تازہ تر ین

جاگیردارانہ نظام کی خرابیاں

کرنل (ر) عادل اختر
اس وقت کالم نگاروں کی ایک کہکشاں ہے۔ جو ہمارے آسمان صحافت پر جگمگا رہی ہے۔ یہ مہربان ہمارے اندر شعور کی دولت تقسیم کر رہے ہیں۔ گزشتہ ستّر برس میں میڈیا کی طاقت بہت بڑھی ہے حالانکہ اسے مینج کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے زیادہ تر کالم نگار درمیانی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی حساس طبع لوگ قوم کی حالت زار پر کڑھتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دماغوں میں افکار تازہ کی نمود ہوتی ہے۔ ہمارے مسائل لاینحل نہیں ہیں۔ بس چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز ہے۔ ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہمارا جاگیرداری نظام ہے جاگیر دار بڑے عیش پرست اور خود غرض ہوتے ہیں۔ دولت کے زور پر پارلیمنٹ پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر وہ عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ اسمبلیوں میں آنے کا مقصد ہی ذاتی انا کی تسکین اور دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عزت ان کے لئے، مراعات ان کے لئے۔ اور قربانیوں کے لئے عوام۔ کیا ایسی ہوتی ہے فلاحی ریاست مدینہ!
ہمارے دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ جاگیرداری کے خلاف آواز اٹھائیں اگر بھارت میں جاگیرداری ختم ہو سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں ختم نہیں ہو سکتی۔ اکیسویں صدی میں جاگیرداری کا کوئی جواز نہیں۔ جاگیرداروں کے ہوتے ہوئے متوسط طبقے کے لائق اور باصلاحیت نوجوان کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ الیکشن میں حصہ لینے کے متعلق تو متوسط طبقے کے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ کاش جلد وہ دن آئے کہ ہمارے دانشوروں کے وجود سے ہماری پارلیمنٹ جگمگائے۔
اس طبقے نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اقتدار میں ان کے علاوہ اور کوئی طبقہ آنے نہ پائے۔ وہ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کا ممبر بننا۔ دانشوروں کا حق ہے نہ کہ وڈیروں کا۔ سچے پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ جاگیرداری کے خاتمے اور پارلیمنٹ میں کم سے کم آدھی سیٹیں دانشوروں کے لئے مختص کرنے کے مطالبے پر ڈٹ جائے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ ورنہ جاگیرداروں کی نحوست سے ہمارے ظلمت کدے میں شب غم کا جوش برھتا ہی جائے گا۔ اگر تمام باشعورپاکستانی جاگیرداری کے خلاف متحد ہوجائیں تو مقتدر ادارے اور باشعور عوام بھی جاگیرداری کے خاتمے اور دانشورکی اسمبلیوں میں موجودگی کی حمایت کریں گے۔ گو دانشوروں جاگیرداروں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ مگر تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں محفوظ ہیں۔ جہاں کمزور طبقات نے طاقتور طبقات کو شکست فاش دی ہو۔
جن ممالک میں دانشوروں کو اقتدار سونپا گیا۔ انہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی دی گئی۔ انہوں نے بہت ترقی کی اور وہاں سورج نے غروب ہونا چھوڑ دیا……جن قوموں نے اپنے دانشوروں کی قدر نہ کی وہاں سورج نے طلوع ہونا بند کر دیا اور کبھی ختم نہ ہونے والی رات مسلط ہو گئی۔ پاکستان کی رسوائیوں اور پسپائیوں کا سبب یہی افراد وتفریط ہے۔
پاکستان میں اصل طاقت چوروں، ڈاکوؤں اور غنڈوں کے پاس آ گئی ہے آئے دن بڑے بڑے سکینڈل اور جرائم ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارے حوصلہ مند صحافی ہیں جو ایسے واقعات کو میڈیا میں لائم لائٹ میں رکھتے ہیں ورنہ بڑے لوگ توان جرائم پر مٹی ڈال دیں۔ صحافیوں کی وجہ سے کچھ انصاف کا بھرم رہ جاتا ہے۔
اگرچہ ظالم حکمران موت کے سامنے بے بس ہیں۔ لیکن ان کے مرنے کے بعد آمریت ختم نہیں ہوتی۔ کوئی دوسرا آمر مسلط ہو جاتا ہے۔ غلام محمد گیا تو سکندر مرزا آ گیا۔ سکندر مرزا گیا تو ایوب خان آ گیا۔ ایوب خان گیا تو یحییٰ خاں آ گیا۔ کبھی افغانستان میں بادشاہت تھی۔ دسواں بادشاہ، نویں بادشاہ کو قتل کر کے تخت پر بیٹھا تھا۔ نواں آٹھویں کو‘آٹھواں ساتویں کو‘ حبیب اللہ، نادر شاہ، ظاہر شاہ، داؤد، ترکئی، حفیظ اللہ، ببرک کارمل، نجیب اللہ، رضا شاہ پہلوی، نوری السعید، صدام حسین، قذافی اس طرح مرے کہ نہ کسی کا جنازہ اٹھا۔ نہ مزار بنا۔ ان سے ہماری ملکہ نورجہاں اچھی رہیں۔ مزار تو نصیب ہو گیا۔ سپاہی کی نظر میں جمہوریت یہ ہے کہ اگر حکمران الیکشن ہار جائے تو فوراً سرکاری گھر خالی کر دے۔ اپنا سامان اپنی کار میں رکھے……اور ایک دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ آگے چل دے۔ پلٹ کے پیچھے نہ دیکھے……الحمدللہ، ہمارا ایک وزیراعظم ایسا بھی گزرا ہے کہ مرتے وقت اس کی جیبیں خالی تھیں۔ حالانکہ نواب ابن نواب تھا۔
کینٹ بورڈ کے الیکشن میں یہ سپاہی۔ ووٹ ڈالنے گیا۔ پولنگ کا انتظام ایک سکول میں تھا۔ سکول، پنڈی کے مشہور شراب خانے کے عقب میں تھا۔ ہوا میں شراب کی تاثیر تھی۔ سکول کی عمارت خستہ حال اور ویران تھی۔ یہ دیکھ کر کڑھ رہا تھا……کہ خبر آئی کہ ایک صوبے میں سکول فرنیچر خریدنے میں اربوں کا گھپلا کیا گیا ہے۔ چھ ہزار کی بنچ انتیس ہزار میں خریدی گئی ہیں۔ دل چاہا۔ ایک لاکھ اُمرا کو گلوٹین کے نیچے لٹا دوں۔ زرخرید میں ایک سکول کی شاندار عمارت طلب کروں۔ خدا کی اور بائیس کروڑ عوام کی لعنت ہو۔ ان کرپشن کرنے والوں کے ماں باپ اور آل اولاد پر یہ لوگ مرتے ہیں تو ان کے گھروں سے کروڑوں ڈالر اور سونے کی اینٹیں نکلتی ہیں۔ ان سے تو ہمارا وہ شاعر اچھا تھا جس کے مرنے کے بعد اس کے گھر سے حسینوں کی تصاویر اور خطوط نکلے تھے۔
ہمارے ظالم حکمرانوں کے خون میں نجانے کیا خوبی ہے کہ ان کے بعد ان کے بیٹے، پوتے اور پرپوتے بھی حکمرانی کے اہل ہو جاتے ہیں۔ کیا ملک کی دوسری عورتوں نے لائق بچے جننے بند کر دیئے ہیں۔ کیا ملک کے سارے دانشور مر گئے ہیں، کاش عوام کے غیرہمدرد سیاستدان ایوان اقتدار سے باہر نکال دیئے جائیں اور ان کی جگہ اصل محب وطن اور عوام دوست حکمران لائے جائیں۔ کاش ہماری اسمبلیاں صالح دانشوروں کے جمال سے جگمگا اُٹھیں۔ کاش آٹا، چینی مہنگی کرنے والوں کو ایک ہفتہ بھوکا رہنے کی سزا سنائی جا سکے۔
کون جانے ہمارے نصیب میں کیا لکھا ہے۔ کیا ہماری قوم ہمیشہ قربانیاں دیتی رہے گی۔ جاگیردار اور اُمرا قربانی کا گوشت کھاتے رہیں گے۔ خون پیتے رہیں گے۔
کہاں ٹھہرے گا، سفینہ غم دل
اے غم دل کیا کروں
اے وحشت دل کیا کروں
اے شیخ امیروں کو مسجد سے نکلوا دے
رہے ان کی نمازوں سے محراب تُرش ابرو
(اقبال)
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain