تازہ تر ین

ازبکستان کی شہزادی ،اقتدار کا نشہ، خوفناک انکشافات

لاہور (خصوصی رپورٹ) فیشن اورسٹائل کی دنیا پر ا±س کا راج تھا۔ وہ پاپ گلوکارہ کے طور پر بھی اپنی پہچان بناچکی تھی۔ کئی سماجی تنظیموں کی اس سربراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ازبکستان میں متعدد ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیوسٹیشنز ا±سی کے تھے۔ یہ نشریاتی ادارے اسے ایک مخیر خاتون، علم و فنون کی سرپرست کے طور پر مشتہر کرتے تھے لیکن اب یہ بند ہوچکے ہیں۔ ملک اور بیرونِ ملک ا±سے ایک کام یاب بزنس وومن کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ مواصلات، ٹرانسپورٹ، انٹرٹینمنٹ اور فیشن انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے وہ ازبکستان کی امیر ترین خواتین میں شمار ہونے لگی تھی۔یہ ازبکستان کے مرحوم صدر اسلام کریموف کی سب سے بڑی بیٹی گلنارا کریمووا کا تذکرہ ہے۔ اسلام کریموف ازبکستان کا صدر ہونا گلنارا کی پہچان کے متعدد کام یاب حوالوں کا اصل سبب ہے۔اسلام کریموف اپنی بیٹی پر بے حد اعتماد کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے عوام میں اپنا اثر برقرار رکھتے ہوئے ہر سطح پر پزیرائی کے متمنی تھے۔ انہوں نے 1991ءمیں صدر کا منصب سنبھالا تھا۔ اسلام کریموف پر الزام تھا کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے دھاندلی اور جبر کا سہارا لیتے رہے ہیں۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ان پر ملک میں فرد کی آزادی سلب کرنے اور حقوق کی پامالی کا الزام لگاتی رہیں۔ انہوں نے ازبکستان میں میڈیا پر پابندیاں عائد کیں ۔ دوسری طرف صدر کی بیٹی ہونے کے ناتے گلنارا کو ملک میں احتساب کا کوئی ڈر نہ تھا۔ چند ماہ قبل تک یہ کہا جاتا تھا کہ گلنارا سیاسی میدان میں اپنے والد کی جگہ لے گی لیکن سب کچھ بدل گیا۔ طاقت اور اختیارات چھن گئے ۔مقامی میڈیا کے مطابق فروری 2014ء میں41 سالہ گلنارا کے ساتھ اس کی 15 سالہ بیٹی ایمان اور رستم مادوعمروف کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس کی نظر بندی کے احکامات اس وقت ازبک صدر اور گلنارا کے والد اسلام کریموف نے دیے۔ رستم گلنارا کا بزنس پارٹنر ہے اور اسے گلنارا کا بوائے فرینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ گلنارا کی عام حلیے میں ایک تصویر اور خط منظرِ عام پر آیا تو اس کی نظر بندی کا معاملہ دنیا بھر میں موضوعِ بحث بن گیا۔’ ’ازبکستان کی شہزادی“ اس حال تک کیسے اور کیوں پہنچی؟گلنارا کی من مانیوں اور بعض سرگرمیوں نے ملک کی اہم سیاسی اور کاروباری شخصیات اور اعلیٰ سرکاری حکام کو اس کے خلاف کردیا۔ طاقت کے نشے میں چ±ور گلنارا دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے سے اسے یہ احساس ستانے لگا تھا کہ اس کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس نے سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے مخالفین اور ملکی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے دوران اپنے ”سیاسی عزائم“ کا اظہار بھی کیا تھا۔اب اس کا ٹوئٹر اکاﺅنٹ بند ہوچکا ہے۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ میں اس کی سماجی خدمات اور دیگر شعبوں میں کوریج بھی دم توڑ چکی ہے۔ گلنارا کے حمایتی ٹی وی چینلز اور ریڈیوسٹیشنز کو بندش کے ساتھ مالی بدعنوانیوں کی تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔اپنی گرفتاری سے چند ہفتے قبل گلنارا نے ایک ٹویٹ میں الزام عائد کیا کہ اس کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے، جس کی سرپرستی ملکی دفاعی ادارے کے سربراہ رستم عنایتوو کررہے ہیں۔ گلنارا کے مطابق وہ صدر کے عہدے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور صدارتی انتخابات کے لیے مہم شروع کرچکے ہیں۔2012ءتک سیاست اور سماج کی انتہائی بااثر گلنارا کے بارے میں مشہورِ زمانہ ”وکی لیکس“ نے بھی کئی انکشافات کیے، جن کے مطابق وہ لامحدود اختیارات کی خواہش کے ساتھ اپنے اثرورسوخ کے بل پر مقامی بزنس مینوں سے ان کے کاروبار ہتھیانے کے علاوہ سرمایہ کاروں کو ڈرا دھمکا کر اپنے تابع رکھنا چاہتی تھی۔اس نے مختلف ازبک اداروں کے حکام کو اہم امور میں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے اور اقدامات کرنے پر مجبور کیا اور ملکی سلامتی سے متعلق اہم اداروں اور سکیوریٹی سربراہان کو بھی’ ’ہدایات“ دینے لگی، جس کی وجہ سے وہ اس کے خلاف ہوتے چلے گئے۔ دوسری جانب ازبک عوام کی اکثریت کے نزدیک گلنارا ایک مفاد پرست اور لالچی عورت ہے۔ گلنارا ایک خط کے ذریعے اپنے حالات دنیا کے سامنے لانے میں کام یاب ہوگئی۔ اس خط میں اپنے خاندان کے افراد اور والد کے قریبی ساتھیوں پر الزام عائد کرتے ہوئے گلنارا نے کہا کہ ان لوگوں نے اسے ایک گھر میں قید کردیا ہے اور اس پر تشدد کیا جارہا ہے۔ گلنارا لکھتی ہے: مجھے مارا گیا ہے، میں زبردست نفسیاتی دباﺅ میں ہوں، میرے بازوﺅں پر زخموں کے نشان گنے جاسکتے ہیں۔ مجھے روزانہ دھمکیاں ملتی ہیں اور جس گھر میں مجھے رکھا گیا ہے اس میں ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں۔گلنارا نے یہ بھی لکھا کہ وہ بہت بھولی تھی اور سمجھتی تھی کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ اپنے والد سے متعلق گلنارا کا کہنا ہے کہ قدرت جب کسی کو سزا دینا چاہتی ہے تو وہ اس سے عقل اور ہوش چھین لیتی ہے۔ اس کے والد بھی پاگل ہوچکے ہیں۔ ورنہ کوئی بھی اپنی اولاد اور اس کی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتا۔ گلنارا نے اس خط میں خود کو مظلوم اور معتوب ظاہر کیا ہے لیکن اس کے مخالفین اسے قدرت کا انتقام بتارہے ہیں۔گلنارا کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والوں کی فہرست طویل ہے اور ابھی بہت سے حقائق منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں۔ ایک ازبک، افغان بزنس مین کا کہنا ہے کہ گلنارا نے کئی لوگوں سے ان کی جمع پونجی چھین لی اور اِس کی طرح کئی سرمایہ کار ازبکستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔اس کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی سے متعلق ادارے کے چیف رستم عنایتوو صدر اسلام کریمووا پر دباﺅ ڈال رہے تھے کہ وہ گلنارا سے باز پ±رس کریں۔ اس کا کہنا ہے کہ سکیوریٹی حکام ازبکستان کے بڑے کاروباری افراد کو ایسے بزنس گروپ میں اپنی کمپنی کے انضمام پر مجبور کرتے تھے، جس کی مالک دراصل گلنارا ہوتی تھی۔ 2009ءمیں ازبکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں کامیابی سے آگے بڑھتے ہوئے’ ’اسکائی ٹیل“ نامی ادارے کے بانی اور امریکی بزنس مین نے سفارت خانے میں شکایت داخل کی کہ گلنارا کے حامیوں نے اس کاروبار میں ا±سے شریک کرنے پر مجبور کیا اور انکار کرنے پر متعلقہ سرکاری ادارے کی جانب سے کمپنی کے لیے فریکوئنسی جام کردی گئیجس کے بعد وہ ادارہ بند ہوگیا۔ ایک ازبک صحافی شاہدہ کے مطابق گلنارا بے لگام ہوچکی تھی۔ وہ اپنے باپ کے اقتدار کی جڑیں کاٹنے جارہی تھی اور اپنی ماں اور بہن پر سرِ عام الزامات عائد کرتی تھی۔ ان کے لیے اب اسے خاموش کروانا ضروری تھا۔ صدارتی آفس کے ایک اہلکار کمال الدین 2007ءمیں پیرس چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلنارا غیرملکی اور ملکی سرمایہ کاروں کے بزنس ہڑپ کر رہی تھی۔ کاروباری شخصیات کو انکار کی صورت میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں اور ٹیکس کی عدم ادائیگی کے الزامات کے تحت جھوٹی تحقیقات اور سزاﺅں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اس کے علاوہ ان کے اثاثے منجمد کردیے جاتے اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں جائیداد اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ گلنارا کے لیے مشکلات کا آغاز روسی موبائل فون کمپنی ایم ٹی ایس کی وجہ سے ہوا۔ اس کمپنی کو ٹیکس فراڈ کے الزامات کے ساتھ دیگر مالی بدعنوانیوں میں ملوث کیا جارہا تھا لیکن ایم ٹی ایس کے سربراہ نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اپنے خلاف اقدامات کو غیرقانونی اور ناجائز طریقے سے کاروبار ہتھیانے کی کوشش قرار دیا۔ انہی دنوں سوئس حکام’ ’زیرومیکس‘ ‘نامی ایک کمپنی کے خلاف بعض الزامات کی تحقیق کررہے تھے۔ اس سوئس رجسٹرڈ کمپنی کا بانی ایک ازبک بزنس مین غفور رحیموف بتایا جاتا ہے۔امریکا میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ شخص ازبکستان میں منظم جرائم میں ملوث گروہ کا سربراہ ہے۔ سوئس عدالت میں سرکاری وکیل کی طرف سے کہا گیا کہ غفور رحیموف کی یہ نام نہاد کمپنی ازبکستان میں دراصل مختلف کاروباری فراڈ اور دیگر مالی گھپلوں میں ملوث ہے اور گلنارا اس کی پشت پناہی کررہی ہے۔ اس کمپنی پر منی لانڈرنگ کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ ان معاملات کی تحقیقاتی ٹیم نے ایم ٹی ایس سے رابطہ کرکے گلنارا کے خلاف کارروائی میں تعاون کرنے کا مطالبہ کیا۔ سوئس پراسیکیوٹر کے مطابق زیرومیکس ازبکستان میں سرمایہ کاروں کو ہر قسم کے تحفظ اور آزادانہ کاروباری سرگرمیوں کی ضمانت دیتی تھی اور کئی معاملات میں سرکاری سطح پر چھوٹ کے عوض بھاری رشوت طلب کرتی تھی۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ 2007 ءمیں سوئیڈن کی Telia نامی کمپنی سے 34 کروڑ امریکی ڈالر حاصل کیے گئے۔ نیدرلینڈ، سوئیڈن، ناروے اور فرانس میں منی لانڈرنگ میں ملوث بعض کمپنیوں کا تعلق بھی گلنارا سے جوڑا جاتا ہے۔ ازبکستان میں2002 ءسے 2004ءتک تعینات رہنے والے برطانوی سفیر Craig Murray کے مطابق گلنارا نے ازبکستان میں لوٹ مار مچا رکھی تھی۔وہ زیورات اور نوادرات کی شوقین تھی اور انہیں حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ خالص سونا اور قیمتی جواہرات اس کے گھر کے پچھلے حصّے میں موجود باغ میں دفن ہیں۔ انہیں کنکریٹ کی دیواروں میں مخصوص طریقے سے رکھ کر محفوظ کیا گیا ہے۔ اس سفیر نے الزام عائد کیا کہ اسلام کریموف کی بیٹی دوسروں سے ان کا کاروبار اور دولت چھین لیتی تھی۔ وہ اپنے کاروباری حریفوں کے قتل میں بھی ملوث ہے۔Murray نے گلنارا کے بارے میں ایک بلاگ لکھا جس پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس بلاگ میں گلنارا پر ایک ایسے گروہ کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا، جو مقامی لڑکیوں کو ملازمت کا جھانسا دے کر دبئی لے جاتا اور وہاں انہیں جسم فروشی پر مجبور کرتا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں کو بچوں سے جبری مشقت لینے پر تحفظ فراہم کرنے کے عوض مالی فوائد سمیٹنے کا ذکر بھی اس بلاگ میں کیا گیا تھا۔ 2004ءمیں Murray کو ویزا سکینڈل کے بعد عہدے سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی برطرفی کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ ازبکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور دیگر حقائق منظرِعام پر لانے کا نتیجہ ہے۔گلنارا کے قریبی دوست اور ساتھی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تمام حدیں پار کرگئی تھی اور دوسروں کی بربادی کا باعث بن رہی تھی۔ ان حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ازبک صدر کو ایسے تحریری ثبوت دیے گئے جن کے بعد ا±ن کا گلنارا پر اعتبار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اسلام کریموف کے بعض غیرملکی دوستوں کا کہنا ہے کہ گلنارا ا±ن کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔وہ اس کی سرگرمیوں سے خائف تھے لیکن اسے روکنے میں ناکام ہو رہے تھے۔ 1991ءمیں گلنارا کی شادی امریکی بزنس مین منصور مقصودی سے ہوئی۔ منصور مقصودی کا آبائی وطن افغانستان ہے۔ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد 2001ءمیں اختلافات کے باعث ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ گلنارا اپنے بچوں کے ساتھ دس برس امریکا میں گزارنے کے بعد اپنے وطن لوٹ آئی۔ یہاں واپسی پر اس کی منتقم المزاجی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ?یا۔ اس نے ملکی سکیوریٹی اداروں کے ذریعے ازبکستان میں اپنے سابق شوہر کے تمام کاروبار تباہ کرنے کے ساتھ اس کے رشتے داروں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ اس خاندان کے لیے خطرات بڑھتے چلے گئے اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔آٹھ جولائی 1972ءکو پیدا ہونے والی گلنارا کو ازبکستان میں ایک استاد اور سفارت کار کی حیثیت بھی حاصل رہی۔ وہ ایک ثقافتی تنظیم کی بانی اور چیئر پرسن ہونے کے ساتھ متعدد این جی اوز کی سربراہ بھی تھی۔1988ءمیں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد گلنارا ایم اے اقتصادیات میں داخلہ لے لیا۔ اسی دوران چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ملازمت بھی شروع کردی۔ 1996ءمیں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے یونیورسٹی آف ورلڈ اکنامی اینڈ ڈپلومیسی میں زیرِتربیت ٹیچر کی حیثیت سے وابستہ ہونے کا موقع ملا اور 2009ءمیں اسی جامعہ میں سیاسیات کے مضمون کی پروفیسر کی حیثیت سے اپنا تدریسی سفر شروع کیا۔ اسی عرصے میں وہ وزارتِ خارجہ سے وابستہ ہوئی اور تجزیاتی رپورٹس تیار کرنے کی ذمہ داری نبھانے لگی۔ 1998ءاور 2000ءکے درمیان ہارورڈ یونیورسٹی سے ریجنل اسٹڈیز کے مضمون میں ماسٹرز کیا۔ 2001ءمیں اس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔1995ءمیں وزراتِ خارجہ میں مشیر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور 1998ءتک یہ سلسلہ جاری رہا۔ گلنارا نے 2003ءسے 2005ءتک ماسکو میں ازبک سفارت خانے میں خدمات انجام دیں۔ 2008ءمیں ازبکستان کی ڈپٹی وزیرِخارجہ بننے کے بعد اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ میں مستقل ازبک نمائندے کی حیثیت سے تعیناتی عمل میں لائی گئی جبکہ 2010ءکے آغاز پر گلنارا کوسپین میں سفیر نامزد کردیا گیا۔ اس طرح وہ ایک بااثر اور انتہائی طاقت ور شخصیت بنتی چلی گئی لیکن اپنی من مانیوں اور ظلم و ستم کے باعث آج مشکل میں ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain