اقتدار کے کھیل میں کوئی رشتہ دار نہیں، مرکز میں کس کی بادشاہت اور پنجا ب میں کون راج کرے گا ؟

کراچی(خصوصی رپورٹ)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ن لیگ نے ابھی وزارت عظمی کے امیدوار کا فیصلہ نہیں کیا ہے، نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار بنانے کی بات اشارتاً کہی تھی ،ن لیگ الیکشن جیت گئی تو مریم مرکز اور حمزہ پنجاب کی سیاست کریں گے،پنجاب کو چارصوبوں میں تقسیم کر کے ایک صوبہ، مریم، دوسرا حمزہ،تیسرا کیپٹن صفدراور چوتھا اسحاق ڈار کے بیٹے کو دیدیا جائے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار مظہر عباس ، امتیاز عالم، حسن نثار، شہزاد چوہدری، ارشاد بھٹی اور حفیظ اللہ نیازی نے عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سوال 2018 کے انتخابات ،پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے بہترا ٓپشن کون ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز غیرسیاسی بچے نہیں ہیں۔حسن نثار نے کہا کہ اقتدار کے کھیل میں کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا ہے، پنجاب کو چارصوبوں میں تقسیم کر کے ایک صوبہ، مریم، دوسرا حمزہ، تیسرا کیپٹن صفدراور چوتھا اسحاق ڈار کے بیٹے کو دیدیا جائے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے، شہباز شریف کو خود بھی بھروسہ نہیں کہ انتخابات میں فتح کے بعد انہیں وزیراعظم بنایا جائے گا۔شہزاد چوہدری کا کہناتھا کہ نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کر کے پارٹی میں اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے، شہباز شریف کو اس صورتحال میں وزیراعظم بننے سے انکار کردیناچاہئے۔ شاہد خاقان عباسی نے ابھی تک پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا ہے۔مظہر عباس نے کہا کہ ن لیگ نے ابھی وزارت عظمی کے امیدوار کا فیصلہ نہیں کیا ہے، نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار بنانے کی بات اشارتا کہی تھی ، شہباز شریف قومی و صوبائی دونوں اسمبلیوں کا انتخاب لڑیں گے، اگر ن لیگ مرکز میں الیکشن ہار گئی تو شہباز شریف وزیراعلی پنجاب کے امیدوار ہوں گے، حمزہ کی دلچسپی پنجاب میں جبکہ مریم کی دلچسپی مرکز میں ہے، اگر ن لیگ الیکشن جیت گئی تو مریم مرکز اور حمزہ پنجاب کی سیاست کریں گے۔امتیاز عالم نے کہا کہ اقتدار میں خاندانی سسٹم نے سیاست، جمہوریت، آئین اور سویلین بالاداستی کو نقصان پہنچایا ہے، ہم جمہوریت کی بالادستی کیلئے اس لئے کام نہیں کررہے کہ خاندانِ شریف کے آل اولاد در اولاد اقتدار میں آتے رہیں،نواز شریف کی طرف سے شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کرنے سے ان کا سارا بیانیہ الٹ گیا ہے۔ارشاد بھٹی کاکہناتھا کہ وزیراعلی پنجاب کیلئے مریم نواز یا حمزہ شہباز میں سے کوئی بھی بہتر آپشن نہیں ہے، دونوں میں سے کسی کا وزیراعلی بننا ملک، جمہوریت اور ن لیگ کے ساتھ دشمنی ہوگی، جاوید ہاشمی، سعد رفیق، پرویز رشید یا ضعیم قادری کیوں نہیں وزیراعلی بن سکتے ،ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ شریف خاندان میں پیدا نہیں ہوئے۔

 

سپریم کورٹ کا ملک بھر کے نجی میڈیکل کالجز میں داخلے روکنے کا حکم

لاہور(ویب ڈیسک )سپریم کورٹ نے ملک بھر کے نجی کالجز میں داخلے روکنے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں نجی میڈیکل کالج کی فیسوں میں اضافے کے خلاف درخواست کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے تمام نجی میڈیکل کالجز کی تفصیلات اوراسٹرکچر طلب کرلیا۔عدالت نے فیسوں میں اضافے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نجی میڈیکل کالجزکےمالکان کےبینک اکاو¿نٹ کی تفصیلات فراہم کرنے کا بھی حکم دے دیا۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صاف پانی کیس بھی اسی کیس کے ساتھ سنا جائے گا، صاف پانی منصوبے میں ساڑھے 3 کروڑ کی گاڑی خریدی گئی، ایڈووکیٹ جنرل تفصیلات فراہم کریں، ہوسکے تووہ گاڑی یہاں بلوالیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت کو آگاہ کیا جائے کیسی گاڑی خریدی گئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذاتی نمائش کے لیے نہیں، جذبے کے لیے کیس کی سماعت کررہے ہیں، عوامی مفاد کے کیس کی سماعت ہفتے اور اتوار کو بھی ہوگی۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ چھتوں اور گیراجوں میں کالج بناکر چلائے جارہے ہیں، بتایاجائے میڈیکل کالج کا اسٹرکچر کیا ہے، ہم ڈاکٹر پیدا کررہے ہیں لیکن ہمیں نہیں پتا کہ ہمارا ٹول ٹھیک ہے کہ نہیں۔معزز جج کا کہنا تھا کہ میو اسپتال کا دورہ کیا تو تنقید کی گئی، جہاں بچوں کی صحت کا مسئلہ ہوگا وہاں جاو¿ں گا۔چیف جسٹس نے سماعت کے دوران تاحکم ثانی ملک بھر میں نجی میڈیکل کالجز میں داخلے روکنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر پرانی تاریخوں پر کالجز میں داخلے کیے گئے تو کالج مالکان اور داخلہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔جسٹس ثاقب نثار نے ینگ ڈاکٹرز کو بھی تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ینگ ڈاکٹرز نے اس معاملے پر کوئی ہڑتال کی تو عدالت سخت کارروائی کرے گی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کل تمام میڈیکل کالجز کے مالکان کو بیان حلفی کے ساتھ طلب کرلیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ مفاد عامہ کے اس معاملے کا چار ہفتوں میں فیصلہ کیا جائے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

 

50برس سے شوگر انڈسٹری پر بڑ ے سیا سی گھرانے قابض

ملتان(سپیشل رپورٹر) ملک بھر کے تمام بڑے اورا ہم سیاسی گھرانوں کے افراد گزشتہ 50سال سے شوگرانڈسٹریز پرقابض ہیں اور ایوب دور سے ہی لائسنس چل رہے ہیں جبکہ یہ لائسنس صرف بااثر گھرانوں میں بھی تقسیم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت کسی بھی صنعت پر اس طرح کی پابندی نہیں ہے مگرشوگر مل مالکان کسی دیگر کو اس کاروبار میں داخل مشکل
ہی سے ہونے دیتے ہیں۔ بھارت میں700سے زائد منی شوگرملز ہیں اور شوگرمل مالکان کھیتوں میں ہی بیلنے اورکڑاہے لگاکر راب حاصل کرکے حصوں ملوں میں شفٹ کرلےتے ہیں۔ اس طرح سڑکوں پربھی کئی ماہ رش نہیں رہتا جبکہ پاکستا ن میں چھوٹے پیمانے پر شوگرمل لگانے پرپابندی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلز ٹیکس کی مدمیں شوگرملیں50فیصد پروڈکشن پربھی بینکز ٹیکس ادا نہیں کرتیں جوکہ 6روپے 80پیسے فی کلو بنتا ہے اور اس حساب سے 340روپے فی من 50کلو بوری پربینکز ٹیکس بنتاہے۔ بتایاگیاہے کہ جتنا کوئی بااثر ہے اتنا ہی سیلز ٹیکس کم اورچوری مال کے ٹرک مل سے زیادہ نکالے جاتے ہیں۔ بہت سی انڈسٹریز میں موقع پر سیلز ٹیکس لیاجاتا ہے مگرشوگرملز کو یہ چھوٹ بھی خاص طورپرحاصل ہے کہ وہ ازخود پور ے مہینے کا سیلز ٹیکس مہینے کے آخرمیں جمع کردیں۔ اس طرح سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو براہ راست انہیں چیک بھی نہیں کرسکتا۔ بتایاگیاہے کہ سندھ کی بعض شوگرملیں80سے 90فیصد چینی بغیرسیلز ٹیکس کے ملوں کے باہر بھجواتی ہیں جبک پنجاب میں یہ شرح30سے 40فیصد سے زائد ہےں۔ سیلز ٹیکس کی شرح کاتعین توسب کےلئے ایک جیسا ہوتا ہے مگراس کی مالیت سیاسی پارٹیوں کے حساب سے ہوتی ہے۔ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے مل مالکان کوبعض اوقات زیادہ سیلز ٹیکس دیناپڑتاہے اور حکومت میں یہ سہولت بھی حاصل ہوجاتی ہے کہ سیلز ٹیکس کی مدمیں نمایاں بچت ہوجاتی ہے۔ بتایاگیاہے کہ پاکستان کی تمام شوگرملیں سالہا سال سے سیلز ٹیکس چوری میں ملوث ہیں اور کبھی ایف بی آر کے ذرائع نے اسے کنٹرول نہیں کیا۔ سیلز ٹیکس کی مد میں ہرسال حکومت کواربوں روپے کے نقصان ہوتا ہے شوگرمل مالکان کو 3500روپے میں پڑنے والی 100 کلو چینی کی اس وقت مارکیٹ میںقیمت4800روپے ہے اور ابھی ایکسپورٹ کاشوٹ چھوڑ کر اس قیمت میں اضافہ کیاجارہاہے اس حساب سے گزشتہ سال کے گنے میں، جبکہ عدالت کے حکم پر بند ہونیوالی تینوں ملیں بھی چل رہی تھیں، شوگرملوں کا منافع1300فی بوری بنتاہے اور اگراس میں سیلز ٹیکس کے فی سوپر680روپے بھی شامل کرلیے جائیں تو یہ منافع2000روپے فی بورتک پہنچ جاتا ہے۔ اس منافع میں رواں سال نمایاں اضافہ ہونے کاغالب امکان اس لیے پیدا ہوگیا ہے کہ شوگرمل مالکان180وپے سرکاری ریٹ والاگنا80روپے سے120روپے فی من میں خرید رہے ہیں اور اس پر15سے 20فیصد کٹوتی بھی کی جارہی ہے۔ 7شوگرملیں قومی اسمبلی کے حلقوں کے مطابق لگائی جاتی ہیں اور بتایا گیاہے کہ ایک ایک شوگرمل سے10سے 12افراد ذاتی ووٹ بن جاتے ہیں اوران کے زیرانتظام کاشتکاروں کے ہوتے ہیں اور یہ انہیں ادائیگی روک کراپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ پاکستان میں کسی عدالت نے آج تک کسی بھی حکومت سے گزشتہ 50برسوں میں یہ سوال نہیں پوچھا کہ شوگرملوں کے لائسنس کی پابندی کیوں لگائی گئی ہے اور چھوٹے پیمانے پر شوگرملوں کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔ کسی عدالت نے حکومتی حربوں کے خلاف کبھی فیصلہ نہیں دیا اور اگرچھوٹے کاشتکاروں نے گنے کی قیمت کے تعین کے حوالے سے مقدمہ لڑ کر ہائیکورٹ کے فیصلہ لے بھی لیا تو بھی ڈبل بنچ میں جہانگیر ترین کی طر ف سے13 سینئر وکیل عدالت میں پیش ہوئے اورحکم امتناعی لینے میں کامیاب ہوگئے۔ جوکہ گزشتہ چارسال سے نافذالعمل ہے اورعدالتی بھی کاشتکار کو اس کاحق دلوانے میں انصاف نہیں کرسکیں۔

 

مسلم لیگ کا ”بھٹہ “ہی بیٹھ جاتا اگرنواز شریف ۔۔۔۔ ؟

لاہور( ویب ڈیسک ) صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ نوازشر یف سپر یم کورٹ کے فیصلے کے بعد گھر آ کر بیٹھ جاتے تو ہماری پارٹی کا ہی ’’ بھٹہ ‘‘ بیٹھ جاتا‘ نواز شریف ہی ہمارے لیڈر ہیں اور سادہ سی بات ہے اگر وہ سمندر یا دریا میں بھی چھلانگ لگائیں گے تو ہم بھی ان کے پیچھے چلیں گے ۔ میڈیا سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف نے سیاسی رفقاء سے مشاورت کے بعد پارٹی کی صدارت کیلئے مشاورت کی تھی اور اس کیلئے سب رہنمائوں نے شہباز شریف کے نام کی توثیق کی تھی لیکن کچھ دنوں بعد قانون میں تبدیلی ہو گئی تھی ۔انہوں نے آئندہ وزیر اعظم کیلئے شہباز شریف کی نامزدگی کے بعد وزیر اعلیٰ کیلئے نام سامنے لانے بارے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کی پریکٹس نہیں ہے ۔جہاں تک وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی بات ہے تو سب کو معلوم ہے کہ اگر تحریک انصاف جیتتی ہے تو کون وزیر اعظم ہو گا اسی طرح پیپلز پارٹی کے بارے میں بھی سب کو علم ہے لیکن (ن) لیگ کے حوالے سے کنفیوژن تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں بن سکتے ۔کیونکہ قانون اور آئین میں ترامیم موجودہ پارلیمنٹ کا مینڈیٹ نہیں اور یہ اگلی پارلیمنٹ کا کام ہے اس لئے یہ بات ہوئی کہ اگر (ن) لیگ کامیاب ہوتی ہے تو وقتی یا مستقل طور پر کون پارلیمانی گروپ کو لیڈ کرے گا اور اس کنفیوژن کو دور کرنے کیلئے نواز شریف نے پہلے سے منظور کئے گئے فیصلے کے حوالے سے بات کی جو میڈیا میں رپورٹ ہوا ۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف ہی ہمارے لیڈر ہیں اور سادہ سی بات ہے کہ اگر نواز شریف فرض کریں سمندر یا دریا میں چھلانگ لگانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہم آخری وقت تک انہیں سمجھائیں گے لیکن اگر انہوں نے چھلانگ لگائی تو ہم ان کے فیصلے یا پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ان کے پیچھے چلیں گے۔نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو بیانیہ بیان کیا ہے اگر وہ اسے نہ اپناتے تو ہم سیاسی طور پر زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے اور ہماری سیاسی مقبولیت ختم ہو جاتی ۔ نوازشریف کا جو بیانیہ اور موقف ہے وہ ہماری پارٹی ، ورکرز اور ووٹرز میں تسلیم شدہ ہے ۔ جب فیصلے کے بعد بابا رحمتے نے جس طرح معاملات کو ہینڈل کیا اس کے بعد یہ بیانیہ اس طرح لوگوں کے دلوں و دماغ میں گھر کر گیا ہے کہ انتخابی مہم شروع ہونے دیں اس بیانیے کو ملنے والی پذیرائی سب کے سامنے ہو گی ۔انہوں نے اس سوال کہ نواز شریف جو بیانیہ اپناتے ہیں شہباز شریف اس پر دو سطریں نہیں بولتے کا جواب دیتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ میری طرف سے دوصفحے بولنے کے بعد مجھے کبھی شہباز شریف نے یہ نہیںکہا کہ آپ غلط بولتے ہیں ضروری نہیں ہوتا کہ پارٹی میں تمام لوگ ایک ہی بات کریں۔ نواز شریف کا بیانیہ ہماری سیاسی بقاء کی بات ہے اگر وہ دوسرا راستہ اپناتے اور گھر آ کر بیٹھ جاتے تو ہماری پارٹی کا ہی ’’ بھٹہ ‘‘ بیٹھ جاتا ۔ سویلین بالا دستی ، ووٹ کے تقدس کی بحالی ، عدلیہ میں اصلاحات جس میں عام آدمی اور ایلیٹ کلاس کے سامنے لرزہ نہ ہو نواز شریف کی قیادت میں ہی کریں گے۔

314سیاسی جماعتیں پھنس گئیں ۔۔۔ انتخابی عمل سے باہر ہونے کا امکان

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) انتخابات ایکٹ 2017ءکی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کیلئے درکار سخت قانونی تقاضوں کی بدولت سیاسی جماعتیں مشکل میں پھنس گئیں۔ الیکشن کمیشن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ‘ بلوچستان نیشنل پارٹی‘ جے یو آئی (س) سمیت 314 سیاسی جماعتیں تاحال آئندہ انتخابات لڑنے کی اہل نہیں ہوئیں اور صرف گیارہ فیصد سیاسی جماعتیں مطلوبہ معیار پر پورا اتریں۔ الیکشن کمیشن کی دستاویز کے مطابق الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ملک کی 352 سیاسی جماعتوں میں سے اب تک صرف 38 سیاسی جماعتوں نے دو ہزار پارٹی ممبران اور دو لاکھ روپے کی رجسٹریشن فیس سمیت تمام قانونی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں۔ دستیاب الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق الیکشن کمیشن میں اس وقت 352 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں موجودہ حکومت کی اہم اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دوسری مذہبی جماعت جے یو آئی (س) نے تاحال الیکشن کمیشن میں اپنے دو ہزار پارٹی کارکنوں کی تصدیق شدہ تفصیلات اور پارٹی رجسٹریشن کی مد میں سٹیٹ بینک میں دو لاکھ روپے جمع نہیں کرائے۔ ان میں سے پاکستان مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ عوامی نیشنل پارٹی سمیت صرف 38 سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے نافذ کردہ قانونی تقاضے پورے کئے۔ الیکشن کمیشن ذرائع نے بتایا کہ انتخابات ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک کی 89 فیصد سیاسی جماعتیں انتخابی عمل سے باہر ہوتی نظر آرہی ہیں کیونکہ اب تک بیشتر سیاسی جماعتیں مطلوبہ قانونی تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ یہ ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کا ڈھانچہ مکمل نہیں ہے اور ان کے پارٹی عہدیدار بھی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ چند ماہ قبل پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے انتخابات ایکٹ کے تحت اب ہر رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے لئے دو ہزار کارکنوں کی فہرست اور دو لاکھ روپے پارٹی رجسٹریشن فیس کی مد میں جمع کرانے ہوں گے۔

 

نامور شاعرہ پروین شاکر کی 23 ویں برسی آج منائی جائےگی

اسلام آباد (شوبز ڈیسک) ملک کی نامور شاعرہ پروین شاکر کی 23 ویں برسی (آج)26 دسمبر کو منائی جائے گی ۔ وہ اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعے وہ چمن اردومیں ہمیشہ مہکتی رہیں گی۔اردو ادب کے منفرد لہجے کی حامل پروین شاکر 24نومبر 1952ءکو کراچی میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اردو ادب کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت کم عرصے میں اندرون اور بیرون ملک بے پناہ شہرت حاصل ہوگئی، انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور آدم جی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ۔ 26دسمبر 1994 ءکو شعروں کی مہک بکھیرنے والی شاعرہ اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں شاعری کی دنیا کو سونا کرکے ہمیشہ کیلئے چلی گئیں۔

آج قائداعظم”علیہ السلام“ کی ”برسی“ ہے‘ مزارقائد پر حاضری کے وقت زرداری کی زبان لڑکھڑا گئی

لاہور (خصوصی رپورٹ) پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری کی زبان گزشتہ روز مزار قائد پر حاضری کے بعد
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زبان کئی بار لڑ کھڑاتی رہی انہوں نے قائداعظم کیلئے علیہ السلام کے الفاظ ادا کئے حالانکہ علیہ السلام انبیاءکرام کیلئے مخصوص ہے۔ بانی پاکستان کیلئے رحمة اللہ علیہ استعمال میں ااتا ہے۔ ان کی زبان سے نکلے الفاظ سن کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ غالباً ہوش میں نہیں ہیں انہوں نے پہلے قائداعظم کی برسی کا ذکر کیا پھر کسی رہنما نے ان کے کان میں کہا کہ 25 دسمبر کو سالگرہ ہوتی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ قائداعظم کی سالگرہ کا دن ہے۔

 

بھارتی سنسر بورڈ ”پدماوتی“ کی ریلیز میں پھر رکاوٹ بن گیا

ممبئی(شوبزڈیسک) بھارتی فلم سنسر بورڈ نے ایک بار پھر فلم ’پدماوتی‘ کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 12 جنوری کو ریلیز کرنے سے روک دیا۔بالی ووڈ انڈسٹری کی سب سے متنازع فلم ’پدماوتی‘ ابتدائی مراحل سے انتہا پسند ہندوﺅں کے ہاتھوں مشکلات کا شکار رہی ہے بعد ازاں سنسر بورڈ کی جانب سے بھی پے درپے مسائل کا سامنا ہے۔ پہلے تو سنسر بورڈ نے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی درخواست کو نامکمل قرار دیا تھا اور سرٹیفکیٹ گجرات کے الیکشن کے بعد ملنے کی توقع تھی اور اب سنسر بورڈ نے ایک بار پھر فلم کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں مزید انتظار کرنے کا عندیہ دے دیا۔ بھارتی سنسر بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن کے مشیر کا کہنا ہے کہ فلم ’پدماوتی ‘ کو سر ٹیفکیٹ جاری کرنے سے پہلے 40 سے زائد مختلف زبانوں کی فلمیں سرٹیفکیٹ ملنے کی منتظر ہیں جب کہ فلم ’پدماوتی‘ کی جانچ پڑتال کے لیے ایک خصوصی پینل بنے گا ۔کیوں کہ فلم جزوی طور پر تاریخی حقائق پر مبنی ہے اور اس جانچ پڑتال کا عمل 5 ماہ میں مکمل ہوگا۔

 

شہباز کی وزارت عظمیٰ اور مریم نواز کی وزارت اعلی کی راہ میں کئی رکاوٹیں

لاہور (تجزیہ نگار ) ن لیگ کے قریبی ذرائع کے مطابق پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کو آئندہ انتخابات کے بعد ملک کا وزیراعظم بنائے جانے کا معاملہ ابھی تک حتمی شکل اختیار نہیں کرسکا، اس لئے فی الحال نوازشریف کی طرف سے اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا جارہا، کیونکہ اس کی راہ میں بعض مسائل درپیش ہیں، ذرائع بتاتے ہیں موجودہ صورتحال میں ن لیگ کو مکمل یقین نہیں کہ وہ اگلی حکومت بناسکے گی یا نہیں، اگرچہ میاں نوازشریف نے نجی محفلوں میں انہیں وزیراعظم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن اسکے ساتھ ہی وہ پنجاب کی قیادت اپنی صاحبزادی مریم نواز کو سونپنا چاہتے ہیں، انہیں یقین ہے کہ ن لیگ کسی وجہ سے وفاقی حکومت نہ بھی بنا سکی تو وہ پنجاب میں بہر صورت کامیاب رہے گی، ایسی صورت میں مریم نواز کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کیلئے راستہ صاف ہوگا، یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ میاں شہبازشریف پنجاب سے مکمل طور پر دستبردار ہوجائیں اور اپنی ساری توجہ قومی اسمبلی میں کامیابی کی طرف دیں، ذرائع بتاتے ہیں شہبازشریف سے کہا گیا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کیلئے کسی بھی حلقے سے امیدوار نہ بنیں البتہ قومی اسمبلی میں جن حلقوں سے چاہیں انتخاب لڑلیں لیکن شہباز شریف اسکے لئے رضا مند نہیں ، وہ ہرصورت میں پنجاب اسمبلی کی نشست حاصل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق میں ن لیگ حکومت بناتی نظر نہ آئی تو وہ پنجاب میں حکومت بنالیں گے، ایسی صورت میں مریم نواز کو اس عہدے سے محروم ہونا پڑیگا ، جس کے وہ شدت سے خواہشمند ہیں ، اسی وجہ سے مسلم لیگ ن کے صدر میاں نوازشریف اپنے بھائی کی وزیراعظم کیلئے نامزدگی کا معاملہ نجی محفلوں اور قریبی ساتھیوں کے ساتھ مشاورتی اجلاسوں سے آگے نہیں لے کر گئے اور باقاعدہ اعلان بھی نہیں کرپارہے، سیاسی حلقے بتاتے ہیں کہ نوازشریف نے اپنی نااہلی کے بعد شہباز شریف کو پہلے وزیراعظم اور پھر پارٹی صدر بنانے کا اعلان کیاتھا مگر دونوں بار یہ معاملہ سرے نہ چڑھ سکا، وزارت عظمیٰ کیلئے شاہد خاقان عباسی کو ہی مستقل حیثیت دیدی گئی اور پارٹی صدر کیلئے نوازشریف نے قانون میں ترمیم کراکے خود اپنا انتخاب کرلیا، اگرچہ نجی محفلوں کو شہباز شریف کی نامزدگی پر رضامندی ظاہر کی جاچکی ہے لیکن ممکن ہے کہ اس بار بھی سابقہ صورتحال ہی پیش آجائے ، اسی حوالے سے سیاسی حلقے گذشتہ روز کے دوبیانات کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں، ایک بیان پیپلزپارٹی کے رہنما اور معروف قانون دان اعتزاز احسن جبکہ دوسرا وفاقی وزیراور ن لیگ کے سیکرٹری اطلاعات مشاہد اللہ کی طرف سے ہے ، اعتزاز احسن کا موقف ہے کہ حدیبیہ منی لانڈرنگ کا کیس ہے ، اس میں اسحق ڈار کی طرف سے دیا جانے والا اعترافی بیان شہبازشریف کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتا ہے ، ان کا موقف ہے کہ یہ کیس چونکہ فوجداری ہے اسلئے اسے بند نہیں کیاجاسکتا اور شہبازشریف اس کے ملزموں میں سے ہے، سنیٹر مشاہد اللہ نوازشریف کے انتہائی قریبی سمجھے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ نوازشریف کی زبان ہی بولتے ہیں ، انکا موقف ہے کہ سنا ہے کہ نوازشریف نے شہبازشریف کو وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کیا ہے مگر اس طرح کا کوئی معاملہ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو میں نہیں آیا ، اگر کوئی فیصلہ وہتا ہے تو وہ سنٹرل ایگزیکٹو میں ہی ہوگا، اس بیان کو انتہائی معنی خیز قراردیاجارہاہے، سیاسی حلقے اس سے یہی اندازہ لگا رہے ہیں کہ فی الحال سارا معاملہ ہوا میں ہے ، پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے بھی کسی باقاعدہ اعلان کی عدم موجودگی کی بات کی ہے ، ایک اور معاملہ حمزہ شہباز شریف کی ایڈجسٹمنٹ ہے، جنہیں ایک وقت میں نوازشریف نے اپنا سیاسی جانشین قرار دیاتھا اور پرویز مشرف کے دور میں سارا خاندان سعودی عرب بھیج دیاگیا تو وہ پاکستان میں تنہا سارا پریشر برداشت کرتے رہے ہیں ، وہ بھی پنجاب چھوڑ کر مرکز میں نہیں جانا چاہیں گے ، لیکن عزیزداری کے باوجود وہ پنجاب میں مریم نواز کے ساتھ کام نہیں کرپائیں گے ، متعلقہ حلقے بتاتے ہیں کہ ان تمام معاملات کی وجہ سے ن لیگ کی قیادت سخت شش و پنج میں ہے اور کوئی حتمی فیصلہ اس کے لئے مشکل ثابت ہورہاہے ۔

عائشہ گلا لئی نے عمران خان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ، اہم اعلان کر دیا ،تحریک انصاف میں ہلچل

نوشہرہ (خصوصی رپورٹ) تحریک انصاف کی منحرف رہنما عائشہ گلالئی نے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کردیا۔ نوشہرہ پریس کلب میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کی منحرف رہنما اور رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے جلسے میوزیکل شو بن چکے ہیں۔ تبدیلی کے نام پر نظریاتی کارکنوں پر چوروں اور لٹیروں کو مسلط کیا جارہا ہے۔ یہ چور ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔