تازہ تر ین

اے پی این ایس کا جعلی فہرستوں پر انتخاب، کئی قدآور شخصیات منتخب نہ ہو سکیں

کراچی (پ ر) روزنامہ ایکسپریس گروپ کے منیجنگ ایڈیٹر اعجاز الحق نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے حالیہ الیکشن میں منتخب ہونے کے فوراً بعد ہی غیر مساوی رکنیت کی بنیادوں پر بنائی گئی جعلی انتخابی فہرستوں پر احتجاج کرتے ہوئے اے پی این ایس کی نومنتخب ایگزیکٹو کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے کہا 2 اخباری گروپوں پر مشتمل ٹولہ گزشتہ ایک دہائی سے جعلی اور غیر منصفانہ انتخابی فہرستوں کے ذریعے اے پی این ایس پر مسلط ہے۔ گزشتہ 10 سال کے دوران سینکڑوں نئے اخبارات و جرائد شائع ہونے کے بعد اخباری صنعت میں ممتاز حیثیت حاصل کر چکے ہیں لیکن ان کو مستقل رکنیت سے غیر آئینی طور پر محروم رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ الیکشن میں کروڑوں روپے کے خرچ بیرونی دباﺅ اور دھمکیوں کے ذریعے اوچھے ہتھکنڈے بھی اختیار کئے گئے کیونکہ اے پی این ایس پر مسلط ٹولے کو اپنی من پسند جعلی انتخابی فہرست کے باوجود شکست کا خدشہ تھا۔ اعجاز الحق نے مزید کہا کہ اس سازش کے باوجود اگرچہ وہ روزنامہ ایکسپریس کی جانب سے اے پی این ایس کے انتخابات میں منتخب ہوئے تاہم اخباری دنیا کی کئی مسلمہ اور ممتاز شخصیات اے پی این ایس کی جعلی انتخابی فہرستوں کی وجہ سے منتخب نہ ہو سکیں جن میں ضیا شاہد (روزنامہ خبریں)، عارف نظامی (روزنامہ پاکستان ٹوڈے)، رفیق افغان (روزنامہ اُمت)، انور ساجدی (روزنامہ انتخاب)، ڈاکٹر جبار خٹک (روزنامہ عوامی آواز)، کاظم خان (روزنامہ ڈیلی ٹائمز)، حامد حسین عابدی (رونامہ امن)، غلام نبی چانڈیو (روزنامہ پاک)، عارف صدیق بلوچ (روزنامہ بلوچستان ایکسپریس)، طاہر فاروق (روزنامہ جہاد)، محمد حیدر امین (بلوچستان ٹائمز)، فقیر منٹھار منگریو (روزنامہ مہران حیدرآباد)، تنویر شوکت (روزنامہ غریب فیصل آباد)، زبیر محمود (روزنامہ صورت حال)، وقاص طارق فاروق (روزنامہ جہاں نما)، نشید راعی (روزنامہ قومی آواز ملتان)، ممتاز احمد صادق (روزنامہ آزادی) اور شمس الضحی (روزنامہ الفلاح) جیسی قد آور شخصیات اور ممتاز اخبارات نے بھرپور مقابلہ کیا تاہم محض چند ووٹوں کے فرق سے الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکے، یوں انہیں اے پی این ایس میں مساوی نمائندگی اور قیادت کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ موجودہ انتخابی فہرست میں چند اخباری گروپس کو اپنے ایڈیشنز کے مطابق ایک سے زیادہ ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے جیسا کہ ڈان گروپ 3 ووٹ، جنگ گروپ 12 ووٹ، نوائے وقت گروپ 6 ووٹ، کاوش گروپ 3 ووٹ، عوام کوئٹہ گروپ 3 ووٹ سمیت مختلف ایسے اخباری گروپ شامل ہیں جن کو ایک اخبار ہونے کے باوجود ایک سے زیادہ ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کی اخباری صنعت کے مستند ترین اخبارات یعنی ایکسپریس 1 ووٹ (جو کہ 17 ہونے چاہئیں)، خبریں 6 ووٹ (جو کہ 12 ہونے چاہئیں)، پاکستان ٹوڈے 1 ووٹ (جو کہ 3 ہونے چاہئیں، ڈیلی ٹائمز گروپ 1 ووٹ (جو کہ 6 ہونے چاہئیں)، جہاد1 ووٹ (جو کہ 5 ہونے چاہئیں)، عوامی آواز 1 ووٹ (جو کہ 5 ہونے چاہئیں) اُمت 1 ووٹ (جو کہ 4 ووٹ ہونے چاہئیں) اس کے علاوہ کئی اخبارات جن کو صرف ایک ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے حالانکہ وہ مختلف زبانوں اور کئی شہروں سے اخبارات شائع کرتے ہیں۔ اخبارات کے درمیان اس تفریق میں چند من پسند اخبارات کو ایک کی بجائے درجنوں سے زیادہ ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسی معیار کے دوسرے بے شمار اخبارات کو اس قسم کی رکنیت کا حق حاصل نہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ کئی سال سے نیب زدہ مخصوص اشتہاری ایجنسی کو بچانے کے لئے اس مخصوص ٹولے کی کوشش پوری اخباری صنعت کے سامنے واضح ہو گئی تھی۔ اعجاز الحق نے کہا کہ سیکڑوں اہل اخبارات کو اے پی این ایس کی رکنیت دینے سے غیر آئینی طور پر محروم نہ رکھا گیا ہوتا تو ان کے ساتھی بھاری ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہو کراے پی این ایس کو مسلط ٹولے سے نجات دلاتے اور اخبارات کے معاشی بحران کو حل کرنے کی جدوجہد میں شامل کرتے۔ اعجاز الحق نے اعلان کیا کہ وہ اور ان کے ساتھی اے پی این ایس کے اندر جعلی انتخابی ادارے کی تشکیل کے خلاف بھر پور جدوجہد کا آغاز کریں گے تا کہ اخباری انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لئے موثرلائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain