سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ میری جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب نظر ثانی کیس زیر التواء ہے، چاہتا ہوں کہ کسی مقدمے میں اس معاملے کو دیکھا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے نے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں، امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔
سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ مولوی اقبال صاحب آپ پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔
عدالت نے درخواست پر رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کر دی۔
سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست
آئینی بینچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست بھی خارج کر دی۔ دوران سماعت، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 90 فیصد سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی ہی نہیں ملتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو براہ راست سن رہے ہیں اس سے زیادہ کیا رسائی چاہیے، آپ تو اپنے ہی ادارے کو برباد کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 120 ہے اور کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 150 ہے، پتہ نہیں یہ نمبر کہاں سے آتے ہیں۔
ٹرائل مکمل کرنے کیلیے ٹائم فریم طے کرنے کا کیس
اعلیٰ عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فوجداری قانون سمیت کئی قوانین میں ٹائم لائن موجود ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ٹائم لائن کے لیے پارلیمنٹ سے جاکر قانون سازی کروا لیں۔
درخواست گزار حسن رضا نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوتے ہوتے 20 سے 40 سال لگ جاتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایسی عمومی باتیں نہ کریں اور الزام نہ لگائیں، سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے لیکن پیش رفت ہو رہی ہے، آپ کی درخواست نیشنل جوڈیشل پالیسی سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر کسی کو ہدایت نہیں جاری کریں گے، جہاں اصلاحات ہو رہی ہیں وہاں جاکر شمولیت اختیار کریں، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے تابع ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر ہماری طرف سے بھی سخت ردعمل آیا تو مایوسی پھیلے گی۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی ریفارمز کے لیے لاء اینڈ جسٹس کمیشن موجود ہے، وہاں رجوع کریں۔ عدالت نے دلائل کے بعد درخواست خارج کر دی۔