تازہ تر ین

چینل ۵کے پروگرام ”مر حبا رمضان“کا آغاز،مذہبی سکالر زکا ماہ صیام بارے ایمان افروز بیان

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ”مرحبا رمضان“ میں استقبال رمضان کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مذہبی سکالر علامہ محمد امین شہیدی نے بتایا کہ ماہ رمضان سال کے بارہ مہینوں میں سب سے افضل بھی ہے اور سب سے زیادہ بابرکت بھی ہے اس میں سب سے زیادہ حکمتیں بھی ہیں۔ نبی کریم نے استقبال رمضان کے حوالے سے شعبان کے آخری جمعہ کو ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس میں اس ماہ مبارک کا پورا تعارف پیش فرمایا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری طرف اللہ کا مہینہ آ رہا ہے یہ ماہ مبارک اپنے دامن میں برکات ، مغفرتیں اور رحمتیں لے کر آ رہاہے۔ یہ ماہ اللہ کی نظر میں سب سے افضل و برترہے اس کے ایام باقی تمام سال کے ایام میں سب سے زیادہ افضل ہیں۔ اس کی راتیں تمام راتوں سے زیادہ افضل جبکہ اس کے لمحات سب سے بہترین لمحات ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے گویا اللہ میزبان ہے اور تمہیں مہمان بنانا چاہتا ہے یہ وہ مہینہ ہے اس میں جب تم داخل ہو جاﺅ تو تمہیں اللہ اپنی برکات کا حقدار بنا دیتا ہے اس مہینے کی برکتیں یہ ہیں کہ تمہاری سانسیں بھی عبادت الٰہی میں شمار ہوتی ہیں تمہارا سونا بھی عبادت کہلاتا ہے اس ماہ میں تمہارے تمام نیک اعمال اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتے ہیں اور تمہاری دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اس لئے اپنے رب کو پکارو اخلاص اور نیک نیت کے ساتھ لیکن اس نیت کے ساتھ کہ تمہارا دل پاکیزہ ہو اور تمہاری نیتیں پاکیزہ ہوں تو دعا کرنا اللہ تمہیں اس روزے میں کامیاب فرمائے جسکے رکھنے کا اس نے حکم دیا۔ روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں بلکہ اللہ کے ہاں اس کا ایک خاص تصور ہے اور حکمت ہے لہٰذا اس حکمت اور تصورکے ساتھ روزہ رکھنا اتنا آسان نہیں اس کے لئے اللہ کی طرف سے توفیق چاہئے۔ لہٰذا آپ نے فرمایا کہ دعا کرو اللہ تمہیں اس طرح سے روزہ رکھنے کی توفیق دے جس طرح وہ چاہتا ہے اوریہ دعا کرو کہ اللہ کی کتاب کی تلاوت کر سکو۔ علامہ صاحب نے کہا کہ اس ماہ مبارک میں قرآن کی تلاوت کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے۔ رمضان اپنے اندر تزکیہ نفس کا پیغام لے کر آتا ہے۔ روزہ انسان میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے کہ وہ گناہوں سے بچ سکے۔ حضور پاک نے فرمایا اس مہینے میں بدبخت ترین وہ شخص ہو گا جو اللہ سے مغفرت نہ لے سکے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر رحم کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ تقویٰ ایک جامع لفظ ہے اس کا مطلب ان چیزوں سے رکنا ہے جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے اگر کسی بندے کا دل دکھایا جائے تو رات دن کی عبادت ضائع ہو جاتی ہے۔ اس مہینے میں شیاطین بندھے ہوتے ہیں اس لئے انسان وسوسے میں نہیں پڑتا لیکن جب کوئی شخص سال کے تین سو پینسٹھ دن خود کو چور بازاری، رشوت، زیادتی، قتل و غارت سے نہ بچائے تو پھر رمضان کے تیس دن بھی وہ خود کو نہیں بچا پاتا کیونکہ وہ خود شیطان بن چکا ہوتا ہے افسوس رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہے ایسے اعمال و افعال اللہ کے غیض و غضب کا باعث بن جاتے ہیں۔ رمضان میں روح کو مضبوط کرنے کی پریکٹس کرائی جاتی ہے۔ روزے کا فلسفہ صرف کھانا پینا نہیں بلکہ اس میں متقی بننے کا درس دیا گیاہے۔ ہر طرح کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی روزہ نہ رکھنا اللہ کے حکم کی بغاوت ہے لیکن دیکھنے میں آتا ہے جو روزے نہیں رکھتا وہ اتنے ہی اہتمام کے ساتھ عید مناتا ہے۔ افسوس ہم کمرشل ازم کے لالچ میں اللہ سے دور ہو گئے ہیں۔ مذہبی سکالرعلامہ طاہر محمود بخاری نے کہا کہ روزہ انسان کی ہر طرح سے تربیت کرتا ہے انسان کے کردار میں مثبت تبدیلیاں آ جاتی ہیں لیکن رمضان گزرنے کے بعد بھی غلط کاموں سے بچنا فرض ہے۔ حضور پاک نے فرمایا اللہ کو تمہیں بھوکا اور پیاسا رکھنے سے کوئی غرض نہیں روزہ تو انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ روزہ دار کو چاہئے اپنی زبان کی حفاظت کرے۔ حضور پاک نے فرمایا جو شخص استطاعت رکھتا ہے، جسمانی قوت رکھتاہے، وہ نکاح کرے۔ اگر نکاح کی استطاعت نہیں تو روزہ رکھے جو اس کے لئے ڈھال بن جائے گا اور وہ برے کاموں سے بچے گا۔ آپ نے فرمایا کہ امت محمدیہ پر اللہ نے بہت بڑا احسان یہ فرمایا کہ رمضان جیسا مہینہ عطا فرمایا جس میں فرض کے درجات ستر گنا بڑھ جاتے ہیں جبکہ نفلی عبادت فرض کے برابر ہو جاتی ہے۔ نبی کریم بہت سادگی سے روزے رکھتے تھے آپ تو عام ایام میں بھی روزے رکھتے تھے لیکن اس کے برعکس ہم سارے رمضان سحرو افطار کے اوقات میں کھانے پینے پر زور رکھتے ہیں جس کے باعث روزے کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔ جو شخص اپنی کمائی سے لوگوں کو کھلاتا ہے اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا مقام ہے۔ رمضان میں زکوٰة اس لئے بھی زیادہ دی جاتی ہے اس میں ثواب بڑھ جاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کریں۔ کراچی سے عامر نے سوال کیا کہ سفر کے دوران روزے کے بارے میں کیا احکامات ہیں تو علامہ صاحب نے کہا کہ کوئی بھی شخص اگر چھبیس کلو میٹر سے زیادہ سفر ظہر کے بعد شروع کرتا ہے تو وہ تو روزہ پورا کرے گا لیکن اگرظہر سے پہلے سفر شروع کر دے تو اس پر روزہ ساقط ہے وہ بعد میں اس روزے کی قضاءبجا لائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ باپ کی وفات کی صورت میں بڑا بیٹا قضاءکے طور پر اس کے حصے کے روزے رکھ سکتا ہے۔ رمضان المبارک میں عمرہ کرنا بہت فضیلت کا باعث ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain