تازہ تر ین

عمران خان کے سوا کوئی لیڈر نظر نہیں آتا جو 18، 20 سال ناکامی کے باوجود ڈٹ کر کھڑا رہا : ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چیف ا یڈیٹر خبریں گروپ آف نیوز پیپر اینڈ چینل فائیو ضیاشاہد کی کتاب ”سچا اور کھرا لیڈر“ کی تقریب رونمائی رائل پام میں منعقد ہوئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ضیاشاہد نے کہا کہ میں اپنی محنت میں کامیاب رہا ہوں۔ میں بار بار کہتا رہا صدر پاکستان میری کتاب کا افتتاح کریں مگر میری کتاب کی رونمائی کے لئے صدر پاکستان کے پاس وقت نہیں تھا۔ مجھے فخر ہے کہ اگر میں نے سچا اور کھرا سیاستدان قائداعظم کو لکھا تو ثابت کیا۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم کے ساتھ جی ایم سید نے سندھ میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے انہوں نے قائداعظم کو خط لکھا کہ میرے مقابلے میں دو امیدوار آ رہے ہیں جن میں سے ایک امیدوار پیسے لیکر سیٹ چھوڑنے کو تیار ہے اور اگر آپ اجازت دیں تو مسلم لیگ کے فنڈ سے اس امیدوار کو پیسے دے دئیے جائیں تاکہ ایک امیدوار سے مقابلے میں ہمارے لیے جیتنا آسان ہو جائے۔ جس پر ہمارے لیڈر قائداعظم محمد علی جناح نے مختصر ٹیلی گرام بھیجا کہ ” میں سیٹ ہارنا پسند کرتا ہوں، سیٹ خریدنا پسند نہیں کرتا“۔ ضیاشاہد نے بتایا کہ اے ایچ خورشید نے کہا کہ پوری زندگی قائداعظم نے اس قدر ایمانداری او ردیانتداری سے زندگی بسر کی کہ ان کے احکامات تھے کہ میرا، میری بہن کا اور میرے پی اے کا تمام سیاسی دوروں میں مکمل اخراجات، ٹکٹ، رہائش، کھانا پینا، تمام اخراجات کا چیک قائداعظم کے پرسنل اکاﺅنٹ سے بنتا تھا۔ مگر آج پاکستان میں کیا ہوتا ہے؟ ضیاشاہد نے کہا کہ میں نے ایک لیڈر کو دیکھا کہ ان کے ساتھ 32 لوگ کراچی جا رہے تھے جیسے قلعہ فتح کرنے جا رہے ہوں اور اسی لیڈر کے ساتھ جو لوگ انگلینڈ گئے ان کی تعداد 61 تھی جو دو فلائیٹوں میں الطاف حسین سے ملنے گئے۔ وہ سارا پیسہ کہاں سے خرچ ہوا۔ قائداعظم کی ہی شخصیت تھی کہ انہوں نے ایک بی اے کے لڑکے کے ایچ خورشید کو کشمیر میں اپنا پی اے رکھ لیا۔ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری فرانسس ایکس لوگو پارسی تھے جنہیں اردو نہیں آتی تھی۔ انہوں نے کے ایچ خورشید کو اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بنا لیا کہ ایکس لوگو کو اردو نہیں آتی تھی۔ کے ایچ خورشید 1943سے1947 تک چار سال ان کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر سارا دن کام کرتے تھے۔ اگر گورنر جنرل آف پاکستان کا پرائیویٹ سیکرٹری آج کے دور میں ہوتا تو آدھا پاکستان اس کے نام الاٹ ہونا چاہیے تھا کہ آج کا پٹواری ہی پاکستان میں مان نہیں ہے۔ چولستان، بھکر کی زمینیں اس کے پاس ہونی چاہیے تھیں لوگوں سے کھینچ چھین کر کتنا بڑا جاگیردار بن چکا ہوتا، کتنے کارخانوں پر قبضہ کر کے مالکوں کو مار کر نکال دیتا جس طرح آج اس ملک میں پریکٹس ہے۔ مگر کچھ عرصہ آزادکشمیر کے صدر رہنے کے باوجود ان کے پاس ایک مرلے کا پلاٹ بھی نہیں تھا نہ انہوں نے الاٹمنٹ کے لئے اپلائی کیا۔ 3 مرتبہ ان کو الاٹمنٹ کے لئے کہا گیا مگر یہ قائداعظمؒ کی تربیت تھی کہ انہوں نے کہا میں نہیں پسند کرتا کہ الاٹمنٹ کے لئے درخواست دوں اور وہ پوری عمر کرائے کے مکان میں رہے اور جب وہ فوت ہوئے وہ سید پور سے ایک ویگن میں آرہے تھے اگر ان کی جیب سے ان کے نام خط نہ نکلتا تو لوگوں کو پتہ ہی نہ چلتا کہ وہ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ پاکستان میں دوسری مثال رانا لیاقت علی خان کی ہے آج ان کی کراچی میں کتنی پراپرٹی ہے اور ان کے بچوں کے نام کتنی جائیداد ہے؟ میری کتاب میں لیاقت علی خان کے حوالے سے ایک پورا واقعہ درج ہے۔ انہوں نے قائداعظمؒ کے دور کے دوستوں ملازموں کی تربیت کے حوالے سے مثال دیتے ہوئے کہا کہ قائداعظمؒ کے ایک دوست اصفہانی صاحب کو پاکستان بننے کے بعد پتہ چلاکہ امریکہ میں سفارتخانے کے لئے پاکستان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو انہوں نے اپنا گھر حکومت پاکستان کے نام لگوا دیا جہاں امریکہ میں پاکستان کا سفارتخانہ ہے چودھری محمد علی سمیت اس دور کے عہدیداروں کی آج کتنی جائیدادیں ہیں؟ ضیاشاہد نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نویں جماعت کا طالب علم تھا جب میں لاہور آیا تو میرے بڑے بھائی ایم ایس سی میں پڑھتے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ گورنر سردار عبدالرب نشتر سے ملنا چاہتے ہیں تو میں نے کہا بڑا نام ہے میں ضرور ملوں گا ۔ میرے بڑے بھائی مجھے اس ای بلوم کے سامنے مال روڈ پر لے گئے اور کہاں یہاں کھڑے ہوجاﺅ گورنر صاحب گورنر ہاﺅس سے 4 بجے پیدل چلتے ہیں اور یہاں ساڑھے چار بجے تک پہنچیں گے اور یہاں سے یونیورسٹی تک جاتے ہیں اور پھر واپس جاتے ہیں کوئی بھی شخص ان سے مل سکتا ہے میں نے عبدالرب نشتر سے ملاقات کی اور خدا کی قسم کوئی سکیورٹی والا ان کے ساتھ نہیں تھا۔ گورنر صاحب نے شیروانی‘ شلوار اور پٹھانی جپل پہن رکھی تھی اور ہاتھ میں چھڑی تھی گورنر نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کس کلاس میں پڑھتے ہو میں نے کہا نویں جماعت میں تو انہوں نے کہا خوب پڑھو پہلی پوزیشن لو اور چلے گئے جو قائداعظم کی تربیت کی مثال ہے۔ ضیاشاہد نے تقریب کے مہمان خصوصی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان صاحب آپ نے ورلڈکپ جیتا تو میرے دوست حسن نثار میرے پاس کالم لکھتے تھے۔ ان کے ہر کالم میں شاعری کی طرز پر نیب کا جملہ یہ ہوتا تھا کہ بی بی یہ کرتی ہے، بابو یہ کرتا ہے۔ بی بی سے مراد بینظیر صاحبہ اور بابو سے مراد نواز شریف صاحب تھے۔ اس وقت فضا پیدا ہو رہی تھی کہ دونوں لیڈر مسترد، نیا لیڈر چاہیے۔ عمران خان نے جب شوکت خانم بنایا تو ہم بھی اس کے ورکرز میں تھے اور یہ عمران خان کو یاد ہو گا کہ چندہ جمع کرنے میں ہم ساتھ تھے۔ عمران خان نے کامیابی سے شوکت خانم بنایا جس کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ یہ نہیں کر سکتا اس پر ہماری خواہش ہوئی کہ اتنے بڑے ہیرو کو قومی سیاست میں لایا جائے مجھ سمیت کئی دوستوں کی عمران خان کے پاس مندھلی جمی رہتی اور عمران خان سیاست میں آنے کیلئے مانے۔ ضیا شاہد نے بتایا کہ خبریں کے دفتر میں عمران خان کی تقریر لکھی گئی اور انہوں نے صبح 11 بجے ہالی ڈے ان میں عمران خان کیلئے بکنگ کروائی جہاں انہوں نے سیاست میں آنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ ہم نے عمران خان کی جماعت کا نام رکھا اور ابتدائی دستاویزات تیار کیں اور حسن نثار پارٹی کے میڈیا سیل کے انچارج کے طور پر محنت اور کوشش کرتے رہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے پاکستان کی سیاست میں کوئی مائی کا لال ایسا نظر نہیں آیا جو 18 سے 20 سال مسلسل ناکامی کے باوجوود ہمت نہ ہارے، ڈٹا رہے اور لوگوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا رہے۔ عمران خان نے کہا کہ میں لڑوں گا، لڑوں اور لڑوں گا۔ چیف ایڈیٹر خبریں گروپ نے مزید کہا کہ اصولوں کیلئے مجھ سے بہت سے حکمرانوں نے بحثیں کیں اور میں نے ہر ایک سے کہا کہ میں جس عمران خان کو جانتا ہوں اس سے بحیثیت انسان کوئی غلطی ہو سکتی ہے مگر وہ کرپٹ نہیں ہے، بے ایمان نہیں ہے، پاکستان مخالف نہیں ہے، کبھی اپنے لیے کچھ نہیں بنائے گا کبھی اپنا گھر نہیں بھرے گا۔ آپ لوگوں کیلئے سوچے گا بہت دیر بعد دی مگر اللہ نے عمران خان کو کامیابی دی دو چار سال کاروبار میں ناکامی پر عام بندہ وہ کاروبار چھوڑ جاتا ہے، سیاستدان ناکامی کے 4-6 سال بعد پاکستان سے باہر بھاگ جاتے ہیں عمران خان کو کیسی تکلیف، نام اور پیسہ سب عمران کے پاس تھا مگر آج عمران کی نیک نیتی نے انہیں کامیاب کیا ہے۔ ضیا شاہد نے بتایا کہ میں جنگ اخبار میں کام کرتا تھا عمران خان کی ہڈی ٹوٹی تو میں ان کے گھر گیا ان کی والدہ سے ملاقات ہوئی جو نہایت نیک اور اچھی خاتون تھیں اور روایتی ماﺅں کی طرح کسی کو پانی پیے بغیر گھر سے جانے نہیں دیتی تھیں ، عمران خان کی والدہ نے مجھ سے ایک جملہ کہا کہ میرا بیٹا ٹھیک ہوجائیگا، میں اسے بچپن سے جانتی ہوں، وہ جو ٹھان لے وہ پورا کرکے چھوڑتا ہے ، ضیا شاہد نے کہا کہ یہ ہونا ہی تھا ، آج لوگ دھڑا دھڑ عمران خان کی پارٹی میں شامل ہورہے ہیں اور عمران خان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، پارٹی کے پرانے ورکروں میں یہ احساس جاگ رہا ہے کہ ”ساڈا کی بنے گا“ ، لکھ ہزاری ، کروڑ ہزاری لوگ جو پارٹی میں نئے شامل ہورہے ہیں اگر سیٹ ممبر فارمولا کے تحت انہی کو سب کچھ مل جانا ہے تو ہم نے اتنے سال دھکے کیوں کھائے تھے، اسکا جواب عمران خان دینگے ، جن سے لوگوں نے محبت کی ہے اور سالوں انکے لئے تکلیفیں اور دھکے کھائے ہیں، ضیا شاہد نے خطاب کے آخر میں تحریک انصاف کے رہنما علیم خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری کتاب میرے لئے نہیں ہے ، جو آدمی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کھڑا ہونا چاہت اہے اسے زبردستی میری کتاب ”سچا اور کھرا لیڈر “ دو تاکہ وہ پڑھے اور جانے کہ سیاستدان کیساہوتا ہے ، بیوروکریٹ کیسا ہوتا ہے ، خاتون خانہ اور طالب علم کیسا ہوتا ہے ، حکومت کا نظم و نسق کیسے ملتا ہے اور ایمانداری کیا ہوتی ہے ، اپنی غرض کو کاٹ کر ، لالچ کو کچل کر عوام کی خدمت کیسے کی جاتی ہے ، عمران خان کے پاس جو لوگ ایم پی اے ، ایم این اے کی سیٹ کیلئے آئیں ان سے پوچھا جائے کہ کیا جانتے ہو پاکستان اور قائدن اعظم کے بارے میں ، وہ کیسا پاکستان بناناچاہتے تھے ، قائداعظم نے کہاتھا کہ ”اگر میرے بنائے ہوئے پاکستان میں غریب کو روٹی ، محروم کو چھت اور مظلوم کو انصاف نہیں ملتا تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے “ ، عمران خان ، رشید، علیم ڈار ایسے لوگ تلاش کریں اور ایسا پاکستان بنائیں تاکہ کامیاب ہوں، چیف ایڈیٹر ضیا شاہد کے خطاب کے بعد تقریب میں شامل افراد نے کھڑے ہوکر تعظیماً انہیں عزت دی۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain