تازہ تر ین

لاہور میں سانحہ پشاور جیسے حملوں کا خطرہ۔۔۔ سنسنی خیز انکشافات

لاہور (نادر چوہدری سے)صوبائی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر حصوں میں سانحہ پشاور اے پی ایس اور سانحہ گلشن اقبال پارک کی طرز کے حملوں کیلئے افغانستان میں”را”کی جانب سے کالعدم تنظیموں کو کروڑوں روپے فنڈز فراہم کر نے کا انکشاف ، حساس اداروں نے محکمہ داخلہ کو مطلع کر دیا ، قانون نافذ کرنےوالے تمام ادارے متحرک ، لاہور پولیس کو بھی سرچ آپریشنز سمیت اپنے علاقوں میں مشکوک افراد کی نقل و حرکات بارے مکمل طور پر آگاہ رہنے کا حکم ،فٹ پاتھوں اور بس سٹاپوںمیں نشئیوں اور بھکاریوں کے ڈیرے خطرے کی گھنٹی بن گئے،خود کو دھماکے سے اُڑانے والے خودکش بمبار کیلئے نشئی کے روپ میں فٹ پاتھ پر اپنے ٹارگٹ کے قریب رہنا انتہائی آسان،پولیس کی جانب سے ڈویژنوں کی سطح پر بنائے گئے “واٹس ایپ گروپس”کیلئے تصاویر اور وڈیو کلپ بنا کر کارکردگی ظاہر کرنا معمول بن گیا ۔باوثوق ذرائع کے مطابق حساس اداروں کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا تھا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ “را”حکام کی کالعدم تنظیموں کے ساتھ افغانستان میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں “را”کی جانب سے ان دہشتگرد تنظیموں کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردانہ کاروائیوں کیلئے کروڑوں روپے فنڈز فراہم کیئے گئے ہیں جبکہ دشمن کا مقصد سانحہ اے پی ایس پشاور اور سانحہ گلشن اقبال پارک طرز کی دہشتگردانہ کاروائیاں کرنا ہے ۔ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ رواں ماہ یکم دسمبر کو ایگریکلچر یونیورسٹی ڈائریکٹوریٹ پشاور پر برقعہ پوش دہشتگردوں کاحملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔حساس اداروں کی جانب سے دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی (را) اورلعدم تنظیموں کے دہشتگردانہ کاروائیوں کے معاہدے اور فنڈنگ کے متعلق محکمہ داخلہ اور دیگر قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو آگاہ کردیا گیا ہے جس کے بعد پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے ملک کے گلی کوچوں اور حساس ترین مقامات پر نظررکھنی شروع کردی ہے لیکن ڈیڑھ کروڑ کے قریب پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کے تمام گلی کوچوں ، بازاروں ، مزاروں ، مساجد ، گرجا گھروں ، مندروں، گردواروں ، امام بارگاہوں ،بس اسٹینڈز ، ریلوے اسٹیشنز ، ایئر پورٹس ، پارکس اور تعلیمی اداروں سمیت دیگر حساس عمارتوں اور پبلک مقامات پرسکیورٹی فراہم کرنے اور ملک دشمن عناصر کے قلع کرنے کیلئے لاہور پولیس کو بھی الرٹ کرتے ہوئے تعلیمی اداروں اور گرجا گھروں کے اطراف سرچ آپریشنز کرنے کے احکامات جاری کیئے گئے جس پر پولیس کی جانب سے شہر بھر میں قائم 6ڈویژنز کی کارکردگی میڈیا نمائندوں اور افسران بالا کو دکھا نے کیلئے “واٹس ایپ گروپس” بنا رکھے ہیں جن میں ڈویژنل ایس پی سمیت میڈیا نمائندے ایڈ ہوتے ہیں اور پولیس کی جانب سے کسی بھی تھانے کی حدود میں دو چار شہریوں کو کھڑا کر کے انکی تلاشی لیتے ہوئے یا کوائف چیک کرتے ہوئے چند تصاویر اور وڈیوکلپ بنا کر گروپوں میں سینڈ کردیے جاتے ہیں تاکہ گروپ میں موجود میڈیا نمائندے ان تصاویر کو اخبارات میں جبکہ وڈیو کلپس کو الیکٹرانک میڈیا پر چلائیں اور پولیس کی بہترین کارکردگی دکھائی دے ۔لاہور کے حساس ترین مقامات داتا دربارکے سامنے ،گامے شاہ کے سامنے ،ایس پی سٹی آپریشنز اور انویسٹی گیشن آفس کے سامنے اورپیر مکی دربارکے سامنے میٹرو پل کے نیچے،شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے پیچھے ٹیکسالی گیٹ کے علاقہ میں باب علی پارک کے اندر،لاہور ریلوے اسٹیشن کے اطراف، گنگا رام کے اطراف ، ریگل چرچ کے اطراف اورمین فروز پور روڈ پر قرطبہ چوک پر میٹرو پل کے نیچے سینکڑوں افراد نشئی ، بھکاری اور بیرون شہر کے پردیسیوں کے روپ میں مستقل رہائشیں اختیار کیئے ہوئے ہیں جن میں سے بمشکل چند ایک کے پاس کوئی شناخت دستاویز ممکن ہے باقی تمام بغیر شناختی دستاویزات کے ان حساس ترین مقامات پر بغیر چھپے کھلے عام رہائش اختیار کیئے ہوئے ہیں جن کو کبھی کسی تھانے کی پولیس نے چیک کرنے کی شاید اس لئے جرات نہیں کی کہ نامکمل شناختی دستاویزات کی بناءپر ان سے مٹھی گرم ہونا ممکن نہیں جس وجہ سے پولیس گزشتہ کئی سالوں سے انھیں مسلسل نذر انداز کررہی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے خود کو بارودی جیکٹ سے اُڑانے کا ٹارگٹ لیکر لاہور میں داخل ہونے والے خود کش بمبارکیلئے رہائشی علاقوں ، ہوٹلوں ، ہاسٹلوں اور دیگر رہائشی جگہوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سخت انتظامات کرنے کے بعد یہ فٹ پاتھ ، میٹرو بس کے پل، پارکس اور بس اسٹینڈزوغیرہ بہترین رہائش گاہیں ثابت ہوسکتی ہیںجبکہ یہ تمام جگہیں ان دہشتگردوں کے اہداف کے انتہائی نزدیک ترین قائم ہیں ۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain