All posts by Daily Khabrain

ایک صوبہ تین مخدوم

سید سجاد حسین بخاری
نئے بننے والے صوبے کا سرکاری نام فی الحال جنوبی پنجاب لکھا اور پکارا جاتا ہے مگر قوم پرست اس نام کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ سرائیکی صوبہ‘ سرائیکستان یا پھر صوبہ ملتان کے ناموں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ حدود کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ وہ جھنگ‘ سرگودھا‘ بھکر‘ میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کو بھی سرائیکی صوبے کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔ بہرحال یہ سب بعد کی باتیں ہیں‘ صوبے کا مطالبہ 1962-63ء سے کیا جارہا ہے۔
پہلی مرتبہ ڈھاکہ میں ہونے والے لیجلسٹو اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر مخدوم سجاد حسین قریشی اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں نواب غلام قاسم خان خاکوانی نے سرائیکی صوبے کی قراردادیں پیش کی تھیں جو منظور تو نہ ہوئیں‘ تاہم وہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردی گئیں۔ اسی طرح 12جولائی 1965ء کو باب القریش ملتان میں ملک بھر کے قوم پرست دانشوروں کا ایک بہت بڑا اجلاس ہوا جس میں سندھ سے آئے ہوئے پیر حسام الدین راشدی نے سرائیکی صوبے کی قرارداد پیش کی۔ اس کے حق میں امیر آف بہاولپور نواب محمد خان عباسی نے تقریر کی اور سید قسور گردیزی جو عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما تھے‘ نے اپنی جماعت کے منشور کا سرائیکی صوبے کو حصہ بنایا۔
یاد رہے کہ قوم پرست دانشوروں کے اجلاس میں پہلی مرتبہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ آج سے اس خطے میں تمام بولی جانے والی زبانوں کو سرائیکی کہا جائے گا جبکہ اس سے قبل ملتانی‘ ریاستی جھنگوی‘ بھکری‘ ڈیرہ جاتی زبانیں کہا جاتا تھا۔ اسی زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ”جشن فرید“ ہوا‘ وہاں پر بھی دانشوروں کا اجتماع ہوا جس میں چیئرمین سندھی ادبی بورڈ مولانا غلام مصطفی قاسمی نے صوبے کی قرارداد پیش کی اور مولانا مفتی محمود مرحوم نے اس قرارداد کی تائید کی‘ پھر بھٹو دور میں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے سرائیکی صوبے کی آواز کو بلند کیا اور ”خبریں“ میڈیا گروپ کے بانی وقائد ضیاشاہد مرحوم نے سرائیکی کا لفظ پہلی مرتبہ ”خبریں“ اخبار میں شائع کیا جس پر انہیں بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر ضیاشاہد بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ ودیگر سرائیکی قوم پرستوں کے ہمراہ ڈٹے رہے اور پھر ضیاشاہد مرحوم نے پرویز مشرف کے دور میں اس مسئلے کو دوبارہ اُجاگر کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ مطالبہ پی ٹی آئی نے اپنے منشور کا حصہ بنالیا۔
پہلے مخدوم سابق وزیراعظم واپوزیشن لیڈر سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے 17جنوری کو سینٹ میں صوبے کا مطالبہ پیش کردیا اور ساتھ ہی انہوں نے صوبہ سیکرٹریٹ کو لولی پاپ قرار دیکر مسترد کردیا جس پر دوسرے مخدوم شاہ محمود قریشی نے جواباً کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس چونکہ اسمبلی میں دوتہائی اکثریت نہیں تھی لہٰذا صوبہ تو ہم نہیں بناسکے مگر صوبہ سیکرٹریٹ کی بنیاد ہم نے رکھ دی ہے۔ اگلی اسمبلی میں صوبہ بن جائے گا۔ تیسرے مخدوم خسرو بختیار چونکہ صوبہ محاذ کے روحِ رواں تھے اس لئے انہوں نے بھی حکومتی مخدوم کی ہاں میں ہاں ملاکر سیکرٹریٹ کو صوبے کی پہلی سیڑھی قرار دے دیا۔
اب مخدوم تین صوبہ ایک ہے۔ پہلے مخدوم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکومت میں باقاعدہ ایک کمیشن تشکیل دیا اور اس کی سفارشات پر سینٹ سے بل پاس کرواکر قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ انہوں نے بھی اکثریت نہ ہونے کا رونا رویا جوکسی حد تک درست تھا مگر اب دوسرا اور تیسرا مخدوم اور ان کی حکومت فی الحال صوبہ خود نہیں بنانا چاہتی حالانکہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی نے صوبہ بنانے کی پیش کش گزشتہ سال کردی تھی اورپنجاب اسمبلی سے لے کر قومی اسمبلی اور سینٹ تک بل پاس ہوجاتا تو صوبہ بن جاتا مگر موجودہ پنجاب کے9 ڈویژنوں میں سے 6 ڈویژن پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنتی ہے۔تخت لاہور پرپھر شریف برادران کا جب قبضہ نظرآنے لگا تو دو مخدوم صاحبان صوبہ بنانے سے پیچھے ہٹ گئے۔
میرے اندازے کے مطابق عمران خان کی حکومت اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے دوماہ قبل پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کا ڈرامہ ضرور کرے گی اور پھر تمام جماعتوں کو تعاون کی درخواست بھی کرے گی مگر اس وقت مسلم لیگ (ن) خسارے میں رہے گی کیونکہ ان کے تعاون سے نیا صوبہ بن گیا تو پی ٹی آئی کو سرائیکی بیلٹ میں الیکشن جیتنے میں آسانی ہوجائے گی اس لئے مسلم لیگ (ن) گھاٹے کا سودا نہیں کرے گی ایک بات واضح کردوں کہ آئندہ الیکشن میں حکومتی مخدوموں کو ہرصورت ناکامی کامنہ دیکھنا پڑے گا۔
آج مخدوم شاہ محمود قریشی نے بلاول بھٹو اورشہباز شریف کو خط لکھ دیا اورارکان اسمبلی کو کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی قیادت سے بات کریں۔ جب دونوں جماعتوں نے گزشتہ سال تعاون کی پیشکش کی تھی تو حکومت نے خاموشی کیوں اختیار کی۔ اگر عمران حکومت صوبہ بنانے میں مخلص ہے تو فوری طور پر صوبے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرائے‘قوم کے سامنے تمام سیاسی جماعتیں عیاں ہوجائیں گی اور حکومت بھی سرخرو ہوگی مگر موجودہ حکومت فی الحال یہ قرارداد کسی صورت جمع نہیں کرائے گی کیونکہ انہیں لاہورپر (ن) لیگ کے قبضے کاخوف ہے لہٰذا سرکاری مخدوموں نے سرائیکی خطے کے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

افغانستان کی پکار

محمد صغیر قمر
امریکی اور نیٹو کی افواج ا افغانیوں کی دھرتی پرناک رگڑ کر رخصت ہوئیں۔ خس کم جہاں پاک!! میں کم ازکم اٹھارہ برس بعد ایک بار پھر کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترا۔ میں نے دیکھا دنیا کے چودہ ممالک کے فوجی جو جدید ترین اسلحہ لے کر آئے تھے،افغانیوں کے قدموں میں پڑا ہے۔بیس برس کی جنگ سے قبل اگر چہ افغانی برسوں باہم دست وگریباں بھی رہے لیکن انہوں نے اپنی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔سوویت یونین نے جہاں اس خطے میں اپنے آپ کو خوار کیاوہاں وسط ایشیا کی ریاستیں بھی برس ہا برس تک نام نہاد سوشل ازم میں پسنے کے بعد اس چنگل سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوئیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں افغانیوں نے دو سُپر طاقتوں اور نیٹو کے لشکریوں کو شکست دی۔ گھر بیٹھ کر تجزیے، تبصرے ہوتے رہیں گے۔ اس سب کچھ کے باوجود حقائق اس وقت وہی ہیں جو اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھے جاسکتے ہیں۔من گھڑت کہانیاں اور تجزیے وہ حیثیت نہیں رکھتے جو بر سر زمین اپنی آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں۔کابل کی سر زمین پر اترنے سے قبل ہم بھی بین الاقوامی متعصب میڈیا کے زیر اثر تھے۔خیال یہی تھا کہ یہاں امن وامان نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی لیکن ہمارے میزبانوں نے جس طرح اپنے پلکیں بچھا کر استقبال کیا وہ ہمیں اپنی حیثیت اور سوچ سے بہت زیادہ لگا۔ ہم نے اپنی رہائش پر سامان رکھا اور تازہ دم ہو کر پیدل بازاروں میں نکل پڑے۔ سوچا تھا کہ یہاں ہر طرف حفاظتی چوکیاں ہوں گی لیکن موجودہ حکمرانوں کے حوالے سے ”انتہا پسند اور دہشت گرد“ جیسے الفاظ استعمال کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی کیا۔ ہم کابل کی گلیوں کوچوں میں پیدل گھومے، ہمیں کسی نے روکا نہ کوئی مورچہ نظر آیا، سوائے اس کے کہ سرکاری اداروں اور سفارت خانوں کی حفاظت کے لیے ہمیں موجودہ حکومت کے نوجوان نہ صرف چاق وچوبند نظر آئے بلکہ مجھے اخلاق اور برتاؤ میں ہر ترقی یافتہ ملک سے بہتر نظر آئے۔اس دوران ہمیں حکومتی اہلکاروں سے ملنے کا بھی موقع ملا، ماضی کے بالکل برخلاف واضح تبدیلی نظر آئی۔ان کی عاجزی اور انکساری کے ساتھ رواداری بھی نظر آتی ہے۔ماضی میں ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے خواتین کے حقوق پامال کیے،انہیں تعلیم سے محروم کیا،ترقی نہیں ہونے دی،دہشت گردی کو پروان چڑھایا۔ کابل سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں تعلیم کا سلسلہ گزشتہ تین ماہ سے بند ہے۔کابل یونیورسٹی کے ایک اہل کار نے بتایا کہ ہمیں کسی بھی دور میں خواتین یا بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ نہیں رہی۔اس وقت بھی کابل یونیورسٹی میں خواتین کا تناسب ساٹھ فی صد ہے۔
اسی طرح ننگرہار یونیورسٹی جلال آباد میں بچیوں کا تناسب کابل سے بھی زیادہ ہے۔ننگر ہار یونیورسٹی کے ایک ڈین سے جب ہم نے سابق اور موجودہ دور کے حالات کا ذکر کیا تو ان کاکہنا تھا”موجودہ طالبان حکومت پچھلے دور سے بالکل مختلف ہے ان کے آنے سے امن سو فیصد بحال ہے۔ ہمیں ان کے پچھلے دور میں بھی خواتین کی تعلیم سے نہیں روکا گیانہ اس دور میں پابندی ہے۔ کابل کی فوڈ سٹریٹ میں آپ ایک لمبی قطار میں چادریں اوڑھے افراد کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ یہاں نوجوان سر عام چرس اور ہیروئین میں دھت نظر آتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں رات کے پچھلے پہر تک، ہم نے دیکھا کہ بھیک مانگ رہے ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر پاؤں سے بھی ننگے نظرآتے ہیں۔یہ سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ امریکی اپنی تہذیب کا سارا گند یہاں چھوڑکر گئے ہیں۔بچیاں تو کیا یہاں بچوں کو بھیک اور چرس پر لگا دیا گیا۔یہ مناظرکابل شہر کے ہیں جہاں بیس برس میں نسلیں بدل جاتی ہیں انقلاب آجاتے ہیں،لیکن یہاں ہم نے کابل سے باہر وردگ صوبے،قندھار روڈ،تے تیمور کے دیہاتوں کے علاوہ سروبی،لغمان،جلال آباد شہر اور گرد ونواح کے دیہات بھی دیکھے۔ہمیں نہ تہذیب بدلی نظر آئی،نہ تعلیم،نہ خوشحالی نہ روز گار۔ستر فی صد دیہات آج بھی کچی آبادیوں پر مشتمل ہیں،جہاں تک جانے والے کچے راستوں پر چلتے ہوئے کہیں کہیں آثار بتاتے ہیں کہ یہاں کبھی سڑک ہوئی ہو گی۔اس سفر میں ہمیں امریکیوں کا ایک”سچ“ واضح نظر آیا وہ یہ کہ انہوں نے افغانیوں کو پتھر کے دور میں واپس بھیج دیا۔اس کے برعکس موجودہ حکومت میں شامل اہلکار نہ صرف اس عرصے میں اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند ہوئے بلکہ ان بیس برسوں میں انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے نہ صرف سبق سیکھا بلکہ جدیددورکے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ہم آہنگ بھی کیا۔شدت پسندی میں واضح کمی آئی ہے۔
ستم یہ ہے کہ اس وقت افغان حکومت کے اکاؤنٹ سیز ہیں اور بیرونی دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے کہ امریکی اپنے حواریوں کو کب اشارہ کریں گے۔اگرچہ ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت اس کی ”رخصتی“ عمل میں آئی ہے اور افغان حکومت اس کی پاسداری کے لیے دن رات مصروف ہے جب کہ دوسری طرف سے ابھی ”دیکھو اور انتظار کرو“کی پالیسی ہے۔یہاں مسئلہ انسانیت کا ہے اور انسانیت چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ ان شدید ترین سردیوں میں وہ لوگ جو جنگ کی تباہ کاریوں کے باوجود زندہ ہیں وہ اس دور میں بھوک اور بیماری کے ہاتھوں موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭

سمندر پارپاکستانیوں کے حقوق اورخدمات

محمدنعیم قریشی
تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے اور اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق دینے کا بل منظور کر لیاہے، اس حوالے سے صدرمملکت کٹر عارف علوی نے آئین کی آرٹیکل 89کے تحت الیکشن دوسرا ترمیمی آرڈینینس 2021جاری کردیا ہے،اس عمل کو ملکی قانون کا حصہ بنانے کے لیے اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیئے الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن ایک اور 94اور سیکشن 103میں ترمیم کی گئی ہے۔
جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بات جائے تو یہ ووٹنگ مشین دنیا میں بہت کم ہے،دنیا بھر میں تو 196ممالک ہیں مگر اس وقت الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا سسٹم آٹھ سے دس ملکوں میں رائج ہے،باقی ملکوں میں ابھی تک ٹھپے لگانے کا سسٹم ہی رائج ہے،لیکن جن ملکوں میں یہ جدید سسٹم رائج ہے وہ بہت کامیاب ہے جس میں انڈیا کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے،سمندر پار پاکستانیوں نے ہمیشہ سے ہی اربوں ڈالر کی ترسیلات زر اور وہاں بیٹھ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی صورتحال میں پاکستان کی حکومتوں کا ساتھ دیاہے،جو نہ صرف پاکستان کی معاشی صورتحال میں مدد کرتے ہیں بلکہ انتخابات میں پاکستان میں بننے والی حکومتوں کی تقدیر کا فیصلہ بھی کسی حد تک کرنے میں مددگار ہوتے ہیں، سمندر پار پاکستانیوں کی تعداد نوئے لاکھ ہے جس میں سے ستر لاکھ ووٹرحصہ لیتے ہیں جبکہ پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد دس کروڑ چھپن لاکھ ہے، چالیس سے پچاس فیصدتک ووٹ کاسٹ ہوتاہے یہ درست ہے کہ ملک کے مختلف حلقوں میں تقسیم ہونے کے بعد یہ ووٹ اپنی افادیت کو کسی حد تک کم کردیتاہے سارا فیصلہ نہ سہی مگرملک میں پچیس سے تیس حلقے ضرور متاثر ہوجاتے ہیں جبکہ پچیس سے تیس سیٹیں اس ملک میں کسقدر بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں یہ بات حکومت اور اپوزیشن والے دونوں ہی جانتے ہیں،ماضی میں اورسیز پاکستانیوں کو ان کی خدمات کے صلے میں مختلف مراعات سے نوازنے کے وعدے بھی کیئے جاتے رہے ہیں مگر جہاں تک مجھے یاد ہے یہ وعدے بھی پاکستان کی عوام سے کیئے گئے وعدوں کی طرح کبھی وفانہ ہوسکے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے اپنے قیام یعنی 1947سے 2018تک 300ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کیا ہے، اس لیئے جو بھی حکومت آتی ہے اسے بیرونی وسائل پیدا کرنے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی دوسری حکومت نے فروری 1997کو قومی قرض اتارنے کا پروگرام پیش کیا، جسے نیشنل ڈیبٹ ریٹائرمنٹ پروگرام کہا جاتا ہے، مگر یہ پروگرام قرض اتارو ملک سنوارو کے نام سے مشہور ہوا، یہ ایک وسیع البنیاد اسکیم تھی جس میں امریکی ڈالر کے علاوہ برطانوی پاؤنڈ اور جرمن مارک میں سرمایہ کاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جس میں سمندر پار اور ملک کے اندر رہنے والے پاکستانیوں نے اپنی حیثیت کے مطابق سرمایہ کاری کی، واضح رہے کہ اس اسکیم میں عطیات، قرض حسنہ(بغیر منافع کا قرض) اور تین طرح کی مدت تکمیل کے سرمایہ کاری بانڈز شامل تھے، یہ اسکیم کئی سال تک جاری رہی مگر پہلے ہی سال زیادہ تر رقوم منتقل ہوئیں۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق NDRP میں عطیات کی مد میں دو کروڑ اسی لاکھ ڈالر، قرض حسنہ میں 16لاکھ ڈالر اور سرمایہ کاری کی مدمیں 18کروڑ 40لاکھ ڈالر جمع ہوئے ہیں مجموعی طور پر 17کروڑ 83لاکھ ڈالر جمع ہوئے، اس زمانے میں اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیئے اس رقم کو زکوٰۃ کٹوتی سے مستثنیٰ، ترسیلات پر چارجز کی معافی کے علاوہ سرمایہ کاروں کو ٹیکس کی چھوٹ بھی دی گئی تھی، جبکہ اس اسکیم میں ایسے پاکستانی بھی سرمایہ کاری کر سکتے تھے، جن کے ملک کے اندر غیر ملکی بینک اکاؤنٹس موجود تھے، 1998میں ایٹمی دھماکوں کے بعد غیر ملکی اکاؤنٹس کی بندش اور 1999میں حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد یہ اسکیم غیر فعال ہوچکی تھی، مگر پھر بھی حکومت پاکستان کو ایک ارب ستر کروڑ روپے قرض میں کمی ہوئی اور سود میں 17.3فیصد کی بچت ہوئی، اسکیم کی تمام رقوم اسٹیٹ بینک میں جمع ہوئیں اور سب سے بڑھ کر سرمایہ کاری کرنے والوں یا قرض حسنہ دینے والوں کی رقوم واپس کر دی گئیں۔
پاکستان میں ترسیلات کے اضافے کے لیئے سال 2009میں پاکستان ریمیٹینس انیشیٹیو (بی آر آئی) کے نام سے ایک خود مختار ادارہ قائم کیا گیا جس کا افتتاح وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور وفاقی وزیر برائے سمند ر پار پاکستانی فاروق ستار نے کیا، اس انیشیٹیو کا مقصد ترسیلات زر کے لیئے سہولت مدد،تیزرفتار، سستا اور آسان طریقہ کار فراہم کرناتھا، اس حوالے سے بی آر آئی نے ترسیلات لانے کے لیئے مختلف طریقے وضع کیے، تاکہ ملک میں ہنڈی حوالہ کی حوصلہ شکنی ہوسکے اور بینکاری چینل کے ذریعے ڈالر کو ملک میں لایا جا سکے، بی آر آئی اسٹیٹ بینک،وزار ت برائے سمندر پار پاکستانی، اور وزارت خزانہ کا مشترکہ منصوبہ کہلاتاہے، اس حوالے سے بی آر آئی نے ترسیلات زر کی فراہمی میں موجود رکاوٹوں کو دورکرنے کے ساتھ ساتھ ترسیلات بھجوانے اور وصول کرنے کا عمل تیز کیا۔
بی آر آئی نے سال 2009میں رئیل ٹائم گروس سیٹلمنٹ اور کیش اوور کاونٹر جبکہ سال 2012میں انٹر بینک فنڈ ٹرانسفر متعارف کرائے ہیں بی آر آئی میں اب تک 25بینکوں نے شمولیت اختیار کی ہے اور اب ریمیٹنش وصول ہونے کے بعد وصول کرنے والے اے ٹی ایم کے ذریعے رقوم حاصل کرسکتے ہیں، یہ باتیں آن دی ریکارڈ ہیں جبکہ سال2008کی با ت کی جائے تو اس وقت پاکستان کو 7ارب ڈالر کی ترسیلا ت موصول ہوئی تھیں اس پر عالمی بینک کے مطابق سال 2018میں پاکستان کو ترسیلات وصول کرنیوالے دس بڑے ملکوں میں ساتویں پوزیشن حاصل ہوئی اور پاکستان میں 20.9ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں جبکہ بھارت 79ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا ہے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی ہمیں اس ملک کے سب سے اہم اثاثے کے طور پر حفاظت کرنی ہے، اور ووٹ کا حق ملنے کے بعد اب ہر حکومت سمندر پار پاکستانیوں کی قدر کرنے پر مجبور ہوجائیگی، پاکستان کے ایئر پورٹوں پر ان مزدورطبقات کو وہ احترام نہیں دیا جاتا جس کاا ظہار وزیراعظم کرتے ہیں، یہی حال باہر ملکوں میں ہمارے سفارتخانوں کا ہوتا ہے، وزیراعظم پاکستان کے چاہئے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے افراد اور بیرون ملک سفارتکار وں کو اس حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کریں کہ زرمبادلہ کمانے والے ان سمندر پار پاکستانیوں کو عزت و احترام سے دیکھا جائے اور ان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش ترجیحی بنیادوں پر جاری رکھی جائے۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

کرتارپور بمقابلہ ہندوواتا

جاوید کاہلوں
راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کے نظریئے کو گوگل کرکے تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پچھلی صدی میں ایسے نسلی تفاخر کی تھیوریوں کی بھرمار تھی۔ جرمن قوم پرستی نے ایسے ہی تناؤ میں ایڈوولف ہٹلر کی زیر قیادت نازی ازم کے روپ میں ابھار گیا تو اٹالیان روم نے بھی ایک فاشسٹ تھیوری کو اپنایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے نظریات کی بھینٹ چڑھ کر پہلے سارا یورپ جنگ میں یوں الجھا کہ اس نے ساتھ ہی ساتھ ساری دنیا کو بھی جنگ عظیم دوم کی ہولناکیوں میں لپیٹ لیا۔ یوں لاکھوں انسان ایسے ہی نظریات تلے دب کر موت کی وادی میں جا پہنچے تو کروڑوں زخمی ہو کر عمر بھر کراہتے رہے اور معذوریوں کا شکار ہو کر رہ گئے۔ جھوٹے نسلی‘ مذہبی یا دیگر منفی تفاخر اپنا کر انسان اور انسانیت کا جنازہ بالآخر یونہی نکلا کرتا ہے۔
برصغیر ہند وپاک میں بھی نازی ازم سے متاثر ہو کر ہندو نسل پرستی یا مذہب پرستی کا نعرہ لگانے والی تنظیم نے اپنا نام آر ایس ایس رکھا۔ اس تنظیم نے کھل کر ہندوؤں کی تنظیم سازی کی‘ ان کو نیم عسکری تربیت بھی فراہم کی اور یہ نعرہ بلند کیا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے لہٰذا غیرہندو‘ خواہ وہ مسلمان ہوں‘ عیسائی ہوں‘ بدھ مت ہوں‘ پارسی ہوں یا سکھ وغیرہ‘ ان تمام پر لازم ہے کہ وہ ہندو بن کر بھارت میں رہیں یا پھر بھارت سے باہر نکل جائیں۔ اپنی اس ادا کو انہوں نے ”ہندواتا“ کا نام دیا۔ ظاہر ہے کہ ایسے عصبیتی نعروں میں ایک کرنٹ تو پنہاں ہوتا ہے۔ مگر چونکہ برصغیر ایک کثیر نسلی اور کثیر مذہبی روایت پر مشتمل ایک انگیزی نوآبادی تھی‘ اس لیے ایک مختصر سی ہندو اقلیت کے علاوہ زیادہ تر انڈین آبادی میں یہ نعرہ جاں گزیں نہ ہوسکا۔ یہی وجہ تھی تقسیم کے بعد بھی بھارتی یونین کا دستور سیکولر طرز پر ہی تحریر ہوا۔ ایسے دستور کی روح رواں کانگریس پارٹی تھی‘ جس کی قیادت مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو جیسے لیڈران کررہے تھے۔ تقسیم ہند کے فوراً ہی بعد موہن لال گاندھی کو کسی نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ قریب تھا کہ بڑی اقلیت ہونے کے ناطے اس قتل کا الزام مسلمان قوم پر لگتا جو کہ نہ صرف سب سے بھاری اقلیت تھے بلکہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے ہمہ وقت سرگرداں بھی رہتے تھے۔ وہ تو سبھی کا بھلا تب ہوا کہ قاتل گرفتار ہوگیا جو کہ آر ایس ایس کا ہی ایک نتھو رام گوڈسے نامی غنڈہ تھا۔ وہ گاندھی سے اس بات پر ناراض تھا کہ وہ ان کے ”ہندواتا“ کے نظریئے کے برعکس سیکولر تھیوری پر انڈین یونین کا دستور کیوں لکھ رہا ہے۔
بہرحال! اس ایک واقعے سے راشٹریہ سیوک سوائم کو عام ہندوؤں میں ایک کاری دھچکا لگا۔ ردعمل میں کانگریس پارٹی کی سرکار پورے کرو فر سے دلی کے تخت پر بیٹھ گئی اور یوں عشرے گزر گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں کی اسی دہشت گرد نسلی تنظیم نے بھارتی سوسائٹی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے روپ میں اپنا سیاسی وجود قائم کیا۔ اس سیاسی پارٹی کو دوبارہ سانس لینے کی فرصت تب ملی جب ستر کی دہائی میں تب کی کانگریس پارٹی کی آئیرن لیڈی‘ وزیراعظم بھارت مسز اندرا گاندھی نے بھارت میں ہنگامی حالت کا اعلان کرکے بھارتی آئین کو معطل کردیا۔ اٹل بہاری واجپائی آنے والے دو سال میں جنتا پارٹی کے پہلے وزیر خارجہ بنے اور بعد میں تین مرتبہ وزیراعظم بنے۔ ان کے بڑے کارناموں میں سے ہندو بھارت کو ایک جوہری ملک بنانا بھی عظیم کارنامہ تھا۔
ایٹمی بھارت‘ کسی بھی بھارتی سے زیادہ‘ ایک آر ایس ایس کے ورکر کا خواب تھا۔ ایسی قوت سے بھارتیہ جنتا پارٹی نہ صرف پاکستان کو مرعوب رکھنا چاہتی تھی‘ بلکہ اگر ہو سکے تو صفحہئ ہستی سے بھی خدانخواستہ مٹا دینا چاہتی تھی۔ بی جے پی کے وزیراعظم واجپائی نے لہٰذا جونہی پوکھڑن کے صحرا میں کامیاب ایٹمی دھماکے کرنے کی بھارتیوں کو نوید سنائی‘ اس کے ساتھ ہی سیوک سنگھ کے رہنماؤں نے آئے دن پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کردیں ان میں سب سے بلند آواز اس وقت میں آر ایس ایس میں دوسرے نمبر کے رہنما مانے جانے والے ایل کے ایڈوانی کی تھی جو کہ اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ میں ایک سینئر وزیر بھی تھے۔ تاریخ کا پہیہ یوں ہی برصغیر میں رواں دواں تھا کہ بھارتی دھماکوں کے چند ہی ہفتوں کے بعد پاکستان نے بھی در جواب آں غنرل کے طور پر چاغی کے پہاڑوں میں اپنے ایٹمی تجربات کرکے اپنی خفیہ ایٹمی صلاحیت سے دنیا کو حیران کردیا۔ ان جوابی جوہری تجربات سے عام بھارتی اور بالخصوص آر ایس ایس کے بے لگام غنڈوں کو جیسے لگام پڑ گئی اور ان کی طبیعت کو کچھ آرام آگیا۔ ساتھ ہی بھارتی وزیراعظم واجپائی پاکستان یوں آ گئے کہ انہوں نے یہ سفر براستہ واہگہ بارڈر دوستی بس پر بیٹھ کر کیا۔ لاہور میں ان کی مصروفیات میں ان کا دورہئ مینار پاکستان بھی تھا جس پر بھارت میں اور بالخصوص ان کی اپنی نسل پرست سیاسی پارٹی میں کافی تنقید بھی ہوئی کیونکہ اس رسمی دورے سے آر ایس ایس کا وجود پاکستان اور تقسیم ہند 1947ء پر مہر تصدیق ثبت کیا جانا بھی سمجھا جانے لگا تھا۔
آگے آئیں تو واجپائی کے بعد کانگریس پارٹی کے وزیراعظم من موہن سنگھ کو یکے بعد دیگرے دو باریاں ملیں۔ ان ادوار میں سیاست سے زیادہ معاشی طور پر بھارت مستحکم ہوا۔ ان کے بعد بھی بھارت میں متواتر پھر سے وہی نسل پرست ہندووانہ سوچ رکھنے والی بی جے پی کی دوسری ٹرم چل رہی ہے‘ جس کے سربراہ بدنام زمانہ اور ”گجراتی مسلمانوں کے قصائی“ کی شہرت رکھنے والے نریندرا مودی وزیراعظم ہیں۔ اس وزیراعظم نے آتے ہی پاکستان کو اپنی روایتی مسلمان دشمنی میں آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔ سرجیکل سٹرائیکس اور گھر میں گھس کر مارنے کی باتیں میڈیا پر چلائیں۔ اپنے درجنوں کلبھوشنوں اور ابھی نندنوں سے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ مگر جب جواب میں پاکستان نے کشمیر اور افغانستان میں بھارت کے دانت کھٹے کیے تو اب آرام سے بیٹھ کر اپنی بغلیں جھانک رہا ہے۔ ادھر پاکستان نے دربار صاحب کرتار پور میں بھارتیوں اور بالخصوص سکھ قوم کو ویزہ فری راہداری فراہم کرکے ایک زبردست سٹریٹجک بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کی وجہ سے بھارتی آر ایس ایس کی ہندواتا تھیوری پر دنیا بھر سے لعنتیں پڑ رہی ہیں۔ بھارتی معاشرہ اندرونی طور پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہو کر بکھر رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اگر آر ایس ایس کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی سوچ اعتدال پر نہ آئی تو مودی کی کابینہ والے بھارت کا بھی وہی حال کردیں گے جیسا کہ ہٹلر اور مسولینی کے ہاتھوں جرمنی اور اٹلی کا ہوا تھا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ جو بھارت اقلیتوں کا قتل عام روا رکھے ہوئے ہے اور جہاں پر مسجدیں‘ گردوارے اور کلیسا مسمار کیے جا رہے ہیں‘ اس کے جواب میں سرحد کی دوسری پاکستان میں نہ صرف یہ کہ اقلیتوں پر کوئی ردعمل نہیں ہوتا اور وہ مکمل محفوظ رہتی ہیں‘ بلکہ ان کی عبادت گاہوں کی نہ صرف حفاظت ہوتی ہے بلکہ سخت عدالتی اور ریاستی کنٹرول میں ان کے مندر اور گردوارے تعمیر بھی ہو رہے ہیں۔ اس طرح کہ پاکستانی اقلیتوں کو ہر طرح کی فضا (جہاں پر کہ بابا گرونانک کی قبر اور سمادھی ساتھ ساتھ ہیں) یوں پھیلے گی کہ اس سے ایک نئے جغرافیے کے ساتھ نیا بھارت روئے زمین پر ابھر کر ہی رہے گا۔
(کرنل ریٹائرڈ اور ضلع نارووال کے سابق ناظم ہیں)
٭……٭……٭

سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

ملک منظور احمد
پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بننا تھا یہ اس ملک کے قیام کا اولین مقصد تھا ایک ایسا ملک جو کہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر قائم ہو اور یہاں پر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق عبادات کرنے کی آزادی حاصل ہو۔یہی قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان تھا اور اس مملکت کے لیے ان کا وژن تھا۔اور اگر دیکھا جائے تو پاکستان اپنے قیام کے بعد ابتدائی سالوں میں ایک متعدل معاشرہ تھا،رنگ و نسل اور مذہبی عقائد کی تفریق کے بغیر سب لوگ آزاد انہ طور پر عبادات کرتے تھے اور مل جل کر زندگی گزارتے تھے لیکن پھر اس ملک میں انتہا پسندی کی ایک لہر چلی اور ملک کے رہنے والے افراد خاص طور پر چند طبقات کے خیالات اور نظریات سخت گیر ہو تے چلے گئے۔اور معاشرے میں پیدا ہو نے والی اس سخت گیری کا مورد الزام سابق صدر ضیالحق کے دور کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
بہر حال میں اس حوالے سے زیادہ بات نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور کہو ں گا کہ 80ء کی دہائی میں اپنائی جانی والی افغان پالیسی نے اس ملک کے معاشرے میں مذہبی مسالکی اور دیگر تفا ریق پیدا کیں اور ان تفریقوں کے اثرات سے ہم آج تک نکل نہیں پا ئیں ہیں۔بین الا ا قوامی حالات نے بھی ملک کو بہت متاثر کیا ہے اور ہمارے حکمران بد قسمتی سے ملک کو بین الا ا اقوامی حالات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کے نتیجے میں اپنے ملک کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہے۔نائن الیون کے بعد اس ملک نے جس دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا کیا اس کی شاید ہی کو ئی مثال ملتی ہو،پاکستان نے اس جنگ میں اپنے 70ہزار سے زائد شہریوں کو کھو دیا،فرقے اور مسلک کے نام پر مساجد اور امام با رگاہوں پر حملے ہو ئے۔گرجا گھروں اور خانقاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔معاشرے کا کو ئی بھی حصہ اس عفریت سے محفوظ نہیں رہا۔ریاست پاکستان اور مختلف حکومتوں نے مل کر اس عفریت کا مقابلہ کیا اور اس جنگ میں پاکستان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہو ئی ہے۔جس کے نتائج ہم ملک میں بہتر امن و امان کی صورتحال کی صورت میں دیکھ رہے ہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے اس مسئلہ پر مکمل طور پر قابو پا لیا ہے تو یہ کسی صورت درست بات نہیں ہو گی۔عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی اس ملک میں سرایت کر چکی ہے جس کو ختم کرنا اتنا آسان کا م نہیں ہے۔اور جب لوگوں کو محسوس ہو کہ اگر مذہب کے نام پر قتل بھی کر دیا جائے تو بچا جاسکتا ہے تو انتہا پسندی کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔انتہا پسندی تو شاید مغربی ممالک میں بھی ہے لیکن انتہا پسند نظریات کے تحت کوئی بھی فرد کوئی پرتششد رویہ اپنانے سے پہلے سو بات ضرور سوچتا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہو تا ہے کہ اگر کوئی خلا ف قانون کام کیا تو قانون کی گرفت سے نہیں بچا جاسکتا ہے۔پاکستان میں بھی ہمیں قانون کی عمل دراری قائم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں میں سیالکوٹ میں سر لنکن فیکٹری مینجر کے ساتھ پیش آئے واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔کئی لوگوں کو تو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ ہمارے ملک کے عوام اس قدربے حس بھی ہو سکتے ہیں کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر کسی تحقیقات کے کسی پر سنگین ترین الزام لگا کر اتنی بے دردی سے کسی کو ما ر دیا جائے۔تو ہین مذہب کا الزام لگا کر کسی غیر مسلم کو نشانہ بنانا کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔پاکستان میں خدا نخواستہ اس حوالے سے کسی پر کوئی الزام لگے تو قوانین موجود ہیں قانون کو ہاتھ میں لینا کسی صورت قابل قبول نہیں ہو نا چاہیے۔لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ آخر معاشرے میں موجود ان انتہا پسند رویوں کو کنٹرول کس طرح کیا جاسکتا ہے؟اس حوالے سے یقینا علما ئے کرام،میڈیا اور سیاسی قیادت کے علاوہ ریاست اور اس کے اداروں کا بھی کلیدی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں کسی بھی ایسے رویے کو نہ پنپنے دیا جائے جو کہ کسی بھی صورت میں آگے چل کر ملک کے اندر تشدد اور تخریب کا ری کا باعث بن جائے۔کوئی ایسی پالیسی نہ اپنائی جائے جو کہ ملک کے اندر سخت گیر نظریات کو فروغ دینے کا باعث بنے اور ملک کے اندر تقسیم پیدا کرے جو کہ بعد میں جا کر قومی سلامتی کے لیے بھی خطر ہ ثابت ہو۔پاکستان کا دنیا بھر میں ایک متوازن اور سافٹ امیج اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔اسی سے پاکستان میں سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے اور اسی طرح پاکستان کی معیشت میں بھی استحکام لا یا جاسکتا ہے۔پاکستان کو بین الااقوامی سطح پر فیٹف اور یورپین کمیشن کی جانب سے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ دشمن ملک بھی عالمی سطح پر پاکستان کو بد نام کرنے کا کو ئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ سیالکوٹ واقعے سے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے پولیس اور انتظامیہ کا کیا کردار تھا پولیس بروقت موقع پر کیوں نہیں پہنچی؟ سمیت کئی سوالات موجودہ ہیں جن پر ایک لمبی بحث کی جاسکتی ہے اور حکومت اور انتظامیہ پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن میں آج اس موضوع پر زیادہ بات کرنا نہیں چاہتا۔مسئلہ پولیس اور انتظامیہ سے کہیں بڑا ہے اور بطور ملک اور بطور قوم جب تک ہم سب مل کر ملک کو بہتر اعتدال پسند اور امن اور امان کا گہوارہ ملک نہیں بنانے کی کوشش کریں گے تب تک یہ سب کچھ اس ملک میں ہوتا رہے گا۔ہم سب کو ایک اجتماعی اپروچ کی ضرورت ہے۔ ریاست کو اس حوالے سے بہتر پالیسز اپنانے کی ضرورت ہے۔تب جاکر ہی معاشرے کی بہتر انداز میں تشکیل دی جاسکتی ہے۔ہم سب کو مل کر آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا پاکستان دے کر جانا ہے جو کہ حقیقی معنوں میں ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست ہو۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

ڈینگی بخار اوربچاؤ کی تدابیر

مریم ارشد
آج کل ملک بھر میں ڈینگی مچھر کے حملے شدت سے جاری ہیں۔ میں نے سوچا اس پہ تحقیق کرکے اپنے ہم وطنوں کو چند معلومات بہم پہنچائیں جائیں تاکہ قومی سطح پر اس کا تدراک ہوسکے۔ ڈینگی بخار ایک وبائی مرض ہے جو مچھر سے منتقل ہوتا ہے اس کو ہڈی توڑ بخار بھی کہتے ہیں کیوں کہ یہ جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈینگی مادہ ایڈسAdes مچھر سے منتقل ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے، احتیاط ہی بہترین علاج ہے۔
ڈینگی بہت سی وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں میں سے ایک ہے جس کو مچھر منتقل کرتا ہے۔ عام طور پر بیماری دھما کہ خیز وبائی امراض کی طرح پھوٹتی ہے جو حیران کن تیزی سے پھیلتی ہے۔ جس طرح اس کے پھیلاؤ کو 2011 ء میں لاہور میں دیکھا گیا۔ یہ بیماری دنیا کے تمام گرم حصّوں مثلاً پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، وسطی افریقا‘ وسطی امریکہ اور چین کو متاثر کر چکی ہے۔ ڈینگی بندروں کی بیماری ہے جو اُن میں جنگلات میں رہنے والے مچھروں سے منتقل ہوئی۔بیسوی صدی کے وسط تک ڈینگی جغرافیائی طور پر محدود تھا۔ یہ نسبتاً ایک چھوٹی موٹی بیماری تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایڈس مچھر کے انڈے بحری / ہوائی جہازوں کی کھیپ میں دنیا بھر میں پہنچ گئے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے وائرس کے پھیلاؤ میں انتہائی اہم کردار اادا کیا ہے۔ وائرس سے متاثرہ مچھر کے کاٹنے کے بعد مریض میں مرض کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے وائرس کو نشوونما پانے کے لیے چار سے سات دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
چلئے ڈینگی بخار کی مختلف اقسام کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ڈینگی بخار ایسا بخارہے جس کی علامات اچھی طرح قابل شناخت نہ ہوں۔ ایسا بخار جس میں خون آنا شروع ہو جائے۔ایسا بخار جس میں ڈینگی مریض صدمے کی حالت میں جا پہنچے درجہ حرارت 102 فارن ہیٹ سے بڑھ جاتا ہے۔ جس میں متلی اور قے کے ساتھ شدید سر درد، کمر درد، آنکھوں کے پیچھیدرد اور جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔ یہ پانچ فیصد سے بھی کم مریضوں کو ہوتا ہے جس میں بخار کے ساتھ سفید خلیوں کی بہت زیادہ سفید رطوبت بھی نکلتی ہے۔ بہت کم مریضوں کے ناک اور مسوڑھوں سے خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے جلد پر خون کے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ دل کی دھڑکن میں کمی آسکتی ہے۔ نبض کی رفتار دھیمی ہو سکتی ہے اور بہت زیادہ سردی محسوس ہو سکتی ہے۔ سفید خلیوں اورپلیٹ لیٹس میں تیزی سے کمی آجاتی ہے۔ جب مریض صدمے میں چلا جاتا ہے تو اُسے ڈینگی شاک سنڈ روم ہو جاتا ہے۔DHF اور DSS کے مریضوں کو ہسپتال کی کڑی مانیٹرنگ اور انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خون کا مکمل تخمینہ بنیادی تشخیصی ٹیسٹ ہوتا ہے جو خون کے فی یونٹ حجم میں خون کے سرخ خلیوں سفید خلیوں اور پلیٹ لیٹس کی تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔ ایڈس مچھرسے ڈینگی وائرس پھیلتاہے یہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے(سائز10 ملی میٹر تک) اس کے جسم اور ٹانگوں پر سفید دھبے ہوتے ہیں اور اس کے پَر چمکدار ہوتے ہیں۔ دونوں نراور مادہ پودوں کے شیریں سیال پر پلتے ہیں لیکن صرف مادہ مچھرہی انسان کو کاٹ سکتا ہے کیوں کہ اس کے مُنہ کی بناوٹ میں خون چوسنے کے لیے نوکیلا آلہ بنا ہوتا ہے۔ مادہ کو انڈے دینے کے لیے خون چوسنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایڈس مچھر صاف پانی میں پرورش پاتے ہیں جو قدرتیطور پر اور مختلف برتنوں میں جمع ہو سکتا ہے۔ قدرتی کنٹیز میں درختوں کے سوراخ، بانس کی اندرونی گانٹھیں اور پتے شامل ہیں جبکہ مصنوعی کنٹیز میں پھینکی ہوئی بوتلیں، خوراک کے ڈبّے، آئس کریم کپ، برتن وغیرہ شامل ہیں۔ ناکارہ آلات (گھریلو استعمال کی مشینیں وغیرہ)، ردّی ٹائر، ناکارہ کاریں، کشتیاں، برتن، آلات، بالٹیاں، روم کولر، روغن کے ڈبّے ٹوٹی ہوئی باڑوں میں سوراخ، چھتیں، فرش، پانی جمع کرنے کے ٹینک، نالیاں، مرتبان پراتیں اور بالٹیاں مچھروں کی موافق پرورش پانے کی جگہیں ہیں۔ المختصر ہمیں پانی کے اکٹھا ہونے کے ہر امکان کو کم کر دینا چاہیے۔
اس مرض کی روک تھام کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر مختلف سطحوں پر اختیار کی جائیں۔ لوگ وہ کپڑے پہن کر جو اُن کی جلد کو پوری طرح ڈھانپتے ہوں مچھر کے کاٹنے کو روک سکتے ہیں۔گرما میں مچھر دانیاں استعمال کریں جن پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ ہوا ہو۔ مچھر بھگاؤ لوشن استعمال کریں۔گھر کے ہر حصّے، فرنیچر کے نیچے، پردوں کے پیچھے، تاریک کونوں، سٹور میں ضمنی اثرات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سپرے کرنا چاہیے، تاکہ مچھروں کی آرام گاہیں ختم ہو سکیں۔گھر کے گردو نواح کو صاف رکھنا چاہیے۔ کوڑے یا ٹھوس ردّی چیزوں کو کسی جگہ پر جمع نہیں ہونے دینا چاہیے۔لاروے مار ادویات کا سپرے عمل میں لانا چاہیے۔ ڈینگی بخار کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کر کے وبائی امراض کو روکا جا سکتا ہے۔ کمیونٹی کی مربوط عمدہ کوششوں سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔آگاہی کا پیغام عوام النّاس کو پرنٹ الیکٹرونک میڈیا، ریڈیو، ٹی۔ وی، اخبارات وغیرہ کے ذریعہ دیا جا سکتا ہے۔ مساجد کے خطیبوں کو اپنی تقاریر کے ذریعے اس پیغام کو عوام تک پہنچانا چاہیے۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

پاک، امریکہ تعلقات اور سردار مسعود خان

محسن ظہیر
نیویارک سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ورچوئل فارمیٹ میں ہونے والے گروپ 77 اور چین کے 45ویں وزارتی اجلاس میں پاکستان کو منتخب کیا گیا ہے۔پاکستان کی جانب سے گروپ آف 77کے 134 ممبران اور چین کا،سال 2022 میں گروپ کی قیادت کرنے کیلئے پاکستان پر اعتماد کا اظہار کرنے پر شکریہ ادا کیاگیا ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ گروپ کے ممبران کے ساتھ مل کر ایسے ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گا،جن میں قرضوں کی تنظیم نو،ترقی پذیر ممالک میں $650 بلین کے نئے SDRs کی دوبارہ تقسیم،بڑی رعایتی فنانسنگ،ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے سالانہ موسمیاتی فنانس میں 100 بلین ڈالر کا متحرک ہونا،ترقی پذیر ممالک سے اربوں کے غیر قانونی مالیاتی بہاؤ کو ختم کرنا اور ان کے چوری شدہ اثاثوں کی واپسی اور ایک منصفانہ اور کھلے تجارتی نظام اور ایک منصفانہ بین الاقوامی ٹیکس نظام کی تشکیل ہوگا۔ 77 کا گروپ، جو 1964 میں قائم ہوا، اقوام متحدہ میں ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا بین الحکومتی گروپ ہے۔ یہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو اقوام متحدہ کے نظام کے اندر اپنے اجتماعی اقتصادی مفادات کو بیان کرنے اور فروغ دینے کے ذرائع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان گروپ کا بانی رکن ہے اور اسے ماضی میں تین مواقع پر نیویارک میں اس کی چیئر کے طور پر خدمات انجام دینے کا خصوصی اعزاز حاصل ہوا ہے۔
نیویارک سے ہی دوسری اہم خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب، سابق صدر آزاد جموں و کشمیر اور سابق کیریئر ڈپلومیٹ سردار مسعود خان انشاء اللہ نئے سال کے پہلے مہینے یعنی کہ جنوری 2022میں واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید کی جگہ پاکستان کے نئے کی ذمہ دریاں سنبھال لیں گے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ان کی تعیناتی کا ”ایگریما“(معاہدہ) بھیج دیا گیا ہے، جونہی امریکی حکومت کی جانب سے ان کی تعیناتی کی قبولیت کا اظہار کیا جاتا ہے، سردار مسعود خان، واشنگٹن میں اپنے فرائض منصبی سنبھال لیں گے۔
راولا کوٹ (ضلع پونچھ) آزاد جموں و کشمیر میں پیدا ہونیوالے سردار مسعود خان بڑے خوش قسمت بیورو کریٹ یا ٹیکنو کریٹ ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں ان کی تقرری، ان کی اہم عہدوں پر مسلسل تقرری کی ”ہیٹرک“ ہو گی۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ جینیوا میں اقوام متحدہ کے آفس میں پاکستان کے مستقل مندوب رہے، سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں وہ چین میں پاکستان کے سفیر رہے، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ادوار کے دوران اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کی اور اسی دور میں صدر آزاد جموں و کشمیر منتخب کروائے گئے اور اب پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں،واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفیر کے طور پر تعینات ہونے جا رہے ہیں۔
سردار مسعود خان ممکنہ طور پر آئندہ ماہ جنوری 2022میں جب واشنگٹن ڈی سی میں بطورسفیر اپنا عہدہ سنبھالیں گے تو اس وقت، امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کا ایک سال مکمل ہو چکا ہوگا۔اس عرصے کا حساب کیا جائے تو سب سے پہلے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ سبکدوش ہونیوالے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان، امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات تو دور کی بات ہے، ایک فون کال کا بھی انتظام نہیں کر و اسکے۔ اس ملاقات یا فون کال کروانے میں سفیر کی کتنی حیثیت ہے یا نہیں،یہ الگ بات ہے۔ اس حوالے سے جب بائیڈن انتظامیہ کے قریبی حلقوں سے استفسار کیا جاتا ہے تووہ کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ کوئی مجھے پاکستان کے بارے میں کچھ نہ بتائے، میں پاکستان کے بارے میں خود بہت کچھ جانتا ہوں۔یہ بات اس لحاظ سے درست ہے کہ امریکی صدر منتخب ہونے سے قبل جو بائیڈن نے سابق امریکی نائب صدر اور یو ایس سینٹ ریلیش کمیٹی کے ”رینکنگ ممبر“ اور چئیرمین کی حیثیت سے سالہا سال بلکہ تین دہائیوں تک پاکستان سے سمیت بیرون ممالک سے امریکہ کے تعلقات کو ایک قانون ساز کے طور پر قریب سے دیکھا، متعدد بار پاکستان کے دورے کئے۔
ڈاکٹر اسد مجید سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب دونوں قائدین ضرورت محسوس کریں گے تو فون کال اور ملاقات بھی کریں گے تاہم امریکی صدر کے علاوہ پاک امریکہ اعلیٰ سطحی روابط موجود ہیں۔
اب مذکورہ حالات میں سردار مسعود خان کو واشنگٹن میں اپنی نہ صرف ذمہ داریاں سنبھالنا ہوں گی بلکہ ان کے وسیع تجربے اور قابلیت کی جھلک، پاک امریکہ تعلقات میں کسی اہم پیش رفت کی صورت میں نظر بھی آنی چاہیے۔
(کالم نگارنیویارک میں“ خبریں“ کے بیوروچیف ہیں)
٭……٭……٭

اسلامی حکمران بابری مسجد کو تعمیر کرنے کیلئے قدم بڑھائیں

علامہ محمد حسین اکبر
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ”اللہ تعالیٰ کی مساجد کو بس وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں“۔ اسی طرح اللہ جل جلالہ نے فرمایا اُن سے بڑھ کر کون لوگ بڑے ظالم ہوں گے جو لوگوں کو اللہ کی مساجد میں عبادت کرنے سے روکتے ہیں اور حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیؐ نے فرمایا جس کسی نے مسجد میں رزق حلال سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے ایک اینٹ لگائی گویا اُس نے جنت میں اپنا گھر بنایا۔ یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین ہندوؤں کے ہاں بھی عبادات کیلئے مقامات مخصوص ہیں۔ حضرت رسول اکرمؐ جس وقت ہجرت فرما کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کیلئے سب سے پہلی مسجد قبا تعمیر فرمائی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی جسے اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہ و معینہ بنیادوں پر خانہ کعبہ کی تعمیر کی گئی۔ اللہ نے اپنے دونوں نبیوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے پاک و صاف کرو اور اس کو مسجد الحرام ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ سید الانبیاءﷺ نے مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد مسجد نبویؐ تعمیر کی جو رتبہ کے اعتبار سے دنیا کی دوسری سب سے عظیم المرتبت مسجد ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے مساجد کے خاص احکام جاری فرمائے۔ روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کرلی تو جو کنکر بچ گئے ان کے بارے میں اپنے رب سے پوچھا کیا کروں، اللہ نے حکم دیا اے میرے خلیل ان کنکروں کو ہوا میں پھینک دو، آپؑ نے تعمیل حکم کرتے ہوئے وہ کنکریاں ہوا میں پھینک دیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ کنکریاں دنیا بھر میں جہاں جہاں گریں قیامت تک کے لئے وہ مقامات مساجد کیلئے مخصوص ہوگئے اور جہاں مسجد بن جائے تو وہ عرش معلیٰ تک مسجد کہلائے گی اس کو گرانا، توہین کرنا، نجس کرنا حرام ہے اس کی عمارت بے شک کئی مرتبہ گرے دوبارہ بنے وہ مسجد ہی رہے گی۔
جب سرزمین ہندوستان میں مغل مسلمان بادشاہوں نے حکومت کی تو جگہ جگہ عالیشان مساجد تعمیر کیں جو فن تعمیر کے شاہکار ہیں انہی مساجد میں سے ہندوستان کی مشہور و معروف مسجد، مسجد بابری بھی ہے جو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے نام پر تعمیر کی گئی اور کئی سو سال سے اس میں عبادت کا سلسلہ جاری رہا لیکن جب سے نریندر مودی نے صوبائی اور مرکزی حکومت کا اقتدار سنبھالا ایک متشدد ہندوؤں کا گروہ تشکیل دیا جو اس کے حکم پر ناصرف ہندوستانی مسلمانوں کا قتل عام کرتا آرہا ہے بلکہ اُن کے مذہبی مقامات خاص طور پر مساجد کو بھی گرا کر اُس جگہ مندر تعمیر کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ اُس کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والی مساجد میں سے ایک بابری مسجد ہے جس کو جنونی دہشت گرد ہندوؤں نے ناصرف شہید کیا بلکہ ہندوستان کی اعلیٰ عدالت نے وہاں پر مندر بنانے کی بھی اجازت دے کر عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کیا اور مسجد کو شہید کرکے اس جگہ پر مندر بت خانہ تعمیر کرنے کے ناقابل معافی جرم کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ اس مسجد کو شہید کرنے والے اکثر ہندو عذاب الٰہی کا نشانہ بن کر دنیا والوں کیلئے سامان عبرت بن چکے ہیں۔ دنیا بھر میں مودی سرکار کے خلاف احتجاجی جلوس اور جلسوں کا آج تک سلسلہ جاری ہے۔ اس بابری مسجد کو شہید ہوئے ایک اور سال گزر گیا ہے مسلمانان عالم اس عظیم مسجد کی شہادت بھولے نہیں، وہ اس سانحہ اور مسجد کی شہادت اور جنونی ہندوؤں کے ظلم و ستم کو اس وقت تک اقوام عالم کے سامنے رکھتے رہیں گے جب تک وہاں پر دوبارہ وہ مسجد تعمیر نہیں ہو جاتی۔
پاکستان نے ناصرف یہ مسئلہ عالمی سطح پر کئی مرتبہ اٹھایا اور احتجاج کیا لیکن مودی سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ عالم اسلام کے تمام حکمرانوں اور خاص طور پر مودی کی یاری کا دم بھرنے والے عرب ممالک کے سربراہوں کو چاہیے کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے ظالم مودی کو بابری مسجد تعمیر کرنے کو مجبور کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے گھر کو دوبارہ اللہ کی عبادت کیلئے استعمال کیا جائے اور مندر اور بت کدہ ختم ہوں۔ یہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی سے ممکن ہے۔
(کالم نگار مذہبی سکالرہیں)
٭……٭……٭

وزیراعظم ہمدردی ضائع ہونے سے بچائیں

شفقت حسین
مجھے یقین واثق ہے کہ وزیراعظم عمران خان، مشیر خزانہ شوکت ترین یا وہ لوگ جنہیں ان کا قُرب حاصل ہے اور جو کسی انسانی سائے کی طرح ان دونوں محترم شخصیات سے جڑے رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی طور میری ذیل میں پیش کی جانے والی معروضات ان تک پہنچ گئیں اور انہیں پڑھ بھی لیا گیا تو مجھے گردن زدنی قرار نہ بھی دیا جائے، مطعون نہ بھی کیا جائے یا میاں محمد نواز شریف کی طرح ملک کے ایک بڑے قومی معاصر کی انتظامیہ پر کچھ صحافیوں کے اخراج کے مطالبے کی طرح راقم کے اخراج کے لئے دباؤ نہ بھی ڈالا جائے تو بھی یہ معروضات ناگوار ہی گزریں گی چونکہ حکمران طبقات ہمیشہ ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ ہی سننے اور پڑھنے کے خوگر ہوتے ہیں اور یہ کام ان کے میڈیا منیجرز بخوبی سرانجام دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔ چاہے وہ پندرہ بیس اخبارات ہی چھپوا کر اپنے حکمرانوں کو پیش کیوں نہ کریں، یوں بھی ایک بڑے قومی معاصر میں لکھنے والے کسی صحافی کا ایک لفظ بھی توجہ حاصل کئے بغیر نہیں رہتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آخر قوم کو کب تک وعدہئ فردا پر ٹرخایا جاتا رہے گا۔
اچھے دنوں کی آمد کے وعدے کے انتظار میں قوم کب تک سولی پر لٹکتی رہے گی۔ بدقسمتی ہماری یہ رہی کہ آج تک ہمہ مقتدر سمجھے جانے والے حاکم یا مطلق العنان حکمران نے بھی دودھ اور شہد کی نہریں بہانا تو درکنار نہروں کی کھدائی تک نہیں کی یہاں تک کہ اس نیک مقصد کے حصول یعنی نہروں کی کھدائی کے لئے زمین تک Locateکرنا بھی گوارا نہیں کیا جو بھی حکمران آئے اپنا تمام تر عرصہئ اقتدار اپنے سابقین کو کوستے کوستے اور انہیں تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے دیتے یادش بخیر سرے سے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے اور جو بچ گئے وہ سابق صدر پرویز مشرف اور میاں محمد نواز شریف کی طرح علاج کے بہانے بیرونی ممالک کے پُرفضا مقامات پر بعد ازصبح کی سیر پُرتکلف ناشتے، دوپہر کے ظہرانے میں انواع و اقسام کے کھانے سہ پہر عصرانے کے دوران ہلکے پھلکے سنیکس اور چائے کافی اسی طرح رات کے عشائے میں پرہیزی کھانوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں گویا قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عیاشیاں مار رہے ہیں جبکہ ملک کے بیس بائیس کروڑ حشرات الارض جنہیں عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے مہنگائی اور افراتفری کی سامنے ایستادہ مضبوط چٹانوں بلکہ پہاڑوں سے اپنے سروں کو پٹخ رہے ہیں اور حرف شکایت زبان پر لائیں بھی تو نہ سننے والا کوئی ماضی میں تھا اور نہ ہی بدقسمتی سے ان کے آنسو پونچھنے والا آج موجود ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم چیزوں کو ترتیب دینے کی بجائے، اتھل پتھل کو درست حالت میں لانے کی بجائے اور سانپ کے نکل جانے کے بعد ہمیشہ سے لکیر پیٹنے کے عادی رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے کہ میاں محمد نواز شریف تو ججز کانفرنس میں خطاب کے بعد لندن میں آرام کر رہے ہیں اور یہاں حکمران طبقات ججز کانفرنس کا اختتام ایک مفرور کی تقریر سے ہونے کو ججوں اور عدلیہ کی توہین قرار دے کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کوئی نتیجہ خیز اور ثمر آور کام نہیں کر پاتے بلکہ ہمارے حکمران ہمیشہ قوم کو لولی پاپ دینے میں ضرور ماہر اور مشاق ہیں۔ کیا یہ لولی پاپ سے کم بات ہے کہ منی بجٹ تو تیار ہے جب حکومت چاہے گی پیش کر دیا جائے گا لیکن اس کا اثر عام یعنی غریب آدمی پر نہیں پڑے گا لیکن 350 ارب روپے کے ٹیکسز کا بوجھ بھی عوام کی گردن پر ڈال دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عوام کو لگائے جانے والے شاک کی پہلی قسط اکتوبر کے بجلی کے بلوں میں چار روپے چوہتر پیسے فی یونٹ اضافی طور پر وصول کرنے کا وہ فیصلہ ہے جو ہم رواں ماہ کے آغاز ہی میں سن چکے ہیں۔ ڈالر کی اونچی سے اونچی ہوتی ہوئی اڑان ہماری سٹاک مارکیٹ کو کریش کرنے میں یکسوئی سے اپنا کام کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی سرمایہ کاروں کے سٹاک مارکیٹ میں لگائے گئے 332 ارب روپے چشم زدن میں ڈوب گئے اور آج بھی ڈالر 180 روپے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے اور ہمارے روپے کی ناقدری کی حالت پوری ملکی تاریخ میں اس قدر سنگین نہیں ہوئی جس قدر موجودہ حکومت میں ہوئی ہے۔
گورنر پنجاب چودھری سرور نے اپنے دورۂ لندن کے دوران میں یہ کہہ کر قوم کے کان کھڑے کئے تو ایسا شاید حب الوطنی کے جذبے کے زیراثر ہی کیا ہو اگرچہ انہیں حکومت کی جانب سے سائیڈ لائن نہ بھی کیا گیاہو تو بھی ہم انہیں دروغ گو نہیں کہہ سکتے کہ آئی ایم ایف نے ہم سے محض چھ ارب ڈالرز کے عوض ہمارا سب کچھ لکھوا لیا ہے۔ اگر چودھری سرور لب کشائی نہ کرتے تو قوم آئی ایم ایف سے اندرکھاتے جو کچھ ہوا ہے اس سے ناآشنا ہی رہتی۔ پانچ کڑی شرائط تسلیم کرنے کا علم تو ہمیں پہلے ہی ہو گیا تھا سب کچھ لکھوالئے جانے کا بھلا ہوچودھری محمد سرور کا انہوں نے بتا دیا۔ اب ایک اور سوال پیدا ہوا ہے کہ سعودی عرب سے ملنے والے تین ارب ڈالر کے عوض ہم سے کیا کچھ لکھوا لیا گیا ہے اس کا کوئی علم پاکستانی قوم کو نہیں۔ پانچ ہزار پانچ سو پچانوے ارب روپے کی سرکاری اراضی پر سیاسی لینڈ مافیا کا قبضہ ہے جس کا علم جناب وزیراعظم کو تین ساڑھے تین سال بعد ہوا ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان نام نہاد سیاسی شرفا کے نام بھی ظاہر نہیں کئے جا سکے اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان کے زیر قبضہ سرکاری اراضی کب تک واگزار کروالی جائے گی نیز یہ کہ آئندہ ان پر دوبارہ قبضے کی جرأت کسی ناجائز قابض کو نہیں ہو سکے گی۔ یہ بھی کہ ان زمینوں پر سجادہ نشین اور گدی نشین کون کون ہیں اور کب سے قابض ہیں۔ وزیراعظم کو اپنے حق پر کھڑے ہونے کی طاقت کا بھی زُعم ہے اور وہ ہمہ دانی کے بھی مدعی آج نہیں ہمیشہ سے رہے ہیں لیکن جناب! ہسپتال بنانا یا ورلڈ کپ جیتنا اور بات ہے جبکہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنا دوسری بات ہے۔ بلاشبہ وزیراعظم ایک سیاسی راہنما ہیں۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن کو برائی کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ برائی اوپر سے نیچے تک آتی ہے اور اخلاقی طور پر کوئی پست شخص ہی چوروں سے ڈیل کرتا ہے لیکن ایسے اوصاف سے متّصف کوئی سیاسی راہنما تو کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے قائد اور مدّبر ہونے کا اعزاز وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو اپنی بکھری ہوئی اور منتشر قوم کو کسی کے پنجہئ استبداد سے نجات دلاتے ہوئے ایک نیا ملک حاصل کر کے اس کے سپرد کرے۔
کیا یہ جھوٹ ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی بار قوم کو ایک متفقہ اور تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابل قبول آئین دیا۔ انہوں نے ہمارے ازلی اور ابدلی دشمن بھارت کا منہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرتے ہوئے ہمیں ایٹمی پروگرام پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں دنیائے اسلام کے عظیم ترین قائدین کو لاہور میں اکٹھا کیا اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کااعزاز حاصل کیا۔ یہ ان کا اعزاز تو تھا ہی پاکستانی قوم بھی اس اعزاز کی حامل بنی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک غریب ملک میں ایک بہت بڑی اسٹیل انڈسٹری جسے پاکستان سٹیل ملز کہا جاتا ہے کراچی میں قائم کی اور بیروزگاری کے خاتمے میں ایک بڑا اور نظر آنے والا مرکزی کردار ادا کیا لیکن جسے بعد میں آنے والے سیاسی بونوں نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملک کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط ترین بنانے کے لئے ہیوی ٹیکسلا انڈسٹری کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا۔ لیکن کیا موجودہ وزیراعظم دل پر ہاتھ رکھ کر بتا سکتے ہیں کہ آپ کے عہد میں ماسوائے کرپشن کے خاتمے کی باتیں کرنے کے (جو ختم بھی تاحال نہ ہو سکی) اور کیا ہوا۔ میں بھٹو صاحب کا ہر گز ہرگز شیدائی اور ان کا جیالا نہیں ہوں لیکن یہ امر واقعہ کا اظہار ہے جو کیا جانا ضروری تھا۔ میں تو عمران خان کا بھی مخالف یا خدانخواستہ دشمن نہیں ہوں لیکن آپ کے آنے سے قوم کو میرے سمیت ایک امید ضرور بندھی تھی جو تاحال پوری نہیں ہو سکی۔ مجبوریاں اپنی جگہ لیکن بشری کمزوریاں تو دور کی جا سکتی ہے۔ مجبوری کے پیش نظر ہی تو آپ کو اپنے وزرا کو بیرونی ممالک کے دوروں سے منع کرنا پڑا اور آئندہ کے تین ماہ اہم قرار دیتے ہوئے اپنے اپنے دفاتر میں موجود رہنے کا پابند بنانے کی نوبت آئی ہے کیونکہ آپ کے علم اور مشاہدے کے مطابق وفاقی وزرا اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر گپ شپ کرتے چائے کافی پیتے اور ہلکی واک کرتے مصروف نظر آتے ہیں۔ جناب! وزیراعظم قوم کو آج بھی آپ سے ہمدردی ہے لہٰذا اس ہمدردی کو ضائع ہونے سے بچائیے۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

کوئے یار کا متلاشی چودھری رحمت علی

انجینئر افتخار چودھری
آج ہی تیس دن پابند رہنے کے بعد اظہار رائے کی آزادی ملی ہے فیس بک نے پانچ بار پابند کیا۔ یہ کیسی کتاب ہے جہاں آپ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے جو پابندیاں وہ لگاتے ہیں اور کمیونٹی کے جو رولز ان کے ہیں وہ ہمارے لئے قبول تو نہیں ہیں لیکن کیا کیا جائے ہم آمین کہتے ہیں ہم قانونی طور پر ان کی جانب سے لگی شرائط کو من و عن مانتے ہیں۔ وہ ہمارے کیمرے تک رسائی بھی رکھتے ہیں ہماری باتیں بھی سنتے ہیں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کی مفت سہولت کے بدلے ہماری پرائیویسی خفیہ نہیں رہتی۔ سنا ہے ڈیٹا بیچا بھی جاتا ہے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ہم گلے شکوے تو کرتے رہیں گے مگر متبادل نہیں دے سکتے۔ آج ایک مہینہ ہو گیا ہے مجھے بھی فیس بک نے کھڈے لگا دیا تھا خود ہی کھول دیتے ہیں اور باندھ بھی خود ہی دیتے ہیں۔
آج نقاش پاکستان کی پیدائش کا دن ہے۔ چودھری رحمت علی کی باتیں کرنے کا دن۔ ابھی ان کی تصویر لگائی تو کسی نے سوال کر دیا کہ الیکشن سے پہلے عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ان کا جسد خاکی پاکستان لایا جائے گا آپ پی ٹی آئی کے ہیں آپ نے کیا کیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنے لیڈروں کو قوموں برادریوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے چودھری رحمت علی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ لیاقت علی خان کو کراچی کے مہاجروں نے اپنا نجات دہندہ قرار دیا۔
اسلام آباد کی ایک برادری نے 2018ء کے انتحابات سے پہلے عمران خان کو ایک بڑی تقریب میں بلایا اور ایک تحریری معاہدے پر دستخط کروائے۔ اسد عمر بھی اس میں شامل تھے گجروں نے اسلام آباد کی تینوں سیٹیں پی ٹی آئی کو دے دیں۔ پی ٹی آئی راولپنڈی سے بھی کامیاب ہوئی، ابرار گجر اکثریت سے عامر کیانی سے جیت گئے۔ عجیب ماحول بن گیا تھا گجروں نے اپنا سب کچھ پی ٹی آئی کی جھولی میں اس وجہ سے ڈال دیا کہ اب چودھری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان آ رہا ہے۔ میں خود بھی اسی بخار میں مبتلا کبھی انجینئر ارشد داد اور کبھی علی نواز اعوان کے پاس گیا۔ اور تو اور صدر مملکت سے دوبار ملاقات میں انہیں یاد دہانی کرائی۔
چودھری رحمت علی 16 نومبر 1897ء کو گڑھ شنکر مشرقی پنجاب میں چودھری شاہ محمد گجر کے ہاں پیدا ہوئے۔ عمران خان نے بڑی کھری بات کی تھی کہ وہ ایک صدی آگے سوچتے تھے۔ کیوں نہیں جب حضرت قائد اعظم جن پر جان دیتا ہو؟ وہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کر رہے تھے اس وقت سچا مسلمان دنیا کو بتارہا ہے کہ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان ہندوؤں سے الگ ہو جائیں۔ یہ بات 1915ء میں کی گئی۔ جدہ میں ڈاکٹر انیس الرحمن نے مجھ پر جملہ کسا کہ 18 سال کا لڑکا کیا نظریہ دے گا۔ جس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا سر اگر سترہ سال کا محمد بن قاسم سندھ فتح کر سکتا ہے تو کیا ایک سچا مسلمان ایک سوچ اور فکر نہیں دے سکتا۔ چودھری رحمت علی نے اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ متشدد ہندو ذہنیت سے واقف ہوئے۔
عالم اسلام کے ہیرو علامہ اقبال آج بھی امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہ سچ ہے اور سب کو اب پون صدی بعد بول ہی دینا چاہئے جبکہ چودھری رحمت علی تو ایک بڑی ہجرت کی تجویز دے رہے تھے اتنی بڑی ہجرت کے عوض دو دریاؤں کے سوتے اور پورے کشمیر کا مطالبہ کررہے تھے جس کا نام پاکستان تجویز کیا۔ ہند کے اندر مسلم ریاستوں کو مختلف نام دیئے۔ اندرا نے پاکستان تو توڑا مگر اس کا غرور سکھوں نے اس کی جان لے کر توڑا اور ثابت کیا ہندوؤں کے ساتھ کوئی بھی نہیں رہ سکتا۔
بیماری کے دنوں میں ان کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں تھے۔ جس حکومت نے مسخروں پر دولت لٹائی بڑے بڑے سیاست دانوں کے علاج پر پاکستان کا پیسہ خرچ کیا وہ شخص حالت فقیری میں 3 فروری 1953 میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ کئی دن لاش سرد خانے میں پڑی رہی انہیں مصری طلباء نے امانتاً دفن کیا آج تک وہ دفن ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کا جسد خاکی لانے کی کوشش کی چودھری شجاعت حسین کے دور میں ایسا لگا کہ ان کی ڈیڈ باڈی پاکستان آجائے گی مگر نہ آسکی حالانکہ ضیاشاہد، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمان شامی ان کی خدمات کے معترف تھے حتیٰ کہ حمید نظامی نے انہیں ایک قومی ہیرو قرار دیا تھا۔
صدر مملکت ڈاکٹر علوی بہت مہربان ہیں میں نے دو بار ان سے اس موضوع پر بات کی لیکن افسوس کہ جناب صدر وعدہ کرنے کے باوجود پورا نہ کرسکے۔ میں نے علی محمد خان سے بھی بات کی وہ تو ان کے معتقد نکلے لیکن سچ ہوچھیں عمران خان کے دستخطوں سے مزین ایک تحریر بار بار یاد دلاتی ہے کہ اگر آپ کے دور میں چودھری رحمت علی کی باڈی نہیں آ سکی تو پھر کبھی نہیں آ سکے گی۔ کیا اس پاکستان کے بائیس کروڑ عوام آزادی کا سانس نہیں لے رہے؟ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو نہیں بھولتیں۔ اگر جمال الدین افغانی کی قبر منتقل ہوسکتی ہے تو چودھری رحمت علی کی کیوں نہیں؟ کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لیے دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭