تازہ تر ین

آسیہ 200سے زائد فلموں کی ہیروئن ،شہرت دیوانی رہی

لاہور(شہزاد فراموش سے)اداکارہ آسیہ کا شمار پاکستان کی فلمی صنعت میں صف اول کی اداکاراﺅں میں ہوتا ہے۔ 1952 ءمیں بھارتی ریاست پنجاب میں پیدا ہونے والی آسیہ بیگم نے11سال تک اپنی لازوال اداکاری سے لاکھوں دلوں پر راج کیا۔اصل نام فردوس تھا۔ آسیہ بیگم نے200سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس دوران انہوں نے ہر صف اول ہیرو کے مقابل اپنے کردار کو بخوبی نبھایا۔ انہیں 1977 ءمیں بہترین اداکارہ اور 1979 ءمیں بہترین معاون اداکارہ کے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد انہوں نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور گزشتہ 20 سال سے کینیڈا میں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ سکونت اختیار کررکھی تھی جہاں وہ علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ آسیہ کا شمار پاکستان کی فلمی صنعت میں صف اول کی اداکاراﺅں میں ہوتا ہے۔ وہ 70ءکی دہائی کی پنجابی فلموں کی مقبول ترین ہیروئینوں میں سے ایک تھیں۔اگر یہ کہا جائے کہ فردوس ، شیریں اور نغمہ کے بعد پنجابی فلموں میں جس اداکارہ نے بلندمقام حاصل کیاوہ آسیہ تھیں تو بے جا نہ ہو گا۔ آسیہ نے اردو فلموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا ان کی پہلی فلم ” انسان اور آدمی “ تھی۔ اس فلم میں انہوں نے طلعت حسین کے ساتھ سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ شباب کیرانوی کی یہ فلم سپر ہٹ رہی پھرریاض شاہد کی فلم ”غرناطہ“ ریلیز ہوئی۔” غرناطہ“ میں آسیہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر دھوم مچانے میں کامیاب رہی۔ آسیہ کو جس فلم سے بریک ملا وہ تھی رنگیلا کی ”دل اور دنیا“۔ اس فلم میں آسیہ نے اندھی لڑکی کا کردار ادا کیا۔ ”دل اور دنیا “ 1971ءمیں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا شمار ہٹ فلموں میں کیا جاتا ہے۔اس فلم کا گیت” چمپا اور جنبیلی یہ کلیاں نئی نویلی “شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوا۔اس کے بعد فلمیں ہٹ ہوتی چلی گئی۔ انہیں پری چہرہ کا خطاب بھی دیا گیا۔ ممتاز کے ساتھ اکثر ان کا مقابلہ کیا جاتا تھا۔ یہ دونوں حسینائیں ”نوکر ووہٹی دا“ میں اکٹھی نظر آئیں۔ محمد علی کےساتھ ”پہلی نظر“ میں ان کی پرفارمنس کو بہت پسند کیا گیا۔ ان کی مشہور فلموں میں ”بھریا میلہ’ میدان‘چالان‘غنڈہ ایکٹ‘نوکر ووہٹی دا‘حشر نشر‘بد تمیز‘دلدار صدقے‘یارانہ ‘ریشماں جوان ہو گئی‘ایماندا‘حسینہ مان جائے گی‘وعدہ‘بڑے میاں دیوان‘باغی تے فرنگی‘جٹ سورما‘لاہوری بدمعاش‘ قانون شکن‘تم سلامت رہو‘جیرا بلیڈ اورمحبوب میرا مستانہ“ شامل ہیں۔ ” دل اور دنیا “ کے بعد ان کی لگا تار چار یا پانچ پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ پنجابی فلموں میں سلطان راہی کے ساتھ ان کی جوڑی خوب جمی۔ ”مولا جٹ‘ وحشی جٹ‘ گوگا شیر‘شیر میدان دا‘ مولا جٹ ان لندن‘اتھرا پتر“ اور ان جیسی کئی فلموں میں آسیہ نے سلطان راہی کے ساتھ کام کیا۔”جگا ٹیکس “ میں بھی انہوں نے شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔لالہ سدھیر ‘ اقبال حسن اور شاہد کے ساتھ بھی انہوں نے متعدد فلموں میں کام کیا۔ اردو فلموں میں آسیہ کی ”سہرے کے پھول“ میں ندیم آسیہ کے ساتھ ہیرو تھے۔ شیون رضوی کی اس فلم کے گانوں نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ 1974ءمیں آسیہ کی پرفارمنس سے سجی فلم ”نمک حرام“ پردہ سیمیں پر نمودار ہوئی۔ ان کی جوڑی منور ظریف کے ساتھ بنانے کا تجربہ بھی درست ثابت ہوا۔ ”نوکر ووہٹی دا“ بھی 1974ء میںانہی کیساتھ کی۔ آسیہ کی اداکاری اور حسن کا جادو لالی وڈ میں سر چڑھ کر بولتا رہا۔مصطفیٰ قریشی کے ساتھ ان کی فلمیں”بکا ر اٹھ“ اور ”جھگڑا “ قابل ذکر ہیں۔ دسمبر1981ءمیں آسیہ کی آخری کامیاب فلم ” مولا جٹ ان لندن “ ریلیز ہوئی۔ انہوں نے خود ہی فلمی صنعت کو خیر باد کہہ دیااور 90ءکی دہائی میں فاروق میمن سے شادی کرکے تھائی لینڈ شفٹ ہوئیں بعد ازاں کینیڈا چلیگئیں ۔ آخری فلم ”جعلی عکس“ تھی۔ آسیہپروڈیوس کردہ ”پیار ہی پیار“میں ان کے ہیرو وحید مراد تھے۔ وہ واحد ہیروئن تھیں جن کے ریکارڈ میں سب سے کم فلاپ فلمیں درج ہیں ۔ شہرت خود آسیہ کی دیوانی تھی۔ اس کی وجہ ان کی خوش اخلاقی اور خدا ترسی تھی۔فلمی یونٹ کے نادار اور مفلس کارکنوں کی مالی امداد کرنا ان کا وطیرہ تھا۔ آسیہ کا ”مولا جٹ“ میں مکھو کا کردار بہت مقبول ہوا۔ عوامی حلقوں میں” مکھو“ کے نام سے جانی جانے والی آسیہ کا انتقال 9 مارچ 2013ءکو کینیڈا میں ہوا۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain