تازہ تر ین

” عمران خان مخلص انسان لیکن وہ جن لوگوں میں بُری طرح گھِرا ہوا ہے ، وہ رفتہ رفتہ اُسے اپنے ووٹ بینک سے بھی محروم کرتے جا رہے ہیں “ معروف لکھاری ، محقق ضیا شاہد کا مقبول کالم

کاش عمران کو کوئی سمجھانے والا ہو کہ جتنی زیادہ صلاحیت‘ محنت اورمستقل مزاجی اس کے اندر ہے اگر وہ اپنی پارٹی کی جو تحریک ہے کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرے‘ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے پارٹی کارکنوں کو ریاستی مشینری کی پکڑ میں آنے سے بچائے‘ ہر تیسرے دن حکومت کو چلتا کرنے کے دعوے نہ کرے بلکہ یکسو ہو کر عدالتی جنگ بھی لڑے اور 2018ءکے الیکشن کیلئے انتخابی اصلاحات کروائے‘ الیکشن کمیشن کو صحیح خطوط پر استوار کروائے‘ صوبائی حکومت کی طرف سے نامزدگیوں کے قانون کو ختم کروائے‘ عوامی تائید کے لیے بھرپور منشور تیار کرے اور مقبول عام نعروں کا انتخاب کرے‘ صرف ایک صوبے پر امیدیں لگانے کی بجائے بالخصوص سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب پر پوری توجہ دے جہاں اس کا ذاتی گلیمر بھی کم ہے اور عوامی تائید بھی اور حکومت میں آنے کیلئے صرف اور صرف مضبوط اور منصفانہ الیکشن پر تکیہ کرے اور شیخ رشید صاحب کے مشوروں کے مطابق جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 کی طرف بار بار نہ دیکھے تو میرے دوست کی شاندار صلاحیتیں ملکی سیاست میں زبردست کردار ادا کر سکتی ہیں۔ وہ محنتی ہے‘ ہمت نہ ہارنے والا ہے‘ دھاندلی اور کرپشن کے خلاف ہے اور بہتر طرز حکومت کا دعویدار ہے۔ یہ تحریر کافی طویل ہے لیکن اسے بڑے صبروتحمل کے ساتھ اسے پڑھنا چاہئے اور اس کے ساتھیوں کو بھی جن کی اکثریت مخلص اور اچھے لوگوں پر مشتمل ہے اس پر غور کرنا چاہئے۔ میں عقلِ کُل نہیں‘ لیکن اپنی پچاس سالہ صحافت میں‘ میں نے حکومتوں کو آتے جاتے دیکھا ہے اور میں سیاسی کھلاڑیوں کے اچھے یا برے کھیل کو بخوبی سمجھتا ہوں۔
عمران اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو، صحیح راستے کا انتخاب کرو، اسمبلیوں کے اندر بھی جدوجہد کرو اور باہر بھی، بڑے اور درمیانے درجے کے شہروں کے پڑھے لکھے لوگ بالخصوص نوجوان تمہارے ساتھ ہیں، لیکن دیہات اور قصبات میں لوگ ابھی تک زمینداروں، پٹواریوں، سکول ماسٹروں، محکمہ نہر کے لوگوں، پولیس والوں اور اجارہ دار سیاست دانوں کے چمچوں کرچھوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ تعداد کروڑوں میں پہنچتی ہے جب تک تم انہیں رہائی نہیں دلواتے اور ایسے انقلاب کا قابلِ عمل پروگرام نہیں دیتے وہ اس قید سے رہائی نہیں پا سکتے جس میں وہ نسل در نسل خود کو حالات میں جکڑے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی حکومت نے بہت سے ا چھے کام بھی کیے ہیں یہاں آپ کی حکومت بھی ہے لیکن یہاں بھی آپ کو اکثریت حاصل نہیں اور حکومت سازی کے لئے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے جو تمہاری سوچ سے کوسوں دور ہوں، بندئہ ِخدا پہلے وہاں تو مکمل اکثریت حاصل کرنے کے لیے جامع پروگرام بناﺅ، پھر پنجاب کے دیہات اور قصبات کے لوگوں کے دلوں تک پہنچو، آخر میں بلوچستان اور سندھ کے چند بڑے ناموں کو ساتھ ملا کر تسلی سے نہ بیٹھ جاﺅ، کبھی تم نے سوچا کہ مسائل میں گھری ہوئی ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو تحریک ا نصاف اس کی جگہ کیوں نہ لے سکی، تمہارے پہلے جلسے جس قدر بڑے تھے بعد میں ان کے حاضرین کی تعداد کیونکر کم ہوتی چلی گئی، کیا تمہارے لوگ ایسا کیڈٹ تیار نہیں کر سکے جسے اسمبلی کی رکنیت میں کھڑا کرو مگر وہ الیکشن سے کچھ گھنٹے پہلے مخالف سے جا ملتا ہو، کبھی تم نے ایم کیو ایم کی شدید گرفت میں اور اس کے ناجائز غیرقانونی دفاتر میں بیٹھے ہوئے مسلح افراد کی مدد سے محلوں، آبادیوں اور شہری علاقوں کو کیونکر یرغمال بنایا گیا کہ وہاں سانس لینے کے لیے بھی ایم کیو ا یم کے سیکٹر انچارج کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے لیکن تم تو کیا پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت انہیں یرغمال کی کیفیت سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ حتیٰ کہ صوبے میں حکمران موجود پیپلزپارٹی بھی آئے دن ان سے سمجھوتا کرنے اور ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہے، تم کیوں انہیں رہا نہ کروا سکے۔ کیا تمہاری پارٹی نے کبھی واقعی تحریک بن کر سندھ کے ہاریوں کو وڈیروں اور زمینداروں کے چنگل سے آزاد کرانے کی کوشش کی، کیا جنوبی پنجاب میں تم نے ووٹروں کو بڑے زمینداروں، جاگیرداروں، ان کے گماشتوں، پیروں، گدی نشینوں سے رہا کروانے کا کوئی پروگرام وضع کیا۔ کیا پاکستان صرف وسطی پنجاب کے کچھ بڑے شہروں کا نام ہے؟ کیا یہ مقام حیرت نہیں کہ تمہارا اپنا ضلع میانوالی جہاں تم نے ایک شاندار یونیورسٹی بھی قائم کی وہاں تمہارے اپنے عزیز رشتہ دار بھی تمہارا ساتھ چھوڑ گئے اور حکومتی پارٹی نے وہاں سے نشستیں جیت لیں۔ تاثر کیوں عام ہے کہ زمیندار طبقے کی انگریزی سکولوں کی پڑھی ہوئی معمولی تعلیم یافتہ مگر جاگیر دارانہ سوچ اور استحصالی نظام کی علمبردار خوش شکل خواتین تمہاری پارٹی ٹکٹ کی امیدوار بنتی ہیں۔ تم نے کبھی نہیں سوچا کہ یہ خواتین اور ان کے آباﺅ اجداد اس علاقے میں ظلم اور جبر کی علامت رہے ہیں۔ بے چارہ عام شہری ایک طرف سے تمہاری طرف سے ”نئے پاکستان“ کی نوید سنتا ہے اور اس نوید کو عملاً کامیابی کی شکل دینے کےلئے تم انہیں انہی استحصالی طبقات کی خوش شکل خواتین کے حوالے کر دیتے ہو، جن کی تعلیمی ڈگریاں بھی جعلی ہوتی ہیں، بہت سے لوگ جو تمہیں پسند کرتے ہیں جب پانی کی طرح پیسہ بہانے والے لوگوں کے لیے انہیں بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے تو وہ اپنے اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں کہ ہم یہ کن لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تمہارے پاس اچھی شہرت کے خوشحال لوگ بھی موجود ہیں لیکن قرعہ¿ فال تمہاری پارٹی میں قبضہ خوروں‘ لینڈ مافیا اور جاگیرداروں کی بگڑی ہوئی اولادوں کے نام نکلتا ہے۔ مجھے تمہارے ایک ناقد کا یہ جملہ کبھی نہیں بھولتا جب اس نے کہا کہ ”عمران خان کو برسوں لگ جائیں گے مگر وہ ایک سمیرا ملک‘ ایک عائلہ ملک‘ ایک عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کی صفائیاں نہیں دے سکتے۔ مگر میں ذاتی طور پر جہانگیر ترین کو جانتا ہوں جس کی سیاسی سوچ منجھی ہوئی ہے اور جو وفاقی وزیر تھا وہ نہ مسلم لیگ ق سے مطمئن تھا نہ ہمارے سیاسی نظام سے مگر شاعر کا ایک مصرعہ ضرور سامنے رکھو‘ کسی نے کیا خوب کہا تھا:
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
قارئین محترم‘ میرا دوست عمران ایک اچھا‘ محنتی اور مخلص انسان ہے‘ لیکن وہ جن لوگو ںمیں بری طرح گھرا ہوا ہے وہ رفتہ رفتہ اسے اپنے ووٹ بنک سے بھی محروم کرتے جا رہے ہیں۔ کرپشن‘ دھاندلی اور لوٹ کھسوٹ سے پاک منصفانہ نظام کا خواب کون نہیں دیکھتا‘ مگر عدالتوں کے بارے میں جس طرح کہتے ہیں کہ انصاف ہونا نہیں چاہئے‘ ہوتے ہوئے نظر آنا چاہئے۔ عمران کی جدوجہد بھی غریب اور محروم طبقات کو نظر آنی چاہئے۔ لالک چوک لاہور اور ڈیفنس کراچی تک محدود نہیں رہنی چاہئے‘ God Bless You ۔
٭٭٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain