گوا (اے این این) بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان پردہشت گردوں کی حمایت کا روایتی الزام دہراتے ہوئے کہاہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ملک دہشت گردی کی” ممتا“ ہے جہاں نہ صرف دہشت گردوں کو پناہ ملتی ہے بلکہ ایک ایسی ذہنیت پروان چڑھائی جارہی ہے جو سیاسی مقاصدکے حصول کےلئے دہشت گردی کو جائز قرار دیتی ہے، آج کی دنیامیں اگرہم اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو سیکورٹی اور انسداددہشت گردی کےلئے تعاون ناگزیر ہے۔ اتوار کو گوا میں برکس سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نریندرمودی نے کہا کہ ہمارے خطے میں دہشت گردی امن، استحکام اور ترقی کےلئے سنگین خطرہ ہے جس نے ہماری ترقی اور اقتصادی خوشحالی کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا نام لئے بغیرالزام عائد کیا کہ المیہ یہ ہے کہ بھارت کے پڑوس میں ایک ملک دہشت گردی کی ممتا ہے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات کی کڑیاں یہی ملتی ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک نہ صرف دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا ہے بلکہ ایک ایسی ذہنیت کو پروان چڑھاتا ہے جو سیاسی مفادات کے حصول کےلئے دہشت گردی کو جائز قرار دیتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے حوالے سے مخصوص سوچ لاحاصل اور نقصان دہ ہے، اس ناسور کے خلاف ردعمل مخصوص نہیں ہونا چاہیے دہشت گردی کی سیاسی ومالی حمایت، دہشت گردوں کو ہتھیاروں اور تربیت کی فراہمی منظم طریقے سے ختم کی جانی چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم نے کہاکہ دہشت گردی اور اس کی حمایت کرنے والوں سے نمٹنا برکس کی ترجیح ہونی چاہیے، برکس کے رکن ممالک دہشت گردی کے ناسورکے خاتمے کےلئے ایک جتھا ہو کر اقدامات کرےں۔ انہوں نے کہاکہ آج کی دنیا میں اگر ہم اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو سیکورٹی اور انسداددہشت گردی کے شعبوں میں تعاون ناگزیرہے۔ دہشت گردی کے خلاف ردعمل جامع ہونا چاہیے اور ملکوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس سے نمٹنا چاہیے دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے افراد اور تنظیموں کےخلاف سخت اقدامات کی ضرورت ۔انہوں نے دہشت گردی کے بارے میں جامع کنونشن کے مسودے کی جلد منظوری دینے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ عالمی معیشت کی بحالی کےلئے ایک واضح لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔بھارت کی طرف سے حال ہی میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پیرس معاہدے کی توثیق کاذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم ترقی اورماحولیاتی تبدیلی کے درمیان توازن قائم کرنے کےلئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے سائبرکرائم اور قراقی سے بھی نمٹنے پر زور دیاہے۔ برکس کے رکن ملکوں میں برازیل، روس چین، بھارت اور جنوبی افریقہ شامل ہیں یہ تنظیم دوہزار نو میں قائم ہوئی تھی۔ اس گروپ کی تشکیل کا مقصد عالمی اقتصاد میں توازن قائم کرنا اور مغربی ملکوں کے اقتصادی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ برکس کانفرنس میں برازیل کے صدر مائیکل ٹیمر، روس کے صدر ولادی میر پوتن، انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی، چین کے صدر شی جن پنگ اور جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما شرکت کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات گذشتہ چند ماہ سے شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔ گذشتہ ماہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں انڈین فوج کے کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے میں 19 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے پاکستان پر ان حملہ آوروں کی سرپرستی کا الزام لگایا تھا۔ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا ماضی میں بھی بغیر ثبوت کے الزام تراشی کرتا رہا ہے اور اس قسم کی الزام تراشی سے اپنے زیرانتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی دگرگوں صورتحال سے عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مودی کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف برکس کو مل کر آواز اٹھانے اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا نے اس کے بعد پاکستان کے زیرِانتظام کشمیری علاقے میں ‘سرجیکل سٹرائیکس’ کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا جسے پاکستان نے یکسر مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر انڈیا نے ایسا کوئی اقدام کیا تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے چین کے قریبی تعلقات کے سبب انڈیا برکس کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف اس سلسلے میں کوئی چیز مشترکہ بیان شامل کرنے میں شاید ہی کامیاب ہو سکے۔ سنیچر کو برکس اجلاس سے قبل چین کے صدر شی جن پنگ نے مودی کے ساتھ جو دو طرفہ بات چیت کی تھی اس میں بھی دہشت گردی پر کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔
All posts by Daily Khabrain
عالیہ بھٹ بھی فلم “اے دل ہے مشکل” کا حصہ بن گئیں
ممبئی(شوبز ڈیسک) اداکارہ عالیہ بھٹ بھی مداحوں کو بے انتہا انتظار کرانے والی فلم “اے دل ہے مشکل” کا حصہ بن گئیں۔ فلم کی بہترین کاسٹ کے باعث مداحوں کا فلم کے لئے انتظار بڑھتا ہی جا رہا ہے جب کہ فلم کی ریلیز کے راستے میں متعدد مشکلات بھی بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ فلم میں ایشوریا رائے، رنبیر کپور، شا ہ رخ خان، فواد خان، انوشکا شرما پہلے ہی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت میں سینما مالکان کی نمائندہ تنظیم دی سینما اونرز ایگزیبیشن ایسو سی ایشن آف انڈیا نے بھارت کی چارریاستوں میں فلم “اے دل ہے مشکل” کو سنیما میں لگانے پرپابندی عائد کردی ہے۔
پروڈیوسر ساجدناڈیا والا بھی پاکستانی فنکار کے حق میں بول پڑے
نئی دہلی (شوبزڈیسک)بھارتی انتہا پسندوں سے خود بھارتی بھی تنگ آگئے، پاکستان مخالف فلم ’فینٹم‘بنانے والے ساجد نڈیاڈ والا بھی پاکستانی فنکارکے حق میں بول پڑے۔ساجد نڈیاڈ والا نے فواد خان کی فلم ’اےدل ہے مشکل‘ کی مخالفت کو افسوسناک قراردے دیا،بالی وڈ اداکار ورن دھون نے بھی ساجد نڈیاڈ والا کے بیان کی حمایت کی ہے۔کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ کہتے ہیں کہ بھارت میں پاکستانی فنکاروں کا جنونیت سے پیچھا کیاجارہا ہے،بی جے پی رہنما اور نامور اداکار پاریش راول نے بھی فلموں کی نمائش روکے جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سنی لیون کی کامیابی کے پیچھے سلمان کا ہاتھ،حیران کن انکشاف
ممبئی (شوبز ڈیسک) یہ کوئی نہیں جانتا کہ آخر سنی لیونی نے اپنے ماضی کی دنیا کو خیرباد کہہ کر بالی ووڈ میں قدم رکھنے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اور اس میں کس کا ہاتھ ہے؟ خیر! اداکارہ نے خود ہی اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے اور یقینا آپ بھی اس شخص کے بارے میں جان کر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔تفصیلات کے مطابق سنی لیونی نے بھارتی ٹی وی ” بگ باس“ میں شرکت کی اور یہیں سے ان کی زندگی تبدیل ہونے کا سلسلہ شروع ہوا اور وہ اس کا سہرا سلمان خان کے سر باندھتی ہیں۔ گزشتہ رات سلمان خان نے اپنے ٹوئٹر اکاو¿نٹ پر ایک تصویر جا ری کی جس میں وہ بگ باس کے گھر میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ سنی لیونی نے یہی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ”خوش رہو! آپ نے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدلی ہیں، خدا آپ کو سلامت رکھے۔
مقبوضہ کشمیر ، بھارتی بربریت کو 100 روز مکمل …. 100 سے زائد کشمیری شہید
سری نگر( ویب ڈیسک ) مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی بربریت کی نئی لہر کو 100 روز مکمل ہو گئے لیکن وادی کے حالات بدستور کشیدہ ہیں جب کہ حالیہ کشیدگی میں قابض فوج کے ہاتھوں اب تک 110 کشمیر شہید اور 12 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 8 جولائی کو بھارتی فوج کے ہاتھوں نوجوان حریت پسند رہنما برہان مظر وانی کی شہادت نے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دی ہے اور ہربان وانی کی شہادت کے بعد سے شروع ہونے والی جدو جہد کو 100 روز مکمل ہو چکے ہیں۔برہان مظفر وانی کے جنازے میں لاکھوں کشمیریوں نے شرکت کی اور شہید کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا، اس کےساتھ ہی پوری مقبوضہ وادی میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اور کشمیری نوجوان سر پر کفن باندھ کر قابض بھارتی فوج کے سامنے ڈٹ گئے۔بھارتی فوجیوں نے احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر پیلٹ گن سے چھروں کی بوچھاڑ کی تو ایک ہزار سے زائد کشمیری بینائی سے محروم ہو گئے، ان میں آدھی سے زیادہ تعداد 20 سال سے کم عمر نوجوانوں کی ہے، بھارتی فوج نے تو معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا، شہداء میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔بھارتی فوج نے کرفیو نافذ کر کے مقبوضہ وادی کو جیل میں تبدیل کر دیا ہے، وادی میں خوراک اور دواؤں کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے جب کہ موبائل اور انٹرنیٹ تک رسائی بھی بند ہے، کشمیری بچے اسکول جانے سے بھی قاصر ہیں جس کی وجہ سے ان ک تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یاسین ملک سمیت بڑی تعداد میں حیرت پسند کشمیری رہنما نظر بند ہیں لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ حریت ماند نہیں پڑ رہا جس نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں تک حرام کر رکھی ہیں اور بھارتی حکومت کشمیر سے عالمی توجہ ہٹانے کے لئے آئے روز پاکستان کے خلاف نت نئے پروپیگنڈے کر رہی ہے، کبھی اڑی حملے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے تو کبھی سرجیکل اسٹرائیک کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے
پولیس نے مرغی کو گرفتار کر لیا ۔۔۔۔۔
سکاٹ لینڈ ( ویب ڈیسک ) دنیا بھر کے ممالک میں شہریوں کے لئے کچھ قوانین بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان پر عمل کرکے ایک کارآمد شہری بن سکیں جب کہ خلاف ورزی پر انہیں گرفتار بھی کرلیا جاتا ہے لیکن اسکاٹ لینڈ میں تو ہوا کچھ الگ ہی اور وہاں مرغی کو قانون پر عمل نہ کرنے پر گرفتار کرلیا گیا۔اسکاٹ لینڈ کے شہرڈنڈی میں ایسٹ مارکیٹ گیٹ کی ایک مصروف سڑک کو رش کے ٹائم پرایک مرغی عبورکرنے کی کوشش کررہی تھی کہ اس کے راستے میں آنے والی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی کے مالک نے آؤ دیکھا نا تاؤ اورپولیس کو ہی فون کرڈالا۔گاڑی کے مالک کی شکایت پرپولیس فوری طورپرپہنچی جہاں گاڑی کے مالک کا کہنا تھا کہ مرغی کے اس مصروف سڑک کو پارکرنے کے باعث بہت سے لوگوں کو دشواری پیش آئی اس لیے ہم نے مرغی کو پکڑ لیا تھا جس کے بعد پولیس مرغی کو گرفتارکرکے پولیس اسٹیشن لے گئی۔پولیس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پراپنے موقف میں کہا کہ گرفتارکی جانے والی مرغی کے مالک کی تلاش کے لیے جانوروں کی تنظیم سے رابطہ کرلیا ہے اورمالک کے نہ ملنے تک اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اس ادارے کو سونپ دی گئی ہے۔پولیس کی جانب سے مزید یہ بھی اپیل کی گئی ہے کہ اگرکسی کو اس مرغی کے مصروف ترین سڑک پارکرنے کی وجہ معلوم ہوتو وہ رابطہ کر کے آگاہ کریں۔
بھارت نے سمگلنگ کے الزامات لگا دئیے، اہم اقدامات کر لے گئے
لاہور(خصوصی رپورٹ)بھارت کی جانب سے ہیروئن سمگلنگ کے جھوٹے الزامات لگائے جانے کے بعدریلوے پولیس حکام نے پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی ٹرین سمجھوتہ ایکسپریس اور مال بردار ٹرینوں کی چیکنگ اور تلاشی کا طریقہ کار انتہائی سخت کر دیا ہے اور کلیئرنس ملنے کے بعد پسنجر اور مال بردار ٹرینوں کو بھارت کے لیے روانہ کیا جاتا ہے ۔ذرائع کے مطابق پاکستان سے سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کی روانگی سے قبل واشنگ لائن میں پوری ٹرین کی سپیشل برانچ کے سراغ رساں کتوں اور بم ڈسپوزل کے ذریعے تلاشی لی جاتی ہے جس کے بعد ٹرین کو پلیٹ فارم پر لایا جاتا ہے ، جس مسافر کے پاس پاسپورٹ ہوتا ہے صرف اسے پلیٹ فارم پر آنے کی اجازت دی جاتی ہے مسافروں کے ٹرین میں سوار ہونے کے بعد تمام بوگیوں کے دروازے لاک کر دئیے جاتے ہیں اور ہر بوگی کے دروازے پر پولیس اہلکار تعینات کیا جاتا ہے تا کہ کوئی بھی غیر متعلقہ شخص ٹرین میں سوار نہ ہو سکے ، اسی طرح واہگہ ریلوے سٹیشن پر بھی کسٹم انٹیلی جنس کے ذریعے تمام بوگیوں کی دوبارہ تلاشی لینے کے بعد ٹرین کو اٹاری کے لیے روانہ کیا جاتا ہے ۔علاوہ ازیں لاہور ریلوے سٹیشن سے جو مال گاڑی سامان لے کر واہگہ کے راستے بھارت جاتی ہے پہلے مذکورہ ٹرین کے مال گودام میں کسٹم ،اے این ایف اور ریلوے پولیس کے ذریعے تمام ریکس چیک کئے جا تے ہیں اور ٹرین کے ویکیوم پائپ کی بھی چھان پھٹک کی جاتی ہے جس کے بعد مال گاڑی کی تمام بوگیوں کو ریلوے عملے کی موجودگی میں سیل کیا جاتا ہے اور مال گاڑی ٹرین کی نگرانی بھی ریلوے پولیس کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل بھارتی ریلوے حکام نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے پاکستان کی جانب سے آنے والی مال گاڑی کی ایک بوگی سے ہیروئن بر آمد کی ہے ،اسی طرح ایک بار پھر یہ الزام لگا دیا کہ انجن کے خفیہ خانوں سے ہیروئن بر آمد کی گئی ہے لیکن بھارتی کسٹمز حکام الزام ثابت نہ کر سکے ۔ ٹرین تلاشی
ازبکستان کی شہزادی ،اقتدار کا نشہ، خوفناک انکشافات
لاہور (خصوصی رپورٹ) فیشن اورسٹائل کی دنیا پر ا±س کا راج تھا۔ وہ پاپ گلوکارہ کے طور پر بھی اپنی پہچان بناچکی تھی۔ کئی سماجی تنظیموں کی اس سربراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ازبکستان میں متعدد ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیوسٹیشنز ا±سی کے تھے۔ یہ نشریاتی ادارے اسے ایک مخیر خاتون، علم و فنون کی سرپرست کے طور پر مشتہر کرتے تھے لیکن اب یہ بند ہوچکے ہیں۔ ملک اور بیرونِ ملک ا±سے ایک کام یاب بزنس وومن کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ مواصلات، ٹرانسپورٹ، انٹرٹینمنٹ اور فیشن انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے وہ ازبکستان کی امیر ترین خواتین میں شمار ہونے لگی تھی۔یہ ازبکستان کے مرحوم صدر اسلام کریموف کی سب سے بڑی بیٹی گلنارا کریمووا کا تذکرہ ہے۔ اسلام کریموف ازبکستان کا صدر ہونا گلنارا کی پہچان کے متعدد کام یاب حوالوں کا اصل سبب ہے۔اسلام کریموف اپنی بیٹی پر بے حد اعتماد کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے عوام میں اپنا اثر برقرار رکھتے ہوئے ہر سطح پر پزیرائی کے متمنی تھے۔ انہوں نے 1991ءمیں صدر کا منصب سنبھالا تھا۔ اسلام کریموف پر الزام تھا کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے دھاندلی اور جبر کا سہارا لیتے رہے ہیں۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ان پر ملک میں فرد کی آزادی سلب کرنے اور حقوق کی پامالی کا الزام لگاتی رہیں۔ انہوں نے ازبکستان میں میڈیا پر پابندیاں عائد کیں ۔ دوسری طرف صدر کی بیٹی ہونے کے ناتے گلنارا کو ملک میں احتساب کا کوئی ڈر نہ تھا۔ چند ماہ قبل تک یہ کہا جاتا تھا کہ گلنارا سیاسی میدان میں اپنے والد کی جگہ لے گی لیکن سب کچھ بدل گیا۔ طاقت اور اختیارات چھن گئے ۔مقامی میڈیا کے مطابق فروری 2014ء میں41 سالہ گلنارا کے ساتھ اس کی 15 سالہ بیٹی ایمان اور رستم مادوعمروف کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس کی نظر بندی کے احکامات اس وقت ازبک صدر اور گلنارا کے والد اسلام کریموف نے دیے۔ رستم گلنارا کا بزنس پارٹنر ہے اور اسے گلنارا کا بوائے فرینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ گلنارا کی عام حلیے میں ایک تصویر اور خط منظرِ عام پر آیا تو اس کی نظر بندی کا معاملہ دنیا بھر میں موضوعِ بحث بن گیا۔’ ’ازبکستان کی شہزادی“ اس حال تک کیسے اور کیوں پہنچی؟گلنارا کی من مانیوں اور بعض سرگرمیوں نے ملک کی اہم سیاسی اور کاروباری شخصیات اور اعلیٰ سرکاری حکام کو اس کے خلاف کردیا۔ طاقت کے نشے میں چ±ور گلنارا دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے سے اسے یہ احساس ستانے لگا تھا کہ اس کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس نے سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے مخالفین اور ملکی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے دوران اپنے ”سیاسی عزائم“ کا اظہار بھی کیا تھا۔اب اس کا ٹوئٹر اکاﺅنٹ بند ہوچکا ہے۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ میں اس کی سماجی خدمات اور دیگر شعبوں میں کوریج بھی دم توڑ چکی ہے۔ گلنارا کے حمایتی ٹی وی چینلز اور ریڈیوسٹیشنز کو بندش کے ساتھ مالی بدعنوانیوں کی تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔اپنی گرفتاری سے چند ہفتے قبل گلنارا نے ایک ٹویٹ میں الزام عائد کیا کہ اس کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے، جس کی سرپرستی ملکی دفاعی ادارے کے سربراہ رستم عنایتوو کررہے ہیں۔ گلنارا کے مطابق وہ صدر کے عہدے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور صدارتی انتخابات کے لیے مہم شروع کرچکے ہیں۔2012ءتک سیاست اور سماج کی انتہائی بااثر گلنارا کے بارے میں مشہورِ زمانہ ”وکی لیکس“ نے بھی کئی انکشافات کیے، جن کے مطابق وہ لامحدود اختیارات کی خواہش کے ساتھ اپنے اثرورسوخ کے بل پر مقامی بزنس مینوں سے ان کے کاروبار ہتھیانے کے علاوہ سرمایہ کاروں کو ڈرا دھمکا کر اپنے تابع رکھنا چاہتی تھی۔اس نے مختلف ازبک اداروں کے حکام کو اہم امور میں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے اور اقدامات کرنے پر مجبور کیا اور ملکی سلامتی سے متعلق اہم اداروں اور سکیوریٹی سربراہان کو بھی’ ’ہدایات“ دینے لگی، جس کی وجہ سے وہ اس کے خلاف ہوتے چلے گئے۔ دوسری جانب ازبک عوام کی اکثریت کے نزدیک گلنارا ایک مفاد پرست اور لالچی عورت ہے۔ گلنارا ایک خط کے ذریعے اپنے حالات دنیا کے سامنے لانے میں کام یاب ہوگئی۔ اس خط میں اپنے خاندان کے افراد اور والد کے قریبی ساتھیوں پر الزام عائد کرتے ہوئے گلنارا نے کہا کہ ان لوگوں نے اسے ایک گھر میں قید کردیا ہے اور اس پر تشدد کیا جارہا ہے۔ گلنارا لکھتی ہے: مجھے مارا گیا ہے، میں زبردست نفسیاتی دباﺅ میں ہوں، میرے بازوﺅں پر زخموں کے نشان گنے جاسکتے ہیں۔ مجھے روزانہ دھمکیاں ملتی ہیں اور جس گھر میں مجھے رکھا گیا ہے اس میں ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں۔گلنارا نے یہ بھی لکھا کہ وہ بہت بھولی تھی اور سمجھتی تھی کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ اپنے والد سے متعلق گلنارا کا کہنا ہے کہ قدرت جب کسی کو سزا دینا چاہتی ہے تو وہ اس سے عقل اور ہوش چھین لیتی ہے۔ اس کے والد بھی پاگل ہوچکے ہیں۔ ورنہ کوئی بھی اپنی اولاد اور اس کی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتا۔ گلنارا نے اس خط میں خود کو مظلوم اور معتوب ظاہر کیا ہے لیکن اس کے مخالفین اسے قدرت کا انتقام بتارہے ہیں۔گلنارا کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والوں کی فہرست طویل ہے اور ابھی بہت سے حقائق منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں۔ ایک ازبک، افغان بزنس مین کا کہنا ہے کہ گلنارا نے کئی لوگوں سے ان کی جمع پونجی چھین لی اور اِس کی طرح کئی سرمایہ کار ازبکستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔اس کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی سے متعلق ادارے کے چیف رستم عنایتوو صدر اسلام کریمووا پر دباﺅ ڈال رہے تھے کہ وہ گلنارا سے باز پ±رس کریں۔ اس کا کہنا ہے کہ سکیوریٹی حکام ازبکستان کے بڑے کاروباری افراد کو ایسے بزنس گروپ میں اپنی کمپنی کے انضمام پر مجبور کرتے تھے، جس کی مالک دراصل گلنارا ہوتی تھی۔ 2009ءمیں ازبکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں کامیابی سے آگے بڑھتے ہوئے’ ’اسکائی ٹیل“ نامی ادارے کے بانی اور امریکی بزنس مین نے سفارت خانے میں شکایت داخل کی کہ گلنارا کے حامیوں نے اس کاروبار میں ا±سے شریک کرنے پر مجبور کیا اور انکار کرنے پر متعلقہ سرکاری ادارے کی جانب سے کمپنی کے لیے فریکوئنسی جام کردی گئیجس کے بعد وہ ادارہ بند ہوگیا۔ ایک ازبک صحافی شاہدہ کے مطابق گلنارا بے لگام ہوچکی تھی۔ وہ اپنے باپ کے اقتدار کی جڑیں کاٹنے جارہی تھی اور اپنی ماں اور بہن پر سرِ عام الزامات عائد کرتی تھی۔ ان کے لیے اب اسے خاموش کروانا ضروری تھا۔ صدارتی آفس کے ایک اہلکار کمال الدین 2007ءمیں پیرس چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلنارا غیرملکی اور ملکی سرمایہ کاروں کے بزنس ہڑپ کر رہی تھی۔ کاروباری شخصیات کو انکار کی صورت میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں اور ٹیکس کی عدم ادائیگی کے الزامات کے تحت جھوٹی تحقیقات اور سزاﺅں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اس کے علاوہ ان کے اثاثے منجمد کردیے جاتے اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں جائیداد اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ گلنارا کے لیے مشکلات کا آغاز روسی موبائل فون کمپنی ایم ٹی ایس کی وجہ سے ہوا۔ اس کمپنی کو ٹیکس فراڈ کے الزامات کے ساتھ دیگر مالی بدعنوانیوں میں ملوث کیا جارہا تھا لیکن ایم ٹی ایس کے سربراہ نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اپنے خلاف اقدامات کو غیرقانونی اور ناجائز طریقے سے کاروبار ہتھیانے کی کوشش قرار دیا۔ انہی دنوں سوئس حکام’ ’زیرومیکس‘ ‘نامی ایک کمپنی کے خلاف بعض الزامات کی تحقیق کررہے تھے۔ اس سوئس رجسٹرڈ کمپنی کا بانی ایک ازبک بزنس مین غفور رحیموف بتایا جاتا ہے۔امریکا میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ شخص ازبکستان میں منظم جرائم میں ملوث گروہ کا سربراہ ہے۔ سوئس عدالت میں سرکاری وکیل کی طرف سے کہا گیا کہ غفور رحیموف کی یہ نام نہاد کمپنی ازبکستان میں دراصل مختلف کاروباری فراڈ اور دیگر مالی گھپلوں میں ملوث ہے اور گلنارا اس کی پشت پناہی کررہی ہے۔ اس کمپنی پر منی لانڈرنگ کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ ان معاملات کی تحقیقاتی ٹیم نے ایم ٹی ایس سے رابطہ کرکے گلنارا کے خلاف کارروائی میں تعاون کرنے کا مطالبہ کیا۔ سوئس پراسیکیوٹر کے مطابق زیرومیکس ازبکستان میں سرمایہ کاروں کو ہر قسم کے تحفظ اور آزادانہ کاروباری سرگرمیوں کی ضمانت دیتی تھی اور کئی معاملات میں سرکاری سطح پر چھوٹ کے عوض بھاری رشوت طلب کرتی تھی۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ 2007 ءمیں سوئیڈن کی Telia نامی کمپنی سے 34 کروڑ امریکی ڈالر حاصل کیے گئے۔ نیدرلینڈ، سوئیڈن، ناروے اور فرانس میں منی لانڈرنگ میں ملوث بعض کمپنیوں کا تعلق بھی گلنارا سے جوڑا جاتا ہے۔ ازبکستان میں2002 ءسے 2004ءتک تعینات رہنے والے برطانوی سفیر Craig Murray کے مطابق گلنارا نے ازبکستان میں لوٹ مار مچا رکھی تھی۔وہ زیورات اور نوادرات کی شوقین تھی اور انہیں حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ خالص سونا اور قیمتی جواہرات اس کے گھر کے پچھلے حصّے میں موجود باغ میں دفن ہیں۔ انہیں کنکریٹ کی دیواروں میں مخصوص طریقے سے رکھ کر محفوظ کیا گیا ہے۔ اس سفیر نے الزام عائد کیا کہ اسلام کریموف کی بیٹی دوسروں سے ان کا کاروبار اور دولت چھین لیتی تھی۔ وہ اپنے کاروباری حریفوں کے قتل میں بھی ملوث ہے۔Murray نے گلنارا کے بارے میں ایک بلاگ لکھا جس پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس بلاگ میں گلنارا پر ایک ایسے گروہ کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا، جو مقامی لڑکیوں کو ملازمت کا جھانسا دے کر دبئی لے جاتا اور وہاں انہیں جسم فروشی پر مجبور کرتا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں کو بچوں سے جبری مشقت لینے پر تحفظ فراہم کرنے کے عوض مالی فوائد سمیٹنے کا ذکر بھی اس بلاگ میں کیا گیا تھا۔ 2004ءمیں Murray کو ویزا سکینڈل کے بعد عہدے سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی برطرفی کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ ازبکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور دیگر حقائق منظرِعام پر لانے کا نتیجہ ہے۔گلنارا کے قریبی دوست اور ساتھی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تمام حدیں پار کرگئی تھی اور دوسروں کی بربادی کا باعث بن رہی تھی۔ ان حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ازبک صدر کو ایسے تحریری ثبوت دیے گئے جن کے بعد ا±ن کا گلنارا پر اعتبار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اسلام کریموف کے بعض غیرملکی دوستوں کا کہنا ہے کہ گلنارا ا±ن کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔وہ اس کی سرگرمیوں سے خائف تھے لیکن اسے روکنے میں ناکام ہو رہے تھے۔ 1991ءمیں گلنارا کی شادی امریکی بزنس مین منصور مقصودی سے ہوئی۔ منصور مقصودی کا آبائی وطن افغانستان ہے۔ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد 2001ءمیں اختلافات کے باعث ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ گلنارا اپنے بچوں کے ساتھ دس برس امریکا میں گزارنے کے بعد اپنے وطن لوٹ آئی۔ یہاں واپسی پر اس کی منتقم المزاجی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ?یا۔ اس نے ملکی سکیوریٹی اداروں کے ذریعے ازبکستان میں اپنے سابق شوہر کے تمام کاروبار تباہ کرنے کے ساتھ اس کے رشتے داروں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ اس خاندان کے لیے خطرات بڑھتے چلے گئے اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔آٹھ جولائی 1972ءکو پیدا ہونے والی گلنارا کو ازبکستان میں ایک استاد اور سفارت کار کی حیثیت بھی حاصل رہی۔ وہ ایک ثقافتی تنظیم کی بانی اور چیئر پرسن ہونے کے ساتھ متعدد این جی اوز کی سربراہ بھی تھی۔1988ءمیں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد گلنارا ایم اے اقتصادیات میں داخلہ لے لیا۔ اسی دوران چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ملازمت بھی شروع کردی۔ 1996ءمیں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے یونیورسٹی آف ورلڈ اکنامی اینڈ ڈپلومیسی میں زیرِتربیت ٹیچر کی حیثیت سے وابستہ ہونے کا موقع ملا اور 2009ءمیں اسی جامعہ میں سیاسیات کے مضمون کی پروفیسر کی حیثیت سے اپنا تدریسی سفر شروع کیا۔ اسی عرصے میں وہ وزارتِ خارجہ سے وابستہ ہوئی اور تجزیاتی رپورٹس تیار کرنے کی ذمہ داری نبھانے لگی۔ 1998ءاور 2000ءکے درمیان ہارورڈ یونیورسٹی سے ریجنل اسٹڈیز کے مضمون میں ماسٹرز کیا۔ 2001ءمیں اس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔1995ءمیں وزراتِ خارجہ میں مشیر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور 1998ءتک یہ سلسلہ جاری رہا۔ گلنارا نے 2003ءسے 2005ءتک ماسکو میں ازبک سفارت خانے میں خدمات انجام دیں۔ 2008ءمیں ازبکستان کی ڈپٹی وزیرِخارجہ بننے کے بعد اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ میں مستقل ازبک نمائندے کی حیثیت سے تعیناتی عمل میں لائی گئی جبکہ 2010ءکے آغاز پر گلنارا کوسپین میں سفیر نامزد کردیا گیا۔ اس طرح وہ ایک بااثر اور انتہائی طاقت ور شخصیت بنتی چلی گئی لیکن اپنی من مانیوں اور ظلم و ستم کے باعث آج مشکل میں ہے۔
153کبوتر پاکستانی جاسوس قرار
سری نگر(خصوصی رپورٹ) بھارتی حکام نے ایک دو نہیں بلکہ153کبوتروں کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں جن کے بارے میں یہ شبہ ہے کہ وہ پاکستان کے لیے جاسوسی میں ملوث ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی سی آئی ڈی نے کہا ہے کہ مشرقی پنجاب سے 153کبوتروں کی ایک کھیپ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ لائی گئی جسے مقامی پولیس نے پکڑ لیا، سرحدی علاقوں سے کبوتر پکڑے جانے کے بعد پولیس حکام کو ان کبوتروں پر بھی شک ہوا جس کی وجہ سے ان کا کیس سی آئی ڈی کے حوالے کر دیا گیا، ڈی سی جموں سمرن دیپ سنگھ نے کہا ہے کہ کبوتروں پر گلابی نشان اور مخصوص قسم کا رنگ ہونا تشویشناک ہے،اس سلسلے میں تفتیش کی جارہی ہے جس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ان کبوتروں کو رہا کیا جائے یا نہیں۔
عامر خان کا فلموں میں کام کرنے سے انکار
ممبئی (شوبز ڈیسک) اداکار عامر خان نے ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔عامر خان کا کہنا تھا کہ انہیں ہالی وڈ کی متعدد فلموں میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی ہے تاہم سکرپٹ کمزور ہونے اور اپنا کردار جاندار نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی فلم میں کام کرنے کی حامی نہیں بھری۔ اگر کسی اچھی سکرپٹ والی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی گئی تو اس میں کام کرنے کے حوالے سے ضرور سوچیں گے۔ واضح رہے کہ عامر خان اپنی آنے والی فلم ”دنگل“ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔