تازہ تر ین

شہباز کا بیان کہ نواز کا انٹرویو کر نیوالے دشمن ہیں ،لگتا ہے کہ بھائیوں کے سیاسی راستے جدا ہوگئے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آج جناب شہباز شریف نے جو کچھ کہا ہے ایک طرف تو انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ نوازشریف ان کے بڑے بھائی ضرور ہیں وہ یقینا پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق وزیراعظم بھی ہیں اور اس کے قائد بھی رہے۔ لیکن ان کے سیاسی راستے جو ہیں ان کی سیاسی فلاسفی سے شہباز شریف پر عدم اعتماد پر اظہار کر دیا ہے۔ ذاتی رشتے کی بنیاد پر آپ ایک خاص حد سے زیادہ سخت زبان استعمال نہیں کرتے لیکن شہباز شریف آج یہ کہہ رہے ہیں کہ جن لوگوں نے یہ انٹرویو کروایا وہ پارٹی کے دشمن ہیں اب بچہ بچہ جانتا ہے کہ ڈان کے شہرت یافتہ دو ہی افراد تھے (اگرچہ پرویز رشید صاحب سابق وزیراطلاعات ڈان لیکس کی بنیاد پر مستعفی ہوئے تھے اور اس وقت بھی سب لوگ الزام لگا رہے تھے کہ مریم نواز صاحبہ ڈان لیکس کی خبر چھپوانے کے پیچھے بڑی مستعد تھیں۔ اگرچہ ہمارے ہی پروگرام میں جناب پرویز رشید صاحب نے میرے ہی سوال کے جواب میں کہا تھا کہ مریم بی بی کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن میرا خیال ہے کہ شاید وہ تو تسلیم کرتے ہوں گے شاید ہی کوئی پاکستان میں کوئی شخص تسلیم کر سکے۔ یہ بات اتنے زورشور سے اچھلی تھی کہ اگر یہ بات غلط بھی ہو تو کافی لوگوں کو اس پر یقین آ چکا تھا۔ آج شہباز شریف صاحب کو بڑے بھائی کے سب سے معتمد پرویز رشید کے بارے میں اور دوسرا ان کی بیٹی کے بارے میں اپنی بھتیجی کے بارے میں یہ کہنا کہ جن لوگوں نے انٹرویو کروایا وہ پارٹی کے دشمن ہیں معاف کیجئے اگر پارٹی کے دشمن کی آگے تعریف کی جائے تو نام آتے ہی پرویز رشید صاحب کا اور مریم نواز صاحب کا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں شہباز شریف نے اپنے آپ نوازشریف کی سیاسی لائن سے مختلف قرار دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ جو لوگ اس قسم کا بیانیہ نوازشریف سے دلوا رہے ہیں وہ پارٹی کے دشمن ہیں اس سے زیادہ سخت جملہ شاید اپنی بھتیجی اور اپنے بڑے بھائی کے معتمد کے خلاف شاید ہی کوئی دے سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ جناب نوازشریف صاحب مکمل طور پرڈٹے ہوئے ہیں انہوں نے ساری تنقید کے باوجود کل بھی اور پرسوں بھی انہوں نے کل کو یہ کہا کہ میں اپنے بیان پر نمبر1 قائم ہوں۔ نمبر2 میں ہر گز اسے واپس لینے کو تیار نہیں۔ نمبر3 میں نے پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستانی فوج کے خلاف جناب نوازشریف، اسرائیل کا سفارتخانہ، انڈیا کا سفارتخانے اور امریکی سفارتخانے کے بعض لوگ اور اس کے علاوہ جو سب سے بڑی سیاسی قوت لندن میں سرگرم عمل ہے اس سے آپ بھی واقف ہیں میں بھی اس سے واقف ہوں، اور بانی متحدہ جن کو کہا جاتا ہے اور جن کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق اخبارات میں ان کا نام بھی نہیں چھپتا ہے اور ٹی وی چینلز ان کی تقاریر بھی نہیں دیتے اور نہ اس کا بیان نشر کرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا 24 گھنٹے اس کی آفیشل ویب سائل چلتی ہے اور پانچ پانچ گھنٹے بعد وہ نئی خبریں دیتی ہے آپ یقینا اس سے واقف ہوں گے لیکن آپ کے سامنے یہ صورتحال رکھنا چاہتا ہوں کہ پچھلے ایک ہفتے بلکہ 10 دن سے انتہائی بدترین الفاظ میں، انتہائی مہلک ترین الفاظ میں انتہائی ناشائستہ الفاظ میں وہ پاک فوج کا تذکرہ دن رات کرتے، ان پر الزام لگاتے، اس پر صوبائی بنیادوں پر اس میں تعصبات ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ جھوٹی خبریں نشر کرتے ہیں کہ اس میں بڑی داخلی طور پر ایک دوسرے سے فساد ہو گیا ہے وہ یہاں تک کہنے پر باز نہیں آتے کہ فلاں طبققے کے لوگوں کو چاہئے کہ فلاں طبقے کی لیڈر شپ کو ماننے سے انکار کر دے۔یہ سوشل میڈیا پر 24 گھنٹے اپنی نفرت کا اظہار کر رہا ہے۔ قانونی، اخلاقی سیاسی طور پر ہم صرف اس بات پر مطمئن کیوں ہیں کہ بانی متحدہ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کی پابندی لگ گئی ہے جو حرکتیں وہ وہاں بیٹھ کر فرما رہے ہیں اور جو زہر وہ پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں آپ کیا فرماتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ پریس کو کیا کرنا چاہئے ہمارے محب وطن سیاسی لیڈروں کو کیا کرنا چاہئے اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے عوام کو اور پھر بارڈر ایریا کے عوام سیالکوٹ سے لے کر کھوکھرا پار سے کراچی تک جو بھارتی سرحد سے متاثرہ ہیں جناب ان کو کیا رویہ کیا بیانیہ اختیار کرنا چاہئے۔ کہ پاک فوج کے بارے اس قسم کے گمراہ کن الزامات جو بالکل سو فیصد جھوٹے ہیں ان کا کیسے سدباب کریں خاموش رہنے سے بات تو نہیں بنتی وہ زہر تو ساری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مجبوراً ہی کہا ہے یا مصلحتاً کہا ہے آج شہباز شریف کے اس بیان کے بعد مجھے تو مسلم لیگ ن ایک پارٹی دکھائی نہیں دیتی۔
مبشر لقمان نے کہا ہے کہ شہباز شریف کے لئے بہت دیر ہو گئی کہ وہ نوازشریف سے الگ کر کے اپنے آپ کو بچائیں کیونکہ کل یا پرسوں وہ ماڈل ٹاﺅن کیس کی سماعت شروع ہو جائے گی۔ سٹاف کے لئے بچنے کا موقع نہیں۔ برملا اظہار کر رہے ہیں کہ بھائی صاحب نے ہمیں مروا دیا ہے۔ اور بیٹی کے کہنے پر سب کچھ کیا ہے۔ جبکہ شہباز شریف جو تھے وہ بڑی کوشش کر رہے تھے کہ کلثوم صاحب کی عیادت کے لئے لندن میں رہیں لیکن مریم نواز نے ان کو وہاں نہیں رہنے دیا اور کھینچ کر یہاں رکھا اور اپنے ہی چچا کے خلاف سازش کرتی رہی ہیں آپ کو یاد ہو گا تہمینہ درانی کے سابق سیکرٹری زبیر نے بیانات دیئے جو شہباز شریف اور چودھری نثار سے متعلق اب پتہ چل رہا ہے جو شواہد آ رہے ہیں ابھی پوری طرح تو نہیں پتہ وہ غالباً مریم صفدر نے اس کو پلانٹ کیا تھا وہ ان کے خلاف آ کے بیانات دے۔ مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آپ کو میں بتاﺅں کہ میں دو باتوں کا قائل ہوں پاکستان میں اس شخص کا گزارا نہیں ہے جو گستاخ رسول ہو اور پاکستان میں اس کے لئے جگہ نہیں ہے اور جو پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھی ہو۔ میاں نوازشریف یہ دونوں حرکتیں جو ہیں سرزد کر چکے ہیں۔ میں ایک شعر میں مسلم لیگ ن کا مستقبل بیان کر سکتا ہوں کہ مسلم لیگ ن اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون۔
مبشر لقمان نے مزید کہا کہ نوازشریف پہلے عدلیہ کے خلاف بولتا رہا اب کھل کر فوج کے سامنے وہ بول رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس یہ دس بارہ دن ہیں ان کے کیسوں کا فیصلہ متوقع ہے وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح فوج ان پر ری ایکٹ کر دے ان کے اوپر۔ اگر وہ یہ کر دیتی ہے تو نوازشریف کے وکلاءلندن میں یا آسٹریلیا میں جہاں جہاں ان کی جائیدادیں وہاں یہ بھی لے سکتے ہیں کہ آرمی نے سیاسی لیڈر کے خلاف ایکشن لیا ہے جو غیر قانونی ہے۔ جو غیر آئینی ہے اس صورت میں ان کی جائیداد محفوظ ہو جاتی ہے کہ بینک اکاﺅنٹ سیف ہو جاتے ہیں اگر اگلے 15,10 دن میں آرمی کوئی ایکشن نہیں لیتی ہے تو جو بھی آنے والی حکومت ہے وہ بلا کر آفیشلی میاں نواز شریف کی جتنی پراپرٹی ہے ایون فیلڈ ہاﺅسز ہیں دیگر بینک اکاﺅنٹس میں وہ کلیم کر سکتی ہے کہ پاکستان کا پیسہ چوری ہوا ہے اور اس کو واپس کیا جائے یہ اس ڈر سے بچنے کے لئے نوازشریف فوج پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ بانی متحدہ اور ایم کیو ایم لندن پر ایکشن ہونا اور ان کے جتنے ہمدرد ہیں ان پر ایکشن ہونا ضروری ہے۔ یہ پاکستانی پاسپورٹ لے کر مودی اور اس کے ایجنٹ پاکستان کی صفوں کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔ ان کو تعزیرات پاکستان کے تحت سخت سے سخت سزا ہونی چاہئے۔ خاص طور پر ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان یہ سب جھوٹے لوگ ہیں۔ ایم کیو ایم کے لیڈر جو بھائی کہتے ہیں جو متحدہ بانی کا نام اس کو بھی سزا ملنی چاہئے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے دو ہفتے سے لندن سے یہ اطلاعات مل رہی ہیں ایم کیو ایم لندن کی طرف سے باقاعدہ فاروق ستار اور دیگر بظاہر دھڑے باز لوگوں کو بانات ملے اس کے بعد پھر یہاں سے مسلم لیگ ن کی طرف سے اپروج کیا گیا اور اب یہ بات طے ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ن جو ہے وہ ووہاں ایم کیو ایم کے دھڑے جو آپس میں دوبارہ ضرورت کے تحت آپس میں مل رہے ہیں ان سے انتخابی الائنس کرے گی۔ مبشر لقمان نے کہا کہ یہ درست ہے کہ کچھ عرصے سے حسین اقانی صاحب کو ایم کیو ایم پبلک ریلیشنگ کر رہی ہے اور ان کو وہاں برطانوی اور امریکن پریس کو فرنٹ پر رکھا ہوا ہے اور مجھے جو اطلاعات مل رہی ہیں کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان جو رابطہ ہے وہ جسٹس حقانی کے ذریعے ہو رہا ہے اور حسین حقانی اب مسلم لیگ ن کے بڑے اچھے دوست بننے جا رہے ہیں حالانکہ میمو گیٹ کے بعد ان کو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ان کا خیال ہے کہ زرداری کی پارٹی نے ان کو ڈس اون کیا اور وہ ان سے اپنا بدلہ اتارنا چاہ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ن اور ایم کیو ایم کا اتحاد آن ریکارڈ ہے اور یہ دونوں ملیں گے اور ان کے ساتھ محمود اچکزئی بھی ملے گا اور ساری فورسز بھی آپ کو ایک پیج پر نظر آئیں گی۔
تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ محمد مالک پھی ٹی وی کے سربراہ تھے، پرویز رشید کی وجہ سے چھوڑ کر آئے تھے۔ شہباز شریف نے ان کو گلے لگا لیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے 15 لاکھ روپے ماہانہ و دیگر سہولیات کی بنیاد پر جو ایک تھنک ٹینک رکھا ہوا تھا اس میں محمد مالک بھی شامل تھے۔ بہت عرصہ پہلے شہباز و نواز کے ہراول دستوں میں تصادم شروع ہو گیا تھا۔ اکثر لوگ جو شہباز شریف کے دامن میں پناہ لیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ فواد حسن فواد کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے ہیں یا پھر پرویز رشید کے دباﺅ کے باعث چھوڑ کر آئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ نون لیگ انتشار کا شکار ہو گئی ہے جو گزشتہ روز شہباز شریف کے سامنے پھٹ کر آ گیا ہے۔ دونوں بھائی منصوبہ بندی کے ساتھ چل رہے ہیں، ایک بدمعاشی کرتا ہے دوسرا بھائی شرافت کے دائرے میں ہے۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کے خلاف بات کر ہی نہیں سکتے۔ شہباز٬ شریف نے نواز بیانیہ پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بیان دیا ورنہ وہ یہ کہہ ہی نہیںسکتے کہ نوازشریف کا انٹرویو دلوانے والا غدار ہے۔ نوازشریف اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے کہ چودھری نثار بھی شہباز شریف کے منصوبے میں ہیں کہ فوج کو راضی رکھا جائے کیونکہ اگر ایسا ہو جائے تو ان کو این آر او مل سکتا ہے جس کا فائدہ دونوں بھائیوں کو ہو گا۔ صاف پانی کیس میں شہباز شریف اور ان کا داماد بظاہر ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کے ساڑھے 4 سال کے دوران کبھی دکر نہیں کیا تھا کہ راز فاش کروں گا۔ یہ کوئی راز ہے ہی نہیں، سوچ سمجھ کر انٹرویو دیا گیا، پروٹوکول کے ساتھ سرل المیڈا کو ملتان بلوایا گیا اور نوازشریف اپنے بیان کو تسلیم بھی کر رہے ہیں۔ ایسے وقت الزام لگایا گیا ہے جب ایف اے ٹی ایف کی میٹنگ ہونے والی ہے جس میں فیصلہ کیا جانا ہے کہ پاکستان دہشتگردی میں ملوث ملک ہے یا نہیں۔ نوازشریف 3 دفعہ وزیراعظم رہ چکے ان کے ساتھ غداری کس طرح مقصود کی جائے۔ بار بار کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھی یہ نتیجہ نکالے گی کہ 26 نومبر2008ءکو جو ممبئی پر حملہ ہوا وہ پاکستان کی اجامت و معاونت سے ہوا۔ سابق وزیراعظم کو نظر آ رہا ہے کہ کرپشن میں سزا ہونی ہے اور جائیدادیں بھی ضبط ہو جانی ہیں۔ قید کی سزا سے تو ہو سکتا ہے شاید 20,15 دن بعد عبوری طور پر رہائی مل جائے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے ماضی قدیم سے شریف خاندان پر نرم ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ یہ عدالتوں پر حملے بھی کراتے رہے ہیں اور ججز کو دھمکا کر سیاسی مخالفین کو سزا بھی دلواتے رہے ہیں۔ اب وہ مرحلہ آ گیا ہے کہ یقینا ان کو سزا ہونی ہے کیونکہ یہ اپنی منی ٹریل نہیں دے سکے۔ سب سے زیادہ مسئلہ ان کے لئے 342 کا بیانن ہے، ان کو جو والات دیئے گئے ہیں اس کا جواب دینا کٹھن مرحلہ ہے۔ دفعہ 342 ضابطہ فوجداری کے تحت ملزم کو اپنا موقف واضح دینا پڑتا ہے، اس میں ان کو منی ٹریل دینا پڑے گی۔ سارے سوالوں کے جواب دینے کے بعد آئینی و قانونی طور پر جج ایک سوال ضرور کرتا ہے کہ کیا آپپ یہ سب حلفاً بیان کرنے کو تیار ہیں۔ وہ مرحلہ ان کے لئے بڑا دشوار ہے۔اگر یہ کہیں گے کہ حلفاً کہتا ہوں تو پھر جرح ہو گی اور اگر کہیں گے کہ حلف نہیں لیتے تو ساری دنیا کہے گی کہ یہ جھوٹ بول رہے تھے اسی لئے حلف نہیں لیا۔ اگر جرح ہوئی تو مریم نواز سے پوچھا جائے گا کہ ثناءبچہ کو تو آپ نے کہا تھا میری پاکستان میں یا باہر کوئی جائیداد نہیں، اب آپ اپنی 1 ارب 94 لاکھ کروڑ کی جائیداد بتاتی ہیں۔ اس پر انکم ٹیکس کتنا دیا؟ سزا سے زیادہ دشوار ان کے لئے یہ مرحلہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، وزیراعظم نگران ہو یا مستقل اگر وہ مشورہ دے گا تو صدر نوازشریف کی سزا معاف کرے گا ورنہ ان کے قلم میں سیاہی کوئی نہیں۔ صدر 18 ویں ترمیم کے بعد ملکہ برطانیہ کی طرح ہے جو اپنے بیٹے کی کابینہ و وزیراعظم سے اجازت لئے بغیر شادی بھی نہیں کر سکتا۔ نوازشریف کی سزا معاف کرنے کے لئے صدر تک فائل ہی نہیں جائے گی۔ شاہد خاقان عباسی 31 مئی تک ہیں ممکنہ فیصلہ بعد میں آئے گا۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain