Tag Archives: supreme-court-of-pakistan

نوا ز شریف کیلئے خوشیاں عارضی ثابت ہوئیں ،دوبارہ پارٹی صدر بننے کے بعد ہی سپریم کورٹ میں اہم اقدام اُٹھا لیا گیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے نااہل شخص کے پارٹی صدربننے کیخلاف شیخ رشید کی اپیل چیمبرمیں سماعت کیلئے مقررکرلی، چیف جسٹس ثاقب نثارکل اپنے چیمبرمیں درخواست پرسماعت کریں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرلی ہے۔ شیخ رشید نے نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی ۔
جبکہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراضات لگا کردرخواست مسترد کر دی تھی۔تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ پٹیشن پراپیل پرسماعت مقرر کردی ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثاراپنے چیمبرمیں کل سماعت کریں گے۔ واضح رہے حکومت نے انتخابی ایکٹ میں نااہل شخص کوپارٹی صدر بنانے کیلئے بل پاس کیا۔جس پرنوازشریف پارٹی صدر بن گئے۔

سپریم کورٹ نے بھی نوازشریف کی 3 ریفرنسزیکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی

 اسلام آباد(ویب ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثارنے سابق وزیراعظم نواز شریف کی 3نیب ریفرنسز یکجا کرنے کی اپیل مسترد کردی ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں نواز شریف کی 3نیب ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست پر سماعت کی سابق وزیراعظم کی جانب سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے رجسٹرارآفس کی جانب سے لگائے جانے والے اعتراضات برقرار رکھے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ پاناما فیصلے پر نظرثانی کا آپشن حاصل کرچکے ہیں۔خیال رہے کہ نواز شریف نے نیب کی جانب سے دائر 3 ریفرنسز یکجا کرنے کے لئے اعتراضات کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا تاہم رجسٹرار آفس نے درخواست پر اعتراض لگاتے ہوئے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا کہا تھا۔نواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ رجسٹرار آفس کے درخواست پر لگائے جانے والے اعتراضات سنیں۔تاہم آج چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر سماعت کے بعد اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے نواز شریف کی اپیل مسترد کردی۔اس سے قبل احتساب عدالت نے بھی تینوں نیب ریفرنسزیکجا کرنے کیلئے سابق وزیراعظم نوازشریف کی مسترد کردی تھی۔

”نا اہلی کیس“نواز شریف کے بعد جہانگیز ترین ۔۔سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس

اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ٹرسٹ کا سیٹلرجائیداد کا مالک نہیں ہوسکتا ،ٹرسٹ جہانگیرترین کااثاثہ نہیں ہے ،دیکھنا ہے کیا جہانگیرترین کوٹرسٹ کے تحت خریدی جائیداد کوکاغذات نامزدگی میں ظاہرضروری تھا،ٹرسٹ قانونی طریقے سے بنایا گیا بددیانتی کیسے ہوگئی بیرون ملک پیسہ جہانگیرترین کااثاثہ ثابت کرنا ہوگا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے جہانگیرترین ناکے لیے مسلم لیگ ن کے رہنماءحنیف عباسی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی ، دوران سماعت حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس نے اپنے دلائل میں جہانگیرترین کی مجموعی زرعی آمدنی کے تحریری جوابات میں تضاد ہونے کا موقف اپنا تے ہوئے کہاکہ جہانگیر ترین کی جانب سے لیززمین سے متعلق پیش کی جانے والی دستاویزات جعلی ہیں جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کاغذات نامزدگی مسئلہ بننے پرتوجہ ہی نہ دی گئی ہو جہانگیرترین نے لیززمین کی ادائیگیاں بذریعہ چیک کیں کسی مالک نے اعتراض بھی نہیں کیا ،اس پر وکیل نے عدالت کو بتایاکہ جہانگیر ترین نے لیززمین کی آمدنی پرایک پیسہ ٹیکس بھی ادا نہیں کیا توجسٹس عمرعطا ءبندیال نے کہا کہ کیاہم ٹیکس ،اتھارٹی کے اختیارات استعمال کرسکتے ہیں عاضد نفیس نے کہاکہ عدالت نے ٹیکس گوشواروں اوردستاویزات میں تضاد دیکھنا ہے تاہم لیززمین کا محکمہ مال میں اندراج ہی نہیں ہے جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ اندراج کرانا مالکان کا کام تھا ، چیف جسٹس نے کہاکہ ریکارڈ پر موجود دستاویزات کے ذریعے بے ایمانی کا دیکھ رہے ہیں جبکہ حنیف عباسی نے جہانگیر ترین کی جانب سے لندن پراپرٹی سے متعلق ٹرسٹ ڈیڈ پردلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے جہانگیرترین نے آف شورکمپنی اورٹرسٹ کے بینفیشری مالک ہونے سے انکارکیا تھا اب ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق وہ تاحیات بینیفشری ہیں ،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرسٹ کا سیٹلرجائیداد کا مالک نہیں ہوسکتا ٹرسٹ جہانگیرترین کااثاثہ نہیں ہے دیکھنا ہے کیا جہانگیرترین کوٹرسٹ کے تحت خریدی جائیداد کوکاغذات نامزدگی میں ظاہرضروری تھا اس پر وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ اثاثے کی مالکیت کوچھپانے کیلئے بنایا جاتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ٹرسٹ کی جائیدارجہانگیرترین کی ملکیت ہونے کے قانون سے متعلق پوچھا اورکہاکہ پانامہ کیس میں بھی منی ٹریل اورپیسہ آنے کے ذرائع کا سوال تھا پہلے عدالت نے قابل وصول تنخواہ کواثاثہ ثابت کیا جسے ظاہرنہ کرنے پرنااہلی ہوئی وکیل نے کہاکہ پاناما فیصلے میں عدالت تنخواہ ظاہرنہ کرنے کی تہ میں نہیں گئی ، عدالت کو کنڈکٹ کودیکھ کرصادق اورآمین کافیصلہ کرناہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کوبائی پاس نہیں کرسکتے تاحیات بینیفیشری ہونے کوتسلیم کرنے کے بعد کاغذات نامزدگی میں ٹرسٹ ظاہرکرنےکا سوال ہے ، ٹرسٹ قانونی طریقے سے بنایا گیا بددیانتی کیسے ہوگئی بیرون ملک پیسہ جہانگیرترین کااثاثہ ثابت کرنا ہوگا ، بعد ازاں عدالت نے سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

کراچی کی سیاست میں بڑا دھماکہ ،کل کے دشمن ایک ہو گئے

کراچی(ویب ڈیسک)کراچی پریس کلب میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پی ایس پی کے دوستوں کو مشترکہ اور مثبت کوشش کے لیے یہاں اکھٹے ہونے پر خوش آمدید کہتا ہوں، آج ایک اہم واقعہ رونما ہورہا ہے اور ہماری پریس کانفرنس کا مقصد سندھ اور کراچی میں ووٹ بینک کی تقسیم کو روکنا ہے، صوبہ سندھ بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے اور کراچی کی سیاسی جماعتوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کیا کہ ہمیں صرف اس شہر اور صوبے کے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے مسائل حل کرنے ہیں۔فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہم نے ورکنگ ریلیشن شپ یا سیاسی اتحاد کا فیصلہ کیا ہے ، ہمارا اصل مقصد امن کو دیر پا کرنا اور ووٹ بینک کی تقسیم روکنا ہے، اس مقصد کے لیے دونوں جماعتوں کے درمیان مشاورت جاری تھی جب کہ ہمیں عوام کو لیڈرشپ فراہم کرتے ہوئے عدم تشدد کی پالیسی لانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی اتحاد کا نام اور لائحہ عمل کے حوالے سے آئندہ کے اجلاس میں فیصلہ ہوگا۔رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں ایک نام، ایک منشور اور ایک نشان پر لڑیں گے، سندھ کے دیہی شہری علاقوں کی دیگر جماعتوں کو بھی دعوت دیں گے، شہری سندھ اور بالعموم دیہی سندھ میں غاصبانہ قبضہ ختم کرائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کارکنوں کی بازیابی کا سلسلہ بڑھے گا۔دوسری جانب مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ فاروق ستار بھائی کی بات کی توثیق کرتا ہوں، آئندہ ہونے والے انتخابات میں ایک پارٹی کے نام، انتخابی نشان اور ایک منشور سے پاکستان کے لوگوں کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے لیکن چونکہ ایم کیو ایم متحدہ بانی کی تھی اور رہے گی لہذا اب ہماری پہچان جو بھی ہو، ایم کیو ایم نہیں ہوگی۔پی ایس پی رہنما نے کہا کہ فاروق ستار بھائی سے آئندہ الیکشن میں تعاون پر6 ماہ سے سلسلہ چل رہا ہے اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہماری بات کی تائید کی جس کی بدولت آج ایک ذاتی مفاد کو پیچھے رکھتے ہوئے اس شہر، صوبے اور ملک کے لیے سوچا جارہا ہے، آج ہمارا نام نہیں ہے لیکن ایک نام اور منشور پر آگے چلنے پر اتفاق کیادے رہے ہیں۔

امریکا مسئلہ کشمیر پر ثالثی کیلئے تیار ہے، سیکریٹری خارجہ

 اسلام آباد(ویب ڈیسک) سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ امریکا مسئلہ کشمیر پر ثالثی کیلئے تیار ہے اور ٹرمپ انتظامیہ نے یقین دلایا ہے کہ پاکستان پر کسی دہشت گرد تنظیم کا حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔اسلام آباد میں چیئرپرسن نزہت صادق کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ ملکی خارجہ پالیسی کہیں اور سے نہیں بنتی بلکہ مختلف اسٹیک ہولڈرز بناتے ہیں، پاکستان کے احتجاج کے بعد لندن میں پاکستان مخالف اشتہارات  اتار دیے گئے ہیں۔سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کے 45 فیصد علاقے پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں، صوبہ کنڑ اور دیگر افغان علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، اس لئے حقانی نیٹ ورک کو پاکستان میں پناہ گاہ کی ضرورت نہیں، ٹی ٹی پی اور داعش پاکستان کے خلاف کاروائیاں کررہے ہیں اور اس حوالے سے امریکا کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ وہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ امریکا کو بتا دیا ہے کہ قابل عمل انٹیلی جنس معلومات پر کارروائی کی جائے گی جب کہ بھارت کا خطے میں تھانیدار کا کردار پاکستان کےلئے ناقابل قبول ہے، امریکا را کی پاکستان مخالف سرگرمیوں سے آگاہ ہے اور ٹرمپ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان میں پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا اور امریکا برداشت نہیں کرے گا کہ کوئی دہشت گرد تنظیم پاکستان پر حملے کرے۔

سیکریٹری خارجہ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل کےحوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آرمی چیف کی افغان سول عسکری قیادت سے ملاقاتیں مثبت رہیں، افغان صدراشرف غنی نے آرمی چیف سے کہا کہ بھارت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے افغانستان تک رسائی چاہتا ہے، جس کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ اس کے لئے بھارت  باضابطہ طور پر درخواست دے۔

ختم نبوت کا نفرنس کا پنڈا ل تیا ر ،جید علماءکا خطاب ،اہم فیصلے متوقع

لاہور(خصوصی رپورٹ) جمعرات و جمعہ کوعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام 36 ویں سالانہ دو روزہ ختم نبوت کانفرنس صوبہ پنجاب کے تاریخی شہر چناب نگر کی مسلم کالونی میں واقع عظیم الشان ادارے کے وسیع و عریض میدان میں منعقد ہو رہی ہے۔ جس میں ملک بھر سے شیوخ، اکابرین امت اور حضرات علماءکرام تشریف لائیں گے۔ کانفرنس کے اہم موضوعات میں عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ قادیانیوں کے ارتدادی سرگرمیوں سے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کے سدباب ک ےلیے تجاویز قادیانیوں کی جانب سے خاتم النبین کی غلط تشریح کا جواب عقیدہ حیات و نزول مسیح علیہ السلام، حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کی تشریف آوری ، جھوٹے مدعیان مبدویت کے بارے میں امت مسلمہ کو حقائق سے آگاہ کرنا مسلمانوں کو سیرت طیبہ پر عمل کرنے کی تلقین کرنا شمل ہیں۔ اس کانفرنس کی تاریخی اہمیت کا جائزہ لیتے ہیں، عام طور پر ہم جب جھوٹے مدعیان نبوت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ ایسے وقت میں سر اٹھاتے ہیں جب مسلمانوں میں اضطراب ہو اور وہ مصیبت میں مبتلا ہوں۔ اس اضطراب کو انتشار میں بدل کر یہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے ساتھ ساتھ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تناظر میں جب ہم گزشتہ صدی کے جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کی سرگرمیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی یہی صورت نظر آتی ہے کہ مسلمان برصغیر میں اپنی طویل غلامی کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں، ہزاروں علمائے کرام تختہ دار پر اس طرح لٹکائے گئے کہ خود برطانوی سامراج کے باضمیردانشور اس ظلم پر چلا اٹھے، مگر ان مظالم میں کمی نہ آئی ۔ ایسے وقت میں علماءکرام اور اکابرین امت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت حافظ ضامن شہیدؒ نے جہاد کا اعلان کرکے شاملی کے میدان میں مجاہدین کو اتارا۔ جس میں ابتدائی طور پر ظاہری شکست ہوئی، مگر تحریک آزادی کی روح مسلمانوں کے دلوں میں پھوٹ اٹھی۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے عسکری قوت کے ساتھ حکومت وقت نے پادریوں کے غول کے غول برصغیر میں بھیج دیئے جسے علمائے حق نے ناکام بنا دیا۔

انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کیخلاف سپریم کورٹ میں تیسری درخواست دائر

 اسلام آباد: انتخابی اصلاحات ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں تیسری درخواست دائر کردی گئی۔ سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ کیخلاف سپریم کورٹ میں تیسری درخواست دائر کی گئی، درخواست داؤد غزنوی نامی شہری کی جانب سے دائرکی گئی۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ انتخابی اصلاحات بل آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے، نئے قانون کے تحت نااہل شخص منتخب نمائندوں کو ڈکٹیشن دے گا اورنااہل شخص منتخب نمائندوں کوفارغ کر سکے گا۔درخواست گزار نے مزید موقف اختیار کیا کہ شق 203 میں کی گئی ترمیم سے عوام کا جمہوریت پر اعتماد اٹھ جائے گا، شق 203 میں ترمیم پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھی ہی نہیں گئی، قانون عوامی مفاد کے بجائے ایک شخص کیلئے بنایا گیا اس لیے بل کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قراردیا جائے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی سپریم کورٹ میں الیکشن بل ترمیمی ایکٹ 2017 کو چیلنج کیا تھا۔

سپریم کورٹ سے اہم ترین خبر ،پی ٹی آئی میں ہلچل

اسلام آباد(آن لائن ) سپریم کورٹ میں عمران خان کی نااہلی اور آفشور کمپنیوں سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے بنی گالہ اراضی سے متعلق پیش کی گئی ہر دستاویزایک دوسرے سے مختلف ہے، ہر نقطے کا الگ الگ جائزہ لیں گے بہت سے نکات ابھی وضاحت طلب ہیں، قانون کی حکمرانی کی پاسداری ہمارے فرائض میں شامل ہے ،ہم متنازع حقائق پر انکوائری یا تحقیقات کرانے کا حکم بھی دے سکتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے عمران خان سے عدالتی سوالات کے جوابات 10 روز میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کردی۔ منگل کے روزمسلم لیگ(ن) کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں عمران خان نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی ،عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل نعیم بخاری جب کہ جواب الجواب دلائل دینے کے لئے حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ پیش ہوئے،چیف جسٹس نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ بنی گالہ خریداری میں آنے والے خلا کو پ±ر کرنے سے متعلق کچھ دستاویز آپ نے دینے تھے کیا آپ نے جمع کرادیئے، نعیم بخاری نے کہا کہ جی عدالتی حکم پر متفرق جواب عدالت میں جمع کرادیا گیا ہےں اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر جواب میں کوئی اضافی مو¿قف دیا گیا ہے تو اس کی نقل دوسرے فریق کو بھی دینا ہوگی ،حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے مو¿قف پیش کیا کہ عمران خان کے نان ریزیڈنٹ ہونے سے متعلق کچھ دستاویز جمع کروائی گئی ہیں، عدالت کا لارجر بینچ اس حوالے سے ایک اصول طے کرچکا ہے این ایس ایل کے 2 بینک اکاو¿نٹس تھے جب کہ عدالت میں صرف ایک بینک اکاو¿نٹ پیش کیا گیا ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بعض اوقات دوران سماعت اپنی سمجھ کے لئے سوالات اٹھائے جاتے ہیں غیر متنازع حقائق پر فیصلہ کرسکتے ہیں حقائق متنازع ہوں تو تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے دونوں اطراف سے مو¿قف کی وضاحت کی ضروت ہے،عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے مو¿قف پیش کیا کہ میں نے عدالت کے حکم کے مطابق اپنا جواب جمع کرادیا ہے آپ نے پاسپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا ایک کمپیوٹر پرنٹ جمع کرادیا گیا ہے جب کہ عمران خان کے بیرون ملک ہونے کے حوالے سے 1976 سے 1988 تک کا ایک چاٹ بھی لگایا گیاہے، اکرم شیخ نے جواب دیا کہ اس کمپیوٹر نہیں تھا یہ پاسپورٹ کا متبادل نہیں ہوسکتا، میں نے عدالتی حکم پر مکمل عمل کیا ہے لیکن دوسرا وکیل من مرضی کے جواب جمع کروا رہا ہے ،چیف جسٹس نے نعیم بخاری کو ریمارکس دیئے کہ آپ نے بنی گالہ جائیداد سے متعلق خلا کی وضاحت کرنی ہے بنی گالہ کے حوالے سے جمائما سے رقم کی ترسیل کی مصدقہ دستاویزات کہاں ہیں، عمران خان کے پہلے جواب میں راشد علی خان نامی شخص کا کہیں بھی ذکر نہیں تھا، جمائما کے لئے اراضی خریداری کا مو¿قف آپ کے سب سے پہلے مو¿قف میں نہیں تھا، عمران خان نے تسلیم کیا کہ اہلیہ سے قرضہ لیا جب اہلیہ سے قرضہ لیا تو جائیداد ان کے نام کیسے ہوئی پہلے جواب میں لکھا گیا کہ خاندان کے لئے رہائش تعمیر کرنے کے لئے اراضی خریدی گئی، آپ کی پیش کردہ ہردستاویز میں الگ مو¿قف ہے۔ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ خاندان کا مطلب عمران خان کی اہلیہ اور بچے تھے،اس پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے وکیل پسند و ناپسند کی بنیاد پر دستاویزات فراہم کر رہے ہیں ،ایک کمپیوٹر کی دستاویز اور راشد خان کا بیان حلفی دستاویزات سے ہٹا دیا گیا ہے ،سپریم کورٹ شواہد رکارڈ نہیں کرا رہی ،انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ نیازی سروسز کے دو بینک کھاتے ہیں، ایک کھاتے سے پیسے بھیجے جا رہے ہیں، دوسرے سے وصول ہو رہے ہیں، عمران خان نے صرف رقوم وصول کرنیوالے بینک کھاتے کی تفصیلات فراہم کی ہیں، عمران خان دستاویزات میں ردوبدل کر رہے ہیںاس پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیازی سروسز ،بنی گالہ اراضی اور گرینڈ حیات فلیٹ کا معاملہ اٹھایا گیا، درخواست میں منی ٹریل اور غیرملکی فنڈنگ کا معاملہ بھی اٹھایا گیا، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کس فورم کو سماعت کا اختیار ہے چیف جسٹس نے کہاکہ عمران خان نااہلی کیس میں ہر نقطے کا الگ الگ جائزہ لیں گے، تمام نکات کا جائزہ لیں گے بہت سے نکات ابھی وضاحت طلب ہیں،قانون کی حکمرانی کی پاسداری ہمارے فرائض میں شامل ہے ،ہم متنازع حقائق پر انکوائری یا تحقیقات کرانے کا حکم دے سکتے ہیں ، اس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ایک کیس میں قانون کی وضاحت کر دی ہے۔عدالت نے عمران خان سے عدالتی سوالات کے جوابات 10 روز میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کردی۔

ہم پر لازم نہیں جے آئی ٹی کی فائنڈنگ کو تسلیم کر لیں: جسٹس اعجازالاحسن

اسلام آباد سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت، جے آئی ٹی رپورٹ پر پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے وکلاء نے دلائل مکمل کر لئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہم پر لازم نہیں کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ کو تسلیم کر لیں، کسی بھی فریق کے خلاف فائنڈنگ کس طرح تسلیم کریں، بینج نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے ہل میٹل کے حوالے سے جن دستاویزات پر انحصار کیا، وہ تصدیق شدہ نہیں، ضرورت محسوس ہونے پر والیم ٹین بھی کھول دیں گے۔

قبل ازیں شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں بتاؤں گا کہ جے آئی ٹی کا کام کیا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ نا قابل قبول دستاویزات پر مبنی ہیں، رپورٹ میں قانون کی مکمل خلاف ورزی ہوئی، جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، رپورٹ کو ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا، جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی درخواست دائر کی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ خود کو قانونی پہلوؤں تک محدود رکھیں، آپ اپنے دلائل کو ایشوز تک محدود رکھیں۔

جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں قوم سے غلط بیانی کی، نا اہل قرار دیا جائے۔

عوامی مسلم لیگ کی جانب سے شیخ رشید نے خود دلائل دیتے ہوئے کہا 5 ججز نے قوم کی جو خدمت کی ہے، اللہ اس کا صلہ ضرور دے گا، لوگوں نے کہا جے آئی ٹی کی رپورٹ جنوں کی ہے، ایسی جے آئی ٹی تشکیل دینے پر سلیوٹ کرتا ہوں، میری گزارشات سویٹ، شارٹ اور سمارٹ ہوں گی، شیخ رشید نے کہا ہر کیس کے پیچھے ایک چہرہ ہوتا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ میں بے نامیوں کا جمعہ بازار ثابت ہو چکا، شریف فیملی عام قسم کی مخلوق نہیں ہے، ایک بچے کو سعودی عرب، دوسرے کو لندن رکھا گیا، جے آئی ٹی ارکان نے بہت اچھا کام کیا، انصاف کی جیت ہوگی۔

شیخ رشید نے دلائل دیتے ہوئے کہا وزیراعظم کے بچے مستری مجید یا کسی ڈینٹر کے بچے نہیں، جے آئی ٹی کو گالیاں نکالی گئیں، جے آئی ٹی نے گلف سٹیل کا حشر نشر کر دیا، حسن اور مریم نواز اپنے والد کے بے نامی دار ہیں، کسی ملک کا وزیراعظم دوسرا عہدہ نہیں رکھتا، جس عمر میں شناختی کارڈ نہیں بنتا، وزیراعظم کے بچے کروڑوں کے مالک تھے، نوازشریف کے اقامے سے قوم کی ناک کٹ گئی، ہمارا وزیراعظم دوسرے ملک میں نوکری کرتا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، رپورٹ پر اپنی معروضات پیش کروں گا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا، جے آئی ٹی رپورٹ آنے پر اب فیصلہ عدالت نے کرنا ہے،انہوں نے کہا رپورٹ میں طارق شفیع کے بیان حلفی کو جعلی قرار دیا گیا، گلف سٹیل کے شیئرز فروخت کرنے کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا گیا، حسین نواز اور طارق شفیع کے گلف سٹیل سے متعلق بیانات میں تضاد ہے، رپورٹ میں قطری خاندان کو 12 ملین درہم دینے کو افسانہ قرار دیا۔

نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا مریم نواز نے تسلیم کیا کہ انھوں نے بیئرر سرٹیفکیٹ نہیں دیکھے، جےآئی ٹی کے مطابق مخصوص فونٹ مارکیٹ میں موجود نہیں تھا، ٹرسٹی کیلئے لازم تھا کہ مریم نواز کے پاس آف شور کمپنی کے سرٹیفکیٹ ہوتے، نواز شریف نے بیان میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، شریف خاندان 1993 سے 96 کے درمیان لندن فلیٹ میں رہ رہا تھا، شریف فیملی کے اثاثوں کی تقسیم میں لندن فلیٹس کا ذکر نہیں۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا شہباز شریف بھی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کا بیان ایسا ہے جیسے پولیس افسروں کے سامنے ریکارڈ کیا گیا ہو، شہبا زشریف کے بیان کا دائرہ کار کیا ہوگا، اس کا جائزہ ضابطہ فوجداری کے تحت لیا جاسکتا ہے۔

نعیم بخاری دلائل دہتے ہوئے مزید کہا التوفیق کمپنی کے فیصلے میں الثانی خاندان کا ذکر نہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا عدالتی فیصلے میں قطری خاندان کا ذکر کیوں ہوتا، نعیم بخاری نے کہا عدالت فیصلہ کرے نا اہل کرنیوالے ججز کے ساتھ اتفاق کرنا ہے یا نہیں ؟، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا نا اہلی کا فیصلہ اقلیت کا تھا، جے آئی ٹی اکثریت نے بنائی۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا جے آئی ٹی کو سعودی عرب سے قانونی معاونت نہیں ملی، رپورٹ میں ذرائع کی معلومات کا بھی ذکر کیا، جسٹس اعجٓز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا ذرائع کی دستاویزات مصدقہ ہیں؟، نعیم بخاری نے کہا وہ دستاویزات تصدیق شدہ نہیں لیکن جے آئی ٹی نے درست قرار دیں۔

نعیم بخاری نے مزید کہا کہ وزیراعظم جدہ سٹیل ملز کی فروخت کی دستاویزات دینے میں نا کام رہے، جدہ فیکٹری 63 ملین کے بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی، جے آئی ٹی نے قرار دیا حسین نواز جدہ مل کے اکلوتے مالک نہیں تھے، عباس شریف اور رابعہ شہباز بھی جدہ فیکٹری کے حصہ دار تھے۔ انہوں نے کہا دوستوں سے قرض لینا بھی ثابت نہیں ہوا، نواز شریف نے حسین نواز کو 7.5 لاکھ ریال سعودی اکاؤنٹ سے بھیجے، جے آئی ٹی کو ہل میٹل آڈٹ رپورٹ بھی نہیں دی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا جے آئی ٹی نے ہل میٹل کے حوالے سے دستاویزات استعمال کیں، جن دستاویزات پر انحصار کیا گیا وہ تصدیق شدہ نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا ایف زیڈ ای کمپنی کے دستاویزات قانونی معاونت سے ملے، کمپنی سے نوازشریف کا اقامہ بھی جاری کرایا گیا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا نوازشریف کے اقامے کی مدت 2015 تک تھی، نعیم بخاری نے کہا حسن نواز کے مطابق کمپنی 2014 میں ختم کر دی گئی تھی، جےآئی ٹی نے نوازشریف کا کمپنی کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ بھی لگایا ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا نوازشریف کا اقامہ کہاں ہے؟، نعیم بخاری نے کہا نوازشریف کا اقامہ جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ ہے۔

نعیم بخاری نے مزید کہا کہ نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین بورڈ تھے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ریکارڈ کے مطابق نوازشریف کو تنخواہ ملتی رہی، ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ تنخواہ ہر ماہ نہیں ملتی تھی، نعیم بخاری نے کہا نوازشریف کی تنخواہ 10 ہزار درہم تھی، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیا جےآئی ٹی قانون کے مطابق دستاویزات پاکستان لے کر آئی؟، نعیم بخاری نے کہا کہ اس کا جواب جےآئی ٹی ہی دے سکتی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ضرورت پڑی تو والیوم 10 کو بھی پبلک کر دیں گے، ہر چیز صاف اور شفاف ہونی چاہیے۔

نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جےآئی ٹی کی فائنڈنگ اور سفارشات عدالت پرلازم نہیں ہیں، نواز خاندان نے جعلی دستاویزات جمع کرائیں، اس پر فوجداری کارروائی بنتی ہے، جسٹس عظمت سعید نے نعیم بخاری سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے نتائج کیا ہوں گے؟، نعیم بخاری نے کہا عدالت نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا کہہ سکتی ہے۔

وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس اعجاز افضل نے پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری سے استفسار کرتے ہوئے کہا قطری خط بوگس ہے؟، اس حوالے سے بنائی گئی کہانی خود ساختہ ہے؟، جس پر نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا میرے خیال میں دونوں ہی بوگس ہیں، حسن نواز کی تمام کمپنیاں خسارے میں تھیں، حسن اور حسین نواز کے بیان میں تضاد ہے، حسن نواز کمپنیوں کے ذرائع آمدن نہیں بتا سکے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کرتے ہوئے کہا مریم نواز سے متعلق دستاویز مصدقہ ہیں؟، نعیم بخاری نے کہا جے آئی ٹی نے دستاویز قانونی معاونت سے حاصل کیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا مریم نواز کے بینی فیشل ثابت ہونے پر نتائج ہوں گے۔ مریم کے زیر کفالت ثابت ہونے پر نواز شریف پر اثر پڑے گا، نعم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا مریم نواز کمپنیوں کی بینی فشل مالک ثابت ہوگئی ہیں، حسین نواز اور مریم کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ بوگس ہے، پی ٹٰی آئی وکیل نعیم بخاری سے استدعا کی عدالت نوازشریف کو طلب کرے، وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا جائے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیا عدالت جے آئی ٹی دستاویزات پر فیصلہ کر سکتی ہے؟، سوال یہ ہے حاصل دستاویزات کیلئے قانونی تقاضے پورے کیے گئے؟۔

سپریم کورٹ کے ریمارکس ، کھلاڑیوں کو سانپ سونگھ گیا، سب دیکھتے ہی رہ گئے

اسلام آباد(ویب ڈیسک) پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے لیکن ہم اس کے پابند نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا خصوصی بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت سے قبل شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرادیئے۔ شریف خاندان نے اپنے اعتراضات میں موقف اختیار کیا ہے کہ جےا?ئی ٹی کوعدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کاحکم دیا تھا لیکن جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی جانبدار تھی اور اس نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔ اس لیے عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جے آئی ٹی رپورٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا جب کہ جسٹس گلزار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اتفاق کیا اور 3 ججز نے مزید تحقیقات کی ہدایت دی۔ جس کے بعد عمل درآمد بینچ اور جے آئی ٹی بنی، جے آئی ٹی ہر 15 روز بعد اپنی پیش رفت رپورٹ عمل درآمد بینچ کے سامنے جمع کراتی رہی۔ 10 جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنے حتمی رپورٹ جمع کرائی۔ تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، اب جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات سے قانونی معاونت بھی حاصل کی، گلف اسٹیل مل سے متعلق شریف خاندان اپنا موقف ثابت نہ کرسکا، گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت نہیں ہوئی، جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کوغلط اور 14 اپریل 1980 کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا، اپنی تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے حسین نواز اور طارق شفیع کے بیانات میں تضاد بھی نوٹ کیا۔ جے آئی ٹی نے فہد بن جاسم کو 12 ملین درہم ادا کرنے کو افسانہ قرار دیا۔ قطری خط وزیراعظم کی تقاریر میں شامل نہیں تھا، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو طلبی کے لیے چار خط لکھے، جے آئی ٹی نےکہا کہ قطری شہزادہ پاکستانی قانونی حدود ماننے کو تیار نہیں، اس کے علاوہ قطری شہزادے نے عدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔عمران خان کے وکیل نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایجنسی نے موزیک فونسیکا کے ساتھ خط وکتابت کی۔ جے آئی ٹی نے اس خط و کتابت تصدیق کی۔ لندن فلیٹ شروع سے شریف خاندان کے پاس ہیں، تحقیقات کے دوران مریم نواز نے اصل سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیے، ٹرسٹی ہونے کے لیے ضروری تھا کہ مریم نواز کے پاس بیریئر سرٹیفکیٹ ہوتے۔ بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی کے بعد کسی قسم کی ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں، فرانزک ماہرین نے ٹرسٹ ڈیڈ کے فونٹ پر بھی اعتراض کیا۔حدیبیہ پیپر کیس سے متعلق نعیم بخاری نے کہا کہ حدیبیہ کیس کے فیصلے میں قطری خاندان کا کہیں تذکرہ نہیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اس میں قطری خاندان کا ذکر ہونا ضروری نہیں تھا، حدیبیہ پیپر ملز کی سیٹلمنٹ کی اصل دستاویزات سربمہر ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف بطور گواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، انہوں نے جے آئی ٹی میں ایسے بیان دیا جیسے پولیس افسر کے سامنے دیتے ہیں۔ ان کا بیان تضاد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے، جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائے گا، قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ جےآئی ٹی کے مطابق نوازشریف نےسعودی عرب میں واقع عزیزیہ اسٹیل ملز لگانے کے لیے کوئی سرمایہ موجود نہیں تھا، عزیزیہ اسٹیل مل کے حسین نواز اکیلے نہیں بلکہ میاں شریف اور رابعہ شہباز بھی حصہ دار تھے۔ اس کی فروخت کی دستاویزات پیش نہیں کیں لیکن جےآئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ مل 63 نہیں 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے بتایا ہے کہ ایف زیڈ ای نامی کمپنی نوازشریف کی ہے۔ حسین نواز کے مطابق ایف زیڈ ای کمپنی 2014 میں ختم کردی گئی، نواز شریف ایف زیڈ ای کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین تھے۔ عدالت نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ایف زیڈ ای کی دستاویزات جےآئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں یا ذرائع سے، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کمپنی کی دستاویزات قانونی معاونت کے تحت آئیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تمام دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ دستاویزات درست ہیں صرف دستخط شدہ نہیں۔ کمپنی نے نوازشریف کا متحدہ عرب امارات کا اقامہ بھی فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی اور برطانوی حکام کو 7 ،7 خطوط لکھے،اس کے علاوہ سعودی عرب کو بھی ایک خط لکھا لیکن اس کا جواب نہیں آیا۔ یو اے ای حکومت کو لکھے گئے خطوط رپورٹ کی جلد نمبر 10 میں ہوں گے جو ظاہر نہیں کی گئی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ضرورت محسوس ہوئی تو والیم 10 کو بھی کھول کر دیکھیں گے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ شریف خاندان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے ہیں،نواز شریف کے اثاثے بھی ان کی آمدن سے زائد ثابت ہوئے، اس کا ذکر جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل ہے، جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثے ہونے کے کیا نتائج ہوں گے۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا ہے کہ ہم نے عدالت سے نواز شریف کی نااہلی کا ڈیکلریشن مانگا ہے، نواز شریف کے خلا ف نیب کا مقدمہ بھی بنتا ہے۔نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ توفیق آصف نے کہا کہ میری درخواست نواز شریف کی اسمبلی تقریر کے گرد گھومتی ہے،نواز شریف نے اسمبلی تقریر اور قوم سے خطاب میں سچ نہیں بولا، جے آئی ٹی کے مطابق نواز شریف نے تعاون نہیں کیا، انہوں نے نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دیئے، نواز شریف نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری کاعلم ہے مگر کچھ یاد نہیں، نواز شریف نے اپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے لیکن ہم جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کے پابند نہیں، آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہم جے آئی ٹی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں۔ جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ ہم جے آئی ٹی کی سفارشات پر کس حد تک عمل کر سکتے ہیں، بتائیں ہم اپنے کون سے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں۔ جس پر توفیق آصف نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے کافی مواد ہے، نعیم بخاری جے آئی ٹی رپورٹ کی سمری سےعدالت کوآگاہ کرچکے۔ ہم جے آئی ٹی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اسےدرست تسلیم کرتے ہیں۔ بادی النظر میں وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر بادی النظر کہہ دیا تو پھر کیس ہی ختم ہوگیا۔جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کے تیسرے مدعی شیخ رشید نے اپنے دلائل دیئے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ثابت کیا کہ ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں، جے آئی ٹی کی سپر6اور ججز کو قوم کی خدمت کا اجر ملے گا، انشائ اللہ انصاف جیتے گا اور پاکستان کامیاب ہو گا، ہر کیس کے پیچھے ایک چہرہ ہوتا ہے اور اس معاملے کے پیچھے نواز شریف کا چہرہ ہے، نواز شریف نے لندن فلیٹس کے باہر کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کی، مریم نواز لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ثابت ہوئیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں تو مزید آف شور کمپنیاں بھی نکل آئیں۔ جس عمر میں ہمارا شناختی کارڈ نہیں بنتا ان کے بچے کروڑوں کما لیتے ہیں، قوم کی ناک کٹ گئی کہ وزیر اعظم دوسرے ملک میں نوکری کرتا ہے، نواز شریف کا تنخواہ لینا یا نہ لینا معنی نہیں رکھتا،اب معاملہ ملکی عزت کا ہے، جو ڈھائی گھنٹے بعد اپنے خالو کو پہچانے اس پر کیا بھروسہ کیا جا سکتاہے، پی ٹی وی کا خاکروب 18 ہزار اور وزیر اعظم 5 ہزار روپے ٹیکس دیتا تھا اور تو اور 1500 ریال لینے والے کیپٹن صفدر کے بھی 12 مربے نکل آئے ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ شیخ سعید اور سیف الرحمان نواز شریف کے فرنٹ مین ہیں، شیخ سعید نواز شریف کے ساتھ ہر عرب ملک کی میٹنگ میں ہوتے تھے، ان ملاقاتوں میں پاکستانی سفیروں کو بھی شرکت کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ صدر نیشنل بینک نے تسلیم کیا کہ وہ جعلسازی کرتے پکڑے گئے تھے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ نیشنل بینک کے موجودہ صدر کی بات کر رہے ہیں۔شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم نے دو متفرق درخواستیں دائر کی ہیں، ایک درخواست جلد 10 فراہم کرنے سے متعلق جب کہ دوسری درخواست جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات سے متعلق ہے، دستاویزات اکٹھی کرنے میں جے آئی ٹی نے قانون کی خلاف ورزی کی، جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اس میں شامل دستاویزات کو ثبوت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ جے آئی ٹی عدالتی احکامات سے کافی آگے چلی گئی تھی اور جے آئی ٹی نے عدالت کے کرنے والا کام کیا، رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکتا۔خواجہ حارث کے دلائل پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اپنے دلائل کوایشوز تک محدود رکھیں تو آسانی ہو گی، چاہتے ہیں عوام اور عدالت کا وقت ضائع نہ ہو۔ جے آئی ٹی ٹرائل نہیں کر رہی تھی، الزامات اس نوعیت کے تھے کہ تحقیقات کروانا پڑیں اور گواہان کے بیانات آرٹیکل 161 کے تحت ریکارڈ کیے گئے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اپنے الفاظ کا چناو¿ احتیاط سے کریں۔ خواجہ حارث کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی سماعت کل کے لیے ملتوی کردی گئی۔