تازہ تر ین

نماز کیلئے مسجد کا ہونا ضروری نہیں، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ برقرار

دہلی (ویب ڈیسک)بھارتی سپریم کورٹ نے 1994 کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نماز کی ادائیگی کہیں بھی ہوسکتی ہے اور اس کے لیے مسجد کا ہونا ضروری نہیں ہے‘۔بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے دو، ایک کی اکثریت سے 1994 کے اسمٰعیل فاروق کیس کی نظرثانی اپیل پر فیصلہ سنایا۔بھارتی سپریم کورٹ نے 1994 کے فیصلے کو لارجر بینچ بھیجنے کی استدعا مسترد کردی جس سے عدالت کے لیے ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے تنازع کا معاملہ سننا ا?سان ہوگیا۔جسٹس اشوک بھوشن نے بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا اور اپنی طرف سے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ جسٹس ایس عبدالنظیر نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔عدالت کے جج جسٹس اشوک بھوشن نے کہا کہ ’مسجد کے حصول کے لیے درخواست دائر کرنے والوں کا دعویٰ فاروقی کیس میں محدود تناظر میں تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسجد اسلامی تعلیمات کے لیے ضروری نہیں ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’موجودہ کیس کا فیصلہ اس کے اپنے حقائق پر کیا جائے گا اور اسمٰعیل فاروق فیصلے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا‘۔دوسری جانب بینچ سے مخالفت کرتے ہوئے جسٹس نذیر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اسمٰعیل فاروق فیصلے پر مشکوک سوالات اٹھتے ہیں اور یہ فیصلہ بغیر کسی مشاہدے کے سامنے آیا یہ فیصلہ اصل ایودھیا تنازع کیس میں سرایت کرتا ہے‘۔واضح رہے کہ مسلمانون کی تنظیم نے خصوصی بینچ کے سامنے اعتراض کیا تھا کہ 1994 میں دیے گئے 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر وسیع مشاہدے میں نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کے تنازع کیس پر اثر پڑے گا۔درخواست گزار محمد صدیقی کے قانونی نمائندے سینئر ایڈووکیٹ راجیو دھاون نے عدالت میں کہا کہ ’ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ مشاہدہ کہ مسجد اسلامی تعلیمات کے لیے ضروری نہیں ہے کسی تحقیق یا مذہبی معاملات کو دیکھے بغیر دیا گیا۔ادھر این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عدالتی فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے تنازع کا کیس بغیر کسی تاخیر کے چل سکتا ہے۔بھارتی عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ایودھیا کیس کی سماعت 29 اکتوبر کو ہوگی۔خیال رہے کہ 1994 کے عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے مسجد کا ہونا ضروری نہیں ہے۔عدالت کا یہ فیصلہ حکومت کے لیے 16 ویں صدی کی بابری مسجد کی زمین حاصل کرنے کے لیے ایک واضح راستہ تھا۔بابری مسجد کی بات کی جائے تو 25 برس قبل 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو زمین بوس کردیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں 2 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔مسلمانوں کا کہنا تھا کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے تھے جبکہ کچھ بتوں کو مسجد میں رکھا گیا تھا، برطانوی حکمران نے 1859 میں تنازعات کو روکنے کے لیے عبادت کے لیے حصہ تیار کیا تھا جبکہ بھارتی حکومت کی جانب سے 1949 میں اس کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔تاہم بھارتی انتہا پسندوں کا ماننا تھا کہ یہ جگہ ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے 1994 کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل لارجر بینچ کو بھیجنے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’ تمام مذاہب، مساجد، مندر اور گرجا گھر برابر ہیں‘۔عدالت نے کہا کہ اگر ہم اس فیصلے کو دوبارہ دیکھیں گے تو اس سے ایودھیا تنازع کی سماعت میں تاخیر ہوسکتی ہے، اگرچہ اس کا براہ راست اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain