All posts by Daily Khabrain

سوشل میڈیا کی باتیں

افضل عاجز
سوشل میڈیا ایک دلچسپ چیز ہے میری نظر میں اس کی بہت اہمیت ہے دنیا بھر میں لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یہ تعلیم وتربیت کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے بین الاقوامی سطح پر اسے ملکی مفاد کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے پروپیگنڈے کا یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے میں چند گھنٹے لگاتا ہے اور اصل واقعے کی جگہ ایک جھوٹا واقعہ لوگ سچ سمجھ کے قبول کرلیتے ہیں پھر آپ جو مرضی کرلیں آپ کا سچ آپ تک محدود رہ جاتا ہے۔
ہم پاکستان کے لوگ ابھی تک سوشل میڈیا کی حقیقی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوسکے ہمارے ہاں زیادہ تر شغل میلے اور ان چیزوں کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہے جو کسی بھی حوالے سے دنیا کے لوگوں کے سامنے ہمارے لیے کوئی بہتر تعارف کا سلسلہ نہیں بن رہا بلکہ اچھے بھلے لوگ عجیب وغریب قسم حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں مثال کے طور پر ایک بابا جی ہیں جو لوگوں کی روحانی اور ایمانی تربیت کرتے ہیں اور شب وروز اسی کارخیر میں مصروف نظر آتے ہیں مجھے ذاتی طور پر ان کی نیت یا اخلاص میں کو شک نہیں ہے وہ یقینا صدق دل کے ساتھ لوگوں کی اصلاح چاہتے ہوں گے اور یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ ہم مسلمان اللہ اس کے رسولؐ اور قرآن کے ساتھ جڑ جائیں اور زندگی کے تمام مسائل کے حل کیلئے حقیقت کی طرف رجوع کریں اور اپنے دین اور دنیا کے معاملات میں آسانیاں پیدا کریں بابا جی کا عمل یقینا قابل تحسین ہے مگر وہ بعض اوقات ایسے مشورے دیتے ہیں جس سے یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعے جو کتاب ہدایت بھیجی ہے کیا وہ ان معمولی دنیاوی فائدوں کیلئے بھیجی ہے……؟
یہ درست کہ قرآن کریم اور احادیث کے زریعے ہماری زندگی کے بیشمار مسائل کا حل بھی بتایا گیا ہے رزق کی کمی بیماری قرض آسمانی مصیبتیں زمینی الجھنیں اور دیگر مسائل کے حل کیلئے انتہائی موثر اور مفید آیات اور دعائیں موجود ہیں جنہیں زندگی کے معمولات کی درستگی کیلئے استعمال میں لانے بہت سے مسائل حل ہوتے ہوئے دیکھے ہیں مگر ان کے استعمال کیلئے بھی ایک اعلی معیار مقرر کیا گیا ہے یعنی خالص اللہ سے رجوع کیا جائے اور یہاں بھی معاملات کو اللہ پر ہی چھوڑ دینے کا حکم اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف بطور اٹھارتی کیوں حکم لگائے……
بابا جی سے گزشتہ روز ایک مرید نے سوال کیا کہ پٹرول کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اور میرا موٹر سائیکل پٹرول بھی بہت کھاتا ہے تو بابا جی قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا کوئی حل بتا دیجیے بابا جی نے مرید کے سوال کو سنا اور مسکراتے ہوئے کہا اس کا حل موجود ہے۔آپ جب پٹرول پمپ ڈلوانے جائیں تو پمپ والا پٹرول ڈالنے لگے تو تم نے جلدی جلدی زیر لب فلاں سورت پڑھنی ہے اور کوشش کرنی ہے کہ سورت پٹرول ڈالنے کے وقت میں مکمل ہو جائے ایسا کرنے سے پٹرول میں ایسی برکت پڑے گی کہ مہینوں چلے گا اب یہاں سے اندازہ لگا لیجیے کہ بابا جی مرید کو نہ تو قرآن شریف پڑھنے کے آداب کی تلقین کی نہ صحت لفظی کے حوالے سے کچھ بتایا بلکہ زور جلدی جلدی پر دیا اور قرآن کریم کی ایک مقدس سورت کو مرید کے لیے ایک.. تجربہ گاہ. بنا دیا اور اسے قرآن مجید اور اس کی آیات کے حقیقی فیض سے بھی دور کر دیا مگر مذید ظلم یہ ہے اگر آپ اس حوالے سے کوئی بات کریں تو پھر بابا جی کے مریدین آپ کو منکر قرآن قرار دے دیتے ہیں اور طرح طرح کے فتوے جاری کرتے ہیں حالانکہ سیدھی سیدھی بات ہے پٹرول ایک دنیاوی استعمال کی چیز ہے اور اسے جس رفتار سے استعمال کیا جائے گا اسی رفتار سے استعمال ہوگا اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ آپ ایک لٹر پٹرول میں لاہور سے پنڈی تک کا سفر کسی عمل کے ذریعے ممکن بنا سکیں میرا ذاتی خیال ہے کہ ان بابا جی کے مریدین جس شدت کے ساتھ ان کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور ان کی بات پر یقین رکھتے ہیں تو بابا جی اگر چاہیں تو دنیاوی معاملات میں بھی اپنے مریدین کی بہت اچھی تربیت کر سکتے ہیں انہیں زندگی کے معاملات میں ایک مثبت کردار کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ دکھا سکتے ہیں مثال کے طور پر وہ یہ بھی مشورہ دے سکتے ہیں کہ اگر پٹرول مہنگا ہو گیا تو ضروری نہیں کہ گاڑی یا موٹر سائیکل ہی استعمال کی جائے اگر آپ کے وسائل اجازت نہیں دیتے تو سائیکل کو استعمال میں لائیں اس سے پیسے کی بھی بچت ہوگی اور صحت کیلئے بھی اچھی چیز ہے۔
سوشل میڈیا پر سیاسی لوگوں کا حال مختلف نہیں ہے مختلف سیاسی شخصیات کے ایسے ایسے پوسٹر بناے جاتے ہیں۔خاص طور پر خواتین سیاستدانوں کی تصویروں کوانتہائی غلیظ انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر ایسی ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے کہ انسان سوچنے لگتا ہے کہ جو لوگ ایسا لکھ یا دکھا رہے ہیں کیا انہوں نے کسی عورت کے بطن سے جنم نہیں لیا کیا یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہیں اپنی ماں بہن اور بیٹی بھی یاد نہیں رہتی…..
حقیقت یہ ہے کہ ایسے کاموں میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اوپر سے نیچے تک ہم مزاج ہی نہیں ہم آواز بھی ہے اور پھر شاید پہلی سیاسی جماعت ہے جو سوشل میڈیا پرجماعتی کام کرنے والوں کو باقاعدہ معاوضہ دیتی ہے اورہر ایشو پر جماعتی موقف پیش کرنے کیلئے مختصر تحریر بھی خود پبلش کرتی ہے جسے سوشل میڈیا پر ان کے کارکن پوری تیز رفتاری کے ساتھ پھیلاتے ہیں اور کسی بھی منفی فضا کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ابھی گزشتہ روز ایک پاکستانی وزیر کو امریکہ میں انہی حالات سے گزرنا پڑا جن حالات سے ہمارے ایک سابق وزیراعظم کو گزرنا پڑا میرا خیال تھا کہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم جوقومی وقار کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور سابقہ حکمرانوں کو اس حوالے سے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کہ یہ لوگ بزدل اور نالائق تھے جنہوں نے پاکستان کے وقار اورعزت کو خاک میں ملایا پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو دنیا بھر میں رسوا کیا مگر میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دونگا اور دنیا میں پاکستان کے پاسپورٹ اور شہری کے وقار کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرونگا اور دنیا کے ساتھ برابری کی سطح پربات کرونگا اب جب اس کی اپنی کابینہ کے ایک وزیر کو امریکہ میں آدھا ننگا کر کے تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کیلئے روکے رکھا گیا ہے تو وزیراعظم یقینا امریکہ سے اس کی وضاحت طلب کریں گے کیوں ایک معزز پاکستانی شہری جو کہ حکومت کا حصہ ہے اوراور سرکاری دورے پر امریکہ گیا ہے تو اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا ہے مگر وزیراعظم کی طرف سے ایسا کوئی بیان میری نظر سے نہیں گزرا اور نہ کسی حکومتی ترجمان نے اس حوالے سے کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہے البتہ جس وزیر کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ امریکہ کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے امریکہ کے حالات پر طنز کرتے نظر آرہے ہیں یہ وزیر امریکی سوسائٹی پر طرح طرح کے سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کیلئے لوگوں کو تیار کرنا چاہیے تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا کے کارکنوں سے صرف کردار کشی کا کام نہ لیں بلکہ ایسی تربیت کریں کہ جس سے ملک میں ایک بہترین سیاسی مکالمے کا آغاز ہو اورجس پاکستان اور اس کے عوام کیلئے بھلائی کا پیغام ہو ہمارے وزیراعظم کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہئے کیونکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں اپنی جگہ بنانے والوں میں سے سرفہرست ہیں اور اب بھی وہ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کو زیادہ اہمیت بھی دیتے ہیں اور ملکی میڈیا کے حوالے سے وہ پابندیاں اور قوانین لانے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں سوشل میڈیا کو ہی اوپر لانا چاہتے ہیں۔ہماری روحانی شخصیات کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر وقتی تربیت کے بجائے کوئی ایسا کام کریں جس سے قوم کے اندر روشنی پیدا ہو اور لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے اللہ کی مدد کے ساتھ اپنے زور بازو کو بھی آزمائے اور صرف بازو پر تعویذ باندھ کر آنکھیں بند کر کے بیٹھ نہ جانے۔
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭

بھولے پاکستانی

عام پاکستانی بھی کیا سادہ ہیں، ذرا سی امید پر خوش ہوجاتے ہیں اور کوئی ہلکا سا روکھا پن دکھائے ان پر اداسی چھا جاتی ہے۔ اپنے وطن میں کرکٹ بحال ہونے کی امید ہر ہی ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں۔ نیوزی لینڈ جیسی کرکٹ ٹیم پاکستان آکر بھی کھیلنے سے انکار کردے تو یہ قوم بچوں جیسی روہانسی ہو جاتی ہے۔ پروین شاکر نے کہا تھا
ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے
میں جانتی تھی پال رہی ہوں سنپولئے
بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے
امریکہ جیسا ملک افغانستان سے اپنے فوجی نکالنے میں مدد دینے پر ہلکا سا شکریہ ادا کرے اور پاکستان کی تھوڑی سی تعریف ہو جائے تو یہ پاکستانی خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور امریکہ کو اپنا پرانا یار قرار دینے لگتے ہیں، حالانکہ اس قوم کو احمد فراز پہلے ہی سمجھا چکے کہ
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈا آرڈن اپنے ملک میں مسجد میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد سر پر دوپٹہ لیتی ہے اور کالے کپڑے پہن کر واقعہ کی مذمت، مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کرتی ہے تو اس کی سب سے زیادہ تعریف پاکستانی کرتے ہیں، جیسینڈا آرڈن پاکستان میں مقبول ترین غیر ملکی خاتون سربراہ بن جاتی ہیں۔ پاکستانی اس کی انصاف پسندی اور انسان دوستی کے گن گانے لگ جاتے ہیں۔ پاکستانی وہ قوم ہیں جو چھوٹی چھوٹی خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی
کس قدر قحط وفا ہے میری دنیا میں ندیم
جو ذرا ہنس کے ملے اس کو مسیحا سمجھوں
اب اسی جیسینڈا آرڈن نے ہمارے پیارے کرکٹر وزیراعظم عمران خان کے فون کرنے کے باوجود اپنی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان جاری رکھنے کی بات نہیں مانی تو یہ پاکستانی اس خاتون کو سوشل میڈیا پر چڑیل، مکار، کھیل کی دشمن اور نا جانے کیا کیا کہ رہے ہیں۔ بقول شکیب جلالی
کبھی غرور، کبھی بے رخی، کبھی نفرت
شبیہ جوش محبت بدلتی رہتی ہے
پاکستانیوں کی سادگی کی اور کیا مثال ہو کہ وہ طالبان جنہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کو پچھلے دو عشروں میں خون رلایا۔ اتنے دھماکے کئے، اتنا خون بہایا کہ اس کی نظیر جدید کیا قدیم دنیا میں بھی نہیں ملتی۔ عبیر ابوذری نے اسی وقت کہا تھا۔
ہر روز کسی شہر میں ہوتے ہیں دھماکے
رہتی ہے میرے دیس میں شب رات مسلسل
اب انہی طالبان کو ہم خود پیشکش کر رہے ہیں کہ ہتھیار ڈال دیں، پاکستانی قانون کو تسلیم کر لیں تو آپ کو عام معافی مل سکتی ہے۔ میر تقی میر نے کہا تھا
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ نے بھی اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا ہے تو ان بھولے پاکستانیوں کو گوروں پر اپنی حال ہی میں کی گئی عنایت یاد آنے لگی ہے جب پاکستان نے پوری دنیا میں کرونا کے خوف کے باوجود انگلش کرکٹ بورڈ کو نقصان سے بچانے کے لئے اپنی کرکٹ ٹیم وہاں بھیجی، حالانکہ کوئی ملک وہاں جانے پر تیار نہیں تھا۔
تو پیارے پاکستانیو! پریشان نہ ہوں، یہ دنیا ہے ہی ایسی، اس سے وفا کی امید رکھنا بے وقوفی سے کم نہیں۔بقول رفعت سلطان
نادان دل فریب محبت نہ کھا کبھی
دنیا میں کس نے کی ہے کسی سے وفا کبھی
اب برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پاکستان کا دورہ منسوخ کرنے پر اپنے کرکٹ بورڈ پر مبینہ ناراضی کا اظہار کیا ہے تو پاکستانی پھر اسے اپنے اصولی موقف کی فتح قرار دینے لگے ہیں۔ حالانکہ حقیقت وہی ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے بیان کر دی ہے کہ سب گورے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور تیسری دنیا کے حوالے سے ان کا ایک مائینڈ سیٹ بنا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو حقیر اور خود کو قیمتی سمجھنا ان کی فطرت ہے۔ ان کو میدان میں شکست دے کر ہی ان کی گردن میں موجود سریا توڑا جا سکتا ہے۔ تب یہ پیچھے بھاگتے ہیں۔ان میں خلوص پیار پہلے تو ہوتا نہیں، ہو بھی تو دکھاوے کا ہوتا ہے۔ ان کے متضاد رویوں کا شکار عموماً ایشیائی ہوتے ہیں۔
جتا جتا کے محبت دکھا دکھا کے خلوص
بڑے فریب سے لوٹا ہے دوستوں نے ہمیں
پیارے پاکستانی! نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے پاکستان میں نا کھیلنے کا بہت سوگ منا لیا۔ اب اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ عالمی سطح پر کوئی کسی کا یار نہیں، دوستی وہیں ہوتی ہے جہاں ایک دوسرے کے ساتھ مفادات وابستہ ہوں۔ بقول اعتبار ساجد
مجھ سے مخلص تھا نہ واقف میرے جذبات سے تھا
اس کا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا
نیوزی لینڈ اور انگلینڈ پاکستان میں آکر کھیلنے کے بجائے پاکستان کے جذبات سے کھیل گئے۔ عین ممکن ہے آسٹریلیا کی ٹیم بھی ہم سے یہی گیم کھیلے اور وہ بھی پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کردے۔اس کے لئے ہمیں ذہنی طور پر پہلے ہی تیار رہنا چاہئے اور اپنی پوری توجہ کھیلوں کے علاقائی بلاک کی تشکیل پر دینی چاہئے۔ بقول قلق میرٹھی
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان کی افغان پالیسی اور مخالفین کی بہتان تراشی

اکرام سہگل
میرے گزشتہ کالم ’افغان جنگ سے سیکھنے کے کچھ سبق‘ نے پاکستان سے پیدائشی بغض رکھنے والے چند لوگوں کو آگ بگولہ کردیا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا تعلق بھارت سے ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کی فوج اور مجھ سے ذاتی عناد رکھتے ہیں۔ میرے ایک امریکی دوست نے میرے اس کالم پر ایک صاحب کا غم و غصہ پہنچایا اور سوال بھی کیا کہ تم نے آخر ایسا کیا کہہ دیا ہے؟
میرے اس کالم پر چراغ پا ہوکر بددیانتی کا الزام لگانے والوں نے شاید یہ تحریر پڑھی ہی نہیں۔ جہاں ضروری ہو استدلال کے ساتھ تنقید کو میں نے خندہ پیشانی سے سنا ہے ایسا کئی مواقع پر ہوا ہے لیکن مجھ پر جھوٹ بولنے کا الزام بہتان تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ مذکورہ صاحب نے مجھ پر الزام عائد کیا ہے کہ میں نے اپنی تحریر میں پاکستان کی ماضی کی تباہ کُن افغان پالیسی کے تذکرے سے گریز کیا ہے۔ پاکستان نے بلا شبہ افغانستان کی صورت حال میں ایک افسوس ناک کردار ادا کیا ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا ہے۔ موجودہ حکومت اور فوج نے کئی سب سیکھ لیے اور ماضی کی غلطیاں دہرانے سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں اپنی گزشتہ تحریروں میں ’اسٹریٹجک ڈیبتھ‘ یا تزویراتی گہرائی کے تصور جیسی غلطیوں کی نشان دہی کرچکا ہوں۔ میں برسوں سے یہ لکھتا آیا ہوں کہ افغانستان ’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘ کے بجائے ہمارے لیے مسلسل ’ہیڈ ایک‘ یعنی دردِ سر بنا ہوا ہے۔ انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان سے سبق حاصل کیا جائے۔ تاریخی اور سیکیورٹی اسباب سے فوج مستقبل میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔ لیکن اب ہم شاید کبھی فوجی حکومت نہیں دیکھیں گے۔ اس پر میں ایک دو نہیں دسیوں بار لکھ چکا ہوں۔ اس میں بھلا کیا شبہہ ہے کہ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ کوئی بے بصیرت ہی ان تبدیلیوں سے انکار کرسکتا ہے۔
افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنا غلط ہوگا۔ ہم نے اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتا ہے۔ افغانستان میں جاری جنگ کی قیمت ہم نے بھی چکائی ہے جس میں ہمارے چھ ہزار فوجی شہید اور 25ہزار زخمی ہوئے۔ جب کہ ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاکتیں اور تین لاکھ افراد کے زخمی ہونے کا نقصان الگ ہے۔ نیٹو اور امریکا پر افغانستان کی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ کھربوں ڈالر افغان جنگ میں جھونکنے کے بعد امریکا کہ نقصانات کم کرنے کے لیے ایسے جنگ زدہ ملک سے فوجوں کی واپسی جو امریکی عوام اور معیشت پر بوجھ بن چکی تھا، صدر بائیڈن کا درست اقدام تھا۔ صدر ٹرمپ پہلے ہی اس کے لیے تاریخ کا تعین کرچکے تھے۔ امریکا نے 2018میں جب دوحہ مذاکرات کا آغاز کیا تھا وہ یہ جنگ اسی وقت ہار چکا تھا۔ 2010میں افشا ہونے والے افغان جنگ کی دستاویزات نے امریکا اور نیٹو افواج کا پول کھول دیا تھا۔ برطانوی اخبار کارجین نے ان دستاویزات کو افغانستان کی جنگ میں شکست کی ہولناک تصویر سے تعبیر کیا تھا۔ گزشتہ ماہ نیشنل سیکیورٹی آرکائیو سے جاری ہونے والی مزید دستاویزات بھی یہی کہانی بیان کرتے ہیں۔
بعض لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغان پالیسی پر امریکا کا دباؤ تسلیم کرنے کے لیے اب بھی تیار ہیں۔ یہ بات ماضی کے لیے درست تھی اور ان ادوار میں امریکا نے بھی بارہا ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ چین ہمارے گرم و سرد کا دوست رہا ہے اور سی پیک نے اس رشتے کو مزید مضبوط کردیا ہے۔ لیکن یہ یک طرفہ راستہ نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی شکل میں مشترکہ احترام اور دوستی کے اس تصور کو بین الاقوامی سطح پر پھیلانے کے امکانات بھی پیداکیے گئے ہیں۔ حال ہی میں دوشنبہ میں ہونے والی تنظیم کی کانفرنس میں ’شنگھائی اسپرٹ‘ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس سے مراد باہمی اعتباد، مشترکہ مفادات، مساوات، دو طرفہ مشاورت اور ثقافتی تنوع کا احترام بیان کیا گیا ہے۔ اگر آپ توجہ کے ساتھ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو پاکستان نے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر امریکا سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے اپنی تعلقات استوار کیے ہیں۔ اس تبدیلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ رہے ہیں۔
مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ میرے ذہن پر بھارت سوار ہے۔ 1947 سے 1971تک کتنے ہی مواقع پر اس نے کھل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ 1971میں بھارت کا غیر اعلانیہ جنگی قیدی بننے کے بعد میں ان کوششوں کا عینی شاہد ہوں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جنگ شروع ہوئی دسمبر 1971کو اور بھارت نے اپریل ہی سے قیدیوں کے لیے کیمپ تیار کرلیے تھے۔
بھارت نے بلوچستان میں انتشار پھیلانے کے لیے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کیا۔ سوویت یونین کی جارحیت کے برسوں میں بھی بھارت ان کے جان و مال کی قیمت پر افغانستان سے ہمارے خلاف محاذ پر سرگرم رہا اور اکیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکا نے افغانستان کا رُخ کیا تو بھارت نے یہی کچھ اس کے ساتھ بھی کیا۔ بھارت کو اپنے مفادات سے غرض تھی اور ان جنگوں میں افغانستان کی تباہی ہوتی رہی۔ بھارت میں مسلم مخالف پالیسیوں اور کشمیر میں اس کے ظلم و زیادتی کا تذکرہ کیا بے محل ہوگا۔ بھارت کو دشمن سمجھنے یا کم از کم دوست نہ سمجھنے کی ٹھوس وجوہ ہیں۔ ذاتی تعلقات کی نوعیت الگ ہے اور متعدد بین الاقوامی اداروں میں ساتھ کام کرنے والے کئی بھارتی میرے دوست ہیں۔
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض لوگ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنے ’قد بڑا دکھانے‘ کا طعنہ بھی دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پاکستان سے عناد ہی ہے ورنہ انہیں نظر آنا چاہیے تھا کہ پاکستان نے صرف افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے تعلقات کو درست سمت دینا شروع کی ہے۔ پاکستان سے حسد کی آگ میں جلنے والے ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب کچھ اچھا ہوگیا لیکن بین اقوامی سطح پر پاکستان کے قد اور ’وزن‘ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پالیسیوں میں درست اور بروقت تبدیلیوں اور خطے میں پیدا ہونے والی صورت حال نے ہمیں ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اب کوئی عقل کا اندھا نہ دیکھ پائے تو افسوس کے سوا کیا کیاجاسکتا ہے۔ تاریخ کا دھارا اب ایشیا کی طرف رخ کرچکا ہے۔ اس اہم موڑ پر ٹی ٹی پی کے ہمارے قبائلی علاقوں میں سرگرم ہونے کی کوششیں اور مشرقی بارڈر پر مخاصمت رکھنے والے بھارت کی موجودگی میں ہماری افواج کو چاق چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔
مجھے اس میں رتی بھر شبہہ نہیں کہ پاکستان اور دیگر مسلم دنیا میں شدت پسندی کو روکنے لیے اقدامات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ لیکن بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی بھی کم خطرناک نہیں۔ یہ ایسے خطرات ایسے ہیں جو کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہیں گے۔ اگر یہ آگ بھڑکنے دی گئی تو دنیا میں کوئی ملک اس کی آگ اور دھوئیں سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

کیا میرے وطن کے کسی لیڈر کی بھی یہ سوچ ہے؟

سلمیٰ اعوان
پیٹرز برگ کے سمولینی میوزیم جاکر مجھے احساس ہوا تھا کہ انقلاب ایسے نہیں آتے۔حقوق کیلئے شعورو آگہی کا ادراک بنیادی ضرورت ہے۔ اس ادراک کیلئے جاننے کی لگن اور تڑپ چاہیے۔رُوسی عوام نے اسکا عملی مظاہرہ کیا تھا۔رُوس پڑھنا سیکھ رہا تھا۔سیاست سے اُسکی دلچسپی تاریخ اور فلسفہ میں اُسکا انہماک، سماجی و معاشی نظریات کو جاننے میں اُسکا شوق بے پایاں تھا۔
جان ریڈ کی ایک تحریر اس جذبے کی عکاس ہے۔
اُنیسویں صدی کی آخری دہائی ”ریگا“کی بیک پر بارھویں فوج کا محاذ، کیچڑ بھری خندقوں میں، ننگے پاؤں،فاقہ زدہ اور بیمار فوجیوں جنکے چہرے پیلے، آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی پہلا مطالبہ یہ کیا تھا۔ہمارے پڑھنے کیلئے کیا لائے ہو؟
یہ جذبہ یونہی پیدا نہیں ہوا۔انقلابی لیڈروں نے اپناسارا فوکس لوگوں کو علم اور شعوردینے پر صرف کر دیا تھا۔
برآمدے میں گھومتے پھرتے ہوئے میرے تصورمیں محنت کے پھولوں سے سجے وہ ہزاروں کھردرے ہاتھ ابھرے تھے جو ”داس کپیٹل“ کی کئی جلدوں کو پھاڑ کر انکے صفحے بانٹ لیتے اور اپنی جسمانی تھکن کو انہیں پڑھتے ہوئے اُتارتے۔
کر پسکایا کی ایک تحریر ان دنوں کے بارے میں ہے۔جب تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ اور لینن پیٹرز برگ میں موجود تھا۔
میں جس گھر میں رہتی تھی۔اس گھر کی کھڑکی کھول کر جب بھی باہر دیکھتی مجھے زور شور سے باتوں کی آوازیں آتیں۔ڈیوٹی پر متعین سپاہی کے پاس ہمیشہ سا معین ہوتے۔نوکر خانسامے بالشویک منشویک زار،زارینہ، ڈوما سب کے بخیے اپنی اپنی فہم وفراست کے مطابق اُدھیڑ رہے ہوتے۔اُن دنوں چاندنی راتوں کی شب بھر جاری رہنے والی سیاسی بحثوں کو کبھی نہیں بھول سکتی۔یہ سب ہمارے لئے بہت اہم ہوتا تھا۔یہ رُوسی عوام کی بیداری تھی۔یہ انکی اپنے حقوق کیلئے جنگ تھی۔
توپھر میں بلند وبالا سفید ستونوں، دوہری دیواری کھڑکیوں اور اُونچی چھت والے ہال میں داخل ہوتی ہوں۔ اس سمولنی نے بھی رُوس کے اُفق پر چھائے ظلم وستم کے بادلوں کو اُڑانے میں تیز اور شوریدہ سرہواؤں جیسا کردار ادا کیا تھا۔
میں ہال میں سیاحوں کیلئے رکھی گئی کُرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی تھی۔یقینا میں اپنی کھلی آنکھوں سے اُن مناظر کو دیکھنا چاہتی تھی جو کبھی البرٹ ولیم نے دیکھے تھے۔جنکے بارے میں اُسنے اور جان ریڈ نے لکھا تھا۔
جب چیئرمین کا یہ اعلان کا مریڈ لینن خطاب کرینگے۔ “ریڈ ” کہتا ہے میں نے دم سادھ لیاتھا اور خود سے کہا تھا ”تو کیا وہ ایسا ہی ہوگا؟ جیسا ہم نے سوچا ہے۔“
وہ ہماری تصوراتی سوچوں کے بالکل برعکس تھا۔چھوٹا، گٹھیلا سا، اسکی داڑھی اور مونچھوں کے بال اکڑے ہوئے، بہت کھردرے، آنکھیں چھوٹی چھوٹی، بیٹھی ہوئی ناک، چوڑا دہانہ اوربھاری ٹھوڑی۔گندے مندے سے کپڑے.پتلون تو بہت لمبی تھی۔قطعی طور پر ایک غیر موثر شخصیت۔
میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر اُس پورٹریٹ کے سامنے جاکھڑی ہوئی تھی جو دیوار پر آویزاں تھا۔لینن خطاب کرتااور لوگوں کا جمّ غفیر اسکے گرد جمع تھا۔
میں نے اُسے بغور دیکھا۔وہ ایسا ہی تھا جیسا ریڈاور البرٹ ولیم نے محسوس کیا۔وہ لیڈر تھا،ایک دانشور، رنگ ونسل سے بالا، نہ بکنے، نہ جھکنے والا۔
البرٹ بالشویکوں کی جراُت، دلیری اور تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کاوشوں پر متاثر تھا پر اُنکے لیڈر کو دیکھ کر مایوس ہوا تھا۔
میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔کیا مجھے بھی کوئی ایسا احساس ہوا ہے؟
”ارے کہاں۔ہم تو خوبصورتیوں اور دراز قامتوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔“
کرپسکایا کہتی ہے۔لینن اور ٹراٹسکی کی آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرے سُتے ہوئے ہوتے۔کپڑے میلے۔کبھی کبھی ایسے لگتا جیسے نیند میں چلتے ہوں۔مجھے یہ خوف ستانے لگتا کہ اگر انکی یہی حالت رہی تو انقلاب خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
انقلاب کی تاریخ مرحلہ وار دیواروں پر آویزاں تھی۔
انقلاب کی شام ٹراٹسکی اورلینن چند لمحوں کیلئے اندر آئے۔وہ تھکے ہوئے تھے۔فرش پر پرانا پھٹا ہوا کمبل کسی نے بچھایاتھا۔کوئی بھاگ کر دوتکیے لایااور وہ دونوں ساتھ ساتھ لیٹے۔انہیں نیند نہیں آرہی تھی۔وہ اپنے جسموں کو تنے ہوئے تاروں کی طرح محسوس کرتے تھے۔
اور جب لینن نے کہا تھا۔یہ کیسا حیرت انگیز نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے۔
پھر میں ایک اور کمرے میں داخل ہوئی۔اس کمرے کی تاریخ اُسکی پیشانی پر رقم ہے۔یہ کمرہ جہاں وہ تاریخی شخصیت میز پر بیٹھی لوگوں سے گھری ہوئی ہے۔ لینن انقلاب سے متعلق چیزوں کے بارے میں زیادہ ٹچی نہیں تھا وہ ا سکی گہرائی اور روح کا متمنی تھا۔
ڈھیروں ڈھیر کمرے اپنے اندر انقلاب کی کہانیاں سناتے ہیں۔جو طویل بھی ہیں اور مشکل بھی۔
پر اُس چمکتی دوپہر میں ماتمی گیت میرے لبوں پر آگیاتھا۔ کوئی سچا بے لوث مقصد کے لئے زندگی داؤ پر لگانے والا لیڈر میری کتنی بڑی تمنا تھی۔
لوگوں کی آزادی اور وقار کے لیے ایک لفظ کہے بغیر تم نے زنجیریں پہنیں۔
کیونکہ تم اپنے لوگوں کا دکھ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔کیونکہ تم سمجھتے تھے کہ انصاف زیادہ طاقتور ہے تلوار سے۔کیا میرے وطن کے کسی لیڈر کی بھی یہ سوچ ہے میں نے خود سے پوچھا تھا۔
(کالم نگار معروف سفرنگار اورناول نگار ہیں)
٭……٭……٭

سی پیک کو درپیش چیلنجز

ملک منظور احمد
پاکستان کی معیشت کی کمزوری ہمیشہ سے پاکستان کے لیے ایک درد سر رہی ہے،پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کی معیشت ہچکولے کھاتی آئی ہے،کبھی کسی دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظا ہرہ کرتی ہے تو پاکستان کے جلد ہی ایک عظیم معاشی طاقت بننے کی نوید عوام کو سنا دی جاتی ہے لیکن پھر چند سال بعد ہی معیشت کو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ پھر سے ساری ترقی پر پانی پھر جاتا ہے۔پاکستان کی معیشت کے ساتھ جو بنیادی مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنی برآمدات کو اس رفتار کے ساتھ اور اس تیزی کے ساتھ نہیں بڑھایا سکا ہے جس تیزی سے پاکستان کی درآمدات بڑھتی ہو ئی آ ئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر چند سال بعد فارن ایکسچینج کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے در پر ہوتا ہے۔پاکستانی قوم عرصہ دراز سے اس چکی میں پستی ہو ئی آئی ہے،اور قوم کو لگنے لگا تھا کہ یہ دھکے ہی اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں لیکن پھر اچانک 2013ء میں چین کی جانب سے پاکستان کو ایک پیغام ملا کہ ہمارے پاس آپ کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔اور یہ تحفہ چین کی جانب سے پاکستان کو سی پیک کی صورت میں دیا گیا۔گو کہ اس دور میں پاکستان میں نواز شریف صاحب کی حکومت تھی لیکن اس منصوبے کا کریڈٹ سابق صدر آصف زرداری بھی لیتے ہیں۔
بہر حال یہ منصوبہ با قاعدہ طور پر 2015ء میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے بعد شروع ہوا اور سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت پاکستان میں توانائی اور انفرا سٹرکچر کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سٹرکیں بنیں مو ٹر ویز بنے اور بجلی گھر بھی لگے۔2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں حکومت تبدیل ہو ئی تو یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ منصوبہ رک گیا ہے کام بند ہو گیا ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ،لیکن بہر حال اس کے باوجود سی پیک کا منصوبہ بہر حال چلتا رہا،منصوبے مکمل بھی ہوئے جن میں سے قابل ذکر ملتان سکھر موٹر وے اور بجلی کے منصوبے تھے۔حال ہی میں سی پیک کے تحت لاہور مٹیاری ٹرانس میشن لائن مکمل کی گئی ہے،لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے نہ صرف نہایت ہی اہم ہے بلکہ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کے معیشت کا مستقبل جڑا ہوا ہے،اور شاید اسی لیے اس منصوبے کو مسلسل اندرون ملک اور بیرون ملک سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں موجود چینی ورکرز اور انجینئرز پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔داسو،گوادر اور کوئٹہ میں حملے ہوئے اور ان حملوں میں بد قسمتی سے چینی شہری بھی نشانہ بن گئے۔اور چین نے پاکستان سے اس حوالے سے شکوے کا اظہار بھی کیا گوکہ پاکستان نے پہلے سے چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے فوج کے اضافی دستے تعینات کر رکھے ہیں لیکن ان حملوں کے بعد چینی شہریوں اور خاص طور پر سی پیک پر کام کرنے والے ورکرز کی سیکورٹی میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن پوری قوت کے ساتھ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔سی پیک کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں منفی خبریں بھی ایک معمول بنتی جا ری تھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا ہے اور ان کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات لیے جا رہے ہیں۔سی پیک کا دوسرا مرحلہ اب شروع ہو چکا ہے جس کے تحت پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز بننے ہیں جن میں برآمدی صنعتیں لگائی جانی ہیں۔اور حکومت پاکستان کا منصوبہ یہ ہے کہ ان اقتصادی زونز کی مدد سے پاکستان کی برآمدات میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ پاکستان کو فارن ایکسچینج کی کمی کا مسئلہ جس کے باعث پاکستان کو بار بار آئی ایم کے در پر حاضری دینی پڑتی ہے کو ختم کیا ہے اور مستقبل میں ایک بہتر معیشت کی بنیاد رکھی جائے۔اس نازک مرحلے پر سی پیک پر حملے اور بیرونی سازشیں غیر متوقع نہیں ہیں،خاص طور پر جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ تیز تر ہوتا گیا پاکستان میں یکے بعد دیگر سی پیک پر بھی حملے بڑھتے چلے گئے۔ان حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی اور پاکستان نے بھی کہا کہ افغان سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں چینی شہریوں پر یہ حملے کیے گئے ہیں۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید طالبان ان حملوں میں ملوث ہیں لیکن افغان طالبان بر ملا نہ صرف چین کو اپنا دوست قرار دے چکے ہیں بلکہ چین کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی بھی دعوت دے رہے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ افغان سر زمین پر موجود راء اور این ڈی ایس ان حملوں میں ملوث تھیں۔لیکن جہاں پر بہت سا پرا پیگنڈا موجود ہے وہاں پر یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ چینی کمپنیوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے عد م ادائیگی کی شکایات بھی کی ہیں جن پر پاکستان کی حکومت نے چین کو یقین دلایا ہے کہ جلد یہ معاملہ کلیئر کر دیا جائے گا۔اور ابھی گزشہ کل ہی سی پیک پر پاکستان اور چین کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس بھی منعقد ہوا ہے اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کو روکنے کی تمام کوششوں کا سد باب کیا جائے گا۔اور کوئی قوت سی پیک کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔یہ اعلا میہ نہایت ہی خوش آئند اور ان سازی عنا صر کو سخت جواب ہے اور یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان اور چین ایک پیج پر ہیں کسی صورت بھی اپنے مشترکہ مفادات کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔بہر ال سی پیک کے تحت پاکستان میں 62ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہونی ہے اور ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون منصوبے جیسے پراجیکٹس یقینا پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس بات میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی اور معاشی خود مختاری کا ایک نا در موقع ملا ہے اور ایسے موقع قوموں کو با ر بار نہیں ملا کرتے ہیں۔اس منصوبے کی کامیاب تکمیل پاکستان کو دیرینہ معاشی مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ہمیں بطور قوم کسی صورت بھی اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

پاکستانی نابینا سفارت کار خاتون کا کشمیر بھارت کو کرارا جواب دنیا کی آ نکھیں کھول دیں

پاکستانی نابینا سفارتکار خاتون کا کشمیر پر بھارت کو کرارا جواب، دنیا کی آنکھیں کھول دیں مستقل مشن کی رکن صائمہ سلیم نے بھارتی مظالم پر ٹھوس جوابات دیئےنیویارک

پاکستان پر الزام تراشی کی کوشش ناکام، بھارت کو اقوام متحدہ میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی رکن، پاکستانی سفارتکار صائمہ سلیم نے بھارتی بیان پر سخت ردعمل جاری کردیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی بیان

پر جوابی ردعمل دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات پیش کیں۔پاکستان کی جانب سے خاتون سفارت کارصائمہ سلیم نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق حقائق پیش کر کے بھارت کوبھرپور جواب دیا۔انہوں نے کہا کہ کشمیرنہ بھارت کا اٹوٹ انگ نہ بھارت کا اندرونی معاملہ، یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے، جس پر

بھارت نے بزور اسلحہ قبضہ کیا ہوا ہے، کشمیر کے مسئلے سے سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت ہمیشہ پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرتا ہے۔صائمہ سلیم نے کہا کہ یورپی یونین کی ڈس انفولیب کے انکشافات سامنے آچکے ہیں، بھارت نے پاکستان کے خلاف غلط معلومات کے ٹولز استعمال کیے۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف

ورزیوں پر درجنوں رپورٹس موجود ہیں، انسانی حقوق کے ہائی کمشنرکی 2رپورٹس میں تفصیلات بھی درج ہیں، 5 اگست 2019 کے بعد بھارت پر زور دیا کشمیریوں کے حقوق بحال کرے، انسانی حقوق تنظیموں نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں جامع اور تحقیق شدہ ڈوزیئرجاری کیا

ہے، جو بھارتی فورسز کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل ہے، اس میں پاکستان نے بین الاقوامی برادری سے نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔بھارت کے پاس اگرچھپانے کیلئے کچھ نہیں ہے توبھارت کو اقوام متحدہ کی انکوائری کو قبول کرنا چاہیے، بھارت خود خطے میں دہشت گردی کا اصل مجرم اور مالی معاون ہے، بھارت کم ازکم 4 مختلف اقسام کی دہشت گردی میں ملوث ہے، 1989 سے اب تک بھارتی افواج نے 96 ہزار سے زائد

کشمیریوں کو شہید کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کر رہا ہے، ہزاروں پاکستانی بھارتی سرپرستی میں دہشت گرد حملوں میں جانیں گنواچکے ہیں، پاکستان نےدہشت گردی میں بھارتی مداخلت کے شواہد شیئرکیے، پاکستان میں گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن نے بھی پاکستان میں دہشت گردی کااعتراف کیا

ہے، اس سے قبل بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے الزامات کا سخت لہجے میں جواب دیا تھا،اقوام متحدہ میں بھارت کی فرسٹ سیکریٹری سنیہا دوبے نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کے داخلی معاملات کو عالمی پلیٹ فارم پر پیش کر کے اور جھوٹ پھیلا کر بھارت کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش

کی ہے، جس کی وجہ سے انہیں ‘رائٹ ٹو رپلائی(جواب دینے کا حق)کی شق استعمال کرنی پڑی۔سنیہا دوبے نے الزام عائد کیا کہ پاکستان وہ ملک ہے، جہاں دہشت گرد آزادی سے گھومتے ہیں۔ ”پاکستان اپنے پڑوسیوں کو پریشان کرنے کے لیے درپردہ دہشت گردی کی اعانت کر رہا ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں خود کو مظلوم اور دہشت گردی کے شکار ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان درحقیقت آگ لگانے والا ہے لیکن خود کو فائر فائٹر(آگ

بجھانے والے) کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔”بھارتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا، ان(پاکستان)کی پالیسیوں سے ہمارا خطہ ہی نہیں بلکہ دراصل پوری دنیا کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف وہ اپنے ملک میں نسلی تشدد کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”بھارتی سفارت کار سنیہا دوبے کا دعوی تھا، ہم اس وقت بھی اور ہمیشہ اس بات پر قائم ہیں کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر اور لداخ بھارت کا حصہ ہیں اور رہیں

گے۔ اس میں وہ حصے بھی شامل ہیں جن پر پاکستان نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے جن علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے، ان تمام علاقوں سے فورا دست بردار ہو جائے۔”خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے جمعے کی رات خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں ہندو

فضائی حملوں کیلئے طالبان کو بتانا ضروری نہیں امریکہ کا اعلان

نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک) پینٹاگون کا کہنا ہے کہ افغانستان میں فضائی حملوں کے لیے طالبان کو بتانا ضروری نہیں۔واشنگٹن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پینٹاگون پریس

سیکرٹری جان کربی کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے تمام اہم حکام کو رابطے میں رکھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فضائی حملوں میں استعمال ہونے والی

صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں معاون رابطوں کےلئے مخصوص اصولوں کی ضرورت نہیں ہے۔جان کربی نے یہ بھی کہاکہ طالبان سے بھی فی الحال فضائی حدود کے

حوالے سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ا±ن کا کہنا تھا کہ توقع کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں اس سلسلے میں مستقبل میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

ملک بھر میں نادرا سروسز معطل

ملک بھر میں نادرا سروسز معطل ہو گئیں۔

  نادرا سروسز اج 26 ستمبر کی صبح 8 بجے تک معطل رہیں گی، نادرا سسٹمز کی اپ گریڈیشن کے باعث فیصلہ کیا گیا ہے۔

 ترجمان نادرا  کا کہنا ہے کہ نادرا آپریشنل سہولیات بشمول آن لائن PakIdentity، کووڈ سرٹیفکیٹ کا (آن لائن) اجراء کی سروس بھی معطل ہوگی۔

ترجمان نادرا  کے مطابق ملک بھر کے 24 گھنٹے سروس والے میگا سینٹرز میں بھی سروسز آج صبح 8 بجے تک معطل رہیں گی۔

 ترجمان نادرا کے مطابق  اپگریڈیشن کے بعد تمام سروسز بحال ہو جائیں گی۔

 ترجمان نادرا  کا  مزید کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی اپ گریڈیشن کے دوران تمام آن لائن سروس معطل رہیں گی، بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی سسٹم اپ گریڈیشن کے فوری بعد تمام سروسزحاصل ہو سکیں گی۔

امریکی فو ج کی واپسی اور جوبائیڈن

روہیل اکبر
افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے حوالہ سے صدر جو بائیڈن پربہت تنقید کی جارہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو بائیڈن نے افغانستان سے افواج کے انخلا کا انتہائی سمجھداری سے فیصلہ کیا طالبان کے جیتنے اور امریکا کے بالآخر 20سال بعد شکست کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال د ئیے پاکستان مخالف افواہ ساز فیکٹریاں اس ساری صورتحال کے پیچھے پاکستان کو پیش کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہی ہیں فرض کریں اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان امریکا اور یورپی ممالک سے زیادہ طاقتور ہے اور اتنا طاقتور ہے کہ اس نے 60 سے 65ہزار معمولی اسلحے سے لیس ملیشیا کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ بہترین اسلحہ سے لیس فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہی ایسا ہر گز نہیں یہ صرف پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ہے جو سب سے پہلے افغان حکومت نے کرنا شروع کیاتھا تاکہ وہ اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان کو مناسب حکومت کی فراہمی میں ناکامی کو چھپا سکیں، اسے ایک کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتا تھا جس کا وہاں کے عوام احترام نہیں کرتے تھے اور دوسرا بھارت ہے جس نے اشرف غنی حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اس پراپیگنڈے کی کوئی منطق نہیں ہے۔
امریکا کے خلاف طالبان کی مدد کا الزام درست مانا جائے تو مطلب‘ پاکستان امریکا سے زیادہ طاقتور ہے جب کہ پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کا پروپیگنڈا افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت نے کیا، اشرف غنی حکومت نے اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو بھارت نے اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کے لیے اسپانسر کیا۔ایک اور مثال پیش کرتا ہوں اس وقت پاکستان کے 22کروڑ عوام کے لیے کل بجٹ 50ارب ڈالر ہے اوریہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے منہ کا نوالہ شدت پسندی کو فراہم کریں جو امریکا پر حاوی ہو وہ بھی ایک ایسی جنگ میں جہاں امریکا نے 20سالوں میں 2کھرب ڈالر جھونک دئیے۔اس وقت امریکہ کا کہناہے کہ آخر تین لاکھ افغان فوج نے طالبان سے لڑائی کیوں نہیں کی کیا پاکستان نے ان سے کہا کہ وہ جنگ نہ لڑیں۔ آخر دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار کیوں ڈال دئیے۔ رہ گئی بات طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی پاکستان چونکہ عالمی برادری کا حصہ ہے اور ہم اس وقت افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اس لیے طالبان کی حکومت کو جامع ہونا چاہیے کیونکہ افغانستان میں بہت زیادہ تنوع ہے۔
طالبان ایک پشتون تحریک ہے اور پشتون افغانستان کی نصف آبادی ہیں پھر وہاں تاجک بھی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں لہٰذا افغانستان کے مفاد اور دیرپا امن کے قیام کے لیے ہم محسوس کرتے ہیں وہاں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحدرکھ سکے طالبان ایک مشکل دور سے گزرے ہیں اور انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا ہے۔ انہیں اس میں بہت جانی نقصان بھی ہوا لہذا اس جنگ میں جنہوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں انہیں حکومت میں مرکزی حصہ ملے البتہ طالبان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک باقی اقلیتی گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع نہیں کیا جاتا اس وقت تک حکومت غیرمستحکم رہے گی۔ ایک اور اہم بات کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو چالیس سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک متاثر ہوں گے۔ پاکستان کے نقطہئ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے ہی تین دہشتگرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے ہیں۔
امریکا کابھی افغانستان میں بہت بڑا کردار ہے کیونکہ وہ وہاں 20 سال رہا۔ امریکا کی افغانستان پر حملہ کرنے کی واحد وجہ مبینہ طورپردہشت گردی تھی۔ اگر افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردوں کی جائے پناہ بن جائے تو پھر آخر آپ نے کیا کامیابی حاصل کی؟ افغانستان میں شکست کے بارے میں امریکی سینیٹرز کے پاکستان مخالف بیان پربھی شدیدحیرت ہوئی ہے کیونکہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے اس جنگ میں امریکا کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہمیں اس جنگ میں اتحادی بننے کا کہا گیا حالانکہ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ اس میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا۔ ہماری اس جنگ میں شمولیت کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے امریکا کو پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔
طالبان اب ایک حقیقت ہیں اور دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ انہیں ایک مستحکم ملک کے قیام کی ترغیب دیں اگر دنیا نے افغانستان پر پابندیاں لگائیں تو افغانستان ٹوٹ جائے گااور پھر دہشت گردی پوری دنیا میں پھیل جائیگی۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

وزیراعلیٰ پنجاب اورتعلیمی ادارے

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی روشن خیالی کا تصور متعارف کروایا۔ جس کی تشریح ہر مکتبہ فکر نے اپنے اپنے حوالے سے کی۔ کسی نے تو اسے بے حیائی اور فحاشی تک قرار دئے دیا۔ تاریخ دانوں نے اس کے دو پہلو نکالے۔ اول معاشرے سے انتہا پسندی کا خاتمہ، دوم تعلیم پر انحصار۔ تعلیم کو عام کرنے کے لئے مختلف پالیسیاں متعارف کروائی گئیں۔ ان پالیسیوں کے تحت نئے تعلیمی اداروں کا قیام قابل ذکر تھا۔ مشہور گورنمنٹ کالجز کو یونیورسٹیوں کی شکل دے دی گئی۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، گورنمنٹ کالج لاہور کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور بنا دیا گیا۔ اس پر دو مختلف طرح کی آرا سامنے آئی۔ کچھ لوگوں نے اسے تنقیدی نظر سے دیکھا اور حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کو ملک کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔
دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ ان گورنمنٹ کالجوں کو یونیورسٹیوں کا نام نہیں دینا چاہے تھا بلکہ الگ سے نئے ادارے قائم کرنے کی ضرورت تھی۔ تیسری طرح کے لوگوں نے اسے خوش آئند قرار دیا اور اس اقدام کوملک کی ترقی کا اورایک نئے دور کا آغاز کہا۔ نئے تعلیمی اداروں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ترقی میں کبھی ایک ادارہ کسی سے سبقت لے جاتا کبھی دوسرا۔ اکرم چودھری وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی کے دور میں سرگودھا یونیورسٹی کی دھوم مچ گئی کہ وہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ یونیورسٹی آف گجرات، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے بھی آہستہ آہستہ اپنا سفر جاری رکھا۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو یہ برتری حاصل تھی کہ اس کے طالب علم بیوروکریسی میں اہم پوزیشنیں لئے ہوئے تھے اور پالیسی سازی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس لئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے لئے اتنے مسائل نہیں ہوتے جتنے باقی اداروں کے لئے تھے۔ پاکستان کی پرانی اور بڑی یونیورسٹیوں کی نظر میں ان تعلیمی اداروں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان نئے تعلیمی اداروں میں جتنے بھی وائس چانسلر آئے انہوں نے ادارے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر آصف اقبال، ڈاکٹر عارف زیدی، ڈاکٹر شاہد محبوب رانا، ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صاحب تک سب لوگوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ شعبہ جات بھی بنائے گئے، تعمیرات بھی ہوئیں، اساتذہ کرام کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن قومی سطح پر اپنی پوزیشن بنانے میں ادارے کو وقت درکار تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد کمال موجود وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے جب ادارے کی حدود میں قدم رکھا تو ان کو بھی سابقہ وائس چانسلرز کی طرح ان مسائل کا سامنا تھا جو کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ اساتذہ کرام کا ایک خاص گروہ اپنی شیروانی ہمیشہ تیار رکھتا ہے۔ اور شیروانی کو ہر ماہ دھو کے پھر رکھ دیتا ہے۔ لیکن وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد کمال کی مدبرانہ اور منصفانہ حکمت عملی نے آہستہ آہستہ چیزوں پر پڑی دھند کو صاف کر دیا۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو اپنا لیڈر مانتے ہوئے ان کی کام کام اور کام کی پالیسی کو اپنا شعار بنا لیا۔ لوگوں کو اپنی ٹیم میں جگہ دی اور ان سے کام لینے کے لئے ان کی ہمت بندھائی۔ وہ اساتذہ کرام جو غیر منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے ادارے سے مایوس ہو چکے تھے ان کو تعلیمی دھارے میں لائے۔ اساتذہ کے پرموشن کے عمل کو شفاف بنایا اور میرٹ کی بالادستی کے لئے اپنی کاوش جاری رکھی۔ ایک سال کے اندر اندر ہی پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی تعداد میں اضافہ کیا۔
سال کے اندر دو نوکری کے اشتہارات دے کر طالب علم اور اساتذہ کی تعداد میں توازن قائم کیا۔ جس کے نتائج اگلے کئی سال تک ادارے کو ترقی کی طرف رواں دواں رکھیں گے۔ اس سے جہاں اساتذہ کی ادارے کے ساتھ وفاداری بڑھے گی وہیں معیار تعلیم بھی بہتر ہوگا۔ جب ادارے کے ساتھ اساتذہ کرام کی وفاداری مستحکم ہوئی تو انہوں نے بھی ادارے کی بہتری کے لئے کام شروع کر دیا۔ کسی بھی ادارے کے تین مضبوط ستون ہوتے ہیں۔ اول طالب علم، دوم اساتذہ اور سوم موجودہ انتظامیہ۔ وائس چانسلر نے تینوں ستونوں میں توازن پیدا کیا۔ جہاں اساتذہ کی ترقیاں کیں وہیں انتظامیہ میں بھی لوگوں کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ ایک سے سولہ گریڈ کے تمام ملازمین کو اگلے گریڈ میں ترقی دے دی گئی۔ جن انتظامی سیٹوں پر ایڈہاک ازم چل رہا تھا وہاں مستقل لوگوں کی تعیناتی کو یقینی بنایا۔ اس سے انتظامیہ کی وفاداری ادارے کے ساتھ مستحکم ہوئی۔ اور ان کا کام کرنے کا معیار بھی بہتر ہوا۔ طلبہ و طالبات کے لئے بہت سے انقلابی اقدام اٹھائے۔ شعبہ جات کے قابل اور مستعد چیئرمین حضرات لگائے۔ جنھوں نے طلبہ و طالبات کی بہتری کے لئے کام کیا۔ ڈائریکٹر نظامت امور طلبہ کو فعال کیا جس سے ادارے کے طلبہ و طالبات نے ادبی مقابلہ جات میں پاکستان بھر میں پوزیشنیں اپنے نام کیں۔ کنٹرولر امتحانات نے بروقت رزلٹ کے اعلانات کر کے طلبہ و طالبات میں پیدا ہونے والی بے چینی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔
ORIC اور QEC کے دفاتر کو اہم ذمہ داری دی کہ میرا یہ ٹارگٹ ہے کہ میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کو بین الاقوامی اداروں کی لسٹ میں سب سے نمایاں کر دوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی زندگیوں میں قیادت کا ویژن بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔وائس چانسلر نے بہت ہی کم عرصے میں اپنے ویثرن کو عملی شکل دی اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد دنیا کی چھ سو بہترین یونیورسٹیوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ پاکستان میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بعد پاکستان کی دوسری بہترین یونیورسٹی بن چکی ہے۔ پنجاب میں تعلیمی اداروں میں سب سے بہترین یونیورسٹی کا مقام حاصل کرنا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے لئے بہت بڑی اعزاز کی بات ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں تعلیمی اداروں کو بہتر کرنے میں برسرپیکار ہے۔ اس وقت بہت سارے تعلیمی اداروں کو معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ لیکن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہو چکا ہے۔ غیر ضروری اخراجات کو روکنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن وائس چانسلر اور ان کا خزانچی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بنائے گئے تعلیمی اداروں سے تعلیم کے فروغ میں سبقت لے جانا اس بات کی گواہی ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد پنجاب کی مضبوط ہاتھوں میں ہے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭