لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ معیشت کے معاملے میں موجودہ حکومت کا ریکارڈ کافی خراب ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں اس حکومت نے بہت سے اچھے اقدامات کئے ہیں وہاں ابھی تک معیشت کے معاملات پر کسی بھی طور پر قابو نہیں پا سکی۔ لگتا ہے کہ ہر آنے والا دن بلکہ آنے والا گھنٹہ اور منٹ جو ہے معیشت کے ضمن میں ہمارے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ دنیا کی ساری باتیں ایک طرف اور خراب معیشت دوسری طرف، جس پر عوام یہ کہتے ہیں کہ اچھا پچھلی حکومتیں بقول آپ کے خراب تھیں انہوں نے زیادہ قرضے لئے تھے لیکن کچھ تو آسانی تھی لیکن موجودہ حکومت اپنے اس موقف کو واضح نہیں کر سکی اور معیشت کی موجودہ صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ عوام کی مشکلات کا جو اضافہ ہو رہا ہے اس کا خیال کرنا ہو گا ورنہ حکومت خواہ کتنی ہی دعوے اور کتنے ہی میدان ایسے ہوں جن میں ان کی کارکردگی بہتر رہی ہو وہ ساری کارکردگی ایک طرف اور خراب ہوتی ہوئی معیشت دوسری طرف ہے۔ جن چیزوں پر فخر کیا جاتا تھا اب لوگ یہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے پرانے لوگ کھا گئے انہوں نے بہت قرضے لے لئے یا انہوں نے بہت لوٹ مار کر لی یا قرضے سے بنی ہوئی سکیموں سے پیسے زیادہ نکال لئے لیکن عام اادمی کی صورت حال جو تھی وہ حال کے مقابلے میں بہت بہتر تھی اور اس کو مہنگائی اور خراب معیشت کا سامنا نہیں تھا۔ موجودہ حالات میں حکومت کتنے ہی دعوے کر لے کہ فلاں فلاں میدان میں کوئی کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے تو بھی خراب معیشت ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر سکتی ہے ایک طرف عمران خان بار بار یہ اعلان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری صاحب جیل میں ہوں گے دوسری طرف عدالتیں ہیں ان کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ روزانہ 7,5 یا 10 کیسز میں آصف زرداری کی ضمانت ہو رہی ہوتی ہے یا پچھلی ضمانتوں میں توسیع کی جا رہی ہوتی ہے۔ یہ ایک تضاد ہے۔ حکومت کے رویے میں کیونکہ عام آدمی جو ہے وہ عدالت کو بھی، نیب کو بھی حکومت سمجھتا ہے وہ ان کو علیحدہ علیحدہ نہیں سمجھتا کہ جناب عدالت الگ چیز ہے حکومت ایک الگ چیز ہے۔ سمجھا یہی جاتا ہے کہ بہت مقتدرہ جو کچھ کرتی ہے وہ بنیادی طور پر اس میں تضاد نظر ااتا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب مزید ثبوت، مزید دلائل، مضبوط جے آئی ٹیز سامنے نہ آئی ہوں جو بڑی بڑی شخصیات جیسے نوازشریف، حمزہ شہباز، شہباز شریف اوور ان کے دوسرے عزیز و اقارب کو مطعون قرار نہ دے رہی ہوں کہ انہوں نے کس طرح منی لانڈرنگ کی اور پیسہ باہر بھجوایا۔ دوسری طرف آصف زرداری کے فرنٹ مینوں نے جو گرفتار بھی ہو چکے ہیں کس طرح سے اس ملک سے لوٹ مار کی اور وہ اپنے پیسے باہر بھیجے لیکن دوسری طرف جو پکڑ ہوتی ہے اگر یہ سب کچھ کہا تھا تو حکومت کس کی ہے عام آدمی پوچھتا ہے کہ حکومت عمران خان کی ہے۔ عمران خان کی حکومت میں یہ پھر آزاد کیوں گھوم رہے ہیں اور ان کی ضمانت پر ضمانت کیوں ہو رہی ہے اس تضاد کے بارے میں تجزیہ کاروں کی کیا رائے ہے۔
وزارتوں میں تبدیلی کے بعد مزید کیا تبدیلی ہو سکتی ہے کہ بہتری کا امکان ہو اس پر ضیا شاہد نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی کابینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں یا تو دانستہ طور پر ایسا کرتے ہیں یا ان کی سمجھ ہی اتنی ہے کہ جیسے فواد چودھری کے بارے ارشاد عارف صاحب نے بھی آپ دیکھتے کہ ابھی تو چاند نکلنے کا عید کا چاند نکلنے میں بڑی دیر ہے ابھی تو شاید یہ آج کا ایشو بھی نہیں تھا فواد چودھری نے اوپر نیچے ایسے بیانات دیئے اور علمائ کو کارنر کیا کہ 40 لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں 40 لاکھ روپے اگر واقعی بڑی رقم ہے کہ یہ چاند دیکھنے پر صرف ہوتی ہے اس کو ختم ہونا چاہئے پھر تو 40 لاکھ بچا کر بہت اچھا کیا۔ اگر بچا لئے ہیں انہوں نے ابھی تو اس پر بڑی بحث ہونی ہے لیکن بلاوجہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملک میں یہ ایسے طبقے کو جو حکومت کے خلاف بھی نہیں ہے اس کو کس طرح سے خلاف کیا جا رہا ہے اورجو ہمارے نادان دوست ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت اور پارٹی کی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے دوستوں کو ہمارے کیبنٹ ممبرز کو تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو چاہئے کہ اس وقت تو ان کی اپنی حکومت ہے لہٰذا وہ کم سے کم متنازعہ چیزوں کو چیئرمین اور اپنے اور حکومت کے لئے مزید مسائل پیدا نہ کریں۔ بیٹھے بیٹھے اس کی ضرورت کیا تھی۔ اگر ہم چاند کا مسئلہ حل کر لیں گے سائنس کی مدد سے تو کر لیجئے گا اس کا پہلے سے ڈھنڈورا پیٹنا ضروری ہے کیا اس میں مولوی حضرات کو مطعون کرنا بھی ضروری ہے۔ کیا پورے سسٹم کو تلپٹ کرنے کے لئے اپنے خلاف محاذ کھلوانا بھی ضروری ہے۔ یہ عمران خان صاحب کو جو ان کے گلیڈی ایٹرز ہیں ان کے اور جو ہر وقت ہاتھ میں تلوار لے کر ہر شخص کے سر پر تلوار کا وار کرنے سے باز نہیں آتے ان کو چاہئے کہ ان کو ذرا سکون سے چلنے دیں۔ ایک پرانا محاورہ ہوتا ہےکہ سوئے ہو?ں کو سویا رہنے دو، پہلا موقع ہے کہ حکومت میں ہر چوتھے دن کوئی کنٹرورسی شروع کی جاتی ہے ایک دو یا چار طبقات کو حکومت کے خلاف کیا جاتا ہے۔ عمران خان صاحب اس صورت حال کا نوٹس لیں۔ آصف زرداری کا بیان کہ حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ضرور چلائیں اپوزیشن کو حق حاصل ہے وہ جب چاہے تحریک چلائے لیکن آصف علی زرداری صاحب کا تحریک چلانا اس لئے متنازعہ ہو گا کہ اب جتنی جے آئی ٹی رپورٹس ہیں جتنے مقدمے ہیں جتنی نیب کی تحقیقات ہیں وہ سب ان کے خلاف جا رہی ہیں اور وہ اصل معاملے کا کوئی جواب دینے کو تیار نہیں وہ غیر متعلق باتیں کر رہے ہیں کبھی کہتے ہیں 18 ویں ترمیم میں دخل دیا جا رہا ہے کبھی کہتے ہیں سندھ کے صوبائی معاملات میں دخل اندازی ہو رہی ہے کبھی کہتے ہیں صدارتی نظام لایا جا رہا ہے بار بار عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم صدارتی نظام لا رہے ہیں نہ ہم نے بات کی ہے۔ ایسے نان ایشوز ان کو چھیڑا جا رہا ہے جو دراصل ایشوز ہے ہی نہیں۔سارا ملک اس طرف لگا ہوا ہے کہ ان ان پارٹیوں پر یہ یہ الزام ہے اور عدالتیں ان کو ریلیف دینے پر لگی ہوئی ہیں۔ میری سمجھ میں تو نہیں آتا۔ نیب والے کہتے ہیں کہ ہم ریفرنس کے لئے تیار ہیں ہم نے جے آئی ٹی بھی بنا لی تحقیقات بھی کر لی۔ اعداد و شمار بھی جمع کر لئے وعدہ معاف گواہ بھی بنا لئے دوسری طرف آپ مسلسل ملزموں کو ریلیف پر ریلیف دیئے جا رہے ہیں۔
آصف زرداری سندھ میں حکومت مخالف تحریک چلا سکتے ہیں، وہاں ان کی حکومت ہے اور پارٹی بھی مضبوط ہے، باقی تینوں صوبوں میں بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ پیپلزپارٹی سرکوں پر بڑے مظاہرے کرنے میں کامیاب نہیں ہو گی پنجاب میں بھی کچھ لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ بلاول بھٹو نازونعم میں پلے بڑھے ہیں،کبھی کوئی مالی پریشانی کا سامنا نہیں کیا۔ والدین کی بے شمار دولت ان کے لئے کافی ہے، ان میں انگاروں پر چلنے کی صلاحیت فی الحال تو نظر نہیں آتی۔ نوازشریف اور آصف زرداری کیلئے مشکلات موجود ہیں جن میں کمی کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آ رہی تبدیلی ایک عمل ہے جسے روکا نہیں جا سکتا، نیب سمیت تمام اداروں میں مثبت تبدیلیاں لائی جانی چاہئیں۔
Tag Archives: zia-shahid
نواز شریف کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کرنے کا فیصلہ
لاہور(ویب ڈیسک )محکمہ داخلہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سروسز اسپتال سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق محکمہ داخلہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سروسز اسپتال سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، فیصلہ میڈیکل بورڈ کی اس رپورٹ کو مدنظر رکھ کر کیا جارہا ہے جس میں نواز شریف کو دل کے اسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی سی میں نواز شریف کے کمرے کو سب جیل قرار دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔ ان کے طبی معائنے کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے امراض قلب کے ماہرین پر مشتمل خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔ جس کے بعد سابق وزیراعظم کو سروسز اسپتال منتقل کیا گیا۔
سروسز اسپتال لاہور میں نواز شریف کا علاج کرنے والے میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر محمود ایاز کے مطابق نواز شریف کو بلڈ پریشر، شوگر، گردوں اور خون کی شریانوں کا مسئلہ ہے جب کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن ہے اور انہیں شفٹ کرنے کا حتمی فیصلہ محکمہ داخلہ کرے گا۔
0پروفیسر محمود ایاز کے مطابق میڈیکل بورڈ نے تجاویز محکمہ داخلہ پنجاب کو بھیج دی ہیں جس میں سفارش کی گئی ہے کہ نواز شریف کا عارضہ قلب کے لئے اسپیشلائزڈ طبی معائنہ کیا جائے۔
مریم نواز نے ایک اور بڑا فیصلہ کر لیا
اسلام آباد(ویب ڈیسک) مریم نواز نے اپنی میڈیا ٹیم کو متحرک کرنے کا فیصلہ کر لیا، نواز دور میں وزیراعظم ہاو¿س میں قائم میڈیا سٹریٹجی اینڈ کیمونیکشن سیل کودوبارہ فعال کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں مریم نواز رواں ہفتہ اپنی سابق میڈیا ٹیم سے ملاقات کریں گی اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر میڈیا حکمت عملی طے کی جائے گی۔رپورٹ کے مطابق مریم نواز نے ابتدائی مرحلہ پر خود آگے آنے کے بجائے اپنی ٹیم کو از سر نومنظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، قوی امکان ہے کہ رواں ہفتہ کے آخر میں مریم نواز اپنی میڈیا ٹیم کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گی ، اس تناظر میں ماڈل ٹاﺅن لاہور کے پارٹی آفس میں مریم نوازکے لئے آفس قائم کیا جارہا ہے جہاں وہ باقاعدگی کے ساتھ بیٹھا کریں گی۔یاد رہے کہ ان کی میڈیا ٹیم میں مریم اورنگزیب، دانیال عزیز، ڈاکٹر طارق فضل، محمد زبیر، مصدق ملک، محسن شاہنواز رانجھا، طلال چودھری، بیرسٹر دانیال، مائزہ حمید نمایاں ہیں، ٹیم کاجلد مشاورتی اجلاس ہوگا۔
وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس
اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے۔وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے جس میں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر مملک برائے داخلہ امور شہر یار آفریدی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود ہیں۔اجلاس میں ملکی اور خطے کی سیکیورٹی صورت حال سمیت چین، روس اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی صورتحال بھی زیر غور ہے، اس کے علاوہ اجلاس میں احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا بھی جائزہ لیا گیا۔
بلوچستان میں فورسز کی گاڑی کو حادثہ ، 4 اہلکار شہید
خضدار(ویب ڈیسک) ضلع واشک کے قریب سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا جس کے نتیجے میں 4 اہلکار شہید اور 6 زخمی ہوگئے۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک ایران سرحد کے قریب بلوچستان کے علاقے واشک میں فورسز کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 4 اہلکار موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ 6 افراد زخمی بھی ہوئے۔سیکورٹی اہلکاروں نے فوری امدادی کارروائی کرتے ہوئے زخمیوں اور لاشوں کو سی ایم ایچ خضدار منتقل کردیا۔ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے جبکہ بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایف سی کا دو گاڑیوں پر مشتمل قافلہ جارہا تھا کہ ایک گاڑی ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوکر الٹ گئی۔
اٹک: سرکاری بس کے قریب دھماکا، ایک شخص جاں بحق، متعدد زخمی
اٹک (ویب ڈیسک) اٹک کے علاقے بسال روڈ پر ڈھوک گاما میں ایک بس کے قریب دھماکے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ذرائع کے مطابق اٹک کے علاقے بسال روڈ پر ڈھوک گاما کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے سرکاری بس کو نشانہ بنایا اور دھماکا کر کے فرار ہو گئے۔ دہشتگردی کے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز اور امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
ذرائع کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والی بس میں سویلین ملازمین سوار تھے۔ اٹک دھماکے میں ایک شہید اور 13 افراد زخمی ہوئے۔ موٹر سائیکل سواروں نے تعاقب کرنے کے بعد بس کو نشانہ بنایا۔امدادی ٹیموں نے ایمبیولینسوں کے ذریعے دھماکے میں زخمی افراد کو ہسپتال منتقل کیا جہاں انھیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق دھماکے میں ایک شخص جاں بحق ہو چکا ہے جبکہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔
کامن ویلتھ گیمز, ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے پاکستان کیلیے پہلا میڈل جیت لیا
آسٹریلیا(ویب ڈیسک ) کامن ویلتھ گیمز میں ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے پاکستان کے لیے پہلا میڈل جیت لیا۔گولڈ کوسٹ میں جاری 21 ویں دولت مشترکہ گیمز میں طلحہ طالب نے ویٹ لفٹنگ کی 62 کے جی کیٹگری کے سنیچ ایونٹ میں حریف ویٹ لفٹرز سے 5 کلو زائد ریکارڈ 132 کلو وزن اٹھایا جب کہ کلین اینڈ جرک میں 151 کلوگرام سمیت مجموعی طور پر 283 کلوگرام وزن اٹھاتے ہوئے برانز میڈل کے حقدار قرار پائے۔ واضح رہے کہ یہ کامن ویلتھ گیمز 2018 میں پاکستان کا پہلا میڈ ل ہے۔
سوشل میڈیا پر بھارت کا نیا وار ،پاکستانی نوجوانوں کو پھانسنے کیلئے خوبرو ہندو لڑکیوں کا جال ڈال دیا :ضیا شاہد
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اپنی صحافتی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں کہ ایک نااہل وزیراعظم عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے جا رہا ہے۔ زرداری دور میںوزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجا گیا۔ نہ تو انہوںنے اور نہ ہی ان کی پارٹی نے کوئی تحریک چلائی اور ”عدلیہ مخالف بیانات دیئے۔ ایک مرتبہ فاروق احمد خان لغاری جب صدر ہوتے تھے۔ نوازشریف صاحب وزیراعظم تھے۔ دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ جسٹس (ر) سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے ان کے پاس کچھ مقدمات لگے ہوئے تھے۔ جو کہ نوازشریف کے خلاف تھے۔ اس وقت لاہور سے کچھ لوگ اسلام آباد لے جائے گئے۔ ان لوگوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا اور جسٹس (ر) سجاد علی شاہ نے بھاگ کر دوسرے کمرے میں کنڈی چڑھا کر اپنی جان بچائی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے دو ساتھیوں نے کوئٹہ رجسٹری میں بیٹھ کر انہیں آﺅٹ کر دیا۔ لہٰذا انہیں گھر جانا پڑا۔ دو ایم این ایز طارق عزیز اور میاں منیر صاحب (جو اچھرے سے ایم این اے تھے) نے سپریم کورٹ پر اس حملے کی قیادت کی تھی۔ ان کے خلاف کیس چلا اور دونوں کو نااہل کر دیا گیا۔ لہٰذا ان کا سیاسی کیریئر بالکل ختم ہو گیا۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں تحمل اور برداشت سے کام لینا چاہئے عدالتوں سے خلاف فیصلے آنے پر دوسری عدالتوں میں اپیلیں کرنی چاہئے۔ نظرثانی کی درخواست کرنی چاہئے۔ جب ملک کی اعلیٰ ترین کورٹس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے وہاں نظام نہیں چل سکتے اب نوازشریف صاحب نے اپنی تحریک کو بدل کر ”عدل کی تحریک“ کا نام دے دیا ہے۔ انہوں نے بیان دیا ہے کہ عدلیہ کے خلاف نہیں چلیں گے۔ بلکہ ”تھنک ٹینکس“ بنائیں گے جو خراب قوانین کو درست کرے گا۔ ملک میں (ن) لیگ کی حکومت ہے۔ شاہد خاقان عباسی بھی نوازشریف ہی کے وزیراعظم ہیں میاں نوازشریف کے سعودی عرب چلے جانے کے بعد 8 سال تک چوہدری نثار علی خان نے لیڈر آف اپوزیشن کا کردار بڑی جرا¿ت اور ہمت سے نبھایا۔ وہ بھی بار بار کہتے رہے ہیں کہ عدلیہ کے خلاف تحریک نہ چلاﺅ۔ ظفر اللہ جمالی صاحب نے اس طرز عمل پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ لہٰذا (ن) لیگ کے اپنے اندر بھی ”ہاکس“ کی کمی نہیں ہے۔ لیکن قیادت یعنی نوازشریف صاحب ذہنی طور پر عدلیہ کے فیصلے کو قبول نہیں کر رہے وہ اب بھی پوچھتے ہیں ”کیوں نکالا“۔ مریم نواز نے 120 میں الیکشن مہم کے دوران اداروں پر بہت الزامات لگائے۔ اس طرح سعد رفیق بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مسلم لیگ (ن) کا مزاج ہی ایسا ہے کہ قیادت کی مخالفت کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا۔ بادشاہ کا جو حکم ملا اس کی تعمیل ضروری ہوتی ہے۔ دانیال عزیز اور طلال چودھری نے اسے ثابت بھی کر کے دکھایا۔ دانیال عزیز جو مشرف کے بھی وزیر تھے۔ نوازشریف کے آنے کے بعد ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ انہوں نے جی بھر کر اپنی بڑھاس نکالی، عمران خان کے متعلق تو انہوں نے اخبار نویس کو یہ کہہ دیا کہ وہ تیرا ”جوائی“ لگتا ہے۔ اس پر احتجاج ہوا طلال چوہدری اور دانیال عزیز پارٹی کے ”ہاکس‘’ ہیں۔ خواجہ آصف جب سے خارجہ کے وزیر بنے ہیں اب دھیمے ہو گئے ہیں۔ ایک اور بڑی تبدیلی آئی ہے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب اٹھتے بیٹھتے بھٹو صاحب کی تعریف کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ دیگر ارکان بھی اب بینظیر شہید کی تعریف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب تاریخ نئے سرے سے لکھی جا رہی ہے۔ نیا انداز یہ ہے کہ بھٹو صاحب بالکل ٹھیک تھے۔ اور ضیاءالحق نے بالکل غلط کیا تھا۔ ضیاءالحق دور کے وزیراعلیٰ، وزیراعظم وزراءاب انہیں گالیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔ صحافیوں کو خصوصی طور پر بتایا جاتا تھا کہ آپ اسلام، عدلیہ اور فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتے۔ فوج سپاہی کاحب الوطنی اور اپنے سپہ سالار کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے سپہ سالار کا حکم فوراً پورا کرتے ہیں لہٰذا فوج کے خلاف تنقید کو خلاف آئین تصور کیا جاتا ہے۔ نواز شریف آٹھ سال سعودیہ رہے۔ ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب، جس نے بے شمار دفعہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ تیل کے ذریعے، تیل ادھار دینے کے سلسلے میں ہماری اکنامی کو بچایا ہے۔ وہ میاں شہباز شریف کے سلسلے میں ملک میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ایک اور این آر او کروا دیا جائے جس کے ذریعے نوازشریف پر تمام مقدمات کو ختم کروا دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کو اسی مقصد کے لئے آگے لایا گیا ہے تا کہ وہ فوج اور عدلیہ کو بھی خوش رکھے۔ اور اپنی فیملی کے خلاف دائر مقدمات کو رفتہ رفتہ ختم کروانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ کوشش ہے کہ شہباز شریف سعودیوں کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ طیارہ بھیج کر بلوانے کا مطلب یہ لگتا ہے کہ انہیں طلب کیا گیا ہے۔ نیم عریاں لڑکیوں کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو پھانسنے کا ”را“ کی نئی کارروائی ہے۔ ایک صحافتی حملہ نہیں ہے بلکہ سیاسی وار ہے۔ اس سارے عمل کے پیچھے ایک سازش چھپی ہوئی ہے۔ جتنی لڑکیوں کے نام اس میں سامنے آئے ہیں وہ سب کی سب ”ہندو نام رکھتی ہیں۔ان میں درج ذیل نام شامل ہیں۔مثلاًپائل پٹیل، پنکی کماری، ریکھا سنگھ، اینجل چاندنی، پریا سنگھ پریہار، سمن سسرا، ریشماں پروین، پوجا سنگھ، کاویتا سنگھ، پوجا گاﺅتھ، نیتوکماری، نیشا کماری، پٹیل شیتل، سنیتا کماری، دیوسینی، کانیکاورشے، سیرارانی، سنگھیتا وگھانی، سونو سونانی، ریتو شرما وغیرہ۔ سوشل میڈیا پر ایسی لڑکیوں کی روزانہ کی بنیاد پر 30,20 تصاویر آ رہی ہیں۔ تصاویر کے نیچے ای میل ایڈریس اور بعض کے ساتھ تو ٹیلی فون نمبر بھی لکھے ہوئے ہیں۔ 70ءاور80ءکی دہائی میں روس کی خفیہ ایجنسی کے بی جی نے لڑکیوں کے ذریعے جاسوسی کا نظام پھیلایا۔ روس سے 10 ہزار لڑکیاں ٹرینڈ کر کے افغانستان بھیجی گئیں۔ جو اہم لوگوں کو قابو کر کے ان کے بارے معلومات ماسکو پہنچاتی تھیں دوسری جنگ عظیم میں جاسوسی کے لئے سب سے زیادہ لڑکیاں استعمال کی گئیں۔ اٹلی کے ایک دانشور نے ”دی پرنس“ کے نام سے کتاب لکھی جس میں حکمرانی کے اصول لکھے۔ ضیاءالحق نے بھی ہر طریقہ اختیار کیا۔ پانچ دنوں تک ٹی وی پر کرکٹ میچ دکھایا جاتا رہا۔ تا کہ لوگ سیاسی معاملات سے دور رہیں۔جنرل مجیب الرحمن نے مجھے بتایا کہ یہ فوج کی پالیسی ہے کہ لوگوں کا دھیان دوسری طرف لگا دو۔ ”دی پرنس“ میں لکھا ہے کہ جب عوام بادشاہ کے خلاف ہو جائیں تو میلے ٹھیلے اور کھیلوں کا انعقاد کرو۔ تا کہ لوگ دوسری طرف متوجہ ہو جائیں اور سب کچھ بھول جائیں۔ بھارت ایک قدم آگے ہے۔ بھارتی گورو جس کا نام ”چانکیا“ تھا اس نے کتاب میں لکھا مخالف راجہ کے محل میں خوبصورت لڑکیاں داخل کر دو۔ کوشش کرو خوبصورت لڑکی راجہ کے بستر تک پہنچ جائے۔ پھر تمہیں راجہ کی ایک ایک بات معلوم ہوتی رہے گی۔ ”را“ کی کوشش فحاشی نہیں بلکہ ایک منظم سازش ہے۔ جو ننگ دھڑنگ لباس میں دوستوں کو مدعو کر رہی ہے۔ اور دوستی کرنے کے لئے دعوت دے رہی ہے۔ اگر پانچ دس ہزار ہی مرد اس طرف راغب ہو جاتے ہیں اور کچھ بھارت بھی ہو آتے ہیں۔ تو وہ اپنے رابطوں کے حساب سے 50 ہزار اور لاکھ تک پھیل جائیں گے اور آسانی سے ”را“ کے لئے مخبری کریں گے۔ عشق محبت اور چیٹنگ میں وہ سب کچھ بھلا دیں گے۔ یہاں بیٹھ کر وہ ”را“ کے ایجنٹ بن جائیں گے۔ اسی ”را“ نے 50 بلین بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لئے مختص کئے ہیں ہماری آئی ٹی نے ایک مرتبہ ”گوگل“ پر پابندی لگا دی تھی۔ آئی ٹی منسٹری کو اس معاملے کو فوری طور پر پکڑنا چاہئے۔ دنیا ہماری فوج اور آئی ایس آئی کو مانتی ہے۔ یہ بہت اہل اور سمجھدار لوگ ہیں اسے فوری طور پر ”بلاک“ کریں۔
بھارت کا گھناﺅنا چہرہ چیف ایڈیٹر خبریں نے بے نقا ب کر دیا ۔۔۔ بھارت نے اپنے سیوریج اور صنعتی فضلے کے 7نالے پاکستان میں داخل کر دئیے
لاہور(وقائع نگار/خبر نگار)بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاﺅں پر57 برس سے جاری آبی دہشت گردی کے حوالے سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام سیمینار کا اہتمام کیا گیا،سیمینار میں چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں ضیا شاہد کو ملک کے اس حساس موضوع پر تکنیکی اور قانونی پہلوﺅںپرخطاب کے لیے مدعو کیا گیا ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں رہ کر پاکستان کی خاطر کسی عظیم مقصدکو حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کی جائے تو اللہ پاک کی نصرت اور رحمت انسان کو ملتی ہے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آج سے تین ماہ پہلے جس کام کا آغازنظریہ پاکستان ٹرسٹ سے کیا گیاتھااس کو اتنی پزیرائی ملے گی اور آج یہ آواز یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچ چکی ہے جبکہ مغربی ممالک کی سب سے طاقتور تنظیم یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ کے آبی مسئلے بارے خطوط آنے شروع ہوگئے ہیں جس کےلئے ہم راوی ستلج واٹر فورم کے زیراہتمام تیاری کر رہے ہیں اور جلد اپنے مندوبین یورپ بھیجیں گے یہ سب کچھ اس ادارے سے شروع کیاگیا۔ درحقیقت یہ صرف دریائی پانی کے استعمال کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق خطے کی ماحولیات سے ہے اور یہی ہمارا کیس ہے جو ہم دنیا کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ میری صحت تو اجازت نہیں دیتی لیکن میں پاکستان کے لیے یہ کام کو مکمل کرنا چاہتا ہوں اوربھارتی آبی دہشت گردی میرا آخری بڑا کام ہے جو میرے اور میرے ملک کے لئے اہم ہے میں نے اس حوالے سے پاکستان بھر میں پچھلے تین ماہ میں دریاﺅں کی صورت حال بارے مختلف علاقوں کے دورے کئے اور کئی اجتماعات سے اس بارے خطاب بھی کئے ان خطابات کے دوران جو مجھے محسوس ہو ا کہ اس لفظ کوآبی دہشت گردی کی بجائے بھارت کی دریائی دہشت گردی کانام دیاجائے کیونکہ ہمارے دریا اسکی دہشت گردی کے شکار ہیں ۔جس پر آج تک کسی نے صحیح معنوں میں کام ہی نہیں کیا میں نے اس پر کام کر نے کےلئے سب سے پہلے انڈس واٹر کمیشن کی دستاویز کا مطالعہ کیا اور اب موجودہ کمشنر مرزا آصف بیگ اور کچھ وکلاءجن میں سے ایک وکیل جو عالمی عدالت میں پانی کا کیس لڑ چکے ہیں سے ملا اور تمام تر معلومات حاصل کر نے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا آج تک جو ہمیں تاثر دیا جاتا رہا کہ 1960میں سند ھ طاس معاہدے کے تحت ہم نے اپنے تین دریا ستلج ،بیاس،روای فروخت کردئے گئے یہ تاثر ہی غلط ہے۔ 1960میں جو معاہدہ ہوا اس کے مطابق ہندوستان سے صرف زرعی پانی کا معاہد ہ ہوا تھا نہ کہ سارے پانی کے استعمال کا معاہدہ ہوا تھا ۔اس میں طے ہونے والی شقوں کو چھپایا جارہا ہے کیوں کہ اس میں ہمارے لیڈروں ،بیورکریٹس اور ماہرین کی نا اہلی تھی اور اس نااہلی کو آج تک ہماری قوم نے بھی نہیں سمجھا کیونکہ یہ کتاب انگریزی میں شائع ہوئی ہے اب میں اس کا ترجمہ کروایا ہے اردو میں شائع کروانگا انشااللہ تاکہ ہماری قوم اس کو پڑھے اور سمجھے کہ بھارت نے تو جو ہمارے ساتھ کیا۔ 1960سندھ طاس معاہدے کے مطابق خطے کے تین دریا چناب ،جہلم اور سندھ ہمارے حصے میں اور ستلج ،بیاس اور راوی بھارت کے حصے میں آئے اسی معاہدے میں بھارت نے ایک شق رکھوائی اور اس کو باور کراتے ہوئے پاکستان سے دستخط بھی کروائے اس شق کے مطابق تین دریا جن میں چناب ،جہلم اور سندھ جو پاکستان کے حصے میں آئے ہیں وہ بھارت کے جس حصے میں بہتے ہیں ان پر زرعی پانی کے علاوہ باقی تینوںطرح کے استعمال پراس کا حق ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔لیکن ہمارے نااہل لوگوں نے بھارت سے یہ باور نہ کرایا کہ تین دریا جو بھارت کے حصے میں آئے ہیں ان پر بھی پاکستان کا ویسا ہی حق ہوگا جیسے بھارت کا ہے اور نہ اس بارے دستخط کراوئے گئے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ زرعی پانی کے علاوہ پانی کے تین استعمال اور بھی تھے پہلا استعمال گھریلو پانی جس سے گھریلو استعمال کےلئے پانی دوسرا آبی حیات جن میں دریائی مخلوق جانور ،مویشی ،چرند پرندوغیرہ اوراس پانی کا تیسرا استعمال ماحولیات کا تھاتاکہ پانی کے بہاﺅ کے اردگرد درختوں کا اگنا سبزہ کا اگتا رہے ۔ انہوں نے 1961-62کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ دریا بند کر دیئے گئے تو ستلج جو ہیڈ سلمانکی سے شروع ہوکر پنجندتک جاتا تھا اس کے کنارے 72ہزار ماہی گیر آباد تھے جن کا ذریعہ معاش صرف مچھلی پکڑنا تھا وہ بے روزگا ر اور بے گھر ہوکر رہے گئے اسطرح بھارت نے پاکستان کا معاشی قتل کیا اسکو دہشت گردی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ ستلج کی صورتحال دیکھنے کےلئے قصور گیا وہاں گنڈاسنگھ کے علاقے میں گیا جہاں پر بھارت نے ستلج کو لکڑی کے پشتوں سے بند کیا ہوا ہے تاکہ پانی پاکستان نہ جائے صاف پانی تو بند کر دیا ہے لیکن بھارت نے صنعتی علاقے کا گندہ زہریلا کیمیکلز زدہ پانی پاکستان میں چھوڑ رہا ہے یہ پانی گنڈاسنگھ ستلج میں اور ہڈیارہ نالے سے راوی میں آرہا ہے جو انتہاہی خطرناک اور مضر صیحت پانی ہماری طرف چھوڑ رہا ہے اور یہ زہریلا پانی راوی کے ذریعے بھی دوسرے دریاﺅں میں جارہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ہٹ کر میں نے سالانہ نیشنل ہیلتھ رپورٹ کا بھی بغور جائزہ لیا اس رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب کا خاص کر ضلع بہاولنگر اس پانی آبی دہشت گردی کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوا ہے اس سے وہاں کے لوگ مہلک امراض جن میں گردوں کا ناکارہ ہونا ،جگر کا ختم ہونا ،کینسر اور ہیپاٹایٹس سی جیسی امراض میں مبتلا ہیں اس کی وجہ جو ماہرین بتاتے ہیں وہ یہ کہ پانی کی سطح اپنے لیول سے کم ہورہی ہے پانی کی کمی کی وجہ سے آرسینک زہر کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس بارے پاکستان کے وزیراعظم سے بات کی جائے تو میں نے سی پی این ای کے پلیٹ فارم سے اپنے ایڈیٹرز کے ساتھ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں سب سے پہلے یہی پانی کا مسئلہ اٹھا یا اور وزیراعظم سے اپیل کی کہ اس بارے توجہ دیں اس بارے آپکے کمشنر انڈس واٹر بھی انٹرویو دے چکے ہیں اور کمشنر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آبی مسئلے بارے وزرات پانی کو بھی لکھ چکے ہیں جس کو سات سال ہوگئے ہیں جس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے اس آبی مسئلے کے حل کےلئے اپنے اخبار میں شائع ہونے خبروں کے تراشوں اور اس مسئلہ کے حوالے سے خط کے ساتھ ایک ہزار کاپیاں پنجاب اسمبلی ممبران اور قومی اسمبلی اور سینٹرزکو ارسال کیں جن میں سے صر ف چار اراکین کے جواب موصول ہوئے ہیں ان سے میں نے بات کی ہے کہ وہ اس بارے اپنے ایوانوں میں تحریک التو جمع کروائیں تاکہ اس مسئلے کا حل پارلیمان کے ذریعے تلاش کیا جائے ۔ضیاشاہد نے سیمینارکے شرکاءسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں پر محمد علی درانی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا انہوں نے اس کام میں میرا بہت بڑا ساتھ دیا ہے وہ بھی جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور کے رہائشی ہیں وہ بھی اس آبی دہشت گردی کے مسائل سے دوچار ہیں ہم نے سوچ بچار کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ہم اس مسئلے پر ہزاروں کی تعداد میں متاثرہ لوگوں سے خطاب بھی کر چکے ہیں چولستان کے متاثرہ لوگوں سے بھی مل چکے ہیں اب اس آواز کو بیرونی ممالک تک پہنچانا چاہیے جس پر محمد علی درانی نے کا مشورہ تھا کہ آج کل پوری دنیا میں ماحولیات کے بارے شعور اجاگر ہورہا ہے اور اس پر انٹرنیشنل سطح پر کانفرنسزبھی ہورہی ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ چین ماحولیات کی وجہ سے اپنی دوسو فیکٹریاں بند کر چکا ہے جن میں 130فیکٹریاں زرعی ادویات بنانے والی ہیں صرف اپنے ملک کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کےلئے کیوں نہ ہمیں ایسے پلیٹ فارموں سے اس آواز کو اٹھانا چائیے ہم نے اس بارے یورپی یونین اوردیگر بیرونی این جی اوز کو خطوط ارسال کئے ۔وسیم اخترجو جماعت اسلامی سے رکن پنجاب اسمبلی ہیں نے بھی ہمارا ساتھ دیا وہ بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے WWFکے سربراہ شہزادہ فلپ کو خط لکھا کیونکہ WWFبنیادی طور جنگلی حیات پر کام کر رہی ہے وسیم اختر نے ان کو لکھا ہے کہ ہمارے ہاں پانی کی بندش کی وجہ سے جنگلی حیات ختم ہورہی ہے۔ جس کے بعدWWFنے پانی بندش بارے بھارت سے جواب بھی مانگ لیا ہے۔ ان کی جانب سے پوچھا جارہا ہے کہ آپ کب آنا چاہتے ہیں کس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیںہمیں بتائیں۔اب اس کیس بارے ہم تمام شواہد اکٹھے کرہے ہیں تاکہ تمام ثبوتوں کے ساتھ جائیں اور بھارت کا اصل چہرہ انکے سامنے رکھیں کہ جوپاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی پھیلا رہا ہے انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے اب یہ مسئلہ حل ہوگا اور بھارت کی آبی جارحیت ختم ہوگی اور ستلج ،راوی کا ماحولیات کی ضرورت کاپانی کھولنے پر مجبور ہوگا ۔آخر میں ضیا شاہد کا کہنا تھا کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ملک کے کسی بڑے لیڈر نے اس مسئلے پر کام نہیں کیا جو ہمارے ملک کےلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ میرا مسئلہ نہیں ہے یہ ساڑھے تین کروڑ عوام کا مسئلہ ہے جو اس عذاب سے دوچار ہے ہم نے اس مسئلے پر آواز بلند کردی ہے اور انشااللہ یہ مسئلہ اب حل بھی ہوگا۔انہوں نے کہاکہ میں نے پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی ہے اوران سے درخواست کی ہے کہ ہمیں معاہدے کے مطابق آبی حیات اورماحولیات کے لئے ستلج اورراوی کے پانی میں سے اپنا حصہ وصول کرناچاہئے اوربین الاقوامی عدالت میں جاناچاہیے۔ چیف جسٹس صاحب نے میری بات غورسے سنی اورکہاکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے اورہمیں جائزہ لیناہوگا کہ کیا قانونی طورپر اس کی ٹھوس گنجائش نکلتی ہے۔
تقریب میں وائس چیرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر رفیق احمد اور سیکرٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید کے علاوہ بڑی تعداد میں دانشوروں اور طالب علموں نے بھی شرکت کی۔
چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کی چیف جسٹس سے ملاقات، بھارت کی جانب سے پانی کی بندش کی طرف توجہ دلائی
لاہور (خصوصی رپورٹر) جمعہ کی صبح سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ انہوں نے چیف جسٹس صاحب سے بھارت کی طرف سے پاکستان کے اہم ترین مسئلے یعنی مشرقی دریاﺅں ستلج اور راوی میں پانی کی سو فیصد بندش کی طرف ان کی توجہ دلائی اور کہا کہ پاکستان اور بھارت میں انڈس واٹر ٹریٹی 1960ءکے باوجود بھارت سال بھر ہمارا سارا پانی بند نہیں کر سکتا کیونکہ یہ معاہدہ زرعی پانی کا ہے اور انٹرنیشنل واٹر کنونشن 1970ءکے مطابق پانی کے دیگر تین استعمال یعنی گھریلو پانی، آبی حیات اور ماحولیات کیلئے مخصوص پانی کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی حکومت اور متاثرہ عوام اس ضمن میں انٹرنیشنل کورٹ میں جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے بڑی توجہ سے ان کی معروضات سنیں اور کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں ماحولیات پر بہت زور دیا جارہا ہے۔ میں نے خود کئی برس پہلے نوائے وقت میں محترم مجید نظامی مرحوم کا تفصیلی بیان پڑھا تھا جس میں سیلاب کے زمانے کے سوا بھارت کی طرف سے ہمارے دو دریاﺅں کے پانی کی مکمل بندش پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ میں پانی کی کمی کے مسئلے سے بخوبی واقف ہوں اور پاکستان کو اس امر کاجائزہ لینا ہو گا کہ کیا ٹریٹی 1960ءکے اندر ایسی کوئی قانونی گنجائش ہے کہ ہم اس کی رو سے ستلج اور راوی کیلئے بھی کچھ پانی کا مطالبہ کر سکیں۔ اس مسئلے کا قانونی پہلو سے جائزہ لینا ہو گا۔ تاکہ کوئی راستہ نکالا جا سکے۔ انہوں نے چیف ایڈیٹر خبریں کی کاوشوں کو سراہا جن کی تفصیل ان کے سامنے بیان کی گئی تھی اور کہا کہ آپ اس ایشو پر ضروری مواد جمع کریں میں بھی ایک پاکستانی کی حیثیت سے اس پر غور کروں گا۔ انہوں نے جناب ضیا شاہد کو دعوت دی کہ اس مسئلے پر آپ بھی تیاری کریں، قانون کے ماہرین اور آبی ماہرین سے مشورے مکمل کریں اور دو ہفتے بعد ہم ایک بار پھر ملیں گے۔ خدا کرے کوئی قانونی شکل نکل آئے تاکہ مستقبل میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کے پیش نظر ہماری آنے والی نسلوں کو تکلیف دہ مسائل سے دوچار نہ ہونا پڑے۔