All posts by Daily Khabrain

خشک سالی اور منافعوں کی ہوس

جاوید ملک
بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وباء کے باعث ماحولیاتی بحران پر لوگوں کی توجہ کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ البتہ اس کے شدید اثرات اب بھی موجود ہیں۔ آج ہم ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج بھگت رہے ہیں، جبکہ شدید موسمیاتی تبدیلیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ خصوصاً اس سال، دنیا بھر کے مختلف خطوں کو خشک سالی نے متاثر کیا ہے جو تباہ کن مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔
کیلیفورنیا، برازیل اور تائیوان میں تاریخ کی سب سے بڑی خشک سالی دیکھنے کو ملی ہے۔ یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام خطوں میں بھی پانی کی شدید قلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دہائیوں سے جاری سرمایہ دارانہ بد نظمی، کرپشن اور ماحولیاتی تبدیلی نے پانی کا شدید بحران پیدا کر دیا ہے، جو انسانیت کو دو راستوں میں سے ایک چننے کا اختیار دے رہی ہے؛ یا تو ہم ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں، یا پھر اپنی زمین کے بڑے حصوں کو نہ رہنے کے قابل بنتا ہوا دیکھیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال 5 کروڑ 50 لاکھ افراد خشک سالی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال سے دنیا کے تقریباً ہر حصے میں مال مویشیوں اور فصلوں کو شدید خطرہ درپیش ہے۔ یہ لوگوں کے ذرائع معاش کے لیے خطرہ ہے، اس سے امراض کی بڑھوتری کا خدشہ بڑھ رہا ہے، اور دیوہیکل پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کا سبب بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک، خشک سالی کے نتیجے میں 70 کروڑ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ’نیچر جیو سائنس‘ میں شائع کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، یورپ میں موسمِ گرما کے دوران دیکھی جانے والی خشک سالی کی شدت نے پچھلے 2 ہزار 1 سو سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
یہ صورتحال مزید بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ نقصان دہ گیسوں کے اخراج کے باعث، خاص کر زیرِ زمین ایندھن کے ذریعے، زمین روز بروز گرم ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے خشک سالی میں مزید شدت اور طوالت آنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ حتیٰ کہ ’ماحولیاتی دفاعی فنڈ‘ (ای ڈی ایف) نے طویل عرصے پر محیط خشک سالی کے معمول بن جانے کے امکانات کا ذکر کیا ہے، جو دو یا دو سے زیادہ دہائیوں تک جاری رہے گی۔
دریا، جھیل اور پانی کے ذخائر خشک ہو رہے ہیں، اور ’ناسا‘ نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں زیرِ زمین پانی کے 37 اہم ترین ذخائر میں سے 13 اتنی تیزی کے ساتھ خالی ہو رہے ہیں کہ ان کا دوبارہ بھرنا مشکل ہو رہا ہے۔ زمین کا 70 فیصد میٹھا پانی زراعت میں، اور 20 فیصد صنعت میں استعمال ہوتا ہے، جو مجموعی طور 90 فیصد بنتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کے ذاتی استعمال میں احتیاط برتنے کی انفرادی کوششوں سے اس مسئلے کا ذرّہ برابر خاتمہ بھی ممکن نہیں ہے۔
سرمایہ داری کے اندر زراعت کے بہت سارے پہلو مکمل طور پر غیر معقول ہیں۔ مثال کے طور پر کیلیفورنیا کی بات کرتے ہیں۔ یہ امریکی ریاست اتنی خشک ہے کہ اسے صحرا کہنا غلط نہیں ہوگا، جہاں سال میں محض 8 سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ امریکہ کی موسمِ سرما والی سبزیوں میں سے 90 فیصد پیدا کرنے والا خطہ ہے۔ کیلیفورنیا میں زمین کا ایک بڑا حصہ برسیم اور بادام پیدا کرنے کے لیے مختص ہے، جو ان فصلوں میں سے ہیں جس کے لیے بہت بڑی مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں دوسرے نمبر پر چاول کی سب سے بڑی کاشت بھی کیلیفورنیا میں کی جاتی ہے۔ یہاں کسان اپنے چاول کے کھیتوں کو بہت بڑی مقدار میں پانی فراہم کرتے ہیں، جو اتنی ہی تیزی کے ساتھ بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر اب، خشک سالی کے باعث، کسان ماضی کی نسبت 1 لاکھ ایکڑ کم چاول کاشت کر سکیں گے، جو اس ریاست میں ہونے والی 5 لاکھ ایکڑ کاشت میں 20 فیصد کمی ہوگی۔
یہ کاروباری فصلیں ہیں، جو ان زمینوں کے مالکان اس لیے اگاتے ہیں تاکہ اچھی پیداوار حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ مگر یہ قریبی شہروں کے رہائشی ہی ہیں جنہیں پانی کی شدید قلت کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ عقلی بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ ساری صورتحال بالکل بکواس لگتی ہے۔ پانی کے انتظامات کے نقطہ نظر سے، یہ فصلیں محض کیلیفورنیا کے محدود ذخائر کو مزید خشک کرنے کا کام کرتی ہیں، جو اس کے مکمل انہدام کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔
یہ سرمایہ داری کے تحت زمین کی نجی ملکیت کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ زرعی کاروباروں کے مالکان کو اپنے کھیتوں پر بے تحاشا پانی صرف کرنا اس لیے ٹھیک دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر ان میں سے کوئی پانی کے استعمال کو کم کرنے کی خاطر مختلف قسم کی فصل کاشت کریں، تو وہ ریاست کے اندر منافع بخش فصل کی کاشت کرنے والے دیگر مالکان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ منڈی کی اندھا دھند مقابلہ بازی کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے ذخائر جتنا خشک ہوتے جاتے ہیں، اتنا ہی زرعی کاروباروں کی پیاس مزید بڑھتی جاتی ہے، جو اس کے مکمل خشک ہونے سے پہلے پہلے جتنا زیادہ ممکن ہو ان قیمتی اور محدود وسائل کو لوٹنا چاہتے ہیں۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس قسم کی حرکتیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں؛ چاہے زرعی زمین پر ضرورت سے زیادہ پانی صرف کرنا ہو (جو کھیت سیراب کرنے کا سب سے کم مؤثر طریقہ ہے)، تیز منافعے کمانے کی غرض سے ناسازگار حالات میں فصلیں کاشت کرنا ہو، یا پھر تھوڑی مدت کی زرخیزی کے لالچ سے ایمازون سمیت دیگر برساتی جنگلات کی کٹائی ہو۔
اسی خطے کے اندر، پانی کے ذخائر کی خشکی ممالک کے بیچ تناؤ کو اشتعال دے رہی ہے۔ 1975ء سے لے کر اب تک، ترکی میں ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں کی تعمیر کے باعث عراق کو جانے والے پانی میں 90 فیصد جبکہ شام کو جانے والے میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں نے ترکی کے اوپر پانی کی ذخیرہ اندوزی کا الزام لگایا ہے۔
عراق کے اندر 2019ء میں ابھرنے والی احتجاجی تحریک کی ایک چنگاری بلاشبہ پانی تک رسائی کا فقدان ہی تھا۔
عوام کو موسمِ گرما برداشت کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، جس میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا اور ان کو پانی یا بجلی دستیاب نہیں ہوتا تھا۔
ان مسائل میں سے کوئی بھی مسئلہ موجودہ نظام کے تحت حل نہیں ہوسکتا اسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے روزنامہ خبریں کے بانی جناب ضیا شاہد مرحوم نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں پانی کے وسائل کو پیدا کرنے یا پھر پانی کی بچت کرنے کے لیے صرف کر دیا لازم ہے کہ وطن عزیز کے اندر جہاں 2025ء میں پانی کا بحران ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے ضیاء شاہد مرحوم کی اس تحریک کو وہیں سے شروع کیاجائے جہاں سے وہ یہ تحریک محض اس لیے چھوڑ کر چلے گئے کہ ان کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب سرمایہ داری کا خاتمہ ہوچکا ہوگا تو ہم بالآخر ان بے شمار ماحولیاتی تباہ کاریوں کی روک تھام کرنے کے قابل ہوجائیں گے اس بوسیدہ نظام کی وجہ سے ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ بحران شدید ہوتا جارہا ہے اور اس کی قیمت غریب لوگوں کو اپنی زندگی کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سٹرکچرز اور سسٹمز

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
انسانوں کی طرح سسٹمز بھی پیدا ہوتے ہیں اپنا مجوزہ کام کرتے ہیں آہستہ آہستہ جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتے ہیں ان منازل کے دوران ان کو مزید جوان رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ان کو نیا خون دیا جاتا ہے وٹامن کی غذا کے طور پر ان سسٹمز کو چلانے کے لئے نئے تعلیم یافتہ لوگ اور نئی ٹیکنالوجی سسٹم میں لائی جاتی ہے اس طرح ان سسٹمز کو توانا اور متحرک رکھنے کا ہر حربہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مگر سسٹمز اور سٹرکچرز بالکل انسانوں کی طرح کچھ عرصہ اور طاقت ور رہ کر ڈلیور (deliver) کرتے رہتے ہیں مگر پھرایک وقت آتا ہے یہ سسٹمز صرف بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں اور آخر ہسپتال میں داخل کسی مریض کی طرح وقتا فوقتا تھوڑا کھانستے اور زور زور سے سانس لے کر چلنے کی کوشش کے باوجود اپنے ساتھ باقی سب سسٹمز (subsystems) کو بھی بیمار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخر وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
یعنی یہ سسٹمز اور سٹرکچرز اپنی آپ موت مر جاتے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ان سسٹمز کو چلانے اور ان سسٹمز سے چلنے والے انسانوں کو اس کا احساس بہت دیر کے بعد ہوتا ہے کہ جن سٹرکچرز اور سسٹمز پر ان کی ذاتی، معاشرتی اور قومی زندگی کا انحصار ہوتا ہے وہ تو در اصل مر چکے ہوتے ہیں اور ہزار کوشش کے باوجود ان سے وہ نتائج نہیں حاصل ہوتے جن کے لئے ان پر وسائیل اور انرجی خرچ کی جارہی ہوتی ہے۔یہ سسٹمز غیر حرکی یا (dysfunctional)ہو جاتے ہیں۔ جو انسان فوت ہو جاتا ہے اس کو دفن کردیا جاتا ہے اور اس کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں اور یوں زندگی کا نظام اپنی پوری آب و تاب سے رواں دواں رہتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے جان سے پیارے ملک پاکستان پر کیا بیتی۔
انگریز نے جب بر صغیر پاک و ہند پر اپنا مکمل قبضہ جما لیا تو اس نے یہاں کے وسائیل اور پیداوار کو اپنے صنعتی مقاصد اور اپنی آدھی دنیا پر پھیلی بادشاہت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے لئے ہندوستان کو نئے طریقے سے تقسیم کیا کبھی بنگال کو تقسیم کیا تو کبھی سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کیا نئے اضلاع اور انتظامی تقسیم عمل میں لائی۔ نئے جاگیردار اور اپنے تابع فرمان طبقوں کو بنایا گیا اور نوازا گیا۔ نئے سسٹمز جن میں نہری نظام، ریلوے کا سسٹم، پولیس کا نظام، عدالتی نظام اور نئی سرکاری مشینری ترتیب دی گئی جن کو الیٹ (elite) بنیادوں پر استوار کر کے عام لوگوں کو کنٹرول کرنے کے فرائض سونپے گئے۔ اور پھر جس طریقے سے بر صغیر کو لوٹا گیا اس کی تفصیل مشہور انڈین کانگریس کے لیڈر ششی تھرور نے اپنی کتاب An Era Of Darkness- The British Empire in India
میں دی ہے۔ ان تفاصیل میں جائے بغیر جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ ہے انگریز کے بنائے ہوئے سسٹمز اور سٹرکچرز کا رول‘ جو ان سسٹمز نے انگریز کے اقتدار کو طول دینے اور ان کی لوٹ کھسوٹ کو پروان چڑھانے میں ادا کیا۔ 1947 میں آزادی کے بعد ان سٹرکچرز اور سسٹمز کی نہ صرف اہمیت ختم ہو گئی بلکہ ان کا کردار بھی جو اب نئے حالات کے لئے معدوم تھا کسی حد تک نیچے کی طرف آنا شروع ہو گیا۔ مگر مقتدر قوتوں نے ان سسٹمز اور سٹرکچرز کو نہ صرف طول دیا بلکہ انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہمیشہ بطور ڈھال استعمال کیا اور کر رہے ہیں۔
آزادی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور تقسیم سے پہلے کے استحصالی طبقات جو زیادہ تر ہندو قوم سے تعلق رکھتے تھے سے مسلمانوں کی نجات کے لئے بنایا گیا تھا جہاں مسلمانان ہند اپنے نظریات اور کلچر کے مطابق نظام ترتیب دیں جو ہر قسم کے استحصال سے پاک ہو اور اپنے مذہب اور نظریات پر مبنی نظام میں ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر سکیں۔
مگر بدقسمتی سے قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کے آنکھیں بند کرتے ہی پرانے اور نئے استحصالی طبقوں نے وہ دھماچوکڑی مچائی کہ اللہ کی پناہ۔ انہی بوسیدہ اور انگریز کے بنائے ہوئے استحصالی سٹرکچرز اور سسٹمز کو نہ صرف دوام مل گیا بلکہ قومی تعصبات اور لسانی جھگڑوں کا آغاز کروا کر پوری قوم کو نئے استحصالی طبقوں کی گرفت میں باندھ دیا گیا۔ بہت سی حکومتیں تبدیل ہوئیں بہت سی نام نہاد اصلاحات لائی گئیں‘ کبھی پارلیمانی اور کبھی صدارتی اور کبھی فوجی نظام کے تجربات ہوئے مگر قوم اسی چوراہے پر دست بستہ کھڑی حیران و پریشان ہے۔ وہی غلامی والے چال چلن وہی سرکاری افسروں کے ٹھاٹھ باٹھ۔ وہی بوسیدہ عدالتی نظام جس میں کئی سال انصاف معدوم اور انتہائی مہنگا جو عوام کی مالی طاقت سے کوسوں اوپر۔
جائیں تو جائیں کہاں؟
ہر سیاسی پارٹی وعدے اور سہانے خواب دکھا کر الیکشن میں اترتی ہے لیکن چونکہ یہ تمام سیاسی پارٹیاں صرف ایک طبقے یعنی مالدار زمیندار، صنعتکار اور سیاسی و ڈیرے اور سردار گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کوئی معنی خیز یا حقیقی تبدیلی لانے والا پروگرام نہ بنتا ہے اور نہ اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ بس یرغمال ووٹرز کو بیوقوف بنایا جاتا ہے خواب دکھائے جاتے ہیں اور کچھ پیسہ بھی استعمال ہوتا ہے ووٹوں کی خرید و فروخت میں۔ ان حالات میں کوئی سیاسی پارٹی چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے پہلے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں لینڈ ریفارمز کا ارادہ رکھنے اور انہیں اسمبلی سے پاس کرانے کے باوجود ان پر عمل درآمد صرف سطحی ہی کر اسکی۔ اس ملک میں مقتدر اور موثر مافیاز کوئی ریفارم یا کوئی ایسا قدم جو ان کے مفادات کے خلاف ہو اس کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتے۔ جو طبقات با اختیار ہیں وہ کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتے اور جو تبدیلی چاہتے ہیں ان کے پاس اختیار نہیں۔ یہ ایک جمود یا status quo کا سماں ہے۔ بغیر بڑی اور موثر تبدیلی کے یہ ملک نہ تو اقتصادی لحاظ سے اور نہ معاشرتی لحاظ سے ترقی کر سکتا ہے۔ اور نہ اس میں حقیقی جمہوری روایات جنم لے سکتی ہیں۔
آج کے اس کالم میں بغیر تفصیل میں جائے ان موضوعات کا صرف ذکر ہو گا جن میں موثر تبدیلی ضروری ہے اور جس تبدیلی کے بغیر ہمارا ملک اور عوام کنویں کے بیل کی طرح رات دن چکر تو کاٹ سکتے ہیں مگر اس معتوب جمود اور بدحالی کے گردش سے باہر جانا ممکن نہیں۔
ا۔ سب سے پہلے انگریز کے دئیے ہوئے استحصالی اور بالکل غیر موثر ملکی اندرونی سٹرکچر سے آگے ایک سمارٹ اور موثر کارکردگی والے نظام کا قیام لازمی ہے جس میں چھوٹے مگر سمارٹ گورنینس والے صوبے ہوں جہاں حاکم عوام کی حکمران کے بجائے عوام کی خادم ہو۔ یعنی گورننس کو عوام کی دہلیز پر لے کر آنا ہے۔
ب۔ حکمرانوں اور نوکرشاہی کے عوام کی طرف رویہ میں ایک موثر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکمران اور نوکر شاہی کا نظام لوگوں کے مسائل کا حل تلاش کرے چہ جائیکہ وہ ان کے لئے خود ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے۔
پ۔ موثر اور انصاف پر مبنی زرعی اور صنعتی اصلاحات کا نفاذ بہت ضروری ہے جس میں کاشتکاروں چھوٹے زمینداروں اور صنعتی حصہ داروں اور مزدوروں کو ان کے جائز حقوق اور منافع میں حصہ دار بنایا جائے۔
ت۔ سرکاری مشینری اور پولیس کے سٹرکچر کو لوکل گورنمنٹ کے سٹرکچر کے ہم آہنگ کرنا اور اس کو لوکل گورنمنٹ سسٹم کے مختلف لیول کے آگے جوابدہ بنانا ضروری ہے۔
ٹ۔ لوکل گورنمنٹ کا سسٹم Bottom-Up یا جمہوریت کو نیچے سے اوپر کی طرف استوار کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ لوکل گورنمنٹ کی نچلی ترین سطح گاؤں کی حکومت ہے۔جس کو village council یا کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے اور اسی سطح پر لوگوں کے بنیادی اور چھوٹے موٹے مسائل حل ہونے چاہئیں علاقے کا پولیس افسر یا تھانیدار ہر مہینے اس کونسل کو اپنی کارکردگی جو کہ اس کونسل سے متعلق ہو کی رپورٹ پیش کرے۔ اوراسی کونسل میں گاؤں کی پنچایت چھوٹے جھگڑوں اور disputes کا حل کر سکے اور یہ حل ملکی قانون کے مطابق ہو جس میں انسانی حقوق اور قانونی تحفظ شامل ہو۔
ث۔ چھوٹے صوبے بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بہت ساری غیر موثر tiers یا حکومتی لیول درمیان سے ختم کر کے نہ صرف اخراجات بچائے جائیں بلکہ اختیارات کو نیچے منتقل کیا جائے۔ مثلاً جب لوکل گورنمنٹ کا سسٹم آئے تو اختیارات ان کو دئے جائیں اور حکومتی نظام کو اس سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ضلع کا سائیز size چھوٹا کر کے تحصیل کا لیول ختم کیا جا سکتا ہے۔ ضلع اپنے نیچے یونین کونسل کے نظام کو کنٹرول کرے۔ چونکہ ضلع کا رقبہ اب والے اضلاع سے تقریبا تیسرا حصہ ہو گا اس لئے ضلع کے لئے بیس سے تیس یا اس سے بھی زیادہ یونین کونسل کے نظام کو چلانا مشکل نہیں۔ ضلعی حکومتوں کے سسٹم کو مزید بہتر اور سمارٹ بنایا جا سکتا ہے جس کی تفصیل مزید وضع کی جا سکتی ہے۔
ج۔ سیاسی اصلاحات جس میں سیاسی پارٹیوں میں اصلاحات بہت ہی اہم ہیں۔ سیاسی پارٹی کو کسی خاص گروپ یا خاندان کا آلہئ کار ہونا یا بنانا جمہوریت کی بدترین نفی ہے یا دوسرے لفظوں میں جمہوریت کا رد یا anti-thesis ہے۔ جمہوری سیاسی پارٹی کے لئے رجسٹریشن کے علاوہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں پارٹی کے اندر فری اینڈ فئیر الیکشن لازمی ہوں اور یہ ملک میں ہر جنرل الیکشن یا عام انتخابات سے ایک سال پہلے کرانا لازم ہواور جو پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائے اس پر عام انتخابات میں حصہ لینے پر مکمل پابندی ہو۔ ہر سیاسی پارٹی کا ایک مطبوعہ سٹرکچر یا تنظیم ہو منشور ہو اور ہر پارٹی ملکی آئین اور سلامتی کے تحفظ کا عہدکرے تب الیکشن کمیشن اس پارٹی کو رجسٹر کرے۔ ہر الیکشن میں ہر پارٹی کو عام الیکشن میں سارے ڈالے گئے ووٹوں کا کم سے کم تین فیصد ووٹ لینا لازم ہو ورنہ پارٹی کی رجسٹریشن ختم تصور ہونی چاہئے۔ اسی طرح ملک میں این جی اوز پر بھی رجسٹریشن کی پابندی ہو۔ انہی شرائط کے ساتھ جو سیاسی پارٹیوں پر لاگو ہیں سوائے تین فیصد ووٹ لینے کی پابندی کے۔ اور وزارت داخلہ این جی اوز کی موثر نگرانی کے لئے اپنا سسٹم وضع کرے تاکہ باہر سے فنڈ لینے والی این جی اوز پر مکمل نگرانی ہو سکے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

2022ء عام انتخابات کا سال ہے؟

سید سجاد حسین بخاری
موجودہ اسمبلی کی مدت حساب کتاب کے مطابق12اکتوبر2023ء کو نئے الیکشن ہوں گے اورخدانخواستہ اگر کوئی ایسی پیشرفت ہوگئیتو نگران حکومت مزید وقت بھی لے سکتی ہے مگر ملک بھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ موجودہ حکومت عام انتخابات نومبر 2022ء میں کرانا چاہتی ہے جس کیلئے انہوں نے اپنا ہوم ورک بھی شروع کردیا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن نے 26جولائی 2018ء کو ہی اپنی شکست کے بعد عمران خان کی فتح کو جعلی قرار دے کر دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا تھا۔ سب سے پہلے مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے خلاف آواز بلند کی پھر بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہوگئی، پھر موجودہ اپوزیشن نے پی ڈی ایم کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی بنادیا اور اس پلیٹ فارم پر اپوزیشن کو ضمنی انتخابات میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ جب بلاول بھٹو کو مسلم لیگ (ن) نے شوکاز دیا تو وہ الگ ہوگئے اور پھر پی ڈی ایم زوال پذیر ہوناشروع ہوگئی۔ پی ڈی ایم کی تشکیل اور کامیابیوں پر ایک نظر ڈالیں تو مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے اور وہ بھی مریم نواز کو کیونکہ شہبازشریف کو مزاحمتی سیاست میں آگے نہیں آنے دیا گیا لہٰذا مریم نواز نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے خوب فائدہ اُٹھایا اور یہاں تک کہ انہوں نے اپنی لیڈرشپ کو تسلیم کرانے کے علاوہ اپنے والد میاں نوازشریف کے ووٹ بینک کو بھی سنبھال کررکھا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا اور اس وقت پاکستان میں مریم نواز مزاحمتی سیاست کی واحد لیڈر ہیں انہوں نے دل کھول کر اپنے والد کے بیانیے کو آگے بڑھایا ہے حالانکہ پی ڈی ایم کے علاوہ بعض مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں نے بھی محسوس کیا کہ مریم نواز تو بھارتی اور امریکی ایجنڈے پر کام کررہی ہیں جبکہ اسی نقطے پر مسلم لیگ (ن) دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مزاحمت کی سیاست نوازشریف اور مریم نواز جبکہ مفاہمت کیلئے شہبازشریف اور ان کے چند رفقاء کار مگر موجودہ حالات میں ملک کی مقتدر قوتوں نے نوازشریف اور مریم نواز کی سیاست کو پاکستان میں فی الحال ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ شہبازشریف کیلئے کچھ جگہ باقی رکھی ہے۔
اب اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کو بنیاد بناکر ملک میں عام انتخابات ایک سال قبل کرانے کی نہ صرف باتیں ہورہی ہیں بلکہ اب تو مقتدر قوتوں نے 2022ء کو انتخابات کا سال قرار دے دیا ہے۔ عمران خان کی حکومت پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو صرف ایک بات نظر آتی ہے کہ جو وعدے اور دعوے عمران خان نے کئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، معاشی صورتحال ہے کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی، وزرائے خزانہ تین بار تبدیل ہوئے، متعدد وفاقی سیکرٹریز اور وزراء کے قلمدان بھی تبدیل ہوئے مگر معیشت کی صورتحال بہتر نہ ہوسکی، نہ ڈالر، نہ مہنگائی قابو میں آئی، نہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، نہ ملازمتیں، نہ گھر بنائے گئے، بجلی، گیس ندارد، پٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں ہر 15دن بعد اضافہ، گندم کی فصل ریکارڈ پیدا ہونے کے باوجود بیرون ملک سے گندم اور چینی منگوائی جارہی ہے، آٹا ابھی سے مہنگا ہونا شروع ہوگیا ہے حالانکہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔
معیشت کی بہتری کیلئے عمران خان اور ان کی ٹیم نے بے تحاشا زور لگایا مگر معیشت ٹھیک نہ ہوسکی۔ متعدد مرتبہ عمران خان نے خود ہی مایوسی کا اظہار کیا اور برباد معیشت کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ڈال دی مگر ایک کام عمران خان نے اچھا کیا کہ اعدادوشمار میں ہیرا پھیری نہیں کی، صحیح صورتحال سے قوم کو آگاہ رکھا اور قرض وقت پر اُتارنے شروع کئے۔ اس کا فائدہ اتنا ہوا کہ معیشت اصل حالت میں سنبھلتی رہی اور بالآخر معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی تو ہوگئی مگر عام پاکستانی کو اس کا فائدہ نہ ہوا حالانکہ عمران حکومت کیلئے یہ بہت ہی آسان نسخہ تھا کہ وہ بھی شریف برادران کی طرح قرضے لیکر عارضی طور پر ڈالر، تیل اور اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں استحکام رکھتے مگر عمران حکومت نے ایسا نہ کیا۔ اس وقت بظاہر معیشت اگرچہ مضبوط اور مستحکم ہے مگر غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ مردہ ادارے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کو نکال دیا گیا، ایک بھی نئی ملازمت نہ ملی۔ معیشت کے علاوہ سیاسی طور پر بھی عمران خان کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر وزیراعظم کی کُرسی پر انہیں بٹھا دیا گیا ہے جن اصلاحات کا عمران خان نے وعدہ کیا تھا اس کیلئے قانون سازی ضروری ہے مگر عمران خان کی حکومت اسمبلی میں نئی قانون سازی نہیں کرسکتی کیونکہ ان کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ اسی طرح کسی بھی قانون میں ترمیم لانے کیلئے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے پاس قطعاً نہیں ہے لہٰذا عمران خان نہ اپنے وعدے پورے کرسکتے ہیں، نہ معیشت بہتر کرسکتے ہیں اور نہ ہی ملک میں نئے صوبے خصوصاً جنوبی پنجاب بناسکتے ہیں، وجہ صرف اسمبلیوں میں واضح اکثریت کا نہ ہونا ہے اور 3سال تک عمران خان نے بہت کوشش کی کہ اپوزیشن کے ممبران کو توڑ کر اپنے ساتھ ملایا جائے وہ بھی نہ ہوسکا اور گزشتہ 3سالوں میں سب سے بڑا دھچکا سینٹ کے انتخابات میں لگا کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے ہونے کے باوجود گیلانی کامیاب ہوگئے۔
گیلانی کی قومی اسمبلی میں کامیابی وزیراعظم پر عدم اعتماد تھا جس کا تقاضا تھا کہ وزیراعظم اسی وقت مستعفی ہوجائیں۔ واقفان حال نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمران خان نے مقتدر قوتوں کو یہ پیشکش کردی تھی مگر انہوں نے وزیراعظم کو منع کیا اور چیئرمین سینٹ کی کامیابی کی گارنٹی دی تب جاکر وزیراعظم نے اگلے دن اعتماد کا ووٹ لیا مگر اس وقت ملکی صورتحال سے زیادہ بین الاقوامی صورتحال بڑی تشویشناک ہے۔ حکومت اسمبلیوں سے چند ایک آئینی ترامیم کروانا چاہتی ہے مگر دوتہائی اکثریت نہیں ہے۔ کچھ نئے قوانین بنانا چاہتی ہے پھر بھی مشکلات ہیں۔ خطے کی تازہ ترین صورتحال کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت ہو جس کے پاس دوتہائی اکثریت ہونی چاہیے تاکہ وہ عالمی قوتوں کے مقابلے کیلئے بروقت اور ٹھوس فیصلے کرسکے لہٰذا ان حالات وواقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے مقتدر قوتوں اور عمران خان نے مقررہ مدت سے ایک سال قبل عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ 2022ء کی آخری سہ ماہی میں متوقع تو ہے مگر اصل گنتی خدا کی ہوتی ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کا دورہ پاکستان ختم کرنا دہرا معیار ہے، عثمان خواجہ

لاہور: عثمان خواجہ نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کا دورہ ختم کرنے کو دہرا معیار قرار دیدیا۔

آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر عثمان خواجہ نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان کے دورے ختم کرنے کے فیصلے کو دہرا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے مقابلے میں بھارت میں حالات جیسے بھی ہوں مگر بھارت میں کرکٹ کھیلنے کو سب تیار ہوتے ہیں، اگر بھارت میں یہ صورتحال ہوتی تو پھر کوئی بھی ایسا نہ کرتا، اس کا مطلب تو یہ ہوا ہے کہ پیسہ بولتا ہے اور میرے خیال میں یہ ہی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

بائیں ہاتھ کے اوپنر نے پاکستان میں کرکٹ سیریز کھیلنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے محفوظ جگہ ہے، وہاں سکیورٹی کے سخت اور مثالی انتظامات کیے جاتے ہیں، میں نے سب سے یہ سنا ہے کہ لوگ وہاں محفوظ ہیں، میرے نزدیک پاکستان کے ٹورز کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔

سعودی عرب کا قومی دن: پاکستانی طبلہ پلیئرز رائن اور ازیک زار نے سعودی قومی ترانہ ریلیز کر دیا

سعودی عرب کے قومی دن پر پاکستانی طبلہ پلیئرز رائن اور ازیک زار نے سعودی قومی ترانہ ریلیز کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستانی طبلہ پلیئرز رائن اور ازیک زار نے سعودی قومی ترانہ سعودی عرب کے قومی دن پر ریلیز کر دیا ہے۔

ذرائع نے کہا کہ قومی ترانے میں استاد رستم فتح علی اور شاہمیر رستم فتح علی خان بھی شامل ہیں۔ ترانے کا میوزک بھی استاد رستم فتح علی خان نے ترتیب دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ترانے کی ویڈیو ڈائریکٹر عصمہ ضیا ہیں۔

زار برادرز کا کہنا ہے کہ ہم نے قومی ترانہ گا کر کنگ عبد العزیز اور سعودی عوام کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

والد ڈاکٹر زار کا کہنا ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ مکہ مکرمہ کے اندر جا کر نوافل ادا کریں۔

ذرائع کے مطابق رائن اور ازیک نے آج اسلام آباد میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات بھی کی ہے جس میں نواف بن سعید المالکی نے زار برادرز کا سعودی قومی ترانہ گانے کی تعریف کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی طاہر اشرفی اور طبلہ پلیئرز کے والد ڈاکٹر زار بھی شریک تھے۔

زار برادرز نے اس موقعے پر کہا کہ سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر سعودی ترانہ ہماری طرف سے تحفہ ہے۔

زار برادرز کا مزید کہنا تھا کہ ہم سعودی قومی ترانے کی ویڈیو کو سعودی عوام اور کنگ عبد العزیز کے نام کرتے ہیں۔

جہاں چین کی سرمایہ کاری ہوگی اسے سی پیک والی سکیورٹی دیں گے: اسد عمر

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی وترقی اسد عمر کا کہنا ہےکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ ہمارے مشرق میں ہمسائے کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے، چین کے ساتھ دوستی سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ کئی چیلنجز کے باوجود پاکستان اور چین کی قیادت نے سی پیک کو جاری رکھا ہوا ہے،پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی ہے، پہلے ہم نے خارجہ پالیسی میں وہ فیصلے کیے جس کی بھاری قیمت ادا کی، ہم دوسروں کی جنگ یا سرد جنگ میں حصہ دار بنے رہے۔

یہ بھی پڑھیں
اسدعمر کی سی پیک پر کام کی بندش کی تردید
چینی کمپنیاں سی پیک پر کام کی رفتار سے مطمئن نہیں: معاون خصوصی سی پیک
پاکستان براہ راست افغانستان کے کسی مسئلے میں ملوث نہیں: شیخ رشید
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سی پیک منصوبوں کیلئے87 ارب روپے رکھے ہیں، اسد عمر
اسد عمرکا کہنا تھاکہ سی پیک منصوبوں کے لیے چینی ورکرز گزشتہ سال ہی واپس آگئے تھے ، پاکستان اور چین کی قیادت سی پیک کےلیے پرعزم ہے ،سی پیک کے آئی ٹی کا جوائنٹ ورکنگ گروپ بنانےکا فیصلہ کیا ہے، سی پیک کے پہلے مرحلےکی تکمیل دونوں ملکوں کے بڑھتے تعاون کی مظہر ہے ، سی پیک کے جنوبی زون سے پاکستان میں کثیر غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی ۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ داسو کا منصوبہ سی پیک کا منصوبہ نہیں ہے، داسو اس سکیورٹی حصار کا حصہ نہیں جس میں سی پیک منصوبے آتے ہیں، چین کو سکیورٹی معاملات پر تحفظات ہیں، مگرکام شروع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے بجلی منصوبوں کو خصوصی طریقوں سے ڈیل کیا جائےگا، چین نےکہا ہے کہ مستقبل میں کوئلے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے، کوئلے سے بجلی پیدا کرنےکے پہلے کے منصوبے جاری رہیں گے،پاکستان میں آدھی سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری چین سے آتی ہے، چین کی سرمایہ کاری جہاں آرہی ہے اس پر سی پیک والی سکیورٹی دی جائے گی۔

وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ کورونا پر قابو پانے کے لیے چین کی حکومت نے پاکستان سے پھر پور تعاون کیا، چین کی مدد کرنے پر ان کے شکر گزار ہیں،زراعت کے شعبے میں بھی چین پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے ، کورونا کے باوجود کوشش کی گئی سی پیک منصوبوں پر کام جاری رہے۔

امریکی فو ج کی واپسی اور جوبائیڈن

روہیل اکبر
افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے حوالہ سے صدر جو بائیڈن پربہت تنقید کی جارہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو بائیڈن نے افغانستان سے افواج کے انخلا کا انتہائی سمجھداری سے فیصلہ کیا طالبان کے جیتنے اور امریکا کے بالآخر 20سال بعد شکست کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال د ئیے پاکستان مخالف افواہ ساز فیکٹریاں اس ساری صورتحال کے پیچھے پاکستان کو پیش کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہی ہیں فرض کریں اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان امریکا اور یورپی ممالک سے زیادہ طاقتور ہے اور اتنا طاقتور ہے کہ اس نے 60 سے 65ہزار معمولی اسلحے سے لیس ملیشیا کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ بہترین اسلحہ سے لیس فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہی ایسا ہر گز نہیں یہ صرف پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ہے جو سب سے پہلے افغان حکومت نے کرنا شروع کیاتھا تاکہ وہ اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان کو مناسب حکومت کی فراہمی میں ناکامی کو چھپا سکیں، اسے ایک کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتا تھا جس کا وہاں کے عوام احترام نہیں کرتے تھے اور دوسرا بھارت ہے جس نے اشرف غنی حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اس پراپیگنڈے کی کوئی منطق نہیں ہے۔
امریکا کے خلاف طالبان کی مدد کا الزام درست مانا جائے تو مطلب‘ پاکستان امریکا سے زیادہ طاقتور ہے جب کہ پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کا پروپیگنڈا افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت نے کیا، اشرف غنی حکومت نے اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو بھارت نے اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کے لیے اسپانسر کیا۔ایک اور مثال پیش کرتا ہوں اس وقت پاکستان کے 22کروڑ عوام کے لیے کل بجٹ 50ارب ڈالر ہے اوریہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے منہ کا نوالہ شدت پسندی کو فراہم کریں جو امریکا پر حاوی ہو وہ بھی ایک ایسی جنگ میں جہاں امریکا نے 20سالوں میں 2کھرب ڈالر جھونک دئیے۔اس وقت امریکہ کا کہناہے کہ آخر تین لاکھ افغان فوج نے طالبان سے لڑائی کیوں نہیں کی کیا پاکستان نے ان سے کہا کہ وہ جنگ نہ لڑیں۔ آخر دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار کیوں ڈال دئیے۔ رہ گئی بات طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی پاکستان چونکہ عالمی برادری کا حصہ ہے اور ہم اس وقت افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اس لیے طالبان کی حکومت کو جامع ہونا چاہیے کیونکہ افغانستان میں بہت زیادہ تنوع ہے۔
طالبان ایک پشتون تحریک ہے اور پشتون افغانستان کی نصف آبادی ہیں پھر وہاں تاجک بھی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں لہٰذا افغانستان کے مفاد اور دیرپا امن کے قیام کے لیے ہم محسوس کرتے ہیں وہاں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحدرکھ سکے طالبان ایک مشکل دور سے گزرے ہیں اور انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا ہے۔ انہیں اس میں بہت جانی نقصان بھی ہوا لہذا اس جنگ میں جنہوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں انہیں حکومت میں مرکزی حصہ ملے البتہ طالبان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک باقی اقلیتی گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع نہیں کیا جاتا اس وقت تک حکومت غیرمستحکم رہے گی۔ ایک اور اہم بات کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو چالیس سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک متاثر ہوں گے۔ پاکستان کے نقطہئ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے ہی تین دہشتگرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے ہیں۔
امریکا کابھی افغانستان میں بہت بڑا کردار ہے کیونکہ وہ وہاں 20 سال رہا۔ امریکا کی افغانستان پر حملہ کرنے کی واحد وجہ مبینہ طورپردہشت گردی تھی۔ اگر افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردوں کی جائے پناہ بن جائے تو پھر آخر آپ نے کیا کامیابی حاصل کی؟ افغانستان میں شکست کے بارے میں امریکی سینیٹرز کے پاکستان مخالف بیان پربھی شدیدحیرت ہوئی ہے کیونکہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے اس جنگ میں امریکا کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہمیں اس جنگ میں اتحادی بننے کا کہا گیا حالانکہ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ اس میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا۔ ہماری اس جنگ میں شمولیت کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے امریکا کو پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔
طالبان اب ایک حقیقت ہیں اور دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ انہیں ایک مستحکم ملک کے قیام کی ترغیب دیں اگر دنیا نے افغانستان پر پابندیاں لگائیں تو افغانستان ٹوٹ جائے گااور پھر دہشت گردی پوری دنیا میں پھیل جائیگی۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نیا ”آزاد“ کشمیر

اسرار ایوب
شاید آپ کے ذہن میں کبھی یہ بات نہ آئی ہولیکن دنیا میں غالباً ایک ہی حکومت ایسی ہے جو اپنے نام کے ساتھ ”آزاد“لکھتی ہے اور وہ ہے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر،شاید اسی لیے یہ مادر پدر آزاد ہے اور اسے پوچھنے والاکوئی نہیں۔ہو سکتا ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ”آزاد“ حکومت کے عہدیداران اور افسران اپنی تنخواہ و مراعات کے تعین کے لئے پاکستان کے جس صوبے سے برابری کرتے ہیں وہ پنجاب ہے جس کی آبادی 11کروڑ اور بجٹ 2کھرب 653ارب ہے جبکہ آزاد کشمیر کی آبادی صرف40لاکھ اور بجٹ فقط 121ارب روپئے ہے۔ لیکن اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ برابری”ظاہری“ ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ انتظامی ڈھانچے کے اعتبار سے آزادکشمیرپنجاب سے بھی آگے نکل چکا ہے، مثلاً پنجاب کے 9ڈویژن ہیں جنہیں صوبے کی کل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو فی ڈویژن آبادی کا تناست 1کروڑ 22لاکھ بنتا ہے جبکہ آزادکشمیر کے 3ڈویژن ہیں یعنی یہاں فی ڈویژن آبادی کی شرح13لاکھ بنتی ہے۔ پنجاب کے 36اضلاع ہیں جبکہ آزادکشمیر کے 10ہیں یعنی پنجاب کی فی ضلع اوسط آبادی 30لاکھ 55ہزار اور آزادکشمیر کی 4لاکھ ہے۔ سیدھے لفظوں میں یوں کہیے کہ ایک طرف 11کروڑ کی آبادی پر 9کمشنر اور 36ڈپٹی کمشنر جبکہ دوسری جانب40لاکھ لوگوں پر 3کمشنر اور 10ڈپٹی کمشنر ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ نئے پاکستان کے بعد اب نیا آزادکشمیر بھی بننا شروع ہو گیا ہے چناچہ پاکستان تحریکِ انصاف نے آزادکشمیر کی حکومت سنبھالتے ہی آزادکشمیر کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری صاحبان کی تعداد 2سے بڑھا کر 4کر دی جبکہ پنجاب میں یہ تعداد 3ہے۔جو2 نئے ”اے سی ایس“ بنائے گئے اُن کے پاس فقط ایک ایک محکمہ ہے(جس کا سربراہ دراصل ایک سیکریٹری ہوتا ہے)، اس اقدام کی مثال پنجاب تو کیا کسی بھی صوبے میں نہیں ملتی،اگر یہی ہے”نیا آزاد“کشمیر تو ”نئے“ آزادکشمیرکے قیام پر عمران خان اور اُن کی پوری ٹیم کو بہت بہت مبارکباد۔
پنجاب کے ساتھ فی الواقعہ برابری کی جائے توآپ خود ہی فرمائیے کہ آزادکشمیرکی آبادی کیا ڈیڑھ ضلع کے برابر بھی بنتی ہے؟ ڈیڑھ نہ سہی تین اضلاع رکھ لو، اور تھا بھی یہی کہ آزادکشمیرکے تین ڈویژن (مظفرآباد، میرپور اور پونچھ) دراصل تین اضلاع ہوا کرتے تھے۔بظاہر ”اوور سمارٹ“ عوام سمجھتے ہیں کہ ان3 اضلاع کو 3 ڈویژنوں میں تبدیل کر کے10اضلاع میں اس کے فائدے کے لئے تقسیم کیا گیالیکن سچ تو یہی ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ نئی نئی آسامیاں تخلیق کر کے نئے نئے گریڈ لئے جائیں ورنہ میری عمر کے لوگ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب آزادکشمیر کے تین ڈویژن نہیں بلکہ تین اضلاع ہوا کرتے تھے تو حکومت کی کارگزاری آج سے کہیں بہتر ہوا کرتی تھی۔
مشہور تو یہ ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی بہت تیز ہے لیکن آزادکشمیر کے افسران نے parity with punjab کی اصول کو اس ہوشیاری سے استعمال کیا ہے کہ پنجاب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، لگتا ہے کہ اب پنجاب کے افسران کو ”پیریٹی وِد آزادکشمیر“ کی حکمتِ عملی اختیار کرنی پڑے گی۔
ایک مثال اوردیکھئے کہ آزادکشمیر کا چیف سیکریٹری گریڈ21کا ”سی ایس پی“آفیسر ہوتا ہے لیکن اس کے ماتحت کام کرنے والے آزادکشمیر کے اپنے بیوروکریٹس میں سے پانچ کا گریڈ22ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس بھی گریڈ21کا سی ایس پی آفیسر ہے لیکن اس کے ماتحت کام کرنے والے آزادکشمیر پولیس کے ایک افسر کو بھی حکومتِ آزادکشمیر نے گریڈ 22دے رکھا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادکشمیر کے بجٹ میں ان افسران کے لئے گریڈ 22کی کوئی منظور شدہ آسامی سرے سے ہے ہی نہیں چناچہ ان کے ماورائے بجٹ گریڈ کو ”پرسنل گریڈ“کا نام دے کر منظور کر لیا گیا۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات بھی حکومتِ پاکستان کا افسر ہے جس کا گریڈ20 ہے جبکہ ماتحت سیکریٹری صاحبان میں سے کئی گریڈ21 کے ہیں۔ اس سب کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر خان کو جاتا ہے جن سے توقع تو یہ تھی کہ آزادکشمیر کے بہترین وزیرِ اعظم ثابت ہوں گے لیکن وہ بدترین ثابت ہوئے۔
ایک نمونہ اور ملاحظہ فرمائیے۔ ن لیگ کی حکومت جو حال ہی میں فارغ ہوئی جاتے جاتے اسمبلی ممبران کی پنشن میں بھی جی بھر کر اضافہ کر گئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسمبلی ممبران کو پنشن ملتی کہاں ہے جو اس میں اضافہ کیا گیا؟کہیں اور ملتی ہے یا نہیں لیکن ”آزاد“حکومت میں ضرور ملتی ہے۔یہ نومبر 2005کی بات ہے جب ”آزاد“حکومت کی کابینہ نے اسمبلی ممبران کے حق میں پنشن کی منظوری کا بل قانون ساز اسمبلی میں پیش کیے جانے سے”اصولی“ اتفاق کیا، اس سے ایک ہی مہینہ پہلے(اکتوبر 2005میں) آزاد کشمیراپنی تاریخ کے بدترین زلزلے کی شدید ترین لپیٹ میں آیا،یعنی کابینہ نے جب یہ بل منظور کیا ابھی سارے کے سارے زلزلہ زدگان کی لاشیں بھی ملبے سے نہیں نکالی جا سکی تھیں۔جنوری 2006میں اس بل کو حکومت اور اپوزیشن نے مشترکہ طور پر پاس کیا جب زلزلے کے ہزاروں متاثرین روکھی سوکھی روٹی اور پھٹے پرانے گرم کپڑوں کو بھی ترس رہی تھے۔جون 2008میں اس بل کو منسوخ کر کے ازسرِنو پاس کیا گیا تاکہ اسے مزید ”سازگار“ بنایا جا سکے۔ اس بل کو پاس کرنے کے جواز میں دنیا کی جس اسمبلی کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا وہ مقبوضہ کشمیر کی ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اسمبلی ایسی تھی ہی نہیں جس کے ممبران پنشن لیتے ہوں۔
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی اس اسمبلی کو آزادکشمیر کے اسمبلی ممبران کٹھ پتلی کہہ کر پکارتے ہیں؟یہی نہیں بلکہ ”غلام“کشمیر کی”کٹھ پتلی“ اسمبلی کو بنیاد بنا کر ”آزاد“کشمیر کی”خود مختار“ اسمبلی نے اپنے حق میں پنشن کا جو قانون منظور کیا اسے جنوری 2003سے نافذالعمل قرار دیا گیاتاکہ ممبران کو پچھلے برسوں کی پنشن بھی ملے،اسے کہتے ہیں مارنے کے ساتھ ساتھ بے عزت بھی کرنا۔کیا اسی لئے ”آزاد“ کشمیر کو تحریکِ آزادیء کشمیر کا بیس کیمپ قرار دیا جاتا ہے؟
سید ضمیر جعفری (مرحوم) نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
شوق سے نورِ نظر لختِ جگر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
حضرتِ اقبال کا شاہین کب کا اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭

اجنبی اپنے دیس میں

عارف بہار
جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق نے تیرہ ستمبر سے یکم اکتوبر تک منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے اڑتالیسویں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں محصور آزادکشمیر کی خواتین کی حالت زار سے متعلق ایک رپورٹ جمع کرائی ہے۔یہ دستاویز ہیومن رائٹس کونسل کے ایجنڈا آئٹم تین کے تحت جمع کی گئی ہے۔یہ شق انسانی حقوق کے فروغ اورتحفظ سے متعلق ہے۔اس رپورٹ میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے ہیومن رائٹس کونسل اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق یہ معاملہ بھارت کے سامنے اٹھائیں۔اس معاملے میں انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس سے مدد لینے کے علاوہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن سے بھی تعاون لیا جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں پھنسی ہوئی خواتین کو پاکستا ن واپس لوٹنے کے لئے عارضی سفری دستاویزات فراہم کی جاسکیں۔جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق لندن میں مقیم معروف کشمیری دانشور،صحافی اور قانون دان ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کی سربراہی میں قائم تنظیم ہے جو تین دہائیوں سے اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھرپور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ میں کئی تاریخی دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں جن میں بھارتی فوج کی کارستانیوں سے دنیا کو باخبر رکھا گیا ہے۔
آزادکشمیر کی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں سے بیاہی جانے والی خواتین مقبوضہ کشمیر میں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان خواتین کے لواحقین آزادکشمیر میں پریشانی اور اضطراب کا شکار ہیں جبکہ یہ خواتین اپنوں سے بچھڑ کر کئی بیماریوں اور سماجی مسائل کا شکار ہو چکی ہیں۔یہ خواتین آئے روز سری نگر کی گلیوں میں اپنے حقوق کے لئے احتجاج کررہی ہیں مگر بھارتی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہ تنازعہ کشمیر سے جڑی ہوئی ایک نئی المناک کہانی اور جہت ہے۔جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق نے اس موقع پر ان مظلوم خواتین اور ان کے مسائل زدہ عزیر واقارب کے دکھ کو سمجھتے ہوئے انسانی حقوق سے متعلق دنیا کے سب سے بڑے فورم پر اٹھایا ہے۔جس سے ایک بار پھر یہ امید بندھ چلی ہے کہ یہ خواتین مسائل کے بھنور سے نکل آئیں گی۔ اس وقت آزادکشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی 350سے 400خواتین مقبوضہ کشمیر میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے قیدی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان خواتین کا شمار Stateless citizensیعنی بے وطن شہریوں میں ہوتا ہے۔المیہ در المیہ یہ کہ یہ خواتین اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو کر رہ گئی ہیں۔یہ خواتین ان عسکری نوجوانوں کی بیویاں ہیں جو آزادی وطن کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے کنٹرو ل لائن عبور کر گئے تھے مگر بہت سی وجوہات کی وجہ سے یہ لوگ عسکریت سے الگ ہو کر معمول کی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔اس دوران بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے ان نوجوانوں کی بحالی کے لئے غالباً کسی فارن ایجنسی کے تعاون سے بحالی کی پالیسی اور پروجیکٹ تشکیل دیا۔جس کے تحت ان افراد کی اہل خانہ سمیت واپسی کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی اور یوں سابق عسکری نوجوان نیپال او ردوسرے راستوں سے مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔
مقبوضہ کشمیر پہنچے تو بھارتی حکومت نے اپنی پالیسی سے یوٹرن لیا اور عمر عبداللہ بے بسی کی تصویر بن گئے۔آزادکشمیر سے جانے والی خواتین کو شہریت دینے سے انکار کیا گیا۔جس کی وجہ سے ان کی پوری زندگی متاثر ہو گئی۔حق شہریت نہ ملنے سے ان سے حقِ سفر اور حق ملازمت اور جائیداد کی خرید کا حق بھی چھن گیا۔یوں یہ خواتین ہوا میں معلق ہو کر رہ گئی ہیں۔مودی نے شہریت ترمیمی ایکٹ لاکر ان خواتین کی زندگی بد سے بدتر کر دی۔اب انہیں غیر قانونی مقیم قرار دے کر کسی بھی وقت گرفتار ہونے کا خوف بھی تنگ کرنے لگا۔ان میں کئی خواتین بیوہ ہوگئیں کئی کو طلاق ہوئی۔کئی ایک خواتین اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں۔آزادکشمیر میں ان کے عزیز واقارب اس دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے مگر یہ اپنوں کو پرسہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہ رہیں کیونکہ سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواتین آزادکشمیر نہیں آسکتی تھیں۔ آزادکشمیر سے جانے والی ایک خاتون کادوبرس پہلے انتقال بھی ہوا۔اس کے گھر والے بیٹی کی موت سے زیادہ اس بات پر ملول تھے کہ وہ دوبارہ اسے دیکھ اور مل نہ سکے۔اس بھی زیادہ دلدوز کہانی یہ ہے کہ ایک خاتون کی دوبیٹیاں سابق عسکری نوجوانوں کے ساتھ بیاہ کر سری نگر چلی گئی تھیں۔یہ بزرگ خاتون جو آزادکشمیر مسلم لیگ ن کے ایک معروف سیاسی کارکن طارق رسول بٹ کی والدہ تھیں سری نگر مظفرآباد بس کے ذریعے بیٹیوں سے ملنے گئیں۔قیام کی مقررہ مدت ختم ہونے کے دن قریب آتے گئے اور ایک روز یہ خاتون بیٹیوں کے ہاتھوں میں دم دے بیٹھیں اور اس کی بیٹے مظفرآباد میں بیٹھ کر ماتم کرتے رہے۔بعد میں ماں کی اس انداز سے موت نے طارق بٹ کو بھی دل کا مریض بنایا اور وہ ہارٹ اٹیک کے باعث یہ عارضی دنیا چھوڑ گیا۔ اس اذیت اور کرب نے خواتین کو بے پناہ سماجی اور نفسیاتی مسائل کا شکار بنا دیا ہے۔
گزشتہ برس ایک خاتون نے اپنی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں کی زندگی نہ ختم ہونے والی سزا ہے۔اس خاتون نے کہا کہ اگر ہم ناپسندیدہ اور غیر قانونی ہیں تو ہمیں واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔ان خواتین نے سری نگر ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے مگر بھارتی عدالتوں کا حال یہ ہے کہ مودی کا موڈ دیکھ کر فیصلے سناتی ہیں۔پانچ اگست کو کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد اس کیس کی نوعیت ہی بدل گئی۔اب یہ خواتین سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر اپنا دعوی آگے بڑھا ہی نہیں سکتیں۔اس طرح معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔چندبر س قبل ایک ایسے ہی فرد نے اپنے بیوی بچوں کے لئے حق سفر مانگ مانگ کر تھک جانے کے بعد چوک میں خودسوزی کی تھی۔ایسے میں جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ سید نذیر گیلانی نے دنیا کے ایک بڑے فورم پر اس مسئلے کو انسانی بنیاد پر اٹھا یا ہے۔اس کام کو اب ایک منظم مہم کے طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔وزارت خارجہ کو بھی اس کام میں سید نذیر گیلانی کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے اپنی شہری خواتین کو اس عذاب سے نجات دلانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

23 ستمبرسعودی عرب کا قومی دن

پروفیسر ساجد میر
ستمبر 1932 کو سعودی عرب کی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ جب سلطان عبدالعزیز ابن سعود نے نجدو حجاز کے تمام علاقوں پر فتح و نصرت کا پرچم لہرایا اور عرب کے اس خطے کا نام ”المملک العربی السعودیہ“ رکھا گیا۔ اس دن سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں اہم تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔ دنیا بھر اور عالم اسلام میں وہ واحد ملک ہے جس میں دین اور سیاست دونوں یکجا ہیں۔ اس بنا پر اس کی سیاست کا تعلق دعوت اسلام سے بھی ہے ملک عبدالعزیز نے جب سعودی عرب کو متحد کیا تو اس کی سیاست کی بنیاد دین پر رکھی۔ پھر تجرباتی اور واقعاتی طور پر سعودی عرب نے دور حاضر میں یہ ثابت کر دیا کہ سیاسی اور معاشرتی میدان میں وہ دین ودعوت کی بنیاد پر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
آل سعود نے شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب کی رہنمائی میں دعوت حق کا پرچم بلند کیا۔ظلمت شب کے پرستاروں نے گرد وپیش سے یلغار کر دی اور چاہا کہ اس ابھرتی ہوئی روشنی کو ہمیشہ کے لیے گل کر دیں۔ مگر اس کی راہ کوئی نہ روک سکا جو راہ میں آیا زوال وفنا سے دو چار ہو کر ہمیشہ کے لیے پردہء گمنامی میں چلا گیا۔یہ روشنی کیا تھی؟ تجدید دین اور احیائے اسلام کی ایک انقلابی دعوت تھی۔ عزیمت واستقامت کی بنیادوں پر دعوت جسے نجد کے ریگزاروں میں پلے ہوئے ایک فولادی عزائم کے مالک انسان محمد بن عبدالوہاب نے برپا کیا تھا جو اس دعوت کے خاکوں میں اپنے خون جگر سے رنگ بھرنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔سعودی حکومت اور امام محمد بن عبدالوہاب کی دعوت کا باہمی رابطہ حقیقت میں اللہ تعالی کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے سعودی حکومت کو اس دور میں یہ اعزاز بخشا کہ حکومت کا قیام اور تجدید دین ایک ساتھ عمل میں آئے۔ یہ اعزاز اللہ تعالی نے اس مقدس سرزمین کو اس وقت بخشا جب مکہ المکرمہ میں خانہ کعبہ کو تعمیر کیا گیا اور جب مدینہ منورہ میں نبی اکرمﷺنے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔
سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں، اس کے باعث بھی ہمارے خراجِ تحسین و عقیدت کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر سعودی عرب کا اکرام یوں بھی لازم ہے کہ پوری دنیا میں مملکتِ خداداد پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔
آج یہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کا قلعہ ہے جس کی مقدس سر زمین پر قبلہ اور حرمین شریفین موجود ہیں، سعودی حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت ملک میں قانون الٰہی کی عملداری اور امن و سکون کا دور دورہ ہے اور اس کے باشندے اپنی مقبول قیادت سے محبت اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے عوام کو اسلامی طرز حیات، جدید علوم وفنون کی خدمات اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کئے ہیں۔اسی طرح خدمت خلق کے لئے بھی نیم سرکاری وغیر سرکاری تنظیم قائم کی جن میں رابطہ عالم اسلامی مسلمانوں کی بین الاقوامی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنا، اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنا اور گمراہ کن عقائد و نظریات کی نفی کرنا ہے۔حکومت نے ہمیشہ اپنی و جاہت علم و اسلام دوستی اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد، ملک میں نفاذ قرآن و سنت اور ایک مستحکم اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔
جب ہم شاہ سلمان کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ہمیں ایک انتہائی تجربہ کار عام روش سے ہٹ کر ایک عبقری شخصیت نظر آتے ہیں۔
شاہ سلمان ذاتی طور پر ایک دین پسند،بلند اخلاق، انصاف پرور، صاحب علم اور علم وعلماء دوست شخص ہیں، مطالعے کے شوقین اور فن تاریخ وادب کے دلدادہ ہیں، علم انساب اورتاریخ سے ان کی ذاتی دلچسپی معروف ہے، اور اسی وجہ سے اقوام عالم پر ان کی گہری نظر ہے، ایک حاکم یا سیاست دان کے لئے علم تاریخ کی کتنی افادیت و ضرورت ہے یہ کسی صاحب علم وبصیرت سے مخفی نہیں۔
اپنی بادشاہت کے پہلے ہی دن انہوں نے جو سب سے پہلا خطاب کیا اس میں یہ بات واضح کردی کہ سعودی عرب اپنے اصل بنیاد سے کسی قیمت پر نہ ہٹے گا، اور نہ ہی اپنے ان اصولوں سے دستبردار ہوگاجن پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔مزید کہا: ہم اللہ رب العزت کی نصرت ومدد کے سہارے اپنے اصول ومنہج پر قائم رہیں گے، اور اس سلطنت کے بانی والد محترم شاہ عبد العزیز کے زمانے سے جو منہج حیات وسیاست چلی آرہی ہے نہ صرف اس کی پاسداری کریں گے بلکہ اس سے کسی صورت رو گردانی نہ کرتے ہوئے کتاب وسنت کے قانون کی بالا دستی قائم رکھیں گے۔
سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے کے لئے نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام جان ومال کا تخفظ و آبرو امن و امان کی شاندار مثال سعودی عرب میں دیکھی جاتی ہے۔
سعودی عرب کے حکمرانوں کی پاکستان سے محبت اور چاہت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ وہ پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔وہ پاکستان کو اپنا بھائی اور دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے ہندوستان کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے توپورا مغرب پاکستان سے ناراض اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ تھا اس نازک اور مشکل وقت میں ساتھ دینے والا ملک سعودی عرب تھا۔ پاکستان کو ڈیفرڈ ادائیگی پر تیل فراہم کرنے والے شاہ عبد اللہ مرحوم ہی تھے جنہوں نے دنیا کی پروا کیے بغیر پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا اور اعلانیہ، بلا ڈر و خوف پاکستان کا ساتھ دیا۔ ڈیفرڈ ادائیگی پر تیل کی فراہمی تقریبا مفت میں تیل کی فراہمی کے برابر تھی۔
شاہ سلمان بن عبد العزیز نے تختِ شاہی پر براجمان ہوتے ہی کہا تھا کہ مملکت کی سیکورٹی،اس کے استحکام سلطنت کو تمام برائیوں سے محفوظ بنانے کے لیے سعودی عوام میری مدد کریں۔ یہ بیان ان کے عزائم اور مستقبل کے رویے کی غمازی کرتا ہے۔ وہ نہ صرف سعودی عرب کو مستحکم بنیادوں پر آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں بلکہ شاہ عبد اللہ کے پیروکار کے طور پر کام کررہے ہیں۔ شاہ سلمان نیک اورصالحِ انسان ہیں۔ ان کے صالح ہونے اورجرات کے اظہار کے لیے یہ کافی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑی قوت امریکہ کے سابق صدر اوباما کو گارڈ آف آنر کی تقریب کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے تقریب سے اٹھ کر چلے جانا، پھر ان کے ہمراہ تقریب میں موجود تمام سعودیوں کا شاہ کے ساتھ اٹھ کر چلے جاناشاہ سلمان کی دین سے گہری وابستگی اور تقویٰ کا مظہر ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے حالیہ دورے میں اقتصادی شعبے میں سعودی پاکستان سٹریٹجک تعلقات میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی تھی جب سعودی عرب نے پاکستان میں 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جس میں سٹریٹجک بندرگاہ شہر گوادر میں 10 ارب ڈالر مالیت کی آرامکو آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بھی شامل تھا۔سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کا یہ امید افزا لمحہ علاقائی جغرافیائی سیاست میں موافق تبدیلی کے درمیان پیش آ رہا ہے۔خاص طور پر اس طرح کی سرمایہ کاری کے لیے گوادر کے انتخاب نے وسیع تر علاقائی نیٹ ورک یعنی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں سعودی دلچسپی کا اشارہ دیا ہے۔بدقسمتی سے مسلم دنیا میں سعودی عرب کی غیر معمولی پوزیشن اور تاریخی سعودی پاکستان اتحاد کی مخالف بین الاقوامی قوتیں اس حقیقت کو ہضم نہیں کر سکیں کہ دونوں برادر ممالک اپنے تعلقات کو ایک مختلف سطح پر لے جا رہے ہیں جہاں مستقبل میں ان کے مفادات جغرافیائی اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہو سکتے ہیں۔
دونوں ممالک افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے بھی قریبی تعاون کرتے ہیں۔ سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ بڑھتا حالیہ ربط و تعاون اسلامی بنیادوں پر قائم انہی برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
(مرکزی امیرجمعیت اہلحدیث ہیں)
٭……٭……٭