All posts by Daily Khabrain

پاکستانی کرکٹ نشانے پر۔۔۔۔

ملک منظور احمد
دنیا پر گزشتہ 300سالوں کے دوران مغربی قوتوں کاغلبہ رہا ہے۔ پہلے برطانیہ نے تقریباً پوری دنیا پر 200سال تک بلا شراکت غیرے حکمرانی کی اور پھر اس کے بعد جنگ عظیم دوئم کے بعد گزشتہ 76سالوں سے امریکہ نے دنیا پر اپنی حکمرانی کا سکہ جمایا،جنگ عظیم دوئم سے پہلے تو مغربی قوتوں نے دنیا میں سر عام دنیا کی کمزور قوموں کو محکوم بنا رکھا تھا اور ان کمزور اور غریب ممالک جن میں بر صغیر پاک و ہند بھی شامل تھا اس کے رہنے والے مغربی ممالک کے غلام کہلاتے تھے۔جنگ عظیم دوئم کے بعد سے یہ سلسلہ تو ختم کر دیا گیا لیکن مغربی ممالک کی حکمرانہ ذہنیت آج بھی بد ل نہیں سکی ہے۔کسی بھی شعبے کے حوالے سے بات کر لی جائے مغربی دنیا بطورمجموعی ترقی پذیر اور غریب ممالک کو اپنی حاکمیت سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہتی ہے اور یہ بات میں ایسے ہی نہیں کر رہا ہوں بلکہ بے شمار مثالیں اس حوالے سے ہمارے پاس موجود ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔امریکہ نے 90ء کی دہائی میں پاکستان سے رقم کی وصولی کے باوجود پاکستان کو ایف 16طیارے دینے سے صاف انکار کر دیا،اور صرف یہ 90کی دہائی کی بات نہیں ہے بلکہ آج بھی امریکہ نے پاکستان سے رقم وصول کرنے کے با وجود پاکستان کے ہیلی کاپٹر روک رکھے ہیں اور فراہم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔
اسی طرح فرانس کی جانب سے فاٹف کے اندر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے معاملہ کی مخالفت ہو یا پھر حال ہی میں انگلینڈ اور نیو زی لینڈ کی جانب سے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کے یکے بعد دیگرے واقعات، پاکستان کی جانب مغرب کے دوہرے معیار کو بار بار واضح کرتے ہیں۔مغرب کی جانب سے بھی ترقی پذیر ممالک اور خصوصا ً پاکستان کے ساتھ دوہرا معیار ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جن مغربی ممالک کو ہم اپنا دوست سمجھتے ہیں یا پھر ان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں وہ اپنا مفاد نکلنے کے بعد ہمارے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں یہ ہمارے لیے سبق ہونا چاہیے۔پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی جنگ کا ساتھ دیا،جس جنگ سے ہمارا براہ راست کوئی تعلق بھی نہیں اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،نتیجہ کیا ہو ا کہ افغان جنگ ہمارے ملک میں آگئی گلی گلی میں خود کش دھماکے ہوئے،80ہزار شہریوں اور 150ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور آج جنگ کے خاتمے کے بعد سپر پاور امریکہ کا صدر ہمارے وزیر اعظم کو ایک فون کا ل کرنے کا روادار بھی نہیں ہے۔یہی رویہ مغربی ممالک کی جانب سے کھیل کے میدان میں بھی ہمارے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔پاکستان میں 2009ء میں سر لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں 6سال تک کرکٹ سمیت کوئی بھی کھیل انٹر نیشنل لیول پر نہیں کھیلا جاسکا لیکن پھر حکومت پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتھک کا وش سے 6برس کے وقفے کے بعد 2015ء میں پاکستان میں زمبابوے کی ٹیم نے دورہ کیا اور پاکستان میں کھیلوں کے دروازے کھلنا شروع ہوئے لیکن اب ایک بار پھر پاکستان میں سیکورٹی صورتحال میں واضح بہتری کے باوجود پاکستان میں بین الا قوامی کھیلوں کا راستہ بند کیا جا رہا ہے اور ایک بار پھر مغربی دنیا اس کھیل میں پیش پیش ہے۔
نیو زی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچی،یہاں پر پانچ دن تک رہنے اور پریکٹس کرنے کے باوجود میچ شروع ہونے سے کچھ لمحے پہلے دورہ کینسل کرکے واپس چلتی بنی،جبکہ اس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم بھی نیو زی لینڈ کی پیروی کرتے ہوئے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔جبکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ آسٹریلیا کا کرکٹ بورڈ بھی دورہ پاکستان کے حوالے سے یہی فیصلہ کرے گا۔نیو زی لینڈ کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ انہیں یہ اطلا عات موصول ہوئیں ہیں کہ پاکستان میں ان کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا جاسکتا ہے اس لیے انہوں نے یہ دورہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیاجبکہ انگلینڈ نے کھلا ڑیوں کے اوپر ذہنی دباؤ آنے کے خطرے کے پیش نظر دورہ پاکستان منسوخ کیا ہے جو کہ سیکورٹی کے بہانے سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا،کینیڈا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل انٹیلی جنس گروپ فا ئیو آئیز (five eyes) کی جانب سے نیوزی لینڈ کو یہ اطلا ع دی گئی کہ نیو زی لینڈ کی ٹیم خطرے میں ہے اور سب جانتے ہیں کہ فائیو آئیز گروپ کا روح رواں امریکہ ہی ہے اس لیے اگر یہ سمجھا جائے کہ امریکہ شاید اب پاکستان سے سقوط افغانستان کا بدلہ لینے پر اتر آیا ہے اور آنے والے دنوں میں ہمیں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف مزید انتقامی کار روائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔وفاقی وزیر اطلا عات اور نشریات فواد چوہدری نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ جب امریکہ کو ابسولیو ٹلی ناٹ (absolutley not) کہیں گے تو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔بہر حال پاکستان کے لیے بطور ملک آنے والے دنوں میں مشکلا ت میں اضافہ ہو تا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔یہاں پر سوال یہ بھی بنتا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کو کیوں تواتر سے نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ کرکٹ کا کھیل پاکستانی قوم کے لیے جذباتی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ قوم کے جذبات اس کھیل سے جڑے ہیں اس لیے نشانہ دراصل کرکٹ کو نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے جذبات کو بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے نو منتخب چیئرمین رمیز راجہ نے مستقبل کے حوالے سے اپنا پلان بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئی سی سی میں ویسٹرن بلاک کے مقابلے میں ایشین بلاک کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ بہتر پلان ہے لیکن کتنا قابل عمل ثابت ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔پاکستان کرکٹ ٹیم برطانیہ اور نیوزی لینڈ کی جانب سے اس ہتک آمیز سلوک کے بعدسخت جواب اسی انداز میں دے سکتی ہے کہ آئندہ ماہ عرب امارات میں شروع ہو نے والے ٹی 20کرکٹ عالمی کپ کو جیت کر دکھائے اور دنیا کو پیغام دے کہ ہمیں کسی صورت تنہا نہیں کیا جاسکتا ہے اور ہمارے ساتھ تعلقات رکھنا ان کے مفاد میں ہے اوربُعدالمشرقین پیدا کرناخود پاکستانی کرکٹ مخالف قوتوں کے لئے گھاٹے اورخسارے کا سودا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

مودی سرکار کی پالیسیاں خطے کےمفاد میں نہیں،معید یوسف

وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا ہے کہ انتہاء پسند مودی سرکار کی پالیسیاں خطے کےمفاد میں نہیں ہیں۔

کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ معاشی استحکام اورملکی سلامتی کا گہرا تعلق ہے، ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر اس

انہوں نے کہا کہ پاک،چین اقتصادی راہداری سے روابط کے فروغ میں مدد ملےگی، پاکستان نے دہشت گردی کےخلاف کامیاب جنگ لڑی ہے جبکہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں خطے کے مفاد میں نہیں ہیں۔

مشیر قومی سلامتی نے مزید کہا کہ ہمیں وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ رابطے کے فروغ کی ضرورت ہے۔

طالبان کا یواین جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کامطالبہ, سابقہ حکومت کے ایلچی اسحق زئی اب ملک کے نمائندہ

افغان عبوری حکومت کے وزیرخارجہ امیرخان متقی کا کہنا ہے کہ انھیں رواں ہفتے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کا موقع دیا جائے۔

افغانستان کے وزیرخارجہ نے درخواست ایک خط کے ذریعے کی ہے جس پر فیصلہ اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کرے گی۔

اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق جنرل اسمبلی اجلاس میں حصہ لینے کی طالبان حکومت کی درخواست پر ایک کمیٹی غور کر رہی ہے جس کے نو ارکان میں امریکہ، چین اور روس شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق اس وقت تک سابق افغان حکومت کے ایلچی غلام اسحق زئی ہی اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمائندگی کریں گے کیونکہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے اختتام سے قبل تک اس کمیٹی کے ارکان کی ملاقات کا امکان نہیں ہے۔

واضح رہے کہ طالبان کے گذشتہ دور اقتدار کے دوران 1996 سے 2001 کے درمیان معذول حکومت کے سفیر ہی اقوام متحدہ میں ملک کے نمائندے کی حیثیت سے برقرار رہے تھے۔

طالبان حکومت نے کل طالبان تحریک کے خارجہ امور کے ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کے لیے افغانستان کا سفیر نامزد کیا ہے، طالبان کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت کے ایلچی اسحق زئی اب ملک کے نمائندہ نہیں ہیں۔

پاک بحریہ قومی و بین الاقوامی سطح پر گالف کو فروغ دے رہی ہے ،کموڈور مسعود خورشید

کموڈور مسعود خورشید نے کہا ہے کہ پاک بحریہ قومی و بین الاقوامی سطح پر گالف کو فروغ دے رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق کموڈور مسعود خورشید نے کمانڈر فرخ نواز سری کے ہمراہ پریس کانفرنس  کرتے ہوئے کہا کہ 14ویں چیف آف نیول سٹاف امئچور گالف چیمپئین شپ 23سے 26 ستمبر مارگلہ گرین گالف کلب میں کھیلی جائیگی۔

کموڈور خورشید مسعود کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ کے شوٹرز نے دوسری مرتبہ اولمپک کھیلوں کے لئے کوالیفائی کیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان گالف فیڈریشن سے ملکر پاک بحریہ چیمپئین شپ کا انعقاد کرے گی ۔

کموڈور خورشید مسعود کا کہنا تھا کہ  چیمپئین شپ میں پورے پاکستان سے 300 سے زائد گالفرز کی شرکت متوقع ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ چیمپئین شپ کی مین کیٹیگری 54ہولز جبکہ خواتین اور سینئیر ایمچور 36 ہولز پر کھیلی جائیگی، جونیئرز امچورز کیٹگریز 18ہولز پر کھیلی جائیگی ۔

اس موقع پر کموڈور خورشید مسعود کا مزید کہنا تھا کہ ہول ان ون کیلیے ایک گاڑی بھی رکھی گئی ہے ۔

سمندر جال خالی لوٹانے لگے

ڈاکٹرناہید بانو
ماہی گیری اور ماہی پروری ابتداء کائنات سے ہی کسی نہ کسی صورت میں انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتی آئی ہے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان نئی سے نئی تکنیک اور ایجادات کرتا گیا۔ سمندر زمین کو زندگی فراہم کرتے ہیں اگر بات کی جائے پانی کی تو یہی پانی نہ صرف پانی کے اندر جانداروں کو زندگی فراہم کرتا ہے بلکہ زمین پر رہنے والے جانداروں کی زندگی بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ زمین پر بڑا حصہ (تین چوتھائی) پانی کا ہے اور کرہ ارض کا 97 فیصد پانی سمندر کی شکل میں موجود ہے جو جانداروں کو 99 فیصد رہائش کی جگہ فراہم کرتا ہے۔ ہمارے کرہ ارض کے قدرتی وسائل کا تحفظ ہی مستقبل کا تحفظ ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں ساحلی پانی آلودگی اور سمندر کی تیزابیت میں اضافے سے مسلسل خراب ہو رہا ہے۔ جو ایکوسسٹم اور بائیو ڈائیورسٹی کی تباہی کا باعث ہیں۔ یہ چھوٹے پیمانے پر ماہی گیری اور ماہی پروری پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
سمندر کا تحفظ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ آبی حیات انسانی صحت اور ہمارے سیارے کے لیے بہت اہم ہے۔ آبی تحفظ کے علاقوں کے درست انتظامات، قواعد و ضوابط، مچھلی کے بے دریغ شکار، آبی آلودگی اور پانی کی تیزابیت کو کم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب سمندر تمام مچھیروں کو خوش واپس لوٹاتے تھے پھر کیا ہوا کہ سمندر نے جال خالی واپس لوٹانا شروع کر دئیے۔ یہ شکایت کیا واقعی سمندر سے کی جائے یا انسان کو خود دیکھنا ہوگا کہ اس نے سمندر کے ساتھ کیا کیا۔ جی ہاں یہ انسان ہی ہے جس نے ترقی کی منازل طے کیں، نئی سے نئی ٹیکنالوجی کو ہر شعبے میں استعمال کیا مگر قدرتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کبھی یہ نہ سوچا کہ دنیا میں صرف انسان ہی نہیں اور بھی بہت سی مخلوق ہے جس سے خود انسان بھی فوائد حاصل کرتا ہے۔ خواہ وہ خوراک کی صورت ہو، لباس یا رہائش کی شکل میں۔ انہی میں سمندری حیات بھی شامل ہیں۔ سمندر یا دوسرے قدرتی پانی سے انسان اپنی خوراک کے لیے مچھلی کا شکار کرتا آیا ہے۔ مچھلی کے شکار کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے آجانے سے شکار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ یہی نہیں شکار کے لیے استعمال ہونے والے جال کے سائز کے بارے میں نہ صرف آگاہی دی گئی بلکہ قوانین بھی بنائے گئے جن کے تحت شکار پر ایک مخصوص سیزن میں پابندی بھی لگائی گئی مگر دریاؤں اور سمندر سے مچھلی کے چوری چھپے شکار میں کافی حد تک کامیابی نظر نہیں آتی اور اس کا ثبوت موجودہ کچھ سالوں سے پکڑی جانے والی مچھلی کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
دنیا میں آبی حیات کی تعداد کی قدرتی آبی ذخائر میں بہت زیادہ کمی سے یہ خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے کہ اگر اس کمی اور بے دریغ شکار پر فوری توجہ نہ دی گئی توہم سمندر سے خوراک حاصل کرنے والے انسان کی آخری پیڑھی ہوگی۔ کچھ سالوں سے مچھلی کی مانگ میں پوری دنیا میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مچھلی کا استعمال فی آدمی تقریباً 40 سے 45 فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ مچھلی کی تعداد (سٹاک) میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1950ء میں جس تعداد سے مچھلی انسانی خوراک میں استعمال ہوتی تھی اب اس میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ تقریباً 85 سے 90 فیصد تک دنیا میں مچھلی کا زیادہ استحصال کیا گیا۔
ایک سروے کے مطابق سمندر سے پکڑے جانے والی کوڈ میں بہت کم اس عمر کی تھیں کہ جو اپنی نسل کو آگے بڑھا سکیں یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ بڑی مچھلی کا بندی کے سیزن میں بھی شکار جاری رہا۔ اس کے علاوہ سمندر کی تہہ سے ٹرالنگ کے ذریعے مچھلی پکڑے جانے سے سمندر صحرا کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اگر افریقہ کو دیکھا جائے تو پچھلے 40 سالوں میں مچھلی کے شکار میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2050ء تک مچھلی کے زخائر میں 40 فیصد تک کمی واقع ہوگی۔ مگر سب سے زیادہ متاثر ایشیاء اور افریقہ کے 400 ملین افراد ہوں گے جن کا روزگار اور خوراک مچھلی کے شکار پر منحصر ہے ان میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف چھوٹے سائز کی مچھلی کو تحفظ فراہم کیا جائے بلکہ ساتھ ہی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی پر بھی توجہ دی جائے تاکہ آئندہ انسانی نسلیں عمدہ پروٹین والی خوراک سے محروم نہ ہو جائیں۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭

کیاکنٹونمنٹ بورڈ کے بعد بلدیاتی الیکشن ہونگے

خدا یار خان چنڑ
پاکستان میں کنٹونمنٹ یعنی چھاونیوں کو فوج کی مستقل قیام گاہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ علاقے کنٹونمنٹ بورڈز کے زیر انتظام ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ ڈیپارٹمنٹ، وزارت دفاع، حکومت پاکستان کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور چھاونیوں کو کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے تحت قائم کیا جاتا ہے۔ قیامِ امن کی وجہ سے چھاونیوں کا آبادیاتی کردار بدل گیا ہے۔ اب کنٹونمنٹ میں اہم شہری آبادی اور نجی کاروبار بھی شامل ہو چکا ہے۔
پاکستان میں اس وقت 44 کنٹونمنٹ (چھانیاں)ہیں۔ پنجاب میں 23، خیبر پختونخوا میں 9، سندھ میں 8، بلوچستان میں 4 اور گلگت بلتستان میں 2 کنٹونمنٹس ہیں۔ سول آبادی کی بنیاد پر چھاونیوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کلاس ون کنٹونمنٹ وہ ہوتا ہے جس میں سول آبادی ایک لاکھ یا اس سے زیادہ ہے۔ کلاس 2 کنٹونمنٹ میں سول آبادی پچاس ہزار یا اس سے زیادہ مگر ایک لاکھ سے کم جبکہ کلاس تھری کنٹونمنٹ میں سول آبادی پچاس ہزار سے کم ہوتی ہے۔
پاکستان میں آخری بلدیاتی انتخابات 2015 میں ہوئے۔ چندروز پہلے ملک بھر میں ہونے والے 42 کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں 13 کلاس ون کینٹ، 9 کلاس ٹو اور 20 کلاس تھری کنٹونمنٹ بورڈز شامل تھے۔
راولپنڈی و چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈسمیت ضلع راولپنڈی کے مجموعی طور پر 36 وارڈوں میں سے راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کی 9 میں سے 7 نشستوں پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کر لی۔ 2 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے۔چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈ کی 10میں سے 5وارڈوں پر مسلم لیگ ن،2پر جماعت اسلامی،2پر تحریک انصاف اوریوں ملک بھر کے 42 کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کا دنگل مکمل ہو گیا۔ تمام 212 وارڈز کے غیرحتمی غیرسرکاری نتائج موصول ہو چکے ہیں ۔ حکمران جماعت کو لاہور، راولپنڈی، ملتان، پشاور میں بڑا دھچکا لگا ہے۔ غیرحتمی غیرسرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے 60، پاکستان مسلم لیگ (ن)59، آزادامیدواروں نے 55، پاکستان پیپلز پارٹی17،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 10،جماعت اسلامی7،عوامی نیشنل پارٹی2 اوربلوچستان عوامی پارٹی نے 2نشستوں پرکامیابی حاصل کی ہے۔
ملک بھر میں 7 نشستوں پر پہلے ہی امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ لاہور کے دونوں کنٹونمنٹ بورڈز میں 19 میں سے 15 وارڈز پر ن لیگ کامیاب ہو گئی۔ راولپنڈی میں بھی اس نے میدان مار لیا۔ ملتان میں 10 میں سے 9 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی کوئی سیٹ نہ جیت سکی۔ گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی نے 10 میں سے 6 نشستیں جیتیں۔۔
لاہور کے دونوں کنٹونمنٹ بورڈز میں 19وارڈز میں سے 15 وارڈز پر ن لیگ کامیاب ہو گئی۔ لاہور کینٹ بورڈ اور والٹن کینٹ بورڈ میں مجموعی طور پر 20 وارڈز ہیں لیکن والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے وارڈ نمبر 7 کے امیدوار صداقت محمود بٹ کے انتقال کے باعث پولنگ کا عمل ملتوی کر دیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر دونوں بورڈز کے 19وارڈز میں الیکشن ہوا اور 249 امیدوارو ں کے درمیان مقابلہ ہوا۔لاہور کینٹ بورڈ کے 10میں سے 6 وارڈ زپر مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی صرف تین وارڈز میں جیت سکی،ایک وارڈ میں آزاد امیدوار کامیاب رہا۔
ملتان میں تحریک انصاف ایک بھی سیٹ نہ جیت سکی، ن لیگ کا ایک امیدوار کامیاب ہوا۔ ملتان کینٹ کی 10 وارڈز میں سے 9 پر آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔
بہاولپور کی پانچوں نشستوں میں سے 2 پی ٹی آئی اور 3 ن لیگ جیت گئی۔
گوجرانوالہ میں تحریک انصاف نے میدان مار لیا۔ 10 میں سے 6 نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ ن کے 2 اور 2 آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔کنٹونمنٹ بورڈ اوکاڑہ کے 5 وارڈز میں سے 4 میں آزاد امیدوار جیت گئے جبکہ ایک میں پی ٹی آئی کے امیدوار نے فتح حاصل کی۔
کنٹونمنٹ بورڈ کھاریاں میں پی ٹی آئی نے دونوں سیٹیں جیت لیں۔
سیالکوٹ میں پانچ نشستوں میں سے مسلم لیگ(ن)نے تین پر کامیابی حاصل کی جبکہ دو پر پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
حویلیاں کی 2 نشستوں میں سے ایک پی ٹی آئی اور دوسری ن لیگ کے حصے میں آئی۔
خیبرپختونخواکے تمام37وارڈزکے نتائج مکمل ہوگئے۔تحریک انصاف 18جبکہ 9آزادامیدوار کامیاب قرارپائے۔ن لیگ پانچ، پیپلزپارٹی دو سیٹوں پرجیت گئی ہے۔
عمران خان اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں یہی کہتے کہ بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ضروری ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران صرف قانون سازی کریں۔ ترقیاتی کام صرف بلدیاتی اداروں کو کرنا چاہیے۔ لیکن اب جب کہ ان کی حکومت کا چوتھا سال شروع ہو چکا ہے، ابھی تک بلدیاتی الیکشن نہیں کروا سکے۔ حال ہی میں کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن کے نتائج سامنے آئے ہیں۔۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کوشکست ہوچکی ہے۔ پنجاب میں ایک تو وزیر اعلی کی وجہ سے تحریک انصاف کا مورال نیچے آیا ہے دوسرا ملتان میں بھی اس کے سرکردہ لیڈروں کی من مانیوں کی وجہ سے ملتان میں ان کا مکمل طور پر صفایا ہو گیا۔
بہاول پور حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے مگر وہ ایک سیٹ بھی نہ نکال پائی۔
مرکز اور تین صوبوں میں حکومت کرنے والی جماعت اس الیکشن میں اچھی پوزیشن نہیں لے سکی۔
ایک پہلو یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عوام نے سیاسی جماعتوں کو رد کرتے ہوئے آزاد امیدواروں کو ووٹ دئیے۔ عوام تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف کے لیے کئی سبق چھپے ہیں۔ اگر صورتحال یہی رہی تو بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست دیوار پر لکھی ہوئی ہے۔
کچھ حلقے حکومت کی ناکامی کے سبب اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ شاید حکومت بلدیاتی الیکشن کرائے گی ہی نہیں۔۔۔ وہ تو شروع دن سے الیکشن سے فرار چاہتے تھے اور سپریم کورٹ کی وجہ سے مجبوراً راضی ہوئے تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت بلدیاتی الیکشن سے پہلے مثبت پالیسیاں لے آتی ہے یا پھر بلدیاتی الیکشن میں بھی شکست (خدانخواستہ) اس کا مقدر بنتی ہے۔ آئندہ بلدیاتی الیکشن اس حکومت کے لیے واقعی سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

اُٹھ باندھ کمر …………

انجینئر افتخار چودھری
کیا خوب کہا طارق گجر نے کہ ”پی ٹی آئی ورکرز اگر مہنگائی کے خلاف عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ خان کے خلاف ہیں بلکہ ہم لوگ عمران خان کو ہارتا ہوا نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اس ملک کی آخری امید عمران خان ہی ہے،،
ویسے مجھے کسی اور پر دکھ نہیں لیکن جو اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ ہم پی ٹی آئی کے ہیں اور خان کے فدائی ہیں تو ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تنقید کریں ضرور مگر یہ بھی نظر میں رکھیں کہ جو شخصی پارٹیاں ہیں ان سے تعلق رکھنے والے ماضی کے لٹیرے تو اس وجہ سے نواز شریف کی تعریف کر رہے ہیں کہ انہوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھویا ہے وہ تو کھایا پیا ہضم کر رہے ہیں آپ کیوں ان کے پیچھے لگ گئے ؟کیا سعودی عرب یونان امریکہ ملائشیا بھارت میں بھی مہنگائی عمران خان نے کی ہے؟لگتا ہے کرونا میانوالی نے بنایا ہے جس نے دنیا میں،،تھر تھلی،، مچا رکھی ہے
اب آ جائیں کینٹ الیکشن کی طرف۔پہلی بات وہ درانی تو فلاپ ہوا کہ ہم سلیکٹڈ تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اب کی بار کون سلیکیٹٹڈ ہے۔باریں دو ہی ہیں کہ انتخابات وہ بھی ٹھیک تھے اور الیکشن یہ بھی صحیح ہوئے۔
کینٹ الیکشن کے ووٹوں کو جمع کریں تو آج بھی لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں وہ بھلے سے گروہوں میں بٹے ہوں۔ 2023 میں ووٹ وہ بلے کو ہی دیں گے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ 2023 میں عمران خان لوگوں کے دلوں سے نکل چکا ہو گا۔آخر یہ سب گروپ عمران خان کے ساتھ ہیں۔
خان صاحب! قوم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی اس لئے کہ آپ نے سعودی عرب دبئی انڈیا سری لنکا عرب امارات اردن امریکہ برطانیہ میں مہنگائی کرنے کے ساتھ ساتھ،، پاکستان میں بھی مہنگائی کر دی ہے،،، بات تو سچ یہ ہے اگر وہاں بھی عمران خان ذمہ دار ہے تو پھر یہاں بھی اسی نے مہنگائی کی ہے اور اگر وہاں نہیں کی تو مہنگائی عالمی ہے
پاکستان کے کنویں کے مینڈکوں کو علم ہی نہیں کہ ترکی جیسا ملک مہنگائی کی چکی میں پس گیا ہے پاکستان کیا بیچتا ہے۔سعودی عرب کی چیخیں نکل گئی ہیں۔
میرے قائد
اس قوم کو ٹینڈے کریلے آٹا پٹرول سستا کر دیں یہ موجیں ماریں گے۔خود یہ قوم چونّی ٹیکس نہیں دینا چاہتی۔بنی اسرائیل کے بعد یہ ناشکری قوم ہے جس نے دو عشرے لٹیروں کی کوٹ مار کا سامنا کیا اور پھر بھی انہی کے گن گاتی ہے۔لاکھ سوا لاکھ کا موبائل پکڑ کے۔شارٹ پہن کے آدھا جسم ننگا رکھ کے صبح سویرے،، دوپہر دو بجے،، پہلی پوسٹ لگائیں گے۔
”عمران خان غریب بھوکا مر گیا ہے“
”لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں“
جیسے پچھلے دور میں دودھ اور شہد کی نہروں میں ڈبکیاں لگاتے رہے ہیں۔
پاکستان میں اتنے لوگ بھوک سے نہیں مرتے جتنے زیادہ کھا کر مر رہے ہیں یہ شوگر بلڈ پریشر ہارٹ اٹیک غریبوں کی بیماریاں تھوڑی ہیں
جس کے پاس سہراب ایگل کا سائیکل نہیں ہوتا تھا وہ کاروں میں گھوم رہا ہے مگر عمران خان نے بھوک سے مار دیا ہے۔
رات تین بجے ان کی پوسٹیں آ رہی ہوتی ہیں کہ عمران خان نے اس قوم کو بھوک سے مار دیا ہے ان بلدیاتی اداروں کے الیکشن دیکھ لیں ایک دو شہروں میں ہارے ہیں ایسا شور مچا ہے جیسے،،لونگ گواچ گیا ہے،،
مایوس اس قدر کہ بلدیاتی کیا 2023 کو بھی ہار بیٹھے ہیں بڑے بڑے جغادری انصافیئے دم توڑ گئے ہیں۔ٹھس ہو گئے ہیں بلکہ،،موت،، پئے گئی ہے
نونیوں کے آقا رہتے،،ایون فیلڈز،، میں ہیں اور دلوں کے وزیر اعظم پاکستانیوں کے ہیں۔ ”گلاسی بیگم“سے، نارووالی ارسطو تک سب کی زبانوں سے شعلے اگل رہے ہیں۔ صاحب لوگ پنجاب کے چند شہروں سے جیتے ہیں بھنگڑے ایسے ڈال رہے ہیں جیسے کشمیر فتح کر لیا ہو۔کینٹ کیا ہارا عمران خان کے سر سے سارے تاج چھین لئے گئے
یہ پی ٹی آئی والے اگر سر جوڑ کر ایک ہو کر الیکشن لڑتے تو لگ پتہ جاتا آج بھی اگر نون لیگی جیتے ہیں تو دوسری تیسری اور چوتھی پوزیشن پربھی پی ٹی آئی کے ہیں۔
لبیکیئے البتہ ایک طاقت ثابت ہو چکے ہیں بھائیو۔کبھی عمران خان کے چاہنے والوں کے ووٹ تو جمع کر کے دیکھیں آپ کو پتہ لگ جائے گا۔باقی رہی بات ہر کوئی جو طاقت رکھتا تھا اس نے نہ صرف اپنی شیرینی لی اپنے بھائی کی بھی لے گیا۔سیاست میں آکڑ خانی نہیں چلتی یہ ان لوگوں کو شکست ہوئی ہے جنہوں نے خان کے مشن کو برباد کیا ہے جو کہتے رہے اسے کھڑا رہنے دیں میں اس کا وزن دیکھنا چاہتا ہوں سیاست اب کاروبار بن گئی ہے۔یہاں ضمیر بیچے جاتے ہیں اور خواب خریدے جاتے ہیں۔
لوگ اس الیکشن کا رونا روتے ہیں آپ نے سب سے پہلے غلطیاں کیں 2013 میں اور انہیں دہرایا 2018 میں۔کون نہیں جانتا کہ 2013 میں جب خان بستر پر تھے تو ٹکٹ کیسے بیچے گئے اور 2018 میں تو منڈی لگی۔اب ان خریداروں سے آپ وفا کی توقع رکھ رہے ہیں؟ وہ تو کہتے پھر رہے ہیں ہم نے ٹکٹ خریدے ہیں جاؤ جو کرنا ہے کر لو
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ان سے وفائیں مانگی جا رہی ہیں جو کہتے ہیں مجھے تو سب نے ووٹ دیا ہے نون نے بھی ق نے بھی۔ایک مصیبت ہمیں اصحاب،،ق،، کی آن پڑی ہے جنہوں نے اپنا حصہ سنگی پر نونہہ رکھ کر لیا اور خوب لیا۔انہوں نے بھی سودہ نقد ہی بیچا ایک اور ایم پی اے ہیں جو سمجھتے تھے کہ سب کچھ میرا ہے۔
ہم اپنی ٹیم کے ساتھ نکلے اور خوب نکلے تقریباً ساٹھ افراد کے ساتھ بیس گاڑیوں میں نکلے اور پہنچے کینٹ میں وہاں جو سلوک ہمارے ساتھ ہوا وہ اللہ جانتا ہے ہم تو سارا دن مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر رہے اس سے پہلے پوری ٹیم نے ٹریننگ کرائی اور الیکشن والے دن سج دھج سے نکلے ہمارا ضمیر مطمئن ہے کہتے ہیں کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں اور ناکامی یتیم۔یہاں کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔شمالی پنجاب کی ٹیم دونوں شہری ضلعی تنظیمیں یہ سب کدھر تھیں۔عمران خان نے رپورٹ بھی مانگی تو ان سے مانگی جو شکست کا سبب بنے تھے۔
کیا عمران خان اپنا واٹس ایپ نہیں چیک کرتے؟ لوگ کہتے ہیں آپریشن کلین اپ ہو۔
دوسری بات یہ جو ایم پی اے ایم این عہدے دار بنائے ہیں ان کو فارغ کریں یہ حلقہ سنبھالیں گے یا تنظیم۔ کچھ لوگ چیخ رہے ہیں اور کچھ رو رہے ہیں کام نہ چیخنے سے چلے گا نہ رونے سے کیا عمران خان واپس اپنے دعوے کی جانب جائیں گے کہ پارٹی ادارہ بنے گی۔پارٹی ادارہ بنائے بغیر کچھ نہیں ہو گا۔پارٹی صرف اور صرف عمران خان کے نام پر کھڑی ہے۔ہمارا بد قسمتی یہ ہے کہ ہم شخصیت کو پوجتے ہیں۔کبھی کسی اجلاس۔میں لیڈر کو ٹوک کے دیکھیں آپ کا منہ،،پن،، کے رکھ دیں گے کسی کا کچھ نہیں گیا صرف اس کا گیا ہے جو اپنی فیملی میں لڑتا رہا گلی محلے میں دشمنیاں ڈال لیں کام کاج چھوڑ کر نئے پاکستان کی تلاش میں نکلا۔
میں ایک منسٹر کے پاس گیا اور کہا مجھے کوئی ٹیکنیکل شعبہ دے دو کہنے لگا نوکری کرنی ہے سی وی جمع کرا دو اور میرا بی پی ہائی ہو گیا اور آنکھ کی نظر چلی گئی چھ ماہ لگے علاج کرانے میں آج کل ٹینشن لیتا نہیں اسے ٹینشن دیتا ہوں۔کینٹ کے صدر کو دھکہ دے دیا ٹریڈرز ونگ شمالی پنجاب کے صدر کو ٹکٹ نہیں دیا اس کے مقابلے میں ایک،،ٹلو،، کو نواز دیا سارے پراپرٹی ڈیلر لینڈ کروزروں والے ٹکٹ لے گئے ورکرز کو ملا بھی تو اس کی مدد نہیں کی گئی۔
دکھڑے بہت ہیں لیکن مختصرا کہوں گا کہ جو لوگ ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں میں آئے اور ماڈرن گاڑیوں تک پہنچے کوٹھیاں بنائیں ان سے ضرور پوچھیں کہ پیسہ،، تمہارے باپ،، کا تھا بتاؤ کہاں سے آیا وہ سمجھتے ہیں کہ کارکن بھول جائیں گے پی ایس کے نام پر کمیشن ایجنٹ اس پارٹی کو کھا گئے جو لوگوں سے منہ کھول کر رشوت مانگتے ہیں ملاقاتوں کے پیسے وصول پاتے ہیں کون ہے جس کے دفتر کے دروازے کھلے ہیں۔
خان صاحب ورکر رل گیا جے لیکن یہ بات بھی یاد رکھیں وہ آج بھی آپ کے ساتھ ہے لیکن ان لٹیروں کے ساتھ نہیں جو آپ کے نام سے لیڈر بنے بیٹھیں ہیں۔
کارکن اُٹھ باندھ کمر
(کالم نگار پاکستان تحریک انصاف کے سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ اور ایجوکیشن ہیں)
٭……٭……٭

درآمدات میں کمی‘برآمدات میں اضافہ کریں

طارق ملک
اپنے پچھلے کالموں میں ڈالر کی اُونچی اُڑان، ہوشربا مہنگائی اور مصنوعی مہنگائی کا تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں، ڈالر کی قدر کا تعین اس کی طلب و رسد سے ہوتا ہے۔ اگر ڈالر کی طلب زیادہ اور رسد کم ہو تو ڈالر مہنگا ہو جاتا ہے اور اگر ڈالر کی طلب کم اور رسد زیادہ ہو تو ڈالر سستا ہو جاتا ہے۔ اگر ڈالر مہنگا ہو تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، درآمدات میں کمی ہوتی ہے اور برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ اس لئے ہوتا ہے کہ اگر ڈالر کی قیمت 150 روپے ہے اور کسی شے کی قیمت ایک ڈالر یعنی 150 روپے ہے اور اگر ڈالر 175 روپے کا ہوگا تو اس شے کی قیمت بھی 175 روپے ہو جائے گی۔ اس طرح ڈالر کی قیمت میں 25 روپے اضافہ ہونے کی صورت میں شے کی قیمت بھی 25 روپے بڑھ جائے گی اور ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہو جائے گا۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھے گی تو اشیاء مہنگی ہونے کی وجہ سے درآمدات میں کمی واقع ہوگی۔ اس طرح ڈالر کی رسد درآمدات کم ہونے کی وجہ سے زیادہ ہو جائے گی اور ڈالر سستا ہو جائے گا۔ اسی طرح ڈالر مہنگائی ہونے کی وجہ سے برآمدات میں اضافہ ہوگا، برآمدات میں اضافے سے ڈالر کی رسد بڑھے گی اور ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر کم ہو جائے گی اور مہنگائی بھی کم ہو جائے گی۔ یعنی ڈالر کی رسد کو بڑھانے کے لیے ہمیں درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا، حکومت کو اس بارے میں پُرتعیش اشیاء کی درآمدات پر فوری طور پر پابندی لگانی چاہئے اور برآمدات کنندگان کو خصوصی سہولیات کا پیکیج دینا چاہئے۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ڈالر اپنی بلند ترین سطح 170 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگوں سے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طور پر روپے کے مقابلے میں کم قیمت پر رکھا ہوا تھا جبکہ انہوں نے ڈالر کو مارکیٹ پر چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح ڈالر کی قیمت کا تعین اس کی طلب اور رسد کے مطابق ہوتا ہے۔
عام عوام کو آج تک اس منطق کی سمجھ نہیں آئی کہ سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کس طرح مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کو روکے رکھا اور ڈالر 119 روپے تک رہا۔ کافی چھان بین کے بعد معلوم ہوا ہے کہ جب ڈالر کی رسد کم ہونی تھی تو سٹیٹ بینک زرمبادلہ کے ذخائر میں سے ڈالر نکال کر اوپن مارکیٹ میں ڈال دیتا تھا، اس طرح ڈالر کی رسد بڑھنے سے ڈالر کی قیمت میں کمی ہو جاتی تھی۔ اس طرح اسحاق ڈار نے اپنے دور حکومت میں اور ان کے بعد مفتاح اسماعیل نے بھی اسی فارمولا کے تحت ڈالر کو کنٹرول کئے رکھا۔ مہنگائی میں بھی ہوشربا اضافہ نہ ہو سکا اور غریب عوام بھی آسانی سے اپنی زندگی گزارتے رہے جس کا تمام کریڈٹ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل کو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس دور کے وزرائے اعظم کو جاتا ہے جنہوں نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے فوری فیصلے کئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج غریب لوگ عمران خان سے نالاں ہیں اور پچھلی حکومت یعنی (ن) لیگ کے گیت گاتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کا عملی ثبوت عوام نے لاہور، راولپنڈی اور دیگر اضلاع میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں بری طرح شکست دے کر دیا ہے۔ اس وقت لوگ مہنگائی سے پسے ہوئے ہیں، عوام پر روزانہ اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافے، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کے بلوں میں انکم ٹیکس کی ادائیگی یعنی روزانہ کوئی نہ کوئی مہنگائی بم گرایا جا رہا ہے۔ عام عوام اور سفید پوش طبقہ، ملازم پیشہ اور پنشنرز اس ہوشربا مہنگائی سے بہت پریشان ہیں، کچھ تو اصل مہنگائی ہے اور کچھ مصنوعی مہنگائی ہے۔ کسی بھی جگہ سرکاری نرخوں پر اشیاء خوردونوش کی فراہمی نہیں ہے۔ عوام مہنگائی اور مصنوعی مہنگائی کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب ڈالر کی قیمت 119 روپے سے 170 روپے یعنی 51 روپے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔
ڈالر کی قیمت میں کمی درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے کی جا سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کے تین سالوں میں درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن (Balance of Payment) بری طرح خراب ہوا ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پچھلی حکومت سے زیادہ ہیں۔ اگر درآمدات میں اضافے برآمدات میں کمی اور بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائے گئے ڈالر سے بھی ڈالر کی رسد میں اضافہ نہیں ہوا اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے غریب عوام کو ہوشربا مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وزیراعظم عمران خان، وزیر خزانہ شوکت ترین اور گورنر سٹیٹ بینک کو باہر بیٹھ کر اس مسئلے کا حل کرنا چاہئے۔ اگر اسحاق ڈار سابقہ وزیر خزانہ زرمبادلہ کے ذخائر میں سے ڈالر منڈی میں لاکر ڈالر کی رسد بڑھا کر ڈالر کی قیمت کو 119 روپے تک محدود رکھ سکتے تھے تو کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت سے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر رکھتے ہوئے بھی اوپن مارکیٹ میں ڈالر ڈال کر ڈالر کی قیمت کو مستحکم نہیں رکھ سکتی۔ موجودہ حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ڈال کر ڈالر کی رسد کو زیادہ کرنا چاہئے تاکہ ڈالر کے مقابلے میں ہمارا روپیہ مستحکم ہو سکے۔ حکومت کو کوشش کرنی چاہئے کہ درآمدات کم کر کے برآمدات بڑھا کر سمندر پار پاکستانیوں کے لئے خصوصی پیکیج تیار کرکے اور ڈالر کو منڈی میں ڈال کر اس کی رسد بڑھا کر روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کیا جائے تاکہ عوام ہوشربا مہنگائی سے بچ سکے۔
مَیں نے اپنے گزشتہ کالموں میں شہری علاقوں میں غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے لوگوں کے لئے ٹارگٹڈ سبسڈی کا ذکر کیا تھا۔ حکومت وقت کے پاس احساس پروگرام کے تحت ان لوگوں کی فہرستیں موجود ہیں۔ ان افراد کو فوری طور پر آٹا، چینی، گھی اور دالوں کے لئے ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے۔ اُمید ہے کہ حکومت وقت میری ان گزارشات پر عمل کرے گی اور غریب عوام سُکھ کا سانس لے سکیں گے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

جاگیردارانہ نظام کی خرابیاں

کرنل (ر) عادل اختر
اس وقت کالم نگاروں کی ایک کہکشاں ہے۔ جو ہمارے آسمان صحافت پر جگمگا رہی ہے۔ یہ مہربان ہمارے اندر شعور کی دولت تقسیم کر رہے ہیں۔ گزشتہ ستّر برس میں میڈیا کی طاقت بہت بڑھی ہے حالانکہ اسے مینج کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے زیادہ تر کالم نگار درمیانی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی حساس طبع لوگ قوم کی حالت زار پر کڑھتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دماغوں میں افکار تازہ کی نمود ہوتی ہے۔ ہمارے مسائل لاینحل نہیں ہیں۔ بس چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز ہے۔ ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہمارا جاگیرداری نظام ہے جاگیر دار بڑے عیش پرست اور خود غرض ہوتے ہیں۔ دولت کے زور پر پارلیمنٹ پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر وہ عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ اسمبلیوں میں آنے کا مقصد ہی ذاتی انا کی تسکین اور دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عزت ان کے لئے، مراعات ان کے لئے۔ اور قربانیوں کے لئے عوام۔ کیا ایسی ہوتی ہے فلاحی ریاست مدینہ!
ہمارے دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ جاگیرداری کے خلاف آواز اٹھائیں اگر بھارت میں جاگیرداری ختم ہو سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں ختم نہیں ہو سکتی۔ اکیسویں صدی میں جاگیرداری کا کوئی جواز نہیں۔ جاگیرداروں کے ہوتے ہوئے متوسط طبقے کے لائق اور باصلاحیت نوجوان کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ الیکشن میں حصہ لینے کے متعلق تو متوسط طبقے کے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ کاش جلد وہ دن آئے کہ ہمارے دانشوروں کے وجود سے ہماری پارلیمنٹ جگمگائے۔
اس طبقے نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اقتدار میں ان کے علاوہ اور کوئی طبقہ آنے نہ پائے۔ وہ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کا ممبر بننا۔ دانشوروں کا حق ہے نہ کہ وڈیروں کا۔ سچے پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ جاگیرداری کے خاتمے اور پارلیمنٹ میں کم سے کم آدھی سیٹیں دانشوروں کے لئے مختص کرنے کے مطالبے پر ڈٹ جائے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ ورنہ جاگیرداروں کی نحوست سے ہمارے ظلمت کدے میں شب غم کا جوش برھتا ہی جائے گا۔ اگر تمام باشعورپاکستانی جاگیرداری کے خلاف متحد ہوجائیں تو مقتدر ادارے اور باشعور عوام بھی جاگیرداری کے خاتمے اور دانشورکی اسمبلیوں میں موجودگی کی حمایت کریں گے۔ گو دانشوروں جاگیرداروں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ مگر تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں محفوظ ہیں۔ جہاں کمزور طبقات نے طاقتور طبقات کو شکست فاش دی ہو۔
جن ممالک میں دانشوروں کو اقتدار سونپا گیا۔ انہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی دی گئی۔ انہوں نے بہت ترقی کی اور وہاں سورج نے غروب ہونا چھوڑ دیا……جن قوموں نے اپنے دانشوروں کی قدر نہ کی وہاں سورج نے طلوع ہونا بند کر دیا اور کبھی ختم نہ ہونے والی رات مسلط ہو گئی۔ پاکستان کی رسوائیوں اور پسپائیوں کا سبب یہی افراد وتفریط ہے۔
پاکستان میں اصل طاقت چوروں، ڈاکوؤں اور غنڈوں کے پاس آ گئی ہے آئے دن بڑے بڑے سکینڈل اور جرائم ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارے حوصلہ مند صحافی ہیں جو ایسے واقعات کو میڈیا میں لائم لائٹ میں رکھتے ہیں ورنہ بڑے لوگ توان جرائم پر مٹی ڈال دیں۔ صحافیوں کی وجہ سے کچھ انصاف کا بھرم رہ جاتا ہے۔
اگرچہ ظالم حکمران موت کے سامنے بے بس ہیں۔ لیکن ان کے مرنے کے بعد آمریت ختم نہیں ہوتی۔ کوئی دوسرا آمر مسلط ہو جاتا ہے۔ غلام محمد گیا تو سکندر مرزا آ گیا۔ سکندر مرزا گیا تو ایوب خان آ گیا۔ ایوب خان گیا تو یحییٰ خاں آ گیا۔ کبھی افغانستان میں بادشاہت تھی۔ دسواں بادشاہ، نویں بادشاہ کو قتل کر کے تخت پر بیٹھا تھا۔ نواں آٹھویں کو‘آٹھواں ساتویں کو‘ حبیب اللہ، نادر شاہ، ظاہر شاہ، داؤد، ترکئی، حفیظ اللہ، ببرک کارمل، نجیب اللہ، رضا شاہ پہلوی، نوری السعید، صدام حسین، قذافی اس طرح مرے کہ نہ کسی کا جنازہ اٹھا۔ نہ مزار بنا۔ ان سے ہماری ملکہ نورجہاں اچھی رہیں۔ مزار تو نصیب ہو گیا۔ سپاہی کی نظر میں جمہوریت یہ ہے کہ اگر حکمران الیکشن ہار جائے تو فوراً سرکاری گھر خالی کر دے۔ اپنا سامان اپنی کار میں رکھے……اور ایک دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ آگے چل دے۔ پلٹ کے پیچھے نہ دیکھے……الحمدللہ، ہمارا ایک وزیراعظم ایسا بھی گزرا ہے کہ مرتے وقت اس کی جیبیں خالی تھیں۔ حالانکہ نواب ابن نواب تھا۔
کینٹ بورڈ کے الیکشن میں یہ سپاہی۔ ووٹ ڈالنے گیا۔ پولنگ کا انتظام ایک سکول میں تھا۔ سکول، پنڈی کے مشہور شراب خانے کے عقب میں تھا۔ ہوا میں شراب کی تاثیر تھی۔ سکول کی عمارت خستہ حال اور ویران تھی۔ یہ دیکھ کر کڑھ رہا تھا……کہ خبر آئی کہ ایک صوبے میں سکول فرنیچر خریدنے میں اربوں کا گھپلا کیا گیا ہے۔ چھ ہزار کی بنچ انتیس ہزار میں خریدی گئی ہیں۔ دل چاہا۔ ایک لاکھ اُمرا کو گلوٹین کے نیچے لٹا دوں۔ زرخرید میں ایک سکول کی شاندار عمارت طلب کروں۔ خدا کی اور بائیس کروڑ عوام کی لعنت ہو۔ ان کرپشن کرنے والوں کے ماں باپ اور آل اولاد پر یہ لوگ مرتے ہیں تو ان کے گھروں سے کروڑوں ڈالر اور سونے کی اینٹیں نکلتی ہیں۔ ان سے تو ہمارا وہ شاعر اچھا تھا جس کے مرنے کے بعد اس کے گھر سے حسینوں کی تصاویر اور خطوط نکلے تھے۔
ہمارے ظالم حکمرانوں کے خون میں نجانے کیا خوبی ہے کہ ان کے بعد ان کے بیٹے، پوتے اور پرپوتے بھی حکمرانی کے اہل ہو جاتے ہیں۔ کیا ملک کی دوسری عورتوں نے لائق بچے جننے بند کر دیئے ہیں۔ کیا ملک کے سارے دانشور مر گئے ہیں، کاش عوام کے غیرہمدرد سیاستدان ایوان اقتدار سے باہر نکال دیئے جائیں اور ان کی جگہ اصل محب وطن اور عوام دوست حکمران لائے جائیں۔ کاش ہماری اسمبلیاں صالح دانشوروں کے جمال سے جگمگا اُٹھیں۔ کاش آٹا، چینی مہنگی کرنے والوں کو ایک ہفتہ بھوکا رہنے کی سزا سنائی جا سکے۔
کون جانے ہمارے نصیب میں کیا لکھا ہے۔ کیا ہماری قوم ہمیشہ قربانیاں دیتی رہے گی۔ جاگیردار اور اُمرا قربانی کا گوشت کھاتے رہیں گے۔ خون پیتے رہیں گے۔
کہاں ٹھہرے گا، سفینہ غم دل
اے غم دل کیا کروں
اے وحشت دل کیا کروں
اے شیخ امیروں کو مسجد سے نکلوا دے
رہے ان کی نمازوں سے محراب تُرش ابرو
(اقبال)
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭

سندھ میں گندم کا بحرا

آغا خالد
محکمہ خوراک سندھ کو2ارب 64 کروڑ کا پہلے ہی نقصان ہوچکاتھاکہ محکمہ کی کالی بھیڑوں کا نیا اسکینڈل منظرعام پرآگیاہے جس کے مطابق 9 ارب کی گندم خوردبرد کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق فروری 2021 میں جب ریکارڈ کی چھان بین کی گئی تومعلوم ہواکہ سابقہ سیزن کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ 36 ہزار ٹن گندم خریدی گئی تھی مگرریکارڈکے مطابق گندم کے ذخائر گوداموں میں کم تھے اور مارچ کے مہینے میں فلور ملزاور آٹاچکیوں کو گندم کی فراہمی یقینی بنانی ضروری تھی مگر گوداموں میں صرف گیارہ لاکھ 61 ہزار ٹن گندم موجود تھی۔ ریکارڈکے مطابق اکتوبر،نومبر،دسمبر،جنوری، فروری کے ماہ میں فلور ملز اور آٹاچکیوں کو 75ہزار2سو ٹن گندم فراہم کی گئی اس طرح سات لاکھ 52 ہزار گندم کی بوریاں غائب پائیں گئیں۔
سیکرٹری خوراک سندھ نے ماہ مارچ میں ایک سمری وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کوارسال کی کہ اس اسکینڈل کی انکوائری کرائی جائے اور لہٰذا 16 جولائی2021 کو وزیر اعلی سندھ نے انکوائری کمیٹی بنادی،مگر آج تک اس انکوائری کمیٹی کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا، اسکینڈل کو دبانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ ادھرایک اور نیا اسکینڈل سامنے آگیاہے ہر سال ماہ اپریل میں محکمہ خوراک کسانوں سے گندم کی خریداری شروع کرتا ہے جس کے لیے وہ بینک سے قرض لیتا ہے۔ محکمہ خوراک سندھ کے سیکرٹری کو بتایا گیا کہ 82ارب روپے کا پہلے ہی محکمہ خوراک سندھ مقروض ہسپتال2021 کیلئے 14 لاکھ ٹن گندم خریداری کیلئے 70ارب روپے درکار ہوں گے جب کہ بینک سے محکمہ خوراک سندھ کی کریڈٹ کی حد صرف 130 ارب روپے ہے لہٰذا وفاقی حکومت کو خط لکھ کر کہا گیا کہ محکمہ خوراک سندھ کی گندم خریداری کی حد 152 ارب روپے کی جائے تاکہ اپریل سال 2021 میں کسانوں سے سندھ حکومت باآسانی گندم خرید سکے جس پروفاقی حکومت نے محکمہ خوراک سندھ کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے 152ارب روپے کی کریڈٹ کی حد منظور کرلی ہے اس کے باوجودمحکمہ خوراک نے گندم خریداری شروع کی تو خریداری کے دوران کاشتکاروں کو رقم کی منتقلی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
سیکرٹری خوراک کی جانب سے انکوائری کرائی گئی تو پتہ چلا کہ محکمہ خوراک سندھ پہلے 82 ارب روپے کامقروض نہیں بلکہ اس پر 91 ارب روپے کا قرضہ ہے اب سوال یہ ہے کہ 9 ارب روپے کہاں گئے کس نے 9 ارب روپے کی خردبردکی جس کی انکواری ہونا باقی ہے۔
دوسری طرف ملک بھرمیں ایف آئی اے میں نکلنے والی 1143 آسامیوں کیلئے12 لاکھ سے زائدنوجوانوں نے رجوع کیاہے اس سے ہمارے ملک میں بیروزگاری کی شدت کااندازہ لگایاجاسکتاہے ان آسامیوں کیلئے ہونیوالا پہلاٹیسٹ ہی متنازعہ ہوگیاہے۔واضح رہے کہ ایف آئی اے میں بھرتیوں کیلئے پہلے ٹیسٹ کے طورپرامیدواروں کے درمیاں دوڑکامقابلہ کروایاگیامگریہ دوڑ ہی متنازعہ بن گئی ہے جس کی وجہ سے کراچی کے نوجوانوں میں غصہ بڑھتاجارہاہے پورے ملک کی طرح بیروزگاری کے عفریت نے زندگی سے رونقیں چھین لی ہیں مگرسب سے زیادہ اس کاشکارکراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہوئے ہیں جن کے ساتھ گذشتہ 40 سالوں سے کوٹہ سسٹم کے نام پرزیادتی کی جارہی ہے اورسرکاری نوکریاں ان کیلئے شجرممنوعہ بنادی گئی ہیں۔ ایسے میں ایف آئی میں 1 سے 15 گریڈ کی آسامیوں کیلئے متعدد اعلانات کے بعد بالآخر 26 جولائی سے بھرتیوں کے ٹیسٹ کاآغازکیاگیامگرپہلے دن ہی یہ ٹیسٹ پھرمنسوخ کردئے گئے اورپھریہ ٹیسٹ متعدد تواریخ کی تبدیلیوں کے بعداگست کے آخری ہفتہ میں شروع ہوئے اورپہلے سے اعلان کردہ طریقہ کارکوتبدیل کرتے ہوئے پہلے امیدواروں کودوڑاکران کاٹیسٹ لینے کافیصلہ کیاگیامگرہواکیا؟
مایوس نوجوان امیدواروں کے بقول 40 سے50 نوجوانوں کودوڑکے میدان میں چھوڑدیاگیاٹارگٹ پرکون پہلے پہنچاکون آخرمیں یہ دیکھے بغیردوڑ ختم کرنیوالے نوجوانوں میں سے مخصوص کوگروپ سے علیٰحدہ کرکے نام لکھ لئے گئے یاپہلے سے ان کے پاس ناموں کی فہرست پرآوازیں دیکربلایاگیااورانہیں پاس کردیاگیااس طرح برسوں سے بیروزگاری کی عفریت میں پھنسے نوجوانوں میں مایوسی پھیل گئی ہے جوملک کے موجودہ حالات میں خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک دشمن قوت ان نوجوانوں کواستعمال کرسکتی ہے کہاجاتاہے کہ 12 سوکے قریب آسامیوں پرمنتخب کردہ امیدواروں کی تعداد لاکھوں میں ہونے سے ارباب اختیاربوکھلاگئے ہیں اورانہوں نے پہلے مرحلہ میں بڑے پیمانے پرچھانٹی کیلئے یہ مذموم طریقہ اختیارکیاہے جبکہ کراچی کے اکثرنوجوانوں کاکہناہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کواس لئے ووٹ دیاتھاکہ وہ کم از کم ایسے معاملات میں میرٹ کومعیاربنائیں گے مگرہوااس کے برعکس۔ اس طرح کی شکایات سکھراورحیدرآباد سے بھی مل رہی ہیں سکھرکے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئر حمزہ رول نمبر 1143 نے کہاکہ وہ دوڑ اورباڈی ٹیسٹ میں پہلے نمبر پرآئے مگرشام کوادارے کے جاری کردہ نتائج میں انہیں فیل دکھایاگیااورمتعددبارشکایات کے باوجود انہیں پاس نہیں کیاگیا۔
کراچی سے سفیان رول نمبر4253 نے بھی ایسی ہی شکایت کی ہے جبکہ سندھ بھرسے عموماً اورکراچی سے خصوصاً ایسی بیسیوں شکایات ملی ہیں جو سندھ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئیں اوروزیراعلیٰ سندھ کو ان شکایات کے ازالے کی عملی تدابیر کرنی چاہئیں کیونکہ کسی قوم کے نوجوان طبقے میں بددلی اور مایوسیوں کاپھیلنا کسی طورپر لائق تحسین قرار نہیں دیاجاسکتا۔کیونکہ سماجی‘ معاشی اورمعاشرتی ناہمواریاں مستقبل کے بہتر امکانات کومعدوم کیے بغیر نہیں رہتیں اس سے جس قدر بچاجائے اسی قدر اچھا ہوگا۔ جیساکہ سطور بالا میں سندھ میں گندم کے بحران اور محکمہ خوراک کے حوالے سے جو باتیں سننے میں آرہی ہیں اس حوالے سے بھی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرکے بحران کے ذمہ داران کو قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کااعادہ نہ ہونے پائے۔
(کالم نگارقومی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭