور صوفیاء غزنی میں جمع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے غزنی علوم و فنون کا مرکز بن چکا تھا، حضرت سیدنا عثمان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہاں ر ہائش اختیار فرمائی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حسینی سادات سے تھیں، عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں، اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حسنی جمال اور حسینی کمال دونوں ہی کے جامع تھے۔ حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ماموں کو زہد و تقویٰ کی بنا پر تاج الاولیا کے لقب سے شہرت حاصل تھی۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے جس پاکیزہ فطرت ماں کی آغوش میں پرورش پائی، ان کی زبان ذکر الٰہی میں مصروف اور دل جلوہئ حق سے سرشار رہتا تھا اسی لئے آپ نے ابتدائے عمر ہی سے بڑی محتاط اور پاکیزہ زندگی گزاری۔ آپ کو بچپن ہی سے عبادت کا شوق تھا، نیک والدین کی تربیت نے آپ کے اخلاق کو شروع ہی سے پاکیزگی کے ڈھانچے میں ڈھال دیا تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کو تعلیم کیلئے مکتب میں بٹھا دیا گیا، حروف شناسی کے بعد آپ نے قرآن پاک مکمل پڑھ لیا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ آج کل جیسی سہولیات میسر نہ ہونے کے باوجود کئی آزمائشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے جلیل القدر ہستیوں کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان سے نہ صرف بھرپور استفادہ کیا بلکہ باطنی تربیت بھی حاصل فرمائی۔ اس نوعیت کا ایک واقعہ آپ رحمۃ اللہ علیہ خود بیان فرماتے ہیں: ایک دن میں حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر تھا اور جو لطائف مجھ پر منکشف ہوئے تھے وہ میں آپ کی بارگاہ میں عرض کر رہا تھا تاکہ آپ کی ہدایات کے مطابق اپنے احوال درست کر سکوں اس لیے کہ آپ ناقد وقت تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بہت ادب و احترام سے سن رہے تھے، میرا لڑکپن اور جوش جوانی اپنا حال بیان کرنے پر حریص بنا رہا تھا، عین اسی حالت میں میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ جو لطائف میرے اوپر گزرے ہیں شاید اس قدر لطائف ان بزرگ (یعنی حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ) پر نہیں گزرے، یہی وجہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نہایت توجہ اور احترام سے میرے احوال سن رہے ہیں۔ حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ بذریعہ کشف میرے اس خیال پر مطلع ہو گئے اور فرمایا: عزیز بیٹے! میرا یہ احترام صرف آپ کیلئے خاص نہیں بلکہ یہ تو ہر ابتدائی طالبعلم سے ہے جو بھی اپنا حال بیان کرتا ہے میں اسی احترام سے اسکے احوال سنتا ہوں۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا۔
ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا ابوالقاسم بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کی: شرط صحبت کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: صحبت میں ہر قسم کی آفات موجود ہیں، کیونکہ (صحبت کی سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ) ہر ایک اپنا مطلب پورا کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ آسائش کے طالب کو صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔ (صحبت کی آفتوں سے بچ کر فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ) بندہ اپنی خوشی کو ترک کر دے اور اپنی مشکلات میں خوشی محسوس کرے (یعنی جب بندہ اپنی خوشیوں کو چھوڑ کر مشکلات اور آزمائش پر صبر کرنا سیکھ جائے) تو ایسی صورت میں وہ صحبت سے فائدہ اٹھا سکے گا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ عامل سنت، حرص دنیا سے کوسوں دور اور مسلمانوں کے خیرخواہ تھے اسی لئے آپ نے حضرت سیدنا خضر علی نبینا وعلیہ والصلوٰۃ والسلام سے نہ صرف ملاقات فرمائی بلکہ آپ کی صحبت میں رہ کر ظاہری و باطنی علوم حاصل فرمائے نیز آپ کی حضرت سیدنا خضر علی نبینا وعلیہ والصلوٰۃ والسلام سے بہت ہی گہری دوستی تھی۔
آپ نے جتنے بھی ممالک کا سفر فرمایا، اسکا مقصد علماء و مشائخ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اکتساب فیض کرنا اور اپنی علمی پیاس بجھانا تھا، اس مقصد کیلئے آپ نے صرف خراسان کے تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے علم و حکمت کے پربہار گلستانوں سے گل چینی کر کے اپنا دامن بھرتے رہے۔
بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے کسی مرشد کامل سے شرف بیعت ضرور حاصل فرمایا کرتے، یوں ظاہر کی تعمیر کیساتھ باطن کی ترقی کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا۔ حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ ابوالفضل محمدبن حسن ختلی جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ آپ کا شجرہئ طریقت 9واسطوں سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔
اللہ والوں کی زیارت اور مزارات اولیاء سے استفادہ کی غرض سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا ایسا مجاہدہ ہے جو مشاہدے کی دولت سے نوازتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مجاہدہ بھی حد کمال کو پہنچا دیا، تقریباً تمام عالم اسلام کی سیاحت اور وقت کے اعاظم مشائخ و صوفیہ سے اکتساب فیض کیا۔ آپ نے شام، عراق، بغداد، آذربائیجان، طبرستان، کرمان، خراسان، ماوراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر فرما کر بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
اللہ عزوجل نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو علوم ظاہری اور باطنی سے نوازا تھا اور دین اسلام کے بہت سے اسرار و رموز کا علم بھی عطا فرمایا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حصول علم کیلئے جو سفر اختیار فرمائے ان سے آپ کو کثیر مشاہدات حاصل ہوئے۔ آپ نے مخلوق خدا کی خیرخواہی کیلئے کئی گرانقدر کتب تصنیف فرمائیں جن کے نام یہ ہیں: منہاج الدین، دیوان، اسرار الخرق والمؤنات، کتاب البیان لاہل العیان، بحرالقلوب، الرعایۃ بحقوق اللہ، کتاب فنا و بقاء، شرح کلام منصور مگر افسوس! فی زمانہ آپ کی کتابوں میں سے صرف کشف المحجوب ہی بآسانی دستیاب ہے۔ آپ نے عربی اشعار پر مشتمل ایک مکمل دیوان مرتب فرمایا تھا جسے ایک شخص نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے مانگ کر لے لیا اور اس کو اپنے نام سے منسوب کر لیا، ولی کامل کی ایسی دل آزاری کے سبب وہ بے ایمان ہو کر مرا، چنانچہ آپ نے اسکے برے خاتمے کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وہ شخص جو میرا دیوان لے گیا تھا بے ایمان دنیا سے گیا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی خوب محنت و لگن سے خدمت دین کا کام سرانجام دیا، دکھی انسانیت کو امن و سکون کا پیغام دیا اور اپنے مریدین و محبین کی دینی و دنیاوی حاجتوں کو پورا فرمایا۔ آپ کا وصال پرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک 20صفر المظفر 465ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار منبع انوار و تجلیات مرکز الاولیاء لاہور میں بھاٹی دروازے کے بیرونی حصے میں ہے، اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الاولیاء اور داتانگر بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے فیضان کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان الہند حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز معین الدین سید حسن چشتی سنجری اجمیری علیہ رحمۃ اللہ القوی بھی ایک عرصے تک آپ کے دربار میں مقیم رہے اور منبع فیض سے گوہر مراد حاصل کرتے رہے۔
(امیراہلسنت ہیں)
٭……٭……٭