All posts by Daily Khabrain

نواز شریف کے بعد زرداری ،نیب نے اہم قدم اُٹھا لیا

 لاہور: پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف زرداری کو اثاثہ جات کیس میں بری کرنے کافیصلہ لاہورہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔نیب کی جانب سے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کواثاثہ جات کیس میں بری کرنے کا فیصلہ لاہورہائیکورٹ راولپنڈی بنچ میں چیلنج کردیا گیا۔ جسٹس طارق عباسی اورجسٹس حبیب اللہ عامرپرمشتمل بنچ 11 ستمبرکو اپیل کی سماعت کرے گا۔نیب نے اپیل میں موقف اختیارکیا کہ اثاثہ جات ریفرنس میں ہمارے ٹھوس دلائل کو عدالت نےغیر قانونی طور پررد کیا اور درخواست میں استدعا کی گئی کہ بریت کو ختم کرکے نیب قانون کے مطابق سزادی جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ راولپنڈی کی احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری  کو 16 سال بعد غیر قانونی اثاثہ جات ریفرنس کیس میں بری کردیا تھا۔

شہباز شریف سے سرد جنگ وجہ بھی سامنے آگئی

لاہور (خصوصی رپورٹ) سینئر صحافی حامد میر نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چودھری نثار کے نوازشریف سے اختلافات ہیں اور چودھری نثار کی جانب سے مریم نواز کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں۔ اس کا نقصان مریم کو کم چودھری نثار کو زیادہ ہوگا۔ چودھری نثار کے دل و دماغ میں جو باتیں چل رہی ہیں وہ انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتائیں حالانکہ مریم نواز کافی دیر سے سیاست میں آچکی ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ چودھری نثار اور شہبازشریف کے درمیان سرد جنگ شروع ہوچکی ہے کیونکہ ایک انٹرویو میں نثار نے نوازشریف کو تنقید کا نشانہ بنایا جس پر شہبازشریف نے ان سے احتجاج کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب کا کچھ غیرسیاسی لوگ جن کا فوج سے تعلق نہیں ان کے ذریعے رابطہ ہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ قریب ہے اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ اگر ملیحہ لودھی سفیر بن سکتی ہےں تو وہ کیوں نہیں بن سکتے۔ نوازشریف اور ن لیگ کو نیب اور دیگر اداروں سے کوئی امید نہیں‘ اس لئے وہ سینٹ الیکشن کا انتظار کررہے ہیں۔ نوازشریف کی طرف سے آصف زرداری سے رابطہ جاری ہے لیکن اس طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔ مسلم لیگ ن میں ایک بے چین گروپ جو نثار کو لیڈر بنانے کیلئے تیار ہے اور اگر مسلم لیگ ن نے الیکشن میں نثار کو ٹکٹ نہیں دیا تو کیا وہ آزاد کھڑے نہیں ہوں گے۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے کہا کہ اگر فوج اس کے پیچھے ہوتی تو کب کا فارورڈ بلاک بن چکا ہوتا۔ بہت سے لوگ نوازشریف کو چھوڑ چکے ہوتے۔ میرے خیال میں فوج اس کے پیچھے نہیں ہے۔ بعض اوقات اندازے غلط ہوجاتے ہیں۔ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد قانون اور قاعدے کے مطابق اس کا نائب نیب کو چلائے گا لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ شریف فیملی کیخلاف دائر ریفرنس پر کیا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ این اے 120 میں ن لیگ جیتے گی لیکن وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا نوازشریف کیخلاف فیصلہ درست نہیں تھا۔ اس میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی اس میں اپنے ووٹ بڑھاتی ہے یا نہیں۔ ماہر قانون بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا خیال ہے نظرثانی اپیل کی سماعت کیلئے پانچ جج ہی بیٹھیں گے کیونکہ آئین میں بڑا واضح طور پر لکھا ہے کہ نظرثانی کی اپیل اتنے ہی جج سماعت کریں گے جنہوں نے فیصلہ کیا ہے۔ ابھی بینچ بیٹھا نہیں ہے صرف اعلان ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پانچ ہی بیٹھیں گے۔ قانون یہ ہے کہ نیب اپنے چیئرمین کے بغیر کچھ نہیں۔ قائم مقام چیئرمین کا کام صرف کام چلانا ہوتا ہے۔ ریفرنس دائر ہوچکے ہیں اور ان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پراسیکیوٹر اپنے دور کے دوران ہی ٹیم کا اعلان کرکے جاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں علی ظفر نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بڑی تفصیلی ہے جس کو دیکھنے کے بعد نیب نے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کچھ دو کچھ لو ۔۔۔چیئرمین نیب کے نواز شریف سے قریبی رابطے

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین نیب کے ساتھ میاں نوازشریف کے قریبی رابطے ہیں، نیب چیئرمین کی خواہش ہے کہ انکی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد انہیں سفارکار مقرر کردیا جائے، معروف تجزیہ کار نے نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ چیئرمین نیب کے ساتھ میاں نوازشریف کا اپنے خاص لوگوں جو کاروباری ہیں کے ذریعے رابطہ ہے، چیئرمین نیب چاہتے ہیں کہ وہ ملیحہ لودھی کی طرح سفارتکار بن جائیں، ممکنہ طور پر سپین میں انہیں سفارتکار لگایاجائیگا، وزیرخزانہ نے انہیں سفارتکار بنانے کا وعدہ کرلیا ہے ، نئے نیب چیئرمین کے تقرر کے سلسلہ میں آصف زرداری مسلم لیگ (ن) کی بات سننے کو تیار نہیں، ممکن ہے کہ نیا چیئرمین اب کاروباری شخص نہ ہو۔

ہمارا مستقبل روشن ہے روک سکتے ہو تو روک لو

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنماءمریم نواز نے کہا ہے کہ ہمارا مستقبل روشن ہے،روک سکتے ہو تو روک لو، جومہرے ہیں ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں وہ پوری قوم کے سامنے ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ سیاسی اور انتخابی میدان میں نہیں کر سکتے، کبھی وہ سازشوں کے پیچھے چھپتے ہیں، کبھی عدلیہ کے پیچھے چھپتے ہیں، ہم ڈرنے والے نہیں نہ کسی کی تنقید سے گھبراتے ہیں، پوری دنیا نے تماشا دیکھا کہ ڈیڑھ سال پانامہ پر کیس چلتا رہا اور اختتام اقامہ پر ہوا۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ مجھے اپنے والد کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے اور پارٹی کےلئے کام کرنا ہوتا ہے، والدہ کی بیماری کی تشخیص ہو گئی تو ان کو جانا پڑا، الیکشن مہم کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈرنے والے نہیں اور نہ کی کسی کی تنقید سے گھبراتے ہیں، جومہرے ہیں ان کے نام لینے کی مجھے ضرورت نہیں وہ تو پوری قوم کے سامنے ہیں، کیونکہ وہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کا مقابلہ سیاسی اور انتخابی میدان میں نہیں کر سکتے، تو کبھی وہ سازشوں کے پیچھے چھپتے ہیں اور کبھی وہ عدلیہ کے پیچھے چھپتے ہیں ، کبھی وہ الیکشن کمیشن کے پیچھے چھپتے ہیں، باقی سب باتیں وقت کھولتا ضرور ہے، یہ کہانیاں وقت سناتا ہے، میاں صاحب نے جو بات کہی ہے اس کا جواب میاں صاحب خود دیں گے، نواز شریف جلد ہی واپس آئیں گے ۔ مریم نواز نے کہا کہ پہلا مقدمہ ہے اپنی نوعیت کا، جس میں مقدمہ بعد میں چل رہا ہے اور سزا پہلے ہو گئی ہے، پہلا مقدمہ ہے جس میں نیب کو ریفرنس بعد میں بھیجے گئے ہیں اور نا اہلی کی سزا پہلے ہو گئی ہے، پوری دنیا نے تماشا دیکھا کہ ڈیڑھ سال پانامہ پرکیس چلتا رہا اور اختتام اقامہ پر ہوا، مقدمہ اس بات پر چلا کہ بڑے بیٹے سے پیسے کیوں لئے اور نااہلی اس بات پر ہو ئی کہ چھوٹے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی، تو یہ ایک مذاق ہے، اچھی اور بری کارکردگی کی طرح حکومت کی طرح عدلیہ کے بھی اچھے اور برے فیصلے تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھا جس کو اتنی جلدی پاکستان کی عوام کی اتنی بڑی تعداد نے رد کیا ہو ہمارا مستقبل روشن ہے ،روک سکتے ہو تو روک لو۔

برما کی بن بیاہی ماﺅں کی دلخراش کہانی ۔۔۔

لاہور (ویب ڈیسک) برمی لڑکی فاطمہ کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔ برمی فوجیوں کی درندگی اور ان کی ہوس کا شکار ہونے کے بعد وہ نہ جانے کس برمی فوجی کے بچے کی ماں بنی تھی کیونکہ اس جیسی بے بس اور لاچار مسلمان لڑکیاں ہر ماہ کسی نہ کسی برمی فوجی کے بچے کی مائیں بن رہی تھیں۔ فاطمہ کو جب ا پنے تئیں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے بازیاب کرایا تو اس وقت تک اس کیمپ میں ایک سال کے دوران ڈیڑھ سو بن بیاہی کم سن مائیں، نوے بچوں کو جنم دے چکی تھیں، ان بچوں کو بدھ بھکشو گود میں لئے اپنی مذہبی تعلیمات دے رہے تھے۔ فاطمہ رہائی کے بعد تھائی لینڈ پہنچا دی گئی لیکن اس کی اذیتوں کا سفر ختم نہیں ہوا۔ اس کو جسم فروشی کے ا ڈے پر پہنچا دیا گیا۔ فاطمہ کی اس کہانی کا مقصد پوری دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنا ہے کہ وہ دیکھے روہنگیا مسلمانوں کی بیٹیوں کے ساتھ میانمار کی سرزمین پر کتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ امی نے مجھے رات کو ہی کہہ دیا تھا کہ نماز فجر کے بعد تم اپنی چھوٹی بہن کو مدرسہ چھوڑنے چلی جانا کیونکہ صبح انہیں نرسنگ ہوم جانا تھا۔ امی بہت خوش بھی تھیں اور غمزدہ بھی۔ انہیں امید تھی کہ آج ان کے ہاں جو بچہ ہونے والا ہے وہ بیٹا ہو گا۔ نرس نے انہیں آج صبح کا وقت دے رکھا تھا کہ وہ مسجد سے آگے نرسنگ ہوم میں آ جائیں تاکہ ان کی ڈلیوری کا بندوبست کر دیا جائے کیونکہ امی کے ہاں اولاد نارمل نہیں ہوتی تھی۔ انہیں دمہ بھی تھا اس لئے نرس اپنے سٹاف کے ساتھ ان کا خاص خیال رکھتی تھی۔ امی کو غم اس بات کا تھا کہ پچھلے چھ مہینے میں اب ہمارے ٹاﺅن میں بھی برمی فوجی غارت گری کرنے آتے تھے۔ ان کے ساتھ بھکشو (بدھ مت والے) بھی ہوتے تھے جو جس مسلمان کے گھر کی نشاندہی کرتے تو ان گھروں کے مردوں اور عورتوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر لے جایا جاتا تھا۔ یہ لوگ پھر کبھی واپس نہیں آتے تھے۔ ان کا کیا جرم ہوتا تھا کوئی نہیں جانتا۔ ان کا کیا بنتا رہا، اس وقت تو صرف قیاس آرائیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہو گا۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔ اگر کوئی مسلمان یہ جاننے کی کوشش کرتا تو اس کے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا۔ ابا میاں اس بات پر کڑھتے تھے کہ پرامن اور پڑھے لکھے مسلمانوں کو راتوں رات غائب کر دیا جاتا ہے اور کوئی اس کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ وہ اس کے لئے آواز بننا چاہتے تھے۔ دور کے علاقوں اور ساحلی دیہاتوں میں برمی فوجیوں اور بدھیوں نے مسلمانوں کا جو خون بہا کر ان کے گھروں کو جلایا تھا اس کی خبریں ہم تک پہنچ گئی تھیں اور یہ ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ مسلمانوں کے کسی گاﺅں میں گھس جاتے اور مردوں کا قتل عام کرتے، گھر جلاتے اور کم سن نوجوانوں لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے۔ اسی وجہ سے ہمارے قصبہ میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود قدرے خاموش تھے۔ مسجد یا گھروں میں برمی فوج اور بدھیوں کے ظلم پر تبصرے ہو رہے تھے، قصبہ میں جن لوگوں کے پاس موبائل تھے ان پر بھی ان کو کچھ خبریں مل جاتی تھیں، انٹرنیٹ تو محدود تھا البتہ جتنا بھی وسیلہ تھا خبر کسی نہ کسی صورت ہم سب تک پہنچ ہی جاتی۔ ان حالات میں انی کا ڈرنا انجانے خوف کا باعث بن گیا تھا کیونکہ ظلم کی یہ دستک ہمارے گھروں تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ہمارے قصبہ میں الحمد للہ پانچوں وقت کی نماز میں اجتماع دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔ سارے مسلمانوں میں اتفاق تھا۔ صرف تین گھر بدھیوں کے تھے اور وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے تھے لیکن نفرت کی آگ ایسی جلی تھی کہ ایک دن معلوم ہوا وہ تینوں گھر خالی ہوگئے ہیں اور وہ نہ جانے کیوں قصبہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں حالانکہ ہمارے قصبہ میں مذہب یا کسی اور وجہ سے ا یک بھی دنگا فساد نہیں ہوا تھا۔ جس دن سے ان بدھیوں نے قصبہ چھوڑا، اس سے چند روز بعد ہی برمی فوج گاڑیوں میں پہنچ گئی اور سب سے پہلے امام مسجد عبدالباری کو اور ان کے گھر والوں اٹھا لے گئی اور وہ کبھی واپس نہیں آئے۔ امی کا ڈر اور خوف بجا تھا لیکن میں نے کبھی اس بات کا خوف اپنے ذہن پر سوار نہیں کیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ سال تھی اور یوں مجھے بالغ ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ ابا مدرسہ میں ٹیچر تھے اور نہایت متقی ا ور پرہیز گار۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے دادا نے رنگوں میں قرآن حفظ کیا تھا اور اسلام کی تبلیغ کے لئے زندگی وقف کر دی تھی۔ ان دنوں جنگ عظیم جاری تھی۔ دادا ہجرت کر کے اس گاﺅں میں آ گئے انہوں نے ہی مسجد تعمیر کی اور مدرسہ بھی بنایا جہاں بچے بچیوں کو قرآن و سنت کے مطابق تعلیم دی جاتی۔ ابا فخر سے بتاتے تھے کہ ان کے دادا کے ہاتھ پر کئی ہندوﺅں بدھیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور وہ بھی اسی گاﺅں میں آباد ہو گئے جو بعد میں ایک بڑا قصبہ بن گیا تھا۔ ا لحمدللہ میرے دادا نے اسلام کی خدمت کا جو پودا لگایا تھا وہ تناور ہوا اور اردگرد کے کئی دیہاتوں تک اس کی چھاﺅں پھیل گئی تھی۔ ابا میاں نے جدید تعلیم کے بعد اسی مدرسہ میں انگریزی پڑھانی شروع کی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مجھے بچپن سے ہی انگریزی پڑھانے لگے۔ روشن خیال بھی تھے کہا کرتے تھے کہ مسلمان لڑکیوں کو دین اور دنیا کا علم پڑھا چاہیے۔ وہ مجھے بھی پڑھا لکھا کر ٹیچر بنانا چاہتے تھے تاکہ میں اسلامی تعلیمات کا پرچار کر سکوں۔ جس جن کی میں بات کر رہی ہوں اس دن ابا میاں امی کو لیکر نرسنگ ہوم چلے گئے یہ ہمارے گھر سے بہت دور نہیں تھا لیکن تنگ راستوں کی وجہ سے آنے جانے میں کافی وقت لگ جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب جمعہ کا وقت ہوا تو ابا میاں مسجد میں جمعہ پڑھنے چلے گئے، نرس نے بتا دیا تھا کہ ڈلیوری پانچ بجے کے قریب ہو گی، اس نے امی کو ڈرپ لگا رکھی تھی میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہمارے قصبہ میں برمی حکومت کے حکم سے اذان سپیکر پر دینے کی سخت پابندی ہے، خطبہ بھی صرف واجبی ہے۔ علما کسی قسم کا تبلیغی واعظ نہیں کر سکتے۔ کئی دہائیوں سے برمی حکومت ایسے احکامات جاری کرتی آ رہی ہے اس لئے مسلمان دل پر جبر کرتے ہوئے کبھی اس بات کا مطالبہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں برمی حکومت کی جانب سے کسی نیکی اور نرمی کی توقع نہیں۔ میں بہن کو مدرسہ چھوڑ کر گھر واپس آ چکی تھی اور نہانے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی کیونکہ مجھے مخصوص ایام کے بعد آج غسل کر کے نماز پڑھنی تھی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کوئی ہمارا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا رہا ہے۔ میں نے جلدی سے غسل مکمل کرنا چاہا اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آئی، ڈر گئی اور ابھی میں سنبھلنے نہ پائی تھی کہ مجھے کمرے میں بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی دو گولیاں بھی کسی نے چلا دیں۔ کوئی غصہ سے چیخ کر میرے ابا میاں کو آوازیں دے رہا تھا میں غسل خانے میں ہی ایک جانب کپڑے پہننے کی کوشش میں دبک گئی کہ اچانک غسل خانے کا دروازہ کھلا اور ایک برمی فوجی بندوق کی نال سیدھی کئے مجھ کو کسی بھوکے درندے کی طرح دیکھنے لگا۔ میں نے ہاتھ میں پکڑے کپڑوں سے اپنا سینہ ڈھانپنے کی کوشش کی لیکن اس نے بندوق کی نالی سے ان کپڑوں کو جھٹک کر یوں پیچھے پھینکا کہ بندوق کی گرم نالی سے میرے بدن کو شدید جھٹکا لگا۔ فوجی میرے حالت دیکھ کر چیخا اور قہقہے لگا کر اپنے ساتھیوں کو پکارنے لگا ”دیکھو یہ کتیا کتنی خوبصورت ہے“ اس کی بات سن کر میں سہم گئی۔ اس کی آنکھوں میں ہوس تھی۔ اس نے بندوق کی نالی میرے سینے پر رکھی تو میں یکدم ہڑ بڑا اٹھی۔ مجھے ابا میاں کی بات یاد آ گئی کہ مسلمان بیٹیاں بہادر اور غیرت مند ہوتی ہیں ان کی حیا ہی ان کا سب کچھ ہوتی ہے۔ مجھے موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ میرا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ میں نے دل میں اللہ کو یاد کیا، کلمہ شہادت پڑھ لیا اور سوچا کہ اسطرح نہیں مرونگی، اس سے بہتر ہے لڑ کر شہید ہوجاو¿ں، میں اس فوجی کے مقابلہ میں بہت کمزور تھی لیکن غیرت مند مسلمان بیٹیاں ایسے آوارہ اور شیطان کتوں سے ڈرا نہیں کرتیں، میں کیسے برداشت کرسکتی تھی کہ میں جو سرڈھانپ کر مدرسہ جایاکرتی تھی اور دوپٹہ کبھی سینے سے نہیں سرکا تھا مگر آج ایک بے شرم اور ظالم فوجی مجھے بے لباس دیکھ رہاتھا، میں نے بندوق کی نالی کو پرے جھٹکا اور یکدم چیخ کر اس فوجی پر پل پڑی، اس وقت اسے یقین نہیں تھا کہ میں اس پر حملہ بھی کرسکتی ہوں، بس مجھے اتنا یاد ہے کہ جونہی وہ جھٹکا کھا کر گرا میں نے غسل خانے میں رکھا کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھایا اور اسکے سر پر اتنے زور سے مارا کہ وہ حرامی دوبارہ اٹھ نہ سکا لیکن اسی لمحہ غسل خانے سے باہر کھڑے فوجی نے بندوق کا دستہ میرے سر پر دے مارا اور میرا سر گھومنے لگا، اس نے مجھے اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر نکالا اور بھاری بوٹوں سے میرے جسم کو ٹھوکریں مارنے لگا، اس دوران ایک دوسرا فوجی بولا، ” اسکو ابھی نہ مارو،حرامزادی کو زندہ رکھو اور کیمپ میں لے جاو¿، یہ بھی ہمارے بچے جنم دیگی، دوسری مسلمان لڑکیوں کی طرح ، ہم نے اسکی نسل ختم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اور وہ ہم نے پورا کرنا ہے “ ، میں ٹھوکریں کھاکر بیہوش ہوگئی تھی، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میں ابھی تک بے لباس ہوں اور میری جیسی درجن بھر لڑکیاں اور بھی ہیں جن کے جسموں پر کوئی برائے نام لباس ہے ، ان کے چہروں اور بدن پر بھی زخم تھے، کوئی کراہ رہی تھی ،کوئی خاموش تھی لیکن سب اپنے اپنے زخم سہلا رہی تھیں، ان میں سے کئی لڑکیاں حاملہ تھیں، ان کے جسموں پر ہماری طرح رستے زخم نہیں تھے لیکن انکی حالت بتا رہی تھی کہ وہ تشدد کا شکار رہی ہیں، مجھے جب ہوش آیا اور میں نے پانی مانگا تو میری آواز سن کر ایک برمی فوجی آیا اور بولا ، پانی پینا ہے ، میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا ننگا سینہ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بے بس نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا تو اس نے قہقہ لگایا اور پھر اس نے وہ حرکت کی کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی عورت کی ایسی توہین نہیں ہوئی ہوگی لیکن ہم روہنگیائی مسلمان عورتیں اس کرب اور ذلت سے روزانہ گزرتی ہیں، اس خنزیر کی اولاد نے کھڑے کھڑے مجھ پر پیشاب کردیا اور کہا ، لو پی لو، الفاظ ساتھ نہیں دیتے کہ میں دنیا کی ذلیل ترین فوج کے کرتوتوں کا ذکر کروں، اس نے مجھ پر پیشاب کرنے کے بعد میری عزت کا دامن تار تار کردیا ، میں بہت چیخی ، مزاحمت کی، مدد کیلئے لڑکیوں کو پکارا، مگر وہ تو سب گونگی بہری اندھی بت کی طرح تھیں، وہ کربھی کیا سکتی تھیں کیونکہ یہ سب انکے ساتھ بھی ہوچکاتھا، میں اس رات بہت روئی، میرا بدن اور میری روح زخموں سے چور تھی، اس بے رحم درندے کے بعد نہ جانے کتنے اور درندوں نے مجھ ناتواں کو جھنجھوڑا تھا، کوئی حساب نہیں، نہ دنوں کا نہ مہینوں کا، نہ موسموں کا ، سردیوں کے موس میں انہوں نے ہم سب کو بھاری چادریں دیدی تھیں، جس سے ہم نے اپنے بدنوں کو ڈھانپ لیا، اس تمام عرصہ میں میری بڑی تمنا رہی کہ مجھے کپڑوں کا کوئی ٹکڑا ہی مل جائے جس سے پورا بدن ڈھانپ کر نماز پڑھ سکوں، لیکن میری تمنا پوری نہ ہوسکی کیونکہ نہ کپڑے ملے نہ ہی پاکیزگی کا موقع، ہر دن مجھے پلیدی میں ہی گزارنا پڑتا تھا، نو مہینے بعد میں بھی ایک کمزور سے لڑکے کی ماں بن گئی، اس روز ایک بدھ دایہ عورت آئی تھی، وہ پہلے بھی ان لڑکیوں کی ڈلیوری کیلئے آتی تھی جو بچے کو جنم دینے والی ہوتی، میرے اندر اتنی نقاہت تھی کہ اپنے بچے کو دودھ بھی نہ پلاسکی، اور میرا بچہ بھوک سے دم توڑ گیا، لیکن میں پھر بھی زندہ رہی، لیکن میرا دماغ ماو¿ف ہوگیا، دایہ کے کہنے پر فوجیوں نے ہماری بہتر غذا کا بندوبست کردیاتھا اور یہ پہلی بار اس وقت ہوا جب ایک بدھ نے آکر انہیں کہا کہ اسطرح تو ہمارے یہ بچے مر جائیں گے، ان کو کھانے کو کچھ دو، اس واقعہ کے شاید تین ماہ بعد انسانی حقوق کی ایک ٹیم ادھر آئی ، فوج اور بدھ مت رہنماو¿ں کیساتھ مذاکرات کے بعد اس نے ہمیں اس شرط پر وہاں سے نکالا کہ ہم سب عورتیں ان بچوں کو بدھ عورتوں کے سپرد کردیں، کچھ لڑکیاں تو اس پر بضد ہوگئیں جنہیں مجبوراً وہیں چھوڑنا پڑا ، اس تنظیم نے ہمیں میانمر سے نکالا اور تھائی لینڈ لے آئی، یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کے نام پر جو تنظیم ہمیں برمی فوجیوں سے آزاد کراکے لائی تھی دارصل وہ ہماری قیمت چکا کر لائی تھی، چند ماہ بعد ان لڑکیوں کو اچھا کھانا پینا دیکر صحت مند بنایاگیا اور پھر انہیں جسم فروشی کی تربیت دیکر اڈوں پر بٹھا دیاگیا، بچے کی پیدائش اور موت کے بعد مجھے ذہنی صدمہ سے نکلنے میں کچھ وقت لگا لیکن اس دوران میں پھر ایک ماہ کے حمل سے ہوگئی، لیکن جب تھائی لینڈ لائی گئی تو میرا اسقاط گرادیاگیا، جب ہوش سے سنبھلنے لگی تو ایک صحافی کی مدد سے یہ معلوم کرایا کہ اس روز ہمارے قصبہ میں کیا ہوا تھا، معلوم ہوا کہ برمی فوجیوں نے مدرسہ اور مسجد کو آگ لگادی تھی جس سے مدرسہ کے سارے بچے اور نمازی آگ میں جھلس کر شہید ہوگئے تھے، میں سوچتی ہوں کہ برمی فوجیوں کے ہاتھ میں جدیدترین اسلحہ دیکر ان میں نفرت یونہی پروان چڑھائی جاتی رہی تو کیا میانمر کی سر زمین پر کوئی مسلمان بچے گا؟ ، آج مسلمان بیٹیاں لٹ پھٹ رہی ہیں ، بن بیاہی مائیں بنائی جارہی ہیں اور جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچائی جارہی ہیں، تو کیا آنے والے وقت میں دوسرے مذاہب کے لوگ برمی فوجیوں سے بچ پائیں گے۔
لاہور (ویب ڈیسک) برمی لڑکی فاطمہ کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔ برمی فوجیوں کی درندگی اور ان کی
باقی صفحہ6بقیہ نمبر 1

ہوس کا شکار ہونے کے بعد وہ نہ جانے کس برمی فوجی کے بچے کی ماں بنی تھی کیونکہ اس جیسی بے بس اور لاچار مسلمان لڑکیاں ہر ماہ کسی نہ کسی برمی فوجی کے بچے کی مائیں بن رہی تھیں۔ فاطمہ کو جب ا پنے تئیں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے بازیاب کرایا تو اس وقت تک اس کیمپ میں ایک سال کے دوران ڈیڑھ سو بن بیاہی کم سن مائیں، نوے بچوں کو جنم دے چکی تھیں، ان بچوں کو بدھ بھکشو گود میں لئے اپنی مذہبی تعلیمات دے رہے تھے۔ فاطمہ رہائی کے بعد تھائی لینڈ پہنچا دی گئی لیکن اس کی اذیتوں کا سفر ختم نہیں ہوا۔ اس کو جسم فروشی کے ا ڈے پر پہنچا دیا گیا۔ فاطمہ کی اس کہانی کا مقصد پوری دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنا ہے کہ وہ دیکھے روہنگیا مسلمانوں کی بیٹیوں کے ساتھ میانمار کی سرزمین پر کتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ امی نے مجھے رات کو ہی کہہ دیا تھا کہ نماز فجر کے بعد تم اپنی چھوٹی بہن کو مدرسہ چھوڑنے چلی جانا کیونکہ صبح انہیں نرسنگ ہوم جانا تھا۔ امی بہت خوش بھی تھیں اور غمزدہ بھی۔ انہیں امید تھی کہ آج ان کے ہاں جو بچہ ہونے والا ہے وہ بیٹا ہو گا۔ نرس نے انہیں آج صبح کا وقت دے رکھا تھا کہ وہ مسجد سے آگے نرسنگ ہوم میں آ جائیں تاکہ ان کی ڈلیوری کا بندوبست کر دیا جائے کیونکہ امی کے ہاں اولاد نارمل نہیں ہوتی تھی۔ انہیں دمہ بھی تھا اس لئے نرس اپنے سٹاف کے ساتھ ان کا خاص خیال رکھتی تھی۔ امی کو غم اس بات کا تھا کہ پچھلے چھ مہینے میں اب ہمارے ٹاﺅن میں بھی برمی فوجی غارت گری کرنے آتے تھے۔ ان کے ساتھ بھکشو (بدھ مت والے) بھی ہوتے تھے جو جس مسلمان کے گھر کی نشاندہی کرتے تو ان گھروں کے مردوں اور عورتوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر لے جایا جاتا تھا۔ یہ لوگ پھر کبھی واپس نہیں آتے تھے۔ ان کا کیا جرم ہوتا تھا کوئی نہیں جانتا۔ ان کا کیا بنتا رہا، اس وقت تو صرف قیاس آرائیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہو گا۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔ اگر کوئی مسلمان یہ جاننے کی کوشش کرتا تو اس کے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا۔ ابا میاں اس بات پر کڑھتے تھے کہ پرامن اور پڑھے لکھے مسلمانوں کو راتوں رات غائب کر دیا جاتا ہے اور کوئی اس کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ وہ اس کے لئے آواز بننا چاہتے تھے۔ دور کے علاقوں اور ساحلی دیہاتوں میں برمی فوجیوں اور بدھیوں نے مسلمانوں کا جو خون بہا کر ان کے گھروں کو جلایا تھا اس کی خبریں ہم تک پہنچ گئی تھیں اور یہ ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ مسلمانوں کے کسی گاﺅں میں گھس جاتے اور مردوں کا قتل عام کرتے، گھر جلاتے اور کم سن نوجوانوں لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے۔ اسی وجہ سے ہمارے قصبہ میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود قدرے خاموش تھے۔ مسجد یا گھروں میں برمی فوج اور بدھیوں کے ظلم پر تبصرے ہو رہے تھے، قصبہ میں جن لوگوں کے پاس موبائل تھے ان پر بھی ان کو کچھ خبریں مل جاتی تھیں، انٹرنیٹ تو محدود تھا البتہ جتنا بھی وسیلہ تھا خبر کسی نہ کسی صورت ہم سب تک پہنچ ہی جاتی۔ ان حالات میں انی کا ڈرنا انجانے خوف کا باعث بن گیا تھا کیونکہ ظلم کی یہ دستک ہمارے گھروں تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ہمارے قصبہ میں الحمد للہ پانچوں وقت کی نماز میں اجتماع دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔ سارے مسلمانوں میں اتفاق تھا۔ صرف تین گھر بدھیوں کے تھے اور وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے تھے لیکن نفرت کی آگ ایسی جلی تھی کہ ایک دن معلوم ہوا وہ تینوں گھر خالی ہوگئے ہیں اور وہ نہ جانے کیوں قصبہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں حالانکہ ہمارے قصبہ میں مذہب یا کسی اور وجہ سے ا یک بھی دنگا فساد نہیں ہوا تھا۔ جس دن سے ان بدھیوں نے قصبہ چھوڑا، اس سے چند روز بعد ہی برمی فوج گاڑیوں میں پہنچ گئی اور سب سے پہلے امام مسجد عبدالباری کو اور ان کے گھر والوں اٹھا لے گئی اور وہ کبھی واپس نہیں آئے۔ امی کا ڈر اور خوف بجا تھا لیکن میں نے کبھی اس بات کا خوف اپنے ذہن پر سوار نہیں کیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ سال تھی اور یوں مجھے بالغ ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ ابا مدرسہ میں ٹیچر تھے اور نہایت متقی ا ور پرہیز گار۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے دادا نے رنگوں میں قرآن حفظ کیا تھا اور اسلام کی تبلیغ کے لئے زندگی وقف کر دی تھی۔ ان دنوں جنگ عظیم جاری تھی۔ دادا ہجرت کر کے اس گاﺅں میں آ گئے انہوں نے ہی مسجد تعمیر کی اور مدرسہ بھی بنایا جہاں بچے بچیوں کو قرآن و سنت کے مطابق تعلیم دی جاتی۔ ابا فخر سے بتاتے تھے کہ ان کے دادا کے ہاتھ پر کئی ہندوﺅں بدھیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور وہ بھی اسی گاﺅں میں آباد ہو گئے جو بعد میں ایک بڑا قصبہ بن گیا تھا۔ ا لحمدللہ میرے دادا نے اسلام کی خدمت کا جو پودا لگایا تھا وہ تناور ہوا اور اردگرد کے کئی دیہاتوں تک اس کی چھاﺅں پھیل گئی تھی۔ ابا میاں نے جدید تعلیم کے بعد اسی مدرسہ میں انگریزی پڑھانی شروع کی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مجھے بچپن سے ہی انگریزی پڑھانے لگے۔ روشن خیال بھی تھے کہا کرتے تھے کہ مسلمان لڑکیوں کو دین اور دنیا کا علم پڑھا چاہیے۔ وہ مجھے بھی پڑھا لکھا کر ٹیچر بنانا چاہتے تھے تاکہ میں اسلامی تعلیمات کا پرچار کر سکوں۔ جس جن کی میں بات کر رہی ہوں اس دن ابا میاں امی کو لیکر نرسنگ ہوم چلے گئے یہ ہمارے گھر سے بہت دور نہیں تھا لیکن تنگ راستوں کی وجہ سے آنے جانے میں کافی وقت لگ جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب جمعہ کا وقت ہوا تو ابا میاں مسجد میں جمعہ پڑھنے چلے گئے، نرس نے بتا دیا تھا کہ ڈلیوری پانچ بجے کے قریب ہو گی، اس نے امی کو ڈرپ لگا رکھی تھی میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہمارے قصبہ میں برمی حکومت کے حکم سے اذان سپیکر پر دینے کی سخت پابندی ہے، خطبہ بھی صرف واجبی ہے۔ علما کسی قسم کا تبلیغی واعظ نہیں کر سکتے۔ کئی دہائیوں سے برمی حکومت ایسے احکامات جاری کرتی آ رہی ہے اس لئے مسلمان دل پر جبر کرتے ہوئے کبھی اس بات کا مطالبہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں برمی حکومت کی جانب سے کسی نیکی اور نرمی کی توقع نہیں۔ میں بہن کو مدرسہ چھوڑ کر گھر واپس آ چکی تھی اور نہانے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی کیونکہ مجھے مخصوص ایام کے بعد آج غسل کر کے نماز پڑھنی تھی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کوئی ہمارا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا رہا ہے۔ میں نے جلدی سے غسل مکمل کرنا چاہا اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آئی، ڈر گئی اور ابھی میں سنبھلنے نہ پائی تھی کہ مجھے کمرے میں بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی دو گولیاں بھی کسی نے چلا دیں۔ کوئی غصہ سے چیخ کر میرے ابا میاں کو آوازیں دے رہا تھا میں غسل خانے میں ہی ایک جانب کپڑے پہننے کی کوشش میں دبک گئی کہ اچانک غسل خانے کا دروازہ کھلا اور ایک برمی فوجی بندوق کی نال سیدھی کئے مجھ کو کسی بھوکے درندے کی طرح دیکھنے لگا۔ میں نے ہاتھ میں پکڑے کپڑوں سے اپنا سینہ ڈھانپنے کی کوشش کی لیکن اس نے بندوق کی نالی سے ان کپڑوں کو جھٹک کر یوں پیچھے پھینکا کہ بندوق کی گرم نالی سے میرے بدن کو شدید جھٹکا لگا۔ فوجی میرے حالت دیکھ کر چیخا اور قہقہے لگا کر اپنے ساتھیوں کو پکارنے لگا ”دیکھو یہ کتیا کتنی خوبصورت ہے“ اس کی بات سن کر میں سہم گئی۔ اس کی آنکھوں میں ہوس تھی۔ اس نے بندوق کی نالی میرے سینے پر رکھی تو میں یکدم ہڑ بڑا اٹھی۔ مجھے ابا میاں کی بات یاد آ گئی کہ مسلمان بیٹیاں بہادر اور غیرت مند ہوتی ہیں ان کی حیا ہی ان کا سب کچھ ہوتی ہے۔ مجھے موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ میرا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ میں نے دل میں اللہ کو یاد کیا، کلمہ شہادت پڑھ لیا اور سوچا کہ اسطرح نہیں مرونگی، اس سے بہتر ہے لڑ کر شہید ہوجاو¿ں، میں اس فوجی کے مقابلہ میں بہت کمزور تھی لیکن غیرت مند مسلمان بیٹیاں ایسے آوارہ اور شیطان کتوں سے ڈرا نہیں کرتیں، میں کیسے برداشت کرسکتی تھی کہ میں جو سرڈھانپ کر مدرسہ جایاکرتی تھی اور دوپٹہ کبھی سینے سے نہیں سرکا تھا مگر آج ایک بے شرم اور ظالم فوجی مجھے بے لباس دیکھ رہاتھا، میں نے بندوق کی نالی کو پرے جھٹکا اور یکدم چیخ کر اس فوجی پر پل پڑی، اس وقت اسے یقین نہیں تھا کہ میں اس پر حملہ بھی کرسکتی ہوں، بس مجھے اتنا یاد ہے کہ جونہی وہ جھٹکا کھا کر گرا میں نے غسل خانے میں رکھا کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھایا اور اسکے سر پر اتنے زور سے مارا کہ وہ حرامی دوبارہ اٹھ نہ سکا لیکن اسی لمحہ غسل خانے سے باہر کھڑے فوجی نے بندوق کا دستہ میرے سر پر دے مارا اور میرا سر گھومنے لگا، اس نے مجھے اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر نکالا اور بھاری بوٹوں سے میرے جسم کو ٹھوکریں مارنے لگا، اس دوران ایک دوسرا فوجی بولا، ” اسکو ابھی نہ مارو،حرامزادی کو زندہ رکھو اور کیمپ میں لے جاو¿، یہ بھی ہمارے بچے جنم دیگی، دوسری مسلمان لڑکیوں کی طرح ، ہم نے اسکی نسل ختم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اور وہ ہم نے پورا کرنا ہے “ ، میں ٹھوکریں کھاکر بیہوش ہوگئی تھی، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میں ابھی تک بے لباس ہوں اور میری جیسی درجن بھر لڑکیاں اور بھی ہیں جن کے جسموں پر کوئی برائے نام لباس ہے ، ان کے چہروں اور بدن پر بھی زخم تھے، کوئی کراہ رہی تھی ،کوئی خاموش تھی لیکن سب اپنے اپنے زخم سہلا رہی تھیں، ان میں سے کئی لڑکیاں حاملہ تھیں، ان کے جسموں پر ہماری طرح رستے زخم نہیں تھے لیکن انکی حالت بتا رہی تھی کہ وہ تشدد کا شکار رہی ہیں، مجھے جب ہوش آیا اور میں نے پانی مانگا تو میری آواز سن کر ایک برمی فوجی آیا اور بولا ، پانی پینا ہے ، میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا ننگا سینہ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بے بس نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا تو اس نے قہقہ لگایا اور پھر اس نے وہ حرکت کی کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی عورت کی ایسی توہین نہیں ہوئی ہوگی لیکن ہم روہنگیائی مسلمان عورتیں اس کرب اور ذلت سے روزانہ گزرتی ہیں، اس خنزیر کی اولاد نے کھڑے کھڑے مجھ پر پیشاب کردیا اور کہا ، لو پی لو، الفاظ ساتھ نہیں دیتے کہ میں دنیا کی ذلیل ترین فوج کے کرتوتوں کا ذکر کروں، اس نے مجھ پر پیشاب کرنے کے بعد میری عزت کا دامن تار تار کردیا ، میں بہت چیخی ، مزاحمت کی، مدد کیلئے لڑکیوں کو پکارا، مگر وہ تو سب گونگی بہری اندھی بت کی طرح تھیں، وہ کربھی کیا سکتی تھیں کیونکہ یہ سب انکے ساتھ بھی ہوچکاتھا، میں اس رات بہت روئی، میرا بدن اور میری روح زخموں سے چور تھی، اس بے رحم درندے کے بعد نہ جانے کتنے اور درندوں نے مجھ ناتواں کو جھنجھوڑا تھا، کوئی حساب نہیں، نہ دنوں کا نہ مہینوں کا، نہ موسموں کا ، سردیوں کے موس میں انہوں نے ہم سب کو بھاری چادریں دیدی تھیں، جس سے ہم نے اپنے بدنوں کو ڈھانپ لیا، اس تمام عرصہ میں میری بڑی تمنا رہی کہ مجھے کپڑوں کا کوئی ٹکڑا ہی مل جائے جس سے پورا بدن ڈھانپ کر نماز پڑھ سکوں، لیکن میری تمنا پوری نہ ہوسکی کیونکہ نہ کپڑے ملے نہ ہی پاکیزگی کا موقع، ہر دن مجھے پلیدی میں ہی گزارنا پڑتا تھا، نو مہینے بعد میں بھی ایک کمزور سے لڑکے کی ماں بن گئی، اس روز ایک بدھ دایہ عورت آئی تھی، وہ پہلے بھی ان لڑکیوں کی ڈلیوری کیلئے آتی تھی جو بچے کو جنم دینے والی ہوتی، میرے اندر اتنی نقاہت تھی کہ اپنے بچے کو دودھ بھی نہ پلاسکی، اور میرا بچہ بھوک سے دم توڑ گیا، لیکن میں پھر بھی زندہ رہی، لیکن میرا دماغ ماو¿ف ہوگیا، دایہ کے کہنے پر فوجیوں نے ہماری بہتر غذا کا بندوبست کردیاتھا اور یہ پہلی بار اس وقت ہوا جب ایک بدھ نے آکر انہیں کہا کہ اسطرح تو ہمارے یہ بچے مر جائیں گے، ان کو کھانے کو کچھ دو، اس واقعہ کے شاید تین ماہ بعد انسانی حقوق کی ایک ٹیم ادھر آئی ، فوج اور بدھ مت رہنماو¿ں کیساتھ مذاکرات کے بعد اس نے ہمیں اس شرط پر وہاں سے نکالا کہ ہم سب عورتیں ان بچوں کو بدھ عورتوں کے سپرد کردیں، کچھ لڑکیاں تو اس پر بضد ہوگئیں جنہیں مجبوراً وہیں چھوڑنا پڑا ، اس تنظیم نے ہمیں میانمر سے نکالا اور تھائی لینڈ لے آئی، یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کے نام پر جو تنظیم ہمیں برمی فوجیوں سے آزاد کراکے لائی تھی دارصل وہ ہماری قیمت چکا کر لائی تھی، چند ماہ بعد ان لڑکیوں کو اچھا کھانا پینا دیکر صحت مند بنایاگیا اور پھر انہیں جسم فروشی کی تربیت دیکر اڈوں پر بٹھا دیاگیا، بچے کی پیدائش اور موت کے بعد مجھے ذہنی صدمہ سے نکلنے میں کچھ وقت لگا لیکن اس دوران میں پھر ایک ماہ کے حمل سے ہوگئی، لیکن جب تھائی لینڈ لائی گئی تو میرا اسقاط گرادیاگیا، جب ہوش سے سنبھلنے لگی تو ایک صحافی کی مدد سے یہ معلوم کرایا کہ اس روز ہمارے قصبہ میں کیا ہوا تھا، معلوم ہوا کہ برمی فوجیوں نے مدرسہ اور مسجد کو آگ لگادی تھی جس سے مدرسہ کے سارے بچے اور نمازی آگ میں جھلس کر شہید ہوگئے تھے، میں سوچتی ہوں کہ برمی فوجیوں کے ہاتھ میں جدیدترین اسلحہ دیکر ان میں نفرت یونہی پروان چڑھائی جاتی رہی تو کیا میانمر کی سر زمین پر کوئی مسلمان بچے گا؟ ، آج مسلمان بیٹیاں لٹ پھٹ رہی ہیں ، بن بیاہی مائیں بنائی جارہی ہیں اور جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچائی جارہی ہیں، تو کیا آنے والے وقت میں دوسرے مذاہب کے لوگ برمی فوجیوں سے بچ پائیں گے۔

چیلنجوں کا ملکر مقابلہ کرنا ہوگا،قوم کی تقدیر بدل جائیگی

لاہور (پ ر) وزےراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شرےف نے کہا ہے کہ بےرون ملک بسنے والے پاکستانی اوورسےز نہےںبلکہ وطن عزےز کے عظےم سفےر ہےں اور پنجاب حکومت نے ان کے مسائل کے فوری ازالے کے لئے اوورسےز پاکستانی کمےشن بنایاہے جس نے مختصر عرصے کے دوران بےرون ملک مقےم پاکستانےوں کے مسائل اور شکاےات کے ازالے کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں اوریہکمےشن مکمل بااختےار ہے اور اس کمیشن کے قیام سے بیرون ملک پاکستانیوں کو ان کاوہ حق دیا گیاہے جس سے وہ عر صہ درازسے محروم تھے اوراب کوئی بھی بیرون ملک مقیم پاکستان کے عظیم سفیروں کی جائیداد یا رقم پر ہاتھ صاف نہیں کرسکتا۔وہ آج لندن مےں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ایک وفد سے گفتگو کررہے تھے۔ وزےراعلیٰ محمد شہباز شرےف نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دےارغےر مےں لاکھوں کی تعدادمےںرہنے والے عظےم سفےر وں کے مسائل کے حل کےلئے قائم کےے گئے ادارے ”اوورسےزپاکستانےز کمےشن پنجاب “کی کارکردگی لائق تحسےن ہے اور جس جذبے اورمحنت کے ساتھ ےہ ادارہ کام کررہا ہے اگرملک کے دیگر ادارے اسی جذبے اورلگن کے ساتھ کام کرنے کا عہد کرلےں اورپوری قوم ےکجان دوقالب ہوکرفےصلہ کرلے توےقےنا ملک کے حالات سالوں مےں نہےں بلکہ ہفتوں مےں بدل جائےں گے اورپاکستان کو درپےش چےلنجز اورمسائل حل ہوجائےں گے۔وزےراعلیٰ نے کہاکہ قومی معےشت کی مضبوطی مےں کردارادا کرنے والے عظےم پاکستانےوںکے ادارے اوورسےزپاکستانےز کمےشن پنجاب دےار غےر مےں مقےم پاکستانےوں کی شکاےات کے ازالے کےلئے بے لوث انداز میں کام کررہا ہے اوراس ادارے نے اب تک ہزاروں اوورسےزپاکستانےوں کے مسائل حل کر کے انہےں رےلےف فراہم کےا ہے اور ان کے مسائل حل کئے گئے ہیں،بلاشبہ” اوورسےزپاکستانےز کمےشن پنجاب“ نے ٹےم ورک کی اعلی مثال قائم کی ہے ۔وزےراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان کو آج کئی مسائل کا سامنا ہے اور ےہ مسائل ہمارے اپنے پےداکردہ ہےں۔ہمےں اجتماعی بصےرت اورکاوشوں سے ملک کو مسائل کے چنگل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرناہے اورآگے بڑھنے کا یہی طریقہ ہے۔کام مشکل ضرور ہے لےکن ناممکن نہےں اگر قوم ملک کی تقدےر بدلنے کا فےصلہ کرلے اور محنت ، امانت اوردےانت کوشعار بنا نے کا عزم کرلے تو منزل کے حصول مےں کوئی رکاوٹ حائل نہےں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ اےمانداری ،سچائی اورخلوص نےت سے عوام کی خدمت کرنے والی قےادت کو عوام ہمےشہ ےاد رکھتے ہےں۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ کی سرکاری تصاویر بنانے والے فوٹر گرافر شیخ عظمت کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے تعزیتی پیغام میں سوگوار خاندان سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی روح کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے معروف پاکستانی اداکاروہدایت کار ہمایوں سعید کے والد محمد سعیدکے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ہمیشہ کیلئے ملک سے فرار یا کچھ اور ۔۔۔؟

اسلام آباد : نجی ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ نواز شریف ہمیشہ کے لیے ملک سے فرار ہو چکے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اب وطن واپس نہیں آ رہے۔ وہ اپنا پروگرام تبدیل کر سکتے ہیں لیکن وہ واپس نہیں آ رہے اور لندن سے امریکہ جا رہے ہیں ۔ لندن سے امریکہ جانے پر ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز ہوں گی اور امریکہ میں ان کا علاج بھی ہو گا۔انہوں نے بتایا کہ میاں نواز شریف کا ذہن یہ ہے کہ وہ ان دنوں میں امریکہ جائیں جب شاہد خاقان عباسی امریکہ ہوں اور وہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے سیشن میں شرکت کریں تاکہ وہاں لابنگ فورم کے ذریعے نواز شریف عالمی لیڈرز سے ملاقات کرسکیں ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی بھی نواز شریف کے ہاتھوں مجبور ہیں ۔

پاناما فیصلہ سے قبل نوازشریف نے 3بار اہم ترین ادارے کے سربراہ سے رابطہ کیوں کیا ؟

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پانامہ فیصلہ آنے سے پہلے نوازشریف نے 3 بار فوج سے رابطہ کیا جی ایچ کیو اور آبپارہ دونوں جگہوں پر رابطہ کیا۔وفاقی وزرا بھی رابطہ کیلئے گئے اور کہا کہ ہم ججز کو مینج کر لیں گے بس آپ ایک طرف رہیں۔ وہاں سے صاف جواب دیا گیا کہ ہم کسی اس معاملے سے الگ ہیں اور صرف آئین و قانون کے ساتھ کھرے ہیں۔ نوازشریف نے اس جواب کے بعد ایک بار پھر 12 اکتوبر والا قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بڑے آئینی عہدے پر بیٹھی غیر سیاسی شخصیت کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ انکشاف سینئر تجزیہ کار نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کئے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف چاہتے تھے کہ ملک میں بحران کھڑا ہو جائے جس کے باعث جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے اور انہیں سیاسی شہادت مل جائے۔ جی ٹی روڈ ریلی بھی اس پروگرام کے تحت نکالی گئی پروگرام تھا کہ جب بہت بڑی تعداد میں لوگ نکل آئیں گے تو ریلی کو موڑ کر واپس اسلام آباد جا کر وزیراعظم ہاﺅس پر زبردستی قبضہ کر لیا جائے گا تاہم ریلی کی ناکامی کے باعث سارا پروگرام چوپٹ ہو گیا۔ نوازشریف پاکستان واپس نہیں آئیں گے بلکہ لندن سے امریکہ چلے جائیں گے۔ امریکہ جانے کا وہ وقت تعین کیا جائے گا جب یو این جنرل اسمبلی اجلاس ہو گا اور وزیراعظم شاہد خاقان وہاں ہوں گے۔ امریکہ میں لابنگ فرم کی مدد سے عالمی لیڈروں سے نوازشریف کی ملاقاتیں کرائی جائیں گی یہ سارا پلان لندن میں بن رہا ہے۔ شہباز شریف لندن نوازشریف کو سمجھانے گئے ہیں۔ شہباز اور نثار اب ایک پیج پر نہیں ہیں۔ چودھری نثار نے ایک انٹرویو میں عمران خان کی تعریف کی ہے۔

این اے 120 سے اب تک کی بڑی خبر آگئی

لاہور:آل پاکستان انجمن تاجرا ن نے این اے 120کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی بھرپور حمایت کا اعلان کر تے ہوئے کہا کہ معیشت کی ترقی کیلئے سیاسی استحکام اور جمہوریت کا تسلسل نا گزیر ہے ،پاکستان کو دنیا میں باوقار ملک کے طور پر منوانے کیلئے اتفاق رائے سے ’’قومی میثاق ‘‘ مرتب کیا جائے ۔ ڈذں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر اور رکن قومی اسمبلی وحید عالم کی آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اشرف بھٹی اور دیگر تاجر نمائندوں سے ملاقات ہوئی ۔ اس موقع پر ڈپٹی میئر راؤ شہاب الدین،وسیم کاشمیری،جمشید بٹ، خواجہ ندیم،چیئرمین یونین کونسل شجابٹ ، الیاس بٹ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ ملاقات میں تاجروں کے دیرینہ مسائل کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی ۔کیپٹن (ر) محمد صفدر نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی قیادت میں ملک نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے اور آج عالمی ادارے پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے مثبت اشاریے پیش کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ہمیشہ تاجر وں کی مشاورت سے پالیسیاں تشکیل دی ہیں جن کے مثبت اور دورس نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اشرف بھٹی نے حلقہ این اے 120کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تاجر برادری نے نا مساعد حالات کے باوجود معیشت کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہے ۔اگر ہمیں دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہے تو اس کیلئے خود مختاری کو اپنانا ہوگا اوریہ کام معیشت کی مضبوط کے بغیر ممکن نہیں۔

نواز شریف کو ووٹ دینا ہے تو چوروں کو جیلوں سے نکال دیں

لاہور(خبرنگار) پاکستان تحرےک انصاف کے چےئر مےن عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے ڈاکو نوازشر ےف کو نااہل قراردےنے پر قوم سپرےم کورٹ کا شکر ےہ ادا کرتی ہے‘مر ےم نوازشر ےف کو لوگوں کو ارب پتی بننے کے گر سکھانے کےلئے لےکچر دےنے چاہےے‘حسن نواز600کروڑ کے گھر کا مالک کےسے بنا ؟موٹر سائےکل پر پھرنے والا اسحاق ڈار اور اسکے بچوں کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے عوام ”مرےم بی بی “سے سوال ضرور کرےں ‘اےن اے120مےں29ہزار ووٹوں کی تصدےق نہےں ہو رہی الےکشن کمےشن کو وارننگ دےتے ہےں وہ اس کو چےک کرےں ہم کسی صورت دھاندلی نہےں ہونے دےں گے ‘عوام نے ووٹ کے ذرےعے سپر ےم کورٹ آف پاکستان کو بتانا ہے کہ طاقتوار ڈاکوکا احتساب کر نے پر آپ کا شکر ےہ اداکرتے ہےں ‘اگر عوام نے نوازشر ےف کو ووٹ دےنا ہے تو پھر اےک ووٹ ےہ بھی ڈالنا کہ جےلوں مےں باقی چوروں کو جےلوں سے نکال دےں کےونکہ پاکستان کی جےلوں مےں سارے چوروں کی چوری نوازشر ےف کی لندن کے اےک محل سے بھی کم ہے جب اس ملک کا وزےر اعظم ڈاکہ مارتا ہے تو وہ نےب مےں کر پٹ آدمی کھو بےٹھتا ہے اور آصف زدراری جےسا ڈاکوبھی بچ جاتا ہے ‘موجودہ چےئر مےن نےب خود کر پٹ ہے ‘پنجاب مےں پولیس بری نہےں (ن) لےگ نے سےاسی مداخلت سے اس کو تباہ کردےا ہے ‘(ن) لےگ کے غنڈے 2بچوں کی ماں کو سڑ ک پر مارتے رہے مےں پنجاب پولےس سے پوچھتاہوں اس کوشرم کےوں نہےں آئی ؟کارکنا ن ڈاکٹر ےاسمےن راشد کا بھر پور ساتھ دےں دھاندلی نہےں ہونے دینی انشاءاللہ ڈاکٹر ےاسمےن راشد کامےاب ہوں گی۔وہ لاہورعلاقہ مزنگ مےں ڈاکٹر ےاسمےن راشد کے انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے جبکہ اس موقعہ پر چوہدری محمدسرور ‘ےاسمےن راشد ‘شفقت محمود ‘عبدالعلےم خان ‘مےاں اسلم اقبال سمےت تحر ےک انصاف کے کارکنوں اور قائدےن کی بہت بڑی تعداد بھی شر ےک ہوئی عمران خان نے اپنے خطاب مےں کہا کہ 17ستمبر کو جو لاہور کا الےکشن ہونے جا رہا ہے ےہ عام الےکشن نہےں ےہ پاکستان کے مستقبل کا فےصلہ ہونے جا رہا ہے مےں ڈاکٹر ےاسمےن کی مہم مےں اس لےے آےا ہوں کہ مےں پاکستان کے کمزور طبقے کو پےغام دےنے آےا ہوں اور لاہور کے پسے ہوئے لوگوں کو بتانا چاہتا ہے کہ پاکستان مےں طاقتوار ہمےشہ جےتا ہے اور پاکستان کی عدالتوں مےں کمزور کو کبھی انصاف نہےں ملا اور پاکستان مےں ہر طاقتوار جو مر ضی ناجائز کام کر سکتا ہے اور کمزور اپنا جائز کام بھی پےسے دےئے بغےر نہےں کرواسکتا۔ اےن اے120کے الےکشن مےں ےہ فےصلہ ہوگا کہ عوام نے اپنے ووٹ سے پاکستان کی عدلےہ کو ےہ بتانا ہے کہ سپر ےم کورٹ ہم کتنی دےر سے انتظار کر رہے تھے کہ آپ کب طاقتوار کا احتساب کر ےں گے اور سپر ےم کورٹ سے کہےں گے کہ آپ نے پاکستان کے سب سے بڑے ڈاکو کو نااہل قرار دےدےا ہے آپ کا شکر ےہ اور عوام کے ووٹ سپر ےم کورٹ کو مضبوط کر ےگی ہم سپر ےم کورٹ سے کہتے ہےں کہ پاکستان چوروں‘ ڈاکوﺅں اور قاتل اسمبلےوں مےں نہےں جےلوں مےں ہونا چاہےے اور انکا ٹھکانہ اڈیلہ جےل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مےں سائےکل ‘بھےنس چور جےلوں مےں اور بڑے چوروں اور ڈاکو اسمبلےوں مےں جاتے ہےں اور پولےس اےسے لوگوں کی حفاظت کر تی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا ووٹ ججز کو حوصلہ اورطاقت دےں گی ہم نئے پاکستان مےں داخل ہو رہے ہےں پاکستان کا سب سے بڑا ڈاکو سڑکوں پر اس لےے کہتا پھر تا ہے کہ مجھے کےوں نکلا کےوں وہ خود کو طاقتوار سمجھتا ہے اوراس کا خےال تھا کہ اس کو کوئی نہےں نکال سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ شےر کو ووٹ دےنے والے اس شخص کو ووٹ ڈالےں گے جس کو سپرےم کورٹ اور جے آئی ٹی نے اےک سال سے زائد کا وقت دےا مگر وہ لندن مےں محل خر ےدنے اور دولت باہر لے جانے کا حساب نہےں دے سکے بلکہ اےک نہےں کئی بارجھوٹ بولے اور پھر ےہ قطر ی خطے لے آئے سب جانتے ہےں کہ قطر ی شہزادہ خود اےک بڑا فراد ہے پاکستان مےں کوئی طاقتوار کبھی نہےں پکڑا گےا اس لےے نوازشر ےف کہتے ہےں مجھے کےوں نکالا ؟اگر عوام نے نوازشر ےف کو ووٹ دےنا ہے تو پھر اےک ووٹ ےہ بھی ڈالنا کہ جےلوں مےں باقی چوروں کو جےلوں سے نکال دےں کےونکہ پاکستان کی جےلوں مےں سارے چوروں کی چوری نوازشر ےف کی لندن کے اےک محل سے بھی کم ہے جب تک اس ملک کا وزےر اعظم ڈاکہ مارتا ہے تو وہ نےب مےں کر پٹ آدمی کو بےٹھتا ہے۔ نوازشرےف اور آصف زرداری اپنے چوری بچانے کےلئے نےب کے موجودہ چےئر مےن نےب کو لائے اور نےب کا چور خود کر پٹ ہے اور جب چےئر مےن نےب کر پٹ ہے تو آصف زرداری جےسے ڈاکوں بھی بچ جاتے ہےں اور (ن) لےگی کر پٹ وزراءکو بھی کوئی نہےں پکڑتا۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لےگ کا لاہور مےں ووٹ دےنا ملک مےں چوری کی حماےت کے مترادف ہوگا جب وزےراعظم کر پٹ ہوتا تو ملک مےں ادارے تباہ ہوجاتے ہےں لندن اور جاپان مےں بہت سی تباہی مگر وہاں ادارے مضبوط تھے جسکی وجہ سے وہ ترقی ےافتہ ہے جو نقصان ملک کو کسی بمبار ی سے نہےں ہوتا وہ کر پٹ وزےر اعظم پاکستان کو پہنچاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ےاسمےن کا وفاقی حکومت ‘پنجاب حکومت ‘پولےس اور (ن) لےگ کے غنڈوں کے ساتھ مقابلہ ہے پولےس مر ےم بی بی کی سپورٹ کر رہا ہے اور مےئر کا سٹاف بھی (ن) لےگ کو سپورٹ کر رہا ہے مگر ڈاکٹر ےاسمےن کامےاب ہوگی اگر لوگ اب لوگ سامنے نہےںا ٓرہے تو اس کی وجہ ےہ ہے کہ عوام (ن) لےگ کی انتقامی کارروائےوں سے ڈرتے ہےں عوام ووٹ مانگنے کےلئے آنےوالے (ن) لےگےوں سے سوال کر ےں۔ نوازشر ےف اور اسحاق ڈار کے بچوں نے کون سا کاروبار کےا کہ انکے بچے اربوں پتی بن گے۔ انہوں نے کہا کہ لندن کی سالانہ آمدن 50سلامی ممالک سے زےادہ آمدن ہے (ن) لےگ سے پوچھوں بارک اوبامہ اور بش کے بچے کےوں اربوں پتی بن گئی ان سے پوچھوںحسن نواز شر ےف جس گھر مےں لندن مےں رہتا ہے اسکی 600کروڑ قےمت ہے مر ےم نوازسے پوچھوں حسےن نوازکےسے ارب پتی بن گےا مےں 60لاکھ کا لندن مےں قر ضے سے فلےٹ لےا پاکستان اور لاہورکے شہرےوں کا پےسہ چوری ہوکے پاکستان سے باہر گےا اسحاق ڈار چند سال پہلے موٹرسائےکل پھرتا آج وہ اور اسکے بچے اربے پتی بن چکے ہےں ۔مر ےم نواز شر یف کو لوگوں کو ارب پتی بننے لے لےکچر دےنے چاہےے لوگوں کو گر بتاﺅں لاہور اور پاکستان کے عوام بڑے بڑے ڈاکوﺅں سے تنگ آچکا ہے کےونکہ ےہ اقتدار مےںا ٓنے سے پہلے غرےبوں کے مسائل کے حل کی بات کرتے ہےں مگر اقتدار مےں آکر ڈاکے مارتے ہےں مےں لاہورپولےس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ 2بچوں کی ماں کو جب (ن) لےگ کے غنڈوں نے جب سڑکوں پر گھسٹےا تو آپ کو شرم کےوں نہےںا ٓئی ؟کے پی کے مےں پولےس شفاف ہونے کی وجہ سے وہاں پر جرائم کم ہوئے ہےں اور اگر وہاں کوئی واقعہ ہوتا تو پولےس انکو پکڑ کر جےل مےں ڈال دےتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مےں ہونےوالے2سروں مےں اس بات کی تصدےق ہوگئی ہے کہ خےبر پختونخواہ مےں پنجاب کے مقابلے مےں5فےصدغر بت کم ہوئی ہے اس کی وجہ ےہ ہے کہ وہاں پولےس آزاد ہوئی ہے اورپولےس مےں تبدےلی لےکر آئے ہم شہبا زشر ےف جےسی تبدےلی نہےں لائے شہبازشریف پولےس مےں تبدےلی لائے ہےں اورانکی وردی تبدےل کردی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے مےں65فےصد سےاحت مےں اضافہ ہوا ہے ٹر ےلےن درخت پروگرام سے5لاکھ کو روزگار ملا ہے اور لوگوں کوساڑھے5پانچ لاکھ صحت انشورنس دی ہے اور ڈےڑھ لاکھ بچے پرائےویٹ سکولوں مےں آئے ہےں۔ (ن) لےگ نے6بارےاں لےں مگر اےک ہسپتال اےسا نہےں بناےا جس مےں کلثوم نوازشرےف کا علاج ہوجاتا نوازشر ےف ‘شہبا زشر ےف اور انکے بچوں کا جب علاج ہوتا ہے تو ےہ ملک سے باہر چلے جاتے ہےں مےں نے2دفعہ اپنا علاج شوکت خانم سے کرواےا مجھے باہر جانے کی ضرور ت نہےں پڑی لاہور مےں لوگوں کو پےنے کا صاف پانی مےسر نہےں (ن) لےگ نے سےاسی مداخلت کر کے پولےس کو تباہ کرد ےاہے ہم ےہ نہےں کہتے ہےں پولےس بری ہے اصل مےں پولےس کو (ن) لےگ نے تباہ کردےا ہے وکلاءکے کنونشن مےں (ن) لےگ پولےس والوں کو کالے کوٹ پہنوائے اور نوازشر ےف جم خانہ کلب کی عادت سے باز نہےں آئے آج بھی اےمپائر کو ساتھ ملا کر ہی مےچ کھےلتے ہےں ۔29ہزار ووٹوں کی تصدیق نہےں ہوئی تصاوےر والی ووٹر لسٹےں دی جائے ہم الےکشن کمےشن کو پہلے سے کہہ رہے ہےں وہ شفاف انتخابات کروائے 2013ءمےں تو ہمےں پتا ہی نہےں چلا کہ دھاندلی کےسے ہوئی مگر اب قوم 2013والے انتخابات قبول نہےں کر ےں گی ۔ انہوں نے کہا کہ 17ستمبر کو پاکستان کے مستقبل کا فےصلہ ہے کارکنوں نے (ن) لےگ کوکسی صورت دھاندلی نہےں کر نے دےنا اور ڈاکٹر ےاسمےن کا بھر پور ساتھ دےنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور این اے 120 میں نامزد امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ اگر مجھے حلقے کے لوگوں نے منتخب کر لیا تو میں اتنا شور مچاﺅں گی کہ کم از کم حلقے میں صاف پانی تو ضرور آ جائے گا ،این اے 120 کے لوگوں کو عمران خان کا مشکور ہونا چاہئے کہ اس کی وجہ سے مسلم لیگ ن نے اس حلقے میں نالیاں اور گند صاف کرانا شروع کر دیا ہے۔قرطبہ چوک مزنگ میں تحریک انصاف کے بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ عمران خان کی وجہ سے اب این اے 120 میں گلیاں بنائی جا رہی ہیں اور نئے ٹرانسفارمر لگائے جا رہے ہیں ،یہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی ہے لیکن میں نے لوگوں کو کہا ہے کہ شکر کریں کہ عمران خان کی وجہ سے اب صوبائی حکومت نے حلقے کے وہ کام کرانا شروع کر دیئے ہیں جنہیں وہ کئی سال سے بھولے بیٹھے تھے۔ انہوں نے 4 سال حلقے میں کوئی کام نہیں کیا لیکن اب شروع کر دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے کامیاب کرایا گیا تو میں اتنا شور کروں گی کہ کم از کم علاقے میں پینے کا صاف پانی تو آ ہی جائے گا ،مجھے ڈور ٹو ڈور کمپین کرتے ہوئے شرم اور حیرت محسوس ہوتی ہے کہ کیا یہ ملک کے وزیر اعظم کا حلقہ ہے ؟جہاں نہ پینے کا صاف پانی ہے نہ سکول اور نہ ہی صحت کی کوئی بنیادی سہولت نہیں ،مریم نواز کو حلقے کے لوگوں سے ووٹ مانگتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔