کینز(ویب ڈیسک) پاکستان نے حالیہ ٹورکے دوران آسٹریلیا میں ٹیسٹ فتح کی21 سالہ پیاس بجھانے کی آس لگا لی، بلند عزائم لیے ٹیم نے تیاریاں شروع کردی ہیں،کپتان مصباح الحق نے کینز میں موجود اسکواڈ کو جوائن کرلیا، مہمان کرکٹرز نے خوشگوار موسم میں وارم اپ اور مختلف مشقیں کرنے کے بعد فیلڈنگ پریکٹس کی،سلپ کیچز پر خصوصی توجہ دی گئی،ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور معاون گرانٹ فلاور بیٹسمینوں کو باہر جاتی گیندوں اور باﺅنسرز کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرتے رہے، یونس خان نے چمکتی پچ پر اپنے اسٹروکس چیک کیے، پیسرز نے طویل سیشن کیا، کوچز نے وہاب ریاض کو سوئنگ اور اسپیڈ کے ساتھ باﺅنسر بہتر بنانے کیلئے مشورے دیے،آسٹریلیا میں بہتر کارکردگی دکھانے کے خواہاں یاسر شاہ نے بھی صلاحیتیں نکھارنے پرکام کیا، اظہر علی بھی خود کو پارٹ ٹائم بولر کے کردار کیلئے تیار رہے ۔تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ میں مسلسل 2 شکستوں سے دوچار ہونے والی قومی ٹیسٹ ٹیم کو آسٹریلیا میں مزید کڑے امتحان کا سامنا ہے، جمعے کو ہلکی ٹریننگ کے بعد کرکٹرز2 روز سیروتفریح کرنے سے تازہ دم ہوگئے تھے، اب گذشتہ روز بھرپور ٹریننگ کا آغاز کردیا، سسر کے انتقال کی وجہ سے کیویز کیخلاف دوسرے ٹیسٹ سے قبل پاکستان آنے والے کپتان مصباح الحق نے بھی اسکواڈ کوجوائن کرلیا ہے، وہ میدان میں دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ سرگرم رہے، خوشگوار موسم میں مہمان کرکٹرز نے وارم اپ اور مختلف مشقوں کے ساتھ آغاز کرنے کے بعد فیلڈنگ کا طویل سیشن کیا، تیزی سے سلپ میں نکلنے والے کیچز کیلئے خصوصی پریکٹس کرائی گئی،اس مقصد کیلئے اسٹیورکسن نے چھوٹے بیٹ کا استعمال کیا۔ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور معاون گرانٹ فلاور بیٹسمینوں کو باہر جاتی گیندوں اور باﺅنسرز کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرتے رہے، یونس خان نے چمکتی پچ پر اپنے اسٹروکس چیک کیے، پیسرز نے طویل سیشن کیا، کوچز نے وہاب ریاض کو سوئنگ اور اسپیڈ کے ساتھ بانسر بہتر بنانے کیلئے مشورے دیے،آسٹریلیا میں بہتر کارکردگی دکھانے کے خواہاں یاسر شاہ نے بھی صلاحیتیں نکھارنے پرکام کیا، اظہر علی بھی خود کو پارٹ ٹائم بولر کے کردار کیلیے تیار کرتے نظر آئے۔گرین کیپس نے کینگروز کے دیس میں آج تک کوئی سیریز نہیں جیتی،32 ٹیسٹ میں سے صرف 4میں سرخرو ہوئے، گذشتہ تینوں ٹورز میں کلین سویپ کی خفت اٹھانا پڑی، آخری میچ 1995میں جیتا تھا۔ گیندوں کو فضا میں اچھالتے ہوئے فیلڈرز کو قابو پانے کا ٹاسک دیا جاتا رہا۔ہیڈ کوچ مکی آرتھر،بیٹنگ میں ان کے معاون گرانٹ فلاور کے ساتھ شاہد اسلم بھی بیٹسمینوں کو باہر جاتی گیندوں اور بانسرز کا سامنا کرنے کیلیے تیار کرتے رہے،سمیع اسلم، اظہر علی اور اسد شفیق خاص توجہ کا مرکز بنے، یونس خان نے چمکتی پچ پر اپنے اسٹروکس چیک کیے،ٹیل اینڈرزکو بھی بیٹنگ پریکٹس کرائی گئی، بولرز میں وہاب ریاض، راحت علی، سہیل خان اور عمران خان نے طویل سیشن کیا، نیوزی لینڈ کے برعکس لیگ اسپن بولنگ کیلیے زیادہ سازگار آسٹریلوی پچز پر بہتر کارکردگی دکھانے کے خواہاں یاسر شاہ نے بھی نیٹ پر صلاحیتیں نکھارنے پرکام کی۔اظہر علی بھی خود کو پارٹ ٹائم بولر کے کردار کیلیے تیار کرتے نظر آئے، مکی آرتھر اور بولنگ کوچ اظہر محمود نے وہاب ریاض کو سوئنگ اور اسپیڈ کے ساتھ بانسر بہتر بنانے کیلیے مشورے دیے،پیسر کو نو بال کا خاص طور پر دھیان رکھنے کیلئے کہا گیا، مقامی نوجوان بولرز بھی نیٹ میں معاونت کیلئے موجود تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے52سال میںکینگروز کے دیس میں11سیریز کھیلیں مگر ایک بھی نہیں جیتی، پہلا ٹور 1964میں کیا جس میں واحد ٹیسٹ ڈرا ہوگیا تھا، مجموعی طور پر یہاں گرین کیپس نے32میں سے صرف4 ٹیسٹ میں فتح حاصل کی،وقت گزرنے کے ساتھ کارکردگی مزید خراب ہی ہوئی،1999،2004اور 2009 میں کھیلی گئی گذشتہ تینوں سیریز میں میزبان ٹیم نے ہر بار3-0سے کلین سویپ کیا۔پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا میں آخری فتح حاصل کیے21سال بیت گئے،یہ موقع دسمبر1995 کے سڈنی ٹیسٹ میں آیا تھا، پاکستان نے ابتدائی دونوں میچز میں شکستوں کے بعد 74رنز سے کامیابی وسیم اکرم کی زیرقیادت حاصل کی تھی، مہمان ٹیم نے پہلی اننگز میں اعجاز احمد کے 137 رنز سے تقویت پاتے ہوئے 299 رنز بنائے تھے،شین وارن 4اور میکڈرمٹ 3 وکٹوں کے ساتھ نمایاں تھے،آسٹریلیا نے مارک واہ کی سنچری سے تقویت پاکر257 رنز بنائے، مشتاق احمد 5اور وسیم اکرم4 شکار کرنے میں کامیاب ہوئے، دوسری اننگز میں انضمام الحق کی ففٹی نے گرین کیپس کا اسکور 204تک پہنچایا، 247 کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے میزبان بیٹنگ 172پر ڈھیر ہوئی،مین آف دی میچ مشتاق احمد4، وقار یونس3 اور وسیم اکرم 2 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے،اس بار بھی ٹیم کو باصلاحیت لیگ اسپنر یاسر شاہ کی خدمات حاصل ہیں، مثبت پہلو یہ ہے کہ مبصرین اسٹیون اسمتھ الیون کو گذشتہ27سال میں پاکستان کا سامنا کرنے والی کمزور ترین ٹیم قرار دے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 1979کی ورلڈ سیریز کے بعد گریم یلپ اور کم ہیوزکی زیرقیادت بھی کینگروز ایسی ہی مشکلات کا شکار تھے، پروٹیز سے سیریز کا آخری میچ جیت کر آسٹریلیا نے اپنی ساکھ بحال کرنا چاہی، مگر درست کمبی نیشن کی متلاشی ٹیم میں اعتماد کی کمی پاکستان کیخلاف میچز میں بھی مسائل پیدا کرسکتی ہے، گرین کیپس کو پہلے ٹیسٹ سے قبل 8دسمبر سے شروع ہونے والے وارم اپ میچ میں بھی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کا موقع ملے گا۔